ٹیلی وژن کو Idiot Box (احمق ڈبّا)کہا جاتا ہے لیکن پاکستان میں دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ’پنڈورا باکس‘ کی حیثیت بھی حاصل کرلی ہے‘ تاہم یونانی اسطور یا mythology میں پنڈورا باکس تجسس کی وجہ سے کھولا گیا تھا۔ لیکن وطن عزیز میں ٹیلی وژن کا پنڈورا باکس پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کھولا گیا ہے اور اس سے برآمد ہونے والی تمام بلائیں ’پالتو‘ ہیں۔
جنرل پرویز کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے پاکستان میں ذرائع ابلاغ کو آزادی دی ہے اور اس کا ایک ثبوت پاکستان میں آزاد ٹی وی چینلوں کی بھرمار ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں اشتہارات کا سالانہ بجٹ ۶‘۷ ارب سے زائد نہ ہو‘ وہاں درجنوں چینلوں کو منافع میں کیسے چلایا جاسکتا ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس صنعت میں غیر ملکی سرمایہ خفیہ انداز میں در آیا ہے اور پاکستان میں ٹی وی چینلوں کا boom (تیزی) دراصل امریکا‘ یورپ اور بھارت کی پیش قدمی بن گئی ہے؟ اس بارے میں وثوق سے کچھ بھی کہنا دشوار ہے‘ تاہم جو بات سامنے ہے‘ وہ سب ان چینلوں پر غیر ملکی مدار کی یورش دیکھنے میں آرہی ہے۔ کیا یہ اتفاق ہے؟ ہولناک بات یہ ہے کہ ان چینلوں کا جو مقامی مواد ہے‘ وہ بھی مغرب یا بھارت کے چینلوں کی نقل اور ان کا چربا ہے۔ اس سلسلے میں غیر ملکی چینلوں کے پروگرام کے نام اور ان کی پیش کش کا انداز تک چوری کیا جارہا ہے۔ یہ ذہنی اور اخلاقی دیوالیے پن کی انتہا ہے۔ نتیجہ یہ کہ یہ چینل ہمارے معاشرے میں پورس کے ہاتھیوں کا کردار ادا کررہے ہیں۔ پورس کے یہ ہاتھی ہر گھر میں گھس آئے ہیں۔
ابلاغیات کے ایک ممتاز مذہبی ماہر مارشل میکلوہن نے کار کی ایجاد پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے انسانی پائوں کو توسیع دے دی ہے۔ تاہم ٹیلی وژن پر کلاسک کا درجہ رکھنے والی کتاب: Four Argument & for the Elemination of Television کے مصنف جیری مینڈر نے اس تبصرے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کار نے انسانی پائوں کی رسائی نہیں بڑھائی بلکہ اس نے انسانی پائوں کی جگہ لے لی‘ یعنی اس کا متبادل بن کر بیٹھ گئی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ٹی وی چینلوں کی کثرت کا معاملہ بھی یہی ہے۔ چینلوں کی کثرت نے راے کی آزادی کو بڑھایا نہیں‘ اس کا دھوکا تخلیق کیا ہے‘ ورنہ راے پہلے سے زیادہ کنٹرول ہوگئی ہے۔ لوگ اس حقیقت کو سمجھ لیں گے مگر اس میں وقت لگے گا۔ البتہ تفریح کی آڑ میں آزادی کا ہر بند ٹوٹ گیا ہے لیکن یہ سیلاب کا منظر ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں ہر طرف پانی ہوتا ہے اور پانی میں گھرے ہوئے لوگ پینے کے لائق ایک گلاس پانی کو ترس جاتے ہیں۔ چنانچہ لوگ تفریحی سیلاب میں حقیقی تفریح کو ترس رہے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ بات بھی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی کہ امریکا اور اس کے مقامی ایجنٹوں کو حدود اللہ پر تنازع برپا کرنے اور اس میں ترامیم کا خیال آیا تو اس کے لیے ٹی وی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا اور صرف ایک ماہ میں اصولوں کی تفہیم کو تحلیل کردیا گیا۔ ٹی وی کے میڈیم میں تفہیم دشمنی ویسے ہی خلقی طور پر موجود ہے۔ جیری مینڈر نے اپنی کتاب میں ٹی وی کے ایک ماہر برٹ جان کا یہ فقرہ نقل کیا ہے:
There is a bias in television journalism. It is not against particular party or point of view. It is a bias against understanding.
ٹی وی کی صحافت میں ایک یک طرفگی یا جھکائو ہے لیکن یہ جھکائو کسی پارٹی یا نقطۂ نظر کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ تفہیم کے خلاف ہے۔
اس صورت حال کے خلاف معاشرے میں ردعمل موجود ہے لیکن صرف شخصی سطح پر۔ اجتماعی سطح پر ردعمل کی یا تو کوئی صورت ہی موجود نہیں یا ہے تو وہ موثر نہیں ہے۔ آخر اس کی وجوہ کیا ہیں؟
بدقسمتی سے معاشرے میں نائن الیون کے بعد رونما ہونے والے واقعات کو صرف سیاسی اور عسکری حوالوں سے دیکھا گیا۔ اکثر لوگ بھول گئے کہ مغرب کی تاریخ یہ ہے کہ فوجی طاقت کے استعمال کے بعد مغرب مذہبی اور تہذیبی سطح پر پیش قدمی کرتا ہے اور اس بار بھی ایسا ہی ہوگا۔ چنانچہ یہ محض اتفاق نہیں تھا کہ امریکا عراق کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کررہا تھا تو عراق کے اسکولوں کے لیے نیا نصاب اس کے فوجیوں کی بغل میں تھا۔ افغانستان میں یہ عمل ذرا تاخیر سے شروع ہوا، اس لیے کہ وہاں کے معروضی حالات عراق سے قدرے مختلف تھے۔ اس پہ حالات و واقعات کی افتاد اتنی تیز ہے، ان کو ایک تناظر میں دیکھنے کے لیے تربیت یافتہ آنکھ درکار ہے۔
جنرل پرویز نے ۱۱ستمبر کی رات ایک ٹیلی فون کال پر پورا ملک امریکا کے حوالے کیا تو اکثر لوگوں نے سمجھا یہ محض ایک حکمت عملی ہے اور امریکا کی بلا کو ٹالا جارہا ہے۔ اس ناقص تفہیم نے بھی ملک کے اندر رونما ہونے والی بہت سے تبدیلیوں اور قوم کی تفہیم کے درمیان حجاب کا کردار ادا کیا۔ تاہم‘ بعد کے حالات نے تو ثابت ہی کردیا کہ ہتھیار ڈالنے کا عمل عسکری اور خارجہ امور تک محدود نہیں۔ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کی ہر قابل ذکر اور قابل غور چیز اس کی زد میں آچکی ہے۔
ہماری اجتماعی زندگی کی ایک بڑی نفسیاتی مشکل یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کے لیے ہماری دنیا ہماری اپنی نہیں۔ یہ امریکا، جرنیلوں یا بیک وقت دونوں کی دنیا ہے اور ہمارا کام صرف یہ ہے کہ جو کچھ بھی ہورہا ہو، اس میں خود کو اس کے مطابق (adjust) کرنے کی کوشش کریں۔ یہی ذہانت ہے، یہی سیاسی بصیرت ہے، یہی تدبر ہے۔ اعلان تو کوئی نہیں کرتا لیکن اکثر لوگوں کے طرزفکر اور طرزعمل سے لگتا ہے کہ نعوذ بااللہ اس دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے اور ہماری یہ دنیا صرف دنیاوی طاقتوں کے حکم اور اصولوں پر چل رہی ہے۔ یہ طرزفکر ہر بگاڑ کو ہمارے لیے قابل قبول بنائے چلا جارہا ہے۔ بے شک اندھا دھند مزاحمت حماقت ہے اور کوئی احمق ہی اس کی حمایت کرسکتا ہے۔ لیکن اندھا دھند صرف مزاحمت نہیں ہوتی، چشم پوشی اور چیخ سے فرار بھی اندھا دھند ہوسکتا ہے‘ اور اس وقت ہم معاشرے میں اندھا دھند چشم پوشی اور اندھا دھند فرار ہی کا مشاہدہ کررہے ہیں۔
یہ مسئلہ بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ ہمیں اب تک سرکاری ٹی وی کے خلاف ردعمل ظاہر کرنے کی ’عادت‘ ہے۔ مگر اب ہمارے سامنے پی ٹی وی نہیں، نام نہاد آزاد چینل ہیں۔ یہ ایک نیا تجربہ ہے اور اس تجربے کو چیلنج کرنے کا عمل ہمیں ابھی ’سیکھنا‘ ہے لیکن تبدیلی اتنی برق رفتار ہے کہ ہم جتنی دیر میں یہ عمل سیکھیں گے، اتنے وقت میں سماجی اقدار کے بیخ و بن .ُ ادھڑ چکے ہوں گے۔
اس سلسلے میں ہمارے مذہبی طبقات کی ایک مشکل یہ ہے کہ وہ عریانی و فحاشی کا شور مچاتے رہتے ہیں اور یہ ردعمل پہلے سے موجود خانوں میں ’فِٹ‘ کردیا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ مذہبی عناصر تو یہی رونا روتے رہتے ہیں۔ حالانکہ اب دیکھا جائے تو مسئلہ محض عریانی و فحاشی کا ہے بھی نہیں۔ ابلاغ کے تمام ذرائع بالخصوص ٹیلی وژن اب معاشرے کی تشکیل نو کے لیے استعمال ہورہا ہے اور یہ عریانی و فحاشی سے ایک لاکھ گنا خطرناک بات ہے۔ پھر یہ بات بھی اہم ہے کہ اب عریانی و فحاشی زندگی کا معمول یا normal experience بنا کر پیش کی جارہی ہے اور یہ تصور بھی معاشرے کی تشکیل نو کا حصہ ہے۔ چنانچہ اصل مسئلہ معاشرے کی قلب ماہیت یا transformation ہے۔
چٹورپن ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں لیکن کھانے پینے کے پروگراموں کو ہمارے چینلوں پر جو اہمیت دی جارہی ہے‘ اس سے خود ایک نیا تصور زندگی اور تصور انسان پیدا ہورہا ہے۔ یہ چٹورپن کو نظام بنانے یا systematize کرنے کی سازش ہے اور عریانی و فحاشی سے زیادہ خطرناک ہے‘ اس لیے کہ اسے خطرناک سمجھنے والے آٹے میں نمک سے بھی کم ہیں۔ دنیا بھر میں صارفین اور ٹی وی کے صارفوں کی انجمنیں اس امر پر دھیان رکھتی ہیں کہ کیا دکھایا جارہا ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے مغربی ملکوں میں قابل اعتراض چیزوں پر اعتراض ہوتا ہے‘ احتجاج کیا جاتا ہے۔ مگر ہمارے یہاں لوگ کھانے میں زہر کھا کر بھی مشکل ہی سے احتجاج کرتے ہیں اور ٹی وی کا زہر تو ویسے بھی ’تفریحی زہر‘ ہے۔ اس کی شناخت کون کرے؟ اور اس کے اثرات پر احتجاج کی نوبت کیسے آئے؟
ٹیلی وژن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ electronic parent یا برقی والدین کا کردار ادا کررہا ہے۔یہ بات ۱۹۷۰ء کی دہائی میں مغربی معاشروں کے حوالے سے کہی گئی مگر اب صورت حال یہ ہے کہ ٹی وی ہی ماں باپ کا کردار ادا کررہا ہے۔ ٹی وی ہی استاد ہے‘ ٹی وی ہی اسکول ہے۔ کبھی کہا جاتا تھا‘ ٹی وی بچوں کو بہت جلد بڑا بنا دیتا ہے مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ کیسے ’بزرگوں‘ کو ’بچہ‘ بنا رہا ہے۔ میر تقی میر نے کہا تھا ع مژگاں کو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
یوں لگتا ہے کہ ہمارے یہاں سیلاب صرف شہر نہیں شہر کو دیکھنے والی آنکھ بھی لے گیا ہے۔