پاکستان نہیں بنا تھا تو جنوبی ایشیا (موجودہ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ بھارت( کے ۱۰ کروڑ مسلمانوں کو ایک ملّت اور ایک قوم سمجھا جاتا تھا‘ جسے اپنے لیے ایک وطن کی تلاش تھی۔ ۱۹۴۷ء میں انھیں ایک ’قومی وطن‘ (Nation State) مل گیا۔ مسلمانوں کا یہ وطن اُس وقت کے مسلمانوں کی نصف تعداد ہی کو اپنے اندر سمو سکا۔ بقیہ نصف مسلمان بھارت میں رہ گئے‘ لیکن ان کو بھی مسلمانوں کے نئے ملک سے بڑی امیدیں تھیں۔ وہ پاکستان کو اسلامی مملکت اور عہدِ حاضر میں اسلامی حیاتِ اجتماعی کی ایک زندہ و کامیاب تجربہ گاہ دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ جنوبی ایشیا کی ملتِ اسلامیہ کی عظیم جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہونے والے اس نئے ملک کو ملّی امنگوں کا آئینہ دار اور تمام مظلو م مسلمانوں کا پشتی بان سمجھتے تھے۔ لیکن ہوا کیا؟
جب یہاں قوم اور ملّت تھی‘ تو اُس کا وطن نہیں تھا۔ لیکن جب اسے وطن مل گیا‘ تو وہ ملّت اور قوم گم ہو گئی۔ پاکستان بننے کے بعد یہاں علاقائی‘ صوبائی‘ نسلی‘ لسانی اور سماجی شناخت تو ابھر آئی‘ بلکہ خوب خوب ابھاری گئی‘ لیکن جس منفرد شناخت (مسلمان ہونے) کے سبب دو بازوئوں پر مشتمل پاکستان حاصل کیا گیا تھا‘ اسی کو نظرانداز کر دیا گیا۔ آج بہت سے لوگ پاکستانی بننے پر زور دیتے ہیں‘ اس کے گانے اور ڈرامے بھی نشر کیے جاتے ہیں تاکہ ہم پاکستانی بنیں۔ لیکن بن نہیں پاتے۔ اس کا سیدھا سادا سبب یہ ہے کہ جو پاکستان ایک سیاسی و جغرافیائی وحدت کے طور پر وجود میں آیا تھا‘ وہ درحقیقت کسی خطۂ زمین‘ کسی قبیلے‘ کسی نسل کا نام نہیں تھا اور نہیں ہے۔ اس کے برعکس یہ ایک تخیل‘ ایک خواب‘ ایک وژن ‘ ایک نظریہ‘ ایک مقصد‘ ایک مشن‘ ایک تحریک تھا اور آج بھی ہے۔ گویا یہ روح ہے‘ روحِ سفر ہے‘ جو اپنے قالب ’ملکِ پاکستان‘ کی صورت میں ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو جلوہ گر ہوئی تھی۔ روح کو نظرانداز کر کے محض قالب میں زندگی دوڑائی نہیں جاسکتی‘ نہ اِس جسم سے محبت کے جذبات ابھارے جاسکتے ہیں۔
ہم پاکستان کو اسلامی نظریۂ حیات اور اسلامی تہذیب کے سفر کا ایک پڑائو بھی کہہ سکتے ہیں جہاں سے دنیا بھر میں یہ پیغام پھیلنا تھا اور جسے پوری انسانیت کے لیے نمونہ بننا تھا۔ لیکن المیہ یہ ہوا کہ پاکستان کی باگیں پچھلے تمام عرصے میں اُن لوگوں کے ہاتھوں میں رہیں جو روحِ پاکستان (اسلام) سے بے پروا‘ بے نیاز اور بعض صورتوں میں اس سے بے زار بھی تھے۔ جو اِسے ایران‘ ترکی‘ مصر‘ بھارت‘ برطانیہ‘ جرمنی‘ فرانس اور جاپان کی طرح کا ایک ملک‘ ایک قومی وطن‘ سمجھتے تھے۔ وہ یہ بات بھول چکے تھے کہ پاکستان کی کوئی جڑ نہ علاقے میں ہے‘ نہ جغرافیے میں‘ نہ نسل میں‘ نہ قبیلے میں۔ ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء سے قبل نہ کوئی ملکِ پاکستان کبھی رہا ہے اور نہ کوئی ’پاکستانی‘ قوم رہی ہے۔ یہاں بنگالی تھے‘ پنجابی اور سندھی تھے‘ پٹھان اور بلوچ تھے‘ کشمیری اور آرائیں تھے‘ جاٹ اور گجر تھے‘ مری اور بگٹی تھے‘ میمن اور سیّد تھے۔ صدیوں سے یہ ان کی شناخت تھی اور اس سے اوپر‘ شعوری اور اس سے زیادہ بالاے شعور کی سطح پر وہ مسلمان بھی تھے۔ تحریکِ پاکستان نے اِن مختلف النسل‘ مختلف اللسان اور مختلف المزاج آبادیوں کو اسلامی وحدت میں پرو کر یک جان کر دیا تھا۔ یہ تمام دانے اسلامی تسبیح میں گندھ گئے تھے۔ اسی یک جہتی و یک جائی نے‘ اسی وحدتِ فکر و نظر نے‘ اسی ایک ملّی نصب العین اور جدوجہد کی ایک متعین منزل نے جنوبی ایشیا کے ۱۰ کروڑ مسلمانوں کو وہ قوت و شوکت دے دی جس نے فرنگی آقائوں کی استعماریت کو اور دیسی کانگریسی عیاریوں کو شکست سے دوچار کر دیا۔
پاکستان بن جانے کے بعد مسلمان شناخت‘ یا زیادہ بہتر الفاظ میں اسلامی شناخت اور بنیاد تو بے وقعت اور بے وزن کر دی گئی۔ اس سے کم تر درجے پر ’پاکستانی‘ شناخت کو سرکاری سطح پر اور رسمی انداز میں قائم کرنے کی کوشش ہوئی اور وہ بھی اسلامی روح سے بے گانہ کر کے۔ گویا یہاں ’سیکولر پاکستانی‘ شناخت کے کاغذی پھول کھلائے گے۔ نتیجتاً وہی ہوا‘ جو ہو سکتا تھا۔ جو بیج بویا گیا‘ اسی کے پودے اُگے اور وہی فصل لہلہانے لگی۔ ریاست کے آئینی نظام کو قراردادِ مقاصد کے ذریعے کلمۂ اسلام پڑھوا کر مسلمان تو بنا لیا گیالیکن اس کے بعد کیا ہونا چاہیے تھا‘ اس کی ہمارے ملک کی ہیئت مقتدرہ (establishment) اور طبقاتِ عالیہ (elite class) کو کوئی فکر نہ ہوئی۔
پاکستان بننے کے بعد حکومتی ایوانوں اور پالیسی سازی کے مراکز میں چاہے روحِ پاکستان سے بے خبر‘ بے پروا اور بے زار لوگوں کا قبضہ رہا ہو‘ مگر سچی اور مخلصانہ دینی حمیّت‘ دینی فکر اور دینی جذبہ رکھنے والی شخصیات اور گروہوں سے یہ ملک کبھی خالی نہیں تھا‘ بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ایسے افراد اور گروہوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور ان کی مسلسل اور اَن تھک مساعی نے طبقاتِ عالیہ اور ہیئت مقتدرہ کو مجبور کیے رکھا کہ وہ اپنی بے دینی یا بد دینی پر کوئی پردہ ہی ڈالے رکھیں۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان‘ جنرل آغا محمد یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو بھی اس دبائو سے آزاد نہیں تھے۔ ان تینوں نے بھی اس ملک کو ’اسلامی جمہوریہ‘ کہنے اور کہلوانے سے انکار نہیں کیا۔ دکھاوے کو اور مجبوراً ہی سہی‘ چند علامتی اسلامی اقدام اور امور مذکورہ بالا ادوارِ حکومت میں بھی اختیار کیے گئے۔ گویا پاکستان میں حکومتی و ریاستی پالیسی کے طور پر اور ہیئت مقتدرہ اور طبقاتِ عالیہ کی سطح پر نظامِ مملکت کی اسلام سے وابستگی اور ریاست کے ’اسلامی‘ ہونے کا قضیہ طے پاگیا تھا۔ چاہے عملاً یہ سب کچھ بے روح ہو‘ مگر ۹۶‘ ۹۷ فی صد مسلمانوں کے ملک کو دو چار فی صد اقلیتوں کی نام نہاد خواہش کے ’احترام‘ میں کمالائز (Kamalize) نہیں کیا گیا تھا‘ جیسا کہ اب کیا جارہا ہے۔
ترکی کا مصطفی کمال پاشا (نام نہاد اتاترک) تو دُونمے تھا‘ (ترکی میں دُونمے وہ یہودی کہلاتے ہیں جنھوں نے عثمانی دورِ حکومت میں بظاہر اسلام قبول کر لیا تھا اور مسلمان ہونے کے تمام فوائد سمیٹ رہے تھے‘ لیکن جنھوں نے اندر سے اپنی یہودیت برقرار رکھی تھی)۔ لیکن ہمارے ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ ایک بزعمِ خود ’سید زادہ‘ اقتدار پر قابض ہو کر دُونمے کمال پاشا کو اپنا آئیڈیل اور ہیرو قرار دے کر وہی راستہ اختیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘ جو ۷۵ سال پہلے ترکی میں اپنایا گیا تھا۔ یہ کیسی بدقسمتی ہے کہ آج ریاستی و حکومتی سطح پر‘ پالیسی سازی اور حساس دائروں میں اور ملک کی ہیئت مقتدرہ کے اندر‘ اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے اِس ملک کو سیکولر بنانے‘ سیکولر قرار دینے اور دین کو ’چرچ‘ کی طرح حیاتِ اجتماعی سے بے دخل کر دینے کی مربوط‘ منظم‘ موثر اور متواتر کوششیں ہو رہی ہیں۔ پاکستان کو بھارت کی طرح کا ایک وطن بنایا جارہا ہے جہاں رہنے والے اتفاقاً یہ کہ مسلمان بھی ہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ پاکستان کی آبادی سے زیادہ مسلمان تو بھارت میں ہیں۔ پاکستان کو سیکولر بنانے کی کوشش دراصل اس فکر کو تقویت دینے کے مترادف ہے جس کے مطابق: بہتر ہے کہ پورا جنوبی ایشیا ایک ہی سیاسی وحدت ہو۔ اگر یہاں کے تمام مسلمانوں کی تعداد ایک دوسرے میں شامل ہو جائے گی تو مجموعی طور پر مسلمانوں کا تناسب بڑھ جائے گا۔ آج پوری دنیا میں عالمگیریت کی لہر دوڑ رہی ہے۔ پھر کیا ضروری ہے کہ جنوبی ایشیا میں الگ الگ ملک ہوں؟ ایک ہی متحدہ ہندستان (وِشال بھارت یا اکھنڈ بھارت) کیوں نہ ہو؟ بہت سا حکومتی پیسہ یہاں الگ الگ ریاستیں ہونے کے سبب خواہ مخواہ خرچ ہو رہا ہے۔ یہ بچ جائے گا اور ملک کے عوام کی خوشحالی پر خرچ ہو گا۔
دونوں طرف سے سرکاری سطح پر آج کل ایسی باتیں کہی جارہی ہیں جو دراصل ایک ہی فکری نہج‘ ایک ہی پالیسی‘ ایک ہی حکمتِ عملی‘ ایک ہی مقصد اور ایک ہی نتیجے کا اپنی اپنی سطح پر بے باکانہ اظہار ہیں۔ ہماری ہیئت مقتدرہ کی سوچ اور پالیسی کے تحت اس وقت جو عمل جاری ہے‘ اس کا حاصل یہی کچھ ہونا ہے۔ مگر کیا یہ ایک بدیہی حقیقت نہیں کہ اس سب کچھ کے باوجود بھی اگر ملکِ پاکستان کو (کسی عالمی اسکیم کے تحت) ایک الگ سیکولر ملک بنا کر رکھنا پیشِ نظر ہے‘ تو یہ محض ایک خیالِ خام ہے یا پھر ایک گہری سازش۔ پاکستان کو اسلام سے جدا کر کے قائم رکھنے اور چلانے کا خیال و عمل ایسا ہی ہے جیسے کسی انسان کے بے روح لاشے کو مَمّی (mummy) بنا کر شیشے کے تابوت میں رکھ دیا جائے۔ فراعنۂ مصر سے لے کر لینن اور مائو تک بیسیوں انسانی ممیاں ہمارے سامنے ہیں۔ لیکن کیا ملکوں اور ریاستوں کی ’ممی‘ بھی ممکن ہے؟ اسلامی روح سے خالی پاکستان کا وجود بھی ایک ممی کی مانند ہو گا‘ جو نہ خود کوئی زندہ ملک ہو گا اور نہ وہاں کوئی زندہ قوم ہی باقی رہے گی۔ ہاں‘ وہ عہدِ جدید کی لبرل تہذیب کا شرمناک نمونہ ضرور بن جائے گا۔ تہذیبِ اسلامی کے دشمن اِسے ایسا ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کو اس کی روح (اسلام) سے خالی کر کے ممی بنانے کے عمل کے دو انتہائی اہم عناصر تعلیم و تدریس کے پورے نظام کی سیکولرائزیشن اور ذرائع ابلاغ کی مادر پدر آزادی یا بے راہ روی ہیں۔ جس طرح ممی کے کاسۂ سر سے دماغ نکال کر وہاں کچھ مرکبات بھر دیے جاتے ہیں‘ شاید اسی طرح زندہ پاکستان کو مومیا کر (’ممی‘ بنا کر) اس کے کاسۂ سر میں آغا خانی مرکبات بھرنے کو ضروری سمجھا گیا ہے اور اس کے حواسِ خمسہ کو نچیّوں اور گویّوں کا کلچرل شاک لگا کر مختل و معطل کیا جارہا ہے۔ منصوبہ سازوں کا خیال ہے کہ ایک بار تعلیم و تدریس کو اپنی مرضی کے مطابق بنا لیا گیا‘ اور میڈیا کو اپنا ہم رنگ کر لیا گیا‘ تب یہاں سے نکلنے والی نسلیں گویا ان کے مطلوب سانچے میں ڈھلی ڈھلائی نکلنا شروع ہو جائیں گی۔ وہ غالباً انسانوں کو کسی پلاسٹک کمپنی کے نپے تُلے فرموں سے ڈھلی اشیا جیسا سمجھتے ہیں۔
ہمارے ملک کی مقتدر قوتیں اور شخصیات یا تو عیار دشمنوں کی فکری رفیق ہیں اور پوری اسکیم کو خوب سوچ سمجھ کر‘ اس کی روح و باطن سے پوری آگاہی کے ساتھ اور شعوری طور پر یہ منصوبے لے کر چل رہی ہیں (لیکن ہماری دانست میں کچھ ہی لوگ اس ’بلندی فکر و شعور‘ پر ہوں گے)‘ یا پھر درحقیقت اربابِ حل و عقد‘ اختیار و اقتدار پر قابض گروہ اور انسانی و مالی وسائل سے مالا مال افراد اور اداروں کی عظیم اکثریت جدیدیت کی چکاچوند اور مغرب کی استعماری دھمک میں تعلیم و تدریس کے معاملے کو کوئی سادہ سی بات سمجھتی ہے۔ جس طرح کوئی ’موٹر مکینک‘ یا پرزے جوڑ کر کمپیوٹر بنانے والا ’انجینئر‘ یا ڈمپر لوڈنگ ٹرک چلانے والا ڈرائیور تیار کیا جاتا ہے کہ اس عمل میں کسی فلسفے‘ کسی نظریے‘ کسی الٰہیاتی بحث اور کسی سماجی شعور کا عملاً کوئی دخل نہیں ہوتا‘ اس ’روشن خیال اعتدال پسند‘ طبقے کے خیال میں پورا تعلیمی کارخانہ بھی اسی طرح چلایا جانا چاہیے۔ گویا ملک و ملّت کی نظریاتی اساس کیا ہے؟ اجتماعی عقائد اور ایمانیات کیا ہیں؟ ملی شعور کیا کہتا ہے؟ سماجی اَقدار کے تقاضے کیا ہیں؟--- ان امور سے بے نیاز رہ کر نظامِ تعلیم تشکیل دیا جاسکتا ہے‘ نصابِ تعلیم بنایا جاسکتا ہے اور تعلیم و تدریس کے کارندے حاصل کیے اور لگائے جاسکتے ہیں۔ اسی خیال کے تحت ملک کی تاریخ میں آج تک کی سب سے بڑی تعلیمی سرجری شروع کر دی گئی ہے۔ تعلیم و تعلم کا تمام سلسلہ قدم بہ قدم آغا خان فائونڈیشن اور بعض دوسرے مشنری یا سیکولر اداروں کے سپرد کرنے کا فیصلہ اسی بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔
پاکستان کا تعلیمی نظام آغا خانیوں یا کسی اور سیکولر‘ بے دین یا بددین افراد یا اداروں کے حوالے کرنے کی مثال کو ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ جیسے کسی مکہ فائونڈیشن کے سپرد امریکا کا نظامِ تعلیم کردیا گیا ہو۔ کسی محمود غزنوی سوسائٹی کے حوالے بھارت کا تعلیمی نظام ہو گیا ہو اور کسی صلاح الدین ایوبی ٹرسٹ کو مسیحی یورپ میں تعلیم و تدریس کے امور سونپے جاچکے ہوں۔ اگر ایسا ممکن ہے تو یقینا پاکستان کا نظامِ تعلیم بھی آغا خان فائونڈیشن یا اس جیسی کسی اور نام نہاد غیرحکومتی تنظیم این جی او کے سپرد کیا جاسکتا ہے۔ مگر پاکستان کے باہر ایسا کہاں ممکن ہے؟ نہ بھارت میں‘ نہ امریکا میں‘ نہ یورپ میں‘ نہ اسرائیل میں۔ کہیں بھی ایسا نہیں ہو سکتا۔ بس اِس لاوارث ملک ہی میں ایسا ممکن ہے۔ شاید پاکستان کو ایک بے سمت کارواں سمجھ لیا گیا ہے اور پاکستانی قوم کو اجتماعی نصب العین اور منزل کے شعور سے عاری‘ ملّی مقاصد سے بیگانہ اور قومی اُمنگ سے خالی گروہ۔ دنیا بھر میں تعلیم کا پورا نظام کسی معاشرے اور قوم کے اجتماعی خمیر سے گندھا ہوا‘ ملّی امنگوں کا آئینہ دار اور قومی نصب العین سے ہم آہنگ سمجھا جاتا اور اسی کے تابع رکھا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان کی ہیئت مقتدرہ اس سے بے نیاز ہے۔
پانی کا کوئی بند باندھنا‘ کوئی اسٹیل مل لگانا‘ کوئی ہیوی مکینکل کمپلکس تعمیر کرنا‘ کوئی موٹروے بچھانا‘ کسی ایئرپورٹ کے رن وے کو وسعت دینا‘ کوئی خیابانِ ساحل ہموار کرنا‘ توانائی پیدا کرنے والا کوئی پلانٹ وغیرہ لگانا‘ جس طرح کے کام ہیں‘ اس سے ۱۸۰ درجہ مختلف معاملہ اسکولوں‘ کالجوں‘ یونی ورسٹیوں اور مدرسوں کا قیام و انصرام ہے۔ آپ کورین کمپنی سے موٹروے بچھوا سکتے ہیں‘ چینی انجینئروں سے سیندک کا تانبہ نکلوا اور گوادر کی بندرگاہ بنوا سکتے ہیں اور امریکا سے ایف ۱۶ طیارے لے سکتے ہیں‘ مگر کیا فلسفہ‘ تاریخ‘ سیاسیات‘ معاشیات‘ بین الاقوامی تعلقات‘ عمرانیات‘ نفسیات‘ الٰہیات‘ ادب اور بے شمار علوم جوں کے توں ان سے لے سکتے ہیں؟ بھارت سے گیس پائپ لائن کا معاہدہ ہو سکتا ہے‘ مگر پاکستان کو کیسی نسل درکار ہے اور جنوبی ایشیا‘ خصوصاً پاکستان کی تاریخ کیسے لکھی جائے‘ اس سلسلے میں اس پڑوسی سے کتنی مدد لے سکتے ہیں؟ ہر صحیح الدماغ اور غیرمتعصب انسان یہ کہے گا کہ یہ کام غیروں سے نہیں لیے جاسکتے‘ اور دنیا کی کوئی زندہ قوم اپنی اساسیات (basics) سے متصادم یا متضاد کوئی عنصر اپنے نظامِ تعلیم کا جز بنانا گوارا نہیں کرتی اور نہ اپنا نظامِ تعلیم و تعلم ہی کسی کے حوالے کرتی ہے۔
جب دنیا بھر میں کہیں بھی یہ کام نہیں ہو سکتے‘ تو پاکستان میں تعلیم و تدریس یا اس نظام کا کوئی حصہ آغا خان فائونڈیشن کے سپرد کیوں کر کیا جاسکتا ہے؟ ہاں زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ ملک کی مجموعی تعلیمی اسکیم کے اندر رہتے ہوئے‘ اقلیتوں کے لیے چند تعلیمی ادارے چلانے کی ان کو اجازت دے دی جائے‘ جیسے عیسائی مشنری ادارے یا پارسی حضرات چلاتے ہیں۔ لیکن زندہ قوم ان پر بھی عقابی نظر رکھے گی‘ نہ یہ کہ انھیں کُھل کھیلنے کی مکمل چھوٹ دے دی جائے۔
آغا خانی مذہب اور برادری کے حوالے سے یہ بات ان سب کو جو حادثاتِ زمانہ کے طفیل آج مقتدر بنے بیٹھے ہیں‘ سمجھ لینی اور یاد رکھنی چاہیے کہ پوری ہزار سالہ تاریخ میں ملّتِ اسلامیہ نے (آپس کے تمام تر اختلافات اور تنازعات کے باوجود) اسے اپنا حصہ نہیں سمجھا اور نہ مستقبل میں اس کا کوئی امکان ہے۔ اگر یہ پورا ملک بھی آغا خانیوں کے حوالے کر دیا جائے اور آغا خانیوں کے امام کو پاکستان کا بے تاج بادشاہ بنا دیا جائے‘ تب بھی یہاں کے مسلمان آغا خان اور آغا خانی برادری کو اسلام سے خارج اور ملّتِ اسلامیہ کا دشمن‘ یا کم از کم اس کے لیے مشکوک وجود رکھنے والا گروہ سمجھتے رہیں گے۔ بغداد کی تباہی کو چاہے ہزار سال گزر چکے ہوں‘ مگر منگولوں سے ساز باز کرنے والے نزاری اسماعیلیوں (باطنیوں) کو ملتِ اسلامیہ بھلا کیوں کر فراموش کر سکتی ہے؟ ان آغا خانیوں (نزاری اسماعیلیوں / باطنیوں) کا اپنے ماضی سے تعلق اس قدر گہرا ہے کہ انھوں نے کراچی میں آغا خان ہسپتال کی عمارت کی پوری اسکیم اور نقشہ بھی حسن بن صباح کے قلعہ الموت (جہاں ایک جعلی جنت بنائی گئی تھی) سے مستعار لیا ہے۔ نہ جانے کیوں ہمارے حکمراں ایک طرف توکہتے ہیں کہ اکثریت کو اقلیت کا یرغمال نہیں بننے دیں گے‘ مگر وہ خود ملک کی ۹۶‘ ۹۷ فی صد مسلم آبادی کو اعشاریہ ایک فی صد سے بھی کم تعداد والی اقلیت کے حوالے کرنا ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ (Enlightened Moderation) سمجھتے ہیں؟ دنیا میں کہیں بھی اور کبھی بھی اکثریت پر کسی چھوٹی اقلیت کا غلبہ دیرپا نہیں رہا ہے۔ یہاں بھی نہیں رہے گا۔
یہاں یہ بات بھی واضح کر دینا ضروری اور مفید ہے کہ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک آغاخانی (نزاری اسماعیلی) فرقہ اس ملک و معاشرے میں مکمل امن و سکون اور آزادی کے ساتھ رہ رہا ہے‘ کاروبار کر رہا ہے‘ اربوں روپے اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر کر رہا ہے۔ اِسے معمولی قیمتوں پر مہنگی زمینیں مل جاتی ہیں اور جو اور جتنی مراعات ریاست و حکومت سے چاہتا ہے‘ بلاروک ٹوک پالیتا ہے۔ ملک کی ۹۶‘ ۹۷ فی صد مسلم اکثریت آغا خانیوں سے کوئی تعرض نہیں کرتی رہی۔ مگر اِدھر چند برسوں سے آغا خانیوں نے ملک کی بھاری مسلمان اکثریت کے دائرے میں مداخلت اور حساس امور سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی ہے۔ شاید یہی آج کے عالمی استعماری ایجنڈے میں ان کے لیے متعین کردہ کردار ہے۔ اس کے بعد اس فرقے کو امید عظیم مسلمان اکثریت سے ماضی قریب جیسے رویے کی نہیں رکھنی چاہیے۔ اگر یہ فرقہ اپنے قد سے بہت بڑھ چڑھ کر معاملات میں دخیل بنے گا تو پھر اکثریت بھی مجبور ہو گی کہ وہ آغا خانیوں کی تاریخ کھنگالے‘ ماضی میں ان کے گھنائونے کردار کو یاد کرے‘ اور مستقبل میں انھیں اس قابل نہ بننے دے کہ (نزاری اسماعیلی) ’فدائین‘ مسلمان رہنمائوں کے سینوں میں خنجر اتار اتار کر مسلم دنیا کو بے حال کر دیں اور کسی منگول طوفان کا یہ پھر پیش خیمہ بنیں۔ قادیانیوں کے خلاف مسلمانوں کی تحریک ختمِ نبوتؐ اور وادی سندھ پر سلطان محمود غزنوی کے تابڑ توڑ حملے اس بات کو سمجھنے کے لیے یاد رکھنے چاہییں۔
اس سلسلے میں ایک آخری بات یہ ہے کہ آغا خان فائونڈیشن کو آگے بڑھانے کا استعماری فیصلہ ایک حوالے سے ’شر میں خیر‘ (blessing in disguise) بھی ہے۔ اگر یہی کام جو استعمار اور اس کے مقامی ایجنٹوں کے پیشِ نظر ہے‘ سید زادوں کو‘ کسی صدیقی‘ فاروقی‘ عثمانی‘ علوی وغیرہ شناخت رکھنے والے ادارے یا گروہ کو دیا گیا ہوتا تو آج پورے ملک میں اس حوالے سے جو یکسوئی اور ہم آہنگی ہے‘ وہ پیدا ہونامشکل تھی۔ یہ تو اﷲ کا کرم ہے کہ سازشیوں نے (حد سے بڑھی خود اعتمادی کے نتیجے میں) نقاب بھی ایسا اوڑھا ہے جو پکار پکار کے سازش کو اور سازشیوں کو بے نقاب کر رہا ہے۔ لہٰذا اہلِ اختیار و اقتدار جتنا بھی زور اور زر لگا لیں لیکن ملّتِ اسلامیہ پاکستان کا اجتماعی ضمیر اور ملّی شعور بالآخر اس صورت حال کو مسترد کر دے گا اور اس تعلیمی قبضے سے آزادی کی تحریک پورے جہادی جوش و جذبے سے چلے گی۔ قوموں کی تاریخ میں نامساعد حالات آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ منگول بھی طوفان بن کر آئے تھے اور بغداد پر قابض ہو گئے تھے۔ وہ پوری مسلم دنیا کو تہہ و بالا کر گئے تھے۔ لیکن اس کے بعد مسلم دنیا تو قائم رہی‘ منگول آج ڈھونڈنے سے ہی ملیں گے۔ آغا خان فائونڈیشن اور مغربی و امریکی سرمایے کی مدد سے ملکی و قومی تعلیمی نظام کو گرفت میں لینے والے دیگر عناصر چاہے عارضی طور پر کچھ کامیابی حاصل کرلیں‘ لیکن دراصل وہ پوری ملت کے اجتماعی شعور میں کانٹے کی طرح کھٹک رہے ہیں۔ ملتِ اسلامیہ ان شاء اﷲ اس زہریلے کانٹے کو نکالنے میں بالآخر کامیاب رہے گی اور ہمارا ملّی و اجتماعی ضمیر اس زہر کو بالآخر اُگل دے گا۔