ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی


انسانی تاریخ کے عجائب میں سے ہے کہ ایک ایسی قوم، جو تہذیب وتمدن سے یکسر ناآشنا، جنگ وجدال اور لوٹ مارکی خوگر اور حلال و حرام کی تمیز سے بے گانہ تھی،وہ ایک دم تہذیب و شرافت اور امن و امان کی علَم بردار کیسے بن گئی؟ جو جہالت کی گھٹاٹوپ تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاںماررہی تھی، وہ اچانک علم کی شمعیں کیوں کر جلانے لگی؟ جس کے افراد ایک دوسرے کے اس قدر خون کے پیاسے رہتے تھے کہ صدیوں کی معرکہ آرائیوں سے ان کی دشمنی کی شدت میں کمی نہ آتی تھی، وہ چشم زدن میں کیسے باہم شیرو شکر اور بھائی بھائی بن گئے، حتیٰ کہ ایک دوسرے پر اپنی جان، مال، جائیداد، گھربار اور دوسری قیمتی اور محبوب چیزیں نچھاور کرنے لگے؟ جن کی نجی زندگیاںبے حیائی، آوارگی، عریانیت اور فحاشی میں غرق رہتی تھیں، وہ کیسے عفت و پاکیزگی کا اعلیٰ نمونہ پیش کرنے لگے؟

تجزیہ کرنے والے جو بھی تجزیہ کریں اور اسباب و علل تلاش کرنے والے جو بھی توجیہات کریں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے اندر یہ بنیادی تبدیلی قرآن کریم کی بدولت واقع ہوئی تھی۔ قرآن ہی تھا جس نے یکسر ان کی کایاپلٹ دی تھی، ان کو ذلّت و نکبت کی کھائی سے عزّت و عظمت کے بامِ عروج پر پہنچادیاتھا۔ انھیں جہالت کی تاریکیوں سے علم کی روشنی میں لے آیاتھا اور وحشت و سفاکیت کے خوگر ان کے مزاج کو بدل کر انھیں تہذیب و شائستگی کاامام بنادیاتھا۔ لیکن جوں جوں قرآن کریم سے ان کا تعلق کم زور ہوتاگیا، دوسری قومیں ان پر شیر ہوگئیں اور ذلّت وبے توقیری ان کا مقدر بن گئی۔شاعر مشرق علامہ اقبال نے مرض کی صحیح تشخیص کی ہے :

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر

صحابۂ کرامؓ کی زندگیا ںقرآن کریم سے اثرپزیری اور اس کے ساتھ میدانِ عمل میں اترنے کااولین نمونہ ہیں۔ اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ان کا قرآن سے کیسا تعلق تھا؟ قرآنی آیات نازل ہوتی تھیں اور وہ انھیں سنتے تھے تو ان پر کیااثر ہوتاتھا؟ ان کی تلاوت کرنے اور انھیں یاد کرنے کا، ان کاکیا معمول تھا؟ اس کے احکام و تعلیمات سے انھوں نے کس طرح اپنی زندگیوں کو آراستہ کیاتھا؟ اس کاپیغام دوسروں تک پہنچانے کے لیے انھوںنے کتنی جدوجہد کی تھی ؟ اور اس کا حکم نافذ کرنے اور اس کااقتدار قائم کرنے کے لیے انھوں نے کیا قربانیاں دی تھیں؟

 اس مضمون میں صحابۂ کرامؓ کے تلاوتِ قرآن کے معمولات پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔ قرآن کریم سے ان کے تعلق کے دیگر پہلوئوں پر ان شاء اللہ آیندہ اظہار خیال کیاجائے گا۔

قرآن کریم سے تعلق کا اوّلین اظہار اس کی تلاوت سے ہوتاہے۔ صحابۂ کرامؓ اس کے غایت درجہ مشتاق رہتے تھے۔ وہ اپنے شب وروزکے زیادہ تر اوقات اس کی تلاوت میں گزارتے تھے۔ اس کے لیے انھوںنے قرآن مجید کو مختلف ٹکڑوں (احزاب) میں تقسیم کررکھاتھا۔

اوس نامی ایک تابعی بیان کرتے ہیں کہ: میں نے متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے دریافت کیاکہ آپ لوگوں نے قرآن کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کررکھاہے۔ اس اعتبار سے ایک ٹکڑے میں کتنی سورتیں ہوتی ہیں؟ انھوںنے جواب دیا: تین، پانچ، سات، نو ، گیارہ اور اخیر کی تمام چھوٹی سورتیں ایک ٹکڑے میں شامل تھیں۔(سنن ابی دائود، ابواب شہر رمضان، باب تخریب القرآن، ۱۳۹۳)

صحابۂ کرامؓ کے غایت شوق کایہ عالم تھاکہ وہ کم سے کم وقت میں پورا قرآن مجیدپڑھ لینا چاہتے تھے۔ اس معاملے میں غلو سے روکنے اور اعتدال کی روش پر قائم رکھنے کے لیے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض پابندیاں عائد کردی تھیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ نے ایک موقعے پر دریافت کیا: اے اللہ کے رسولؐ! میں قرآن کو کتنے دنوں میں ختم کروں؟ فرمایا: ایک مہینے میں۔ انھوںنے عرض کیا: مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔ فرمایا: بیس دن میں ختم کرلو۔ انھوں نے اسی طرح اور بھی کم دنوں میں ختم کرلینے پر اپنی قدرت ظاہر کی تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رعایت سے پندرہ دن، پھر دس دن، پھر سات دن میں ختم کرنے کی اجازت دی، ساتھ ہی یہ بھی فرمایا:

اِقْرَأ فِی سَبْعٍ وَّلَا تَزِیْدَنَّ عَلٰی ذٰلِکَ (سنن ابی داؤد، کتاب شہر رمضان، باب فی کم یقرأ القرآن،۱۳۸۸، صحیح بخاری:۲۵۰۵،۵۰۵۴، صحیح مسلم:۱۱۵۹) سات دن میں پورا قرآن پڑھ لو، اس سے کم میں ہرگز ختم نہ کرو۔

بعض روایتوں میں ہے کہ ان کے اصرار پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں تین دنوں میں قرآن ختم کرنے کی اجازت دے دی۔ لیکن جب انھوں نے عرض کیاکہ وہ اس سے بھی کم وقت میں پورا قرآن پڑھ سکتے ہیں تو آپؐ نے ایسا کرنے سے منع کیا اور فرمایا:

لَایَفْقَہُ مَنْ قَرَاُہ‘ فِی اَقَلٍّ مِّنْ ثَلَاثٍ،جو شخص تین دنوں سے کم وقت میں قرآن ختم کرے گا، وہ ٹھیک طریقے سے اسے سمجھ نہیں سکتا۔ ( بخاری، مسلم، ابوداؤد، حوالہ بالا)

امام نووی ؒ نے متعدد صحابہ، تابعین اور بعد کے دور کے بزرگوں کے نام تحریر کیے ہیں، جو ایک دن میں قرآن ختم کرلیتے تھے، بلکہ ان میں سے بعض ایک دن میں دو قرآن ختم کرلیتے تھے۔ ﴿ملاحظہ کیجیے: نووی، ابوزکریا یحییٰ بن شرف، التبیان فی آداب حملۃ القرآن، تحقیق و ترویج: عبدالقادر الارنووط، دمشق، ص: ۴۶-۴۹﴾ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناپسندیدگی کی وجہ سے ایسا کرنا غیرمسنون معلوم ہوتاہے ۔

تلاوتِ قرآن کاایک ادب یہ ہے کہ اس کو بہت جلدی جلدی نہ پڑھاجائے کہ محسوس ہوکہ سرکابوجھ اُتارا جارہاہے، بلکہ ٹھیر ٹھیر کر پڑھاجائے۔ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ  بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت قرآن میں ایک ایک حرف صاف سنائی دیتاتھا۔(سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب استحباب الترتیل فی القرأۃ، کتاب قیام اللیل، باب ذکر صلاۃ رسولؐ باللیل، ۱۲۲۹، مسند احمد، ۴/۲۹۴،۳۰۰)

یہی معاملہ صحابہ کرامؓ کابھی تھا۔ ایک موقعے پر حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا:

میں ترتیل کے ساتھ صرف ایک سورہ پڑھوں، یہ میرے نزدیک اس سے زیادہ بہتر ہے کہ ﴿بغیر ترتیل کے ﴾ پورا قرآن پڑھ لوں۔( نوویؒ، التبیان، ص ۷۰ )

ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ  کے سامنے ایک شخص نے کہا: میں مفصل سورتیں ﴿سورئہ حجرات جو ۲۶ویں پارے میں ہے،سے سورۂ ناس تک ایک رکعت میں پڑھ لیتا ہوں۔ انھوںنے جواب دیا: ہَذًّا کَھَذِّ الشِّعْرِ ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم قرآن کو اشعار کی طرح جلدی جلدی پڑھ لیتے ہو۔(بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب الترتیل فی القرأۃ، ۵۰۴۳، مسلم: ۸۲۲)

اس موقعے پر انھوں نے مزید فرمایا: ’کچھ لوگ قرآن اس طرح پڑھتے ہیں کہ وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا۔ حالاں کہ قرآن مجیدجب دل میں اترجائے اور اس میں جاگزیں ہوجائے تب نفع دیتاہے۔(صحیح مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین، باب ترتیل القرأۃ واجتناب الھذ:۲۲۸)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کو خوش الحانی کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیاہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: زَیِّنُوْا القُراٰنَ بِاَصْوَاتِکُمْ ،قرآن کو اپنی آوازوں سے زینت دو۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلوٰۃ، ۱۴۶۸، سنن نسائی، ۱۰۱۵، سنن ابن ماجہ، ۱۳۴۲)

دوسری حدیث میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: مَنْ لَّمْ یَتَغَنَّ بِالقُرآنِ فَلَیْسَ مِنَّا، جس شخص نے قرآن کو خوش الحانی سے نہیں پڑھا، وہ ہم میں سے نہیں۔ ( سنن ابی داؤد: ۱۴۶۹،۱۴۷۰، سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوٰۃ، باب فی حسن الصوت بالقرآن، ۱۳۳۷، مسند احمد، ۱/۱۷۲)

اسی بناپر صحابۂ کرامؓ بہت خوش الحانی کے ساتھ قرآن کی تلاوت کیاکرتے تھے۔ جس سے سننے والوں پر محویت طاری ہوجاتی تھی۔ حضرت ابوبکرؓ کے حالات میں بیان کیاگیاہے کہ انھوںنے اپنے گھر کے باہر نماز کے لیے ایک جگہ مخصوص کررکھی تھی، جہاں بیٹھ کر قرآن مجیدکی تلاوت کیا کرتے تھے۔ ان کی آواز سن کر مشرکین مکہ کی عورتیں اور بچّے اکٹھے ہوجاتے تھے اور بڑے غورو انہماک سے قرآن مجیدسنتے تھے۔ یہ دیکھ کر مشرکین اس اندیشے میں مبتلا ہوگئے کہ کہیں قرآن ان پر اپنا اثر نہ دکھانے لگے اور وہ ایمان نہ لے آئیں۔ چنانچہ انھوںنے مکہ کے بااثر سردار ابن الدغنّہ ﴿جس نے حضرت ابوبکرؓ کو ’جوار‘ دے رکھی تھی ﴾ سے شکایت کی۔ اس نے انھیں اس سے روکناچاہا تو انھوں نے اس کی جوار واپس کردی ۔(ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، دارالمعرفۃ بیروت،۱/۳۴۴-۳۴۵)

خوش الحانی سے قرآن مجید کی تلاوت کرنے میں متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو شہرت حاصل تھی۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لے گئے۔ دیکھاکہ ایک شخص بہت خوش الحانی سے قرآن مجیدکی تلاوت کررہاہے۔ دریافت فرمایا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے ان کا نام عبداللہ بن قیسؓ بتایا۔ آپؐ نے فرمایا:

اُعْطِیَ مِزْمَاراً مِّنْ مَزَامِیْرِ آلِ دَاؤد، انھیں نغمہ دائودی عطا کیاگیاہے۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الصلوٰۃ، باب فی حسن الصوت بالقرآن، ۱۳۴۱)

مشہور صحابیٔ رسول حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ ہی کااصل نام عبداللہ بن قیسؓ تھا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ان سے ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَورأیْتَنِی وَاَنَا اَسْتَمِـعُ لِقِرَأتِکَ البَارِحَۃَ، لَقَدْاُوتِیْتَ مِزْمَاراً مِّنْ مَزَامِیْرِ                             آل داؤدَ،میں نے گذشتہ رات تمھاری قرأت سنی۔ بہت متاثر ہوا۔ تمھیں نغمہ داؤدی عطاکیاگیاہے۔ (صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب حسن الصوت بالقرأۃ للقرآن، ۵۰۴۸، صحیح مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین، باب استحباب تحسین الصوت بالقرآن، ۷۹۳)

ابوعثمان نہدی بیان کرتے ہیںکہ: میں نے چنگ وبربط کی آواز کو بھی ابوموسیٰ اشعریؓ  کی خوش الحانی قرأت سے بہتر نہیں پایا۔( ابن حجرعسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، دارالمعرفۃ بیروت، ۲۰۰۴ء ۲/۱۱۱۲، تذکرہ حضرت عبداللہ بن قیس ابوموسیٰ اشعریؓ )

یہ صرف حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ ہی کی خصوصیت نہ تھی، بلکہ ان کے پورے قبیلے کا امتیازی وصف تھا۔ ایک غزوہ کے لیے سفر کے دوران صحابۂ کرام نے ایک جگہ پڑائو ڈالا۔ اگلے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’اگرچہ میں نے دن میں نہیں دیکھاتھا کہ اشعریوں نے کس جگہ اپنے خیمے لگائے ہیں، لیکن رات میں ان کی قرآن خوانی سن کر مجھے ان کی جائے قیام کا پتا چل گیاتھا۔(صحیح بخاری، ۴۲۳۲، صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل الاشعر یین، ۲۴۹۹)

حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کی خوش الحانی کی وجہ سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ان سے قرآن سننے کی فرمایش کیاکرتے تھے۔ روایات میں آتاہے کہ وہ حضرت عمر بن الخطابؓ کی خدمت میںحاضر ہوتے تھے تو حضرت عمرؓ ان سے فرماتے تھے: ہمیں اللہ کا شوق دلائو، وہ فوراً قرأت شروع کردیتے۔ (ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج۴،ص۲۱۳)

ان کی قرأت کو اُمہات المومنینؓ بھی نہایت شوق سے سنتی تھیں۔( ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، دارالفکر بیروت، ۱۹۹۴ء، تذکرہ ابی موسیٰ الاشعری، ۲/۱۱)

ایک مرتبہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہیں گئی ہوئی تھیں۔ انھیں گھر واپس آنے میں کچھ تاخیر ہوگئی۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وجہ دریافت کی تو عرض کیا: آپ کے اصحاب میں سے ایک صاحب قرآن مجیدپڑھ رہے تھے۔ میں نے ایسی قرأت کبھی نہیں سنی۔ آپؐ ان کے ساتھ ہولیے۔ دیکھا تو وہ حضرت سالم مولیٰ ابن ابی حذیفہؓ  تھے۔ اس موقعے پر آپؐ نے فرمایا:

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذیْ جَعَلَ فِی اُمَّتی مِثْلَکَ، اللہ کا شکر ہے کہ میری امت میں تم جیسے لوگ موجود ہیں۔(ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییزالصحابۃ،۱/۶۸)

ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے حضرت عبدالرحمٰن بن سائبؓ کی قرأت قرآن کریم سن کر ان کی تعریف کی اور فرمایا: ’تم قرآن بہت خوش الحانی سے پڑھتے ہو۔( سنن ابن ماجہ، کتاب الصلاۃ، باب حسن الصوت بالقرآن، ۱۳۳۷)

قرآن کریم نے سابقہ قوموں کے بعض اصحاب علم کاتذکرہ تحسین و توصیف کے انداز میں کرتے ہوئے ان کاایک وصف یہ بھی بیان کیاہے کہ جب ان کے سامنے قرآن مجید کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو ان پر گریہ و خشیت طاری ہوجاتی ہے:

وَيَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ يَبْكُوْنَ وَيَزِيْدُہُمْ خُشُوْعًا۝۱۰۹ (بنی اسرائیل۱۷:۱۰۹﴾) اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گرجاتے ہیں اور اسے سن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتاہے۔

احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کابھی یہی وصف مذکور ہے۔ حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات آپؐ نمازکے لیے کھڑے ہوئے۔ جب سورۂ مائدہ کی اس آیت پر پہنچے:

اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُكَ۝۰ۚ وَاِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝۱۱۸ (المائدہ ۵:۱۱۸﴾) اب اگر آپ انھیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کردیں تو آپ غالب اور دانا ہیں۔

تو باربار اسی آیت کو دہراتے رہے، یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔(سنن نسائی: ۱۰۱۰، سنن ابن ماجہ: ۱۳۵۰)

یہی حال تمام صحابۂ کرامؓ کابھی تھا۔ وہ جب قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے تو خود ان پر بھی بے خودی طاری ہوجاتی تھی۔ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے بے خبر ہوجاتے تھے۔ قرآن کریم کی کسی آیت سے ان پر خاصا اثر ہوتا تو اسی کو بار بار دہراتے تھے۔ اس کامضمون عذاب سے متعلق ہوتا تو اس سے اللہ کی پناہ کے طالب ہوتے تھے اور شدّت گریہ سے ان کی حالت غیرہوجاتی تھی۔

حضرت ابوبکرصدیقؓ سے کچھ لوگ یمن سے ملنے آئے۔ ان کے سامنے انھوں نے قرآن کریم کی تلاوت کی اور رونے لگے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: ایسا ہی حال ہمارا بھی ہوتاتھا۔

حضرت عمربن الخطابؓ نے ایک مرتبہ فجر کی نماز میں سورۂ یوسف پڑھی تو زارو قطار رونے لگے۔ دوسری روایت میں اسے عشاء کی نمازبتایاگیاہے۔ ممکن ہے، یہ الگ الگ مواقع کابیان ہو۔ روایت میں ہے کہ وہ اتنے زور زور سے رونے لگے تھے کہ پیچھے مقتدی ان کے رونے کی آواز سنتے تھے۔

حضرت عباد بن حمزہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت اسماءؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ قرآن کی تلاوت کررہی تھیں۔ جب سورۂ طور کی اس آیت پر پہنچیں:

فَمَنَّ اللہُ عَلَيْنَا وَوَقٰىنَا عَذَابَ السَّمُوْمِ۝۲۷ (الطور۵۲:۲۷﴾)آخرکار اللہ نے ہم پر فضل فرمایا اور ہمیں جھلسادینے والی ہوا کے عذاب سے بچالیا۔

تو اس پر ٹھیر ٹھیر کر بار بار اسی کو دہرانے لگیں اور اللہ تعالیٰ سے عذاب جہنم سے بچانے کی دعا کرنے لگیں۔ میں نے دیکھاکہ وہ میری طرف متوجہ نہیں ہیں تو میں وہاں سے نکل کر بازار چلاگیا۔ وہاں اپنی ضرورت پوری کی اور کچھ دیر کے بعد دوبارہ ان کی خدمت میں پہنچا تو دیکھاکہ وہ اسی آیت پر ٹھہری ہوئی ہیں اور بار بار اسی کو پڑھ رہی ہیں اور اللہ سے دُعا کررہی ہیں۔

حضرت تمیم داریؓ  ایک رات سورۂ جاثیہ پڑھتے ہوئے اس آیت پر پہنچے:

اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَہُمْ كَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۝۰ۙ (الجاثیہ۴۵:۲۱﴾) کیا وہ لوگ جنھوںنے بُرائیوں کا ارتکاب کیاہے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم انھیں اور ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ایک جیسا کردیں گے۔

تو مسلسل اسی کو دہراتے رہے، یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔

حضرت ابورجاء ؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباسؓ کے چہرے پرمسلسل رونے کی وجہ سے نشانات پڑگئے تھے۔(نوویؒ، التبیان، ص:۸۷)

صحابۂ کرام اپنے زیادہ سے زیادہ اوقات تلاوتِ قرآن کریم میں گزارتے تھے۔ وہ دن میں بھی اس کی تلاوت کرتے تھے اور رات میں بھی۔ وہ گھر میں بھی تلاوتِ قرآن میں مصروف رہتے تھے اور مسجد میں بھی(بخاری:۵۰۱۱، ۵۰۱۸، ۵۰۳۷ ، ۵۰۳۸ )۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے سے برآمد ہوئے تو مختلف صحابہؓ کو اپنے اپنے انداز سے تلاوتِ قرآن مجیدکرتے ہوئے پایا۔ آپؐ نے فرمایا:

اِقْرَءُا فَکُلٌّ حَسَنٌ وَسَیَجیْیُٔ  اَقَوَامٌ یُقِیْمُوْنَہ‘ کَمَایُقَامُ القِدْحُ، یَتَعجَّلُوْنَہٗ وَلَا یَتَاَجَّلُوْنَہٗ (سنن ابی دائود، کتاب الصلاۃ، باب مایجزیٔ الأمی والأعجمی من القرأۃ،۸۳۰) ’پڑھے جائو، سب کاطرزاچھاہے۔ کچھ لوگ آئیں گے جو قرآن کو تیرکی طرح سیدھا کریں گے، لیکن ان کامقصد دنیاہوگی آخرت نہ ہوگی۔

ایک مرتبہ آپؐ نے صحابہ کو قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کِتَابُ اللّٰہِ وَاحِدٌ وَمِنْکُمْ الاحمرُ وَمِنکُمْ الاَبْیَضُ، وَمِنکُمُ الاَسْوَدُ، اللہ کاشکر ہے۔ اس کی کتاب ایک ہے، لیکن تم میں سرخ، سفید اور سیاہ قسم کے لوگ  ہیں۔(سنن ابی داؤد، حوالہ بالا، ۱۳۸)                                             

ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے مسجد میں لوگوں کی قرآن پڑھنے کی گونج سنی تو فرمایا:یہ لوگ  قابل مبارک مبادہیں۔ ایسے لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت محبوب تھے۔( نوویؒ، التبیان، ص: ۸۶)

سخت مصیبت اور پریشانی کے عالم میں بھی صحابۂ کرامؓ کے اس شوق میں کوئی کمی نہ آتی تھی اور قرآن ان کے لیے تسکین اور طمانیت کا باعث بنتاتھا۔ روایت میں ہے کہ جس وقت بلوائیوں نے خلیفہ سوم حضرت عثمان بن عفانؓ کے گھر پر حملہ کیا، وہ قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف تھے اور اسی حالت میں ان کی شہادت ہوئی تھی۔( ابن عبدالبر، الاستیصاب فی معرفۃ الاصحاب، تذکرہ عثمان بن عفان، ۳/۸۷)

تلاوتِ قرآن مجید کا ایک ادب یہ ہے کہ مصحف کی ترتیب کو ملحوظ رکھاجائے۔ ترتیب کی رعایت کے بغیر اِدھر اُدھر سے پڑھ لینا یا الٹی ترتیب سے پڑھنا مناسب نہیں۔ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے کسی نے کہا: ’فلاں شخص قرآن مجید کو الٹی ترتیب سے پڑھتاہے‘۔ انھوںنے ناراضی ظاہر کرتے ہوئے فرمایا: ذٰلِکَ مَنْکُوسُ القَلْبِ ’’وہ دل کااندھا ہے‘‘۔(النوویؒ، التبیان، ص۹۹)

قرآن کی تلاوت کرتے وقت پوری سنجیدگی، انہماک، توجہ اور وقار کو ملحوظ رکھناچاہیے۔ دورانِ تلاوت اِدھراُدھر دیکھنا، کوئی دوسرا کام کرنے لگنا، کسی سے بات چیت شروع کردینا موزوں نہیں ہے۔ اس سے غیردل چسپی اور غیرسنجیدگی کااظہارہوتاہے۔ یہ قرآن مجیدکے تعلق سے مناسب رویّہ نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بارے میں آتاہے کہ وہ قرآن کی تلاوت شروع کرتے تھے تو جب تک اس سے فارغ نہ ہوجاتے، کسی سے بات نہ کرتے تھے۔ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، ۴۵۲۶)

قرآن کی تلاوت خود کرنے کے ساتھ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کسی دوسرے سے اسے سناجائے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے معمولات میں سے تھا۔ بہت مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے خواہش کی کہ مجھے قرآن مجید سنائو۔ انھوں نے حیرت ظاہر کرتے ہوئے عرض کیا: آپ کو قرآن سنائوں، جب کہ وہ تو آپؐ ہی پر اُترا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں، میں اسے دوسرے سے سننا چاہتا ہوں۔ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں: میں نے سورۂ نساء ابتدا سے پڑھنی شروع کی، یہاں تک کہ جب میں آیت۴۱  پر پہنچا تو آپؐ نے فرمایا: رک جائو۔ وہ آیت یہ ہے:

فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّۃٍؚ بِشَہِيْدٍ وَّجِئْنَابِكَ عَلٰي ہٰٓؤُلَاۗءِ شَہِيْدًا۝۴۱ (النساء۴:۴۱﴾) پھرسوچوکہ اُس وقت یہ کیاکریںگے جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمھیں (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے۔

میں آپ کی طرف متوجہ ہوا تو دیکھاکہ آپؐ کی آنکھوں سے زارو قطار آنسو جاری ہیں۔(بخاری: ۴۵۸۲ ، مسلم: ۸۰۰، ابوداؤد: ۳۶۶۸، ترمذی: ۳۰۲۴، ۳۰۲۵)

اُوپرگزراکہ حضرت عمرؓ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے فرمایش کرکے قرآن سناکرتے تھے۔ آج کے دور میں قرأت قرآن کی ریکارڈنگ سے بھی یہ کام لیاجاسکتا ہے۔ دنیا کے مشہور قراءکی ریکارڈنگ موجود ہے۔ اسے ٹیپ ریکارڈ، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، موبائل اور دوسرےآلات کی مدد سے سناجاسکتا ہے۔

فتح مکہ (۸ھ) کے بعد جب عرب قبائل کو اندازہ ہو گیا کہ اب اسلام کی پیش قدمی کو روکنا ممکن نہیں ہے اور وہ اہل اسلام کو شکست نہیں دے سکتے، تو انھوں نے اپنے رویے پر غور کیا ۔ انھیں کوئی راہِ نجات نظر نہیں آئی ،سوائے اس کے کہ سر تسلیم خم کر دیں اور دائرۂ اسلام میں داخل ہوجائیں۔ چنانچہ انھوں نے اپنے وفود رسول اکرمؐ کی خدمت میں بھیجے ، جنھوں نے آپؐ  کے ہاتھ پر بیعت کی اور اطاعت کا عہد کیا ۔مؤرخین اور سوانح نگاروں نے ۷۰ سے زائد ایسے وفود کا تذکرہ کیا ہے۔ اسی وجہ سے اس زمانے کو ’عام الوفود‘ کہا گیا ہے ۔ان وفود میں ایک وفد قبیلۂ ثقیف کا بھی تھا ۔

قبیلۂ ثقیف کا شمار عرب کے طاقت وَر اور جنگجو قبائل میں ہوتا تھا ۔یہ طائف میں آباد تھا ۔ ہجرتِ مدینہ سے قبل اللہ کے رسولؐ  دعوت کے نئے اُفق تلاش کرنے کی غرض سے طائف تشریف لے گئے تھے ،تو اسی قبیلے کے افراد نے آپؐ کے ساتھ بد ترین معاملہ کیا تھا اور آپؐ کو شدید جسمانی اذیتیں پہنچائی تھیں۔ فتح مکہ کے بعد بہت سے قبائل نے اطاعت قبول کر لی ،لیکن ہوازن اور ثقیف کا دل نہ پسیجا اور وہ لوگ اپنی طاقت کے زَعم میں رہے ۔ انھوں نے بہت بڑی جمعیت اکٹھی کی اور اوطاس (مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام )میں خیمہ زن ہوگئے۔ رسول اکرمؐ کو جب اس بات کی خبر ملی تو آپؐ نے ان کی سرکوبی کا ارادہ کیا اور ایک لشکر کے ساتھ ان کی طرف کوچ کیا۔ اہل ہوازن و ثقیف نے فوجی دستوں کو وادیِ حنین میں تعینات کر دیا، جنھوں نے وادی کے مختلف حصوں میں کمین گاہیں اور مورچے بنالیے۔ جوں ہی مسلمان وہاں پہنچے ان پر ہرطرف سے تیر برسنے لگے ۔اس اچانک حملے سے مسلمانوں پر بدحواسی طاری ہو گئی۔ بد حواسی کا یہ عالم تھا کہ کسی کو دوسرے کی خبر نہ تھی مگر بہت جلد مسلمانوں نے اپنے آپ کو سنبھال لیا ۔ہوازن اور ثقیف کو شکست ہوئی، بہت سے لوگ قتل ہوئے اور بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا گیا ۔

شکست خوردہ فوج نے طائف میں جا کر پناہ لی اور قلعہ بند ہو گئی ۔رسول اکرمؐ نے صحابہ کرامؓ کے ساتھ طائف کا رخ کیا اور وہاں پہنچ کر محاصرہ کرلیا ۔ثقیف نے اپنے قلعوں سے مسلمانوں پر خوب تیر برسائے جس سے متعدد مسلمان شہید ہو گئے ۔طائف کا محاصرہ تقریباً ۲۰ روز تک جاری رہا مگر شہر فتح نہ ہو سکا،با لآخر رسول اکرمؐ نے محاصرہ اٹھا کر واپسی کا اعلان فرما دیا ۔

اس موقعے پر بعض صحابہؓ نے عرض کیا :اے اللہ کے رسولؐ!  قبیلۂ ثقیف کے لیے بد دعا کردیجیے ۔آپؐ نے ہاتھ اٹھائے اور آپؐ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا ہوئے : ’’اے اللہ! ثقیف کو ہدایت دے اور ان کو میرے پاس بھیج دے ‘‘۔ بقول سیّد سلیمان ندوی :’’یہ دعائے نبویؐ  کا اعجاز تھا کہ وہ قبیلہ جو تلوار کے ذریعے زیر نہ ہوسکا تھا ،دفعتاً جلالِ نبوتؐ نے اس کی گردن آستانۂ اسلام پر جھکادی اور پورا قبیلہ مسلمان ہو گیا‘‘۔(سیرت النبی ؐ ،دوم، ص ۳۱)

چند روز بعد قبیلۂ ثقیف کے لوگوں نے باہم مشورہ کیا اور طے پایا کہ ایک وفد رسولؐ اللہ کی خدمت میں بھیجا جائے۔سفارت نے مدینہ کا رخ کیا۔ بستی کے قریب اس کی ملاقات حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے ہوگئی ۔ان کا تعلق اسی قبیلے سے تھا ۔وہ دوڑے کہ رسولؐ اللہ کو اس کی آمد کی خبر پہنچائیں۔ راستے میں ان کی ملاقات ابوبکر صدیقؓ سے ہو گئی۔ان کو معلوم ہوا تو مغیرہ کو قسم دلائی کہ یہ خوش خبری مجھے پہنچانے دو ۔اس وفد کی آمد پر رسول ؐ اللہ نے بھی مسرت کا اظہار کیا ۔وفدِ ثقیف کو مسجد نبویؐ میں ٹھیرایا گیا، اس لیے کہ صحن مسجد میں خیمے نصب کیے گئے تھے ۔یہ لوگ نماز اور خطبے کے وقت موجود رہتے تھے۔ مسلمانوں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے اور قرآن سنتے تھے۔

یہ وفد مدینہ منورہ میں چند دن ٹھیرا ۔اس عرصے میں وقتاً فوقتاً رسول ؐ اللہ کی خدمت میں حاضری دیتا ،اور آپؐ بھی ان کے پاس آتے جاتے رہے اور انھیں اسلام کی دعوت دیتے رہے (سیرت ابن ہشام)۔ ابن سعد نے لکھا ہے :کہ آں حضرتؐ ان لوگوں کے پاس ہر رات عشاء کے بعد تشریف لے جاتے تھے اور کھڑے کھڑے ان سے گفتگو فرماتے تھے ۔زیادہ دیر تک کھڑے رہنے کی وجہ سے آپؐ تھکن محسوس کرتے تو پہلو بدل لیتے تھے۔ (طبقات ابن سعد)

اس وفد میں عثمان بن ابی العاص نامی ایک نوجوان بھی تھا ۔ارکانِ وفد نبی اکرمؐ کی خدمت میں جاتے تو اسے بچہ سمجھ کر خیمے میں چھوڑ جاتے۔ خدمت نبویؐ میں حاضری سے محرومی اور  تعلیماتِ اسلام سیکھنے کی تڑپ اسے بے چین کیے رکھتی۔ چنانچہ جب وہ لوگ واپس آکر دوپہر میں آرام کرتے تو عثمان آں حضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوتا۔آپؐ سے قرآن سن کر یاد کرتا اور آپؐ  سے دین کی معلومات حاصل کرتا ۔کسی موقعے پر اگر وہ آپؐ کو سوتا ہوا پاتا تو حضرت ابو بکر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوجاتااور ان سے دین سیکھتا ۔یہ کام وہ اپنے قبیلے والوں سے چھپ کر کرتا تھا۔ اس کا یہ ذوق و شوق دیکھ کر رسول اکرمؐ کو بہت خوشی ہوئی ۔

ارکان وفد کو اسلام کی بنیادی تعلیمات بتائی گئیں تو انھوں نے اسلام قبول کرنے سے قبل رسولؐ کے سامنے چند شرطیں رکھیں ۔ اس سلسلے میں سربراہ ِوفد کنانہ بن عبد یالیل سے یہ گفتگو ہوئی :

۱- اس نے کہا : ہمیں کثرت سے سفر کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے لیے جنسی جذبے پر قابو پانا مشکل ہے ،لہٰذا ہمیں زنا کی اجازت دے دیجیے۔

اللہ کے رسولؐ نے فرمایا :وہ تم پر حرام ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی  اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً  ط  وَسَآئَ سَبِیْلًا o (بنی اسرائیل ۱۷: ۳۲) زنا کے قریب نہ پھٹکو ۔وہ بہت بُرا فعل ہے اور بڑا ہی بُرا راستہ ۔

۲- اس نے کہا :ہماری ساری تجارت سود پر مبنی ہے۔ ہمیں سود لینے کی اجازت دے دیجیے۔

اللہ کے رسولؐ نے فرمایا :تمھیں صرف اصل سرمایہ لینے کا حق ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o  (البقرہ۲:۲۷۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ سے ڈرو اور جو کچھ تمھارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو ۔

۳- اس نے کہا : ہمارے علاقے میں شراب بڑے اہتمام سے کشید کی جاتی ہے اور وہ ہمارے لیے ضروری ہے ۔ آپؐ نے فرمایا :اللہ نے اسے حرام قرار دیا ہے ،اس کا ارشاد ہے :

یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (مائدہ۵:۹۰) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو ،امید ہے کہ تمھیں فلاح نصیب ہو گی ۔

۴- اس نے نماز سے رخصت چاہی تو آپؐ نے فرمایا: ’’اس دین میں کوئی بھلائی نہیں جس میں نماز نہ ہو ‘‘۔

۵-اس نے درخواست کی کہ ان کے بت ’لات‘ کو جس کی وہ پوجا کرتے ہیں ،تین سال کے لیے چھوڑ دیا جائے اور ان کے معبد کو منہدم نہ کیا جائے۔ آپؐ نے انکار کیا۔ انھوں نے دو سال کے لیے چھوڑنے کی گزارش کی ۔آپؐ  نے اسے بھی قبول نہ کیا ۔وہ اسی طرح تھوڑی تھوڑی مدت  کم کرتارہا ،لیکن آپؐ  نے انھیں کچھ بھی مہلت نہیں دی ۔تب انھوں نے کہا:اچھا! تو پھر آپؐ ہی اسے توڑ ڈالیں ۔ہم اسے اپنے ہاتھوں سے نہیں توڑ سکتے ۔آپؐ اس پر رضامند ہو گئے اور فرمایا: میں کسی کو بھیج دوں گا جو یہ کام کر دے گا۔

۶-اس نے درخواست کی کہ ان کو جہاد میںشریک ہونے کا پابند نہ کیا جائے ۔آپؐ نے ان کی یہ درخواست قبول کرلی ۔

۷-اس نے درخواست کی کہ انھیں صدقات ِواجبہ کی ادائیگی سے مستثنیٰ رکھا جائے۔ آپؐ نے ان کی یہ درخواست بھی قبول کر لی ۔

۸- اس نے درخواست کی کہ ان کے علاقے کا عامل (گورنر)ان کے قبیلے سے باہر کے کسی فرد کو نہ بنایا جائے۔آپؐ  نے یہ درخواست بھی قبول کرلی ۔

وفد نے واپسی کا ارداہ کیا تو اللہ کے رسولؐ سے گزارش کی کہ کسی کو ہمارا امیر بنا دیجیے۔ آپؐ نے وفد کے اس سب سے کم عمر رکن ،عثمان بن ابی العاص کو ان کا امیر نامزد فرمایا۔ بعد میں آں حضرتؐ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کی سربراہی میں حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ اور حضرت ابو سفیان بن حربؓکو بھیجا کہ وہ جاکر لات کے معبد کو منہدم کردیں۔

قبیلۂ ثقیف کے قبولِ اسلام کے اس واقعے میں عبرت و نصیحت کے متعدد پہلو ہیں :

  • راہِ دعوت میں مشکلات و مصائب کا استقبال : داعی کو ہر لمحے تیار رہنا چاہیے کہ دعوت کی راہ پھولوں کی سیج نہیں ہے بلکہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ اسے مشکلات سے دوچار ہونا پڑے۔ بسااوقات ممکن ہے کہ جن لوگوں کے سامنے وہ دعوت پیش کرے وہ اسے رد کردیں ۔اس کے درپے آزار ہوں اور اسے اذیتیں پہنچائیں۔ رسول اکرمؐ کا اسوہ بتاتا ہے کہ ان اذیتوں کو برداشت کرنا ہے۔ سفرطائف کے موقعے پر آپؐ کو قبیلۂ ثقیف سے جو اذیتیں پہنچیں ان کی تفصیلات پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔خود آپؐ  نے اس واقعے کو اپنی زندگی کا سب سے زیادہ الم ناک واقعہ قرار دیا ہے ۔ام المومینن حضرت عائشہؓ  نے ایک موقعے پر آپؐ سے دریافت فرمایا: کیا آپ پر کوئی ایسا وقت بھی آیا ہے جو معرکۂ احد سے زیادہ سخت ہو ؟ آپؐ نے فرمایا : ’’مجھے تمھاری قوم سے بارہا تکلیفیں پہنچیں ہیں ،ان میں سب سے زیادہ سخت وقت میرے لیے یوم العقبہ (طائف) کا تھا ‘‘۔ اس طرح آپؐ نے اپنی امت کو تعلیم دی کہ راہِ دعوت میں پیش آنے والی تکلیفوں پر صبر کریں اور اس پر اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھیں ۔
  • مایوسی کے بجائے عزم و حوصلہ: حالات کتنے بھی سخت ہوں اور مدعوین کا رویہ کتنا بھی تلخ اور تکلیف دہ ہو ،داعی کو چاہیے کہ کسی بھی صورت میں مایوسی کو اپنے قریب نہ پھٹکنے دے۔ اسے رجائیت پسند ہونا چاہیے ۔امید رکھے کہ ان شاء اللہ حالات بد لیں گے ،دل نرم اور حق کی طرف مائل ہوں گے اور اسلام کا بول بالا ہوگا ۔سفرِ طائف کے موقعے پر اہلِ ثقیف کے رویے نے رسول ؐاللہ کو بہت زیادہ غم زدہ کر دیا ۔ان کی بد سلوکی کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کو جلال آگیا،پہاڑوں کے فرشتے نے حاضر ہو کر کہا :اے محمدؐ! اللہ نے آپ کی دعوت پر آپ کی قوم کا جواب سن لیا ہے۔   اللہ نے مجھے آپؐ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپؐ جو چاہیں حکم دیں ۔اگر آپؐ چاہیں تو میں ان دونوں طرف کی پہاڑیوں کو ملا کر بستی کو پیس دوں ؟ آپؐ نے جواب میں فرمایا : ’’نہیں، میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو اللہ وحدہٗـ لا شریک کی عبادت کریں گے‘‘۔

اس واقعے کو ۱۰ سال کا عرصہ بھی نہ گزرا تھا کہ پورا قبیلہ مشرف بہ اسلام ہو گیا ۔ابن سعد نے لکھا ہے کہ ،حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے فرمایا:’’مجھے نہیں معلوم کہ عرب کا کوئی قبیلہ ،جو ایک باپ کی نسل سے ہو ،اس کا اسلام اتنا راسخ اور اس کے عقائد اتنے بے آمیز ہوں جتنے اس قبیلے کے تھے‘‘ (طبقات ابن سعد ، ج۲،ص ۷۸) ۔ قبیلۂ ثقیف کے اسلام قبول کرنے کی پختگی اور عقائد کی   بے آمیزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسولؐ اللہ کی وفات کے بعد عرب کے بہت سے قبائل مرتد ہو گئے تھے اور انھوں نے اسلامی ریاست سے بغاوت کر دی تھی،لیکن اس موقعے پر ثقیف کے تمام افراد نے استقامت کا مظاہرہ کیا اور اسلام پر قائم رہے ۔

  • انتقامی جذبات سے گریز : داعی کو اپنی شخصیت کو انتقامی جذبات سے بلند رکھنا چاہیے۔ اسے مدعوین کی طرف سے چاہے جتنی،جسمانی یا روحانی تکلیفیں پہنچیں ،لیکن اس کا دل صاف رہنا چاہیے ۔وہ ان کی ہدایت کا خواہاں اور اس کا حریص ہو ۔پھر اگر اس کی کوششوں اور  اللہ تعالیٰ کی توفیق سے وہ ہدایت پاجائیں تو اسے اس طرح مسرت کا اظہار کرنا چاہیے،جیسے اسے کوئی بہت بڑی دولت مل گئی ہو۔ثقیف نے اسلام دشمنی میں کیا کیا نہیں کیا!لیکن جب انھوں نے خدمت نبویؐ میں حاضری کا قصد کیا اور ان کے قبولِ اسلام کی کی کچھ اُمید بندھی تو حضرت مغیرہ   بن شعبہؓ پھولے نہیں سمائے ۔وہ آپؐ کو خبر دینے کے لیے دوڑنے لگے ۔راستے میں ان سے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی ملاقات ہو گئی اور انھیں مغیرہؓ کے دوڑنے کا سبب معلوم ہوا تو کہنے لگے یہ تواتنی غیرمعمولی اور انتہائی مسرت بخش خبر ہے کہ اسے رسولؐ اللہ تک میں پہنچاؤں گا۔ آپؐ کو اطلاع ملی تو آپؐ نے بھی مسرت کا اظہار فرمایا ۔ایک لمحہ ٹھیر کر غور کریں کیا اس موقع پر حضوؐر کے ذہن میں سفر طائف کا دل دوز منظر گھوم نہ گیا ہوگا؟کیا آپؐ کے دل میں یہ بات نہ آئی ہوگی کہ یہی لوگ تھے جنھوں نے میری دعوت کو رد کر دیا تھا لیکن آپؐ نے ان کے ساتھ ایسا برتائو کیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

مدینہ میں وفدثقیف کے قیام کے دوران آپؐ برابر انھیں شرف باریابی سے نوازتے رہے اور ان کے پاس برابر جاتے رہے اور دین کی باتیں بتاتے رہے۔ آپؐ ان کے پاس خاصا وقت گزارتے ۔ان سے محبت و مودت کی گفتگو کرتے ۔ان کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کرتے اور انھیں دین کا فہم عطا کرتے ،یہاں تک کہ اللہ نے ان کے دل نرم کر دیے اور وہ مشرف بہ اسلام ہوگئے۔

  • دعا : مومن کا سب سے بڑا ہتھیار دعا ہے ۔جب تمام سہارے ٹوٹ جاتے ہیں تو سب سے بڑا سہارا یہی باقی رہتا ہے ۔ اسی کے نتیجے میں اللہ کی مددو نصرت شامل ہوتی ہے، اطمینانِ قلب میسر آتا ہے، اور ایک مومن راہِ خدا میں صبرواستقامت کے ساتھ جدوجہد کرسکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے اپنے رسولوںؑ کے ذریعے جو تعلیمات اور ہدایات بھیجی ہیں، ایک مسلمان سے مطلوب یہ ہے کہ بے کم و کاست انھیں اختیارکرے، ان پر خود عمل کرے اور اللہ کے دوسرے بندوں تک انھیں پہنچائے۔ یہ عمل انفرادی طور سے بھی انجام دیا جاسکتا ہے اور اجتماعی طور سے بھی۔ہرمسلمان کی ذمہ داری ہے کہ اپنی زندگی میں اس کا جن انسانوں سے بھی سابقہ پیش آئے اور وہ اس ہدایت ِ ربانی سے محروم ہوں، انھیں اس سے باخبر کرے اور اپنے قول اور عمل سے ’حق‘ کی شہادت دے۔ مسلمانوں سے اجتماعی طور پر بھی مطلوب ہے کہ ان میں سے ایک یا ایک سے زائد گروہ ایسے ضرور رہنے چاہییں جو اس کام کو اپنا مشن بنالیں اور منصوبہ بندی کے ساتھ اسے انجام دیں۔ قرآن و سنت کے بکثرت نصوص اس پر دلالت کرتے ہیں۔

جماعت اسلامی اور اقامتِ دین

اس دینی فریضے کی انجام دہی کے لیے بیسویں صدی عیسوی میں برصغیر کی مشہور دینی تحریک ’جماعت اسلامی‘ کا قیام عمل میں آیا۔ تحریک کے اکابر نے اس کام کی اہمیت، ضرورت اور وجوب پر قابلِ قدر لٹریچر تیار کیا ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ اس کام کے واجب اور مطلوب ہونے پر قرآن و سنت کی متعدد تعبیرات دلالت کرتی ہیں، مثلاً دعوت، تبلیغ، وصیت، شہادتِ حق، امربالمعروف ونہی عن المنکر، انذار و تبشیر اور اقامت ِ دین وغیرہ۔

جماعت اسلامی نے مذکورہ بالا تعبیرات میں سے ’اقامت ِ دین‘ کو اپنے دستور میں شامل کیا ہے اور اسے اپنا نصب العین قرار دیا ہے۔ اس کے نزدیک:

’اقامت ِ دین‘ سے مقصود دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں ہے بلکہ پور ے دین کی اقامت ہے خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے۔ نماز، روزہ اور حج و زکوٰۃ سے ہویا معیشت و معاشرت اورتمدن وسیاست سے۔ اسلام کا کوئی حصہ بھی غیرضروری نہیں ہے۔ پورے کا پورا اسلام ضروری ہے۔ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اس پورے اسلام کوکسی تجزیہ و تقسیم کے بغیر قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس کے جس حصے کا تعلق افراد کی اپنی ذات سے ہے، ہرمومن کو اسے بطور خود اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے، اور جس حصے کا قیام اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتا، اہلِ ایمان کو مل کر اس کے لیے جماعتی نظم اورسعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔

اگرچہ مومن کا اصل مقصد رضائے الٰہی کا حصول اور آخرت کی فلاح ہے،مگر اس مقصد کا حصول اس کے بغیرممکن نہیں ہے کہ دُنیا میں خدا کے دین کو قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لیے مومن کا عملی نصب العین اقامت دین اورحقیقی نصب العین وہ رضائے الٰہی ہے جو اقامت ِ دین کی سعی کے نتیجے میں حاصل ہوگی۔(دستور جماعت اسلامی، دفعہ ۴  (نصب العین)، ص ۱۴-۱۵)

جماعت اسلامی نے ’اقامت ِ دین‘ کی یہ تعبیر سورئہ شوریٰ کی درج ذیل آیت سے اخذ کی ہے:

شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ۝۰ۭ (الشوریٰ ۴۲:۱۳) اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے، جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیا تھا اور جسے (اے محمدؐ) اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم ؑ اور موسٰی اور عیسٰی ؑ کو دے چکے ہیں، اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجائو۔

پانچ اعتراضات

بعض حضرات جماعت اسلامی کے اس تصور پر مختلف اعتراضات کرتے ہیں اور چوں کہ جماعت کی اختیار کردہ تعبیر ’اقامت دین‘ سورئہ شوریٰ کی مذکورہ بالا آیت سے مستنبط ہے ، اس لیے ان کے بعض اعتراضات اس آیت کے سیاق میں بھی ہیں:

ان کا پہلااعتراض یہ ہے کہ ’’اس آیت میں دین قائم کرنے کا حکم پیغمبروں ؑ میں سے حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیم ؑ، حضرت موسٰی اور حضرت عیسٰی ؑ کے ناموں کی صراحت سے دیا گیا ہے۔ اس لیے دین سے مراد صرف وہ چیزیں ہوسکتی ہیں، جو ان انبیاؑ کے درمیان مشترک ہیں، اس لیے وہ یہاں مراد نہیں ہوسکتیں‘‘۔

دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ’’ جماعت اسلامی کے بانی مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ  (م:۱۹۷۹ء) نے اس آیت کی جو تفسیر کی ہے، وہ جمہور مفسرین سے مختلف ہے۔ تمام مفسرین نے اس آیت میں ’دین‘ کو صرف ایمانیات تک محدود رکھا ہے، جب کہ مولانا مودودیؒ اس میں دین کے تمام احکام و جزئیات کو شامل کرتے ہیں‘‘۔

تیسرا اعتراض یہ ہے کہ ’’یہ آیت مکّی دور میں نازل ہوئی تھی، اس لیے اس کا اطلاق زیادہ سے زیادہ صرف ان احکامِ دین پر کیا جاسکتا ہے، جو اس وقت تک نازل ہوچکے تھے۔ دیگر احکام کو اس میں شامل نہیں کیا جاسکتا‘‘۔

چوتھا اعتراض یہ ہے کہ ’’اقامت ِ دین کا حکم انفرادی طور پر ہے کہ ہرفرد اپنے طور سے دین پر عمل کرے۔ اس میں دوسروں کو دعوت دینے اور تبلیغ دین کے لیے اجتماعی جدوجہد کرنے کا مفہوم نہیں پایا جاتا‘‘۔

بعض حضرات نے پانچواں نکتہ یہ اُبھارنے کی کوشش کی ہے کہ ’’قرآن سے احکامِ دین کے استنباط اور ان کے نفاذ کے لیے قرآن کی نزولی ترتیب کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے‘‘۔

آیندہ سطور میں ان اعتراضات کا جائزہ لیا جائے گا۔

’دین‘ کا مفہوم

سورئہ شوریٰ کی مذکورہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے آپؐ کے واسطے سے آپؐ کے پیروکاروں سے فرمایا ہے کہ میں نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم نوحؑ، ابراہیم ؑ، موسٰی اورعیسیٰ ؑ کو بھی دیا گیا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ طریقہ ان انبیاؑ کے درمیان مشترک ہے۔ اسی مضمون کی ایک آیت سورئہ انعام میں ہے۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ انبیاؑ کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا ہے:

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ ہَدَى اللہُ فَبِہُدٰىہُمُ اقْتَدِہْ ۝۰ۭ (انعام ۶:۹۰) یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے، انھی کے راستے پر تم چلو۔

یہی مضمون بعض احادیث میں اس انداز سے مذکور ہے:

اَلْاَنْبِیَاءُ  اِخْوَ ۃُ  لِعَلَّاتٍ ، وَدِیْنُھُمْ وَاحِدٌ   انبیاؑ سب علّاتی بھائی ہیں ،ان کا دین ایک ہے۔(صحیح بخاری، کتاب الانبیاء، بَابُ قَوْلِ اللہِ وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ مَرْیَمَ: ۱۶۱۷؛ صحیح مسلم، کتاب الفضائل: ۱۴۵۔ علّاتی بھائی سے مراد ایک باپ کی کئی صلبی اولادیں ہیں، جو الگ الگ مائوں سے ہوں۔ ’علّاتی‘ کے بالمقابل لفظ ’اخیافی‘ آتا ہے جس سے مراد ایک ماں کی مختلف اولادیں ہیں، جو کئی باپوں سے ہوں)

لیکن قرآن کی بعض آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاؑ کو الگ الگ طریقے دیے گئے تھے، مثلاً سورئہ مائدہ میں تورات، انجیل اور قرآن کا تذکرہ کرنے کے بعد ان پر ایمان لانے والوں سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا۝۰ۭ(المائدہ ۵:۴۸) ہم نے تم میں سے ہرایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہِ عمل مقرر کی۔

مذکورہ دونوں طرح کی آیات میں یہ تطبیق دی گئی ہے کہ انبیاعلیہم السلام کا جو طریقہ مشترک ہے، اس کا تعلق ’اصولِ دین‘ سے ہے اور جس طریقے سے اشتراک نہیں ہے اس کا تعلق ’فروعِ دین‘ سے ہے۔ امام رازیؒ نے لکھا ہے:

بعض آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ انبیا و رُسل کے طریقے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اور کچھ آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے طریقے میں فرق ہے۔ (پھر اوّل الذکر کی مثال میں سورئہ شوریٰ کی آیت۱۳ اور سورئہ انعام کی آیت ۹۰ اور ثانی الذکر کی مثال میں سورئہ مائدہ کی آیت ۴۸ ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے) دونوں طرح کی آیات میں جمع و تطبیق دیتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ نوع اوّل کی آیات سے ان چیزوں کی طرف اشارہ ہے جو اصولِ دین سے تعلق رکھتی ہیں اورنوعِ ثانی کا اشارہ ان چیزوں کی طرف ہے، جن کا تعلق فروعِ دین سے ہے۔(النَّوْعُ الْاَوَّلُ مِنَ الْآیَاتِ  مَصْرُوْفٌ اِلٰی مَا یَتَعَلَّقُ بِاُصُوْلِ الدِّیْنِ ، وَالنَّوْعُ الثَّانِیْ ، مَصْرُوْفٌ اِلٰی مَا یَتَعَلَّقُ بِفُرْوْعِ الدِّیْنِ ، التفسیر الکبیر، رازی، المکتبہ التوفیقیۃ ، قاہرہ، مجلد۶، جز۱۲، ص ۱۱)

کیا ’دین‘ سے مراد صرف ’ایمانیات‘ ہیں؟

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اصولِ دین ، جو انبیاؑ کے درمیان مشترک ہیں، ان کے دائرہ میں صرف ایمانیات و عقائد آتے ہیں، یا احکام و طاعات میں سے بھی بعض چیزیں ان میں شامل ہیں؟ قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمانیات کے علاوہ بعض دیگرچیزیں بھی ان میں شامل ہیں۔ مثال کے طور پر ہرنبی ؑ نے اپنی اُمت کو صرف اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس لیے ’عبادتِ الٰہی‘، اصولِ دین میں سے ہے۔ البتہ اس کے طریقے مختلف اُمتوں میں جدا جدا ہیں، اس لیے ان کا شمار فروعِ دین میں ہوگا اور ہر اُمت اپنے اپنے طریقے کے مطابق عبادتِ الٰہی کی پابند ہوگی۔

آیت زیربحث کی تفسیر میں تمام مفسرین نے لکھا ہے کہ اس آیت میں ’دین‘ سے مراد وہ اُمور ہیں جوانبیاؑ کے درمیان مشترک ہیں۔ بعض مفسرین نے ان امور کی تفصیل بیان کی ہے اور ان میں ایمانیات کے علاوہ دیگرچیزوں کو بھی شامل کیا ہے۔ ذیل میں دو علما کے بیانات درج کیے جاتے ہیں:

علامہ ابن العربیؒ کی تفسیر

علامہ قاضی ابوبکر ابن العربی الاندلسی (م: ۵۴۲ھ) فقہ مالکی کے مشہور عالم ہیں۔ ان کی کتاب احکام القرآن فقہی تفاسیر میں اہم مقام کی حامل ہے۔ اسے تمام فقہی مسالک کے علما کے درمیان مقبولیت حاصل ہے۔ اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں انھوں نے لکھا ہے:

اس سے مراد وہ اصول ہیں، جن میں کسی شریعت کا اختلاف نہیں ہے۔ یعنی توحید، نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج، نیک اعمال کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا تقرب، قلب اور اعضاء و جوارح کے ذریعے اس کی جانب میلان، سچائی، عہد کی پاس داری، امانت کی ادایگی، صلہ رحمی، کفر، قتل اور زنا کی حُرمت ، مخلوق کو اذیت نہ پہنچائی جائے، خواہ وہ کیسے ہی کام کریں، جانور پر ظلم نہ کیا جائے، خواہ وہ کوئی بھی ہو،وقار کے خلاف گھٹیا کام کرنے کی حُرمت۔ یہ تمام چیزیں سب سے زیادہ مطلوب ہیں۔ ان کی حیثیت ’ایک دین‘ کی ہے اور ہرملّت کا اس میں اشتراک ہے۔ جتنے بھی انبیاء آئے ہیں ان کے درمیان ان امور میں کوئی اختلاف نہیں رہا ہے۔ ان کے علاوہ دیگر اُمور میں شریعتوں میں اختلاف رہا ہے۔ مختلف زمانوں میں جس جس چیز کی مصلحت اور حکمت متقاضی ہوئی، اللہ تعالیٰ نے مختلف اُمتوں کے لیے وہ چیز مشروع کی۔(احکام القرآن، ابن العربی، مطبعہ السعادۃ، مصر، ۲/۲۰۵۔ ٹھیک یہی تشریح علامہ قرطبیؒ (م: ۶۷۱ھ) نے بھی کی ہے۔ ملاحظہ کیجیے: الجامع لاحکام القرآن، قرطبی، الھیئۃ المصریۃ العامۃ، مصر، ۱۹۸۷ء، ۱۶/۱۱)

شاہ ولی اللہ کا موقف

شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (م: ۱۱۷۶ھ) برصغیر ہند میں بارھویں صدی کے مشہور عالم ہیں۔ ان کا شمار مجدددین اُمت میں ہوتا ہے۔ ان کی تصنیف حجۃ اللہ البالغہ  کو آفاقی شہرت حاصل ہے۔ اس میں انھوں نے زیربحث موضوع پر تفصیل سے اظہارِ خیال کیا ہے۔ انھوں نے ایک باب قائم کیا ہے: باب بیان اصل الدین واحد والشرائع والمناھج مختلفۃ (اس چیز کا بیان کہ دین کی اصل ایک ہے اور شرائع و مناہج مختلف ہیں)۔ اس باب کی ابتدا میں انھوں نے دونوں طرح کی آیات درج کی ہیں۔ انبیا ؑ کے درمیان اشتراک ظاہر کرنے والی آیات میں سورئہ شوریٰ کی آیت۱۳ کے علاوہ یہ آیت بھی درج کی ہے ، جس میں اللہ تعالیٰ پیغمبروںؑ سے خطاب کرکے فرماتا ہے:

وَاِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّــقُوْنِ۝۵۲  (المؤمنون۲۳:۵۲) اور یہ تمھاری اُمت ایک ہی اُمت ہے اور میں تمھارا رب ہوں، پس مجھی سے تم ڈرو۔

اور انبیاؑ کے درمیان اختلاف ظاہر کرنے والی آیات میں سورئہ مائدہ کی آیت۴۸ کے علاوہ یہ آیت بھی درج کی ہے:

لِكُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا ہُمْ نَاسِكُوْہُ  (الحج ۲۲:۶۷) ہراُمت کے لیے ہم نے ایک طریق عبادت مقرر کیا ہے جس کی وہ پیروی کرتی ہے۔

پھر لکھا ہے:

جان لو کہ دین کی اصل ایک ہے جس پر انبیاعلیہم السلام متفق ہیں۔ اختلاف صرف شرائع و مناہج میں ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ تمام انبیا ؑ کا اس بات پر اجماع ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے، صرف اسی سے مدد چاہی جائے۔ اسے ان تمام چیزوں سے پاک قرار دیا جائے جو اس کی شان کے منافی ہیں، اس کے ناموں میں راہِ حق سے انحراف نہ کیا جائے اور یہ کہ اللہ کا اپنےبندوں پر یہ حق ہے کہ اس کی خوب تعظیم کریں اور اس معاملے میں ذرا بھی کوتاہی نہ کریں۔ اس کے سامنے سرتسلیم خم کریں، اپنے دلوں کو اس کی جانب مائل کریں۔ اس کے شعائر کے ذریعے اس کا تقرب حاصل کریں، اور یہ کہ اس نے تمام واقعات کو ان کے وقوع سے پہلے مقدر کردیا ہے، اور یہ کہ اللہ کے ایسے فرشتے ہیں جو اس کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جس چیز کا بھی انھیں حکم دیا جاتا ہے، اسے کرگزرتے ہیں۔ اور یہ کہ وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنی کتاب نازل کرتا ہے اور انسانوں پر اپنی اطاعت فرض قرار دیتا ہے۔ اور یہ کہ قیامت برحق ہے، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا برحق ہے، جنّت برحق ہے، جہنّم برحق ہے۔ اسی طرح انبیاؑ کا نیکی کے مختلف کاموں (انواع البر) پر بھی اجماع ہے، مثلاً طہارت، نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج اور طاعات کے قبیل کے نفلی کام، مثلاً دُعا، ذکر، تلاوتِ کتابِ الٰہی کے ذریعے اللہ کا تقرب حاصل کرنا۔ اسی طرح نکاح، حُرمت ِ زنا، لوگوں کے درمیان قیامِ عدل،ایک دوسرے پر ظلم کی حُرمت، اہلِ معاصی پر حدود کے نفاذ، اللہ کے دشمنوں کے ساتھ جہاد، اللہ کا کلمہ بلند کرنے اور اس کےدین کی تبلیغ و اشاعت کے لیے جدوجہد پر بھی تمام انبیاؑ کا اجماع ہے۔ یہ ہے دین کی اصل۔(حجۃ    اللہ البالغہ، شاہ ولی اللہ، کتب خانہ رشیدیہ، دہلی، ۱/۸۶-۸۷)

شاہ ولی اللہ مزید لکھتے ہیں:

اسی لیے قرآنِ عظیم نے ان چیزوں کی حقیقت سے کوئی بحث نہیں کی، الاماشاء اللہ۔ اس لیے کہ جن لوگوں کے درمیان ان کی زبان میں قرآن نازل ہورہا تھا، ان کے درمیان وہ چیزیں مسلّم تھیں۔ اختلاف صرف ان چیزوں کی صورتوں اور مظاہر میں ہے، مثلاً حضرت موسٰی کی شریعت میں نمازکے لیے بیت المقدس کی طرف رُخ کرنے کا حکم تھا اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں کعبہ کی طرف رُخ کرنے کا حکم ہوا۔ حضرت موسٰی کی شریعت میں زانی کے لیے رجم کا حکم تھا اور ہماری شریعت میں شادی شدہ زانی کے لیے رجم اور غیرشادی شدہ زانی کے لیے کوڑوں کی سزا مقرر ہوئی۔ حضرت موسٰی کی شریعت میں صرف قصاص کا حکم تھا اور ہماری شریعت میں قصاص اوردیت دونوں کا حکم دیا گیا۔ اسی طرح کا اختلاف دونوں شریعتوں میں عبادات کے اوقات، آداب اور ارکان کے معاملے میں ہے۔(ایضاً، ۱/۸۷)

لفظ ’الدین‘ اور جمہور مفسرین

ایک دعویٰ یہ کیا گیا ہے کہ ’’قدیم و جدید تمام مفسرین نے زیربحث آیت میں لفظ ’الدین‘ کااطلاق صرف ایمانیات پر کیا ہے، جن میں تمام شریعتوں کا اتحاد ہے، دیگر چیزوں کوشامل نہیں کیا گیا ہے‘‘۔یہ دعویٰ محتاجِ ثبوت ہے۔ اس کے جائزے کے لیے ذیل میں قدیم مشہور مفسرین کی کتابوں سے اس آیت کی تشریحات نقل کی جاتی ہیں:

حضراتِ تابعین میں مجاہدؒ (م:۱۰۰ھ) ، قتادہؒ (م: ۱۱۸ھ) اورمقاتل ؒ (م:۱۵۰ھ) کو علمِ تفسیرکے میدان میں شہرت حاصل ہے۔ ان کے تفسیری اقوال مختلف کتب ِ تفسیر میں منقول ہیں۔ مقاتلؒ فرماتے ہیں کہ ’دین‘ سے مراد توحید ہے۔(زاد المسیر فی علم التفسیر، ابن الجوزی، المکتب الاسلامی، بیروت،۱۹۸۷ء، ۷/۲۷۷)

 قتادہ کا ایک قول یہ ہے کہ ’دین‘ یہاں توحید اور اخلاص اللہ کے معنٰی میں ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ دین سے مراد یہ ہے کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حلال کیا ہے اسے حلال سمجھا جائے اور جس چیز کو حرام قرار دیا ہے، اسے حرام سمجھا جائے۔(جامع البیان فی تفسیر ای القرآن ، ابوجعفر محمد بن جریر طبری،المطبعۃ الکبریٰ، مصر ، ۱۳۴۸ھ، ۲۵/۱۰)

مجاہد ؒ آیت ِ زیربحث کی تفسیرمیں فرماتے ہیں:

لَمْ یَبْعَثِ  اللہُ نَبِیًّا  قَــطُّ  اِلَّا  وَصَّاہُ   بِـاِقَامَۃِ الصَّلاَۃِ   وَ اِیْتَاءِ الزَّکٰوۃِ   وَالْاِقْرَارِ لِلہِ بِالطَّاعَۃِ ، فَذٰلِکَ دِیْنُہُ الَّذِیْ  شَـَرعَ   لَھُمْ   اللہ نے جس نبی کو بھی بھیجا ہے اسے حکم دیا ہے کہ نماز قائم کی جائے، زکوٰۃ ادا کی جائے اور اللہ کی اطاعت کا اقرارکیا جائے۔ یہ ہے اللہ کا دین جو اس نے ان کے لیے مقرر کیا ہے۔(معالم التنزیل، بغوی، بر تفسیر خازن، مطبعۃ التقدم العلمیۃ، مصر، ۱۳۴۹ھ، ۶/۹۹)

اب مختلف زمانوں سے تعلق رکھنے والے چند مفسرین کا ذکر کرتےہیں:

  • زمخشری، ابوالقاسم جار اللہ محمود بن عمر (م: ۵۳۸ھ)
  • قرطبی، ابوعبداللہ محمد بن احمد الانصاری (م: ۶۷۱ھ)
  • نسفی، ابوالبرکات عبداللہ بن احمد (م: ۷۱۰ھ)
  • خازن، علاء الدین علی بن محمد بن ابراہیم البغدادی (م: ۷۴۱ھ)
  • ابوالسعود، محمد بن محمد بن مصطفیٰ العمادی (م: ۹۸۲ھ)
  • آلوسی، شہاب الدین السیّد محمود البغدادی (م: ۱۲۷۰ھ)

ان حضرات نے ’دین‘ کی تشریح ان الفاظ میں کی ہے:

ھُوَ تَوْحِیْدُ  اللہِ  وَطَاعَتُہٗ  وَالْاِیْمَانُ بِرُسُلِہٖ وَکُتُبِہٖ وَ بِیَوْمِ  الْجَزَاءِ  وَسَائِرِ مَا یَکُوْنُ الرَّجُلُ بِـاِقَامَتِہٖ  مُسْلِمًا / مُؤْمِنًا    اس سے مراد ہے اللہ کی وحدانیت کااقرار، اس کی اطاعت، اس کے رسولوں،کتابوں اور یومِ جزا پر ایمان اور ان تمام کاموں کی انجام دہی جن پر اس کا مسلم /مومن ہونا موقوف ہے۔(الکشاف عن حقائق التنزیل، زمخشری ، مطبع مصطفیٰ البابی، الحلبی، مصر، ۱۹۸۳ء، ۳/۴۶۳۔ الجامع لاحکام القرآن، قرطبی، ۱۹۸۷، ۱۶/۱۰۔ مدارک التنزیل، نسفی، مع الشرح الاکلیل، مطبع اکلیل، بھرائج، ۶/۱۴۹؛ لباب التاویل فی معانی التنزیل، خازن ۶/۹۹؛ ارشاد العقل السلیم الٰی مزایا الکتاب الکریم برحاشیہ تفسیر کبیر، المطبعۃ العامۃ، مصر ، ۷/۶۶۰؛ روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم السبع المثانی، آلوسی، ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ، مصر، ۲۵/۲۱۔ اس عبارت کا آخری لفظ زمخشری، قرطبی، خازن اورنسفی نے ’مسلم‘ اور ابوالسعود اور آلوسی نے ’مومن‘ استعمال کیا ہے۔)

ان مفسرین نے ’دین‘ کے مفہوم میں توحید اور ایمانیات کے ساتھ ’اطاعت ِ الٰہی‘ کو بھی شامل کیا ہے اور اس کا اطلاق ان تمام اعمال پر بھی کیا ہے جن کی انجام دہی مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہے۔ چند اور مفسرین کے اقوال ملاحظہ ہوں:

قاضی بیضاوی (م: ۶۸۵ھ) لکھتے ہیں:

ھُوَ الْاِیْمَانُ   بِـمَا  یَجِبُ  تَصْدِیْقُہٗ  وَالطَّاعَۃُ  فِیْ  أَحْکَامِ اللہِ  اس سے مراد یہ ہے کہ جن چیزوں کی تصدیق ضروری ہے ان پر ایمان لایا جائے اور احکامِ الٰہی کی اطاعت کی جائے۔ (انوارالتنزیل واسرار التاویل، بیضاوی، داراحیاء التراث، العربی، بیروت، ۵/۶۸)

علامہ ابن کثیرؒ (م: ۷۷۴ھ) نے لکھا ہے:

وہ دین، جسے لے کر تمام انبیاؑ آئے ہیں،یہ ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور کسی کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرایا جائے، جیساکہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: ’’ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا اسے وحی کی کہ کوئی معبودنہیں سواے میرے، اس لیے صرف میری عبادت کرو‘‘۔ اور حدیث میں ہے: ’’ہم انبیاؑ کے درمیان قدر مشترک یہ ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے، اگرچہ ان کے شرائع اور مناہج میں اختلاف ہے۔ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: ہم نے تم میں سے ہرایک کے لیے شریعت اور منہاج مقرر کر دیا ہے‘‘۔(تفسیر القرآن العظیم ، ابن کثیر، المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ، مصر، ۱۹۳۷، ۴۰/۱۰۹)

علامہ شوکانی ؒ(م: ۱۲۵۰ھ) فرماتے ہیں:

اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ اَیْ تَوْحِیْدَ اللہِ   وَالْاِیْمَانَ  بِہٖ وَطَاعَۃَ  رُسُلِہٖ  وَقَبُوْلَ  شَـرَائِعِہٖ ، دین کا مطلب یہ ہے: اللہ کی وحدانیت کا اقرار، اس پر ایمان، اس کے رسولوں کی اطاعت اور اس کے احکام پر عمل۔(فتح القدیر، الجامع  بین فنّی الروایۃ والدرایۃ من علم التفسیر ، شوکانی، دارالمعرفۃ، بیروت، ۴/۵۳۰)

علامہ آلوسی (م: ۱۲۷۰ھ) کا قول اُوپر گزر چکا ہے۔ زیربحث آیت کے ذیل میں ہی انھوں نے دوسری جگہ لکھا ہے:

مَا  مِنْ نَبِیٍّ  اِلَّا وَھُوَ  مَأْمُوْرٌ  بِـمَا  أمِرُوْا  بِہٖ   مِنْ اِقَامَۃِ  دِیْنِ  الْاِسْلَامِ وَھُوَ التَّوْحِیْدُ  وَمَا لَا  یَخْتَلِفُ بِاخْتِلَافِ الْاُمُمِ وَتَبَدّلِ الْأَعْصَارِ مِنْ اُصُوْلِ الشَّـرَائِعِ  وَالْاَحْکَامِ  ہرنبی ؑ کو وہی حکم دیا گیا جو تمام انبیاؑ کو دیا گیا تھا، یعنی دین اسلام کی اقامت۔ دین سے مراد ہے توحید اور وہ چیزیں جو اُمتوں اور زمانوں کے بدلنے سے نہیں بدلتیں، یعنی اصول شرائع و احکام۔(روح المعانی، ۲۵/۲۰)

علامہ رشید رضا مصری (م: ۱۳۵۴ھ) فرماتے ہیں:

وَجُمْلَۃُ الْقَوْلِ اِنَّ دِیْنَ   اللہِ  عَلٰی ألْسِنَۃِ أَنْبِیَائِہٖ   وَاحِدٌ  فِیْ  أُصُوْلِہٖ  وَمَقَاصِدِہٖ ،  وَھِیَ تَوْحِیْدُ اللہِ  وَتَنْزِیْہُہٗ  وَ اِثْبَاتُ صِفَاتِ الْکَمَالِ لَہٗ   وَالْاِخْلَاصُ لَہٗ  فِی الْأُعمَالِ، وَالْاِیْمَانُ  بِالْیَوْمِ  الْآخِرِ ، وَالْاِسْتِعْدَادُ   لَہٗ  بِالْعَمَلِ الصَّالِـحِ  خلاصہ یہ کہ اللہ کا دین اس کے انبیاؑ کی زبان میں اپنے اصول و مقاصد کے اعتبار سے ایک رہا ہے۔ وہ اصول یہ ہیں: اللہ کی وحدانیت کا اقرار، اس کی پاکی بیان کرنا، اس کے لیے صفاتِ کمال کا اثبات، اعمال میں اس کے لیے اخلاص، یومِ آخرت پر ایمان اور عملِ صالح کے ذریعے اس کے لیے تیاری۔(تفسیر المنار، ۶/۴۱۶-۴۱۷)

مفسرین کی اس فہرست میں قاضی ابن العربی مالکی اور شاہ ولی اللہ کو بھی شامل کرلینا چاہیے، جن کے اقتباسات اُوپر گزر چکے ہیں۔ آخر میں امام فخر الدین رازیؒ (م: ۶۰۴ھ) کی راے بھی نقل کردینی ضروری معلوم ہوتی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے:

ضروری ہے کہ یہاں دین سے ، ان اعمال (جن کا انسانوں کو مکلف کیا گیا ہے) اور احکام کے علاوہ کوئی دوسری چیز مراد ہو، اس لیے کہ ان میں باہم اختلاف اور تفاوت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے شریعت اور منہاج مقرر کر دیا ہے‘‘۔ اس لیے ضروری ہے کہ دین سے مراد وہ اُمور ہوں جو شریعتوں کے بدلنے سے نہیں بدلتے۔ اور وہ ہیں: اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوںـؑ اور یومِ آخر پر ایمان۔(التفسیر الکبیر، مجلد ۱۴، جز ۲۷، ص ۱۳۸)

اس اقتباس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام رازیؒ کے نزدیک دین سے مراد صرف ایمانیات ہیں۔ لیکن آگے چل کر انھوں نے لکھا ہے:

اَلْمُرَادُ  ھُوَ  الْأَخْذُ   بِالشَّرِیْعَۃِ  الْمُتَّفَقِ  عَلَیْھَا  بَیْنَ الْکُلِّ  اس سے مراد اس شریعت پر عمل کرنا ہے، جس پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام رازیؒ کے نزدیک اصولِ دین میں ایمانیات کے علاوہ اصولِ شرائع بھی شامل ہیں۔

مذکورہ بالا اقوالِ مفسرین پر دوبارہ نظر ڈالی جائے۔ ان سے صاف طور پر یہ دعویٰ غلط قرار پاتاہے کہ جمہور مفسرین نے آیت ِ زیربحث میں ’دین‘ سے صرف ایمانیات مراد لی ہیں۔ جمہور مفسرین نے یہ بات کہی ہے کہ اس آیت میں دین سے مراد اصولِ دین ہیں۔ فروعِ دین، جو مختلف اُمتوں میں الگ الگ ہیں اور وہ ان کی مکلف ہیں، وہ یہاں مراد نہیں ہیں۔ البتہ واضح رہے کہ ان مفسرین کے نزدیک یہ اصولِ دین زندگی کے تمام پہلوئوں کو محیط ہیں۔ اس کا اظہار ان کی تشریحات میں استعمال ہونے والے ان الفاظ سے ہوتا ہے: اللہ کی عبادت، اللہ کی اطاعت، اللہ کے رسولوں کی اطاعت ، اللہ کے احکام کی اطاعت،اللہ کے احکام پر عمل، اصولِ شرائع و احکام وغیرہ۔

دین اور شریعت کا باہمی تعلق

اُوپر کی بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ سورئہ شوریٰ کی آیت میں ’دین‘ سے مراد اصولِ دین ہیں اور فروعِ دین کا تذکرہ سورئہ مائدہ کی آیت ۴۸ میں ہے، جہاں انھیں شرعۃ و منہاج کہا گیا ہے۔ انھیں ’شریعت‘ بھی کہا جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا دین اور شریعت کے درمیان کوئی تعلق ہے یا نہیں؟ کیا دین پر عمل ایک چیز ہے اور شریعت پر عمل دوسری چیز؟ کیا دین پر عمل کا حکم دیا جائے تو کچھ چیزیں مراد ہوں گی اور شریعت پر عمل کا حکم دیا جائے تو کچھ دیگرچیزیں مراد ہوں گی؟بہ الفاظ دیگر کیا شریعت پر عمل کرنے سے دین پر عمل کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے؟

ان سوالات کا جواب یہ ہے کہ ہراُمت ان ’فروعِ دین‘ پر عمل کی پابند ہے جن کا اسے مکلّف کیا گیا ہے اور جن فروعِ دین کا دیگر اُمتوں کو مکلّف کیا گیا ہے ان پر عمل اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔ گویا ہراُمت اپنی شریعت پر عمل کی مکلّف ہے۔ وہ اپنی شریعت پر عمل کرے گی تو حقیقت میں اپنے دین پر عمل کرنے والی ہوگی۔

علامہ آلوسیؒ آیت ِ مائدہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

کوئی اُمت اپنی شریعت سے تجاوز نہیں کرسکتی۔ حضرت موسٰی کی بعثت سے حضرت عیسٰیؑ کی بعثت تک جو اُمت تھی، اس کی شریعت، احکامِ تورات تھے۔ حضرت عیسٰی ؑ اور حضرت احمدعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثتوں کے درمیان کی اُمت کی شریعت، انجیل میں مذکور تھی، اور اب تمھاری شریعت (اے اہلِ ایمان) صرف قرآن کی شکل میں موجود ہے، اس لیے اس پر ایمان لائو اور اس کے احکام پر عمل کرو۔(روح المعانی، ۶/۱۵۳)

اس بات کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ تمام انبیاؑ نے (بہ شمول ان انبیاءؑ کے جن کی صراحت سورئہ شوریٰ کی آیت میں موجود ہے) اپنی اُمتوں کو اللہ کی عبادت کا حکم دیا ہے۔ اس اعتبار سے عبادتِ الٰہی ’اصولِ دین‘ میں سے ہوئی۔ عبادت کے طریقے ہر اُمت کو جدا جدا بتائے گئے ہیں۔یہ طریقے ’فروعِ دین‘ میں سے ہوئے۔ ایک اُمت ان طریقوں کے مطابق، جن کی اسے تعلیم دی گئی ہے، اللہ کی عبادت کرے تو وہ اس ’فرعِ دین‘ پربھی عمل کرنے والی ہوئی اور اس ’اصلِ دین‘ پر بھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ شریعت دین میں شامل ہے۔ شریعت پر عمل گویا دین پر عمل کرنا ہے۔ قدیم مفسرین میں علامہ قرطبیؒ نے شریعت کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:

الشَّـرِیْعَۃُ   مَا  شَـرَعَ  اللہُ  لِعِبَادِہٖ    مِنَ  الدِّیْنِ (تفسیر قرطبی، ۶/۲۱۱) شریعت سے مراد دین کی وہ چیزیں ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے مشروع کیا ہے۔

دین اور شریعت کے درمیان اسی تعلق کی وضاحت کے لیے بسااوقات دونوں ہم معنٰی استعمال ہوتے ہیں۔ امام راغب اصفہانیؒ (م:۵۰۲ھ) فرماتے ہیں:

وَاسْتُعیْرَ  لِلشَّـرِیْعَۃِ   لفظ دین کا استعمال شریعت کے لیے بھی ہوتا ہے۔(راغب اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن، مصر ،۱۳۲۴ھ، ص ۱۷۵)

یہی بات علامہ رشید رضا مصری نے یوں کہی ہے:

اِنَّ الشَّـرِیْعَۃِ  اِسْمٌ  لِلْاَحْکَامِ الْعَمَلِیَّۃِ  وَ اَنَّھَا  أَخَصُّ  مِنْ کَلِمَۃِ  الدِّیْنِ  وَاِنَّـمَا  تَدْخُلُ  فِیْ مُسْمَّی  الدِّیْنِ مِنْ حَیْثُ  اِنَّ  الْعَامِلَ بِھَا یَدِیْنُ اللہَ تَعَالٰی  بِعَمَلِہٖ وَیَخْضَعُ لَہٗ وَیَتَوَجَّہُ  اِلَیْہِ مُبْتَغِیًا  مَرْضَاتہٗ  وَثَوَابَہٗ  بِـاِذْنِہٖ (تفسیر المنار، ۶/۴۱۴) شریعت عملی احکام کا نام ہے۔ یہ لفظ ’دین‘ سے زیادہ خاص ہے، بلکہ وہ دین کے مفہوم میں داخل ہے، بایں طور کہ اس پرعمل کرنے والا اپنے عمل کے ذریعے اللہ کی اطاعت کرتا ہے، اس کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے اور اس کی خوش نودی اور ثواب حاصل کرنے کے لیے اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔

یہی نہیں، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی اُمت کے لیے اپنی ’شریعت‘ پر عمل کے بغیر’دین‘ پر عمل ممکن ہی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ’صلوٰۃ‘ (نماز) جو عبادتِ الٰہی کا ایک مظہر ہے، اصولِ دین میں سے ہے۔ اس کی تعلیم ہر پیغمبرؑ نے اپنی اُمت کو دی ہے۔ اسی طرح ہراُمت کی شریعت میں اس کی ادایگی کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے۔ اب کسی اُمت کے لیے اپنی شریعت میں بتائے گئے ادایگی نماز کے طریقے کی پابندی کیے بغیر نماز کی اقامت ممکن ہی نہیں۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اس موضوع پر حجۃ اللہ البالغۃ  میں تفصیل سے بحث کی ہے۔ انھوں نے بیان کیا ہے کہ ’’دین کی اصل ایک ہے جس پر تمام اُمتوں کا اتفاق ہے، البتہ ان کے شرائع و مناہج مختلف ہیں (ان کے کچھ اقتباسات گذشتہ صفحات میں گزر چکے ہیں)۔ ان میں اختلاف کی حکمتوں پر بھی انھوں نے مفصل بحث کی ہے۔ اس بحث میں انھوں نے زور دے کر یہ بات کہی ہے کہ اُمتیں اپنے اپنے شرائع و مناہج پر عمل کی پابند ہیں۔ کسی اُمت کے لیے اپنی شریعت پر عمل کے بغیر دین پر عمل ممکن ہی نہیں ہے:

وَالْحَقُّ  یَعْلَمُ  اَنَّ الْقَوْمَ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ  الْعَمَلَ بِالدِّیْنَ  اِلَّا بِتِلْکَ  الشَّـرَائِعِ وَالْمَنَاھِجِ (حجۃ اللہ البالغۃ، ۱/۹۲) یہ حقیقت جان لینی چاہیے کہ لوگوں کے لیے شرائع و مناہج پر عمل کے بغیر دین پر عمل کرنا ممکن ہی نہیں۔

جب دین پر عمل شریعت پرعمل کے بغیر ممکن ہی نہیں تو اس سے خو د بہ خود یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ دین پر عمل کا حکم دیا جائے تو اس سے شریعت پر عمل بھی لازم ہوجاتا ہے۔ اسی وجہ سے بعض مفسرین نے صراحت کی ہے کہ سورئہ شوریٰ کی آیت میں اقامت ِ دین کے حکم کا مطلب دین کے اصول اور فروع سب پر عمل کا حکم ہے۔علامہ عبدالرحمٰن بن ناصرالسعدی (م:۱۳۷۶ھ) موجودہ دور میں عالمِ عرب کے ایک مشہور مفسر ہیں۔ اصولِ تفسیر، فقہ و اصولِ فقہ،عقائد اور دیگر موضوعات پر ان کی قابلِ قدر تصانیف ہیں۔ ان کی تفسیر تیسیر الکریم الرحمٰن فی تفسیر کلام المنان، سات جلدوں میں ۱۴۰۴ھ میں الرئاسۃ العامہ لادارات البحوث العلمیۃ والافتاء والدعوۃ والارشاد ریاض، سعودی عرب سے شائع ہوئی ہے۔انھوں نے آیت ِ شوریٰ کی تفسیر میں لکھا ہے:

(اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ)  أَیْ  أَمْرَکُمْ  أَنْ  تُقِیْمُوْا  جَـمِیْعَ  شَـرَائِعِ الدِّیْنِ أُصُوْلِہٖ   وَفُرُوْعِہٖ (تیسیرالکریم الرحمٰن، ۶/۵۹۹) کہ دین قائم کرو، یعنی اللہ نے تمھیں حکم دیا ہے کہ تمام شرائع دین، یعنی دین کے اصول اور فروع سب قائم کرو۔

اختلافِ شرائع کا سبب

شریعتوں کے مختلف ہونے کے کیا اسباب ہیں؟ اس سلسلے میں مفسرین نے دو باتیں لکھی ہیں: ایک تو یہ کہ اس اختلاف کے ذریعے اللہ تعالیٰ بندوں کی آزمایش کرتا ہے کہ وہ اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں یا نہیں؟ دوسرے یہ کہ شریعتوں کا مختلف ہونا حالات کی بنا پر ہوتا ہے۔بعض حالات میں اللہ تعالیٰ ایک حکم نازل کرتا ہے لیکن جب ان میں تبدیلی آجاتی ہے تو اسی کے مطابق اللہ تعالیٰ اس حکم میں بھی تبدیلی کردیتا ہے۔ علامہ زمخشریؒ نے آیت ِ مائدہ کی جو تشریح کی ہے، اس میں یہ دونوں باتیں آگئی ہیں:

لِیَبْلُوَکُمْ فِیـْمَا  آتَاکُمْ مِنَ الشَّـرَائِعِ  الْمُخْتَلِفَۃِ  ، ھَلْ تَعْمَلُوْنَ  بِھَا  مُذْعِنِیْنَ مُعْتَقِدِیْنَ  أَنَّھَا  مَصَالِـحُ  قَدِ  اخْتُلِفَ  عَلٰی حَسَبِ الْأَحْوَالِ  وَالْأَوْقَاتِ، مُعْتَرِفِیْنَ بِأَنَّ  اللہَ لَمْ یَقْصِدُ  بِاخْتِلَافِھَا  اِلَّا  مَا  اقْتَضَتْہُ  الْحِکْمَۃُ  ، أَمْ  تَتَّبِعُوْنَ  الشُّبَہَ  وَتُفَرِّطُوْنَ فِی الْعَمَلِ (کشاف، ۱/۶۱۸) تاکہ تم کو آزمائے، کہ اس نے جو مختلف شریعتیں تم کو دی ہیں ، کیا ان پر عمل کرتے ہو، اس اعتقاد کے ساتھ کہ یہ مختلف شریعت درحقیقت مصالح ہیں جن میں حالات اور زمانوں کے لحاظ سے فرق ہے ، اور اس اعتراف کے ساتھ کہ ان کے اختلاف اللہ تعالیٰ کا مقصد تقاضاے حکمت کی تکمیل ہے، یا شبہات میں پڑے رہتے ہو اور عمل میں کوتاہی کرتے ہو۔

اختلافِ شرائع کے سلسلے میں ایک بات یہ بھی کہی جاسکتی کہ اس کا ایک مقصد شریعت کا تشخص قائم رکھنا ہے۔ اس توجیہہ کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے ان احکام کے اسرار معلوم کیے جاسکتے ہیں، جو آپؐ نے محض یہود کے ’تشبہ‘ سے بچنے کے لیے دیے تھے۔

دین کے ’مکمل‘ اور ’ناقص‘ ہونے کی بحث

بعض حضرات کی جانب سے ایک بات یہ کہی گئی ہے کہ سورئہ شوریٰ کی آیت میں الدین  کو صرف ’اساسیاتِ دین‘ کے معنی میں لینا ضروری ہے، اسے ’مکمل دین‘کے معنٰی میں نہیں لیا جاسکتا، کیوں کہ تمام انبیاؑ کو الدین   قائم کرنے کا حکم ملا تھا ، مگر حضرت موسٰی کے سوا دوسرےپیغمبروں کو سرے سے سیاسی اور قانونی احکام دیے ہی نہیں گئے تھے۔یہ دلیل بے بنیاد ہے۔ دین کے بارے میں ’مکمل‘ اور ’ناقص‘ کی بحث مہمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاؑ کےواسطے سے اپنے بندوں کو جو احکام دیے ہیں ، ان کے لیے ان سب پر عمل ضروری ہے۔اس نے اپنے جس نبی کو جتنے احکام دیے، ان کی اُمت کے لیے وہی مکمل دین تھا۔ امام رازیؒ نے اس نکتے کی وضاحت بہت اچھے انداز میں کی ہے۔ امام قفالؒ کے حوالے سے فرماتے ہیں:

دین کبھی ناقص نہیں تھا۔ وہ ہمیشہ کامل رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر زمانے میں جو شریعتیں نازل کی تھیں، وہ اپنے وقت میں کامل تھیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ یہ بھی جانتا تھا کہ جو چیز آج کامل ہے، وہ آیندہ کامل نہیںرہے گی۔ اس لیے وہ ان میں سے بعض چیزوں کو منسوخ کرتا اور بعض چیزوں کا اضافہ کرتا رہتا تھا۔ آخری زمانے میں اس نے مکمل شریعت نازل فرمائی اور اس کو قیامت تک باقی رکھنے کا فیصلہ فرمایا۔ حاصل یہ کہ شریعت ہمیشہ کامل تھی۔ پہلے کی شریعتیں ایک مخصوص زمانے تک کے لیے کامل تھیں اور شریعت ِ محمدیؐ  قیامت تک کے لیے کامل ہے۔(تفسیر کبیر، ۳/۳۶۸)

تکمیلِ دین کا مفہوم

سورئہ مائدہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۝۰ۭ (المائدہ ۵:۳) آج میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کرلیا۔

اس آیت میں تکمیلِ دین سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں۔ ابن الجوزیؒ نے پانچ اور ابن العربیؒ نے سات اقوال کا ذکر کیا ہے۔(زاد المیسر، ۲/۲۸۸، احکام القرآن، ۱/۲۲۸)

بہت سے مفسرین مثلاً زمخشریؒ، بیضاویؒ،قرطبیؒ اور آلوسیؒ وغیرہ نے دو اقوال نقل کیے ہیں۔ ان کے مطابق اس کا معنٰی استحکامِ دین بھی ہوسکتا ہے اور تمام احکامِ دین کا نزول بھی۔(کشاف، ۱/۵۹۳، بیضاوی، انوارالتنزیل (تفسیر بیضاوی) مطبع احمدی، دہلی، ۱/۲۱۵، تفسیرقرطبی، ۶/ ۶۱-۶۲) تکمیل دین کو اگر مؤخر الذکر مفہوم میں لیں تو بھی اس سے یہ مفہوم مخالف نہیں نکالاجاسکتا کہ پہلے دین ناقص تھا۔ اس نکتے کی وضاحت گذشتہ سطور میں امام رازیؒ کے حوالے سے کی جاچکی ہے۔

بعض مفسرین مثلاً ابن الجوزیؒ اور ابن العربیؒ وغیرہ نے اس کی ایک توجیہہ یہ کی ہے، جو بہت مناسب ہے کہ اس میں دین، شریعت کے معنی میں ہے اور اس کی تکمیل سے مراد یہ ہے کہ یہ شریعت اب قیامت تک کے لیے ہے، دیگر شریعتوں کی طرح اب وہ منسوخ نہیں ہوگی۔(زاد المیسر، ۲/۲۸۸، احکام القرآن، ۱/۲۲۸)

سورہ ٔ شوریٰ کے مکّی ہونے کا معاملہ

ایک بات یہ کہی گئی ہے کہ سورئہ شوریٰ مکّی ہے۔ یہ عہد مکّی کے درمیانی دور میں نازل ہوئی تھی۔ اس کے نزول کے وقت مکمل دین نازل نہیں ہوا تھا۔ اس وقت تک جتنا قرآن نازل ہوا تھا، اس میں توحید، رسالت اور آخرت کا بیان تھا۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور جہاد وغیرہ کے احکام بعد میں نازل ہوئے۔ لہٰذا ، اس سورہ میں جب دین قائم کرنے کا حکم دیا گیا تو اس سے دین کی وہی بنیادی تعلیمات (توحید، رسالت، آخرت) مراد ہوگی، جن کا بیان ہوچکا تھا۔ جو احکام ابھی نازل  ہی نہیں ہوئے تھے انھیں کیوں کر اس کے مدلول میں شامل کیا جاسکتا ہے؟‘‘

یہ اعتراض کرتے وقت بعض باتوں کو خلط ملط کردیا گیا ہے اور ان کے ذریعے غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو جس زمانے میں جو حکم دیا ہے اس پرعمل کے وہ پابند ہیں۔ بعد میں اس نے اس سے متعلق کچھ اور جزئی احکام دیے تو ان اضافہ شدہ احکام پر بھی عمل ان کے لیے لازم ٹھیرا اور وہ بھی سابقہ حکم کے مدلول میں شامل ہوگئے۔

مثال کے طورپر مکی سورتوں میں سے سورئہ روم (آیت۳۱) ، سورئہ انعام (آیت ۷۲) اور سورئہ اعراف(آیت ۲۹) میں نماز قائم کرنے کا حکم موجود ہے۔ سورئہ روم ہجرتِ حبشہ کے موقعے پر، یعنی نبوت کے پانچویں سال اور سورئہ انعام اور سورئہ اعراف مکّی دور کے آخر میں نازل ہوئی تھیں۔ اس وقت تک نماز کے سلسلے میںجتنے احکام نازل ہوچکے تھے، حضراتِ صحابہؓ انھی احکام پرعمل کے پابند تھے۔ ہجرتِ مدینہ کے بعد نماز کے تفصیلی احکام بیان کیے گئے، طہارت اوروضو کے آداب اور طریقے بتائے گئے۔ اب اَقِیْمُوْالصَّلٰوۃَ  کے حکم میں یہ تمام تفصیلات بھی شامل ہوگئیں۔ اس وقت تمام صحابہ، خواہ وہ قدیم الاسلام ہوں یا ہجرتِ مدینہ کے بعد انھیں قبولِ اسلام کی سعادت حاصل ہوئی، اقامت ِ صلوٰۃ کے حکم میں نماز کے بارے میں اس وقت تک نازل ہونے والے تمام جزئی احکام کو شامل سمجھتے تھے اور ان پر عمل کرتے تھے۔ وہ یہ تفریق نہیں کرتے تھے کہ مکّی سورتوں میں اَقِیْمُوْالصَّلٰوۃَ   کا مطلب کچھ اور ہے اور مدنی سورتوں میں کچھ اور۔

یہی معاملہ زکوٰۃ کا ہے۔ اس کی ادایگی کا حکم (آتُوْا الزَّکٰوۃَ ) ہجرتِ مدینہ کے بعد ابتدائی زمانے میں نازل ہونے والی سورتوں میں موجود ہے، مثلاً البقرۃ (آیات: ۴۳، ۸۳، ۱۱۰)، النساء (آیت ۷۸)، المزمل (آیت ۲۰)۔ اسی طرح اس کا حکم سورئہ نور (آیت ۵۶) اور سورئہ مجادلہ (آیت۱۳) میں بھی ہے، جو ۵ ہجری میں نازل ہوئی تھیں۔ اس وقت تک زکوٰۃ کے بارے میں جتنا حکم دیا گیا تھا اس پر عمل مطلوب تھا۔ زکوٰۃ کے مصارف کا بیان سورئہ توبہ (آیت ۶۰) میں ہوا ہے، جو غزوئہ تبوک (۹ہجری) کے بعد نازل ہوئی ہے۔ اس کے نصاب کا تعیین بھی فتح مکہ (۸ہجری) کے بعد ہوا ہے۔ ان احکام کے نازل ہونے کے بعد آتُوْا الزَّکٰوۃَ   کے مدلول میں یہ جزئی احکام بھی شامل ہوگئے۔ بعد کے مسلمان مدنی دور کی ابتدا میں نازل ہونے والی سورتوں میں آتُوْا الزَّکٰوۃَ  پڑھیں گے تو اس پر ان کا عمل اسی وقت صحیح ہوگا جب وہ زکوٰۃ کی ادایگی اس کے تفصیلی اور جزئی احکام کے مطابق کریں گے۔ اُمت کی پوری تاریخ میں کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ عہدنبوی کے بعد کے مسلمان ادایگی زکوٰۃ کے حکم کے معاملے میں ابتدائی مدنی دور میں نازل ہونے والی اور آخری مدنی دور میں نازل ہونے والی سورتوں میں فرق کریں گے۔ اوّل الذکر سورتوں میں آتُوْا الزَّکٰوۃَ  سے مراد کچھ اور لیں گے اور آخرالذکر سورتوں میں کچھ اور۔

انھی دونوں مثالوں پر اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ  کے حکم کو قیاس کیا جاسکتا ہے۔ سورئہ شوریٰ مکّی عہد کے درمیانی عرصے میں نازل ہوئی تھی۔ اس وقت تک دین کے جتنے احکام نازل ہوچکے تھے وہ ’اقامت ِ دین‘ کے حکم میں شامل تھے۔ بعد میں جوں جوں مزید احکامِ دین نازل ہوتے گئے، وہ بھی اس میں شامل ہوتے گئے، یہاں تک کہ جب تکمیل دین کا اعلان کردیا گیا تو اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ کے حکم کے تحت پورے دین پر عمل لازم ٹھیرا۔ اب بعد کے مسلمانوں کے لیے یہ کہنا روا نہیں ہے کہ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ    کا اطلاق دین کی صرف ان تعلیمات پر ہوگا جو اس آیت کے وقت ِ نزول تک آچکی تھیں۔

نفاذِ احکام میں قرآن کی ترتیبِ نزولی کا اعتبار

ایک عجیب و غریب اعتراض یہ وضع کیا گیا ہے کہ مولانا مودودیؒ اور ان کے ہم نوا احکامِ دین کے بیان اور نفاذ میں قرآنِ کریم کی ترتیب نزولی کا اعتبار نہیں کرتے۔ وہ قرآن کو ایک ’ریفرنس بک‘ کے طور پر لے کر اس سے احکامِ دین کی فہرست مرتب کرنے لگتے ہیں، جب کہ ہردور میں علما نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ قرآنی تعلیمات پر عمل آوری، نزولی ترتیب ہی کے مطابق ہوگی‘‘۔

یہ بات کہ احکامِ قرآنی کے بیان اور نفاذ میں اس کی نزولی ترتیب کا اعتبار کیا جائے گا، انتہائی غلط ہے اور یہ دعویٰ کہ ہر دور میں علما نے یہی کہا ہے، بلادلیل ہے۔ دعویٰ کرنے والوں نے کسی ایک عالم کا بھی نام ذکر نہیں کیا ہے۔ اُمت کی پوری تاریخ میں کسی عالم نے یہ بات نہیں کہی ہے۔ کوئی عالم ایسی مہمل بات کہہ بھی کیسے سکتا ہے۔

یہ صحیح ہے کہ قرآن کریم ایک کتاب کی صورت میں دفعتاً نازل نہیں ہوا ہے، بلکہ ۲۳سال کے عرصے میں حالات اور ضروریات کے مطابق تھوڑا تھوڑا نازل کیا گیا ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ نزولِ قرآن کے زمانے میں وجوبِ احکام میں تدریج پیش نظر رہی ہے۔ لیکن تدریجی مراحل سے گزرنے کے بعدکوئی حکم جب اپنی آخری شکل میں آگیا تو آیندہ اس کے بیان اور نفاذ میں اس آخری شکل کوسامنےرکھا گیا۔ اس کے تدریجی مراحل کی رعایت نہیں کی گئی۔ مثال کے طورپر مکّی دور میں احکام کا نزول ہوا، لیکن بعد میں اسلام قبول کرنے والوں کے معاملے میں کبھی اس کی رعایت نہیں کی گئی کہ ایک طویل عرصے تک انھیں صرف توحید، رسالت اور آخرت کی باتیں گوش گزار کی گئی ہوں، پھر بتدریج تھوڑے تھوڑے احکام سے انھیں روشناس کرایا گیا ہو۔

مختلف احکام کا نزول بھی عہد ِ نبوی میں بتدریج ہوا، مثلاً مکی سورتوں، سورئہ بنی اسرائیل (آیت۳۲) ، سورئہ فرقان (آیات ۶۸-۶۹) اور سورئہ مومنون (آیات ۵ -۷) میں زنا کی مذمت اور اس سے بچنے کی تلقین کی گئی۔ پھر مدینہ کے ابتدائی دورمیں نازل ہونے والی بعض سورتوں (مثلاً: سورۃ النساء، آیت ۱۵) میں اس سے متعلق کچھ احکام دیے گئے۔ آخر میں ۶ہجری میں نازل ہونے والی سورئہ نور(آیت ۲) میں زنا کی سزا کا بیان ہوا ۔ اسی طرح شراب کی حُرمت بھی بتدریج ہوئی۔ پہلے سورئہ بقرہ (آیت ۲۱۹) میں بتایا گیا کہ شراب میں گناہ ہے۔ پھر سورئہ نساء (آیت۴۳) میں یہ حکم دیا گیا کہ نماز کے موقعے پر شراب نوشی سے اجتناب کیا جائے۔ آخر میں سورئہ مائدہ (آیات ۹۰-۹۳) کے ذریعے اس کی قطعی حُرمت کا اعلان کر دیا گیا۔ لیکن بعد میں اسلام قبول کرنے والوں پران احکام کانفاذ بتدریج نہیں کیا گیا کہ پہلے انھیں کچھ عرصے تک ارتکابِ زنا اور شراب نوشی کی چھوٹ دی گئی ہو اور پھر ان سے روکا گیا ہو اور ان کی حُرمت بیان کی گئی ہو۔

کتب ِ سیرت میں وفد ِ ثقیف کے بارے میں جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں، ان سے اس سلسلے میں بڑی رہنمائی ملتی ہے۔ غزوئہ تبوک (۹ہجری) کے بعد رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بہت سے وفود مختلف علاقوں سے آئے اور قبولِ اسلام کی سعادت سے بہرہ ور ہوئے۔ ان میں طائف کے قبیلہ ثقیف کا وفد بھی تھا۔ ان لوگوں نے اسلام قبول کرلیا مگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خواہش کی کہ انھیں نماز سے معاف رکھا جائے۔ آپؐنے ان کی یہ بات منظور نہیں کی۔(سیرۃ النبیؐ، ابن ہشام، مصر ۱۹۳۷ء، ۴/۱۹۷؛ السیرۃ النبویۃ، ابن کثیر، دارالمعرفۃ، بیروت، ۱۹۸۳ء، ۴/۵۶)

اسی طرح ان لوگوں نے سود خوری، زناکاری اور شراب نوشی کی آپ سے اجازت چاہی اور کہا کہ ہمارے لیے ان کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ مگر آپؐ نے ان چیزوں کی حُرمت بتاتے ہوئے ان کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔(السیرۃ النبویۃ، ابن کثیر، ۴/۶۲)

اسی طرح آج کے دور میں جب اسلام کا تعارف کرایا جائے، یا اس کی تعلیمات اور احکام لوگوں کے سامنے پیش کیے جائیں توضروری ہے کہ مکمل اسلام سے انھیں آگاہ کیا جائے اور اس کے تمام عقائد و ایمانیات اور شرائع و احکام بیان کیے جائیں۔ تکمیل دین کے بعد احکام و شرائع کو بیان کرنے میں تدریج ملحوظ رکھنا کسی طور پر صحیح نہیں ہے۔

ہرشخص بقدرِ استطاعت مکلّف ہـے

اعتراض کرنے والے دراصل ایک خلط ِ مبحث کا شکار ہوئے ہیں۔ انھوں نے جس معاملے کو ’احکامِ اسلام کے بتدریج نفاذ‘ سے جوڑنے کی کوشش کی ہے، اس کا تعلق ایک دوسرے اصول سے ہے اور وہ یہ ہے کہ ہرشخص بقدرِ استطاعت مکلّف ہے۔ اس اصول پر قرآن و سنت کی متعدد نصوص دلالت کرتی ہیں۔ قرآن کریم میں ہے:

لَا يُكَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا۝۰ۭ (البقرہ ۲:۲۸۶) اللہ کسی متنفس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔

یہ مضمون قرآنِ کریم کی متعدد آیات میں بیان ہوا ہے (ملاحظہ کیجیے البقرہ۲۳۳، الانعام: ۱۵۲، الاعراف: ۴۲، المؤمنون:۶۲، الطلاق: ۷ وغیرہ)۔

اسلام کے احکام وشرائع اپنی جزئیات و تفصیلات کے ساتھ بیان کیے جائیں اور ہرشخص ان میں سے اتنے حصے کا مکلّف ہوگا، جتنے کی وہ استطاعت رکھتا ہو۔ مثال کے طور پر احکام طہارت بیان کرنا ہو تو پانی کے ذریعے وضو کا طریقہ اور پانی نہ ہونے کی صورت میں تیمّم کا طریقہ دونوں کو بیان کیا جائے گا۔ جو شخص پانی سے محروم ہو یا پانی ہوتے ہوئے بھی وضو نہ کرسکتا ہو ، وہ وضو کا مکلّف نہ ہوگا، اس کے لیے تیمّم کفایت کرےگا۔ احکامِ نماز کے ضمن میں قیام، رکوع، سجدہ اور دیگر تفصیلات بیان کی جائیں گی۔اب جو شخص بیماری یا کسی اور عُذر سے کھڑے ہوکر نماز نہ پڑھ سکتا ہو وہ کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کا مکلّف نہ ہوگا۔ وہ بیٹھ کر نماز پڑھے گا۔ بیٹھ کر بھی نہ پڑھ سکتا ہو تو لیٹ کر پڑھے گا۔ ہلنے جلنے پر قادر نہ ہو تو اشارے سے پڑھے گا۔

زکوٰۃ ، روزہ اور حج کے احکام بیان کیے جائیں گے۔ جوان کی استطاعت رکھتے ہوں گے وہ ان کے مکلّف ہوں گے اور جو استطاعت نہیں رکھتے ہوں گےوہ مکلّف نہیں ہوں گے۔ اس اصول کو علماے اسلام نے بھی اپنی تصانیف میں بیان کیا ہے۔ علّامہ ابواسحاق شاطبیؒ (م:۷۹۰ھ) کی کتاب الموافقات فی اصول الشریعۃ،علمِ شریعت کے موضوع پر بڑی اہم تصنیف ہے۔ اس میں مذکور ہے:

ثَبَتَ فِی الْاُصُوْلِ  أَنَّ  شَـرْطَ التَّکْلِیْفِ  أَوْ سَبَبَہٗ  الْقُدْرَۃُ  عَلَی الْمُکَلَّفِ  بِہٖ، فَـمَا لَا قُدْرَۃَ  لِلْمُکَلَّفِ  عَلَیْہِ  لَا  یَصِحُّ  التَّکْلِیْفُ   بِہٖ   شَـرْعًا   اصولِ شریعت میں یہ بات ثابت شدہ ہے کہ کسی شخص کے کسی چیز کے مکلّف ہونے کی شرط یا سبب یہ ہے کہ وہ اس پر قادر ہو۔ جس کام کے کرنے کی وہ قدرت نہ رکھتا ہو، اس کا اسے مکلّف قرار دینا شرعی طور پر صحیح نہیں ہے۔(الموافقات فی اصول الشریعۃ، شاطبی ، مصر ،۱۰۷۰ھ)

اسی طرح جب اسلام کا تعارف کرایا جائے گا تو اس کے عقائد و ایمانیات کو بھی بیان کیا جائے گا، عبادات کی تفصیلات بھی پیش کی جائیں گی، معاملات سے متعلق اس کے احکام کا بھی تذکرہ کیا جائے گا، دیوانی اور فوج داری قوانین بھی زیربحث آئیں گے۔ سماجی، معاشی اور سیاسی میدانوں میں اس کی تعلیمات سے بھی آگاہ کیا جائے گا، غرض مکمل اسلام پیش کیا جائے گا، لیکن افراد اپنے اپنے حالات اور استطاعتوں کے مطابق مکلّف ہوں گے۔ جو لوگ کسی وجہ سے بعض احکام پر عمل سے معذور ہوں گے وہ ان کے مکلّف ہی نہیں ہوں گے۔

اقامتِ دین کاتقاضا  اجتماعی جدوجہد

ایک بات یہ کہی گئی ہے کہ سورئہ شوریٰ میں اقامت ِ دین کا جو حکم دیا گیا ہے، اس کے مخاطب افرادِ اُمت انفرادی طور پر ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ دین کو اپنی ذات پرقائم کرو اور اس کے احکام پر خود عمل کرو۔ اس میں دوسروں کودعوت دینے اور ان کے درمیان دین کی تبلیغ کے لیے اجتماعی طور سے جدوجہد کرنے کا مفہوم نہیں پایا جاتا۔ یہ بات بھی صحیح نہیں ہے۔ متعدد مفسرین نے صراحت کی ہے کہ اس میں دوسروں کو دعوت دینے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔

علامہ ماوردیؒ (م:۴۵۰ھ) فرماتے ہیں:

أَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ:  فِیْہِ وَجْھَانِ ، أَحَدُھُمَا  ، اِعْمَلُوْا بِہٖ ، الثَّانِیْ: اُدْعُوْا  اِلَیْہِ ، وَیَحْتَمِلُ  وَجْھًا  ثَالِثًا: جَاہِدُوْا  عَلَیْہِ  مَنْ عَانَدَہٗ دین کو قائم کرنے کی دو توجیہات ہوسکتی ہیں: ایک یہ کہ اس پر عمل کرو، دوسری یہ کہ اس کی طرف دعوت دو۔ اس میں ایک تیسری توجیہہ کا بھی احتمال ہے، وہ یہ کہ جو اس سے دشمنی رکھے اس سے جنگ کرو۔(ماوردی، النکت والعیون (تفسیرالماوردی)، الکویت، ۱۹۸۲ء، ۳/۵۱۴)

علامہ قرطبیؒ (م: ۶۷۱ھ) اور علامہ ابوحیان اندلسیؒ (م:۷۴۵ھ) دونوں نے لکھا ہے:

(أَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ) اَیْ اِجْعَلُوْہُ  قَائِمًا ، یُرِیْدُ   دَائِمًا مُسْتَمِرًّا مَحْفُوْظًا  مُسْتَقِرًّا مِنْ غَیْرِ خِلَافٍ فِیْہِ وَلَا اضْطِرَابٍ  دین کو قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ساتھ ایسا معاملہ کرو کہ وہ ہمیشہ قائم، جاری و ساری، محفوظ اور مستحکم رہے۔ نہ کوئی اس کی مخالفت کرے اور نہ اس کی تعلیمات میں کوئی اضطراب پیدا ہو۔(تفسیرالقرطبی، ۱۶/۱۱، البحرالمحیط، ابوحیان الاندلسی، دارالفکر، بیروت، ۱۴۲۰ھ، ۹/۳۲۹)

علّامہ ابوالسعود العمادیؒ (م: ۹۸۲ھ) فرماتے ہیں:

اَلْمُرَادُ  بِـاِقَامَتِہٖ  تَعْدِیْلُ أَرْکَانِہٖ ، وَحِفْظُہٗ  مِنْ  أَنْ  یَقَعَ  فِیْہِ  زِیْفٌ ، أَوْ الْمُوَاظَبَۃُ وَالتَّشَمُرُّ لَہٗ   دین کی اقامت سے مراد یہ ہے کہ اس کے ارکان کو ٹھیک طریقے سے ادا کیا جائے، اس میں زیغ و انحراف آنے سے اس کی حفاظت کی جائے، پابندی کی جائے اور اس کے لیے سرگرم رہا جائے۔(ارشاد العقل السلیم: ۷/۶۶۰، یہی تشریح علامہ آلوسیؒ (م: ۱۲۷۰ھ) نے بھی کی ہے۔ روح المعانی، ۲۵/۲۱)

شاہ ولی اللہ نے الدین کے مفہوم میں ان چیزوں کو بھی شامل کیا ہے:

اِقَامَۃُ  الْعَدْلِ  بَیْنَ النَّاسِ  ، وَ تَحْرِیْمُ  الْمَظَالِمِ ، وَ اِقَامَۃُ  الْحُدُوْدِ عَلٰی أَھْلِ  الْمَعْاصِی  ، وَالْجِہَادُ  مَعَ  أَعْدَاءِ  اللہِ  ، وَالْاِجْتِھَادُ    فِیْ  اِشَاعَۃِ  أَمْرِ اللہِ  وَدِیْـنِہٖ (حجۃ اللہ البالغہ، ۱/۸۷)اور لوگوں کے درمیان عدل قائم کرنا، ایک دوسرے پر ظلم نہ کرنا، اہل معاصی پر حدود قائم کرنا، اللہ کے دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنا، اللہ کے حکم اور دین کی اشاعت کے لیے جدوجہد کرنا۔

شیخ عبدالرحمٰن السعدیؒ(م: ۱۳۷۶ھ) فرماتے ہیں:

(أَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ) تُقَیْمُوْنَہٗ بِاَنْفُسِکُمْ وَتَجْتَھِدُوْنَ  فِیْ  اِقَامَتِہٖ عَلٰی غَیْرِکُمْ وَتُعَاوِنُوْنَ عَلَی الْبِرِّ  وَالتَّقوْیٰ  وَلَا تُعَاوِنُوْنَ  عَلَی الْاِثْمِ  وَالْعُدْوَانِ (تیسیر الکریم الرحمٰن، ۶/۵۹۹) دین کو قائم کرنے سے مراد یہ ہے کہ تم اسے اپنی ذات پر قائم کرو اور دوسروں پر بھی اسے قائم کرنے کی کوشش کرو اور نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کرو اور بُرائی اور جارحیت کے کاموں میں تعاون نہ کرو۔

ان تشریحات سے واضح ہے کہ اقامت ِ دین کا مطلب صرف انفرادی طور پر دین کی پیروی نہیں ہے، بلکہ اس میں دین کی دعوت و اشاعت، اس کی حمایت و حفاظت اور اس کے نفاذ کی کوششیں بھی شامل ہیں۔

جماعت اسلامی اور اس کے بانی مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے مکمل اسلام پرعمل کرنے اور اس کی طرف دعوت دینے کا جو تصور پیش کیا ہے، وہ صرف کسی ایک آیت پر منحصر نہیں ہے۔ قرآن کریم میں بہ کثرت آیات ہیں، جن میں سے بعض میں صراحت سے اور بعض میں اشاروں میں اس کا حکم دیا گیا ہے اور اسے اُمت مسلمہ کا فرضِ منصبی قرار دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں زیربحث موضوع پر متعدد کتابیں موجود ہیں، مثلاً: فریضہ اقامت دین (مولانا صدرالدین اصلاحیؒ)، اساس دین کی تعمیر(صدرالدین اصلاحیؒ)، اقامتِ دین: اسلام کا تقاضا (مولانا سیّد حامد علیؒ)، اقامتِ دین فرض ہے (مولانا سیّداحمد عروج قادریؒ)، اُمت مسلمہ کا نصب العین (مولانا سیّد احمد عروج قادریؒ)،اقامتِ دین کا سفر (ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدیؒ)۔ جو حضرات اس موضوع پر سنجیدگی سے مطالعہ کرنا چاہتے ہیں انھیں ان کتابوں سے رجوع کرنا چاہیے۔