ڈاکٹر محمد جہانگیر تمیمی


بھارتی پنجاب اور اتر اکھنڈ (ڈیرہ دون)کے فروری ۲۰۰۷ء کے اسمبلی انتخابات میں جیت کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قومی کونسل کے اجلاس منعقدہ لکھنؤ میں اس کے قومی صدر پروفیسر راج ناتھ سنگھ کا بیان یکم مارچ ۲۰۰۷ء میں سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے: اوّلاً: اگر انھیں ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی انتخابات میں اکثریت حاصل ہوجاتی ہے تو وہ متنازع بابری مسجد کی جگہ  رام مندر بنانے کے لیے ایک قانون بنائیں گے۔ ثانیاً: بی جے پی کی قوم پرستانہ پالیسی کے زیرسایہ ایک طاقت ور بھارت کی تعمیر ضروری ہے تاکہ مرکز کی حکومت (من موہن سنگھ) کی اقلیتوں کو خوش کرنے کی خطرناک سیاست کو بھارت کی سرزمین پر ختم کیا جاسکے (روزنامہ نواے وقت‘ لاہور‘ یکم مارچ ۲۰۰۷ء)۔المیہ یہ ہے کہ بھارت میں کانگریس نے مسلمانوں کو عملاً کچھ نہیں دیا۔ مگر دوسری طرف بھارتیہ جنتا پارٹی‘ اسے مسلمانوں کی اقلیت نوازی کے نام پر شورمچا کر مسلمانوں کو مزید ملیامیٹ کرنے کی ہندتو پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کا کھلا نعرہ ہے: ہندی  ،   ہندو  ،   ہندستان

بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر راج ناتھ سنگھ کا تازہ ترین بیان بلکہ اعلان‘ اس بات کا غماز ہے کہ اگر کانگرس یا کسی اور سیاسی جماعت نے مسلمانوں کی پس ماندگی دُور کرنے کی بات کی تو بھارتیہ جنتا پارٹی کا مسلم دشمن رویہ مزید جارحانہ سمت میں آگے بڑھے گا ۔ ان کی دوسری فوری وجہ یوپی (اترپردیش) میں ماہِ اپریل ۲۰۰۷ء میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہیں۔ ظاہر ہے کہ یوپی صوبہ بھارت کا آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ ہے جس کی بھارت کی قومی سیاست میں بڑی اہمیت ہے۔ وہاں سماج وادی پارٹی اور اس کے وزیراعلیٰ ملائم سنگھ یادو کے مقابل مایاوتی کی بہو جن سماج وادی پارٹی‘ کے علاوہ بھارتیہ جنتاپارٹی ایک متبادل اور متحرک سیاسی جماعت ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی پنجاب اور اتر اکھنڈ کے بعد یوپی میں اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے مسلمانوں کے خلاف ہندوئوں کے روایتی اور تاریخی تعصب کو ہوا دے کر پھر سے ہندتو کارڈ اور  رام مندر کی تعمیر کا مسئلہ اٹھائے سامنے آرہی ہے‘ جب کہ گجرات میںمسلمانوں کے حالیہ قتلِ عام کے بعد پٹنہ (بہار) میں وشواہند پریشد (ورلڈ ہندوکونسل) کے جنرل سیکرٹری پروین توگڑیا کا تازہ ترین اعلان بھی سامنے آیا ہے۔ جس میں انھوں نے ہندو آبادی کو مشتعل کرنے کے لیے کہا ہے کہ ’’وہ مسلمانوں کے خلاف متحد ہوجائیں‘‘۔ انھوں نے مسلمانوں پر زبردست تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’مسلمان ایک سے زیادہ شادیاں کر رہے ہیں اور وہ جلد ہندستان کے ہندوئوں کو اقلیت بنا دیں گے‘‘۔ یہ وہ مسلم دشمن لہریں ہیں جو بھارتی سماج کے دروبام ہلانے کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔ جس طرح بھارت‘ پاکستان کو اپنا دشمن نمبر ایک سمجھتا ہے بعینہٖ بھارت کے ہندو‘ مسلمانوں کو بھی اپنا دشمن نمبر ایک ہی سمجھتے ہیں‘ جسے یقین نہ آئے بھارت جاکر بچشم خود دیکھ لے۔

دوسری طرف مسلمان ایک سہمی ہوئی اقلیت کے طور پر حکمرانوں اور ہندو سیاست دانوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ صاف کہنا چاہیے کہ بھارت کے مسلمانوں کے گذشتہ ۶۰ برس‘ ہندو اکثریت کے تاریخی تعصب اور ہندو حکمرانوں کی دانستہ پالیسی کے نتیجے میں معاشی پس ماندگی کا آئینۂ ایام ہیں۔ جس سے بالفعل یہ ثابت ہوا ہے کہ قومیں دین سے بنتی ہے سرزمین سے نہیں‘ ورنہ بھارت کی مسلم ملت یوں اپنے وطن میں غریب الوطن تو نہ ہوتی کہ سانحہ گودھرا گجرات کے بعد بھارت کے مسلمانوں کا مستقبل اپنے ہی وطن میں تاریک ہوکر رہ گیا ہے اور مسلمانوں کی بے بسی اور برستی آنکھیں انصاف مانگتے مانگتے اندھی ہوگئی ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کے بعض احکامات کے تحت‘ کچھ قانونی کارروائی اور کچھ مظلوم مسلمانوں کی شنوائی جاری ہے۔ مگر گجرات میں ’ہندوتو‘ کا تجربہ  وہ نمونہ ہے جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے زیراقتدار مسلمانوں کے مستقبل کی واضح جھلک دکھائی دیتی ہے مگر گجرات کے مسلمانوں کا صوبائی حکومت کے ایما پر قتلِ عام اور پھر یہ اعلان:’’مسلمانوں کے دواستھان پاکستان یا قبرستان!‘‘کس طرح کے عزائم کی پھنکار ہے۔

بھارت کا مسلمان گذشتہ ۶۰ برس سے ہندو اکثریت کے ہندستان میں جس جمہوری اور سیکولر تجربے سے گزرا ہے‘ اس کی بازگشت دسمبر ۲۰۰۶ء کو مسلمانوں کے بارے میں معاشی‘ سماجی اور تعلیمی کوائف جاننے کے لیے قائم سچرکمیٹی میں سنائی۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ہندستان میں مسلمان‘ اپنی معاشی پس ماندگی میں دلتوں سے بھی کہیں نچلے درجے پر پہنچ چکے ہیں۔ سچرکمیٹی نے اپنی رپورٹ میں ’شرمساری کے ساتھ‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ بھارت میں برسرِاقتدار کانگریسی قیادت کی  یوپی اے سرکار کا بھارت کے مسلمانوں کے بارے میں حقائق جاننے کا مقصد کیا واقعی مسلمانوں کی  پس ماندگی کا مداوا کرنا ہے یا صرف مسلمانوں کے ووٹ بٹورنے کی روایتی سیاست ہے؟ اس پر سردست کچھ کہنا مناسب نہ ہوگا۔ البتہ ایک حقیقت جو سامنے ہے وہ یہ کہ بھارت کے حکمرانوں‘ سیاست دانوں اور ہندو اکثریت کی یہ اجتماعی اور مستقل پالیسی رہی ہے کہ مسلمانوں کو مسلسل دوسرے درجے کے خوف زدہ شہری ہی نہیں‘ ایک یرغمال رعایا کے طور پر محبوس رکھا جائے‘ جس کا بدیہی ثبوت سچرکمیٹی رپورٹ ہی نہیں ‘ بھارت بھر میں پھیلے ۱۷ کروڑ سے زائد مسلمانوں کے     شب و روز ہیں۔ جہاں گذشتہ ۶۰ برس میں ۲۴ ہزار کے لگ بھگ مسلم کش فسادات برپا ہوچکے ہیں اور بھارتی مسلمان معاشی‘ معاشرتی طور پر پریشانیوں کا شکار ہیں۔

مسلمانوں نے اپنے طور پر تعلیمی‘ فلاحی اور سماجی نوعیت کے ادارے تو بنا رکھے ہیں مگر مسلمان نوجوان اگر بمشکل تعلیم یافتہ ہو جائیں تو بھی انھیں روزگار ملنا مشکل ہوتا ہے۔ اکثریت کا رویہ مسلمانوں کے تئیں تعصب و حقارت ہی نہیں‘ شر اور شرارت سے بھرپورہے۔ کسی جگہ مسلمان اپنے روایتی پیشوں میں کامیاب ہوں بھی تو فرقہ وارانہ فسادات کی آڑ میں پاور لومز جلانا‘ ان کے کارخانوں کو نذرِآتش کرنا اور لوٹ مار کرکے پھر انھیں معاشی پستی کی سطح پر دھکیل دینا ایک عام رویہ ہے۔

کانگریس کے ہم نوا بعض علما کے پرستار حلقے پاکستان کے قیام کو غلطی قرار دے کر اُسے مسلمانانِ ہند کی سزا کی بات کرتے ہیں‘ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مسلمانوں کو پاکستان بنانے کی نہیں محض مسلمان ہونے کی سزا دی جارہی ہے۔ کانگریس نے اپنے دورِاقتدار میں مسلمانوں کو کیا دیا ہے؟ یہ متحدہ قومیت کے ہندستان میں مسلمانوں کے معاشی‘ سماجی اور تعلیمی حالات سے واضح ہے۔ بھارت کے حکمرانوں کا رویہ کیا عملاًسیکولر ہے یا فرقہ وارانہ؟ اس کاصحیح جواب‘ بھارت کے مسلمانوں کی حالت سے عیاں ہے۔ دوسری طرف بھارتیہ جنتا پارٹی کا متعصبانہ اور متشددانہ طرزِعمل ہے جس کی زد میں بھارت کے مسلمانوں کی اولادیں اور جایدادیں ہی نہیں‘ مساجد و مزارات اور اوقاف تک ہیں۔