اور یہ کہ تم اپنے رب سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آئو تو وہ ایک مدتِ خاص تک تم کو اچھا سامانِ زندگی دے گا۔ (ھود ۱۱:۳)
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ جسمانی طور پر مضبوط ہوں اور آپ کا جسم مصائب و آلام اور آفات و امراض سے محفوظ رہے تواستغفار کیجیے:
اور اے میری قوم کے لوگو! اپنے رب سے معافی چاہو پھر اس کی طرف پلٹو۔ وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا۔ اور تمھاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا۔ مجرم بن کر (بندگی سے) منہ نہ پھیرو۔ (ھود ۱۱:۵۲)
اس وقت تو اللہ تعالیٰ ان پر عذاب نازل کرنے والا نہ تھا‘ جب کہ تو ان کے درمیان موجود تھا‘ اور نہ اللہ کا یہ قاعدہ ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ ان کو عذاب دے دے۔(الانفال ۸:۳۳)
میں نے کہا‘ اپنے رب سے معافی مانگو‘ بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا‘ تمھیں مال اور اولاد سے نوازے گا‘ تمھارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمھارے لیے نہریں جاری کر دے گا۔(نوح ۷۱:۱۰-۱۲)
اور کہتے جانا حِطَّۃٌ حِـطَّۃٌ [حطۃ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ خدا سے اپنی خطائوں کی معافی مانگتے ہوئے جانا‘ دوسرے یہ کہ لُوٹ مار اور قتل عام کے بجاے بستی کے باشندوں میں درگزر اور عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے جانا] ہم تمھاری خطائوں سے درگزر کریں گے اور نیکوکاروں کو مزید فضل و کرم سے نوازیں گے۔(البقرہ ۲:۵۸)
استغفار گناہوں اور غلطیوں کا کامیاب علاج اور بہترین دوا ہے۔ اسی لیے اللہ کے نبیؐ ہمیشہ استغفار کا حکم دیا کرتے تھے: اے لوگو! اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرو اور اسی کی طرف رجوع کرو۔ بے شک میں ایک دن میں ۱۰۰ مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سچے دل سے معافی مانگنے والے سے راضی ہو جاتا ہے‘ اس لیے کہ وہ شخص اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے اپنے پالنہار کی طرف رجوع کرتا ہے۔
گویا کہ وہ کہتا ہے: اے میرے رب! میں نے غلطیوں‘ برائیوں اور گناہوں کا ارتکاب کیا ہے‘ تیرے حقوق کی ادایگی میں کوتاہی اور حدود سے تجاوز کیا ہے‘ اپنے نفس پر ظلم کیا ہے۔ مجھے شیطان نے اپنی چالوں میں جکڑلیا‘ خواہشات نے مجھے مغلوب بنالیا‘ نفس امارہ نے مجھے دھوکے میں ڈالا۔ میں تیرے حلم‘ عفو و درگزر‘ بے پناہ سخاوت اور تیری بے پایاں رحمت پر اعتماد کرکے یہ سب کچھ کرتا رہا ہوں۔ اب میں تیرے حضور نہایت ہی شرمندہ ہوکر معافی کا طلب گار ہوں۔ اے اللہ! مجھے معاف کر دے‘ میری غلطیوں سے درگزر فرما اور میرے ساتھ نرمی کا معاملہ کر۔ تیرے سوا میرا کوئی رب نہیں ہے اور میں تیری ہی بندگی کرتا ہوں۔
ایک صحیح حدیث میں آیا ہے: ’’جس نے استغفار کی پابندی کی‘ اللہ تعالیٰ اس کو ہر مشکل سے نجات اور ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ عطا کر دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے کہ جس کا وہ گمان بھی نہیں کرسکتا‘‘۔ ایک دل چسپ واقعہ ہے کہ ایک شخص کی اولاد نہیں ہوتی تھی۔ اس نے بہت سے ڈاکٹروں سے علاج کروایا لیکن کوئی بھی اس کا علاج نہ کرسکا۔ آخرکار اس نے ایک عالمِ دین سے استفسار کیا تو انھوں نے کہا: کثرت سے استغفار کیا کرو کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا مستغفرین سے وعدہ ہے کہ: ’’وہ تمھیں مال اور اولاد سے نوازے گا‘‘ (نوح ۷۱:۱۲)۔ اس شخص نے کثرت سے استغفار کرنا شروع کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے صالح اولاد عطا فرما دی۔
اپنے قصور کی معافی چاہو اور صبح و شام اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو۔(المومن ۴۰:۵۵)
اور معافی مانگو اپنے قصور کے لیے بھی اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے بھی۔ (محمد ۴۷:۱۹)
اللہ سے درگزر کی درخواست کرو وہ بڑا درگزر فرمانے والا رحیم ہے۔ (النساء ۴:۱۰۶)
ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغ ہیں‘ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی‘ وہاں انھیں ہمیشگی کی زندگی حاصل ہوگی‘ پاکیزہ بیویاں ان کی رفیق ہوں گی اور اللہ کی رضا سے وہ سرفراز ہوں گے۔ اللہ اپنے بندوں کے رویے پر گہری نظر رکھتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں: مالک ہم ایمان لائے‘ ہماری خطائوں سے درگزر فرما اور ہمیں آتش دوزخ سے بچا۔ یہ لوگ صبر کرنے والے ہیں‘ راست باز ہیں‘ فرماں بردار اور فیاض ہیں اور رات کی آخری گھڑیوں میں اللہ سے مغفرت کی دعائیں مانگا کرتے ہیں۔ (اٰل عمرٰن ۳:۱۶-۱۷)
اس وقت تو اللہ تعالیٰ ان پر عذاب نازل کرنے والا نہ تھا‘ جب کہ تو ان کے درمیان موجود تھا‘ اور نہ اللہ تعالیٰ کا یہ قاعدہ ہے کہ لوگ استغفار کررہے ہوں اور وہ ان کو عذاب دے۔ (الانفال ۸:۳۳)
اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کوئی فحش کام ان سے سرزد ہوجاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کربیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انھیں یادآجاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں کیوں کہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کر سکتا ہو‘ اور وہ کبھی دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے۔ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۵)
حضرت اَغَرْمُزَنی ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کبھی کبھی میرے دل پر غفلت کا پردہ آجاتا ہے تو میں اللہ تعالیٰ سے دن میں ۱۰۰ مرتبہ معافی طلب کرتا ہوں۔(مسلم)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا: ’’رب کریم کی قسم! میں اللہ تعالیٰ سے دن میں ۷۰سے زائد مرتبہ معافی مانگتا ہوں‘‘۔
اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبِّی لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَاَنَا عَبْدُکَ ، وَاَنَا عَلٰی عَھْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ ، اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ ، اَبُوئُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَاَبُوئُ بِذَنْبِیْ ، فَاغْفِرْلِیْ فَاِنَّہٗ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلاَّ اَنْتَ -
میرے اللہ‘ تو تو میرا رب ہے‘ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں‘ جتنا بس میں ہے تجھ سے عہد و پیمان پورا کرتا ہوں۔ میں تیری پناہ چاہتا ہوں‘ جو کچھ کیا اس کے شر سے۔ اپنے اوپر تیری نعمتوں کا اعتراف ہے اور ساتھ ہی اپنے گناہوں کا اقرار۔ پس مجھے بخش دے‘ تیرے سوا کوئی گناہوں کو بخشنے والا نہیں۔
جس شخص نے دن کے وقت پورے یقین کے ساتھ یہ دعا کی اور اسی روز شام سے پہلے فوت ہوگیا تو وہ جنت میں جائے گا‘ اور جس شخص نے رات کے وقت پورے اعتماد کے ساتھ اللہ سے یہی دعا کی اور وہ صبح ہونے سے پہلے فوت ہوجاتا ہے تو وہ بھی جنت میں جائے گا۔ (بخاری)
رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَتُبْ عَلَیَّ اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
اے میرے رب! مجھے معاف فرما دے اور میری توبہ قبول فرما لے۔ بے شک تو توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ (سنن ابی داؤد، ترمذی، ابن ماجہ)
جو شخص استغفار کا التزام کرے گا‘ اللہ تعالیٰ اسے ہر تنگی سے چھٹکارا اور ہر مشکل سے نجات عطا فرما دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا کہ جو اس کے گمان میں بھی نہ ہوگی۔ (سنن ابی داؤد، ابن ماجہ)
اے مصیبتوں اور دکھوں کے مارے پریشان حال انسان!
استغفار کیا کر‘ اس سے حزن و ملال کے بادل چھٹ جاتے ہیں۔ یہ ایسا مرہم ہے جس سے زخم مندمل ہوجاتے ہیں۔ یہ ایسی دوا ہے کہ اس کے بعد کسی اور دوا کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ (المجتمع، کویت‘ شمارہ ۱۶۳۹‘ ۱۹ فروری ۲۰۰۵ئ)