غازی سہیل خاں


۲۹دسمبر ۲۰۲۰ء بدھ کی شام کوحسب معمول سماجی رابطے کی ویب گاہوں پر ایک خبر آئی کہ لاوے پورہ سرینگر’ ہو کر سر‘ میں عسکریت پسندوں اور فوج کے درمیان جھڑپ شروع ہو گئی ہے۔ اورپھر ۳۰ دسمبر کو فوج نے پریس کانفرنس میں یہ دعویٰ کیا کہ تین عسکریت پسندوں کو مار دیا گیا ہے۔ اس کے فوراً بعد ان مبینہ عسکریت پسندوں کے لواحقین نے پولیس کنٹرول روم کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے یہ کہا کہ یہ تینوں عسکریت پسند نہیں ہیں اور ان کا قتل فوج کی جانب سے جان بوجھ کر کیا گیا ہے ۔ اسی دوران پولیس کا ایک اور بیان سامنے آیا، جس میں کہاگیا کہ ’’اگرچہ ہلاک شدگان میں کوئی بھی جنگجوئوں کی فہرست میں شامل نہیں ہے، لیکن ان میں سے دو نوجوان جنگجوئوں کے معاونین تھے، ہو سکتا ہے کہ تیسرا حال ہی میں شامل عسکریت ہو اہو‘‘۔

ان تینوں کو گھر سے دُور ایک دوسرے ضلع بانڈی پورہ میں دفن کر دیا گیا، جہاں پہلے غیرمقامی عسکریت پسندوں کو دفن کیا جاتا تھا۔ مرحومین کے لواحقین تا دمِ تحریر احتجاج اور مطالبہ کررہے ہیں کہ’’ہمارے بچوں کو جُرم بے گناہی میں مارا گیا ہے۔ان کی لاشیں ہمیں واپس کی جائیں تاکہ ہم اسلامی طریقے سے ان کی تدفین عمل میں لائیں‘‘۔ یاد رہے کہ ان نوجوانوں میں سے اطہر کے والد نے اپنے مقتول بچے کی قبر خود کھود رکھی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ جب تک میرے ۱۶سالہ اکلوتے بیٹے کی نعش نہیں ملتی تب تک میں انتظار میں رہوں گا۔

اس جھڑپ کے حوالے سے پوری وادی میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کہ پہلے بھی یہاں فرضی جھڑپوں میں نوجوانوں کومار کر گمنام قبروں میں دفن کردیا گیا، جن میں سے چند بے گناہوں کی بے گناہی بھی ثابت ہوگئی ہے جس کی مثال ۲۰۱۰ء میں مژھل فرضی جھڑپ ،۲۰۲۰ ء میں شوپیاں میں تین معصوموں کا قتل اور ۲۰۰۱ء میں پتھری بل فرضی انکاؤنٹر شامل ہیں ۔۲۰۱۰ء میں بھی اسی طرح کی ایک فرضی کہانی گھڑی گئی، جس میں ۳۰؍اپریل۲۰۱۰ء کو ریگولر آرمی کے چار راجپوت یونٹ نے دعویٰ کیا تھا کہ ’’ہم نے تین عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا‘‘۔ حالاں کہ واقعہ یہ تھا کہ مژھل سے دُور دوسرے ضلع بارہمولہ کے نادی ہل علاقے میں تین نوجوان (شہزاد احمد خان ، ریاض احمد لون اور محمد شفیع لون) اچانک غائب ہوگئے، یا غائب کردیے گئے۔ اُن کے گھر والوں کو اُن کے بارے میں کوئی اتہ پتہ نہیں چل پا رہا تھا۔ بڑی تلاش کے بعد ۱۰مئی کو گھر والوں نے تینوں نوجواان کی گمشدگی کے بارے میں تشویش کا اظہار کرنے کے لئے احتجاج بھی کیا۔ اس احتجاج سے پولیس کے کان کھڑے ہو گئے اور انھوں نے اس کیس میں دل چسپی لینی شروع کردی اور گھر والوں سے پوچھ گچھ کر کے اس بات کا سراغ لگا لیا کہ نوجوانوں کا اغوا ہوا ہے۔تینوں نوجوانوں کے گھر والوں نے پولیس کے سامنے ایک مقامی سابق اسپیشل پولیس افسر پر شک ظاہر کیا اور مذکورہ ایس پی اونے پولیس والوں کے سامنے اعتراف کیا کہ ان تینوں نوجوانوں کے اغوا میں اُس کا ہاتھ ہے ۔اس کے بعد اس کہانی میں ایسی باتیں اخبارات میں سامنے آئیں، جن سے ایک انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کس طرح سے ایک انسان ’انعام‘ کی خاطر معصوم اور بے گناہ انسانوں کا قتل کرنے سے گُریز نہیں کرتا اور پھر بارہمولا سے مژھل سیکٹر میں ان کو گولی مار کرقتل کردیا گیا۔

اسی طرح کا ایک اور فرضی انکاؤنٹر ۲۰۲۰ء میں شوپیان میں رچایا گیا، جس میں راجوری کے تین معصوم نوجوان مزدوروں کو قتل کرنے کے بعد فوج نے بڑے فخر سے یہ دعویٰ کیا کہ ہم نے تین پاکستانی دہشت گردوں کو مار گرا یا اورجن سے فلاں فلاں قسم کے ہتھیار بھی ضبط کیے گئے ہیں۔ اس درد انگیز کہانی کا تذکرہ پولیس نے اپنی چارج شیٹ میں کچھ اس طرح سے کیا ہے کہ ’’۱۸؍جولائی کی رات کو کیپٹن بوپیندر سنگھ عرف میجر ’بشیر احمد خان‘ اور دو مقامی افراد تابش نذیر ملک اور بلال احمد لون کے خلاف ۱۴۰۰ صفحات پر مشتمل چارج شیٹ شوپیان سیشن کورٹ میں دائر کی گئی ۔ چارج شیٹ میں پولیس کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ۱۸ جولائی کی رات کیپٹن بوپیندر سنگھ نے ان دو مقامی افراد کی مدد سے چوگام علاقے سے راجوری کے تین نوجوانوں کو اُن کے کرائے کے گھر سے اغوا کیا۔ اس کے بعد دلی کے نمبر پلیٹ والی کار میں ان تینوں نوجوانوں کو بٹھا کرامشی پورہ، شوپیاں لے جایا گیا۔ جہاں ایک باغ میں ان تینوں کو کیپٹن نے پیچھے سے گولیاں مار دیں۔ اس کے بعد ان نوجوانوں کی نعشوں پروہ ہتھیار بھی رکھے گئے جو وہ گاڑی میں اپنے ساتھ لائے تھے ۔تب کیپٹن نے انھیں خطرناک دہشت گرد قرار دیا اور یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ غیر ملکی ہیں۔ پھر انھیں بارہمولہ کے گانٹھ مولہ کے قبرستان میں دفنایا گیا جہاں عموماً غیر مقامی عسکریت پسندوں کو دفن کیا جاتا ہے ( واضح رہے کرونا وائرس کی بیماری پھوٹنے کے بعد سے اب تک مقامی عسکریت پسندوں کو بھی غیرمقامی قبرستانوں میں دفن کیا جا رہا ہے)۔

 اس فرضی انکاؤنٹر میں مارے گئے نوجوانوں کی شناخت بعد میں ابرار احمد ۱۶سال، امتیاز احمد۲۵سال اور ۲۰سالہ محمدابرار کے طورپر ہوئی تھی، جو ایک روز قبل ہی راجوری سے شوپیاں مزدوری کے لیے آئے تھے۔ اس انکاؤنٹر کے بعد چونکہ ان تینوں نوجوانوں کا رابطہ گھر والوں سے منقطع تھا، تو ان کے لواحقین نے مقامی تھانے میں ایک رپورٹ درج کرائی اور میڈیا میں بھی یہ خبر پھیل گئی جس کی وجہ سے ان کے لواحقین چند ثبوتوں کی مدد سے انتظامیہ پر دبائو ڈانے میں کامیاب ہوگئے اور تب انتظامیہ نے مکمل انکوائری کی یقین دہانی کرائی۔ جس کے بعد شوپیاں پولیس نے مقتولین کے رشتہ داروں کے ڈی این اے کے نمونے حاصل کیے تو ان کے ڈی این اے ان تینوں نوجوانوں سے جاملے پھر کہیں ان کی قبر کُشائی کی گئی اور اُن کی میتیں وارثوں کو سونپی گئیں۔

کشمیر میں اسی ’افسپا‘ کی آڑ میں کئی عشروں سے فرضی انکاؤنٹر ہوتے آ رہے ہیں۔ اسی طرح ۲۰۰۰ء میں پتھری بل میں بھی ایک فرضی انکاؤنٹررچایا گیا، جس میں پانچ بے گناہ افراد کو اسی کالے قانون کی آڑ میں موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔یہ ایک ایسا وحشی قانون ہے جس نے کشمیر کے ہزاروں گھر برباد کر دیے، ہزاردں بچوں کویتیم کر دیا اور بوڑھے ماں باپ کو اپنے سہاروں سے ہاتھ دھونا پڑا ۔اسی قانون کی آڑ میں کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے بڑے الم ناک ریکارڈ تاریخ کے اوراق پر ثبت ہوگئے۔

اس صورتِ حال کے حوالے سے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ انسانی جانوں کو موت کے گھاٹ اُتارکر شہرت اور تمغے حاصل کرنے کا یہ ایک نشہ ہے، جس کو فوجی ’افسپا‘ کو استعمال کر کے ایسے گھنائونے واقعات انجام دے رہے ہیں ۔ایک اور معروف ماہر قانون کا کہنا ہے کہ آئے روز کے فرضی انکاؤنٹر کشمیر میں مزاحمتی تحریک کو عبرت کا نشان بنانے کی ایک کوشش ہے۔بہر حال معصوم انسانوں کا قتل کسی بھی طور قابل برداشت نہیں ہے وہ چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں اور کسی بھی ذات اور مذہب کے ماننے والے کے ساتھ ہو۔ ۲۰۱۸ء میں بھارتی وزارتِ داخلہ نے تسلیم کیا کہ ’افسپا‘ قانون کے تحت سب سے زیادہ خلاف ورزی جموں و کشمیر میں ہوتی ہے ۔۲۰۱۸ء میں بھارتی وزارت دفاع نے پارلیمنٹ میں ایک بیان میں کہا کہ پچھلے تین عشروں میں وزارت نے کسی بھی فوجی اہلکار کے خلاف کارروائی کا کوئی بھی حکم نہیں دیا ہے ۔

یاد رہے ’افسپا‘ بھارت میں اس وقت جموں و کشمیر کے علاوہ شمال مشرق کی چھے ریاستوں میں بھی لاگو ہے ۔یہ قانون شورش زدہ علاقوں میں نافذ کیا جاتا ہے۔جموں وکشمیر میں ۱۹۸۹ء میں شروع ہونے والی عسکری تحریک کے بعد اسے یہاں لاگو کیا گیا۔یہ ایک ایسا کالا قانون ہے جس کے تحت بھارتی فوج جموں وکشمیر میں کسی بھی جگہ آپریشن انجام دینے کے علاوہ کسی بھی شخص کو شک کی بُنیاد پر بغیر وارنٹ کے گرفتار کرنے کے اختیارات رکھتی ہے۔ اس قانون سے کشمیر میں فوجیوںکو انسانی جانوں سے کھیلنے کا لائسنس دے دیا گیا ہے۔ جموں وکشمیر میں جتنی بھی زیادتیاں یا فرضی انکاؤنٹر انجام پاتے ہیں اس سب کے پیچھے یہی کالا قانون ’افسپا‘ ہے، جس کو بھارتی فورسز ڈھال کے طور پر استعمال میں لاکر زیادتیوں کی مرتکب ہورہی ہیں۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل اور انسانی حقوق کی علَم بردار عالمی تنظیمیں، کشمیر میں اس قانون کے تسلسل و تواتر پر افسوس کا اظہار کر رہی ہیں۔ خود بھارت میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور دانش ور بھی اس قانون کو جمہوری اور انسانی اقدار کے خلاف قراردے چُکے ہیں۔

 جتنا جلد ہو سکے اس کالے قانون کو جموں و کشمیر سے ہٹا دیا جانا چاہیے۔ جو کوئی بھی انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ہیں، ان کے خلاف عبرتناک کارروائی کی جانی چاہیے، تب نوجوانوں کا بے گناہی کی پاداش میں اپنی انمول زندگیوں سے ہاتھ دھونا بند ہو سکتا ہے۔ حکومتی سطح پر ایسے معاملات میں اگرچہ تحقیقات وغیرہ کی باتیں دہرائی جاتی ہیں، مگر عملاً وہ وقت گزاری کا بہانہ ہیں۔