- سوال: امام حسن البنا کی ولادت کے سوسال پورے ہونے پر آپ امام کے ساتھ گزرے ہوئے ایام کے بارے میں کچھ کہنا پسند کریں گے؟
- جواب: مجھے اس محبوب اور معزز ہستی کے ساتھ آٹھ سالہ رفاقت کا اعزاز حاصل ہے۔ اگر چہ میں اس وقت نو عمرتھا لیکن ۱۹۴۳ء میں جب میں نے ہوش سنبھالا اور تحریک کے ساتھ وابستہ طلبہ کے ساتھ مل کر مجھے کام کرنے کا موقع ملا۔ اس وقت ہماری خوشی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی تھی، جب ہم طلبہ ہرجمعرات کو محترم امام کا وہ خصوصی لیکچر سننے کے لیے جایا کرتے تھے، جو وہ طلبہ کے لیے ارشاد فرماتے تھے، اور پھرہم ان سے ملنے کا موقع پاتے تھے۔ امام نے نہایت ہی سادہ، آسان اور دل نشین اسلوب میں ہمیں زندگی کے مقصد سے روشناس کیا۔آپ نے ہمیں اسلامی فکر اور اسلامی دعوت کا تحفہ دیا، آپ کی پیاری پیاری نصیحتوں کی بدولت آج بھی ہمارے دل آپ کی محبت سے لبریزہیں۔
آپ کے ہر جملے اور ہرعمل میں ہمارے لیے درس تھا۔ آپ نے ہمیں نظم و نسق، جہد ِمسلسل، وقت کی پابندی اوراس کی قدر وقیمت اور اسلامی اخلاقیات کی تعلیم دی۔ ان کے یہ ناقابلِ فراموش الفاظ آج تک میرے ذہن میں تازہ ہے:’’میں آپ کو علم ، ثقافت اور اخلاق کے میدان میں صرف برتر اور ماہر ہی نہیں، بلکہ دوسروں سے ممتاز اور ممتاز تردیکھنا چاہتا ہوں ‘‘۔
آپ ہم میںسے کم و بیش ہر فرد کو پوری تفصیل کے ساتھ جانتے تھے۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ میرے بارے میں آپ کو یہ بات تک معلوم تھی کہ ہم دس بہن بھائی ہیں اور آپ کے علم میں یہ بھی تھا کہ میرے والد صاحب بڑے سخت مزاج ہیں، جو رات آٹھ بجے کے بعد اپنے بچوں کو گھر سے باہر رہنے کی قطعاً اجازت نہیں دیتے۔ چنانچہ آٹھ بجنے سے پہلے ہی آپ مجھے بڑی شفقت سے متنبہ فرمایا کرتے تھے، تاکہ میرے والد صاحب مجھ پر ناراض نہ ہوں۔ آپ بڑے عمدہ اور صائب الرائے انسان تھے۔ چنانچہ آپ بخوبی جانتے تھے کہ ہم طلبہ کے لیے دوران طالب علمی کون سی چیزیں لازمی ہیں۔آپ ٹوٹ کر ہم سے پیار کرتے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں فزیکل ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ کا طالب علم تھا تو آپ نے مجھے بلایا اور مسافر طلبہ کے لیے ایک گھر کا بندوبست کرنے کی ذمہ داری سونپی۔الحمدللہ آپ کی خواہش کے عین مطابق میں نے دو گھر کرائے پر حاصل کرکے اخوان کے مسافر طلبہ کے لیے قیام گاہ کا انتظام کیا۔ چنانچہ قاہرہ شہر میں یہ دارالاقامہ ہر لحاظ سے ایک مثالی تربیتی مرکز بن گیا، جس میں ہم، مقیم طلبہ کی تعلیم وتربیت اور ورزش وغیرہ کا باقاعدہ انتظام کیا کرتے تھے۔
اخوانی نوجوان رہایش کے لیے مناسب اور صاف ستھرا مکان پسند کیا کرتے تھے، تاکہ پڑھائی اور اسباق کی دہرائی میں کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔استاد حسن البناایک سیدھے سادے اور بے تکلف انسان تھے۔ آپ کا رعب اور ہیبت آپ سے دوری کا نہیں بلکہ آپ سے قرب و محبت کا باعث ہواکرتاتھا۔
- امام البنا کے کس رویے نے آپ کو از حد متاثر کیا ہے ؟
- فلسطین کے حوالے سے ان کا قوی اور جری موقف آپ کی زندگی کا ایک ممتاز اور نمایاں باب ہے۔ آپ ہمیشہ جہاد فلسطین کا تذکرہ فرماتے تھے اور اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ہمدردی اور تعاون کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ فلسطین کے ساتھ آپ کے گہرے تعلق نے ہمیں ازحد متاثر کیا۔ اسی طرح ابتدائی ایام میں یونی ورسٹی میں اخوان کے پرجوش نوجوان ساتھی، کمیونسٹوں کے ساتھ سختی سے پیش آتے تھے۔ لیکن امام البنا ہمیں ہمیشہ اس رویہ سے منع فرماتے اور کہتے کہ: ’’پہلے مارکس کے نظریات کا مطالعہ کرکے اس کوذہن نشین کریں، اس کے بعد دلیل کی بنیاد پر اس کے مقابلے کے لیے میدان عمل میں آئیں‘‘۔ چنانچہ اس عمل پہ عجب صورت سامنے آئی کہ اشتراکیت کا مطالعہ کرکے ہمیںکمیونسٹوں سے زیادہ کارل مارکس کے افکار سے واقفیت ہوگئی۔ اس سلسلے میں آپ ہمیشہ ہم جوانوں کو اس با ت کی وصیت فرمایا کرتے تھے کہ:’’فکر کا مقابلہ فکر ہی کرسکتی ہے‘‘۔ اس لیے ہم نے سنجیدگی کے ساتھ مختلف افکار کا مطالعہ کیا، جس کے نتیجے میں ہم اس قابل ہوئے کہ اخوان کی فکر کو ایک ممتاز اور کامیاب اسلوب کے ساتھ لوگوں کے سامنے رکھ سکیں۔
- بعض حلقوں نے امام البنا پر اعتراض کیا کہ وہ دوسری مصری پارٹیوں کے بارے میں منفی راے رکھتے تھے۔ اس اعتراض کی حقیقت کیا ہے ؟
- اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت کی سیاسی جماعتوں پر امام اعتماد نہیں کیا کرتے تھے۔ بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس وقت کی اکثر سیاسی پارٹیاں یا تو براے نام تھیں یا پھر فساد زدہ ’وفدپارٹی‘ سے علیحدہ ہوئی تھیں، اور اسی کے نظریات کی حامل تھیں۔ ان کے علاوہ سیاسی جماعتیں نہ تو کوئی واضح پروگرام اور طریق کار رکھتی تھیں اور نہ کسی متعین ہدف کی حامل تھیں۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود آپ ہم جوانوں کو عباس محمود عقاد ، محمود شاکر اور محب الدین الخطیب وغیرہ کی مجالس میں بیٹھنے اور ان سے استفادہ کرنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ اگرچہ بسا اوقات ایسے بھی ہوتا کہ محمود شاکر اور عقاد ہمیں گالیاں دیا کرتے تھے، لیکن ہم یہ سب سن کر ان کے ساتھ بحث و مباحثہ کرتے ، ان کو مدلل جوابات دیا کرتے تھے اور بعض پہلوئوں سے اپنے کمزور دلائل کو مطالعے سے بہتر بناتے تھے۔
- بعض معترضین اخوان پر شدت پسندی کا الزام عائد کرتے ہیں اور خازن د ار کے واقعے کو بطور مثال پیش کرتے ہیں؟
- یہ لوگ درحقیقت اخوان کی دعوت سے بے خبر ہیں ، امام حسن البنا کوئی ڈھکی چھپی شخصیت نہیں، بلکہ آپ کی شان دار تاریخ ، متوازن طریق کار اور واضح لائحہ عمل سب کے سامنے ہے۔ افراد سازی ،گھریلو تربیت اور پھر معاشرے کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنا ایک ایسا پروگرام ہے جس کو آپ نے سوچ سمجھ کر ایک منطقی تسلسل کے مطابق وضع کیا۔
جہاں تک خازن دار کے واقعے کا تعلق ہے، تو امام حسن البنانے اس قتل کی شدید مذمت کی تھی اور اس سے اخوان کی براء ت کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اخوان کسی بھی قسم کے تشدد پر یقین نہیں رکھتے بلکہ تبدیلی اور انقلاب کے لیے مضبوط اور واضح موقف کے ساتھ وہ حکومتی اداروں میں بڑی حد تک صلح آمیز تبدیلی پر یقین رکھتے ہیں۔
- امام حسن البنا کو قتل کرنے سے پہلے بہت سارے اخوانی رہنما پابند سلاسل کر دیے گئے، جب کہ خود انھیں نہیں گرفتار کیا گیا- اس واقعے کے حوالے سے آپ کچھ بتانا پسند فرمائیں گے؟
- یہ ایک واضح عالمی سازش تھی جس میں امریکہ سمیت انگریز اور فرانس شریک تھے۔ ۱۹۴۸ء کے جہاد فلسطین ( جس میں اخوانی مجاہدین نے عظیم کارنامے انجام دیے ) سے واپسی پر نقراشی پاشا نے اخوان المسلمون کو کالعدم قرار دے دیا، تاکہ وہ صہیونیوں کے ساتھ صلح کے معاہدے کا اعلان کرسکیں۔ واضح رہے کہ اخوان کے جتنے مجاہدین بھی فلسطین میں جہاد کے لیے گئے تھے ،انھوںنے صرف اور صرف صہیونیوں کے خلاف کارروائیاں کی تھیں، کسی بھی مصری یا فلسطینی باشندے کو انھوں نے کوئی گزند نہیں پہنچائی۔
نقراشی نے اخوان کو تحلیل کرکے اخوان کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتارکرلیا ، اس وقت اگر اخوان مزاحمت کرنا چاہتے تو بھرپور مزاحمت کرسکتے تھے‘ لیکن روز اوّل سے ہی تشدد اور قتل اخوان کا طریق کار نہیں ہے ، اور نہ اخوان ، حکومت کے خلاف بغاوت یا تختہ الٹنے کا کوئی ارادہ رکھتے تھے۔ بلکہ جب اخوان کو کالعدم قرار دیا گیا اور ان سے کہا گیا کہ جہاد کے دوران حاصل کیا جانے والا اسلحہ ہمارے حوالے کردو تو بلاتأمل انھوںنے اپنااسلحہ حکومت کے سپرد کردیا۔ اس دوستانہ تعاون کے فوراً بعد حکومت نے مجاہدین کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا۔
- جماعت کب اور کیسے دوبارہ بحال کی گئی ؟
l ۱۹۵۱ء میں جماعت نے دوبارہ منظم طریقے سے بلکہ پہلے سے کئی گنا بڑھ کر اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ استاد حسن الہضیبی جماعت کے نئے مرشد عام منتخب ہوئے۔ اب مصربھرمیں اخوان کو ایک منظم قوت کے طور پر مانا جانے لگا اور مصر کے اطراف و اکناف میں اخوان کی شاخیں قائم ہوگئیں اور انھوں نے تربیتی ، علمی، ثقافتی،سیاسی ، سماجی غرض سارے میدانوں میں منصوبہ بندی کے ساتھ اپنی سرگرمیاں بحال کردیں۔
- جولائی ۱۹۵۲ء کے انقلاب کے بعد حالات نے کیا رخ اختیار کیا ؟
- یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے جس پر گفتگو تفصیل کی متقاضی ہے۔ اس وقت ملک کی سیاسی صورت حال بد ترین تھی۔ پوری قوم بادشاہ اور حکمران ٹولے کے بے سروپا تصرفات اور قومی مفادات کے منافی اقدامات سے تنگ آکرسراپا احتجاج بن چکی تھی۔ فوج کا موقف بھی حکومت کے خلاف تھا۔ چنانچہ فوج نے حکمرانوں کے خلاف فوجی بیرکوں میں محمد نجیب کی قیادت میں ایک نظام تشکیل دیا ، انھی دنوں غیر ملکی قوتوں کے ساتھ نہرسویز کی مشہور لڑائی بھی رونما ہوئی، جس میں مصری قوم نے انگریزی فوج اور ان کے حامیوں کے خلاف جنگ میں شریک ہوکر بیرونی تسلط یکسر مسترد کرنے کا اعلان کیا۔ جس کے نتیجے میں ۲۶جنوری کو قاہرہ کو جلانے کی مذموم سازش عمل میں لائی گئی۔ لیکن اس کے باوجود انگریزوں اور حکومتی فساد کے خلاف مزاحمت کو خاموش نہ کیاجاسکا۔ یہاں تک کہ مصطفی نحاس پاشا کو حکومت چھوڑنا پڑی۔ بعد ازاں ۲۳ جولائی کو فوجی انقلاب عمل میں آیا، جس میں اخوان نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔
انقلاب کی کامیابی میں پوری مصری قوم کی اس خواہش کو بنیادی اہمیت حاصل تھی، جو حکمران طبقے سے تنگ آکر کسی تبدیلی کی خواہش مند تھی۔ آغاز میں انقلابی قیادت اور اخوان کے تعلقات بہت اچھے تھے۔ بعد میں فوج نے متفقہ پروگرام کی دفعات کو پس پشت ڈالنا شروع کردیا۔ چنانچہ اس وقت کے مرشدعام استاد حسن الہضیبی نے انقلابی کونسل کی توجہ ان چھے متفقہ نکات کی طرف مبذول کرائی، جس میں احترام آزادی ، دستور کی پاسداری ،اسلامی نظام کا نفاذ اور احترام آدمیت شامل تھے۔ لیکن انھوں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی، بلکہ اسی مطالبہ کو اخوان کے ساتھ اختلافات کی بنیاد بنا کر ان کے خلاف سازشیں شروع کردیں اور بالآخر جنوری ۱۹۵۴ء کو وہ دن بھی آپہنچا جب ایک بار پھر اخوان کو کالعدم قرار دے دیاگیا۔ اخوان کے ہزاروں لوگوں کو مختلف جیلوں میں پابند سلاسل کر دیاگیا۔یہ حالت زیادہ دیر تک نہ رہی۔ جلد ہی انقلابی کونسل کی قیادت اختلافات کا شکار ہوگئی اورجنرل نجیب کو معزول کردیا گیا۔بعد ازاںشاہ سعود کی وساطت سے اخوان اور انقلابی کونسل کے درمیان کسی حد تک ایک مفاہمت ہوگئی اور مارچ ۱۹۵۴ء سے اخوان نے دوبارہ اپنی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز کردیا۔ لیکن چند دن گزر ے تھے کہ اسکندریہ کے قریب منشیہ نامی جگہ پر عبدالناصر پر قاتلانہ حملے کا ڈراما رچایا گیا اور اس کو اخوان کے سرتھوپاگیا۔ ایک بار پھر اخوان کے ہزاروں لوگ جیلوں میں بند کردیے گئے، ان پر فوجی اور سول عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے، جس کے نتیجے میں اخوان کی چھے عظیم شخصیات ،عبدالقادر عودہ ، محمد فرغلی ،ابراہیم طیب ، یوسف طلعت ، محمود عبداللطیف اور ہنداودی دویر کو تختہ دار پر لٹکا دیاگیا، انا للّٰہ و انا الیہ رٰجعون!
- حسن البنا کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے آخرت کی کامیابی کا درس دینے کے بجائے دنیا پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی، جوکہ غیر مذہبی رویہ ہے؟
- یہ اعتراض نا سمجھی پر مبنی ہے ۔ یہ دنیا، آخرت سے جڑی ہوئی ہے اور کسی لحاظ سے بھی جدا نہیں ہے۔ ہم اس دنیا میں کوئی بھی ایسی حرکت نہیں کرتے جس کے کرنے سے اللہ تعالیٰ راضی یا ناراض نہ ہوتا ہو۔ آپ نے یہ بھی سنا ہوگا کہ لوگ کہتے ہیں : امام حسن البنا شہید ہوگئے ، لیکن آپ جانتے ہیں کہ ان کی فکر اور ان کی برپا کی ہوئی تحریک ابھی تک زندہ ہے ، ہر جگہ ان کے شاگرد موجود ہیں۔ یہ درحقیقت اس دعوت کی سچائی ، خوب صورتی ، اس کی عظمت اور ان کی دعوت پر لوگوں کے یقین کی روشن دلیل ہے۔ ہم چالیس کے عشرے میں جب یونی ورسٹی میں پڑھتے تھے ، اگرچہ اس وقت ہماری تعداد بھی کم تھی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم نے اس پروگرام ، اس منہج اور طریق کار کی پوری طرح حفاظت کی___ اسلام کو امام حسن البنا نے بڑے واضح ، سادہ اور عام فہم انداز میں ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر پیش فرمایا جو زندگی کے تمام شعبوں ، ثقافتی ،علمی ، فقہی ، تربیتی ، فنی اور کھیل پر محیط ہے۔ اس لیے اگرچہ آج وہ ہم سے رخصت ہوچکے ہیں لیکن ان کی فکر ، ان کے مستقبل کے لائحہ عمل اور پروگرام کو لے کر آگے بڑھنے والے الحمدللہ دنیا کے ہر کونے میں موجود ہیں۔