اللہ تعالیٰ کی شانِ ربوبیت ورحمت کائنات کی ہر چیز سے ظاہر ہوتی ہے۔ وہ رب العالمین ہے۔ رحمٰن ورحیم ہے (الفاتحہ )۔ اس کی رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے۔ جیسا کہ ارشار ہے:
وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ۰ۭ (اعراف۷ :۱۵۶)اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
وَسَخَّــرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَاۗىِٕـبَيْنِ۰ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّہَارَ۳۳ۚ وَاٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ ۰ۭ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللہِ لَا تُحْصُوْہَا ۰ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ۳۴ۧ (ابراہیم ۱۴:۳۳-۳۴) اور اس( اللہ) نے سورج اور چاند کو تمھارے لیے مسخر کیا کہ لگا تار چلے جا رہے ہیں اور رات اور دن کو تمھارے لیے مسخر کیا۔ اور تم کو وہ سب کچھ دیا جوتم نے مانگا (یعنی تمھاری فطرت کی ہر مانگ پوری کی )۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے۔ بے شک انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے۔
تفہیم القرآن میں ان آیات کی تشریح کرتے ہوئے مولانا مودودی نے لکھا ہے کہ مسخر کرنے کا مطلب ان کو ایسے قوانین کاپابند بنانا ہے، جس کی بدولت یہ انسان کے لیے نافع ہوگئے ہیں۔
اللہ کی رحمتوں اور نعمتوں کا کسی ایک زاویے سے بھی احاطہ کر پانا ناممکن ہے۔ اس مضمون میں دھوپ اور سایے کے تعلق سے ان پر کچھ نظر ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
دھوپ اور سایہ بظا ہر متضاد چیزیں ہیں۔ سایے کو عام طور پر راحت اور آرام کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ دھوپ میں بظاہر ایسانہ ہو لیکن ذرا غور کرنے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ دھوپ خود کاروبارِ زندگی لیے نہایت اہم اور ضروری ہے۔ دوسرے دھوپ ہی سایے کی اہمیت اور افادیت کی پہچان بنتی ہے۔ اگر دھوپ نہ ہو تو سایہ بھی نہیں رہتا۔
جس طرح گھنا سایہ رب کریم کی رحمتوں کا مظہر ہے اسی طرح دھوپ کو بھی اس نے سایے دار درخت اور اس کے ساتھ ہی دوسری زمینی مخلوقات کے لیے رحمت اور رزق کا سامان بنا دیا ہے۔ وہ اس دھوپ کو قابل برداشت اور اکثر صورتوں میں خوش گوار ربنائے رکھتا ہے۔
سایہ دار درخت اور زمین پر پھیلے ہوئے تمام پیڑ پودے ، جڑی بوٹیاں سورج کی روشنی (دھوپ) میں ہی اپنی خوراک بناتے ہیں اور نشونما پاتے ہیں اور اسی عمل میں وہ ماحول کی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے آکسیجن نکالتے ہیںجو زندگی کے لیے ناگزیر ہے۔ اس دوران استعمال ہونے والی سورج کی توانائی (Solar Energy) کا ایک حصہ پیڑ پودوں کی پتیوں، ڈالوںاور تنوں میں محفوظ ہو جاتا ہے جو انھیں جلا کر دوبارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح پیڑ پودے شمسی توانائی کے بہترین ذخیرے کے طور پر کام کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا فَاِذَآ اَنْتُمْ مِّنْہُ تُوْقِدُوْنَ۸۰ (یٰسٓ ۳۶:۸۰) (اللہ) جس نے تمھارے لیے ہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کردی اور تم اس سے اپنے لیے آگ سلگاتے ہو۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
اَفَرَءَيْتُمُ النَّارَ الَّتِيْ تُوْرُوْنَ۷۱ۭ ءَ اَنْتُمْ اَنْشَاْتُمْ شَجَرَتَہَآ اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِــُٔوْنَ۷۲ نَحْنُ جَعَلْنٰہَا تَذْكِرَۃً وَّمَتَاعًا لِّلْمُقْوِيْنَ۷۳ۚ (الواقعہ۵۶:۷۱-۷۳)کبھی تم نے خیال کیا، یہ آگ جو تم سلگاتے ہو، اس کا درخت تم نے پیدا کیا ہے، یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں ؟ ہم نے اس کو یاد دہانی کا ذریعہ اورحاجت مندوں کے لیے سامانِ زیست بنایا۔
آج کل شمسی توانائی کو محفوظ کرنے اور ذخیرہ کرنے کے نئے نئے طریقے ایجاد ہو گئے ہیں جن سے بڑے پیمانے پر شمسی توانائی سے بجلی پیدا کی جا رہی ہے ۔ جگہ جگہ دھوپ کے مواقع پر سولرپینل (Solar Panels ) لگ رہے ہیں اور دھوپ سے بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ ان فوائد سے بڑھ کر پیڑ پودوں کے پھل پھول اور پتیاں ہی انسانوں اور جانوروں وغیرہ کی غذا بنتے ہیں اور انھی سے پھر گوشت اور دودھ وغیرہ بھی بنتے ہیں ۔ اس طرح پیڑ پودے خاموش خدمت میں لگے ہوتے ہیں جس کا سارا انتظام رب کریم کی طرف سے ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں جگہ جگہ اس کا بیان مختلف انداز میں ہوا ہے۔ (المؤمنون ۲۳:۱۷۔۲۲ ،قٓ۵۰:۶۔۱۱)
سورۃ الشعراء میں ارشاد ہے:
اَوَلَمْ يَرَوْا اِلَى الْاَرْضِ كَمْ اَنْۢبَـتْنَا فِيْہَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيْمٍ۷ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً ۰ۭ وَمَا كَانَ اَكْثَرُہُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۸ وَاِنَّ رَبَّكَ لَہُوَالْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ۹ۧ (الشعراء ۲۷:۷-۹)کیا انھوں نے زمین کی طرف نگاہ نہیں کی ، ہم نے اس میں کتنی نوع بنوع کی فیض بخش چیزیں اُگارکھی ہیں؟ اس میں بے شک بہت بڑی نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ اور بے شک تمھارا رب غالب بھی ہے، مہربان بھی۔ (ترجمہ تدبر قرآن ، از مولانا امین احسن اصلاحی )
سورۂ شعراء میں خاص طور سے انبیائے سابقین کے حالات زندگی سے رب کریم کی رحمت اور قدرتِ کاملہ کی نشانیاں بیان کی گئی ہیں اور نبی ؐ پر ایمان لانے سے انکار کرنے والوں کو ان کے انجام بد سے ڈرایا گیا ہے، لیکن سب سے پہلے (آیت ۲۷:۷) شانِ رحمت وربوبیت کی وہ نشانی پیش کی گئی ہے جو سب کے سامنے ہے اور تھوڑے غورو فکر سے بخوبی سمجھ میں آ جاتی ہے۔
دھوپ اپنی ساری افادیت کے باوجو داگر مستقل طور پر ہمارے اوپر پھیلی رہے تو ایک مصیبت بن جائے جس کا اندازہ گرمیوں میں ہوتا ہے، اور سردیوں میں اس کا بھی اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے کہ دھوپ ہماری زندگی کے لیے کتنی ضروری ہے۔ سائنسی تحقیقات اس پر روشنی ڈالتی ہیں کہ اگر ایک لمبی مدت تک زمین سورج کی روشنی سے محروم ہو جائے تو موجود ہ نظام میں زمین پر زندگی معدوم ہو سکتی ہے، لیکن رب کریم نے دن کا ایک معتدل فیض بخش نظام قائم فرمایا ہے۔زمین اپنی دھرے (Axis ) پر تقریباً ۲۴ گھنٹوں میں ایک چکّر پورا کرتی ہے، جس سے رات اور دن باری باری آتے رہتے ہیں، اور اپنے دھرے پر تقریباً ۲۳ ڈگری زاویے پر جھکی رہتے ہوئے سورج کے گرد سال (تقریباً ۴/۱، ۳۶۵ دن ) میں ایک چکّر پورا کرتی ہے۔ جس سے رات، دن گھٹتے بڑھتے ہیں اور موسم کی تبدیلی وغیرہ جیسے بے شمار فوائد اعتدال کے ساتھ حاصل ہوتے ہیں ۔ قرآن کریم میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد ہے:
اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْيَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِيْہَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّۃٍ ۰۠ وَّتَصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ۱۶۴ (البقرہ۲: ۱۶۴) بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدایش میں اور رات اور دن کے بدل بدل کر آنے جانے میں اور ان کشتیوں میں جو سمندر میں ان چیزوں کے لیے چلتی ہیں جو لوگوں کو نفع دیتی ہیں۔ اور اللہ نے جو آسمان سے پانی نازل کیا، پھر اس کے ذریعے سے زمین کو جو مُردہ ہوچکی تھی زندہ کیا اور ان ہر قسم کے جانوروں میں جواس نے زمین میں پھیلائے ہیں اور ہوائوں کے پھیر بدل میں اور ان بادلوں میںجو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر کردیے گئے ہیں عقل مندوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔
دن اور رات بھی دھوپ اور سایے کی بڑی اور پھیلی ہوئی شکلیں ہیں۔ زمین کے جس آدھے حصے پر سورج چمک رہا ہوتا ہے، اسی کا سایہ دوسرے آدھے حصے پر پڑتا ہے اور وہاں رات ہوتی ہے ۔ کاروبار زندگی کے لیے دن اور رات کا مناسب رفتار سے آنا جانا جو اہمیت رکھتا ہے واضح ہے۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے:
اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ ۰ۚ وَلَوْ شَاۗءَ لَجَعَلَہٗ سَاكِنًا ۰ۚ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْہِ دَلِيْلًا۴۵ۙ ثُمَّ قَبَضْنٰہُ اِلَيْنَا قَبْضًا يَّسِيْرًا۴۶ وَہُوَالَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِبَاسًا وَّالنَّوْمَ سُـبَاتًا وَّجَعَلَ النَّہَارَ نُشُوْرًا۴۷ (الفرقان ۲۵: ۴۵- ۴۷)کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے سایے کو کس طرح پھیلادیا ہے؟ اگر چاہتا تو اسے ٹھیرا ہوا ہی کر دیتا۔ پھر ہم نے آفتاب کو اس پر دلیل بنا دیا (یعنی دھوپ سے ہی سایے کا پتا چلتا ہے۔ اگر سورج نہ ہو تو سایہ بھی نہ ہو )۔ پھر ہم نے اسے آہستہ آہستہ اپنی طرف کھینچ لیا اور وہی ہے جس نے رات کو تمھارے لیے پردہ بنایا اور نیند کو راحت بنایا اور دن کو جی اُٹھنے کا وقت (جوکاروبار زندگی کے لیے ضروری ہے )۔
سورۂ قصص میں بھی یہ بات کچھ اور وضاحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ارشاد ہوا:
قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللہُ عَلَيْكُمُ النَّہَارَ سَرْمَدًا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ مَنْ اِلٰہٌ غَيْرُ اللہِ يَاْتِيْكُمْ بِلَيْلٍ تَسْكُنُوْنَ فِيْہِ ۰ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۷۲ وَمِنْ رَّحْمَتِہٖ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّہَارَ لِتَسْكُنُوْا فِيْہِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۷۳ (القصص ۲۸:۷۲-۷۳) ان سے کہو کیا تم نے سوچا کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لیے دن طاری کر دے تو اللہ کے سوا وہ کون سا معبود ہے جو تمھیں رات لادے، تا کہ تم اس میں سکون حاصل کر سکو؟ کیا تم کو سوجھتا نہیں؟ یہ اسی کی رحمت ہے کہ اس نے تمھارے لیے رات اور دن بنائے تا کہ تم (رات میں ) سکون حاصل کرو اور (دن میں) اپنے ربّ کا فضل تلاش کرو، شاید کہ تم شکر گزار بنو۔
رب کریم کی عطا کردہ بے شمار نعمتیں ہیں جن کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا لیکن وہ ہماری زندگیوں میں ایسی شامل ہیں کہ اکثر ان کی قدر وقیمت کا احساس نہیں رہتا۔
اَللّٰھُمَّ اَعِنَّا عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِ کَ وَ حُسنِ عِبَادَتِکَ ، اے اللہ ! ہماری مدد فرما کہ ہم تیرا ذکر، تیراشکر اور تیری عبادت بہ حسن وخوبی کرتے رہیں۔