محمد ظہیرالدین بھٹی


عوامی جمہوریہ بلغاریہ جنوب مشرقی یورپ کے خطّہ بلتان میں واقع ہے۔ شمال میں رومانیہ‘ جنوب میں ترکی اور یونان‘ مغرب میں سربیا‘ مشرق میں بحراسود اور جنوب مغرب میں مقدونیہ ہے۔ اس کا صدر مقام صوفیہ ہے‘ سرکاری مذہب سیکولرازم‘ سرکاری زبان بلغارین اور (۱۹۹۲ء کی مردم شماری کے مطابق ) کل آبادی ۸۰ لاکھ ہے۔ ملک کی غالب اکثریت عیسائی ہے‘ جب کہ مسلمانوں کی آبادی ۳۰لاکھ ہے۔ عثمانی خلفا نے اسے ۱۳۶۳ء میں فتح کیا۔ بلغاریہ ۱۹۰۸ء میں سلطنتِ عثمانیہ سے الگ ہوا۔ دونوں عالمی جنگوں میں بلغاریہ نے محوری طاقتوں کا ساتھ دیا۔ عالمی جنگ کے بعد معاہدہ وارسلز میں شامل ہوا جب کمیونسٹوں نے اس پر قبضہ کرلیا تھا۔ پہلے جمہوری عوامی انتخابات ۱۹۹۰ء میں ہوئے۔ اپریل ۲۰۰۵ء میں بلغاریہ کے یورپی یونین میں شامل ہونے کے معاہدے پر دستخط ہوئے اور بلغاریہ کو شریک رکن بنا لیا گیا۔ یکم جنوری ۲۰۰۷ء سے بلغاریہ باقاعدہ طور پر یورپی یونین کا ممبر بن جائے گا۔

بلغاریہ کے مسلمان ایک طویل عرصے سے دبائو‘ تشدد اور ظلم کا سامنے کرتے چلے آرہے ہیں۔ وہ اس سے ماضی میں محفوظ تھے نہ آج ہیں۔ وہ خود کمیونسٹ دہشت گردی کا نشانہ بنے رہے___ لیکن انھیں دنیا کے دیگر مسلمانوں کی طرح ’دہشت گرد‘ قرار دیا جا رہا ہے۔

مسلمانانِ بلغاریہ کو ماضی قریب میں کچھ سیاسی و دینی حقوق ملے ہیں جیسے انھیں‘ ۱۹۹۴ء میں اپنے کچھ اسکول کھولنے‘ سیاسی پارٹیاں بنانے اورالیکشن میں شرکت کی اجازت ملی‘ تاہم انھیں اب تک ازسرِنو اسلامی نام رکھنے کی اجازت نہیں۔ وہ انھی ناموں کو اپنی شناخت کے لیے استعمال کرنے پر مجبور ہیں جو کمیونسٹ آمریت نے ان پر مسلط کیے تھے۔ اسلامی ناموں سے محروم کیے جانے کے بعد وہ اپنے تشخص سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ دین اسلام کے ساتھ ان کا تعلق کمزور پڑگیا۔

کمیونسٹ دورِ اقتدار میں جو کچھ مسلمانوں پر گزری‘ اس کی تلخ یادیں وہ اب تک نہیں بھول پائے۔ پلون ڈوف میں ۴۰ ہزار سے زیادہ بلغاری مسلمان رہ رہے ہیں۔ ان سب کو کمیونزم کے پُرتشدد منحوس دور کے وہ مظالم خوب یاد ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف روا رکھے گئے۔ چنانچہ وہاں کی مقامی تنظیم کے سربراہ جوایل لیف کہتے ہیں: ’’اب تک ہماری آنکھوں کے سامنے اپنی تاریخ کے وہ المناک بھیانک صفحات کھلے پڑے ہیں جنھیں بھلانا آسان نہیں___ بالخصوص ۱۹۸۴ء سے ۱۹۸۹ء کی درمیانی مدت میں ہم پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا۔ ہمیں دبائو اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ سب کچھ ’قومی تعمیرنو‘ کے نام سے ہورہا تھا۔ کمیونسٹوں نے ہمیں اسلامی شعائر سے روک دیا‘ ہم پر غیراسلامی نام مسلط کیے۔ مسلمانوں کو ہر ممکن طریقے سے دبایا گیا اور پھرانھیں ترکِ وطن پر مجبور کیاگیا۔ ذرائع ابلاغ بلغاری مسلمانوں کو جلاوطن کردینے کے بارے میں یوں بات کرتے تھے جیسے وہ کسی ’اجتماعی سیاحت‘ کے بارے میں گفتگو کر رہے ہوں‘‘۔

۱۹۸۴ء سے ۱۹۸۹ء کی اس مدت میں ۵ لاکھ سے زائد مسلمانوں کو بلغاریہ کے حکام کے ظالمانہ حکم سے بلغاریہ سے نکال دیا گیا۔ الزام یہ تھا کہ یہ بلغاریہ کے قدیم باشندے نہیں ہیں بلکہ  ترک ہیں۔ حالانکہ بلغاری مسلمان کئی صدیوں سے وہاں رہ رہے ہیں۔ بلغاریہ کے مسلمانوں کو اپنے وطن سے زبردستی جلاوطن کرنے کا آپریشن دوسری عالمی جنگ کے بعد‘ یورپ میں سب سے بڑا جلاوطنی کا اقدام تھا۔ اس جلاوطنی کے بارے میں محترم لیف نے کہا: ’’بلغاریہ سے ہمارا جبری انخلا ایک عظیم انسانی المیہ تھا۔ ہمیں کچھ معلوم نہ تھا کہ ہم نے کہاں جانا ہے؟ کمیونسٹ حکام کی طرف سے یہ الٹی میٹم ملا کہ سرزمینِ بلغاریہ چھوڑنے کے لیے آپ لوگوں کے پاس صرف ۲۴گھنٹے ہیں۔ انھوں نے ہمیں پاسپورٹ دیے۔ نہایت پریشانی کا عالم تھا۔ میری بیوی حاملہ تھی۔ ہم لوگ بلغاریہ سے نکلے تو ہمارے پاس معمولی ذاتی سامان کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس جبری جلاوطنی سے پہلے کبھی اس نوعیت کے المیے کے بارے میں سوچا بھی نہ تھا۔ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہمیں اپنے ہی دیس سے یوں اچانک نکال دیا جائے گا۔ یہ سب کچھ ہمارے لیے قطعاً خلافِ توقع تھا۔ ہم نے کمیونسٹ افسروں سے پوچھا کہ ہمیں اپنی سرزمین سے کیوں نکالا جا رہا ہے؟ ہمیں اپنے گھروں سے کیوں بے دخل کیا جا رہا ہے؟ ہمیں ہمارے تشخص‘ تاریخ اور اسلامی ناموں سے کیوں محروم و لاتعلق کیا جارہا ہے تو انھوں نے ہمیں کچھ جواب نہ دیا۔

مجھے بلغاریہ واپس آئے چند ہی سال ہوئے ہیں۔ بلغاری مسلمانوں کی حالت قابلِ رحم ہے۔ دیکھ کر رونا آتا ہے۔ جلاوطنی کے ایام انتہائی المناک‘ بھیانک‘ روح فرسا اور ناخوشگوار تھے۔ اس قسم کے حالات میں اگر آپ وطن سے باہر‘ سات آٹھ سال مجبوراً گزار کر واپس آتے ہیں توآپ کو یہ دیکھ کر انتہائی دلی صدمہ پہنچے گا کہ آپ کا گھر منہدم ہوچکا ہے۔ آپ کی دکانوں پر غیروں کا قبضہ ہے۔ مال و اسباب لُوٹا جاچکا ہے۔ آپ اپنے آپ کو پردیسی سمجھیں گے۔ ان چند برسوں نے ہمارے دل ودماغ پر برے اثرات‘ تلخ یادیں اور مکروہ پرچھائیں چھوڑی ہیں‘‘۔

بلغاریہ کی ایک مسلمان خاتون حکیمہ ہاس مانوفا ہیں۔ آپ ایڈوکیٹ ہیں۔ اقلیتوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنے میں دل چسپی رکھتی ہیں۔ جمہوریت کے استحکام پر یقین رکھتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ دوبارہ اس قسم کا المیہ پیش نہ آئے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ مسلمانوں کو اسلامی نام رکھنے کی اجازت دی جائے۔ کمیونزم کے خاتمے کے باوجود مسلمان اپنے ناموں کی بحالی سے محروم ہیں۔ وہ اس سلسلے میں جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس قسم کے ظلم کی پوری دنیا میں کہیں اور مثال نہیں ملتی۔ کمال یہ ہے کہ حکومتِ بلغاریہ اپنے آپ کو ’جمہوری حکومت‘ بھی کہتی ہے اور بڑے شدّومد سے اپنے جمہوری ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے اور ۲۰۰۷ء میں یورپی یونین میں شمولیت کے لیے بھی کوشاں ہے۔

محترمہ حکیمہ کا جس سیاسی پارٹی سے تعلق ہے‘ اس کے سربراہ کو کمیونسٹوں نے گرفتار کرلیا تھا۔ یہ پارٹی ۱۹۹۰ء میں بلغاریہ کے پہلے عام انتخابات میں ایک پارلیمانی گروپ کے طور پر اُبھری تھی۔ محترمہ حکیمہ کے بقول: ’’ہماری پارٹی نہ کوئی نسلی گروہ ہے نہ ہی کوئی فرقہ وارانہ تحریک۔ یہ ایک سیاسی تنظیم ہے جو دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کا نہ صرف درست متبادل ہے بلکہ ایک ایسے وقت میں ایک معتدل سیاسی پارٹی ہے‘ جب کہ مسلمانوں کے حقوق کا مطالبہ ایک طرح سے ممنوع ہے‘‘۔

بلغاریہ کے صوبہ توسبات توی کے زیرانتظام جنوبی کوہِ روڈی بیز میں واقع ایک دُورافتادہ گائوں ’سران تیزا‘ ہے۔ اس کی کل آبادی ۴ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ اس گائوں میں چندسال پہلے تین اسلامی مدرسے قائم ہوئے تھے۔ یہ مدرسے سعید موکلو اور عبداللہ سالی کے زیرنگرانی کام کررہے ہیں۔ یہ دونوں حضرات سعودی جامعات سے فارغ التحصیل ہیں۔ ان مدارس کے قیام کا بنیادی مقصد دینی تعلیمات سے روشناس کرانا ہے تاکہ خطے کے مسلمانوں کے اسلامی تشخص کو برقرار رکھا جا سکے۔ یورپ اور امریکا میں جب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ’دہشت گردی‘ کے الزامات کا آغاز ہوا تو یہ اسلامی اسکول بھی اس کی زد میں آئے۔ تاہم ان کے منتظم ان شرانگیز الزامات کی پروا کیے بغیر اپنے اسکولوں کو مستعدی و جان فشانی سے چلا رہے ہیں۔ وہ ایک طرف مسلمانوں کی نوخیز نسل کی اسلامی نہج پر تربیت کر رہے ہیں‘ انھیں اسلامی ثقافت اور قدروں سے متعارف کروا رہے ہیں‘ اور دوسری طرف ان اسکولوں میں مسلم خواتین کے لیے تربیتی کورسوں کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ مسلمان بچوں‘ بچیوں‘ عورتوں اور مردوں کو طویل و تاریک کمیونسٹ دورِ حکومت میں دینی تعلیم کے حصول سے محروم رکھا گیا تھا۔ ان اسلامی اسکولوں میں ہرعمر کے مرد و زن کے لیے تربیتی کورس چلائے جا رہے ہیں۔

بلغاریہ کے کچھ ذرائع ابلاغ ان اسکولوں کے خلاف مسلسل یہ زہریلا اور اشتعال انگیز پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ ان اسکولوں میں ’بنیاد پرست‘ تیار کیے جارہے ہیں۔ اس سلسلے میں فاطمہ چوچیف کہتی ہیں: ’’یہ لوگ ہمارے خلاف تعصب اور کینہ پروری سے کام لے کر عوام کے جذبات کو بھڑکاتے ہیں۔ وہ اپنے کرتوتوں کو ہمارے سرمنڈھ رہے ہیں۔ میری ایک پڑوسن حجاب اُوڑھتی ہے‘ اس پر انھوں نے ’طالبان‘ ہونے کی پھبتی کَسی ہے‘‘۔

بلغاریہ کی ایک اور مسلم خاتون نے کہا: ’’یہ لوگ ہمارے خلاف بغض و کینہ اور نفرت و عداوت کی آگ بھڑکاتے رہتے ہیں۔ ہم ایک آزاد جمہوری ملک کے باشندے ہیں۔ دراصل ’دہشت گرد‘ وہ لوگ ہیں جو ہمیں سروں پرچادریں رکھنے اور حجاب لینے سے روکتے ہیں۔ کسی شہری کو اپنے عقائد و نظریات کے مطابق زندگی نہ گزارنے دینا ہی دہشت گردی ہے‘‘۔

جنوبی بلغاریہ کے مسلمانوں کی غالب اکثریت کا دارومدار زراعت پر ہے۔ بلغاریہ کے اس خطے میں بوماک مسلمان بستے ہیں۔ ’بوماک مسلمان‘ وہ کہلاتے ہیں جنھوں نے اسلام قبول کیا ہو۔ یہ ’بومادان‘ سے مشتق ہے جس کے معنی سعادت کے ہیں۔ صرف یہاں کے لوگ ہی بوماک کہلاتے ہیں‘ یعنی دنیا کے کسی اور ملک کے مسلمان بوماک نہیں کہلاتے۔ بوماک قبیلہ اپنی    مہمان نوازی و تواضع‘ عاجزی وانکساری‘ دوسروں کے عزت و احترام اور سنجیدگی میں بے مثل ہے۔     اس قبیلے کے افراد اپنے خاندانی روابط و تعلقات کی بڑے انہماک سے حفاظت کرتے ہیں۔      وہ شادی بیاہ اور خوشی و غمی کے مواقع پر اپنی تمام قدیم روایات پر کاربند رہتے ہیں۔

جنوبی بلغاریہ کے ایک گائوں میں اُن مظلوم مسلمانوں کا قبرستان ہے جنھیں ۷۰ کے عشرے (خاص طور پر ۱۹۷۳ئ) میں کمیونسٹ پولیس نے بے دردی سے شہید کیا۔ مسلم خاندان تتربتر ہوگئے۔ مسلمان اب تک سہمے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں ابھی تک متذبذب ہیں۔

دنیا سے کمیونزم کے زوال کے بعد آج بلغاریہ کے بوماک مسلمانوں کو کمیونسٹوں کی طرف سے تو کوئی اندیشہ نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ انھیں مسیحی مشنری تنظیموں سے ہروقت خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ مسیحی تبلیغی تنظیمیں مسلم نوجوانوں کو بالخصوص عیسائیت کی آغوش میں لانے کی سرتوڑ کوششیں کر رہی ہیں۔ انھیں یہ جرأت اس لیے ہوئی کہ مسلمان ستم رسیدہ ہیں‘ دبائو کا شکار ہیں۔ وہ آزادی وخودداری کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ دین ِاسلام سے جڑنے کے لیے بے تاب ہیں۔

  • دارالافـتا بلـغاریہ: بلغاریہ کا دارالافتا مسلمانوں کی دینی حالت کو سنوارنے اور سدھارنے کے لیے تگ و دو کر رہا ہے۔ مسلمان کئی صدیوں تک کمیونزم کے ظالم پنجے کی گرفت میں مبتلا رہے ہیں۔ وہ ہراسلامی چیز سے جبراً دُور رکھے گئے ہیں۔ بلغاریہ کا دارالافتا اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اپنے ماحول سے مکالمہ کیا جائے‘ خیرسگالی اور افہام و تفہیم سے کام لیا جائے۔ اسلام اورمسلمانوں کے بارے میں اصل حقائق سے ملک کے باشندوں کو آگاہ کیا جائے۔ کیونکہ بلغاریہ کے غیرمسلم مسلمانوں کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں اور مذموم و مسموم پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر مسلم مخالف نفسیات رکھتے ہیں‘ اسلام سے دُور بھاگتے ہیں۔ مفتیِ بلغاریہ الشیخ سلیم محمد‘ اسلام کی بھیانک اور خطرناک تصویر کے ازالے کے لیے ذرائع ابلاغ سے کام لے رہے ہیں۔ وہ ذرائع اطلاعات و نشریات کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں عالمی راے عامہ کو ہموار کر رہے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے مسائل و مشکلات سے بھی دنیا کو آگاہ کر رہے ہیں۔ آپ معلوماتی لٹریچر چھپوا کر بلغاریہ کی مساجد و مدارس کے بارے میں بھی لوگوں کو معلومات فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہت سے مسلمان ایسے ہیں جو دین کو اچھی طرح نہیں سمجھتے۔ اسلامی عقائد سے ان کا تعلق محض واجبی نوعیت کا ہے کیونکہ کمیونزم نے اسلام کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔اسلام سے متعلق ہر چیز تباہ کر دی ہے۔ مساجد شہید‘ مدارس منہدم‘ کتب خانے برباد اور مسلم اوقاف ختم کر دیے۔ لائبریریوں سے اسلامی کتب غائب کر دیں۔ اسلام کے متعلق یہ بہتان باندھا کہ وہ محض ایک مذہب ہے۔ مذہب عوام کے لیے افیون ہے‘ لہٰذا فضول و بے کار ہے۔ کمیونسٹ اپنے ان مقاصد میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے۔

ایک دین دار مسلمان کے لیے کمیونسٹ معاشرے یا ریاست میں سرکاری خدمت کا اہل ہونا یا سماجی حیثیت کا حامل ہونا‘ ناممکن تھا۔ اُسے ایک ناپسندیدہ عنصرسمجھا جاتا تھا۔ مفتیِ بلغاریہ کے بقول: ’’کمیونسٹوں کے اس طرزِعمل نے انسانیت کو روحانی اذیت پہنچائی۔ عصرحاضر میں ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کی دینی تربیت کے لیے کچھ کرنا ہے۔ ان کے والدین‘ بزرگ اور عزیز و اقارب کئی عشروں تک دین سے غیرمربوط رہے ہیں‘‘۔

مفتی الشیخ سلیم محمد نے بتایا کہ ۱۱ستمبر کے سانحے کا ردعمل مسلمانوں کے لیے بہت نقصان دہ اور ہتک آمیز تھا۔ باحجاب مسلم مستورات کو برسرِعام گالیاں دی جاتیں کہ یہ ’طالبان‘ کی حامی ہیں۔ کئی علاقوں میں مسجدوں پر سنگ باری ہوئی۔ ہم نے بلغاریہ کے صدر سے ملاقات کی۔ ان واقعات پر اپنی تشویش سے انھیں آگاہ کیا تو انھوں نے ذرائع ابلاغ کے توسط سے اہلِ بلغاریہ کی رہنمائی کی اور خبردار کیا کہ سانحۂ ستمبر پر یہ منفی ردعمل ہرگز قابلِ قبول نہیں ہے۔

امید کی جاتی ہے کہ یورپی یونین میں شمولیت کے بعد‘ اگرچہ بلغاریہ کے مسلمانوں کے جان ومال کو ماضی کی طرح کے خطرات سے نجات مل جائے گی‘ تاہم انھیں مسیحی تبلیغی جماعتوں کی یلغار کا سامنا ضرور رہے گا اور انھیں ’دہشت گردی‘ اور ’بنیاد پرستی‘ جیسے القابات سے بھی نوازا جاتا رہے گا‘ جیساکہ پورے یورپ میں ہورہا ہے۔ (مآخذ: ہفت روزہ المجتمع‘ کویت‘ شمارہ ۱۶۵۰‘ صفحات: ۳۴-۳۵۔Europe: Year Book of Da'wah, pp 110, 111)