محی الدین غازی


جس دور میں اسلامی فقہ کی تدوین ہوئی مسلمان غالب و حکمران تھے‘ خواہ آبادی کے لحاظ سے وہ اکثریت میں ہوں یا اقلیت میں ہوں۔ دارالحرب میں مسلمانوں کی موجودگی کا تصور تھا مگر عارضی اور محدود۔ چنانچہ نہ مسلم اقلیت کی اصطلاح تھی نہ فقہ الاقلیات کی تقسیم۔

’فقہ الاقلیات ‘کی اصطلاح گذشتہ چند دہائیوں کے اندر وجود میں آئی اور رفتہ رفتہ خاصی اہمیت اختیار کرگئی۔ فقہ اسلامی کے ماہرین نے اسے بحث و تحقیق کا موضوع بنایا اور متعدد کتابیں‘ مقالے اور مضامین منظرعام پر آگئے۔ جن میں علامہ یوسف قرضاوی‘ ڈاکٹرطٰہٰ جابرعلوانی اورخالد محمدعبدالقادر کی کتابیں قابلِ ذکر ہیں۔ فقہ الاقلیات کے نہج پر عالمی سطح پر اجتہاد و تحقیق کے اجتماعی ادارے بھی قائم ہوئے جن میں سب سے نمایاں نام ’یورپین کونسل فار افتا اینڈ ریسرچ‘ کا ہے۔ اس ادارے نے مغربی ممالک میں رہنے والی مسلم اقلیتوں کی شرعی رہنمائی کے ذیل میں بہت سارے اہم فیصلے کیے۔ ہندستان میں اسلامک فقہ اکیڈمی کے بعض فیصلے بھی فقہ الاقلیات کے دائرے میں آتے ہیں۔

فقہ الاقلیات کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ غیرمسلم معاشرے میں مسلمانوں کی شرعی رہنمائی‘ اس میںوہ رعایتیں بھی شامل ہیں جو غیرمسلم معاشرے اور غیراسلامی قانون کے تحت رہنے والے مسلمانوں کے مخصوص مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے فراہم کی جاتی ہیں‘ اور وہ پابندیاں بھی جو وہاں کے منفرد حالات کے پیش نظرمسلمانوں پر اضافی طور پر عائد ہوتی ہیں۔

فقہ الاقلیات عام اسلامی فقہ سے خارج یا اس کے لیے کوئی اجنبی چیز نہیں ہے بلکہ اسی سے مستفاد‘ اسی کا ثمرہ اور اسی کی ٹھوس بنیادوں پر استوار فقہ ہے۔ فقہ الاقلیات کی سب سے مضبوط بنیاد شریعت کا یہ مسلّمہ قاعدہ ہے کہ فقہ کے وہ احکام جن میں حالات اور نتائج کا اعتبار کیا گیا ہے‘ اگر حالات تبدیل ہو جائیں یا مطلوبہ نتائج تقاضا کریں تو ان میں تبدیلی ہوسکتی ہے۔ فقہ کی تاریخ میں اس قاعدے کے انطباق کی بے شمار مثالیں ہیں۔ بعض مسائل میں امام ابوحنیفہؒ کے شاگردوں نے ان کے بعد ان کے مسلک سے اختلاف کیا۔ علماے احناف نے ان کے بارے میں کہا کہ یہ اختلاف دلیل کے اختلاف کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ زمانے کے بدل جانے کا نتیجہ ہے۔

حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ مدینہ کے گورنر تھے تو ایک گواہ کے ساتھ ایک قَسم کو کافی قرار دیتے تھے مگر شام آئے اور وہاں جھوٹ کو عام دیکھا تو فیصلے کے لیے دو گواہوں کا ہونا لازم قرار دے دیا۔

فقہا نے زمان و مکان اور حالات کے جس فرق کا اعتبار کیا ہے ‘ مسلم ممالک اور غیرمسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے حالات کا فرق اس سے کہیں زیادہ ہے اور اعتبار کا زیادہ شدت سے متقاضی ہے۔

شریعت کا ایک اور مسلّمہ قاعدہ ہے کہ ضرورت ممنوعات کو مباح کردیتی ہے۔ اس سلسلے میں علامہ یوسف قرضاوی کا تاثر ہے کہ فقہا نے افراد کی انفرادی ضرورتوں کا لحاظ تو کیا ہے مگر پورے معاشرے کی اجتماعی ضرورتوں کا لحاظ بہت کم کیا گیا ہے۔ مسلم اقلیت جن اضطراری حالات سے دوچار ہوتی ہے ان کا اعتبار فقہ الاقلیات کا اہم حصہ ہے۔

شریعت کا ایک مسلّمہ قاعدہ سدّذرائع کا بھی ہے‘ یعنی مفاسد سے بچنے کے لیے ان مباحات سے پرہیز جو جائز ہونے کے باوجود شرکے ارتکاب کا سبب ہوسکتے ہیں۔ فقہ الاقلیات میں ایسے مباح امور کی شدت سے نگرانی کی جاتی ہے۔ کیونکہ مسلم معاشرے کے بہ نسبت غیرمسلم معاشرے میں مفاسد کے فروغ کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

فقہ الاقلیات یسرّوا ولا تعسّروا کے اصول پر عمل پیرا ہوتی ہے۔ شریعت پر عمل کو دشوار بنانے کے بجاے آسان بنانا پیش نظر ہوتا ہے۔ علامہ قرضاوی کا خیال ہے کہ صحابہ و تابعین دین میں آسانی کا مزاج رکھتے تھے۔ بعد میں دین میں احتیاط کا مزاج بڑھتا گیا اور دین پر آسانی کے بجاے احتیاط غالب آگئی۔ فقہ الاقلیات میں صحابہ کے رویے کی طرف پلٹنے پر زور دیا جاتا ہے۔

فقہ الاقلیات اصولوں میں بھی اور جزئیات میں بھی عام اسلامی فقہ سے ہی مستفاد ہے۔ البتہ اس میں کسی ایک مسلک کی پابندی نہیں کی جاتی ہے بلکہ اسلامی فقہ کا پورا ذخیرہ اس کے سامنے رہتا ہے۔ نہ صرف وہ فقہی اقوال جن پر اُمت عمل پیرا ہے بلکہ فقہاے اُمت کے وہ اقوال بھی جو کسی وجہ سے اُمت میں مقبول نہیں ہوئے مگر آج ان سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ   صحابہ کرامؓ سے منقول اقوال و فتاویٰ بھی اہمیت کے حامل ہیںخواہ کسی مسلک کے امام نے ان کو اختیار نہ کیا ہو۔ بنیادی امر یہ ہے کہ دلائل‘ احکام کے نتائج‘ شریعت کے مقاصد اور وہ حالات جن میں شریعت کا نفاذ ہونا ہے ان سارے امور کا مجموعی تقاضا جو ہو اسے اختیار کیا جائے۔ کسی ایک مسلک کی تقلید پر مکمل جمود حالات کے تبدیل ہوجانے پر عام اسلامی معاشرے کے لیے سودمند نہیں ہوسکتا ہے۔ چہ جاے کہ مسلم اقلیتوں کے لیے جن کے حالات حددرجہ مخصوص نہیں ہیں۔

یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ فقہ الاقلیات شریعت کے احکام سے فرار کے لیے زیربحث نہیں آیا‘ اس کا محرک احکام الٰہی کے سلسلے میں رعایت کا جذبہ نہیں ہے‘ بلکہ یہ تو اس وقت زیربحث آیا جب بطور خاص مغرب میں قیام پذیر مسلمانوں میں دین پر عمل کا جذبہ بیدار ہوا اور ان کو یہ احساس ہوا کہ گذشتہ ایک یا دو نسلوں کی غفلت کے باعث وہ دین کی عظیم نعمت کو کھوتے جارہے ہیں۔ بیداری کے اس مرحلے میں انھیں یہ احساس ہوا کہ شریعت پرعمل پیرا ہونے کے راستے میں ان کے سامنے متعدد رکاوٹیں ہیں جن کا حل تلاش کرنا ناگزیر ہے۔ فقہ الاقلیات میں رکاوٹوں اور مسائل کو دور کرکے شریعت پر عمل کو یقینی بنانے کی راہیں تلاش کی جاتی ہیں۔اس کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ بیمار کو تیمم کی رعایت وضو سے بچانے کے لیے نہیں دی جاتی ہے بلکہ اس لیے دی جاتی ہے کہ نماز کی ادایگی کو یقینی بنایا جاسکے۔ فقہ الاقلیات میں جوبھی رعایتیں دی جاتی ہیں وہ صرف اس لیے کہ شریعت پر عمل آسانی کے ساتھ ہوسکے‘ اور یہ رعایتیں بھی وہی ہوتی ہیں جو شریعت خود عطاکرتی ہے۔ مگر ہمارا جمود اس کے سامنے حائل ہوگیاہے۔

فقہ الاقلیات ایک متحرک فقہ ہے۔ اس میں دعوتی عنصر شامل بلکہ حاوی ہے۔ اس میں مسلم اقلیت کی یہ حیثیت پیش نظر رہتی ہے کہ وہ اسلامی اور غیراسلامی معاشرے کے درمیانی دعوتی تعلق کا سب سے اہم اور مؤثر ذریعہ ہے۔ چنانچہ اس فقہ میں مسلم اقلیت کے غیرمسلم اکثریت کے ساتھ روابط پر گفتگو کی جاتی ہے اور ایک مثبت اور دعوتی رویہ اپنانے پر زور دیا جاتا ہے۔

دیگر اقلیتوں کے بالمقابل مسلم اقلیتیں چوں کہ ہر جگہ اکثریت کے مقابلے میں معاشی‘ تعلیمی اور سیاسی لحاظ سے کمزور اور پس ماندہ ہی ہوتی ہے۔ فقہ الاقلیات میںاس پہلو پر بھی زور دیا جاتا ہے کہ ہمارے وہ فتوے جو اجتہادی نوعیت کے ہوتے ہیں‘ ساتھ ہی مختلف فیہ بھی ہوتے ہیں‘ ان پر اصرار ان مسلمانوں کی پس ماندگی میں مزید اضافہ نہ کرے بلکہ ان کی معاشی‘ تعلیمی اور سیاسی ترقی کی ضرورت کو معتبر ضرورت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

فقہ الاقلیات میں بہت سارے ایسے مسائل بھی زیربحث آئے ہیں جن کا تعلق ایسے ممالک کے جغرافیائی حالات سے ہے جہاں عموماً مسلم اقلیتیں ہی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر ان علاقوں میں عشاء کی نماز کا مسئلہ جہاںمغرب کا وقت ختم ہوتے ہی فجر طلوع ہوجاتی ہے یا وہ علاقے جہاں عشاء کا وقت رات گئے شروع ہوتا ہے یا وہ علاقے جہاں روزے کے لیے مقرر وقت ۲۰گھنٹے کا ہوجاتا ہے۔ ان مسائل کا تعلق مسلمانوں کے اقلیت میںہونے سے نہیں ہے مگر چوںکہ عملاً ایسے علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں اس لیے فقہ الاقلیات میں یہ مسائل بھی زیربحث آتے ہیں۔

فقہ الاقلیات میں اب تک جو اہم مسائل زیربحث آئے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں: کیا نومسلم اپنے غیرمسلم رشتہ دار کا وارث بن سکتا ہے یا وہ اس جایداد کو چھوڑ دے کہ غیرمسلم حکومت اسے اپنے قبضے میں کرلے؟ کیا ایک نومسلم عورت کے لیے اپنے غیرمسلم شوہر کے گھر کو چھوڑ دینا فوراً ضروری ہے یا اسے موقع ملنا چاہیے کہ وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ رہ کر دین کی تبلیغ کرے؟ کیا مسلمان مرد عیسائی یا یہودی عورت سے غیرمسلم ملک میں رہتے ہوئے شادی کرسکتا ہے یا اس پر بطور خاص پابندی لگائی جائے کہ اس صورت میں بچے یقینی طور پر غیرمسلم ماں اور اس ماحول سے متاثر ہوں گے‘ جب کہ مسلم معاشرے میں رہ کر ایسی شادی کی اجازت شریعت دیتی ہے؟ انتخابات میں حصہ لینے کا مسئلہ بھی فقہ الاقلیات کے دائرے میں آتا ہے۔ یہ اور ایسے دوسرے بہت سے مسائل دورِ جدید کے علما کو غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں۔