گذشتہ شب (۲۴ فروری ۲۰۲۵ء) یوٹیوب پر محترم جاوید احمد غامدی صاحب کی ایک تازہ گفتگو سننے کا موقع ملا۔ یہ گفتگو فلسطین کی تحریک مزاحمت کے سلسلے میں تھی۔ اس گفتگو میں بھی مجھے وہی خلل نظر آیا، جو عام طور سے مسلمان دانش وروں کے یہاں پایا جاتا ہے۔ وہ بیانیہ تو اپنی سوچ اور مزاج کے مطابق بناتے ہیں، پھر قرآن کریم کی کسی آیت کے ٹکڑے یا حدیث کے کسی حصے کو حسب منشا چسپاں کرکے اپنے طبع زاد بیانیے کو قرآن و سنت کا بیانیہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔
غامدی صاحب کا کہنا یہ ہے کہ ’’فلسطین کے باشندوں کو نیز پوری امت کو صبر سے کام لینا چاہیے۔ اللہ سے لو لگانا چاہیے۔ اپنے اخلاق درست کرنے چاہئیں۔ علم کے میدان میں ترقی کرنی چاہیے۔ صہیونی غاصبوں کو اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ صہیونی طاقتوں کے خلاف مزاحمت نہیں کرنی چاہیے جب تک کہ اللہ تعالیٰ موجود ہ نظامِ عالم کو خود تبدیل نہ کردے‘‘۔
اپنی اس سوچ کو قرآنی قرار دینے کے لیے موصوف قرآن مجید سے دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کو مکہ سے باہر نکال دیا گیا تو اللہ نے انھیں حکم دیا (كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ : اپنے ہاتھ جنگ سے روک رکھو)۔ جاوید صاحب کا کہنا ہے کہ جب تک جنگ جیتنے کا یقین یا غالب امکان نہ ہو، قرآن جنگ سے باز رہنے کا حکم دیتاہے، ورنہ وہ جنگ خود کشی ہے۔ ہمیں یہاں پر عرض کرنا ہے کہ قرآن مجید میں کہیں بھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو (كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ : اپنے ہاتھ جنگ سے روک رکھو) کی ہدایت نہیں فرمائی۔ قرآن کی ایک آیت میں یہ خبر تو دی گئی:’’ لوگوں سے کبھی کہا گیا تھا کہ ہاتھ روکو، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو‘‘، لیکن پورے قرآن مجید میں کسی ایک بھی مقام پر اہلِ ایمان کو مخاطب کرکے (كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ : اپنے ہاتھ جنگ سے روک رکھو) کا حکم نہیں دیا گیا۔ كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ والی آیت ملاحظہ فرمالیں کہ اس آیت میں بھی قتال سے بھاگنے والوں کی مذمت کی گئی ہے:
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ قِيْلَ لَھُمْ كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ۰ۚ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْہِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْـيَۃِ اللہِ اَوْ اَشَدَّ خَشْـيَۃً۰ۚ وَقَالُوْا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ۰ۚ لَوْلَآ اَخَّرْتَنَآ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ۰ۭ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيْلٌ۰ۚ وَالْاٰخِرَۃُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى۰ۣ وَلَا تُظْلَمُوْنَ فَتِيْلًا۷۷(النساء۴:۷۷) تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا جاتا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز کا اہتمام رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو تو جب ان پر جنگ فرض کردی گئی تو ان میں سے ایک گروہ لوگوں سے اس طرح ڈرتا ہے جس طرح اللہ سے ڈرا جاتا ہے یا اس سے بھی زیادہ۔ وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب تو نے ہم پر جنگ کیوں فرض کردی، کچھ اور مہلت کیوں نہ دی؟ کہہ دو اس دنیا کی متاع بہت قلیل ہے اور جو لوگ تقویٰ اختیار کریں گے ان کے لیے آخرت اس سے کہیں بڑھ کر ہے، اور تمھارے ساتھ ذرا بھی حق تلفی نہ ہوگی۔
اصل میں كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ ایک وقتی پالیسی تھی، جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے نکلنے کے بعد نہیں بلکہ مکہ میں رہتے ہوئے وہاں کے دعوتی مصالح کے تحت اختیار فرمائی تھی۔ قرآن مجید میں وہ بطور مستقل ہدایت کہیں مذکور نہیں ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ قاتلوا :جنگ کرو، کا حکم تو قرآن مجید میں متعدد مقام پر ہے، لیکن كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ کا حکم کسی ایک مقام پر بھی نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے اور بار بار کہنے کی ہے کہ قرآن مجید میں قتال کے سلسلے میں بہت اصولی اور بنیادی ہدایت یہ ہے کہ جو جنگ کرے اس سے اللہ کی راہ میں جنگ کرو اور زیادتی نہ کرو:
وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ۱۹۰ (البقرہ۲:۱۹۰) اور اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کریں اور حد سے بڑھنے والے نہ بنو۔ بے شک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
یعنی اسلام جنگ میں پہل کرنے کی تعلیم نہیں دیتا، لیکن جنگ کی پہل کرنے والوں سے جنگ کرنے کی پُرزور تاکید کرتا ہے۔ قرآن مجید کا ایک اور پہلو سامنے رہنا چاہیے کہ قرآن کہیں یہ نہیں کہتا ہے کہ جب فتح یقینی ہو یا اس کا غالب گمان ہو تبھی جنگ کرو۔ قرآن تو بہت واضح، کھلے اور واشگاف الفاظ میں کمزور مظلوموں کو طرح طرح سے اس امر کے لیے آمادہ کرتا ہے کہ ’ظالم کتنا ہی زیادہ طاقت ور ہو تم اس کا مقابلہ کرو‘۔
سورۂ بقرہ میں طالوت کی فتح اور جالوت کی شکست کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا گیا جس کا بنیادی پیغام یہ ہے جب دشمن کو دیکھ کر بہتوں کے حوصلے پست ہوجائیں، تو بھی ایمان والے اس یقین سے سرشار رہتے ہیں کہ اللہ کے اذن سے چھوٹی فوج بڑی فوج کو شکست دے سکتی ہے:
فَلَمَّا جَاوَزَہٗ ھُوَوَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ۰ۙ قَالُوْا لَا طَاقَۃَ لَنَا الْيَـوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ۰ۭ قَالَ الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُّلٰقُوا اللہِ۰ۙ كَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِيْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً كَثِيْرَۃًۢ بِـاِذْنِ اللہِ۰ۭ وَاللہُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۲۴۹ (البقرہ ۲:۲۴۹) پھر جب طالوت اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ایمان پر ثابت قدم رہے دریا پار کر گئے تو یہ لوگ بولے کہ اب ہم میں تو جالوت اور اس کی فوجوں سے لڑنے کی طاقت نہیں۔ جو لوگ یہ گمان رکھتے تھے کہ بالآخر انھیں اللہ سے ملنا ہے انھوں نے للکارا کہ کتنی چھوٹی جماعتیں رہی ہیں جو اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آگئی ہیں، اللہ تو ثابت قدموں کے ساتھ ہوتا ہے۔
سورۂ مائدہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اپنی قوم کے ساتھ تفصیلی مکالمہ ذکر کیا گیا ہے، اس کا پیغام بھی یہ ہے کہ اللہ کے مومن بندے دشمن کی بڑی طاقت کو دیکھ کر حوصلہ نہیں ہارتے:
قَالُوْا يٰمُوْسٰٓى اِنَّ فِيْہَا قَوْمًا جَبَّارِيْنَ ۰ۤۖ وَاِنَّا لَنْ نَّدْخُلَہَا حَتّٰي يَخْرُجُوْا مِنْہَا۰ۚ فَاِنْ يَّخْرُجُوْا مِنْہَا فَاِنَّا دٰخِلُوْنَ۲۲ قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِيْنَ يَخَافُوْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِمَا ادْخُلُوْا عَلَيْہِمُ الْبَابَ۰ۚ فَاِذَا دَخَلْتُمُوْہُ فَاِنَّكُمْ غٰلِبُوْنَ۰ۥۚ وَعَلَي اللہِ فَتَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۲۳ (المائدہ ۵:۲۲-۲۳) وہ بولے کہ اے موسی! اس میں تو بڑے زور آور لوگ ہیں۔ ہم اس میں نہیں داخل ہونے کے جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں۔ اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تو ہم داخل ہوں گے۔ دو شخصوں نے جو تھے تو انھی ڈرنے والوں ہی میں سے، پر خدا کا ان پر فضل تھا، للکارا کہ تم ان پر چڑھائی کر کے شہر کے پھاٹک میں گھس جاؤ۔ جب تم اس میں گھس جاؤ گے تو تم ہی غالب رہو گے اور اللہ پر بھروسا کرو اگر تم مومن ہو۔
سورۂ انفال میں جنگ بدر کا نقشہ کھینچا گیا کہ بظاہر فتح کے امکانات معدوم تھے، اس وجہ سے بعض لوگوں کو تو لگ رہا تھا کہ خودکشی کے راستے پر انھیں لے جایا جارہا ہے:
كَـمَآ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَيْتِكَ بِالْحَقِّ۰۠ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ لَكٰرِہُوْنَ۵ۙ يُجَادِلُوْنَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَيَّنَ كَاَنَّمَا يُسَاقُوْنَ اِلَى الْمَوْتِ وَہُمْ يَنْظُرُوْنَ۶ۭ (انفال۸:-۵-۶) اسی طرح کی بات اس وقت ظاہر ہوئی جب تمھارے رب نے ایک مقصد کے ساتھ تم کو گھر سے نکلنے کا حکم دیا اور مسلمانوں میں سے ایک گروہ کو یہ بات ناگوار تھی۔ وہ تم سے امرِ حق میں جھگڑتے رہے باوجود یکہ حق ان پر اچھی طرح واضح تھا، معلوم ہوتا تھا کہ وہ موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں اور اس کو دیکھ رہے ہیں۔
سورۂ آل عمران میں جنگ احد کے واقعے کی تفصیل ہے، اس میں بھی یہی پیغام دیا گیا ہے کہ لوگوں کی کثرتِ تعداد سے ایمان والے ذرا نہیں ڈرتے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ دین کے دشمنوں سے ڈرانا شیطان کا کام ہے:
اَلَّذِيْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِيْمَانًا۰ۤۖ وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ۱۷۳ فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللہِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْھُمْ سُوْۗءٌ۰ۙ وَّاتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اللہِ۰ۭ وَاللہُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِيْمٍ۱۷۴ اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّيْطٰنُ يُخَوِّفُ اَوْلِيَاۗءَہٗ ۰۠ فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۱۷۵ (اٰل عمرٰن۳: ۱۷۳-۱۷۵) یہ وہ ہیں کہ جن کو لوگوں نے سنایا کہ دشمن نے تمھارے لیے بڑی طاقت اکٹھی کی ہے تو اس سے ڈرو تو اس چیز نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کردیا اور وہ بولے کہ اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور بہترین کارساز ہے۔ سو یہ لوگ اللہ کی نعمت اور اس کے فضل کے ساتھ واپس آئے، ان کو ذرا گزند نہ پہنچی، اور یہ اللہ کی خوشنودی کے طالب ہوئے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ یہ شیطان ہے جو اپنے رفیقوں کے ڈراوے دے رہا ہے تو تم ان سے نہ ڈرو، مجھی سے ڈرو، اگر تم مومن ہو۔
سورۂ احزاب میں قبائل کے متحدہ لشکر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ دشمن بہت بڑی قوت کے ساتھ آیا تھا:
اِذْ جَاۗءُوْكُمْ مِّنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَـنَاجِرَ وَتَظُنُّوْنَ بِاللہِ الظُّنُوْنَا۱۰ ہُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَزُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِيْدًا۱۱ (احزاب۳۳:۱۰-۱۱) یاد کرو، جب کہ وہ تم پر آچڑھے، تمھارے اُوپر کی طرف سے بھی اور تمھارے نیچے کی طرف سے بھی، اور جب کہ نگاہیں کج ہوگئیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے اور تم اللہ کے باب میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔ اس وقت اہل ایمان امتحان میں ڈالے گئے اور بالکل ہلا دیے گئے۔
پھر سورۂ توبہ میں بتایا گیا کہ تبوک کے لیے جب نکلنے کا حکم ہوا تو وہ بڑی مشکل گھڑی تھی:
لَقَدْ تَّابَ اللہُ عَلَي النَّبِيِّ وَالْمُہٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْہُ فِيْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ مِنْۢ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيْغُ قُلُوْبُ فَرِيْقٍ مِّنْھُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْہِمْ۰ۭ اِنَّہٗ بِہِمْ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۱۱۷ (التوبہ۹:۱۱۷) اللہ نے نبی اور ان مہاجرین و انصار پر رحمت کی نظر کی جنھوں نے نبی کا ساتھ تنگی کے وقت میں دیا، بعد اس کے کہ ان میں سے کچھ لوگوں کے دل کجی کی طرف مائل ہوچکے تھے۔ پھر اللہ نے ان پر رحمت کی نگاہ کی۔ بے شک وہ ان پر نہایت مہربان اور رحیم ہے۔
سورۂ انفال میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ تعداد کے بڑے فرق سے قطع نظر قتال پر اُبھاریں:
يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَي الْقِتَالِ۰ۭ اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْــرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ۰ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَۃٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ۶۵(انفال۸:۶۵) اے نبیؐ! مومنین کو جہاد پر ابھارو۔ اگر تمھارے بیس آدمی ثابت قدم ہوں گے تو دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تمھارے سو ہوں گے تو ہزار کافروں پر بھاری ہوں گے۔ یہ اس وجہ سے کہ یہ لوگ بصیرت سے محروم ہیں۔
غرض یہ کہ قرآن مجید میں تاریخِ اسلام کے متعدد مواقع کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے اور ان مواقع کا ذکر کیا گیا ہے جب اہلِ اسلام کے مقابلے میں دشمن کی تعداد اور مادی قوت خوف ناک حد تک زیادہ تھی۔ لیکن کہیں بھی كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ کی تعلیم نہیں دی گئی۔ ہر موقعے پر قاتلوھم کی تاکید کی گئی۔ اس لیے محترم جاوید احمد صاحب سے گزارش ہے کہ اپنی رائے وہ شوق سے پیش کریں، لیکن قرآن مجید کے ساتھ ظلم نہ کریں۔ قرآن مجید ظلم سے روکتا ہے، لیکن ظالموں سے ڈرنا اور ان کے ظلم کو قبول کرلینا نہیں سکھاتا ہے۔ ظالم کتنا ہی طاقت ور ہو وہ اللہ سے زیادہ طاقت ور نہیں ہوسکتا۔ اللہ کی نصرت کے آگے کسی طاقت ور ظالم کی نہیں چلنے والی ہے۔
آخر میں استاذ امام مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے اس ایمان افروز بیان کو ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے، جو انھوں نے طالوت اور جالوت کے واقعے کی تفسیر میں تحریر کیا ہے :
وہ حقیقی شجاعت جو خدا کی راہ میں موت کو زندگی سے بھی زیادہ عزیز و محبوب بنا دیتی ہے وہ مومن کے اس عقیدے سے پیدا ہوتی ہے کہ خدا کی راہ میں قتل ہونے والے مرتے نہیں ہیں بلکہ حقیقی زندگی اور اپنے رب کی ملاقات سے مشرف ہوتے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے ہمت چھوڑ بیٹھنے والے ساتھیوں کو اُبھارا کہ فلسطینیوں کی کثرتِ تعداد سے مرعوب ہو کر ہمت نہ ہارو اصل شے تعداد نہیں بلکہ اللہ کی تائید اور اس کی نصرت ہے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ نہایت قلیل التعداد گروہ محض اللہ کے حکم اور اس کی تائید سے دَل با دل فوجوں [بہت بڑی فوج] پر غالب آگیا ہے۔ خدا کی تائید حاصل کرنے کے لیے جو چیز مطلوب ہے وہ صبر و استقامت اور عزم و ہمت ہے نہ کہ تعداد کی کثرت و قلت۔(تدبر قرآن، ج ۱ ص ۵۷۸)
جس دور میں اسلامی فقہ کی تدوین ہوئی مسلمان غالب و حکمران تھے‘ خواہ آبادی کے لحاظ سے وہ اکثریت میں ہوں یا اقلیت میں ہوں۔ دارالحرب میں مسلمانوں کی موجودگی کا تصور تھا مگر عارضی اور محدود۔ چنانچہ نہ مسلم اقلیت کی اصطلاح تھی نہ فقہ الاقلیات کی تقسیم۔
’فقہ الاقلیات ‘کی اصطلاح گذشتہ چند دہائیوں کے اندر وجود میں آئی اور رفتہ رفتہ خاصی اہمیت اختیار کرگئی۔ فقہ اسلامی کے ماہرین نے اسے بحث و تحقیق کا موضوع بنایا اور متعدد کتابیں‘ مقالے اور مضامین منظرعام پر آگئے۔ جن میں علامہ یوسف قرضاوی‘ ڈاکٹرطٰہٰ جابرعلوانی اورخالد محمدعبدالقادر کی کتابیں قابلِ ذکر ہیں۔ فقہ الاقلیات کے نہج پر عالمی سطح پر اجتہاد و تحقیق کے اجتماعی ادارے بھی قائم ہوئے جن میں سب سے نمایاں نام ’یورپین کونسل فار افتا اینڈ ریسرچ‘ کا ہے۔ اس ادارے نے مغربی ممالک میں رہنے والی مسلم اقلیتوں کی شرعی رہنمائی کے ذیل میں بہت سارے اہم فیصلے کیے۔ ہندستان میں اسلامک فقہ اکیڈمی کے بعض فیصلے بھی فقہ الاقلیات کے دائرے میں آتے ہیں۔
فقہ الاقلیات کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ غیرمسلم معاشرے میں مسلمانوں کی شرعی رہنمائی‘ اس میںوہ رعایتیں بھی شامل ہیں جو غیرمسلم معاشرے اور غیراسلامی قانون کے تحت رہنے والے مسلمانوں کے مخصوص مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے فراہم کی جاتی ہیں‘ اور وہ پابندیاں بھی جو وہاں کے منفرد حالات کے پیش نظرمسلمانوں پر اضافی طور پر عائد ہوتی ہیں۔
فقہ الاقلیات عام اسلامی فقہ سے خارج یا اس کے لیے کوئی اجنبی چیز نہیں ہے بلکہ اسی سے مستفاد‘ اسی کا ثمرہ اور اسی کی ٹھوس بنیادوں پر استوار فقہ ہے۔ فقہ الاقلیات کی سب سے مضبوط بنیاد شریعت کا یہ مسلّمہ قاعدہ ہے کہ فقہ کے وہ احکام جن میں حالات اور نتائج کا اعتبار کیا گیا ہے‘ اگر حالات تبدیل ہو جائیں یا مطلوبہ نتائج تقاضا کریں تو ان میں تبدیلی ہوسکتی ہے۔ فقہ کی تاریخ میں اس قاعدے کے انطباق کی بے شمار مثالیں ہیں۔ بعض مسائل میں امام ابوحنیفہؒ کے شاگردوں نے ان کے بعد ان کے مسلک سے اختلاف کیا۔ علماے احناف نے ان کے بارے میں کہا کہ یہ اختلاف دلیل کے اختلاف کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ زمانے کے بدل جانے کا نتیجہ ہے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ مدینہ کے گورنر تھے تو ایک گواہ کے ساتھ ایک قَسم کو کافی قرار دیتے تھے مگر شام آئے اور وہاں جھوٹ کو عام دیکھا تو فیصلے کے لیے دو گواہوں کا ہونا لازم قرار دے دیا۔
فقہا نے زمان و مکان اور حالات کے جس فرق کا اعتبار کیا ہے ‘ مسلم ممالک اور غیرمسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے حالات کا فرق اس سے کہیں زیادہ ہے اور اعتبار کا زیادہ شدت سے متقاضی ہے۔
شریعت کا ایک اور مسلّمہ قاعدہ ہے کہ ضرورت ممنوعات کو مباح کردیتی ہے۔ اس سلسلے میں علامہ یوسف قرضاوی کا تاثر ہے کہ فقہا نے افراد کی انفرادی ضرورتوں کا لحاظ تو کیا ہے مگر پورے معاشرے کی اجتماعی ضرورتوں کا لحاظ بہت کم کیا گیا ہے۔ مسلم اقلیت جن اضطراری حالات سے دوچار ہوتی ہے ان کا اعتبار فقہ الاقلیات کا اہم حصہ ہے۔
شریعت کا ایک مسلّمہ قاعدہ سدّذرائع کا بھی ہے‘ یعنی مفاسد سے بچنے کے لیے ان مباحات سے پرہیز جو جائز ہونے کے باوجود شرکے ارتکاب کا سبب ہوسکتے ہیں۔ فقہ الاقلیات میں ایسے مباح امور کی شدت سے نگرانی کی جاتی ہے۔ کیونکہ مسلم معاشرے کے بہ نسبت غیرمسلم معاشرے میں مفاسد کے فروغ کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
فقہ الاقلیات یسرّوا ولا تعسّروا کے اصول پر عمل پیرا ہوتی ہے۔ شریعت پر عمل کو دشوار بنانے کے بجاے آسان بنانا پیش نظر ہوتا ہے۔ علامہ قرضاوی کا خیال ہے کہ صحابہ و تابعین دین میں آسانی کا مزاج رکھتے تھے۔ بعد میں دین میں احتیاط کا مزاج بڑھتا گیا اور دین پر آسانی کے بجاے احتیاط غالب آگئی۔ فقہ الاقلیات میں صحابہ کے رویے کی طرف پلٹنے پر زور دیا جاتا ہے۔
فقہ الاقلیات اصولوں میں بھی اور جزئیات میں بھی عام اسلامی فقہ سے ہی مستفاد ہے۔ البتہ اس میں کسی ایک مسلک کی پابندی نہیں کی جاتی ہے بلکہ اسلامی فقہ کا پورا ذخیرہ اس کے سامنے رہتا ہے۔ نہ صرف وہ فقہی اقوال جن پر اُمت عمل پیرا ہے بلکہ فقہاے اُمت کے وہ اقوال بھی جو کسی وجہ سے اُمت میں مقبول نہیں ہوئے مگر آج ان سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ صحابہ کرامؓ سے منقول اقوال و فتاویٰ بھی اہمیت کے حامل ہیںخواہ کسی مسلک کے امام نے ان کو اختیار نہ کیا ہو۔ بنیادی امر یہ ہے کہ دلائل‘ احکام کے نتائج‘ شریعت کے مقاصد اور وہ حالات جن میں شریعت کا نفاذ ہونا ہے ان سارے امور کا مجموعی تقاضا جو ہو اسے اختیار کیا جائے۔ کسی ایک مسلک کی تقلید پر مکمل جمود حالات کے تبدیل ہوجانے پر عام اسلامی معاشرے کے لیے سودمند نہیں ہوسکتا ہے۔ چہ جاے کہ مسلم اقلیتوں کے لیے جن کے حالات حددرجہ مخصوص نہیں ہیں۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ فقہ الاقلیات شریعت کے احکام سے فرار کے لیے زیربحث نہیں آیا‘ اس کا محرک احکام الٰہی کے سلسلے میں رعایت کا جذبہ نہیں ہے‘ بلکہ یہ تو اس وقت زیربحث آیا جب بطور خاص مغرب میں قیام پذیر مسلمانوں میں دین پر عمل کا جذبہ بیدار ہوا اور ان کو یہ احساس ہوا کہ گذشتہ ایک یا دو نسلوں کی غفلت کے باعث وہ دین کی عظیم نعمت کو کھوتے جارہے ہیں۔ بیداری کے اس مرحلے میں انھیں یہ احساس ہوا کہ شریعت پرعمل پیرا ہونے کے راستے میں ان کے سامنے متعدد رکاوٹیں ہیں جن کا حل تلاش کرنا ناگزیر ہے۔ فقہ الاقلیات میں رکاوٹوں اور مسائل کو دور کرکے شریعت پر عمل کو یقینی بنانے کی راہیں تلاش کی جاتی ہیں۔اس کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ بیمار کو تیمم کی رعایت وضو سے بچانے کے لیے نہیں دی جاتی ہے بلکہ اس لیے دی جاتی ہے کہ نماز کی ادایگی کو یقینی بنایا جاسکے۔ فقہ الاقلیات میں جوبھی رعایتیں دی جاتی ہیں وہ صرف اس لیے کہ شریعت پر عمل آسانی کے ساتھ ہوسکے‘ اور یہ رعایتیں بھی وہی ہوتی ہیں جو شریعت خود عطاکرتی ہے۔ مگر ہمارا جمود اس کے سامنے حائل ہوگیاہے۔
فقہ الاقلیات ایک متحرک فقہ ہے۔ اس میں دعوتی عنصر شامل بلکہ حاوی ہے۔ اس میں مسلم اقلیت کی یہ حیثیت پیش نظر رہتی ہے کہ وہ اسلامی اور غیراسلامی معاشرے کے درمیانی دعوتی تعلق کا سب سے اہم اور مؤثر ذریعہ ہے۔ چنانچہ اس فقہ میں مسلم اقلیت کے غیرمسلم اکثریت کے ساتھ روابط پر گفتگو کی جاتی ہے اور ایک مثبت اور دعوتی رویہ اپنانے پر زور دیا جاتا ہے۔
دیگر اقلیتوں کے بالمقابل مسلم اقلیتیں چوں کہ ہر جگہ اکثریت کے مقابلے میں معاشی‘ تعلیمی اور سیاسی لحاظ سے کمزور اور پس ماندہ ہی ہوتی ہے۔ فقہ الاقلیات میںاس پہلو پر بھی زور دیا جاتا ہے کہ ہمارے وہ فتوے جو اجتہادی نوعیت کے ہوتے ہیں‘ ساتھ ہی مختلف فیہ بھی ہوتے ہیں‘ ان پر اصرار ان مسلمانوں کی پس ماندگی میں مزید اضافہ نہ کرے بلکہ ان کی معاشی‘ تعلیمی اور سیاسی ترقی کی ضرورت کو معتبر ضرورت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
فقہ الاقلیات میں بہت سارے ایسے مسائل بھی زیربحث آئے ہیں جن کا تعلق ایسے ممالک کے جغرافیائی حالات سے ہے جہاں عموماً مسلم اقلیتیں ہی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر ان علاقوں میں عشاء کی نماز کا مسئلہ جہاںمغرب کا وقت ختم ہوتے ہی فجر طلوع ہوجاتی ہے یا وہ علاقے جہاں عشاء کا وقت رات گئے شروع ہوتا ہے یا وہ علاقے جہاں روزے کے لیے مقرر وقت ۲۰گھنٹے کا ہوجاتا ہے۔ ان مسائل کا تعلق مسلمانوں کے اقلیت میںہونے سے نہیں ہے مگر چوںکہ عملاً ایسے علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں اس لیے فقہ الاقلیات میں یہ مسائل بھی زیربحث آتے ہیں۔
فقہ الاقلیات میں اب تک جو اہم مسائل زیربحث آئے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں: کیا نومسلم اپنے غیرمسلم رشتہ دار کا وارث بن سکتا ہے یا وہ اس جایداد کو چھوڑ دے کہ غیرمسلم حکومت اسے اپنے قبضے میں کرلے؟ کیا ایک نومسلم عورت کے لیے اپنے غیرمسلم شوہر کے گھر کو چھوڑ دینا فوراً ضروری ہے یا اسے موقع ملنا چاہیے کہ وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ رہ کر دین کی تبلیغ کرے؟ کیا مسلمان مرد عیسائی یا یہودی عورت سے غیرمسلم ملک میں رہتے ہوئے شادی کرسکتا ہے یا اس پر بطور خاص پابندی لگائی جائے کہ اس صورت میں بچے یقینی طور پر غیرمسلم ماں اور اس ماحول سے متاثر ہوں گے‘ جب کہ مسلم معاشرے میں رہ کر ایسی شادی کی اجازت شریعت دیتی ہے؟ انتخابات میں حصہ لینے کا مسئلہ بھی فقہ الاقلیات کے دائرے میں آتا ہے۔ یہ اور ایسے دوسرے بہت سے مسائل دورِ جدید کے علما کو غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں۔