محمدثناء اللہ عمری


۱۳؍ مئی ۲۰۰۵ء کا دن مسلمانانِ ازبکستان کے لیے وہ دن تھا جب ازبکستان کے شہروںاندیجان اور قاراسو میں پولیس اور فوج ان مظاہرین پر پوری سنگ دلی اور بے رحمی کے ساتھ ٹوٹ پڑی جو سیاسی اصلاحات کا اور ان مظالم کے سدباب کا مطالبہ کر رہے تھے‘ جو صدررِیاست اسلام کریموف کی لادینی حکومت مسلم آبادی پر ڈھا رہی تھی۔ ملک کی مجموعی آبادی میں مسلمان ۹۰فی صد ہیں‘ اور وقتاً فوقتاً سیاسی تشدد سے لے کر قیدوبند تک ہرقسم کے ظلم وستم کا نشانہ بنائے جاتے رہتے ہیں___  پُرامن مظاہرین پر بم پھینکے گئے‘ نتیجتاً ایک ہزار سے زیادہ مسلمان شہید ہوگئے اور بہت سے زخمی ہوئے۔

بات شروع یہاں سے ہوئی کہ قیدیوں کے کچھ اعزا و اقارب اندیجان کے ایک قیدخانے میں گھس آئے اور تقریباً ۴ ہزار سیاسی قیدیوں کو چھڑا لے گئے۔ یہ ۱۲؍مئی ۲۰۰۵ء کی رات کی بات تھی___ پے درپے نظربندیوں اور مقدموں سے وہ تنگ آگئے تھے‘ قیدیوں کی رہائی کے بعد لوگ بڑی تعداد میں مظاہرے کرنے لگے اور مطالبہ کیا کہ صدر کریموف مستعفی ہوجائیں۔ اس مسئلے میں روس نے یہ کہہ کر مداخلت سے انکار کردیا کہ یہ ازبکستان کا داخلی معاملہ ہے۔ رہا امریکا تو اس نے اتنا ہی کہا کہ قیدیوں کو زبردستی چھڑا لے جانا پریشانی اور افسوس کی بات ہے۔

پس منظر: یہ حادثے ایک طویل کش مکش کا نتیجہ ہیں‘ جس کے دو فریق ہیں۔ ایک فریق صدر اسلام کریموف ہیں جو ۱۹۸۹ء میں برسرِاقتدار آئے‘ اور دوسرا فریق اسلامی حزب مخالف‘ جس میں اکرام یولداشوف کی اسلامی آزاد پارٹی اور دوسری اسلام پسند پارٹیاں شامل ہیں جو قومی سطح پر بدامنی کو روکنے‘ گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالنے اور بے روزگاری دُور کرنے کے لیے کوشاں ہیں‘ مگر حکمراں پارٹی حزب مخالف کو ’دہشت گرد‘ اور ’بنیاد پرست‘ قرار دے کر خاتمے کے درپے ہے۔

۱۱ستمبر کے حملے اور ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکا کی باقاعدہ جنگ کے بعد ملک کی اسلامی تحریک اور ازبکی قوم کے خلاف کریموف حکومت کا ظلم وستم کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ ’بنیاد پرستی‘ اور ’دہشت گردی‘ کی آڑ لے کر حزب مخالف کے لوگوں کو گرفتار کیا جارہا ہے‘ انھیں جان سے مار ڈالا جارہا ہے‘ بڑے بڑے علما تک کو بخشا نہیں جاتا۔ اور تو اور مسجدیں بند کرائی جارہی ہیں۔ جب سے امریکا سے دوستی کا عہدوپیمان ہوا ہے اور افغانستان پر حملے کے لیے یہاں امریکی چھائونیاں کھل گئی ہیں‘ ظلم وستم کی کارروائی زوروں پر ہے۔ اس کا ایک فائدہ حکومت کو یہ ہوا کہ یہاں انسانی حقوق کی جو پامالی کھلے بندوں ہورہی ہے اس پر امریکا چوں نہیں کرتا‘ حالانکہ اشتراکی روس کے عہدحکومت میں انھی حقوق کی بحالی کے لیے وہ بہت چیختا چلاتا رہتا تھا۔

آزادی کے فوراً بعد ازبکستان کی حکومت نے اسلام کو سرکاری حیثیت دی۔ مذہبی اداروں کو نجی قبضہ وتصرف سے آزاد کردیا۔ مقصود یہ تھا کہ اسلامی تحریکات کو بے اثر کردیا جائے۔ ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین زوال پذیر ہوا تو ملکی مطلع پر ایسے آثار ظاہر ہوئے‘ کہ دنیا کی دوسری مسلم قوموں کی طرح ازبک قوم بھی اپنی مذہبی اصلیت کی طرف لوٹنے لگی۔ چنانچہ مسجدیں جو ۱۹۸۹ء میں   کُل ملاکر ۸۲ تھیں دیکھتے ہی دیکھتے ۷ہزار۲ سو ہوگئیں اور یہ تمام تر نجی طور پر بنائی گئی ہیں۔ سرکاری‘    نیم سرکاری اہتمام سے نہیں۔ اب سرزمین ازبک پر کوئی مقام ایسا نہیں جہاں اللہ کا گھر موجود نہ ہو۔ اس کے ساتھ‘ ۱۰۰ سے زیادہ دینی مدرسوں اور اداروں کا آغاز ہوا جن میں آدھے سے زیادہ خواتین کے لیے مختص ہیں۔ ان درس گاہوں میں لکھنے پڑھنے والوں کی تعداد بڑھ کرکہیں سے کہیں پہنچ گئی۔ مذہبی کتابوں کا سیلاب سا بہنے لگا۔ ملک کے باشندوں کی خدمت و حفاظت کے لیے ’مذہبی پولیس کا محکمہ‘ قائم کرنے کی کوشش ہوئی۔ لوگ مذہبی تعلیم سے بھرپور دل چسپی لینے لگے‘ پردے کا اہتمام بڑھنے لگا۔ ہزاروں طلبہ علم دین کی تحصیل کے لیے اسلامی ممالک کی یونی ورسٹیوں کا قصد کرنے لگے‘ بہت سے لوگوں نے داڑھیاں رکھ لیں۔

ابتدا میں تو حکومت نے اس سیلِ رواں کا ساتھ دیا‘ اور وطنی تشخص کی تعمیر میں اس سے فائدہ اٹھایا‘ کیوں کہ یہ تشخص اقتدار کے استحکام کا باعث ہوتا ہے۔ صدر ریاست اسلام کریموف کا حال یہ تھا کہ اپنی بات چیت اور تقریروں میں آیات اور احادیث سے استدلال کرتے تھے‘ بلکہ ۱۹۹۱ء کے ایک انتخابی جلسے میں نمنغان نامی صوبے میں تقریر کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ ازبکستان کو اسلامی جمہوریہ بنا دیں گے‘ اور زور دے کر کہا تھا کہ اس سلسلے میں ہرگز دریغ نہیں کریں گے اورکوشش کریں گے کہ مذہب اسلام کو قابلِ رشک مقام ملے جس کا وہ ہر طرح مستحق ہے۔ پھر جب صدر بنے تو قرآن پاک کے نام پر حلف لیا‘ مگر حکومت میں قدم جم گئے تو قوم کو آنکھیں دکھانے لگے۔ ارشاد ہونے لگا کہ ’’مسلمان ملک کے امن و استحکام کے لیے خطرہ ہیں‘‘۔ مزید فرمایا کہ ازبکستان میں اسلامی حکومت کی باتیں مغربی بلاک کے غیظ وغضب کو بھڑکا دیں گی۔ اس کے بعد موصوف نے بہت سے ایسے علماے کرام کی داروگیر شروع کردی جو حکومت کے صیغۂ امور مذہبی کے ہتھے نہیں چڑھتے تھے۔ اس کے بعد مسجدوں پر ہاتھ ڈالا اور یہ کہہ کر سیکڑوں مسجدیں بند کروائیں کہ یہ عبادت کے لیے نہیں بلکہ دوسرے اغراض و مقاصد کے لیے بنی ہیں۔ پھر انھیں اسلحہ خانوں میں تبدیل کردیا جیسی وہ اشتراکی عہد میں تھیں۔ حکومت کے صیغۂ امور مذہبی نے تقریباً ۴۰۰مسجدوں پر ہاتھ ڈالا اور وہاں اپنے لوگ متعین کیے۔

قصرِصدارت نے سرکاری ذرائع ابلاغ کے نام‘ احکام صادر کیے کہ علماے کرام کے خلاف افواہیں پھیلائیں‘ ان کی کردارکشی کریں‘ ان کو تعصب‘ دہشت پسندی اور دقیانوسیت کے مجرم ٹھیرائیں اور اس غرض کے لیے اشتراکی لغات کے سارے الفاظ کام میں لائیں۔ اس سلسلے میں سرکاری ٹیلی ویژن ان تمام حلقوں پر حملے کرنے کا خاص طور پر پابند بنایا گیا جو ازراہ تعصب ملک کی دستوری حکومت کا تختہ اُلٹ دینا چاہتے ہیں۔ ایسے ’آستین کے سانپوں‘ سے خبردار رہنا چاہیے۔ اسی پر بس نہیں‘ پردے کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا کہ یہ عربوں کی چیز ہے‘ لہٰذا ازبکستانی خواتین کے لباس و پوشاک سے میل نہیں کھاتی۔ رہے اسلامی علوم و فنون‘ تو ان کی تعلیم پر بھی قدغن لگادی گئی اور ان کے طلبہ اور اساتذہ کو دوسرے شعبوں میں تتربتر کردیا گیا۔ مسجدوں سے لائوڈاسپیکر اتار لیے گئے‘ داڑھی رکھنے والوں کو جیل بھیج دیا گیا اور مجبور کیا گیا کہ پولیس اسٹیشن جاکر ’چارابروکا صفایا‘ کرڈالو‘ ورنہ قیدخانے کی ہوا کھانی پڑے گی۔

ایک نیا قیدخانہ بن کر تیار ہوا ہے جو ایسے مذہبی بنیاد پرستوں اور دہشت گردوں کے لیے مخصوص ہے جن کی اصلاح ممکن نہیں۔ پھر قیدیوں کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جو آتش گیر مادوں کی تیاری کے الزام میں ماخوذ ہیں۔ ان سے وہ دہشت گردی پھیلانا چاہتے ہیں‘ حالانکہ یہ بے چارے زراعت پیشہ ہیں اور وہ جو کچھ تیار کر رہے تھے وہ کیمیاوی کھاد کے سوا کچھ نہیں تھا۔

ان قیدیوں کے مصائب کی بابت انسانی حقوق کی تنظیم بھی چیخ اٹھی ہے۔ اس کی رپورٹ مظہر ہے کہ انھیں ظلم وستم کی چکی میں پیسا جارہا ہے کہ ان کا دم خم ختم ہوجائے‘ ان کے حوصلے ٹوٹ جائیں۔ جو لوگ قیدوبند میں نہیں ہیں ایسے مذہبی ’دیوانوں‘ کو جو سزائیں دی جاتی ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ انھیں ملازمتوں سے معطل اور تعلیمی اداروں سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ بہرحال فردِقرار دادِ جرم بڑی طویل ہے‘ اس کی بعض دفعات یہ ہیں: ا: بلدیہ کے ایسے اعلیٰ عہدے داروں کی معزولی جنھوں نے مسجدیں بنانے کی اجازت دی‘ مگر ان مذہبی کارگزاریوں سے صرفِ نظر کرلیا تھا جو ان کے حلقوں میں جاری تھیں۔ ب:صدارتی کابینہ کے ان ارکان کی برطرفی جو پابندی سے مسجد آیا جایا کرتے تھے۔ ج: بیرونی ممالک کی دینی تنظیموں سے قطع تعلقات کے احکام کا اجرا۔ د: فلاحی اور دعوتی کام کرنے والے بیرونی ملکوں کے افراد کو ویزا دینے میں سختی اور ان کے مصارف کی کڑی تنقیح۔

اس فہرست کے ضمیمے کے طور پر حکومت نے ۳ ہزار سے زیادہ ایسے طلبہ کو وطن واپسی کا حکم دیا ہے جو اسلامی ’یونی ورسٹیوں‘ میں زیرتعلیم تھے۔ سبب اس نادری حکم کا یہ بتایا ہے کہ نئی نسل کے یہ افراد وہاں ’بنیاد پرستی‘ اور ’دہشت گردی‘ کی تربیت پاتے ہیں۔ خود صدر کریموف نے برسرِعام کہا ہے کہ یہ طلبا غلط راستے پر ڈال دیے گئے ہیں اور جن ملکوں میں یہ علم و ہنر سیکھنے کے بہانے گئے ہیں وہاں ہتھیار اور بم بنانے کی صنعت سیکھ رہے ہیں۔ خیر اسی میں ہے کہ وطن واپس ہوں اور پولیس اسٹیشن جاکر توبہ نامہ داخل کروائیں‘ ورنہ ان پر اور ان کے ماں باپ پر قیامت ٹوٹ پڑے گی۔

امریکی کردار: ازبکستان میں پچھلے دنوں جو حادثے رونما ہوئے ان میں امریکا کے کردار کا تجزیہ کرنے سے پہلے پیچھے مڑ کر ان دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات پر ایک نظر ڈال لینی ضروری ہے۔ اس سے معلوم ہوگا کہ ۱۱ستمبر کے حادثے کے بعد صورت حال پرپیچ ہوگئی اور صدرکریموف نے اس کا پورا فائدہ اٹھایا۔ حزبِ مخالف کے خلاف اپنا موقف سخت سے سخت تر کردیا‘اور ’دہشت گردی‘ کے مقابلے کے نام سے ملک میں قیامت ڈھا دی۔ امریکا سے تعلقات مستحکم کرلیے اور اسے ایسی سہولتیں مہیا کیں جن کے بل بوتے پر اس نے ازبکی‘ افغانی سرحد پر فوجی چھائونی قائم کرلی۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے‘ خود کریموف نے ازبکی پارلیمنٹ میں اس بات کا کھل کر اعتراف کیا ہے‘ چنانچہ ارشاد ہے: واضح رہے کہ امریکا اور بش میرے پشت پناہ ہیں‘ وہ اس قسم کی بے کار باتوں کو اہمیت نہیں دیتے۔ اگر وہ ہمارے خلاف ہوتے تو سالانہ خطیر مالی امداد نہ دیتے۔ میں نے اپنے دورئہ واشنگٹن کے دوران میں یہ بات محسوس کرلی تھی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سلسلے میں میری جدوجہد کو وہ بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔داڑھیوں کا صفایا کرنے پر انھوں نے مجھے فیاضانہ انعام سے نوازا ہے۔ میں ارکانِ پارلیمنٹ سے کہوں گا کہ یہ دیکھ کر پریشان نہ ہوں کہ امریکی عہدے دار انسانی حقوق کے بارے میں ہمارا ریکارڈ دیکھ کر نکتہ چینی کرتے ہیں‘ کیوں کہ امریکا کا مقصود دراصل یہ ہوتا ہے کہ دنیا کے سامنے ظاہر کرے کہ اسے جمہوری اصول و قوانین کا بڑا خیال ہے۔

ازبکستان میں انسانی حقوق کی پامالی پر امریکا کی طویل خاموشی کا شدید ردعمل ہوا۔ خود امریکا کی متعدد تنظیموں نے حکومت کی اس چشم پوشی پر کڑی تنقید کی‘ بعد از خرابیِ بسیار حکومت نے مجبوراً ازبکستان کی امدادی رقم کا ایک حصہ منجمد کردیا اور گرتی ساکھ سنبھالنے کی خاطر بات یہ بنائی کہ ازبکستان نے مطلوبہ دستوری اور جمہوری اصلاحات نہیں کیں۔ بعد میں کہا گیا کہ اس ملک نے انسانی حقوق کے تحفظ میں تھوڑی سی پیش رفت دکھائی ہے‘ مگر جمہوری اور معاشی اصلاحات کا معاملہ بدستور مایوس کن ہے۔ اُدھر ماسکو کی ایک تنظیم کی رپورٹ خبر دے رہی ہے کہ ازبکستان کے قیدخانوں میں ۵۰ ہزار سے زیادہ قیدی ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔ مختلف قسم کی سخت سزائوں کی بنا پر جو لوگ جاں بحق تسلیم ہوگئے ان کا تو شمار ہی نہیں۔ اس طرح اسرائیل اور امریکا کے ساتھ پُرامن تعاون کو تقویت پہنچی۔ اس تعاون کی تفصیل یہ ہے کہ سونا‘ چاندی‘ یورینیم‘ تانبا‘ جست‘ قدرتی گیس‘ مٹی کا تیل‘ کوئلہ وغیرہ معدنی دولت میں شراکت ہوسکے گی۔ اسی لیے گذشتہ ایک سال کے دوران میں ازبکستان کو امریکا نے ۴۶ ملین ڈالر کی امداد دی تھی۔ سینیٹ نے بھی اس پر مہرتصدیق ثبت کردی ہے‘ مگر چونکہ بین الاقوامی سطح پر تنقید آئے دن بڑھتی ہی چلی گئی کہ ایک ایسے ملک کے ساتھ فیاضانہ سلوک کیا جا رہا ہے جو حزبِ مخالف کو ختم کرنے کے درپے ہے‘ تو اس خطیر رقم میں ۱۸ ملین ڈالر کی کٹوتی کر دی گئی۔

ماسکو اور واشنگٹن کو کریموف سے کوئی محبت نہیں ہے‘ انھیں اسلام پسندوں سے نفرت ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ ازبکستان میں (بلکہ دنیا بھر میں کہیں بھی) کوئی اسلامی پارٹی برسرِاقتدار آئے۔ اس سے انھیں خدا واسطے کا بیرہے۔ صدر کریموف کریملن اور وہائٹ ہائوس کا یہ الہامی پیام سمجھ گئے ہیں اور اپنے سیاسی مفاد کے تحفظ کے لیے سارے جتن کرلیے ہیں‘ یعنی باغی شہر (اندیجان) کے تمام راستے بند کر دیے ہیں۔ تمام مقامات پر پولیس کے ہزاروں سپاہی اور جاسوس پھیلا دیے گئے ہیں۔ توپوں اور بندوقوں سے آگ برسائی جارہی ہے اور ہرسُو سیکڑوں بندگانِ خدا کی لاشیں گررہی ہیں۔ اس سنگ دلی اور سفاکی کا صاف مطلب یہ ہے کہ وسط ایشیا کے اندر اسلام پسندوں کا عروج ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ حالانکہ جارجیا‘قازقستان اوریوکرائن جیسی پڑوسی ریاستوں میں ایسے انقلاب کامیاب ہوچکے ہیں اور اپنی اپنی مصلحتوں کے پیش نظر روس اورامریکا انھیں تسلیم بھی کرچکے ہیں۔

صورت حال کا سب سے زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ دنیابھر کے مسلمان اس المیے کے تماشائی بنے بیٹھے ہیں‘ وہ المیہ جس کا اہم ترین کردار کریموف ہے۔ اس ظالم نے روسی ڈکٹیٹر جوزف اسٹالن کی تلخ یاد تازہ کر دی ہے جو وسط ایشیا کے مسلمانوں کے حق میں بَلاے بے درماں تھا‘ جس نے ۱۵ ملین مسلمانوں کے خونِ ناحق میں اپنے ہاتھ رنگے تھے اور انھیں سائیبریا کے دُور دراز علاقے میں دفن کروا دیا تھا۔

بات یہ ہے کہ کریموف کو ہلاکت و بربادی کے سبھی وسائل میسر آگئے ہیں اور اس نے یہ حقیقت پالی ہے کہ حکومت پر جمے رہنے کی واحد صورت یہ ہے کہ ملک کی اسلامی تحریک کا خاتمہ کردیا جائے‘ کیوں کہ یہی ایک ایسی طاقت ہے جو اس شخص کی ظالمانہ حکومت کو مات دے سکتی ہے۔ وہ حکومت جس نے ملک کو اس کی عظیم معدنی دولت اور زرعی پیداوار کے باوجود انتہائی غربت اور  پس ماندگی سے دوچار کر دیا ہے(عربی سے تلخیص۔ بشکریہ راہِ اعتدال‘ عمرآباد‘ بھارت‘ فروری ۲۰۰۶ئ)