پروفیسر عبدالعظیم اصلاحی


تمام معاشی برائیوں میں ’ربا‘ یا ’سود‘ کے نتائجِ بد، معیشت کے لیے تباہ کن ہوتے ہیں۔ سود کا عمل صرف ایک دینی حکم کی خلاف ورزی اور اخلاقی برائی نہیں ہے، بلکہ اس کی کوکھ سے بہت سی سماجی و معاشی برائیاں جنم لیتی ہیں، مثلاً ظلم، استحصال، بے رحمی، بے مروتی، افراطِ زر، تقسیمِ دولت میں ناہمواری اور اقتصادی بحران وغیرہ۔ بڑے اور ترقی یافتہ ملکوں کے زیراہتمام کام کرنے والے بین الاقوامی مالی ادارے آسان شرطوں پر ’امداد‘ (Aid)کے نام پر سودی قرضے فراہم کرکے، ترقی پذیر اور کمزور ملکوں کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی اور ان کے عالمی تعلقات کو اپنے مفاد میں کنٹرول کرتے ہیں۔
اس وقت دنیا کی بیش تر آبادی قرضوں کے بوجھ تلے سسک سسک کر زندگی گزار رہی ہے۔ لاطینی امریکا میں پیدا ہونے والا ہر متنفس ۱۶۰۰ ؍ ڈالر کے قرضے کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ افریقہ جنوبی صحارا (Sahara) کے ممالک میں، پیدا ہونے والے ہربچے پر ۳۳۶ ڈالر کا قرضہ پہلے سے موجود ہوتا ہے، حالاں کہ سود کی شکل میں ان کے آبا و اجداد ان قرضوں کو بہت پہلے ادا کرچکے ہیں۔ اسی طرح ۱۹۸۰ء تک جنوبی افریقہ کے ممالک کے ذمے ۵کھرب اور ۶۷؍ارب ڈالر کا قرضہ تھا، جب کہ اس وقت تک وہ سود کی مد میں ۳۴کھرب اور ۵۰؍ارب ڈالر ادا کرچکے تھے۔ ۲۰۰۰ء تک وہ اصل رقم کا چھے گنا دے چکے تھے، مگر پھر بھی ان کے ذمے ۲۰کھرب اور ۷۰؍ارب  ڈالر کا قرض باقی تھا۔(www.henciclopedia.org.uy/autores/lagadelmundo/usury.htm [پاکستان میں صورتِ حال یہ ہے: ۲۰۰۸ء میں ہرپاکستانی شہری ۵۹۳ ڈالر کا مقروض تھا، جب کہ ۲۰۱۷ء میں وہ ۱۱۲۲ ؍ڈالر فی کس مقروض ہوگیا اور ۲۰۱۹ء میں یہ رقم اور بھی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ادارہ])
  یہ تو بڑے قرض داروں کا حال ہے۔ چھوٹے ساہوکاروں کے ظلم اور ان کے قرض داروں کی حالت ِ زار سے افسانے بھرے پڑے ہیں۔
قرآنِ کریم میں سود کے مرتکبین کے خلاف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے اعلانِ جنگ کیا گیا ہے۔ 
ارشاد ِ الٰہی ہے:
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ ۝۰ۚ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ ۝۰ۚ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ۝۲۷۹ (البقرہ ۲:۲۷۹) پس اگر تم (سود سے) باز نہ آئو تو اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے جنگ کے لیے تیار رہو۔ اور اگر تم اس سے توبہ کرلو تو تمھارے لیے تمھارا اصل سرمایہ ہے۔ نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے۔
ظاہر ہے کتابِ الٰہی میں جس برائی کے مرتکبین کے خلاف اعلانِ جنگ کیا گیا ہو، اس کی ممانعت کا سبھی آسمانی کتابوں میں پایا جانا عین قرین قیاس ہے۔ پیش نظر مضمون میں ربا سے متعلق قرآنی احکام کی وضاحت کے بعد، اس برائی سے متعلق بعض دیگر مذہبی کتابوں میں موجود احکام کا جائزہ لیا اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ یہ تعلیمات اس بُرائی کے خلاف متحد پلیٹ فارم بنانے میں بنیاد ثابت ہوسکتی ہیں۔ بعض حکما و فلاسفہ کی آرا، نیز ماہرین معاشیات کے مثبت نتائجِ فکر ذکر کرنے سے یہ مقصود ہے کہ اس جدوجہد میںان کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے ۔ یوں مذہبی سوچ رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ سیکولر ذہنوں کو مطمئن کرنے میں مدد لی جاسکتی ہے۔

قرآنِ مجید میں سود کی ممانعت 

سود کی مذمت اور ممانعت جس شدت کے ساتھ قرآن میں آئی ہے ، شایدہی کسی اور مذہبی کتاب میں پائی جاتی ہو۔ سود سے متعلق قرآنی آیات بہت واضح، صریح اور قطعی ہیں۔ سود ہرزمانے اور ہرقوم میں موجود رہا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک مختلف فیہ قول کا سہارا لے کر بعض حیلہ جُو مصنّفین نے یہ دعویٰ کر دیا ہے کہ’’ اسلام میں سود کی کوئی تعریف ہی نہیں ہے‘‘۔(دیکھیے راقم کا مضمون: ’’کیا آیت رِبا قرآن کی سب سے آخر میں نازل ہونے والی آیت ہے؟‘‘ مجلہ علوم القرآن، علی گڑھ، جنوری- جون ۲۰۱۴ء، ص ۴۶-۲۷)
مصحفی ترتیب کے مطابق قرآنِ مجید میں سب سے پہلے سورۃ البقرہ میں سود کی ممانعت کا حکم مذکور ہے۔ اس میں فرمایا: ’’جو لوگ سود کھاتے ہیں، وہ بالکل ایسے شخص کی طرح اُٹھیں گے، جسے شیطان نے چھوکر باؤلا کردیا ہو‘‘۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے پاگل پن کا اظہار کرتے ہوئے خریدوفروخت کو جس میں فریقین کا فائدہ ہوتا ہے ’ربا‘ کے مانند قرار دے دیا، جو کہ ایک فریق کے استحصال پر منتج ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال اور ربا کو حرام قرار دیا ہے۔(ابن القیم، اعلام الموقعین، مکتبہ السعادۃ، قاہرہ، ج۲، ص ۱۳۵)  
اسی طرح سورۂ آل عمران میں سودخوری سے منع فرمایا کہ اس کا مزاج ہی یہ ہے کہ وہ دگنا چوگنا ہوتا رہتا ہے۔(علامہ ابن القیم کے مطابق ہر سود کی طبیعت میں یہ داخل ہے کہ وہ بڑھتا چڑھتا اضعافًا مضاعفۃ  رہے۔)
اللہ کے خوف سے سود سے پرہیز کرنے والوں کے لیے کامیابی اور فلاح کا وعدہ فرمایا گیا ہے اور سود خوری کے انجام، آتشِ جہنم سے خبردار کیا گیا ہے جو اس طرح کے ناشکروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔(اٰل عمرٰن ۳:۳۰-۳۱)
سود جس کا قرآنِ کریم میں اس بُرائی کے ساتھ ذکر ہے، اس کا حرام ہونا صرف اُمت محمدیہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ خود قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود پر سود حرام تھا جس کی حکم عدولی انھوں نے کی اور جس کے نتیجے میں انھیں ذلّت و رُسوائی سے دوچار ہونا پڑا (المائدہ ۵:۱۶)۔ اور جو سود اہلِ کتاب کے یہاں حرام تھا، وہی اسلام میں بھی حرام ہے۔ ہم ذیل میں اہلِ کتاب کے صحیفوں میں سود سے متعلق احکام کا جائزہ لیں گے:
حقیقت یہ ہے کہ ربا مکی دور سے حرام رہا ہے، جیساکہ احادیث ِمعراج سے معلوم ہوتا ہے۔(احمد بن علی بن حجر العسقلانی، فتح الباری، شرح بخاری، بیروت، ۱۳۷۹ھ، ج۴،ص۳۱۳-۳۱۵)
  سورئہ روم، مکّہ میں نازل ہوئی جس میں وارد ہے:
وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللہِ ۝۰ۚ(الروم ۳۰:۳۹) جو ربا بھی تم دیتے ہو کہ اس سے لوگوں کے مال میں اضافہ ہو تو اللہ کے نزدیک اس سے کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔
سورۃ المدثر، مکی دور کی ابتدائی سورتوں میں ہے۔ اس کی آیت وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ۝۶۠ۙ     (المدثر ۷۴:۶) یعنی’’کسی پر احسان نہ کرو اس سے زیادہ کی طلب میں‘‘سے بعض مفسرین نے تحریم سود مراد لیا ہے۔(ابن تیمیہ، مجموع فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ،الریاض، ۱۹۸۳ء، ج۴،ص۲۲)
سود سے متعلق قرآنِ کریم کے مذکورہ بالا احکام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسلام میں حتمی اور قطعی طور پر حرام ہے۔ سودی معاملہ ایک ظلم ہے جس سے قرآن نے منع کیا ہے۔ قرآن تجارت اور سود کی مشابہت کو رد کرتا ہے۔ علامہ ابن تیمیہؒ نے سود کی ممانعت کے معاملے میں اہلِ اسلام کے درمیان اجماع کی صراحت کی ہے، جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہ باطل طریقے سے ایک دوسرے کے مال کھانے کا طریقہ ہے، جو تمام سودی معاملات میں پایا جاتا ہے۔  (مجموع فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ج ۲۹، ص ۴۱۹-۴۵۵)
پیداواری و غیرپیداواری قرضوں کا سود اور اسلام؟
عصرِحاضر کے کچھ نام نہاد دانش وروں نے بعض قوموں کی موشگافیوں سے متاثر ہوکر ’پیداواری‘ اور ’غیرپیداواری قرضوں‘ کے سود کے درمیان فرق کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالاں کہ اگر اس طرح کا کوئی فرق ہوتا تو کتاب اللہ اور سنت ِ رسولؐ اللہ میں ضرور اس کی صراحت ہوتی۔ کیوں کہ قرآن ایسی قوم کے درمیان نازل ہوا، جو عام طور پر تجارت پیشہ تھی اور جس کے قرضے تجارتی اغراض کے لیے بھی ہوتے تھے۔ فضل الرحمٰن گنوری نے اس موضوع پر سیرحاصل بحث کی ہے اور دلائل سے ثابت کیا ہے کہ ’’عرب جاہلیت اور ابتداے اسلام میں مکہ اور طائف کے لوگوں کے درمیان پیداواری و تجارتی مقاصد کے لیے قرضوں کا رواج تھا۔ اس لیے ان لوگوں کا خیال  غلط ہے جو یہ کہتے ہیں کہ دورِ اوّل میں قرضے حاجت براری کے لیے حاصل کیے جاتے تھے، یا یہ کہ پیداواری قرضے دورِحاضر کے مظاہر میں سے ہیں، اس لیے ان کا حکم جدا ہونا چاہیے‘‘۔(فضل الرحمٰن، تجارتی سود، تاریخی و فقہی نقطۂ نظر، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، ۱۹۶۷ء، ص۸-۳۰)
تمام ہی علماے سلف اس بات کے قائل ہیں کہ اسلام میں پیداواری و غیرپیداواری یا تجارتی و غیرتجارتی قرضوں کے سود کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ ہر دو طرح کے قرضوں پر طلب کی جانے والی اضافی رقم ’ربا‘ یا ’سود‘ ہے۔
علّامہ حمیدالدین فراہیؒ نے خود قرآنی آیات کے الفاظ سے یہ استدلال کیا ہے کہ دورِاوّل میں زیادہ تر قرض خواہ تونگر و اہلِ ثروت ہوا کرتے تھے۔ آیت: وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰى مَيْسَرَۃٍ ۝۰ۭ وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۲۸۰ (البقرہ ۲:۲۸۰) ’’تمھارا قرض دار تنگ دست ہو، تو ہاتھ کھلنے تک اُسے مہلت دو، اور جو صدقہ کردو، تو یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے، اگر تم سمجھو‘‘ کی تفسیر میں آپ فرماتے ہیں:
یَلُوْحُ مِنْ ھٰذِہِ الْکَلِمَاتِ اَنَّھُمْ  کَانُوْا یَأْخُذُوْنَ الرِّبَا مِنْ ذِیْ مَیْسَرَۃٍ  وَالْقُرَیْشُ کَانَتْ تُجَّارًا وَاَصْحَابَ الرِّبَا فَلَا اَرَی فَرْقًا بَیْنَ حَالِھِمْ وَحَالِ اَبْنَاءِ زَمَانِنَا فِیْ الرِّبَا - وَاللہُ اَعْلَمُ!  ان الفاظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تونگروں سے سود لیا کرتے تھے۔ قریش تجارت پیشہ قوم تھی اور سودی معاملات کرتے تھے۔ اس لیے مَیں نہیں سمجھتا کہ ’ربا‘ کے معاملے میں اُس وقت کے حالات اور ہمارے زمانے کے لوگوں کے حالات میں کوئی فرق ہے۔(عبدالحمید فراہی، تعلیقات فی تفسیر القرآن الکریم، سراے میر، ۲۰۱۰ء، ج۱،ص ۸۵)
پھر اس معنی کی وضاحت مولانا امین احسن اصلاحی نے تفصیل سے کی ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ: عربی زبان میں اِنْ  کا استعمال عام اور عادی حالات کے لیے نہیں ہوتا بلکہ بالعموم نادر اور شاذ حالات کے بیان کے لیے ہوتا ہے۔ عام حالات کے بیان کے لیے عربی میں اِذَا ہے۔ اس روشنی میں غور کیجیے تو آیت کے الفاظ سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ اس زمانے میں عام طور پر  قرض دار ذومیسرہ (خوش حال) ہوتے تھے۔ لیکن گاہ گاہ ایسی صورت بھی پیدا ہوجاتی تھی کہ قرض دار غریب ہو یا قرض لینے کے بعد غریب ہوگیا، تو اس کے ساتھ رعایت کی ہدایت فرمائی۔(امین احسن اصلاحی، تدبر قرآن، لاہور، ۱۹۸۵ء، ج ۱، ص ۶۳۸-۶۳۹)
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ زمانۂ قدیم سے مسلمان علما نہ صرف یہ کہ ہردو طرح کے قرضوں سے واقف، اور ان کے تکلیف دہ نتائج سے بھی آگاہ تھے۔ امام فخرالدین رازی نے تجارتی سود کو درست قرار دینے کی سوچ پر سخت تنقیدکی ہے۔ ایسے قرضوں کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں:
رہی یہ بات کہ اس کا امکان ہے کہ قرض دہندہ نے اپنی رقم کی سرمایہ کاری کی ہوتی اور اس سے نفع کمایا ہوتا تو یہ ایک امرموہوم ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ نفع ہو یا نہ ہو (بلکہ خسارہ ہوجائے)۔ اب صرف اس امکان کی بنیاد پر قرض دی گئی رقم پر ایک متعین اور طے شدہ اضافی رقم کا مطالبہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے؟ یہ تو ظلم و ناانصافی ہے کہ ایک وہمی و امکانی بنیاد پر ایک یقینی و لازمی چیز کا مطالبہ ہو۔(فخر الدین رازی، التفسیر الکبیر، قاہرہ، ۱۹۳۸ء، ج۵، ص ۹۱)
امام رازی کے مطابق اس اجازت کا ایک غلط معاشی اثر یہ ہوگا کہ ’’یہ چیز اہلِ سرمایہ کو صنعت ،تجارت و زراعت کے خطرات کے جوکھم میں پڑنے سے روکے گی اور وہ قرض دے کر یقینی و طے شدہ نفع کمانے کو ترجیح دیں گے، حالانکہ معاشی ترقی و فلاح اس کے بغیر ممکن نہیں ہے‘‘۔(التفسیر الکبیر، ج۵،ص۹۲)

سود کے احکام عہد نامہ قدیم میں

سود سے متعلق قرآنی احکام و تعلیمات کا جائزہ لینے کے بعد دنیا کی بعض دیگر مذہبی کتابوں کے حوالے سے سود کے احکام کا مطالعہ پیش ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے توریت کو دیکھتے ہیں۔  عہدنامہ قدیم کے باب لاویین یا احبار ۲۵، ۲۶: ۳۷ میں مذکور ہے:
اور اگر تیرا بھائی مفلس ہوجائے اور وہ تیرے سامنے تنگ دست ہو، تو اسے سنبھالنا۔  وہ پردیسی اور مسافر کی طرح تیرے ساتھ رہے تو اس سے سود یا نفع مت لینا۔ اپنے خداوند کا خوف رکھنا تاکہ تیرابھائی تیرے ساتھ زندگی بسر کرسکے تو اپنا روپیہ اسے سود پر مت دینا اور اپنا کھانا بھی اسے نفع کے خیال سے نہ دینا۔(کتاب مقدس، یعنی پرانا اور نیا عہدنامہ، بائبل سوسائٹی ہند، بنگلور، ۱۹۲۵ء، ص ۱۱۹)
اسی طرح باب خروج ۲۲-۲۵ میں ہے:
اگر تو میرے لوگوں میں سے کسی محتاج کو جو تیرے پاس رہتا ہو، کچھ قرض دے تو اس سے قرض خواہ کی طرح سلوک نہ کرنا اور نہ اس سے سود لینا۔
عہدنامہ قدیم کے باب استثناء ۲۰-۱۹:۲۲ میں بھی اسی طرح کی تعلیم ہے:
تُو اپنے بھائی کو سود پر قرض نہ دینا، خواہ وہ روپے کا سود ہو یا اناج کا سود، یا کسی ایسی چیز کا سود ہو، جو سود پر دی جاتی ہے۔ تُو پردیسی کو سود پر قرض دے تو دے، اپنے بھائی کو سود پر قرض نہ دینا تاکہ خداوند تیرا اس ملک میں جس پر تو قبضہ کرنے جارہا ہے، تیرے سب کاموں میں جن کو تُو ہاتھ لگائے برکت دے۔
زبور ۵:۱۵ میں ہے: ’’اے خداوند! تیرےخیمے میں کون رہے گا؟ تیرے کوہِ مقدس پر کون سکون اختیار کرے گا؟ وہ جو اپنا روپیہ سود پر نہیں دیتا اور بے گناہ کے خلاف رشوت نہیں لیتا۔ ایسے کام کرنے والا کبھی جنبش نہ کھائے گا‘‘۔
حزقی ایل میں آیا ہے: ’’غریب سے دست بردار ہو اور سود پر لین دین نہ کرے۔ لیکن میرے احکام پر عمل کرے اور میرے آئین پر چلے‘‘۔ 
توریت کے مذکورہ بالا احکام پر عربی دائرۃ المعارف کے مؤلف لکھتے ہیں:
شریعت موسوی میں یہودیوں کو غریبوں سے سود لینے سے منع کیا گیا تھا، خواہ وہ کوئی اجنبی ہی کیوں نہ ہو، پھر اس ضمانت کو یہودیوں سے سود لینے تک محدود کر دیا گیا، خواہ وہ مال دار کیوں نہ ہو۔ انھیں حکم ہوا تھا کہ وہ غریبوں کو قرض دیں تاکہ انھیں قید اور فقروفاقہ سے نجات حاصل ہوسکے۔ اور انھیں سخت انتباہ دیا گیا تھا کہ کسی حیلے و حوالے سے سود نہ لیں…لیکن جب بازار میں وسعت ہوئی اور کاروبار میں ترقی آئی تو سود لینا اور رہن پر قرض دینا ان کے اندر بالکل عام ہوگیا۔ البتہ خود اپنے یہودی بھائیوں سے بھی سود لینے کا جواز ان کے یہاں بہت بعد میں ہوا‘‘۔(سلیم البستانی، دائرۃ المعارف، بیروت، ۱۸۸۴ء،ج ۸،ص۵۱۳) 
مذکورہ بالا سطور سے واضح ہے کہ قرآن کے علاوہ خود یہودی مآخذ سے معلوم ہوتا ہے کہ  بنی اسرائیل کے یہاں سود کی سخت ممانعت تھی مگر جیسا کہ قرآن کے بیان سے معلوم ہے، اس میں انھوں نے کافی ردوبدل کیا اور اس کی خلاف ورزی کی۔ ان سب کے باوجود اب بھی اگر ان تعلیمات پر غور کیا جائے، تو واضح ہوگا کہ توریت کی بنیادی تعلیم میں ہر طرح کے سود سے ممانعت ہے۔

انجیل میں سود کا تذکرہ

انجیل  یا عہد نامۂ جدید میں سود سے متعلق کوئی حکم ملنا مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ حضرت مسیح ؑکوئی نئی شریعت لے کر نہیں آئے تھے، بلکہ توریت کی اصل تعلیمات ہی کو جاری و ساری کرنے آئے تھے۔ عہدنامۂ جدید میں مسیحؑ کا قول ہے کہ: ’’بغیر کسی بدلے کی اُمید رکھے ہوئے قرض دو‘‘۔ لوقا (۶:۳۵) میں ہے: ’’اور اگر تم ان کو قرض دو، جن سے وصول ہونے کی اُمید رکھتے ہو، تو تمھارا کیا احسان ہے؟ گنہ گار بھی گنہ گار کو قرض دیتے ہیں تاکہ پھر وصول کرلیں‘‘۔(عہدنامہ جدید،ص ۵۸)
اس سے یہ واضح ہے کہ بنیادی طور پر سود خوری مسیحیت کی روح کے منافی ہے۔
شروع کے مسیحی کلیسا نے سود کے خلاف نہایت سخت رویہ اپنایا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خود حضرت عیسٰی علیہ السلام نے اُدھار پر روپے دینے کا کاروبار کرنے والوں کو معبد سے نکلوا دیا تھا۔ عیسائی پادریوں نے سود سے متعلق عہدنامہ قدیم میں پائی جانے والی تعلیمات کو ازسرنو زندہ کیا۔ ان نصوص کی بنیاد پر چوتھی صدی کے کیتھولک چرچ پادریوں کے گروہ نے کلیسا سے وابستہ افراد (Clergy ) کو سودی کاروبار کرنے سے منع کر دیا۔ پھر اسی حکم کو ایک صدی بعد عام آدمی (Laity) پر بھی لاگو کردیا گیا۔ آٹھویں صدی عیسوی میں شارلیمان (Charlemagne) کے حکم کے تحت ’ربا‘ کو ایک قابلِ تعزیر جرم قرار دیا گیا۔ سود کے خلاف جنگ ۱۳۱۱ء میں اپنی انتہا کو پہنچ گئی، جب کہ پوپ کلیمنٹ پنجم نے ہرطرح کے سودی کاروبار پر مکمل پابندی عائد کر دی اور سود کے حق میں دی جانے والی ہرطرح کی دلیلوں کو خارج کر دیا۔(اے بیرنی، The History and Ethics of Interest, ، لندن، ۱۹۵۲ء)
یہ بات کہ سود ایک ظلم ہے، مسیحی اہلِ مدرسہ نے بہت تاخیر سے بارھویں صدی عیسوی میں بیان کیا، جس کو عیسائی معاشیات کے ایک مصنف اوبرائن (O'brien) نے بہت بڑا انکشاف قرار دیا ہے۔ اس کے مطابق:الیگزنڈر سوم (م:۱۸۱۱ء) سود کے گہرے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ سود ایک ظلم کا ارتکاب ہے۔ سود میں اصلاً ظلم اورناانصافی پائے جانے کا اعتراف اس موضوع پر مطالعے کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا، اور الیگزنڈر سوم اس کا مستحق ہے کہ سود کے علمی مطالعے میں اس کو سفرمینا سمجھا جائے۔(جارج اوبرائن، An Essay on Medieval Economic Teachings لندن، ۱۹۲۰ء، ص ۱۷۵)
اس بات سے ہم سب واقف ہیں کہ قرآن نے شروع ہی میں سودی لین دین کو ایک ظلم قرار دے دیا تھا: لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ۝۲۷۹  (البقرہ ۲:۲۷۹) ’’نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے‘‘۔ بعد کے عہد میں خود کلیسا کے صاحب ِسرمایہ بننے اور تجارت کے فروغ سے یوژری (usury) اور انٹرسٹ (interest) میں فرق کی بحث شروع ہوئی، جس میں بالآخر ’انٹرسٹ‘ کو ’یوژری‘ سے الگ ایک جائز طریقے کے طور پر اکثر مسیحی علما نے تسلیم کرلیا۔ اس کے باوجود چرچ آف اسکاٹ لینڈ نے ۱۹۸۸ء میں سرمایہ کاری اور بینکنگ پر اپنی رپورٹ میں اس بحث کو پھر پوری قوت سے اُٹھایا، جس میں کہا گیا ہے کہ ’’ہم اس کے قائل ہیں کہ کاروبار یا ذاتی قرضوں پر انٹرسٹ وصول کرنا بجاے خود چرچ کی اخلاقیات سے ہم آہنگ نہیں ہے، کیوں کہ یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ جو ’انٹرسٹ‘ طلب کیا جارہا ہے، وہ مناسب ہے یا بہت زیادہ؟‘‘ (Church of Scotland Report of Special Commission on the Ethics of Investment and Banking ، ۱۹۸۸ء، بحوالہ: www.lariba.com/knowledge-center) 

سود کی مخالفت ، ہند کی مذہبی کتابوں میں

ایل سی جین نے اپنی کتاب Indigenous Banking in India میں سودی معاملات کی تاریخ تقریباً چار ہزار سال پرانی بتائی ہے اور ان کے مطابق اس کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی سود کی مخالفت و مذمت کی۔ وہ اقرار کرتے ہیں کہ ’’سارے ہی بڑے مذاہب، ہندوازم، بدھ ازم، یہودیت، عیسائیت اور اسلام سود کے مخالف رہے ہیں‘‘۔(ایل سی جین ،Indigenous Banking in India ، لندن، ۱۹۲۹ء، ص ۳-۱۰)
قدیم ہند میں سود سے متعلق قدیم ترین حوالہ وید  کے اندر پایا جاتا ہے، جس کا زمانہ دوہزار سے چودہ سو سال قبل مسیح سمجھا جاتا ہے۔ بعد کے اَدوار میں سوترا (۷۰۰-۱۰۰ ق م) کے اندر اور بدھ مت کے جاتکا  (۶۰۰-۴۰۰ ق م) میں سودکا بکثرت ذکر آیا ہے۔ جس میں  سود سے متعلق نفرت آمیز بیان پایا جاتا ہے۔ جاتکا  میں ہے کہ ’’صرف منافق بھکشو ہی سودی کاروبار کرسکتا ہے‘‘۔ وسشتھا (Vasishtha) جیسے  قدیم ہندو مقنن نے خاص طور پر یہ قانون بنایا تھاکہ اعلیٰ ذات کے برہمن اور کھشتری سود کا کاروبار نہیں کرسکتے۔ البتہ دوسری صدی عیسوی سے ممنوع سود کی اصطلاح ایک ایسے مشروط معاملے کے لیے استعمال ہونے لگی، جو قانونی شرح سے زیادہ ہو۔(ایل سی جین ،Indigenous Banking in India ، لندن، ۱۹۲۹ء، ص ۳-۱۰)
ہمیں کوشش کے باوجود کوئی ایسی تحقیق نہیں مل سکی، جو ہندستانی مذہبی کتابوں کے اصلی حوالوں سے سود کی بابت، ان کتابوں میں موجود احکام پر روشنی ڈال سکے۔ اس لیے زیربحث اس خاص پہلو کے لیے ثانوی ذرائع پر اعتماد کرنا پڑا، جن میں بہت تسلی بخش تفصیلات نہیں مل سکیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سود سے متعلق ہندستانی مذاہب کے موقف اور دھارمک گرنتھوں میں موجود ہدایات کو تحقیق کا عنوان بنایا جائے۔ 

حکما و فلاسفہ کی تائید

یہاں یہ بات مختصراً عرض کر دینا مناسب ہے کہ مذہبی کتابوں میں سود کی ممانعت اور مذمت (جس کو مذہب کے مخالف افراد گھڑہی ہوئی باتیں قرار دیتے ہیں) کی تائید اہلِ فکر و فلسفہ کے بیانات سے بھی ہوتی ہے۔ رومی مفکرین سیسرو (۱۰۶- ۴۳ ق م) اور سینکا (۶۵-۴ ق م) نے سودخوری کی مذمت کرتے ہوئے اسے انسانیت سے عاری عمل قرار دیا ہے۔ ان سے پہلے یونانی فلسفیوں افلاطون اور ارسطو نے بھی بڑی شدت کے ساتھ سود لینے کی مخالفت کی ہے۔ ان کے نزدیک یہ عمل عدل اور فطرت کے خلاف ہے کہ غیربارآور سکّے سے بڑھ کر رقم حاصل کی جائے۔(اے بیرنی، The History and Ethics of Interest, ، لندن، ۱۹۵۲ء،ص ۱۹۵)
ان فلاسفہ نے بھی پیداواری یا غیرپیداواری قرض میں کوئی فرق نہیں کیا ہے کہ اوّل الذکر پر سود کو جائز اور مؤخر الذکر پر سود کو ناجائز قرار دیں۔(جوزف الویس سچم پیٹر، History of Economic Analysis، لندن ۱۹۹۷ء، ص ۶۵)
عصرحاضر میں پیداواری اور غیرپیداواری قرضوں پر سود میں فرق کی بحث ایک فیشن بن گئی ہے۔ حالانکہ انجام کے اعتبار سے دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ نتائج کے لحاظ سے دونوں یکساں ہیں، کیوں کہ پیداواری قرضے کا بار بھی آخرکار عام صارفین ہی پر پڑتا ہے، جن کی اکثریت غریب ہوتی ہے۔ نیز کیا یہ مناسب ہے کہ صاحب ِ اصل زر [سرمایہ دار، ساہوکار]کو اس کے سرمایے پر طے شدہ فائدہ ملے، جب کہ اس سرمایے سے کام کرنے والے کو اس سے فائدے کی کوئی ضمانت نہ ہو؟کوئی بھی سلیم الفکر انسان اس طرح کی ناانصافی کو جائز قرار نہیں دے گا۔

سود کے منفی اثرات ، ماہرین معاشیات کی شہادت

سود کی بہت اُونچی شرح جو قانونی اور عام طور پر رائج شرح سے بہت بڑھ کر ہو، جس کو معاشیات کی اصطلاح میں یوژری (usury)کہتے ہیں۔ اس کی مخالفت، مذمت اور اس کے استحصالی ہونے میں علماے اخلاقیات کے علاوہ ماہرین معاشیات کے درمیان بھی شاید ہی کوئی اختلاف ہو۔ لیکن سود کی قانونی، اور معمولی شرح جس کو انٹرسٹ (interest) کا نام دیا جاتا ہے، اس کی تباہ کاریاں بھی کچھ کم نہیں۔ اسی لیے بہت سے حقیقت شناس اور سلیم الفکرماہرین معاشیات نے بھی سود کو معیوب سمجھا ہے اور اس کے نتائج بد سے پردہ اُٹھایا ہے۔ جس سے مذہبی کتابوں میں سود کی ممانعت کی تائید و تصدیق ہوتی ہے۔(افسوس کا مقام ہے کہ بعض مسلم شخصیات نے چلتے دھارے کی پیروی میں ’یوژری‘ اور ’انٹرسٹ‘ میں  فرق کرنے کی کوشش کی ہے۔ اوّل الذکر کو ’ربا‘ قرار دیا ہے اور مؤخر الذکر کے لیے ’فائدہ‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ حالاں کہ اسلام میں اس طرح کی کوئی تفریق ہوتی تو قرآن و حدیث میں اس کو ضرور واضح کر دیا گیا ہوتا۔ اب، جب کہ ’انٹرسٹ‘ کی خرابیاں واضح ہوتی جارہی ہیں، یہود و نصاریٰ کی پیروی میں ’یوژری‘ اور’انٹرسٹ‘ میں فرق کرتے ہوئے پہلے کو ناجائز اور دوسرے کو جائز قرار دینا حذو النعل بالنعل (قدم بہ قدم پیروی کرو گے) والی پیش گوئی کی تصدیق معلوم ہوتی ہے۔)مثلاً پروفیسر مارگریٹ کینڈی ( ہنوور یونی ورسٹی) اپنی کتاب Interest and Inflation Free Money, Okemos, 1995 میں تحریر کرتی ہیں کہ: سود ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں مثلِ سرطان ہے۔ انھوں نے سود اور افراطِ زر سے پاک نظامِ زر کی پُرزور وکالت کی ہے

اور یہ ثابت بھی کیا ہے کہ ۱۹۶۸ء سے ۱۹۸۹ء کے درمیان مجموعی قومی پیداوار (GNP) اور اُجرتوں میں ۴۰۰ فی صد اضافہ ہوا ہے، جب کہ اسی عرصے میں حکومت کی سود کی ادایگی ۱۳۶۰ فی صد بڑھی، جس کی وجہ سے افراطِ زرمیں زبردست اضافہ ہوا۔(ایم کینیڈی، Interest and Inflation Free Money، اوکیموس، ۱۹۹۵ء)
جدید سرمایہ دارانہ معیشت کے علَم بردار ایڈم اسمتھ، جسے اہلِ مغرب ’باباے معاشیات‘ کا لقب دیتے ہیں، اس نے ’یوژری‘ کی مخالفت کے ساتھ ’سود‘ کی اعلیٰ حد مقرر کرنے کی وکالت کی ہے۔(ایڈم اسمتھ ،An Inquiry into the Nature and Causes of the Wealth of Nations،نیویارک، ۱۹۳۷ء، ص ۳۳۹)

مشہور ماہر معاشیات جان مینارڈ کینز کی راے بھی کچھ اس طرح کی ہے۔(جے ایم کینز، A General Theory of Employment, Interest and Money ، لندن ۱۹۳۶ء، ص ۳۵۱-۳۵۳)
جیسل (Gesell) کا سود پر خاص اعتراض یہ ہے کہ: یہ معیشت کے عدم استقرار کا سبب بنتا ہے، جس کے نتیجے میں معیشت میں کبھی کساد، کبھی بے پناہ نشاط، کبھی گراوٹ، کبھی اُٹھان کے حالات ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں۔(گیسیل،Die Naturliche Wirtschaftsordnung، نورمبرگ، ۱۹۰۴ء) چنانچہ تجارتی چکر (Business Cycle) کا ایک مشہور نظریہ سود کے وجود پر منحصر ہے۔ شیخ محمد احمد کے مطابق سرمایہ دارانہ معیشت میں ایک بڑا مسئلہ بحرانوں کا پیدا ہونا ہے، جس کے پیچھے سود کا عمل کارفرما ہوتا ہے۔(ایس اے احمد، Economics of Islam (A

بھارت میں سودی قرضوں کا ایک قہر مقروض کسانوں کی خودکشی کی شکل میں برابر دیکھنے کو ملتا ہے، مثلاً ۲۳جولائی ۲۰۱۵ء کے روزنامہ انقلاب (نئی دہلی)کی شہ سرخی تھی: ’’۲۴گھنٹوں کے دوران کسانوں کی خودکشی کے سات واقعات پیش آئے‘‘۔ یہ واقعات وہ ہیں جو رپورٹ ہوئے۔ رپورٹ نہ ہونے والے واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔ خبر ہے کہ ’’۲۰۱۴ء میں ملک بھر میں ۱۲ ہزار سے زائد کسانوں نے خودکشی کی تھی‘‘۔یہ وہ کسان ہیں، جنھوں نے کاشت کے لیے سودی قرضے لیے تھے اور فصلیں خاطرخواہ نہ ہونے کے سبب قرض اور سود کی رقم کی ادایگی سے اپنے کو عاجز پاکر یہ انتہائی قدم اُٹھانے پر مجبور ہوگئے۔ اگر سودی قرض کے بجاے پیداوار کے نفع و نقصان میں شرکت کی بنیاد پر سرمایہ فراہم کیا جائے تو یہ صورتِ حال نہ پیدا ہو۔

خلاصۂ  کلام

ان مباحث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قرآنِ مجید میں کس شدت کے ساتھ سود کی ممانعت آئی ہے۔ دوسری مذہبی کتابیں بھی سود کی ممانعت و مذمت سے خالی نہیں ہیں۔ سود کا حرام ہونا کوئی  عقل و فہم سے بالاتر شے نہیں ہے۔ حکما، فلاسفہ اور اہلِ دانش سبھی اس کے خلاف ہیں۔ سنجیدہ ماہرین معاشیات کے نزدیک بھی سود، معیشت کے لیے کوئی مفید چیز نہیں ہے۔ اس کے غیرموافق معاشی اثرات اور و اقعات و شواہد اس کے متقاضی ہیں کہ سود کا خاتمہ ہو۔ یہ ساری چیزیں اس بات کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہیں، کہ سود کے خلاف ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہو اور اس بُرائی کے خاتمے کے لیے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان ربط و تعاون ہو۔ اس طرح کی کوششوں کے اچھے اثرات بھی مرتب ہورہے ہیں۔

سود کا نعم البدل یہ ہے کہ کاروبار شراکت کی بنیاد پر ہو، جس میں دونوں فریق نفع و نقصان میں شریک ہوں۔ شراکت کی بنیاد پر مالیات کی فراہمی سے حقیقی معیشت کا نشوونما ہوتا ہے، جب کہ سودی مالیات سے زر کی بنیاد پر زر کا پھیلائو ہوتا ہے، جو افراطِ زر، معاشی بحران اور عدم استحکام کا سبب بنتا ہے۔ شراکت اور حصہ داری پر مبنی معاشی سرگرمیوں سے پیداوار میں اضافہ، معیشت میں استحکام، کارکردگی میں تیزی، معاشی ترقی اور عدل و انصاف کے فروغ میں مدد ملتی ہے۔لہٰذا، اس کو رواج دینے کی ضرورت ہے۔(محمد نجات اللہ صدیقی، Current Financial Crisis and Islamic Economics in: Issues in the International Financial Crisis from an Islamic Perspective، جدہ، ۲۰۰۹ء،ص ۶-۷۔ l محمد فہیم خان ، World Financial Crisis: Lesson form Islamic Economics   ایضاً، ۲۰۰۹ء، ص۲۱)