عدلیہ کی آزادی کی تحریک کے ضمن میں ‘پاکستان میں آزادیِ اظہار کا مسئلہ ایک بار پھر معرض بحث میں آگیا ہے۔ یہ ان معنوں میں ’فطری‘ بات ہے کہ وطن عزیز میں کوئی حکومت ایسی نہیں رہی جس نے کسی نہ کسی عنوان سے پریس کی آزادی پر شب خون نہ مارا ہو۔ جنرل ایوب نے پریس پر کالے قوانین مسلط کیے جن سے نجات حاصل کرنے میں پاکستانی قوم کو تقریباً دو عشرے لگ گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست دانوں کے ساتھ صحافیوں کو بھی فکس اَپ (Fix up) کرنے کی روایت ڈالی۔ جنرل ضیاء الحق نے صحافیوں کو کوڑوں کے ساتھ ساتھ توڑوں کے تحفے دیے۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے ادوار میں صحافیوں پر بغاوت کے مقدمے قائم ہوئے اور ایک دن میں چھے چھے اخبارات کو زبان پر تالے لگانے پڑے۔ جنرل پرویز بھی اسی ورثے کے امین ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کی اس طویل روایت کو دیکھا جائے تو خیال آتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کا آئیڈیل ایک ایسی قوم ہے جو مستقلاً اندھی‘ بہری اور گونگی ہو۔ اس کی وجہ ہے اور وہ یہ کہ وطن عزیز میں قانون کی حکمرانی کے بجاے حکمرانوں کا قانون چلتا ہے جس کے باعث پریس اور حکومت کے درمیان ایک دائمی آویزش برپا رہتی ہے۔ حکومت جن حقائق کو چھپانا چاہتی ہے‘ پریس کا کام ان حقائق کو سامنے لانا ہے۔ حکمرانوں اور پریس کے درمیان یہ کش مکش ختم ہوسکتی ہے بشرطیکہ حکومت بھی ’حق و صداقت‘ کی علَم بردار بن جائے۔
ہماری قومی تاریخ کا یہ عجیب پہلو ہے کہ ذرائع ابلاغ کو ہر دور میں آزادیِ اظہار دریافت یا ایجاد کرنی پڑتی ہے اور آزادیِ اظہار کا مسئلہ ہر عہد میں نئے طریقے سے سامنے آتا ہے۔ ایک ایسی قوم جسے آزاد ہوئے ۶۰ برس ہونے کو آرہے ہیں‘ اس کے حوالے سے یہ عمل حیران کن ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آزادی کے ۵۹ سال بعد بھی آزادی ہمارے دانش وروں اور صحافیوں کے لیے ’قدر‘ نہیں بن سکی۔ اس سلسلے میں امریکا کے جج لرنڈ ہینڈ (Lerned Heand) نے ایک بے مثال فقرہ کہا ہے:
’آزادی انسانوں کے دل میں ہوتی ہے اور جب یہ دل میں مر جاتی ہے تو پھر دنیا کا کوئی آئین‘ کوئی قانون اور دنیا کی کوئی عدالت اس کا تحفظ نہیں کرسکتی‘۔ (The Naked Society By Vance Packard ‘ ص ۱۴)
پاکستان کے عدالتی بحران اور پریس کی آزادی کے حوالے سے شاید ہی اس سے بہتر بات کوئی کہی جاسکے۔
آزادی کے دل میں ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ ہمارے لیے ’قدر‘ بن گئی ہے۔ بلاشبہہ قانون‘ آئین اور عدالتیں اسے تحفظ فراہم کرتی ہیں اور صحافی آئین پر عمل درآمد کے مطالبے کا ’حق‘رکھتے ہیں لیکن اگر آزادی دل میں نہ ہو تو آزادیِ اظہار کے سلسلے میں قانون اور آئین کے حوالے بیساکھیاں بن جاتے ہیں اور آزادیِ اظہار کا مطالبہ ’بھیک‘ کا تاثر پیدا کرنے لگتا ہے اور آزادی بہرحال بھیک ہے‘ نہ بھیک میں ملتی ہے۔ جس کے لیے آزادیِ اظہار سانس لینے کی طرح اہم ہوتی ہے‘ وہ اس کا استعمال کرتا ہے‘ تمام خطرے مول لیتا ہے اور اس کی قیمت ادا کرتا ہے۔ ہماری قومی و ملی تاریخ اس کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ مولانا محمد علی جوہر‘ حسرت موہانی‘ سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ مولانا ظفر علی خان___ ناموں کی یہ فہرست طویل ہے لیکن لفظ کی حرمت کی پاس داری کی اتنی شان دار تاریخ رکھنے والی قوم جبر اور آزادیِ اظہار کے درمیان معلق ہے۔ استثنائی مثالوں سے قطع نظر‘ یہ قوم آزادیِ اظہار ’مانگتی‘ ہے‘ اسے بروے کار نہیں لاتی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے لیے آزادی ’اضافی‘ ہے‘ بنیادی نہیں۔
ایک ایسا ملک جس کے بانی قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی قوم کے دشمن کے لیے بھی آزادیِ اظہار کا حق تسلیم کیا ہو‘ اس کے حوالے سے یہ صورت حال افسوسناک ہے۔ قائداعظم نے بھارتی صحافی ڈی ایف کراکا سے فرمایا: ’’ہمارا ہر نکتے پر اختلاف ہے۔ آپ نے مسلسل ہمارے خلاف جنگ کی ہے لیکن میں آپ کا احترام کرتا ہوں۔ کیونکہ آپ نے جو کچھ لکھا‘ آپ کو اس پر مکمل یقین تھا‘‘۔(صحافت پابند سلاسل ازضمیرنیازی‘ص ۵۱)
ہماری قومی صحافت اور ذرائع ابلاغ کا یہ عجیب پہلو ہے کہ جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی جرأت تو انھیں شاذ ہی ہوتی ہے‘ البتہ معاشرے میں منفی رجحانات کے فروغ کے حوالے سے انھوں نے خود بھی آزادی کا خوب استعمال کیا ہے اور حکمرانوں کی جانب سے بھی انہیں اس سلسلے میں کسی سنسر شپ اور روک ٹوک کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس سلسلے میں ممتاز صحافی صلاح الدین شہید کا یہ تبصرہ اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا ہے۔ اپنے مضمون ’آزادیِ اظہار یا آزادیِ آزار‘ میں انھوں نے لکھا:
اگر کوئی کہے کہ کراچی کے حالات بگاڑنے میں اور پورے ملک میں صوبوں‘ علاقوں اور لسانی گروہوں میں چیرنے پھاڑنے کے عمل میں سرفہرست کون ہے؟ تو میں گردن جھکا کر کہوں گا: ’قومی پریس‘ (صحافت اور تشدد‘طاہر مسعود‘ص ۶۷)
صلاح الدین شہید کا یہ تبصرہ ۱۹۹۰ء میں شائع ہوا۔ اس وقت سے آج تک حالات مسلسل خراب ہوئے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں تو یہ صورت حال رونما ہوئی کہ اخبارات کے صفحات اور ٹی وی چینلوں کے پروگراموں میں مصور پاکستان علامہ اقبال اور بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح پر رکیک حملے ہوئے۔ بعض ٹی وی چینلوں پر حدود اللہ کے خلاف کھلم کھلا مہم چلائی گئی۔ کچھ چینلوں پر ہم جنس پرستی کے لیے جواز جوئی کی جرأت بھی دیکھنے میں آئی۔ ایک ٹی وی چینل نے صنفی امتیاز کے تصور پر کلہاڑا چلاتے ہوئے بیگم نوازش علی کا کردار متعارف کرا ڈالا۔ طوائفوں کے کرداروں اور ان کی زندگی پر مبنی ڈراموں کی بھرمار اور بھارتی فلموں کی یلغار اس کے علاوہ ہے۔ قائداعظم کے نزدیک قومی صحافت یا قومی ذرائع ابلاغ کا تصور یہ تھا کہ ان کے دل ’مسلم قوم‘ کے ساتھ دھڑکتے ہوں لیکن ۲۰۰۷ء تک آتے آتے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ باالخصوص ٹی وی چینلوں کا دل کیا بل بھی پاکستانی نہیں رہا۔
ذرائع ابلاغ کے لوازمے کی دو صورتیں ہیں: ۱- خبری لوازمہ ۲- تفریحی لوازمہ
جن قوموں کے سامنے قومی ایجنڈا واضح ہوتا ہے‘ وہاں ذرائع ابلاغ بھی وسیع تر معنوں میں قومی ایجنڈے کو سامنے رکھتے ہیں۔ اس سے ان کے خبری اور تفریحی لوازمے میں ایک طرح کی معروضیت اور ذمہ داری خودبخود پیدا ہوجاتی ہے لیکن ہمارے یہاں تو حکمرانوں کے ساتھ قومی ایجنڈا بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔ چنانچہ ایک ’ٹاک شو‘ میں ملک کے کئی معروف ٹی وی میزبانوں نے تسلیم کیا کہ ان کے پروگراموں کے موضوعات بھی ’اوپر‘ طے ہوتے ہیں اور ان کے شرکا بھی۔
ٹی وی چینلوں کے پروگراموں میں سب سے زیادہ مقبولیت گفتگو کے پروگراموں کو حاصل ہوئی ہے‘ جنھیں عرف عام میں ٹاک شوز کہا جاتا ہے۔ہماری مذہبی روایت میں گفتگو کا مفہوم کیا ہے؟ یہ جاننے کے لیے تصوف کی مشہور زمانہ لغت سردلبراں کا ص ۲۹۰ دیکھنا چاہیے‘ جہاں لکھا ہے‘ گفتگو کا مطلب ہے:’ہر وہ چیز جو محبت انگیز ہو‘۔ یہ صرف ہمارا معاملہ نہیں‘ دنیا میں جس شخص کو تہذیب کا لمس میسر آیا ہے‘ اس نے گفتگو یا مکالمے کو بڑی اہمیت دی ہے۔انگریزی کے ممتاز نقاد اور شاعر رالف والڈو ایمرسن نے اپنے ایک دوست سے کہا:
I would gladly walk a hundred mile through snow storm for one good conversation.
اگر ایک اچھی گفتگو کے لیے مجھے برفانی طوفان میں 100 میل کا سفر طے کرکے جانا پڑے تو میں بخوشی جائوں گا۔(The Way Things Are by Hustonsmith ‘ ص ۱۰)
البتہ ہمارے ٹی وی چینلوں پر گفتگو کے بعض پروگراموں میں نہ قومی زندگی کے بنیادی مسائل اور موضوعات کا تعین ہوتا ہے‘ نہ ان سے ناظرین کی ذہنی سطح بلند ہوتی ہے۔ پروگراموں کے پروڈیوسروں اور میزبانوں کی کوشش بظاہر یہ لگتی ہے کہ وہ تنازع (controversy) پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں مگر انھیں معلوم نہیں کہ صحافت میں تنازع برپا کرنے کی تین بڑی صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک ’انکشاف‘ دوسری خیالات کا ٹکرائو‘ تیسری انحرافی یا ڈگر سے ہٹی ہوئی گفتگو۔ لیکن ہمارے ٹاک شوز میں ان چیزوں کا خلا الزام تراشی اور جوابی الزام تراشی سے پُر کیا جارہا ہے۔
تفریحی لوازمے کا دائرہ تہذیب و ثقافت کا دائرہ ہے اور اس شعبے میں تو ہمارے ذرائع ابلاغ نے آزادیِ اظہار کے نام پر قیامت ہی ڈھا دی ہے۔ امریکا کی ایک اشتہاری کمپنی یونی لیور کا اشتہاری سلوگن تھا: Soap is civilization ’صابن تہذیب ہے‘۔(The Visual Culture Reader edited by Nicholas Mirzoeff‘ ص ۳۰۵)
ہمارے ذرائع ابلاغ مغربی فکر کی یلغار کے زیراثر تہذیب و ثقافت کے تصور کو اس سطح پر گھسیٹ کر لارہے ہیں اور قوم کو بتا رہے ہیں کہ صابن تہذیب ہے‘ شیمپو ثقافت۔ صبح مارجرین سے طلوع ہوتی ہے اور سورج اوولٹین میں غروب ہوتا ہے۔ شرم و حیا نفسیاتی عارضے اور اعتماد کی شدید کمی کے شاخسانے ہیں اور بے باکی شخصیت کی پختگی کا اظہار۔ ان سب کا لب لباب ہے ع
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
کاش! ہمارے معاشرے نے علامہ اقبال اور مولانا مودودیؒ کے اس تجزیے پر توجہ دی ہوتی کہ تہذیبوں کی تعریف ان کے رہن سہن‘ لباس اور تراش خراش کی بنیاد پر نہیں‘ ان کے تصورِ الٰہ‘ تصورِ علم‘ تصورِ انسان‘ تصورِ روح‘ تصورِ نفس‘ تصورِ تخلیق اور کامیابی و ناکامی کے حتمی پیمانے کی بنیاد پر متعین ہوتی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہماری قوم کو ’صابن تہذیب ہے‘ کی بات علمی سطح پر معلوم نہیں مگر وہ بسر اسی تصور کو کررہی ہے۔ مغرب کا کلچر حسی اور بصری (sensual and visual) ہے اور اس کا یہی اثر ہوتا ہے۔ اس کا علم اور تفہیم ضروری نہیں۔ یہ مغربی تہذیب کے بارے میں اتنی بنیادی بات ہے کہ جسے سمجھے بغیر ہم مغرب اور اس کے مقامی آلۂ کاروں کا مقابلہ تو کیا کریں گے‘ ہم ان کے سامنے صرف کھڑے ہونے کا حق بھی ادا نہیں کرسکتے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے ذرائع ابلاغ کی ایک عجیب تصویر ہمارے سامنے آتی ہے۔ جہاں تک خبری لوازمے اور اس کے توسیعی دائرے کا تعلق ہے تو یہاں ذرائع ابلاغ خود بھی اپنے اوپر سنسر عائد کررہے ہیں اور حکومتی سنسر بھی ان کے لیے قابل قبول ہے۔ یہاں تک کہ کسی واقعے یا سانحے کے سلسلے میں آزادی کا مظاہرہ کرنا ہے تو کرلیا جائے مگر اس پر بھی ’پابند آزادی‘ کی مہر یا ’آرڈر پر تیار شدہ‘ کا بورڈ لگا ہوتا ہے۔ البتہ تفریحی لوازمے کے سلسلے میں ذرائع ابلاغ کو نہ آسمانی ہدایت کی پروا ہے‘ نہ زمینی احکامات کا خیال۔ ان کے سامنے صرف کارپوریٹ کلچر اور اس کے تقاضے ہیں اور بس۔
حالانکہ یہ ذرائع ابلاغ ایک مسلمان معاشرے کے ذرائع ابلاغ ہیں۔ ان کے کارپرداز کتنے بھی گئے گزرے کیوں نہ ہوں‘ اللہ رسول کا نام تو لیتے ہیں۔ پاکستانی ہیں‘ جس کے دستور نے زندگی گزارنے کے لیے کتاب و سنت کو معیار مقرر کیا ہے۔ انھیں اپنے شہریوں کو سنانے اوردکھانے کے لیے اقدارسے بے بہرہ نہیں ہوجانا چاہیے کہ اس طرح سب کچھ تہذیب کے دائرے سے باہر نکل جاتا ہے۔ چند لمحات کی نفسانی تسکین فراہم کرکے‘ اپنے لیے عذابِ الیم کا سودا کوئی دانش مندی کی بات نہیں۔ اگر حکومت ملک کے عوام کی خواہشات کی آئینہ دار ہے (سمندر پار کی کسی میگاپاور کے مفادات کی نگہبان نہیں) تو وہ ذرائع ابلاغ کو اسی نقطۂ نظر سے آزادی بھی دے گی اور پابند بھی کرے گی۔