عبدالستار فہیم


شاعرِ مشرق نے جب یہ فرمایا کہ   ؎

سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں

ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

تو یہ محض ایک فلسفیانہ اظہارِ خیال نہیں تھا بلکہ ایک ایسی جیتی جاگتی زندہ حقیقت کی بازگشت تھی جس کا عکس کائنات کے ذرے ذرے میں پایا جاتا ہے۔ عالمِ جمادات کا حقیر سا ذرہ ہو یا پیکرِانسانی میں دھڑکتا ہوا دل ‘ ہر ایک اسی عالم گیر حقیقت کا خاموش ترجمان ہے۔ سمندروں کی لہریں‘ ہوائوں کی سرسراہٹ‘ سورج کی روشن کرنیں‘ ستاروں کا سفر‘ پارے کا اضطراب‘ موسموں کی تبدیلیاں‘ دلوں کی اُمنگ اور خیالات کی ترنگ اسی قانونِ تغیرو انقلاب کی تفاسیر ہیں۔ فطرت کا یہ قانون ان تمام قوانینِ قدرت سے ہم آہنگ ہے جن کے زیرِاثر یہ نظامِ ارض و سما قائم و دائم ہے۔ اس کائنات میں ہونے والی ہر جنبش و حرکت اور لحظہ لحظہ بدلتی ہوئی حالت‘ ایک طرف قانونِ انقلاب کی غمّاز ہے تو دوسری طرف زندگی کی علامت بھی  ع

جس میں نہ ہو انقلاب‘ موت ہے وہ زندگی

تغیرو تبدیلی زندگی کی محض علامت ہی نہیں بلکہ ضرورت بھی ہے۔ زندگی کی ضامن‘   قوت و استعداد کا استحکام و ارتقا مثبت تبدیلیوں کا محتاج ہوا کرتا ہے۔ لمحہ لمحہ گزرتے وقت کا سفر   نئے نئے عالمِ امکانات کی منزلیں ایجاد کرتا ہے‘ جہاں انقلابِ حال تقاضاے حیات اور طرزِکہن پر ثبات‘ موت کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ لیکن جہاں یہ بات درست ہے کہ ہر تبدیلی زندگی کی علامت ہے‘ وہیں یہ بھی اَمرِمسلّمہ ہے کہ ہر تبدیلی زندگی کی ضمانت نہیں۔ مثبت تغیرات ہی مثبت نتائج پیدا کرسکتے ہیں۔ حرکت اور پیش قدمی جب مخالف سمت میں ہونے لگے تو منزلِ مقصود قریب نہیں  دُور سے دُورتر ہوجاتی ہے۔ جس طرح موسم کی ہر تبدیلی بہار کا مژدہ نہیں سناتی‘ ٹھیک اسی طرح عالمِ انسانیت کا ہر انقلاب حیات بخش نہیں ہوتا۔ دنیاے آب و گل میں فطرت جس حکیمانہ نظامِ تغیر کے ساتھ کاربند ہے‘ ٹھیک ایسے ہی وہ ذاتِ حی و قیوم‘ عالمِ انسانیت میں مخصوص نظامِ انقلاب کے ذریعے حیات بخشی کاسامان کیے ہوئے ہے۔ یہ تمام نظام ہاے قدرت چونکہ ایک ہی کاری گر کی صنّاعی ہیں‘ اپنے جلو میں بڑی شانِ وحدت رکھتے ہیں۔ اس دنیا میں جب تالاب اور ندیاں خشک ہوجاتے ہیں‘ زمین سوکھ کر مُردہ ہوجاتی ہے‘ چمن ویران ہونے لگتے ہیں‘ کھیت و باغات کی  سرسبزی و شادابی کوڑے کرکٹ کی سیاہی میں تبدیل ہوجاتی ہے اور مخلوقاتِ ارض دانے دانے کو ترسنے لگتے ہیں تو ربوبیت ِ خداوندی جوش میں آجاتی ہے۔ ٹھنڈی ہوائوں کے جھونکے پیامِ انقلاب لاتے ہیں‘ اَبر کے سائبان جھوم جھوم کر برسنے لگتے ہیں‘ کنویں‘ تالاب اور ندیاں سیراب ہوجاتے ہیں‘ کسانوں کی محنت برگ و بار لانے لگتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے کھیتیاں لہلہا اُٹھتی ہیں‘ چمن رونق افروز ہوجاتے ہیں۔

ٹھیک اسی طرح جب عالمِ انسانیت میں اخلاق و کردار کے چشمہ ٔصافی سوکھنے لگتے ہیں‘ روحانیت دم توڑنے لگتی ہے‘ چمنستانِ قلوب میں ویرانی چھا جاتی ہے‘ گلستانِ خیروخوبی کی رعنائیاں شروفساد کی ظلمتوں میں بدل جاتی ہیں اور انسانیت سسکنے لگتی ہے___ تو رحمت ِ خداوندی جوش میں آجاتی ہے۔ گردشِ لیل و نہار نیکی و تقویٰ کی بہار کا مژدہ سناتی ہے اور عالمِ روحانیت میں ایک    ہمہ گیر انقلاب برپا ہونے لگتا ہے۔ ہمہ گیر ایسا کہ اس کی آمد کا اعلان کسی خطّۂ زمین پر نہیں بلکہ    اُفقِ عالم پر ہلالِ رمضان المبارک کی نمود سے ہوتا ہے۔ وسعتِ تغیرات کی یہ شان کہ ابتدا ہی جنت کے تمام دروازوں کے کھلنے اور دوزخ کے سارے دروازے بند کیے جانے سے ہوتی ہے۔ وقت‘ مقدار‘ کمیت اور کیفیت کے سارے پیمانے بدل دیے جاتے ہیں۔ اجروثواب کی مقدار بڑھا کر معمول سے ۷۰گنا بلکہ لامحدود کردی جاتی ہے۔ اس ماہِ مبارک کی ایک رات ہزار راتوں سے زیادہ افضل قرار پاتی ہے۔ عرشِ بریں کے حامل فرشتوں کو حکمِ خداوندی ملتا ہے کہ اپنی عبادت بند کردو اور اہلِ زمین کی دعائوں پر آمین کہو۔ آسمانوں کا یہ سارا انقلاب اس لیے برپاہوا کہ زمین پرآباد مرکزِعالم اور مسجودِ ملائک انسان کی دنیا کو ایک اندرونی انقلاب سے دوچار کرنا مقصود ہے۔ اس طرح عالمِ انسانیت میں ایک ایسا انقلاب رونما ہونے لگتا ہے جس کی وسعت بے پناہ اور جس کا نفوذ   بے انتہا۔ یہ ظاہروباطن سب پر محیط‘ یہاں فکرونظر‘ جذبات و احساسات اور عمل و جستجو‘ سب کچھ تبدیلیوں سے ہم کنار۔

ماہِ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی انسان کے معمولات میں بڑی نمایاں تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔ کھانے‘ پینے اور آرام کے اوقات یکسر بدل جاتے ہیں۔ رات کے آخری پہر‘ جب کہ وہ عموماً محوِخواب ہوا کرتا تھا اپنے نفس کو روندتے ہوئے بیدار ہوکر سحری کھاتا ہے‘ کیونکہ یہی     حکمِ خداوندی ہے۔ سپیدۂ سحر کے پھوٹنے سے لے کر غروبِ آفتاب تک عام حالت میں جو افعال انسان بلاجھجک انجام دیا کرتا تھا‘ حالتِ روزہ میں اپنے اُوپر مطلقاً حرام کرلیتا ہے‘ کیونکہ یہی مالک کی مرضی ہے۔ پہلے وہ بھوک و پیاس کی معمولی کیفیت سے مغلوب ہوکرلذتِ کام و دہن کی حددرجہ آسودگی کیا کرتا تھا‘ اب بھوک و پیاس کی انتہائی شدت میں بھی غذا کا ایک دانہ یا پانی کا ایک قطرہ بھی اس کے حلق سے نیچے نہیں جاسکتا۔ پھر جب دن بھر کی محنت و مشقت سے نڈھال وہ    آغوشِ شب میں راحت ِ جسم و جاں کے مزے لوٹا کرتا تھا‘ اب اپنے رب کے حضور قیام و سجود میں مصروف ہوجاتا ہے‘ کیونکہ وقتِ حاضر بندگیِ رب کا یہی تقاضا ٹھیرا۔ ان تمام وارداتِ نو سے گزرتے ہوئے وہ بھوک‘ پیاس اور تھکن کے نامانوس احساسات سے آشنا ہوتا ہے تو قلب میں مدتوں سے خوابیدہ انسانیت انگڑائی لے کر بیدار ہوتی ہے اور محروم و محتاج انسانوں کے تئیں  جذباتِ رحم و شفقت کا اظہار ہونے لگتا ہے۔ فراخی ٔدل‘ بند مٹھیوں کو کھول دیتی ہے اور جذبۂ انفاق حب ِ مال و دولت پر غالب آجاتا ہے۔ اس طرح انسانی معاشرے میں خودغرضی اور باہمی کشاکش کی جگہ ایثار و اخوت کے دل نشیں مناظر نمودارہوتے ہیں۔ عام حالت میں جس انسان کی زبان پر لغو‘ طنزوطعن طاری رہا کرتا تھا‘ اب اس پر ہزار پہرے بٹھا دیتا ہے کہ زبان سے اب کوئی بات نکلے تو اچھی ہی نکلے۔

حسنِ عمل اور نیکیوں کے یہ مظاہر چند افرادیا مخصوص علاقے تک ہی محدود نہیں رہتے بلکہ کرئہ ارض پر موجود تمام ملّتِ اسلامیہ کی مشترکہ خاصیت بن جاتے ہیں۔ اعمال و مقاصد کی یہ غیرمعمولی ہم آہنگی‘ بہارِ نیکیوں کا ایسا موسم بن جاتی ہے جو ذرا سی کوشش و جستجو سے عظیم الشان ثمرات پیدا کرتا ہے۔ گویا راہِ عمل کا ہر مسافر سوے حرم گام زن ہے اور یہ کاروانِ خلیل ؑراہ کی صعوبتوں سے بے نیاز جانب ِ منزل رواں دواں ہے۔ کسبِ خیر کا اجتماعی ماحول نیکیوں کی افزایش کے لیے سازگار ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے امکانات اور مواقع دوچند کردیتا ہے۔ فطرت اپنی عطا و کرم میں فیاضی کی انتہا پر ہوتی ہے۔ رحمت اور بخشش کا فیضان عام ہوتا ہے کہ جس میں جتنا ظرف ہے سمیٹ لے اور اگر سیرابی نہ ہو تو علاجِ تنگی داماں بھی مانگ لے۔

ماحول میں یہ غیرمعمولی تبدیلیاں وقوع پذیر ہونے سے پہلے لازم ہے کہ فکروعمل کا انقلاب برپا ہو‘ بلکہ ماحول اور وقت کے تغیرات کا مقصود بھی تزکیۂ قلب اور تحسینِ عمل ہوتا ہے۔ کیسا عظیم الشان مظہر ہے یہ تصرفاتِ الٰہیہ میں حکمت ِ بالغہ اور قدرتِ کاملہ کا!! ہر انقلاب ایک دوسرے کی علّت بھی ہے اور معلول بھی۔ احوال و ظروف کی تبدیلی کے لیے انسانی رویوں کا تغیر ضروری ہوا اور حالات سے تحریک ہوئی فکروعمل کی تبدیلی کی۔ رمضان المبارک کی یہ پُرنور فضا اور ساعاتِ جلیلہ نمودار ہوئی تو اسی لیے کہ انسانی فکروعمل کا محور فطرت سے ہم آہنگ ہوجائے۔ وہ انسان جس کے قلب و ذہن کا رابطہ اپنے مالک و خالق سے منقطع ہونے کو تھا پھر سے مربوط و مستحکم ہوجائے۔  چلتی پھرتی لاشوں میں برقِ زندگانی پھر سے دوڑنے لگے۔ بھولے بھٹکے کارواں کو احساسِ زیاں تڑپانے لگے اور سوزِ دروں کے شعلوں سے شب ِ حیات روشن ہوجائے۔ مدہوش و غافل انساںکو متاعِ فکروشعور مل جائے۔ جو سوئے ہوئے ہیں بیدار ہوں‘ اور جو بیدار ہیں اُٹھ کر مصروفِ عمل ہوجائیں۔ نہاں خانۂ دل کی تاریکیاں نورُ السموات والارض کے اُجالوں سے منور ہوجائیں۔ حیوانِ ناطق اور بندئہ ہوس انسان کو شرفِ مسجودِ ملائک اور خلافتِ ارضی کا بھولا ہواسبق پھر سے یاد آجائے۔

ماہِ رمضان المبارک کی ہر گھڑی یہی پیغام سناتی ہے۔ حالت ِ روزہ میں گزرنے والا   ایک ایک لمحہ انسان کے دل کو یادِ الٰہی سے معمور کرتا ہے۔ احساسِ ذمہ داری کا کیسا عظیم انقلاب ہے   یہ کہ دنیا کی کسی طاقت کاجبر نہیں‘ ہر دیکھنے والی آنکھ سے مستور اور ہر سننے والے کان سے مہجور لیکن حکمِ خداوندی سے سرموانحراف نہیں۔ اپنے ہی نفس پر اپنے ہی ہاتھوں یہ جبر‘ ضبط و تنفیذ کا یہ کمال‘ کیا کبھی قلب و ذہن پر ربُ السموات والارض کی حکمرانی کے بغیر ممکن بھی تھا!! وہ عقلِ شاطر رکھنے والا انسان جس کو دنیا کی کوئی قانونی طاقت زیر نہ کرسکی‘ ایک جذبۂ ایمان کا ایسا اسیر ہوا کہ  تسلیم ورضا کی زنجیروں سے اپنے آپ بندھ گیا۔ کوئی اندازہ کرسکتا ہے کہ آزادروی کے متوالے انسان میں یہ قوتِ انقیاد و انضباط کیوں کر پیدا ہوئی؟ یہ اس لیے ممکن ہوا کہ آسمان سے ہاتفِ غیبی کی یہ صدا اس کے کانوں سے ٹکرائی اور دل میں اُتر کر رہ گئی… وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ ج وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ o (قٓ ۵۰:۱۶) ’’اورہم اس کے دل میں اُبھرنے والے وسوسوں تک کو جانتے ہیں‘ ہم اس سے اس کی رگِ گردن سے بھی زیادہ قریب ہیں‘‘۔

فکروعمل کی یہ ظاہری تبدیلی دراصل مرہونِ منّت ہے اس قلبی انقلاب کی جو اس آیت ِکریمہ کی روح سے زندگی پاتا ہے___ وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌo (الحدید ۵۷:۴) ’’وہ تمھارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو‘ جو کام بھی تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے‘‘۔ درحقیقت یہی قلب و نظر کا انقلاب غرض و غایت ہے رمضان المبارک کی آمد اور اس میں واقع ہونے والی تمام انسانی اور کائناتی تبدیلیوں کا!! ذرا سنیے اس فرمانِ شہنشاہی کو ___ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo (البقرہ ۲:۱۸۳) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ تم پر روزے فرض کردیے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو‘‘۔

ماہِ رمضان کی تمام ریاضتوں کا مقصود یہی ہے کہ انسانی قلب و ذہن میں ترک و اختیار کی وہ قوت و استعداد پیدا ہوجائے جواس کی زندگی کو بندگیِ رب کی راہِ فوز و فلاح پر گامزن کردے۔ یہ دراصل انقلاب ہے ضمیروقلب کی بیداری کا۔ معرکۂ حیات میں یہ فتح ہے مادیت پر روحانیت کی۔

تاریخِ انسانیت اور رمضان المبارک کی انقلابی کارفرمائیوں میں بڑی گہری نسبت موجود ہے۔ وقت کا سب سے عظیم انقلاب جس نے بنی نوع انسان کی کایاپلٹ کر رکھ دی___ یعنی   نزولِ قرآن کا واقعہ اسی ماہِ رمضان کی ایک مقدس رات میں ہواتھا۔ ایک طرف یہ واقعہ انسانیت پر رحمت ِ الٰہی کی تکمیل تھی تو دوسری طرف قوموں کے عروج و زوال سے وابستہ اَٹوٹ ضابطے کا رہتی دنیا تک اعلان بھی۔ ’’اللہ اس کتاب کے ذریعے کچھ گروہوں کو بلند و سرفراز کرے گا اور کچھ دوسرے گروہوں کو پستی میں جھونک دے گا‘‘(صحیح مسلم)۔ ۱۵ صدی قبل اسی ماہِ رمضان میں عرب کے صحرانشیں اس ضابطۂ ربانی کو لے کر اُٹھے تو صوتِ ہادی بجلی کی کڑک بن گئی جس نے سرزمینِ عرب کو ہلاکر رکھ دیا۔

پھر بدر کے میدان میں ۱۷ رمضان ۲ہجری کو یوم الفرقان کا سورج طلوع ہوا جس نے ظلمتِ باطل پر نورِ حق کی پہلی فتح کا اعلان کیا‘ اور ۱۰ رمضان ۸ہجری کو مکّہ مکرمہ میں وَقُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱)کی فیصلہ کُن صداے حق سے حرمِ کعبہ کی فضا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے معمور ہوگئی۔ اُس روز سے لے کر آج تک صدیاں گزر گئیں لیکن وقت کا ہرہرلمحہ گواہی دیتا رہا کہ زمانہ چاہے کتنا ہی بدل جائے‘ اس ضابطے کی صداقت بدل نہیں سکتی۔ افراد واقوام کی سربلندی وسرفرازی اسی ربانی ضابطۂ حیات سے وابستگی کا نتیجہ رہی اور ہرپستیِ و ذلّت بھی اسی قانونِ سماوی سے سرکشی کے سبب ہوئی۔ اس بے لاگ حقیقت کا اعلان وقت کا مؤرخ حادثاتِ زمانہ کی زبانی ہمیشہ کرتا رہا لیکن مشیت ِ حق نے ضروری سمجھا کہ اس کی یاددہانی کے لیے ہرسال ماہِ رمضان ہی کو پیامِ ہدایت دے کر بھیجا جائے۔ اس طرح اُفقِ انسانیت پر ہرسالِ نو ہلالِ رمضان کی نمود اس اعلان کے ساتھ ہوتی ہے کہ شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُراٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِج (البقرۃ ۲:۱۸۵) ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں‘‘۔

یہ ربُ السموات والارض کا بے انتہا کرم و احسان ہے کہ وہ ہرسال ماہِ رمضان کے حوالے سے انسانیت پر اتمامِ نعمت‘ یعنی نزولِ قرآن سے شعوروآگاہی کا موقع بہم پہنچاتا ہے۔   ماہِ رمضان دراصل علامتی یادگار ہے انقلابِ نزولِ قرآن کی۔ یہ صرف یادگار ہی نہیں بلکہ     تحدیدِ انقلاب کا پیام بھی‘ اور ساتھ ہی اس مہینے کو ان تمام صفات و خصوصیات سے نوازا گیا جو بناے انقلاب کے لیے معاون و سازگار ہوتی ہیں۔ اس ماہِ مبارک کو اعمالِ خیروصلاح کی فصل و بہار والی تاثیر عطا کی گئی۔ یہاں منزلِ مقصود کی نشان دہی بھی ہے‘ اور راہِ ہدایت سے آگاہی بھی‘ راہ روی کی تربیت بھی ہے اور رہبری کا ساماں بھی‘ زادِ راہ کی بخشایش بھی ہے اور سفر کی سہولتیں بھی‘ اور      ہر پیش قدمی پر انعام بھی ___ یہ سب کچھ منتظر ہیں انسان کے عزم و ارادے اور حرکت و سعی کے لیے۔ یہاں رحمتوں کی بارش ہے‘ مغفرت کی عطا و بخشش ہے اور نارِ جہنم سے نجات بھی۔ تلاشِ منزل میں سرگرداں انسان بزمِ رمضان میں جنت الفردوس کی رفعتوں سے آشنا ہوجاتا ہے۔ اس منزل کے حصول کے لیے اسے صراطِ مستقیم‘ یعنی دین اسلام کی رہنمائی میسر ہوتی ہے۔ روزے کی سواری اور تقویٰ و احساسِ ذمہ داری کا زادِ راہ دیا جاتا ہے۔ اجتماعی ماحول کے ذریعے راہ کی مشکلات کو آسان کردیا جاتا ہے اور اس راہ پر چلنے کے لیے بے حساب اجروثواب کی اُمید بھی موجود ہے۔

یہ سارا اہتمام‘ یہ غیرمعمولی مواقع صرف اس لیے ہیں کہ انسان کا مقدر سنور جائے‘ اسے فلاح و کامیابی نصیب ہوجائے‘ اور وہ ابدی زندگی سے ہم کنار ہوجائے۔ اب عقل و فہم رکھنے والا ہرانسان غور کرے کہ ان مواقع سے غفلت کتنے عظیم خسارے کا سبب بنے گی۔ اُس شخص کی بدبختی اور محرومی کا کیا ٹھکانا‘ جس کے لیے آسمان سے رحمتوں کی بارشیں ہورہی ہوں اور وہ ایک سنگلاخ تودے کی طرح نہ خود سیراب ہوتا ہے اورنہ دوسروں کی سیرابی کا سبب بنتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اُس بے حسّی پر موت بھی ماتم کرے گی ‘ جب کہ دستِ رحمت علاجِ مرض بانٹ رہا ہواور مریضِ روحانیت محوِ لہوولعب ہو۔ فطرت تو ہرلمحے مائل بہ کرم ہوتی ہے لیکن اس کا یہ اصول نہیں کہ دیدہ و دانستہ خودکشی کی راہ پر چلنے والے انسان کو جبروقوت سے شاہراہِ حیات پر لے آئے۔ ماہِ رمضان کی عظمت و برکت ہر اعتبار سے بے مثل‘ لیکن یہ برکتیں اسی انسان کے دامن کو زینت بخشتی ہیں جو ان کے حصول کے لیے ارادہ و عزم اور کوشش و جستجو کرے‘ اور ان برکات کی مقدار و کیفیت بھی انسانی کوشش و جستجو کے تناسب میں ہوگی۔ ہر انسان اپنی استعدادِ اَخذ و اختیار کے مطابق ہی تقویٰ اور نیکی کے ثمرات پائے گا۔ اسی بات کا اظہار آیت ِ قرآنی اِن الفاظ میں کرتی ہے کہ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ’’توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو‘‘۔