اللہ تعالیٰ نے کتب آسمانی اور ان میں موجود اپنے احکامات نوع انسانی کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے نازل کیے ہیں۔ ان کا مقصدِ نزول ان پر عمل کرنا ہے۔ ان پر عمل سے نہ صرف آخرت بلکہ دنیا بھی سنور سکتی ہے۔ اس طرح امن و امان اور ہر طرف خوش حالی کا دور دورہ ہوتا ہے۔ آسمان سے رحمتوں کی بارش ہوتی ہے اور زمین سونا اُگلتی ہے۔ انھی انعامات اور رحمتوں کا ذکر کرتے ہوئے قرآن حکیم کہتا ہے: ’’کاش! (اہلِ کتاب) نے تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں۔ ایسا کرتے تو ان کے لیے اُوپر سے رزق برستا اور نیچے سے اُبلتا۔ اگرچہ ان میں سے کچھ لوگ راست رو بھی ہیں لیکن ان کی اکثریت سخت بدعمل ہے‘‘ (المائدہ ۵:۶۶)۔ پھر قدرت کا یہ اصول بھی یاد رکھا جائے کہ جو قومیں احکامِ الٰہی سے گریز کرتی ہیں‘ اِن کو پس پشت ڈالتی ہیں‘ یا حیلوں بہانوں سے ان سے بچنے کی کوشش کرتی ہیں اور ان پر عمل کرنے سے گھبراتی ہیں‘ یا پھر کمزوری اور مرعوبیت کا شکار ہوتی ہیں‘ تووہ دراصل عذابِ الٰہی اور آفاتِ آسمانی کو دعوت دیتی ہیں اور بحروبر کو شروفساد سے بھر دیتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ہر دور اور ہر زمانے میں اس کی ضرورتوں اور تقاضوں کے مطابق احکام اور آسمانی کتابیں نازل کیں۔ تورات‘ زبور اور انجیل میں اپنے اپنے زمانے کے لوگوں کی ضرورت کے مطابق احکام دیے گئے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم نازل کیا۔ یہ دائمی اور ابدی کتاب ہے اور اپنے احکامات کا نفاذ چاہتی ہے۔
سابقہ کتب آسمانی میں تورات ایک بنیادی اور پرانی کتاب ہے اسی لیے بنی اسرائیل کے انبیا اور ان پر ایمان لانے والوں کو اس پر سختی سے عمل کرنے کو کہا گیا۔ اس کتاب کی حفاظت ان کے ذمے سونپی گئی۔ انھیں حکم دیا گیا کہ اس کے نفاذ میں کسی قسم کی کوتاہی کے مرتکب نہ ہونا اور اس بارے میں ہرگز احساس کمتری کا شکار نہ ہونا۔ارشاد ربانی ہے:
ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی۔ سارے نبی جو مسلم تھے۔ اسی کے مطابق ان یہودیوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے‘ اور اسی طرح ربانی اور احبار بھی (اسی پر فیصلے کا مدار رکھتے تھے)‘ کیونکہ انھیں کتاب اللہ کی حفاظت کا ذمہ دار بنایاگیا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے۔ پس (اے گروہِ یہود) تم لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو اور میری آیات کو ذرا ذرا سے معاوضے لے کر بیچنا چھوڑ دو۔ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔ (المائدہ ۵:۴۴)
ہم نے موسٰی ؑکو ہر شعبۂ زندگی کے متعلق نصیحت اور واضح ہدایت تختیوں پر لکھ کر دے دی۔ اور اس سے کہا ان ہدایات کو مضبوط ہاتھوں سے سنبھال اور اپنی قوم کو حکم دے کہ ان کے بہتر مفہوم کی پیروی کریں۔ (الاعراف ۷:۱۴۵)
یاد کرو وہ وقت‘ جب ہم نے طور کو تم پر اٹھا کر تم سے پختہ عہد لیا تھا اور کہا تھا کہ جو کتاب ہم تمھیں دے رہے ہیں اسے مضبوطی کے ساتھ تھامنا اور جو احکام و ہدایات اس میں درج ہیں انھیں یاد رکھنا۔ اسی ذریعے سے توقع کی جاسکتی ہے کہ تم تقویٰ کی روش پر چل سکو گے۔ (البقرہ ۲:۶۳-۶۴)
تورات صرف اخلاقی اور معاشرتی احکام کا ضابطہ ہی نہیں تھی بلکہ اس میں فوج داری جرائم کی سزائیں بھی بیان کی گئیں‘ اور جو لوگ معاشرے کا امن و امان برباد کریں‘ ان کے لیے سخت سزائیں مقرر کی گئی تھیں۔ ارشاد ہوا:
تورات میں ہم نے یہودیوں پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان‘ آنکھ کے بدلے آنکھ‘ ناک کے بدلے ناک‘ کان کے بدلے کان‘ دانت کے بدلے دانت اور تمام زخموں کے لیے برابر کا بدلہ۔ پھر جو قصاص کا صدقہ کردے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔ (المائدہ ۵:۴۵)
موجودہ محرف تورات میں بھی یہ حکم ان الفاظ میں پایا جاتا ہے:
اگر وہ اس صدمے سے ہلاک ہوجائے تو تو.ُ جان کے بدلے میں جان لے اور آنکھ کے بدلے میں آنکھ‘ دانت کے بدلے دانت اور ہاتھ کے بدلے ہاتھ‘ پائوں کے بدلے پائوں‘ جلانے کے بدلے جلانا‘ زخم کے بدلے زخم اور چوٹ کے بدلے چوٹ۔ (خروج ۲۱:۲۳-۲۵)
آسمانی کتاب زبور حضرت دائود علیہ السلام پر اُتری۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے دائود کو زبور دی (النساء ۴:۱۶۲)۔ زبور خدا کی حمدوثنا‘ انسان کی عبدیت‘ پندونصائح اور بصائر و حکم کے مضامین کا مجموعہ تھی۔ مولانا مودودی فرماتے ہیں کہ ’’موجودہ بائبل میں زبور کے نام سے جو کتاب پائی جاتی ہے وہ ساری کی ساری زبورِ داؤد نہیں۔ اس میں بکثرت مزامیر دوسرے لوگوں کے بھی بھر دیے گئے ہیں اور وہ اپنے اپنے مصنفین کی طرف منسوب ہیں۔ البتہ جن مزامیر پر تصریح ہے کہ وہ حضرت دائود ؑکے ہیں ان کے اندر فی الواقع کلامِ حق کی روشنی محسوس ہوتی ہے‘‘ (تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ص ۴۲۴)۔ اس طرح یہ کتاب بھی حکمت کے موتیوں سے بھری ہوئی تھی اور اپنے وقت کے لوگوں کے لیے روشنی کا مینار تھی۔
تورات اور زبور کے بعد بنی اسرائیل کے آخری نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل نازل ہوئی۔ اس کی رو سے تورات کے تمام احکام سچے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انجیل میں رہنمائی‘ ہدایت‘ نصیحت اور روشنی کے احکام دیے۔ اللہ کے نیک بندوں کے لیے یہ نیا اور تازہ نور کا سرچشمہ تھا جس سے یہ لوگ سیراب اور فیض یاب ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انجیل کے نازل کرنے کا مقصد بھی اس کے احکامات کا نفاذ اور تعمیل ہی بتایا۔ اہلِ انجیل کو حکم دیا گیا کہ جو قوانین اس میں موجود ہیں‘ ان کے مطابق فیصلہ کرو۔ اگر ایسا نہ کروگے توفاسق اورنافرماں بن جائو گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
پھر ہم نے ان پیغمبروں کے بعد مریمؑ کے بیٹے عیسٰی ؑکو بھیجا۔ تورات میں جو کچھ ان کے سامنے موجود تھا وہ اس کی تصدیق کرنے والا تھا۔ اور ہم نے اس کو انجیل عطا کی جس میں رہنمائی اور روشنی تھی اور وہ بھی تورات میں سے جو کچھ اس وقت موجود تھا اس کی تصدیق کرنے والی تھی اور خدا ترس لوگوں کے لیے سراسر ہدایت اور نصیحت تھی۔ ہمارا حکم تھا کہ اہلِ انجیل اس قانون کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے اس میں نازل کیا ہے اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں۔ (المائدہ ۵: ۴۶-۴۷)
آخر وہ زمانہ آیا جس کے لیے قرآن حکیم کی ضرورت تھی۔ یہ اللہ کی وہ آخری کتاب ہے جو تمام سابقہ کتب آسمانی کی تصدیق کرنے والی اور ان کی محافظ و نگہبان ہے۔ اس میں نہ صرف سابقہ آسمانی کتب کے حقائق اور اصل عبادات کو جمع کردیا گیا ہے بلکہ قیامت تک کے لیے انسانی ضرورت اور فطرت کے وہ تمام اصول و احکام یک جا کردیے گئے ہیں جواصلاح انسانی اور تہذیب و تمدن کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی برحق تعلیمات کو قرآن حکیم میں جمع اور محفوظ کردیا‘ اور یوں نوعِ انسانی کی بھلائی کے لیے الہامی تعلیمات ضائع ہونے سے بچ گئیں۔ اب ربِ کائنات اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس کے ان محفوظ‘ روشن‘ نادر اور فلاح انسانی کے لیے بہتر اور کارآمد اصولوں اور احکامات پر عمل کیا جائے۔ اس بھولے ہوئے سبق کو آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے یوں یاد دلایا گیا:
پھر اے نبی، ہم نے تمھاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اس کی تصدیق کرنے والی اوراس کی محافظ و نگہبان ہے۔ لہٰذا تم خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق لوگوں کے معاملات کافیصلہ کرو اور جو حق تمھارے پاس آیا ہے اس سے منہ موڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ ہم نے تم (انسانوں) میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہِ عمل مقرر کی۔ اگرچہ تمھارا خدا چاہتا تو تم سب کو ایک اُمت بھی بنا سکتا تھا‘ لیکن اس نے یہ اس لیے کیا کہ جو کچھ اس نے تم لوگوں کو دیا ہے اس میں تمھاری آزمایش کرے۔ لہٰذا بھلائیوں میں ایک دوسرے
سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ آخرکار تم سب کو خدا کی طرف پلٹ کر جانا ہے‘ پھر وہ تمھیں اصل حقیقت بتا دے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہے ہو___ پس اے نبی‘ تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ ہوشیار رہو یہ لوگ تم کو فتنے میں ڈال کر اس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں جو خدا نے تمھاری طرف نازل کی ہے۔ پھر اگر یہ اس سے منہ موڑیں تو جان لو کہ اللہ نے ان کو مبتلاے مصیبت کرنے کا ارادہ ہی کرلیا ہے ‘اور یہ حقیقت ہے کہ ان لوگوں میںسے اکثر فاسق ہیں۔ (اگر یہ خدا کے قانون سے منہ موڑتے ہیں) تو کیا پھر جاہلیت کافیصلہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہوسکتا ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بنائو‘ یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انھی میں ہے‘ یقینا اللہ ظالموں کو اپنی صفائی سے محروم کردیتا ہے۔ (المائدہ ۵:۴۸-۵۱)
مولانا مودودی خدا کے قوانین کو چھوڑ کر انسانوں کے بنائے قوانین کو اختیار کرنے کو ایک بہت بڑا مجرمانہ فعل گردانتے ہیں۔ سورئہ مائدہ کی مذکورہ بالا آیات میں اس کی شدید مذمت کی گئی ہے اور ان سے انحراف اور اعراض اللہ سے بغاوت‘ معاشرے پر ظلم اور انسانوں کے لیے سراسر خسارے کاسودا ہے۔
مولانا لکھتے ہیں: ’’یہاں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے حق میں جو خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں‘ تین حکم ثابت کیے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ کافر ہیں‘ دوسرے یہ کہ وہ ظالم ہیں‘ تیسرے یہ کہ وہ فاسق ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو انسان خدا کے حکم اور اس کے نازل کردہ قانون کو چھوڑ کر اپنے یا دوسرے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین پر فیصلہ کرتا ہے‘ وہ دراصل تین بڑے جرائم کا ارتکاب کرتا ہے۔ اوّلاً: اس کا یہ فعل حکم خداوندی کے انکار کے ہم معنی ہے اور یہ کفر ہے۔ ثانیاً: اس کا یہ فعل عدل و انصاف کے خلاف ہے‘ کیونکہ ٹھیک ٹھیک عدل کے مطابق جو حکم ہوسکتا تھا وہ تو خدا نے دے دیا تھا‘ اس لیے جب خدا کے حکم سے ہٹ کر اس نے فیصلہ کیا تو ظلم کیا۔ ثالثاً: یہ کہ بندہ ہونے کے باوجود جب اس نے اپنے مالک کے قانون سے منحرف ہوکر اپنا یا کسی دوسرے کاقانون نافذ کیا تو درحقیقت بندگی و طاعت کے دائرے سے باہر قدم نکالا اور یہی فسق ہے۔ یہ کفر اور ظلم اور فسق اپنی نوعیت کے اعتبار سے لازماً انحراف از حکمِ خداوندی کی عین حقیقت میںداخل ہیں۔ ممکن نہیں ہے کہ جہاں وہ انحراف موجود ہو وہاں یہ تینوں چیزیں موجود نہ ہوں۔ البتہ جس طرح انحراف کے درجات و مراتب میں فرق ہے اسی طرح ان تینوں چیزوں کے مراتب میں بھی فرق ہے۔ جو شخص حکمِ الٰہی کے خلاف اس بنا پر فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اللہ کے حکم کو غلط اور اپنے یا کسی دوسرے انسان کے حکم کو صحیح سمجھتا ہے وہ مکمل کافر اور ظالم اور فاسق ہے‘ اور جو اعتقاداً حکم الٰہی کو برحق سمجھتا ہے مگر عملاً اس کے خلاف فیصلہ کرتا ہے وہ اگرچہ خارج از ملت تو نہیں ہے مگر اپنے ایمان کو کفر‘ ظلم اور فسق سے مخلوط کر رہا ہے۔ اسی طرح جس نے تمام معاملات میں حکمِ الٰہی سے انحراف اختیار کرلیا ہے وہ تمام معاملات میں کافر‘ ظالم اور فاسق ہے‘ اور جو بعض معاملات میں مطیع اور بعض میں منحرف ہے اس کی زندگی میں ایمان و اسلام اور کفر و ظلم کی آمیزش ٹھیک ٹھیک اسی تناسب کے ساتھ ہے‘ جس تناسب کے ساتھ اس نے اطاعت و انحراف کو ملا رکھا ہے۔
بعض اہلِ تفسیر نے ان آیات کو اہلِ کتاب کے ساتھ مخصوص قرار دینے کی کوشش کی ہے مگر کلامِ الٰہی کے الفاظ میں اس تاویل کے لیے کوئی گنجایش موجود نہیں۔ اس تاویل کا بہترین جواب وہ ہے جو حضرت حذیفہؓ نے دیا ہے۔ ان سے کسی نے کہا کہ یہ تینوں آیتیں تو بنی اسرائیل کے حق میں ہیں۔ کہنے والے کا مطلب یہ تھا کہ یہودیوں میں سے جس نے خدا کے نازل کردہ حکم کے خلاف فیصلہ کیا وہی کافر‘ وہی ظالم اور وہی فاسق ہے۔ اس پر حضرت حذیفہؓ نے فرمایا: کتنے اچھے بھائی ہیں تمھارے لیے یہ بنی اسرائیل کہ کڑوا کڑوا سب ان کے لیے اور میٹھا میٹھا سب تمھارے لیے۔ ہرگز نہیں‘ خدا کی قسم تم انھی کے طریقے پر قدم بقدم چلو گے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ ص۴۷۵- ۴۷۶)
قرآنی احکام کے نفاذ کی اہمیت بتاتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی تدبر قرآن میں لکھتے ہیں: ’’ان آیات میں اللہ کے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرنے کا یہ مضمون تین مرتبہ بیان ہوا۔ یہ اگرچہ ہے تو یہود و نصاریٰ سے متعلق لیکن اگر یہ جرم مسلمانوں کے کسی گروہ سے صادر ہو کہ وہ اختیار و آزادی رکھتے ہوئے کتابِ الٰہی کے مطابق معاملات کا فیصلہ نہ کریں بلکہ علی الاعلان اس سے انحراف اختیار کریں‘ جس کی شہادت ہر مسلمان ملک میں موجود ہے تو ان کا حکم بھی یہی ہوگا کیونکہ خدا کا قانون سب کے لیے ایک ہی ہے۔ کتابِ الٰہی کا مقصد یہی ہے کہ وہ زندگی کے معاملات و نزاعات میں امروحکم اور فیصلہ و قضا کا ذریعہ بنے اور تمام اجتماعی و سیاسی اور قانونی معاملات اس کی روشنی میں انجام پائیں۔ اگر کتابِ الٰہی کی یہ حیثیت تسلیم نہ کی جائے تو یہ اس کے ساتھ مذاق ہے‘‘۔
مفتی محمد شفیع اس حوالے سے لکھتے ہیں: ’’ان آیات میں یہود کو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قانون کے خلاف اپنا قانون جاری کرنے پر سخت تنبیہہ فرمائی اور ایسا کرنے والوں کو کافر اور ظالم قرار دیا۔ اس کے بعد تیسری آیت میں اہلِ انجیل و نصاریٰ کو اسی مضمون کا خطاب فرما کر اللہ کے نازل کیے ہوئے قانون کے خلاف کوئی قانون جاری کرنے پر سخت تنبیہہ فرمائی‘ اور ایسا کرنے والوں کو سرکش و نافرمان قرار دیا۔ اس کے بعد جن آیات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب بنا کر مسلمانوں کو اس مضمون کے متعلق ہدایات دی گئیں کہ وہ اہلِ کتاب کی اس بیماری میں مبتلا نہ ہوجائیں کہ جاہ و مال کے لالچ میں اللہ تعالیٰ کے احکام بدلنے لگیں یا اس کے قانون کے خلاف کوئی قانون اپنی طرف سے جاری کرنے لگیں‘‘۔ (معارف القرآن‘ ج ۳‘ ص ۱۵۴)
سورئہ مائدہ کی ان آیات میں اسلامی قوانین کی فوقیت‘ محاسن‘ اہمیت‘ اکملیت‘ ہمہ گیریت‘ یکسانیت اور اس کے مفید نتائج اور اثرات کو سید قطب شہید نے نہایت ہی علمی اور مدلل انداز میں بیان کیا ہے۔ اس کے ساتھ دنیاوی اور مغربی قوانین کے نقصانات‘ معائب‘ خامیوں اور خرابیوں کا بھی جائزہ لیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی تفسیر فی ظلال القرآن اور دیگر کتب الاسلام و مشکلات الحضارۃ، خصائص التصویر الاسلامی، ھذا الدین اور المستقبل ھذا الدین قابلِ ذکر ہیں۔سیدصاحب کے درج ذیل دلائل قابلِ غور ہیں:
۱- قرآن حکیم یہ واضح کرتا ہے کہ تمام انبیا کے ضابطۂ حیات‘ مذاہب اور ادیان اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جو قوانین نازل کیے تھے ان کے مطابق فیصلہ کرنا اور پوری زندگی پر اس شریعت کی پابندی‘ ان کا نفاذ اور قیام لازمی اور ضروری تھا۔ قرآن حکیم نے اس حکم کو ایمان و کفر‘ اسلام و جاہلیت‘ شریعت اور ہواے نفس کے مابین فیصلہ کن قرار دیاہے۔
۲- اسلامی قانون سازی کی بنیادی اور کلیدی اہمیت یہ بھی ہے کہ یہ نوع انسانی پر اللہ تعالیٰ کی الوہیت‘ ربوبیت‘ مالکیت اور حاکمیت کے اقرار یا انکار کا معاملہ ہے۔
۳- اللہ تعالیٰ اس کائنات کا خالق اور مالک ہے‘ اسی لیے اس نے فرمایا: آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اس کی فرماں روائی اللہ ہی کے لیے ہے (المائدہ ۵:۱۷)۔ پس دراصل اللہ کی اکیلی اور واحد ذات ہی صاحبِ اقتدار‘ فرماں روا اور ذی اقتدار ہے۔ اللہ سبحانہ کے اقرار اور اعتراف کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کی شریعت کے آگے سرتسلیم خم کیا جائے‘ نیز شریعت الٰہی سے انکار یا زندگی کے کسی ایک حصے میں بھی کوئی اور شریعت اور قانون کا نفاذ دراصل اللہ کی الوہیت‘ ربوبیت‘ مالکیت اور اس کے اقتدارِ اعلیٰ کا انکار ہے۔ یہ انکار یا اقرار چاہے زبان سے ہو یا صرف عمل سے‘ دونوں طریقے سے برابر ہے۔ اسی لیے سورئہ مائدہ میں یہ سخت الفاظ استعمال کیے گئے ہیں: ’’جو لوگ اُس (قانون) کے مطابق جو اللہ نے نازل فرمایا ہے‘ فیصلہ نہ کریں۔ وہ نرے کافر ہیں… سرتاسرظالم… اور پکے فاسق (باغی و نافرمان) ہیں‘‘۔
۴- اللہ تعالیٰ کی شریعت انسانی قوانین سے برتر اور افضل ہے۔ قرآن حکیم فرماتا ہے:
وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْماً لِّقَومٍ یُّوْقِنُوْنَ (المائدہ ۵:۵۰) اور اللہ سے بہتر حکم دینے والا اور کون ہوسکتا ہے ان لوگوں کے لیے جو (اس پر) یقین رکھتے ہیں۔
ہر زمانے اور حالات میں اللہ کا قانون اور شریعت ہی بہتر‘ برتر اور اعلیٰ ہے۔ یہی ایمان کا تقاضا ہے۔ جو شخص اس بات کا انکار کرتا ہے وہ گویا اس بات کا دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ اللہ سے زیادہ لوگوں کی ضروریات کا علم رکھتاہے‘ یا وہ دراصل اس بات کا مدعی ہے کہ انسانی تمدن میں ایسے حالات و واقعات رونما ہوگئے ہیں کہ نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ ان سے واقف نہ تھا‘ یا اسے ان حالات کا علم تو تھا مگر ان کے لیے اس نے قوانین وضع نہیں کیے۔ یہ سب باتیں ایمان و اسلام کے منافی ہیں۔
۵- اللہ تعالیٰ کا قانون‘ ضابطہ اور نظام ہر لحاظ سے مکمل‘ کامل اور مطلق عدل پر مبنی ہے۔ اس لیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو اس امر کا پوراپورا علم ہے کہ کامل عدل کس حکم میں ہے۔ وہ سب کا رب ہے اور سب کے ساتھ یکساں عدل کرتا ہے۔ قرآن حکیم کی اس آیت پر غور کیجیے۔ اس میں عدل کا ایسا بے لاگ اور صحیح حکم پایا جاتا ہے‘ جو صرف اور صرف اللہ کی کتاب ہی میں پایا جاتا ہے‘ اور یہ الہامی ہی ہوسکتا ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔(النساء ۴: ۱۳۵)
۶- کامل اور پورا عدل انسان کے وضع کردہ کسی نظام میں نہیں پایا جاتا اور نہ پایا ہی جاسکتا ہے‘ کیونکہ اس میں انسانی خواہشات‘ میلانات‘ رجحانات‘ حرص و ہوس‘ افراط و تفریط‘ ذاتی مفادات‘ جہالت‘ کم علمی اور تنگ نظری جیسی انسانی کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔
۷- یہ خدائی اور الہامی قانون ایسا عظیم اور کامل ضابطہ ہے جو پوری کائنات کے قوانین کے ساتھ ہم آہنگ ہے‘ کیونکہ اس نظام کا واضع وہی ہے جو اس کائنات کا صانع و مالک ہے۔ پھر انسان کا صانع بھی وہی ہے۔ جب وہ انسان کے لیے قانون وضع کرے گا تو اس کی حیثیت کائناتی جوہر و عنصر کی ہوگی۔ اسی طرح انسان کے اعمال و حرکات اور کائنات کی حرکات و سکنات میں ہم آہنگی ہوجائے گی۔ یوں شریعت الٰہی کائناتی رنگ اختیار کرے گی۔ درحقیقت انسان کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ ایک صحیح محکم نظام کے تحت اس کائنات کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کرے۔
۸- یہ صرف تنہا اور اکیلا اللہ تعالیٰ ہی کا نظامِ شریعت ہے جو انسان کو انسان کی غلامی سے نجات دلاتا ہے۔ اسلامی نظام کے علاوہ ہر نظام میں انسان انسان کی بندگی کرتا ہے اور انسان انسان کابندہ اور غلام بنتا ہے۔ صرف الٰہی نظام میں بنی نوع انسان بندوں کی غلامی سے آزاد ہوکر خداے وحدہٗ لاشریک کی بندگی اختیار کرتا ہے۔
الوہیت کی سب سے اہم خصوصیت حاکمیت (sovereignty) ہے‘ جو شخص کسی انسانی گروہ کے لیے قانون سازی کرتا ہے وہ ان کے درمیان خدائی کے مقام پر فائز ہوجاتا ہے اور خدائی خصوصیات سے متصف ہونے کا دعویٰ کرتاہے۔ وہ گروہِ خدا کا نہیں بلکہ اس کا بندہ ہوتا ہے اور خدا کے دین کانہیں اُس انسان کے دین کا پیرو ہوتا ہے۔
۹- جاہلیت کسی دور‘ تاریخ یا زمانے کا نام نہیں‘ بلکہ یہ اس حالت نظام اور قانون کا نام ہے جس میں جاہلیت کی خصوصیات پائی جائیں‘ چاہے یہ ماضی میں ہو یا حال میں یا مستقبل میں۔ جاہلیت کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ احکام اور قانون سازی میں خدائی نظام اور زندگی کے لیے خدائی شریعت کی طرف رجوع کرنے کے بجاے انسانی خواہشات و میلانات کی طرف رجوع کیا جائے۔ یہ خواہشات کسی فرد کی ہوں‘ کسی طبقے کی ہوں‘ کسی قوم کی ہوں یا ایک دور کے سب انسانوں کی‘ سب کی حیثیت یکساں ہے۔ جب تک کہ خدائی احکام اور شریعت کی طرف رجوع نہ کیا جائے تو اس کے سوا باقی سب ہوا و ہوس‘ خواہشات و میلانات اور جاہلیت و بے علمی ہے۔
۱۰- افراد‘ گروہوں‘ جماعتوں‘ قوموں اور سب ادوار کے انسانوں کا خالق سب کے لیے قانون وضع کرتا ہے۔ یہ اللہ کی شریعت ہے۔ اس میں کسی شخص کو نقصان پہنچا کر کسی فرد‘ جماعت‘ حکومت یا کسی دور کے انسانوں کے لیے کوئی رعایت نہیں۔ اللہ سب انسانوں کا رب ہے۔ اس کی نظر میں سب برابر ہیں۔ اُسے سب کی حقیقت اور سب کے مفادات و مصالح کا پورا علم ہے۔ اس لیے وہ سب کے مفادات کا صحیح صحیح خیال رکھے گا۔
اللہ انسانوں کے لیے قانون وضع کرتا ہے تو اس طرح سب انسان حریت و آزادی اور مساوی حیثیت کے مالک ہوجاتے ہیں۔ وہ اللہ کے سوا کسی کے آگے سر نہیں جھکاتے اور اللہ کے سوا کسی کی بندگی و عبادت نہیں کرتے۔
پس سورئہ مائدہ کی ان آیات میں اس اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ یہ عقیدے کا سب سے اہم نازک‘ عظیم اور بنیادی مسئلہ ہے۔ یہ انسانی حریت و مساوات کا مسئلہ ہے۔ یہ انسان کی آزادی اور اس کے پیدایشی حق کا مسئلہ ہے اور بالآخر کفر و ایمان اور اسلام اور جاہلیت کا مسئلہ ہے۔ قرآن حکیم نے ایک اور مقام پر اس مسئلے کی عظمت و اہمیت ان الفاظ میں اجاگر کی ہے:
اور حق اگر ان کی خواہشات کے پیچھے چلتا تو زمین اور آسمان اور ان کی ساری آبادی کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ (المومنون ۲۳:۷۱)
اللہ کے نازل کردہ احکام کو چھوڑ کر دوسرے قوانین سے فیصلہ کرنے کا نتیجہ شروفساد‘ جہالت و گمراہی اور بالآخر ایمان کے دائرے سے خارج ہونا ہے۔ یہی قرآنی آیات کا صریح مفہوم ہے۔