ڈاکٹر بی آرامیسکر


۱۹۳۵ء میں مہاراشٹر (بھارت) کے ضلع ناسک میں خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر بی آر امبیدکر    نے اعلان کیا تھا کہ: ’’میں ہندو گھر میں پیدا ہوا ہوں، مگر ہندو کی حیثیت سے مرنا نہیں چاہتا‘‘۔    پھر ۳۱مئی ۱۹۳۶ء کو ممبئی میں مہار کانفرنس کا انعقاد کیا، جہاں انھوں نے اپنی ہم نسل دلت [شودر] برادری کے ہزاروں شرکا سے خطاب کرتے ہوئے، ہندو مذہب سے عملاً بغاوت کا اعلان کیا۔ یہاں اس تقریر Why Go for Conversion? کا اُردو ترجمہ پیش ہے۔ اس خطبے میں ڈاکٹر امبیدکر نے شرفِ انسانی کے خلاف ہندو قوم پرستانہ رویوں کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے۔ گذشتہ دنوں صوبہ سندھ اسمبلی نے یہ قانون بنایا ہے کہ : ’’۱۸سال سے کم عمر ہندو مذہب تبدیل نہیں کرسکیں گے‘‘۔ مراد یہ ہے کہ صوبہ سندھ میں اگر کوئی ہندو اپنا مذہب چھوڑنا چاہے تو، اس کے بچے یا پھر کوئی جواں عمر مذکورہ سن و سال تک پہنچنے سے پہلے مذہب تبدیل نہ کرسکے گا۔ اس متنازعہ اور بے جواز فیصلے کے پس منظر میں یہ مضمون پڑھنا مفید ہوگا۔ (س    م    خ)

 تبدیلیِ مذہب کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے اور نہ یہ تفریح طبع کا موضوع ہے۔ میرے نزدیک تبدیلیِ مذہب کا مقصد یہ ہے کہ انسان کی زندگی کیسے کامیاب بنائی جائے؟ جس طرح بحری سفر شروع کرنے سے پہلے ایک ملاح اپنی کشتی اور ساری تیاریاں کرتا ہے، اسی طرح ہمیں [یعنی چھوٹی ذات کے ہندوئوں کو] بھی تبدیلیِ مذہب  کے لیے تیاری کرنی ہوگی۔ اس لیے جب تک مجھے یہ معلوم نہ ہوجائے کہ کتنے لوگ ہندوازم کے دائرے کو ترک کرنے کے لیے تیار ہیں، مَیں تبدیلیِ مذہب کے لیے کوئی بڑی تحریک شروع نہیں کرسکتا۔

عام آدمی کے لیے تبدیلیِ مذہب کا عنوان بڑا اہم ہے، لیکن اسے سمجھنا مشکل ہے۔

طبقاتی کش مکش

دراصل تبدیلیِ مذہب کے دو پہلو ہیں: سماجی و مذہبی اور مادّی و روحانی۔ اب مسئلے کا جو   پہلو بھی ہو، یا سوچ بچار کا جو کچھ بھی طریقہ ہو، ’چھوت چھات‘ (untouchability) کی   شروعات اور اس سے پیداشدہ صورتِ حال اور اس پر عمل درآمد کے طریقوں کا سمجھنا ضروری ہے۔ اس تفہیم (understanding) کے بغیر آپ مذہبی تبدیلی کے میرے اعلان کے حقیقی معانی کو  نہیں سمجھ سکتے۔ ’چھوت چھات‘ کا صحیح فہم اور حقیقی زندگی میں اس کے عملی اظہار کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کرنے کے لیے مَیں آپ کو اُن مظالم کی داستانوں کی یاد دلائوں گا، جو آپ پر ہوتے رہے ہیں، لیکن آپ میں سے کم ہی نے یہ محسوس کیا ہوگا کہ یہ سب کیوں ہوتا چلا آیا ہے؟ اس ظلم کا سرچشمہ (root) کیا ہے؟ بہرحال، میرے نزدیک یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اسے سمجھیں۔

’چھوت چھات‘ کا یہ جھگڑا کوئی دو افراد کے درمیان پیداشدہ تنازع نہیں ہے، بلکہ یہ مسئلہ طبقاتی کش مکش کا معاملہ ہے۔ یہ اعلیٰ ذات والے ہندوئوں اور اچھوتوں کے درمیان ایک کش مکش ہے۔ یہ کسی ایک آدمی سے بے انصافی کا بھی سوال نہیں ہے، بلکہ یہ ایک طبقے کا دوسرے طبقے کے ساتھ صریحاً غیرمنصفانہ رویّہ اپنانے کا مسئلہ ہے۔ یہ طبقاتی کش مکش سماجی مقام سے تعلق رکھتی ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ایک طبقہ دوسرے طبقے سے کس طرح کے تعلقات بنائے رکھتا ہے، اور یہ کش مکش اُسی لمحے شروع ہوجاتی ہے، جب آپ دوسروں کی طرح اپنے لیے برابری کے سلوک کا مطالبہ کرتے ہیں۔

  •  غلاموں کے لیے تبدیلی نہیں: اُونچی ذات والوں کے غصے کا سبب بہت سادہ سی بات ہے۔ آپ کی جانب سے مساویانہ برتائو کا مطالبہ انھیں بے عزتی (insult) کا احساس دلاتا ہے۔ چھوت چھات کم عرصے کی یا عارضی زمانے کی بات نہیں ہے، یہ ہمارے معاشرے کی مستقل بیماری ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ اس صورتِ حال کی اصلاح کے لیے ہندوئوں اور اچھوتوں میں مستقل کش مکش رہے گی۔

یہ کش مکش ازلی ہے۔ اس لیے وہ مذہب، جس نے تمھیں معاشرے کے سب سے نچلے طبقے میں رکھا ہے، وہ اُونچی ذات کے ہندوئوں کے نزدیک اَزلی اور ابدی (eternal) ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق وقت اور حالات کے لحاظ سے ذات پات کے اس نظام میں کوئی تبدیلی ممکن ہی نہیں ہے۔ آج تم سیڑھی (ladder) کے سب سے نچلے پاے دان پر کھڑے ہو، تم ہمیشہ اسی پاے دان پر کھڑے رہو گے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہندوئوں اور اچھوتوں کی کش مکش ہمیشہ جاری رہے گی۔ سوال یہ ہے کہ تم اس کش مکش سے کس طرح زندہ بچ کر نکل سکو گے؟

اگر تم اس سوال پر غور نہ کروگے تو اس سے نجات مشکل ہے۔ وہ لوگ جو ہندوؤں کے بے دام غلام بن کر رہنا چاہتے ہیں، خود اُن کے احکام کے پابند رہنا چاہتے ہیں،اُنھیں تو اس مسئلے پر غور کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ لیکن آپ میں سے جو عزت کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں، جو  عزتِ نفس (self respect) رکھتے ہیں اور مساوات (equality) کے طالب ہیں، اُنھیں اس بات پر ضرور سوچنا ہوگا کہ ہم اس کش مکش سے کیسے نکلیں؟ میرے لیے اس سوال کا جواب دینا کچھ مشکل نہیں ہے۔ سب لوگ اس بات پر متفق ہوں گے کہ فاتح وہ ہوتا ہے جس کے پاس قوت ہوتی ہے، جس کے پاس طاقت نہیں اُسے کامیابی کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے۔ یہ بات تجربے سے ثابت ہوچکی ہے۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے مجھے مثال دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

قوت حاصل کرو

آپ کو جس سوال پر غور کرنا چاہیے، وہ یہ ہے کہ کیا اس کش مکش سے کامیاب نکلنے اور زندگی پانے کے لیے آپ کے پاس کافی قوت ہے؟ آدمی کے پاس تین قسم کی طاقتیں ہوتی ہیں: ۱- افرادی قوت (manpower)، ۲- مالی قوت (finance)، ۳- ذہنی قوت (mental strength)۔

ذرا سوچیے! ان میں سے کون سی قوت آپ کے پاس موجود ہے؟ جہاں تک افرادی قوت کا سوال ہے، یہ بات واضح رہے کہ تم اقلیت میں ہو۔ ممبئی ریذیڈنسی میں تم پوری آبادی کا آٹھواں حصہ ہو اور وہ بھی غیرمنظم۔ پھر خود تمھارے اپنے درمیان بھی ذاتیں ہیں، جو تمھیں منظم نہیں ہونے دیتیں۔ آپ مجتمع بھی نہیں ہوتے اور گائوں میں منتشر ہیں۔ ان حالات میں یہ چھوٹی سی آبادی اچھوتوں کی طرف سے لڑنے کے لیے کسی کام کی نہیں۔ مالی قوت کا بھی یہی حال ہے۔ یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ آپ کے پاس افرادی طاقت تو کچھ ہے بھی، لیکن مالی قوت تو بالکل ہی نہیں ہے۔ آپ کے پاس نہ تجارت ہے، نہ کاروبار اور نہ نوکری اور نہ زمین ہے۔ اُونچی ذات والوں کے پھینکے ہوئے روٹی کے ٹکڑے آپ کی روزی ہیں۔ آپ کے پاس کھانا تک نہیں، نہ کپڑے ہیں۔ آپ کیا مالی قوت رکھ سکتے ہیں؟ عدالتوں سے انصاف تک نہیں مانگ سکتے۔ ہندوئوں کے ہاتھوں ہزاروں اچھوت، ظلم اور بے عزتی برداشت کرتے ہیں، مگر حرفِ شکایت زبان پر نہیں لاسکتے، کیوں کہ اُن کے پاس عدالتی اخراجات کے لیے پیسہ نہیں ہوتا۔

اب رہی ذہنی قوت، تو اس کا معاملہ اور بھی زیادہ خراب ہے۔ ظلم و زیادتی اور بے عزتی سہتے سہتے آپ لوگوں میں سے عزتِ نفس اور بغاوت کا احساس ہی مٹ گیا ہے۔ اعتماد کوپروان چڑھانے، قوت کے حصول اور اُبھرنے کی خواہش ہی مرچکی ہے۔ آپ سب بے یارومددگار کمزور اور خزاں رسیدہ ہوکر رہ گئے ہیں۔ اب آپ کے چاروں طرف صرف شکست خوردگی، پسپائی اور مایوسی کا ماحول ہے۔ آپ کے ذہنوں میں اس خیال کی ذرّہ برابر رمق بھی نہیں کہ آپ کچھ کرسکتے ہیں۔

مسلمانوں کی مثال

جو کچھ میں نے کہا، اگر یہ درست ہے تو آپ کو اس نتیجے سے بھی متفق ہونا پڑے گا، جو ان حالات سے خود بخود پیدا ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ اپنی ہی قوت پر اعتماد کریں تو آپ ہندو اکثریت کی زیادتیوں کا کبھی مقابلہ نہیں کرسکتے۔ مجھے اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ آپ مظلوم اس لیے ہیں کہ آپ میں قوت کی کمی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ تنہا آپ اقلیت میں ہیں۔ اس معاشرے میں مسلمان بھی اقلیت ہیں۔ مہرمنگوں کی طرح ہر گائوں میں اُن کے بھی دوچار گھر ہوتے ہیں، لیکن انھیں کوئی نہیں ستاتا، جب کہ آپ ہمیشہ ظلم کا شکار رہتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟… یہ ایک بڑا اہم سوال ہے اور آپ کو اس کا مناسب جواب ڈھونڈنا ہے۔

میری راے میں اس سوال کا ایک ہی جواب ہے اور وہ یہ ہے کہ ہندو محسوس کرتے ہیں کہ ہندستان کے سارے مسلمانوں کی قوت ان چند گھروں کے پیچھے ہے جو کسی گائوں میں رہتے ہیں، اس لیے وہ انھیں چھو نہیں سکتے۔ وہ دو چار گھر ہی آزاد اور بے خوف زندگی گزارتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر اُن پر ظلم ہوا تو پنجاب سے مدراس تک ساری مسلمان برادری اُن کے تحفظ کے لیے اُٹھ کھڑی ہوگی۔ اِس کے برخلاف ہندوئوں کو یقین ہے کہ آپ کی مدد کے لیے کوئی نہیں آئے گا۔ آپ کی کوئی مدد نہیں کرے گا۔ آپ کی کوئی مالی امداد نہ ہوگی۔ تحصیل دار اور پولیس اُونچی ذات کے ہندو ہوتے ہیں اور آپ میں اور اُونچی ذات والوں میں جھگڑا ہو تو وہ اپنے فرض سے وفاداری کے بجاے اپنی قوم کے لوگوں سے زیادہ وفاداری دکھاتے ہیں۔ آپ بے سہارا ہیں۔ اس لیے اُونچی ذات والے ہندو آپ پر ظلم کرتے ہیں۔

اس بحث سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں: l پہلی یہ کہ آپ قوت کے بغیر ظلم کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ l   دوسری یہ کہ آپ میں ظلم سے ٹکرانے کی قوت نہیں ہے۔

ان دو نتائج سے لازمی طور پر ایک اور بات سامنے آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ: lظلم سے ٹکرانے کی یہ قوت باہر سے حاصل کرنی ہوگی۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ قوت آپ کہاںسے حاصل کریں گے؟ تعصب سے بالا رہ کر آپ اس سوال پر غور کریں۔ اس سے آپ کو ایک چیز کا احساس ہوگا کہ جب تک آپ کسی دوسرے معاشرے سے قریبی تعلقات استوار نہ کریں گے، جب تک آپ کسی دوسرے مذہب میں شامل نہ ہوجائیں گے، اس وقت تک آپ باہر سے قوت حاصل نہیں کرسکتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو اپنے موجودہ مذہب کو چھوڑنا ہوگا اور کسی دوسرے معاشرے میں داخل ہونا پڑے گا۔ اس کے بغیر آپ اُس معاشرے سے قوت حاصل نہیں کرسکتے اور جب تک آپ میں یہ قوت نہ ہو، آپ اور آپ کی آیندہ نسلیں اس حالت ِ زار میں زندگی گزارنے پر مجبور رہیں گی۔

تبدیلی مذہب کا رُوحانی پہلو

اب تک، ہم نے تبدیلیِ مذہب کے مادی فوائد پر غور کیا ہے۔ اب میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری روحانی صحت کے لیے بھی تبدیلیِ مذہب کیوں ضروری اور خوش بختی ہے؟ مذہب کیا ہے اور وہ کیوں ضروری ہے؟

’’جو لوگوںپر حکم چلائے وہ مذہب ہے‘‘.... یہ مذہب کی سچی تعریف ہے۔ ہندو معاشرے میں ایک فرد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہندو مذہب، طبقاتی تقسیم کے تصور پر مبنی ہے۔ ہندو مذہب یہ تعلیم نہیں دیتا کہ ایک فرد دوسرے فرد سے کس طرح کا تعلق واسطہ رکھے، بلکہ اُس کا سارا نظام طبقاتی تصورات پر قائم ہے اور ایسا مذہب جو فرد کو انفرادیت نہ دے سکے، وہ میرے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔

فرد کی ترقی کے لیے تین عوامل اہم تر ہیں اور وہ ہیں: ہمدردی، مساوات اور آزادی۔

کیا آپ تجربے کی بنیاد پر بتا سکتے ہیں کہ اِن تینوں عوامل میں سے آپ کو ہندومت میں کیا کیا حاصل ہے؟

  •  ہندو مت میں کوئی مساوات نہیں: عدم مساوات کی یہاں سے زیادہ زندہ مثال دنیا کے کسی دوسرے معاشرے میں کہیں بھی نہیں مل سکتی۔انسانیت کی تاریخ میں ایسی عدم مساوات کبھی اور کہیں نہیں رہی ہے جو چھوت چھات سے زیادہ شدید تر ہو۔ میرا خیال ہے کہ آپ اس حال میں اس لیے پہنچے ہیں کہ آپ ہندومت میں برابر شامل رہے۔ آپ میں سے جو لوگ بھی مسلمان ہوگئے ہیں، اُن سے ہندو بھی اچھوتوں جیسا غیرمساویانہ سلوک نہیں کرتے۔ یہی بات اُن لوگوں کے بارے میں بھی صحیح ہے جو عیسائی ہوگئے ہیں۔

یہ ایک تسلیم شدہ بات ہے کہ خدا کا وجود ہمہ گیر ہے، مگر شاید یہ مذہب کا اصول نہیں، کیونکہ مذہب بہرحال انسانی حوالے سے براہِ راست تعلق رکھتا ہے۔ ہندوئوں کا شمار اُن ظالم لوگوں میں  کیا جاسکتا ہے جن کے قول و عمل میں قطبین کی دُوری ہے، جن کی زبان پر رام رام ہے اور بغل میں چھری ہے۔ وہ بنتے تو مقدس ولی ہیں مگر ان کا عمل قصابوں جیسا ہے۔

گویا ہم صرف ہندوئوں کی نظر ہی میں ذلیل نہیں بلکہ ہم سارے ملک میں سب سے زیادہ نیچ ہیں۔ اگر آپ اس شرم ناک حالت سے نکلنا چاہتے ہیں، یا اس گندگی (filth)سے پاک ہونا چاہتے ہیں اور زندگی کو نفاست سے گزارنا چاہتے ہیں تواس کا صرف ایک طریقہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ آپ ہندو مذہب اور معاشرے کے اس بندھن کو توڑ ڈالیں جس میں صدیوں سے بندھے ہوئے ہیں۔ آپ کسی چیز کا مزا تو بدل سکتے ہیں مگر زہر، امرت نہیں بن سکتا۔ ہندو مذہب میں قائم شد ہ ذات پات کے نظام کو مٹانے کی بات ایسی ہی ہے جیسے زہر کو امرت بنانے کی بات ہو۔

مختصراً بات یہ ہے کہ جب تک ہم ایک ایسے مذہب سے بندھے رہیں گے جو ایک انسان کو دوسرے سے اس طرح کے ربط کی تعلیم دیتا ہے جیسے جذام زدہ (Leper) سے، تو اس وقت تک اُونچ نیچ اور ذات پات کا تصور جو ہمارے ذہنوں میں رچا بسا ہے مٹ نہیں سکتا۔ ذات پات مٹانے اور چھوت چھات ختم کرنے کے لیے صرف مذہب کی تبدیلی کا تریاق (antidot) ہی کام آئے گا۔

  •  آپ ہندو نہیں ہیں: اچھا، تبدیلیِ مذہب میں کون سی ایسی بات ہے جو عجیب ہو؟     سچ پوچھیں تو آج بھی اُونچی ذات کے ہندوئوں سے آپ کے کیا سماجی تعلقات ہیں؟ آپ ہندوئوں سے اتنے ہی الگ تھلگ ہیں جیسے مسلمان یا عیسائی ہیں۔ ایسا ہی اُن سے آپ کا رشتہ بھی ہے۔ آپ کا معاشرہ اور ہندو معاشرہ دو الگ الگ گروہ ہیں۔ آپ کی تبدیلیِ مذہب سے یہ کوئی نہیں  کہہ سکتا کہ معاشرے میں انتشار پیدا ہوجائے گا۔ آپ ہندوئوں سے تب بھی اتنے ہی علیحدہ رہیں گے، جتنے آج ہیں۔ اس لیے اُن تعلقات کے حوالے سے تبدیلیِ مذہب اور نئے مذہب میں جانے سے لوگ ڈرتے کیوں ہیں؟ کم سے کم میری سمجھ میں تو اس خوف کا کوئی سبب نہیں آتا۔

اصلاح نہیں صرف انقلاب!

تبدیلیِ مذہب بظاہر ایسا ہی ہے جیسے کوئی نام بدل دے۔ تبدیلیِ مذہب کے ساتھ نام کی تبدیلی تو آپ کے لیے اور بھی زیادہ مفید ہوگی۔ اپنے کو مسلمان، عیسائی، بدھ، یا سکھ کہنا صرف  تبدیلیِ مذہب نہیں ہے بلکہ اس سے نام بھی بدلتا ہے۔ تبدیلیِ مذہب کی اس تحریک پر مختلف لوگوں نے اعتراض کیے ہیں۔ آیئے، اِن اعتراضات کی حقیقت پر غور کریں:

یہ بات تو کوئی پیدایشی احمق ہی کہہ سکتا ہے کہ ہمیں اپنے مذہب [ہندومت] سے اس لیے چمٹے رہنا چاہیے کہ یہ ہمارے بزرگوںکا مذہب ہے۔ اس تجویز کو کوئی عقل مند تسلیم نہ کرے گا۔ ایسے لوگ جو یہ نکتہ اُٹھاتے ہیں وہ شاید تاریخ پر نظر نہیں رکھتے۔

قدیم آریائی مذہب ’ویدک دھرم‘ کہلاتا تھا اور اُس کی تین خصوصیات تھیں: l گائے کا گوشت کھانا lشراب پینا اور l ناچنا گانا۔ اس دھرم پر ہزاروں لوگ عمل کرتے تھے بلکہ بعض لوگ تو آج بھی اس مذہب میں لوٹ جانے کا خواب دیکھتے ہیں۔ اگر پرانے مذہب ہی سے چمٹے رہنا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھارت کے لوگوں نے پہلے ہندومت کو چھوڑ کر بدھ مت کیوں قبول کیا تھا؟… سچ یہ ہے کہ ہندومت ہمارے آباواجداد کا مذہب نہیں ہے ۔ یہ تو ایک طرح کی غلامی ہے جو اُن پر تھوپ دی گئی تھی۔

ہندو معاشرے کا سُدھار (reform) نہ ہمارا مقصد ہے اور نہ ہمارا دائرۂ عمل۔ ہمارا مقصد تو حصولِ آزادی ہے، ہمیں اور کچھ نہیں چاہیے۔ اگر تبدیلیِ مذہب سے ہمیں آزادی مل سکتی ہے تو پھر ہم ہندو معاشرے کے سُدھارنے کا کام اپنے ذمے کیوں لیں؟ ہم اپنی قوت اور استعداد اس کام میں کیوں لگائیں؟ کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ ہماری تحریک کا مقصد ہندو معاشرے کی اصلاح ہے۔ نہیں، ہرگز نہیں، بلکہ ہماری تحریک کا مقصد اچھوتوں کے لیے سماجی آزادی کا حصول ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ یہ مطلوبہ آزادی تبدیلیِ مذہب کے بغیر کسی طور پر ممکن نہیں ہے۔

  •  یوں ذات پات ختم نہ ہوگی: مجھے تسلیم ہے کہ اچھوتوں کو بھی مساوات کی ضرورت ہے اور یہ مساوات حاصل کرنا بھی ہمارا مقصود ہے۔ لیکن یہ کہنا صحیح نہیں  ہے کہ: ’’یہ مساوات ہندو رہتے ہوئے ہی حاصل ہوسکتی ہے، ہندوازم سے باہر رہ کر نہیں‘‘۔ دراصل مساوات حاصل کرنے کے دو طریقے ہیں:
  •  ایک: ہندو مذہب کے دائرے میں رہتے ہوئے۔
  • دوسرے: مذہب کی تبدیلی کے ذریعے اور ہندو مذہب کے حصار سے باہر نکل کر۔

اگر ہندومت کے حصار میں رہتے ہوئے مساوات حاصل کرنی ہو تو محض اچھوت ہونے یا نہ ہونے کا احساس قطعاً فائدہ مند نہ ہوگا۔ مساوات تو تبھی حاصل ہوسکتی ہے جب ساتھ مل جل کر کھانا پینا اور شادیاں ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چترورن [برہمن، کھشتری، ویش، شودر] ختم کر دیا جائے اور برہمنی مذہب کا خاتمہ ہوجائے۔ کیا یہ ممکن ہے؟ اگر نہیں تو کیا یہ عقل مندی ہوگی کہ ہم ہندومت میں رہتے ہوئے مساوات کی توقع کریں؟ کیا اس حصار میں رہتے ہوئے آپ مساوات کے حصول کی کوششوں میں کامیاب ہوسکتے ہیں؟ بے شک نہیں! اس لیے تبدیلیِ مذہب کا راستہ ہی سب سے زیادہ مؤثر اور مفید ہے۔ ہندو معاشرہ بھی مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ مساوات کا سلوک کرتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ سماجی مساوات تبدیلیِ مذہب کے ذریعے زیادہ بہتر طریقے پر حاصل ہوسکتی ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر ہم تبدیلیِ مذہب کے سادہ اور فطری طریقے کو کیوں نہ اپنائیں؟

  •  مذہب کی تبدیلی سب سے آسان راستہ: میری راے میں، اس تبدیلیِ مذہب سے اُچھوتوں اور ہندوئوں دونوں کو خوشی ملے گی۔ جب تک آپ ہندو رہیں گے ، سماجی تعلقات کی استواری اور کھانے پینے اور اُونچی ذات کے درمیان شادیوں کے لیے لڑتے رہیں گے، اور جب تک یہ کش مکش جاری رہے گی آپ کے اور اُونچی ذات کے ہندوئوں کے درمیان دشمنی جاری رہے گی۔ تبدیلیِ مذہب سے ان تمام جھگڑوں کی بنیاد ختم ہوجائے گی… اس طرح تبدیلیِ مذہب سے اگر مساوات اور برابری مل سکے اور ہندوئوں اور اُچھوتوں کے درمیان قربت لائی جاسکے تو مساوات حاصل کرنے کے اس سادہ اور آسان طریقے کو برسرِکار کیوں نہ لائیں۔ اس زاویۂ نظر سے دیکھیں تو محسوس ہوگا کہ یہ تبدیلیِ مذہب ہی حصولِ آزادی کا واحد درست راستہ ہے، جس سے سچ مچ کی برابری مل سکے گی۔ یہ نہ بُزدلی ہے نہ [حقائقِ زندگی] سے فرار۔
  •  دیگر مذاہب میں ذات برادری کا فرق: مسلمانوں اور عیسائیوں میں بھی ذاتیں ہیں، لیکن یہ خیال کرنا کہ ان میں اور ہندوئوں کے ذات پات نظام میں یکسانیت ہے، سراسر کم فہمی پر مبنی خیال ہوگا۔ ہندوئوں کے ذات پات کے نظام اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے ہاں ذات کے خیال رکھنے میں بہت زیادہ فرق ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگرچہ عیسائیوں اور مسلمانوں کی سماجی زندگی میں ذات کا احساس پایا جاتا ہے مگر وہ اُن کی سماجی زندگی کا خاص امتیاز نہیں ہے۔

ہندوئوں کے ذات پات کے نظام اور مسلمانوں کے سماجی نظام میں ایک اور فرق ہے، اور وہ یہ کہ ہندوئوں کے ذات پات کی بنیاد مذہب میں ہے۔ دوسرے مذاہب ذات کے فرق کو مذہبی حیثیت نہیں دیتے۔ چنانچہ ہندو ذات پات کو ختم کریں تو اُن کا دین ہی ختم ہوجائے گا ۔ مسلم اور عیسائی اپنے ہاں دَر آنے والے ذات پات کا فرق مٹائیں تو انھیں بڑے پیمانے پر مذہبی حمایت ملے گی اور ان کا مذہب تباہی سے دوچار نہ ہوگا۔

تبدیلیِ مذہب کا  حاصل؟

بعض احباب مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ: ’’تنہا تبدیلیِ مذہب سے کیا حاصل ہوگا؟‘‘ تو مجھے تعجب ہوتا ہے۔ آج کے اکثر سکھ، مسلمان اور عیسائی پہلے ہندو ہی تھے اور ان کی غالب اکثریت شودروں اور اچھوتوں میں سے تھی۔ کیا ان احباب کا کہنا یہ ہے کہ جن لوگوں نے ہندو مذہب کو چھوڑا اور اسلام، عیسائیت یا سکھ مت قبول کیا، تو انھوں نے کوئی ترقی نہ کی؟، اور اگر یہ بات سچ نہیں ہے اور یہ تسلیم کیا جائے کہ تبدیلیِ مذہب نے ان کے حالات میں واضح سُدھار پیدا کیا ہے، تو یہ کہنا کہ اچھوت تبدیلیِ مذہب سے اس ترقی سے فیض یاب نہ ہوں گے، ایک بے معنی سی بات ہے۔

اس مسئلے پر بہت گہرا غور کرنے کے بعد ہرشخص یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگا کہ اچھوتوں کے لیے تبدیلیِ مذہب ایسی ہی ضروری ہے، جیسے بھارت کے لیے آزادی کا حصول ضروری ہے۔  دونوں کے مقاصد میں شمہ برابر بھی فرق نہیں ہے۔ دونوں کا آخری مقصد حصولِ آزادی ہے، اور اگر آزادی،  انسانی زندگی کے لیے لازم ہے تو ایسی تبدیلیِ مذہب جو انھیں حقیقی آزادی سے روشناس کرائے کبھی بے سُود نہیں کہی جاسکتی۔

اقتصادی اور معاشرتی ترقی

یہاں اس سوا ل پر بحث بھی ضروری سمجھتا ہو ں کہ اوّلیت کس چیز کو حاصل ہے۔ معاشی ترقی کو یا تبدیلیِ مذہب کو؟ مجھے اس تجویز سے اتفاق نہیں ہے کہ اوّلیت معاشی ترقی کو حاصل ہے۔

چھوت چھات آ پ کی معاشی ترقی کی راہ میں ایک مستقل رکاوٹ ہے۔ جب تک یہ نہ ہٹ جائے آپ کی راہ محفوظ نہیں رہ سکتی اور تبدیلیِ مذہب کے بغیر یہ رکاوٹ ہٹ نہیں سکتی۔

اس لیے اگر آپ خوش نیتی سے یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی لیاقت اور صلاحیتوں کی قدر ہو، آپ کی تعلیم آپ کے لیے مفید ثابت ہو، تو آپ چھوت چھات کے بندھنوں سے آزاد ہوجایئے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آپ اپنا مذہب بدل دیجیے۔

پھر بھی اُن لوگوں کے لیے جنھیں حصارِ وطن کی ضرورت ہے، تو مَیں انھیں یقین دلاتا ہوں کہ اُن کے تبدیلیِ مذہب سے اُن کے حقِ وطن پر آنچ نہ آئے گی۔ اس سلسلے میں ۱۸۵۰ء کے ایکٹ کا حوالہ دے سکتا ہوں۔ اس ایکٹ کے تحت کسی شخص کا حقِ جایداد یا اس کے ورثا کا حقِ جایداد اُس کی تبدیلیِ مذہب سے متاثر نہیں ہوتا۔

  • سیاسی حقوق: دوسرا شبہہ سیاسی حقوق کے بارے میں ہوسکتا ہے۔ بعض لوگ اس خوف کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر ہم نے تبدیلیِ مذہب اختیار کی تو ہمارے سیاسی حقوق کا کیا ہوگا؟

میرا احساس یہ ہے کہ ہمیں سیاسی حقوق پر بہت زیادہ منحصر نہیں رہنا چاہیے۔ یہ سیاسی تحفظات اس شرط پر کبھی نہیں دیے جاتے کہ یہ مستقل رہیں گے۔ یہ تحفظات کبھی نہ کبھی ختم ضرور ہوں گے۔

وہ لوگ جو سیاسی تحفظات پر سب سے زیادہ انحصار کرتے ہیں یہ بھی سوچیں کہ یہ تحفظات ختم ہوجائیں گے تو کیا ہوگا؟ اُس وقت ہمیں صرف اپنی معاشرتی قوت پر منحصر رہنا پڑے گا۔ مَیں یہ بات عرض کر چکا ہوں کہ ہمیں وہ معاشرتی قوت حاصل نہیں۔ اِس لیے مَیں شروع میں یہ بات کہہ چکا ہوں کہ یہ قوت تبدیلیِ مذہب کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔

ان حالات میں ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ مستقل طور پر کیا چیز مفید ہے؟

میری راے میں تبدیلیِ مذہب  واحد راستۂ نجات ہے۔ اگر اس مقصد کے لیے سیاسی تحفظات کی قربانی بھی دینی پڑے تو برداشت کرنا چاہیے۔ ویسے تبدیلیِ مذہب سے سیاسی تحفظات پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ تم جس گروہ میں بھی شامل ہوجائو گے تمھارے تحفظات تمھارے ساتھ رہیں گے۔ اس کے بارے میں مجھے کوئی شک نہیں ہے۔ اگر تم مسلمان ہوجاتے ہو تو تمھیں مسلمان کی حیثیت سے سماجی حقوق مل جائیں گے۔ اگر تم عیسائی ہوجاتے ہو تو تمھیں عیسائی کی حیثیت سے سیاسی حقوق مل کر رہیں گے۔ اس بارے میں کسی خوف کی ضرورت نہیں۔

اس کے برخلاف اگر ہم ہندو رہتے ہیں اور تبدیلیِ مذہب نہیں کرتے تو کیا ہمارے سیاسی حقوق محفوظ رہیں گے؟ اِس بات کو ذرا احتیاط سے سوچیے۔ فرض کیجیے کہ ہندو ایک قانون پاس کرلیتے ہیں کہ چھوت چھات غیرقانونی ہے اور جو اس پر عمل کرے گا سزا یاب ہوگا۔ تب وہ آپ سے کہہ سکتے ہیں: ’’ہم نے چھوت چھات ختم کر دی۔ اب تم اچھوت نہیں رہے‘‘۔

اس نقطۂ نظر سے دیکھیے تو تبدیلیِ مذہب ہی ایسا راستہ ہے جس سے سیاسی تحفظات میں اڑچن پڑنے کے بجاے مضبوطی آتی ہے۔ اگر آپ ہندو رہتے ہیں تو ضرور آپ کے سیاسی تحفظات خطرے میں ہیں، اگر آپ انھیں محفوظ کرنا چاہتے ہیں تو اس مذہب کو چھوڑ دیجیے۔ تبدیلیِ مذہب سے آپ کے سیاسی تحفظات میں استحکام آجائے گا۔

ہندومت یوں بھی میرے شعور کو اپیل نہیں کرتا۔ یہ میری عزتِ نفس کو اپیل نہیں کرتا۔ اس لیے آپ کے تبدیلیِ مذہب سے جہاں آپ کو مادی فوائد حاصل ہوں گے، وہیں روحانی فیض بھی پہنچے گا۔ بعض لوگ مادی مفاد کے لیے تبدیلیِ مذہب کا مضحکہ اُڑاتے ہیں۔ میں ان حضرات کو احمق (stupid) سمجھنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔

  •   مذہب کی تبدیلی میں مسرت ہے! میں آپ سے خاص طور سے عرض کرتا ہوں کہ مذہب لوگوں کے لیے ہوتا ہے لوگ مذہب کے لیے نہیں ہوتے۔ اس لیے انسانوں جیسا سلوک حاصل کرنے کے لیے آپ تبدیلیِ مذہب کرلیجیے:
  •  تبدیلیِ مذہب کر لیجیے تاکہ آپ منظم ہوسکیں۔
  • تبدیلیِ مذہب کر لیجیے تاکہ آپ طاقت ور بن جائیں۔
  • تبدیلیِ مذہب کر لیجیے تاکہ آپ کو مساوات ملے۔
  • تبدیلیِ مذہب کرلیجیے تاکہ آپ کی گھریلو زندگی مسرتوں سے بھر جائے۔

میں ایسے شخص کو لیڈر سمجھتا ہوں جو حمایت یا مخالفت کے خوف سے آزاد ہوکر لوگوں کو صاف صاف بتائے کہ اُن کے لیے کیا چیز مفید اور کیا چیز نقصان دہ ہے۔ یہ بتانا میرا فرض ہے کہ آپ کے لیے کیا بات مفید رہے گی۔ اب آپ اسے پسند کریں یا نہ کریں، مجھے اپنا فرض ادا کرنا ہے اور وہ مَیں نے ادا کر دیا۔

اب یہ آپ کا کام ہے کہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور ادا کریں۔