آباد شاہ پوری


’معاشرہ‘ افراد کے مجموعے کا نام ہے۔ فرد کی مثال اس ’مرکزہ‘ (Nucleus) کی ہے،  جس کے ارد گرد خلیے جمع ہوتے ہیں اور پھر ایک وجود تشکیل پاتا ہے۔ یہ مرکزہ جس نوعیت کا ہوتا ہے، اُس کو وجود میں لانے کے پیچھے جو نظریہ، مقصد اور ارادہ کار فرما ہوتا ہے، معاشرہ بھی اسی نوعیت کا وجود میں آتا ہے۔ ایک پودے کے مرکزہ سے پودا ہی پیدا ہوتا ہے اور برگ وبار لاتا ہے۔    کسی جانور کے خلیے کے مرکزہ سے جانور ہی جنم لیتا ہے اور انسان کے مرکزہ سے انسان ہی  صورت پذیر ہوتا ہے۔ اسی طرح کسی معاشرے کے مرکزوں (افراد ) سے ویسا ہی معاشرہ وجود میں آئے گا، جس نوعیت کے وہ مرکزے ہوں گے۔ پھر جس طرح کسی پودے اور درخت کی پیدایش او ر نشو ونما کا انحصار مخصوص طریقِ کاشت ، زمین کی خاصیت اور آب و ہوا کی نوعیت پر  ہوتا ہے، اسی طرح کسی جانور اور انسان کو وجود میں لانے کے لیے مخصوص مرکزوں اور خلیوں، مخصوص تخلیقی عمل، خصوصی ماحول، خاص قسم کی غذا اور دوسرے منفرد عوامل درکار ہوتے ہیں۔

ایک فرد جس ماحول میں پرورش پاتا ہے، اس کی فکری صلاحیتیں ، خالقــ کائنات اور کائنات میں انسان کا مقام متعین کرنے والے جس فلسفے اور نظریے کے تحت نشوونما پاتی ہیں، اُس کی سیرت جس اخلاقی سانچے میں ڈھلتی ہے اور وہ زندگی کے جس مقصد کو اپنا کر اپنا منہاج ـــعمل متعین کرتا ہے اس سے تشکیل پانے والا معاشرہ اسی ماحول، اسی فلسفے اور نظریے ، اسی سیرت وکردار، انھی اخلاقی اصولوں اور اسی منہاج عمل کا حامل ہو گا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ افراد کے افکار و نظریات، مقصد زندگی اور اخلاقی اصول تو کچھ اور ہوں، مگر ان کے مجموعے سے جو معاشرہ صورت پذیر ہو، وہ بالکل بر عکس ہو۔

معاشرے پر افکار و نظریات کے اثرات

افراد کے افکارونظریات اور سیرت و کردار کے سانچے میں معاشرہ کس طرح ڈھل جاتا ہے اُس کا جائزہ اس مختصر مقالے میں ممکن نہیں۔ اس لیے ہم صرف دورِ حاضر کو سامنے رکھتے ہیں۔

جدید عمرانیات میں انسان کو معاشرتی حیوان (Social Animal) قرار دیا گیا ہے۔ اس تصور کی بنیاد پر دو قسم کے معاشرے وجود میں آئے ہیں۔ ایک وہ جس میں انسان جانور ہی کی طرح آزاد ہے کہ جو روش چاہے اختیار کرے، جس کھیت اور چراگاہ میں چاہے منہ مارے ، اُسے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ اس لیے کہ وہ بنیادی طور پر جانور ہے اور یہ اس کی جبلّت کا تقاضا ہے___مگر چونکہ وہ عام جانوروں سے ذرا زیادہ مہذّب ، شائستہ اورصاحب عقل ودانش ہے اور اس کے لیے معاشرتی زندگی بسر کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس لیے کچھ حدود مقرر کر دی گئی ہیں کہ بس وہ کسی کھیت میں منہ مارتے وقت، اپنے نفس کی کوئی خواہش پوری کرتے وقت اس بات کا خیال رکھے کہ یہ سارے کام دوسرے متعلقہ معاشرتی جانور کی رضا مندی سے ہوں۔ یہ رضا مندی اُسے حاصل ہو جائے تو پھر کوئی بدی بدی نہیں، کوئی لاقانونیت لاقانونیت نہیںہے ۔ کسی کی حق تلفی حق تلفی نہیں، کسی کی بے آبروئی بے آبروئی نہیں، اور کسی کی عصمت وناموس عصمت و ناموس نہیں ۔ وہ فریق ثانی کی رضا کے ساتھ ہر غیر اخلاقی فعل ، ہر ظلم اور ہر جرم کر سکتا ہے۔ دوسرے معاشرتی جانوروں کو لوٹ کھسوٹ کر اپنا گھر بھر سکتا ہے۔ کسی کی ناموس کو اپنے گھر میں ڈال سکتا ہے یا گھر میں ڈالے بغیر اس سے کھیل سکتا اور نفس کی آگ بجھا سکتا ہے۔ البتہ وہ یہ باتیں اگر جبراً کرتا ہے تو یہ جرم ہے اور بری بات۔

یہ نقطۂ نظر اُس ریاست کی قانون سازی میں پوری طرح کار فرما ہوتا ہے، جسے یہ ’معاشرتی جانور‘ قائم کرتے ہیں۔ اس طرح یہ حیوانی آزادی محض افراد تک محدود نہیں رہتی بلکہ اجتماعی صورت اختیار کر لیتی ہے اور ہر ادارے میں ان کی حیوانیت رقصاں دیکھی جا سکتی ہے۔ جب اس جانور کا سابقہ اپنے معاشرے سے باہر دوسرے معاشروں سے پڑتا ہے تو اس کی حیوانیت ، اس کے شائستہ فلسفے اور ترقی پسندانہ قوانین اور ضابطے سب دھرے رہ جاتے ہیں۔ پھر وہ درندہ بن کر نمودار ہوتا ہے جو اپنے سے کمزور ’جانوروں ‘ کو چیرتا پھاڑتا، اُن کے حقوق غصب کرتا، اُن کی زمینوں پر قبضہ کرتا اور انھیں اپنا غلام بناتا ہے اور اس راہ میں وہ کسی حد اور رکاوٹ کا قائل نہیں رہتا۔

پھر ایک دوسرا معاشرہ وہ ہے، جس میں ’معاشرتی جانوروں ‘ کا ایک چھوٹا سا چالاک اور ہنرمند گروہ اپنے عام ہم جنسوں یا اُن کے ایک خاص طبقے کے نام پر معاشرے کی باگ ڈور سنبھال لیتا ہے اور پھر ان کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک کرتا ہے۔ انھیں اُسی طرح لاٹھی سے ہانکتا ہے ،  اس ظالمانہ سلوک میں مرد اور عورت میں کوئی امتیاز نہیں کرتا۔

ایسے معاشرے پوری کوشش کرتے ہیں کہ معاشرتی جانوروں میں آزادانہ سوچنے سمجھنے اور بولنے کی جو صلاحیتیں پائی جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انھیں انتخاب اور ارادے کی جو آزادی بخشی ہے، اُن سے وہ کام نہ لینے پائیں، بلکہ سوچ کا جو سانچا وہ مہیا کریں اُس میںیہ صلاحیتیں ڈھل جائیں اور اُن کی خودی موت کے گھاٹ اتر جائے اور وہ عام جانوروں کی طرح انتخاب اور ارادے کی قوت اور آزادی سے محروم ہو جائیں۔ ایسے نظریے کی بنیاد پر جو معاشرہ وجود میں آتا ہے اُس کا فلسفہ یہ ہے کہ یہ جانور اپنے کسی پیدا کرنے والے کے آگے جواب دہ نہیں ۔ اُن کی زندگی بس اسی دنیا تک محدود ہے اور ان کاکام بجز اس کے کچھ نہیں کہ ذرا عام جانوروں کی نسبت مہذب انداز میں رہیں سہیں، چریں چگیں، نسل بڑھائیں اور مر جائیں۔

اسلام کا تصورِ انسان

 اسلام کا تصوّر انسان کے بارے میں اس سے بالکل مختلف ہے۔ اس کے نزدیک وہ خدا کی افضل ترین (Most Exalted) مخلوق ہے:

وَّ ھُوَ فَضَّلَکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَo (الاعراف۷:۱۴۰) وہ اللہ ہی ہے جس نے تمھیں دنیا بھر کی قوموں پر فضیلت بخشی ہے۔

جس کو اس نے بہترین ساخت کے ساتھ پیدا کیا ہے:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍo(التین۹۵:۴) ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔

اسے زبر دست فکری و عملی قوتیں اور صلاحیتیںعطا کی ہیں :

ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْشَاَکُمْ وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَۃَ ط (الملک۶۷ :۲۳) اللہ ہی ہے جس نے تمھیں پیدا کیا، تم کو سننے اور دیکھنے کی طاقتیں دیں اور سوچنے سمجھنے والے دل دیے۔

اور زمین میں اپنا نائب (vicegerent) بنایا ہے۔

پھر اس افضل ترین ، بہترین ساخت اور اعلیٰ صلاحیتیں رکھنے والی مخلوق کو بے مقصد نہیں پیدا کیا کہ کھائے پیئے،چند روزہ زندگی کے مزے لوٹے اور مر جائے۔ نہیں، وہ آزمایش کے لیے پیدا کی گئی ہے اور اس مقصد کے لیے اسے حق وباطل ، نیکی اور بدی کی راہ کو منتخب کرنے اور اس پر چلنے کی پوری آزادی بخشی گئی ہے:

اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ صلے نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیْعًام بَصِیْرًا o اِنَّا ہَدَیْنٰـہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا o (الدھر۷۶:۲-۳) ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اُسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔ ہم نے اُسے راستہ دکھا دیا، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔

بے شک اس افضل ترین مخلوق ___ انسان ___ کے ساتھ ایک حیوان بھی ہے ۔ اس کے بغیر انسان کی انسانیت کی تکمیل ہی نہیں ہو سکتی تھی۔ تا ہم، انسانی جسم کی پوری مشینری میں اسے بالکل ناگزیر حیثیت دی گئی اور اسے کنٹرول کرنے کے لیے انسان کو بدی اور نیکی کا احساس اور اُن میں امتیاز کرنے کے لیے ضمیر کی قوت اور علم (وحی الٰہی)کی روشنی بخشی ۔ اِس حیوان کے حدود عمل بھی متعین کر دیے کہ ان کے دائرے میں رہ کر اپنا تخلیقی فریضہ سر انجام دے۔ اس حیوان کا انسان پر بس اتنا حق ہے کہ وہ اسے زندہ رہنے کا اس قدر سامان فراہم کرتا رہے کہ اس کی یہ زندگی انسان کو اپنے فرائض ادا کرنے کے قابل بنائے رکھے اور اتنا نہ پالے پوسے کہ وہ اسے اللہ کے مقابلے میں بغاوت اور سر کشی پر آمادہ کر دے ۔ گویا اسلام انسان کے حیوان کو نہیں انسان کو اہمیت دیتا ہے اور اس انسان کی بقا اور ترقی اور اچھے انجام کو اُس کا اصل مقصدِ تخلیق قرار دیتا ہے۔

یہ سارا اہتمام انفرادی طور پر کیا گیا ہے، یعنی پورے معاشرے یا کسی خاص طبقے کو اجتماعی طور پر نہیں ، ہر شخص کو فرداً فرداً اگر دانا گیا ہے اور آخرت میں بھی ہر شخص اس کی بار گاہ میں اسی طرح فرداً فرداً حاضر ہو گا جس طرح وہ فرداًا فرداً دنیا میں آیا تھا:

وَ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰی کَمَا خَلَقْنٰکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ (انعام ۶:۹۴) اب تم ویسے ہی تنِ تنہا ہمارے سامنے حاضر ہوگئے جیسا ہم نے تمھیں پہلی مرتبہ اکیلا پیدا کیا تھا۔

اور پھر اُس سے دنیوی زندگی کے شب و روز کے ایک ایک لمحے کا حساب لیا جائے گا اور اُسے پوری پوری جزا اور سزا دی جائے گی۔

وَاَنَّ سَعْیَہُ سَوْفَ یُرٰی o ثُمَّ یُجْزٰیہُ الْجَزَآئَ الْاَوْفٰی o (النجم۵۳: ۴۰- ۴۱) اور یہ کہ اس کی سعی عن قریب دیکھی جائے گی اُس کی پوری جزا اسے دی جائے گی۔

وہاں ہر فرد کو اپنا بوجھ اُٹھانا ہوگا اور دنیا کی زندگی میں اس نے جیسی کچھ جدوجہد آخرت کی زندگی کے لیے کی تھی اس کا ویسا ہی پھل اسے مل جائے گا۔

اَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی o وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی o (النجم ۵۳: ۳۸-۳۹)  یہ کہ کوئی بوجھ اُٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا، اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے سعی کی۔

اور اس کا یہ عُذر قابلِ سماعت نہ ہوگا کہ وہ معاشرے کے مقابلے میں بے بس تھا اور اُسے دنیوی رہنمائوں اور مذہبی پیشوائوں نے غلط اور سرکشی کے راستے پر چلنے پر مجبور کر دیا تھا۔

اس طرح اسلام انسان کا مقام ومرتبہ متعین کرنے کے ساتھ ساتھ فرد اور معاشرے کا مقام اور حیثیت بھی متعین کر دیتا ہے، یعنی فرد معاشرے کی تخلیق نہیں بلکہ بہت سے افراد مل کر معاشرے کی تخلیق کرتے ہیں۔ یہ افراد جن افکارونظریات اورعقائدو اخلاق کے سانچے میں ڈھلے ہوں گے معاشرہ بھی ان ہی افکار و نظریات اور عقائد و اخلاق پر مبنی ہوگا۔اور چوںکہ قیامت کے روز ہر فرد انفرادی طور پر اپنے اعمال وافعال کا جواب دہ ہے، اس لیے معاشرے کو یہ حق نہیں ہے کہ افراد کو ان کے افکار ونظریات اور عقائد واخلاق کے مطابق زندگی  بسر نہ کرنے دے اور انھیں اپنی مرضی کی لاٹھی سے جانوروں کی طرح ہانکتا پھرے۔ انسان جانور نہیں اشرف المخلوقات ہے۔

اسلامی معاشرے کی اساس

اسلام کے نقطۂ نظر سے انسان کے اس مقام اور اس کی انفرادی حیثیت کو مدّ نظر رکھیے کہ اسلام کس قسم کا معاشرہ وجود میں لانا چاہتا ہے۔ اسلامی معاشرہ دنیا کے تمام معاشروں سے بالکل جداگانہ رنگ رکھتا ہے۔ یہ نہ تو نسل ونسب پر مبنی ہے اور نہ زبان اور وطن پر بلکہ یہ تہذیبی اور نظریاتی بنیادوں پر تشکیل پاتا ہے ۔ اس کی تشکیل بھی وہی لوگ کر سکتے ہیں اور اسے راست بنیادوں پر قائم بھی وہی رکھ سکتے ہیں جو ان بنیادوں کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ اپنی انفرادی زندگی کو ان پر ٹھیک ٹھیک استوار بھی کرتے ہیں خواہ وہ کسی سر زمین سے تعلق رکھتے ہوں اور نسل ونسب کا رنگ ، زبان اور وطنی قومیت وغیرہ کی کوئی قدر مشترک اُن کے درمیان نہ ہو۔

اسلامی معاشرے کا کلمۂ جامعہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللہِ ہے ۔ یہ وہ پاک کلمہ ہے جس پر ایمان لانے کے بعد ایک شخص اسلامی معاشرے کو تشکیل دینے والی اکائی بن جاتا ہے۔ یہی مختصر سا بول اسلامی معاشرے کو وہ تہذیبی و نظریاتی بنیادیں فراہم کرتا ہے جس پر اس کی عظیم اور دلکش عمارت کھڑی کی گئی ہے۔ اسی کلمے کو ادا کرنے کے بعد ایک شخص یہ تسلیم کر لیتا ہے کہ اس کا اور اس کے گردوپیش پھیلی ہوئی ساری کائنات کا خالق ، مالک، آقا اور حکمران اللہ تعالیٰ ہے جس نے اپنے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے نوعِ انسان کو وہ نظامِ فکر وعمل بخشا ہے جو زندگی کے ہر ایک شعبے پر حاوی ہے اور جسے اپنائے بغیر انسان نہ دنیا کی زندگی چین اور اطمینان سے بسر کر سکتا ہے اور نہ آخرت میں نجات پا سکتا ہے۔

یہ نظامِ فکر وعمل افراط وتفریط سے پاک ہے۔ انسان کے لیے دو انتہائوں سے ہٹ کر متوسط راہ متعین کرتاہے ۔ اس طرح اسلامی معاشرہ ایک متوازن معاشرہ ہے۔ عبادت ہو یا سیاست، معاشرت ومعیشت ہو یا کوئی اور شعبۂ زندگی ، اس کے احکام اور تعلیمات ہر معاملے میں اعتدال پسندانہ ہیں۔ پھر یہ ایک غیر طبقاتی معاشرہ ہے جس میں کالے گورے، عربی وعجمی ، امیر وغریب، آقا و غلام کے درمیان کوئی امتیاز نہیں۔ نہ یہاں پیدایش یا پیشے کے اعتبار سے کوئی شخص شریف یا رذیل ہے۔ سب انسان برابر ہیں ۔

اسلامی معاشرہ بے مقصد معاشرہ نہیں۔ یہ انسان کو دنیا میں نیکی، راست روی اور حق پرستی کی زندگی بسر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ امت مسلمہ کا مقصد وجود یہ ہے کہ عالم ِ انسانیت کے سامنے اپنے عمل سے گواہی دے کہ اسلام زندگی کا جو نظام دیتاہے وہی دنیا وآخرت میں فلاح وکامرانی کا بہترین نظام ہے:

وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ(البقرہ ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت ِ وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو۔

اس لحاظ سے یہ ایک مثالی معاشرہ ہے اور ساری دنیا کے لیے بہترین نمونۂ اتباع۔

اسلامی معاشرہ: تربیت کی بنیادیں

ایسا مثالی معاشرہ، مثالی اور کامل المعیار افراد ہی وجود میں لا سکتے ہیں۔ اسی لیے اسلام افراد کی فکری وعملی تربیت کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔ وہ انھیں قانون کی لاٹھی سے ہانکنے یا اجتماعی قوت کے ذریعے اپنا نظام مسلّط کرنے کے بجاے اُن کے فکرو نظر میں انقلاب برپا کرتا ہے۔ ان کے سوچنے سمجھنے کے زاویے بدلتا ہے۔ زندگی اور کائنات اور خدا کے بارے میں اُن کے غلط تصور کو بدل ڈالتا ہے۔ ان کی پسند اور ناپسند کا معیار بدلتا ہے۔ ان کی دل چسپیوں کے مرکز اور دائرے تبدیل کرتا ہے۔ غرض وہ تمام تبدیلیاں جو دوسری نظریاتی اور تہذیبی قوتیں جبر وتشدّد کے ہتھیاروں سے لاتی ہیں، وہ اسلام دل ونگاہ کی تبدیلی سے لاتا ہے۔ اس تبدیلی کے بعد ان کی سیرت وکردار کو تربیت کے مخصوص سانچے میں ڈھال دیتا ہے۔ وہ قانون نافذ کرتا بھی ہے تو ایسی فضا اور ماحول پیدا کرنے کے لیے جس میں افراد کو اُس تربیت میں مزید مدد مل سکے اور اس تربیت کے منافی اور ناساز گار ماحول جنم نہ لے سکے۔

اسلام کی اس تربیت کے چند بنیادی اور اہم رُخ حسب ذیل ہیں:

  •  اسلامی نظریۂ حیات کی برتری: یہ تربیت ایک مسلمان فرد میں اسلامی نظریۂ حیات کی برتری اور اس کے بر حق ہونے کاپختہ وکامل یقین پیدا کرتی ہے تاکہ وہ دنیا کے دوسرے نظریات سے مرعوب نہ ہونے پائے۔ یہ نظریات زمانے میں کتنے ہی رائج اور غالب وطاقت ور کیوں نہ ہوں، اُن کے باطل ہونے پر اُس کا ایمان ہو۔ ان کے پھیلائے ہوئے فکری ونظریاتی اور مادی جال کو تارِ عنکبوت سمجھے جو حقیقت وصداقت اور ایمان کی قوت کے آگے نہیں ٹھیر سکتا ۔ حالات چاہے کیسے ہی رُوح فرسا اور مایوس کن ہوں اور دنیا کا دھارا چاہے کتنے ہی مخالف رُخ پر جا رہا ہو، اس کا دل یقین کے اس نور سے منور رہے کہ حق وہی ہے جس پر وہ ایمان لایا ہے۔
  •   قول و فعل کی ہم آہنگی: یہ تربیت نظریے پر ایمانِ کامل اور پختہ یقین پیدا کرنے کے ساتھ اُس کی زندگی کو عمل کے رنگ میں اس طرح رنگتی ہے کہ وہ پکار پکار کر شہادت دیتی ہے کہ اس کا واقعی اس نظریۂ حیات کے برحق ہونے پر ایمان ہے۔ قول وعمل کی ہم آہنگی ہی وہ قوت ہے جو حق کی تلاش میں سرگرداں اور حق کی خواہاں دنیا کو متاثر کرتی ہے۔ قول وعمل کا تضاد منافقت کی علامت ہوتی ہے اور نفاق وہ روگ ہے جو کسی معاشرے کو تباہ کر کے رکھ دیتا ہے۔ اس لیے اسلام کے تربیتی پروگرام میں قول وعمل میں مطابقت پر بہت زور دیا جاتا ہے۔
  •  مضبوط کردار: مقصد سے محبت اور عزم راسخ مضبوط کردار پیدا کرتے ہیں تا کہ وہ حق کے سوا ہر چیز کو ٹھکرا دے۔ اپنے موقف پر پہاڑ کی طرح جما رہے۔ اصولوں پر نہ مصالحت کرے اور نہ مداہنت پر آمادہ ہو۔ نہ لوگوں کی خواہشات کا اتباع کرے ۔ حق میں کسی کو شریک   نہ بنائے ۔ مزاحم قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرے اور باطل کے دبائو میں نہ آئے۔
  •  خدا خوفی: خدا پرستی اللہ کے ساتھ گہرا لگائو پیدا کرتی ہے ۔ دل ودماغ میں یہ بات راسخ کر دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طاقت سب طاقتوں سے بالا اور زبر دست ہے ۔ مسلمان کو چاہیے کہ اس کے سوا کسی سے خوف نہ کھائے اور ہر غیر اللہ سے کٹ کر اُسی کا ہو جائے ۔ اُسی پر توکل اور بھروسا کرے۔ اُس کی راہ میں آنے والی مشکلات ومصائب کا مقابلہ صبرو استقامت سے کرے۔ خداپرستی اُس کے شب وروز کو خداخوفی ، تقویٰ ، امانت ودیانت ، عدل واحسان ، عہد وپیمان کا پاس، راست بازی ، پاکیزگی سیرت ، طہارت ِ کردار اور اخلاقِ فاضلہ کے سانچے میں ڈھالتی ہے۔ معاشرے کو بگاڑنے والے اسباب وعوامل کے خلاف اُ س کے دل میں نفرت کے نہ مرنے والے بیج بو دیتی ہے۔ توحید ، رسالت اور آخرت کے بنیادی عقائد سے دنیا اور آخرت میں جو اخلاقی نتائج رُو نما ہوتے ہیں، خداخوفی ان کا احساس قلب وذہن میں اتنا گہرا بٹھاتی ہے کہ جب بھی انسان کو ئی کام کرنے کا ارادہ کرتا ہے، اُس کے نتائج وعواقب اس کے لوحِ ذہن پر ابھر آتے ہیں۔ اور اگر  وہ نتائج برے ہوں تو اس کا یہ احساس فورًا اُس کے قدم روک دیتا ہے۔
  •  اجتماعیت: جماعتی شعور اور نظم وضبط پیدا کرتی ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کی محبت اور بے چون وچرا اطاعت کا سبق سکھاتی ہے۔
  •  حق گوئی و بے باکی : حق گو، بے باک اور بے خوف بناتی ہے تا کہ مسلمان، معاشرے کو سیدھے راستے پر گامزن رکھنے میں ساعی ہوں اور غلط راہوں پر جانے سے روکیں ۔ مسلمانوں کی سب سے بڑی ذمہ داری یہی ہے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے علَم بر دار بن کر رہیں۔ انھیں برپا ہی اسی لیے کیا گیا ہے:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ  وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّہِ ط (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

اس فرض کو انجام نہ دینے سے ایمان تک مشتبہ ہو جاتا ہے۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا:

 جو شخص کسی منکر کو دیکھے اس کو چاہیے کہ وہ اُسے ہاتھ سے روک دے۔ لیکن اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو اُس کے خلاف آواز بلند کرے۔ اور اگر اس کی ہمت بھی نہ ہو تو پھر کم ازکم اپنے دل میں اُسے بُرا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔(   مسلم)

 ایک اور حدیث پاک میں ہے: ’’اس میں رائی کے دانے برابر بھی ایمان نہیں ہے ‘‘۔

 یعنی منکر کو اگر کوئی مسلمان دل میں بھی بُرا نہیں سمجھتا، اس سے ساز گاری پیدا کر لیتاہے، یا اس کے ساتھ غیر جانب دارانہ رویہ اختیار کرتا ہے تو اسے اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے۔

  •  اخلاص:  خدا خوفی اس قدر اخلاص پیدا کرتی ہے کہ وہ نیکی کا جو کام بھی کرتا ہے محض اللہ کی خاطر اور خوش نودی کے لیے کرتا ہے۔

اسلامی معاشرے کی انفرادیت

یہ ہے وہ تربیت جو اسلام اپنے حلقہ بگوش افراد کی کرتا ہے جن کے جماعتی زندگی بسر کرنے سے اسلامی معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّی زندگی کے ۱۳برسوں میں جو افراد تیار کیے انھیں انھی خطوط پر تربیت دی اور ان کا تزکیۂ کردار کیا اور پھر جب ان افراد نے مدینہ کی زندگی میں باقاعدہ ایک معاشرے کی صورت اختیار کر لی اور ایک اسلامی ریاست قائم ہوگئی، اور یَدْخُلُوْنَ فِی دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا کا سماں بندھنے لگا، تب بھی دورِ امن ہوتا یا زمانۂ جنگ ، حضور ِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کی تربیت باقاعدہ کرتے رہتے تھے۔ مدینہ کی زندگی میں اسلامی تہذیب وتمدّن ، عبادات ، معاشی زندگی اور سیاسی نظام کے احکامات دیے اور قوانین نافذ کیے گئے، لیکن ان احکامات اور قوانین کو نافذ کرنے سے پہلے افراد کو ذہنی طور پر تیار کیا گیا تا کہ وہ انھیں اپنی دنیا اور آخرت کی زندگی سنوارنے کا موجب سمجھتے ہوئے پوری خوش دلی اور ذہنی ہم آہنگی کے ساتھ قبول کریں۔ حضوؐر کی حیات مبارکہ میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا کہ کسی قانون یا حکم کو  بہ جبر نافذ کیا گیاہو بلکہ کیفیت یہ تھی کہ اہل ایمان اشارۂ اَبرو کے منتظر رہتے تھے کہ حضوؐر کوئی حکم فرمائیں اور وہ اس کی پیروی کر کے دنیا اور آخرت کی سعادت سمیٹیں۔

اس تربیت سے جس قسم کے افراد تیار ہوئے ، دنیا کا کوئی معاشرہ اور غیر مسلم تاریخ کا کوئی دور ان کی نظیر پیش نہیں کر سکتا ۔ تصور کیجیے جس معاشرے کے افراد صرف ایک اللہ کی غلا می اور ایک رسول کی قیادت تسلیم کرتے ہوں، پاک دل و پاک باز ہوں، اخلاقِ فاضلہ سے جن کی زندگیاں مزین ہوں، جو ایک دوسرے کی جان ومال اور آبرو کا احترام ہی نہ کرتے ہوں محافظ بھی ہوں ۔ جھوٹی تہمتیں نہ باندھیں ، جادو اور توہمات کے اسیر نہ ہوں، علم وروشنی سے جن کے قلب وذہن تابندہ ہوں ، جو امانت دار ہوں ، عہد وپیمان کے پابند ہوں ، انصاف پسند ہوں، جن کا دامن شراب خوری ، زنا ، ڈاکا زنی، چوری ، جھوٹ ، منافقت ، حرص و طمع اور دوسرے اخلاقی ذمائم سے پاک ہوں ۔ فحش گوئی اور فحاشی سے دور بھاگتے ہوں ۔ یتیموں اور کمزوروں کے حقوق غصب نہ کرتے ہوں۔ ایک دوسرے کے معاون اور مدد گارہوں۔ صدقہ وخیرات اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے مسابقت کرتے ہوں۔ نوعِ انسانی کے غم خوار اور ہمدرد ہوں اور آپس میں بھائی بھائی، اہل حق کے لیے نرم خُو ہوں اور باطل پرستوں کے لیے سخت فرض شناس اور ذمہ دار ہوں۔ صداقت شعار، وفاشعار ، حق پرست ، حق گو، نڈر ہوں۔ ایک اللہ کے سوا کسی کے آگے نہ جھکتے ہوں، نہ خوف کھاتے ہوں۔ ایسے افراد سے جو معاشرہ وجود میں آئے گا اس کی کیا کیفیت ہو گی؟

ایسا ہی معاشرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار فرمایا تھا۔ اسلام سے پہلے عرب جاہل ، ان گڑھ اور اَن پڑھ تھے ۔لیکن جب اس جاہلی معاشرے کی جگہ اسلامی تربیت یافتہ افراد پر مشتمل اسلامی معاشرے نے لی تو یہی لوگ ایسے عظیم عالم، جج، جرنیل، سیاست دان اور قانون دان بن کر اُٹھے کہ جس طرف نکل گئے انھوں نے زمانے کا رخ موڑ دیا۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی کا دھارا  نئی شان و شوکت سے نئی راہ پر بہنے لگا۔ پہلے ہرطرف جہالت و وحشت کی تاریک رات طاری تھی، یہ حق کا پیغام لیے جہاں پہنچے صبحِ روشن نمودار ہو گئی۔

اسلامی معاشرے کا انحطاط

یہ اسی تربیت اسلامی کا اثر تھا کہ اسلامی معاشرہ صدیوں تک دنیا کے تمام معاشروں پر چھایا رہا۔ یورپ نے علم وتہذیب کی روشنی اس سے لی اور اپنی تاریک راہوں کر منور کیا۔ جب تک افراد کی تربیت ِ اسلامی کا اہتمام اسلامی معاشرے میں ہوتا رہا، دنیا کی علمی ، تہذیبی اور سیاسی قیادت اس کے ہاتھ میں رہی ۔ لیکن جب یہ اہتمام پہلے کمزور پڑا اور پھر آہستہ آہستہ ختم ہو گیا تو دوسری نظریاتی اور تہذیبی قوتیں اس پر حملہ آور ہو گئیں۔ یہاں تک کہ اسلامی قلعے کی جو فصیلیں تربیت اسلامی نے تعمیر کی تھیں وہ ایک ایک کر کے منہدم ہوتی چلی گئیں۔ مسلمانوں کی گود میں پلنے والے تربیت اسلام سے عاری ایسے نوجوان بہ کثرت پیدا ہونے لگے جو ان بیرونی تہذیبی طاقت وروں سے متاثر تھے۔ دشمن باہر سے حملہ آور تھا اور یہ اندر سے نقب لگا رہے تھے اور باقی معاشرے پر سحرزدگی کا عالم تھا کہ وہ خود اس اسلامی تربیت سے تہی دامن ہو چکا تھا، جس نے اسے شعور ِ وجود بخشا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان ملک نہ صرف سیاسی طور پر اُن حملہ آوروں کے غلام بن گئے بلکہ وہ ان کی تہذیبی یلغار کے آگے بہہ نکلے۔

آج عالمِ اسلام جن حالات سے دوچار ہے وہ صحیح اسلامی تربیت کے فقدان ہی کا نتیجہ ہے۔ اسلامی معاشروں میں ساری کمزوریاں اسی راہ سے آئی ہیں۔ امام مالک بن انس کا قول ہے کہ   اس امت کے پہلے حصے کی اصلاح جس چیز کی بدولت ہوئی ، اُسی کے ذریعے آخری حصے کی بھی اصلاح ہوگی ۔ ہم اپنے ملّی واسلامی تشخص کی باز یافت کی جو جدوجہد کر رہے ہیں، اس میں اُسی وقت کامیاب ہوں گے جب ہمارے معاشرے اپنے افراد کی تربیتِ اسلامی انھی خطوط پر کریں جن پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اوّلین اسلامی معاشرے کے افراد کی تربیت کی تھی۔