صائمہ اسما


جماعت اسلامی کے قیام [اگست ۱۹۴۱ء] کے ساتھ ہی مولانا مودودی نے خواتین میں دعوت و تنظیم کی طرف بھی توجہ فرمائی۔ بیگم محمودہ مودودی، حمیدہ بیگم، ام زبیر اور نیر بانو وہ ابتدائی خواتین تھیں، جنھوں نے اقامتِ دین کی دعوت پر لبیک کہا۔ یوں شعوری طور پر دین کی دعوت دوسروں تک پہنچانے کے لیے ایک اجتماعیت کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔انھی خواتین میں بیگم نصر اللہ خان عزیز، بیگم بختاور ملک غلام علی، محترمہ خورشید بیگم اور بنتِ مجتبیٰ مینا بھی شامل تھیں۔

پاکستان بننے کے بعد چند با ہمت خواتین کے ہاتھوں قائم ہونے والی اس تنظیم نے دعوتِ دین کے مشن کو ہر سطح اور ہر معاشرتی طبقے کی خواتین تک پھیلانے کے لیے حلقہ ہاے دروسِ قرآن قائم کرنے شروع کیے۔برصغیر پاک و ہند میں اپنی نوعیت کی یہ خواتین کی پہلی تنظیم ہے۔ اسی تنظیمی ڈھانچے پر حلقہ خواتین جماعت اسلامی کی طرح دیگر مذہبی تنظیموں نے اپنے اپنے خواتین ونگ منظم کیے۔ تاہم، بنیادی نظریے اور مضبوط دستورکے سبب حلقہ خواتین کے کام کی جس قدر مختلف جہتیں تھیں، دیگر تنظیموں کا اس لحاظ سے کوئی موازنہ نہیں ہے۔

برسہا برس سے پاکستانی معاشرے میں دین کا صحیح اور شرک و بدعات سے پاک تصور پیش کرنے میں حلقہ خواتین کے حلقہ ہاے دروس کا کردار مثالی رہا ہے۔یہ سب گھریلو خواتین تھیں جو دعوتِ دین کی خاطر اپنے گھروں سے نکلیں اور گھر گھر جا کر یہ بتایا کہ دین ہماری زندگیوں سے  براہِ راست جڑا ہوا ہے۔ تبلیغِ دین کا یہ قافلہ چلا، تو پڑھی لکھی فہمِ دین کی حامل اور حالاتِ حاضرہ پر بات کرنے والی خواتین نے ’ دروسِ قرآن ‘ کے ذریعے براہِ راست قرآن کا پیغام پہنچانا شروع کیا۔ اس سے پہلے تک یہ رواج تھا کہ میلاد کی پُر تکلف محفل میں قریبی مدرسے سے چند واعظات اور کچھ نعت خواں خواتین کو بلایا جاتا تھا، یا برکت کے لیے ختم قرآن کی محفل رکھی جاتی تھی۔

لہٰذا، اگر کہا جائے کہ قیام پاکستان کے بعد پاکستانی معاشرے میں تعلیم یافتہ طبقے کی خواتین کے ہاں قرآن کا شعور بیدار کرنے کا بڑے پیمانے پر آغاز حلقہ خواتین جماعت اسلامی نے کیا تو  یہ کوئی مبالغہ آمیز بات نہیں ہوگی۔ یہ کام سالہا سال سے ہورہا ہے یہاں تک کہ اب ملک بھر کے شہری علاقوں میں شاذ ہی کوئی جگہ ہوگی، جہاں رہایشی خواتین کو اپنے قر ب و جوار میں حلقہ خواتین کا کوئی حلقۂ درس دستیاب نہ ہو۔ البتہ دیہی علاقوں کی اکثریت ابھی تک ان اثرات سے محروم ہے۔

اگرچہ کام کے اثرات کو ناپنے کے لیے ہمارے پاس کوئی حقیقت پسندانہ پیمانے نہیں ہیں، البتہ قیامِ پاکستان کے تقریباً ۷۰ برس بعد اجمالی سا جائزہ لیا جائے تو حلقہ خواتین میں افرادی قوت اور حلقہ ہاے دروس کی تعدادمیں کئی گنا اضافہ تو ضرور ہوا ہے، مگر معاشرتی اثرورسوخ کے مظاہر اس درجہ نظر نہیں آتے، جس سے فکرمندی کا لاحق ہونا فطری امر ہے۔ اس کی بے شمار وجوہ ہوسکتی ہیں، ان پر غورو خوض ہونا چاہیے۔

ارکانِ جماعت پر تحریک کی ساری عمارت کھڑی ہے۔انھی میں سے قیادت منتخب یا نامزد ہوتی ہے۔ ایسی قیادت بہترین معیار پیش کرتی ہے اور بہتر رفقا کی معیت میں منزل کی جانب گامزن ہوتی ہے۔ ہمارا حلقۂ خواتین میں سمع و طاعت کا نظام، قافلے کو خلوص اور تندہی کے ساتھ قیادت کے پیچھے چلنے کے لیے آمادہ و تیار کرتا ہے اور ان کی دینی ذمہ داری کو ان کے شعور اور لاشعور کا حصہ بنادیتا ہے۔ الحمدللہ، حلقۂ خواتین انتشار و افتراق اور مناصب کی کھینچا تانی کے نفسانی مظاہر سے پاک ہے۔

معاشرے کے باصلاحیت افراد کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کے لیے مولانا مودودی نے معاشرے کے پڑھے لکھے اور ذہین افراد کو اپنے گرد جمع کیا تھا، کیونکہ ان کی اپنی علمی سطح اتنی بلند تھی کہ وہ قوتِ استدلال سے ان کے ذہنوں کو مطمئن اور متاثر کر سکتے تھے۔ پھر انھوں نے قریب آنے والے افراد کی علمی و اخلاقی تربیت اور نشوونما کرتے ہوئے مستقبل کی قیادت تیار کی۔ خواتین میں ان کی اہلیہ بیگم محمودہ، خواتین کی تربیت کا وسیلہ بنیں اور محترمہ حمیدہ بیگم ،محترمہ نیر بانو، محترمہ اُمِ زبیر سمیت کئی ابتدائی خواتین نے یہ فیض حاصل کیا۔

اُس زمانے میں بہت کم خواتین ابتدائی تعلیم سے آگے بڑھ پاتی تھیں۔ ایسے میں حلقہ خواتین کی تاسیسی رکن محترمہ حمیدہ بیگم عام خواتین سے کہیں زیادہ تعلیم یافتہ تھیں۔ انھوں نے ۱۹۳۶ء میں فاضل، پھر ایف اے اور ۱۹۳۹ء میں پنجاب یونی ورسٹی سے اعلیٰ پوزیشن کے ساتھ بی اے اور پھر بی ایڈ پاس کیا۔ ۱۹۴۴ء تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ نیربانو نے میٹرک کے بعد طبیہ کالج دہلی سے طب کا تین سالہ کورس کیا اور کچھ عرصہ درس و تدریس سے وابستہ رہیں۔ نیر بانو صاحبہ ۱۹۴۴ء میں رکن بنیں اور مولانا محترم سے خط وکتابت کے ذریعے رہنمائی حاصل کرتی رہیں۔ مولانا انھیں ایک ہی کام کی ترغیب دلاتے رہے کہ پڑھیے، پڑھیے اور خوب پڑھیے۔ اُمِ زبیر محض پانچ جماعتیں پڑھی تھیں، مگر جماعت کی ذمہ داریوں اور سرگرمیوں نے انھیں اتنا نکھارا کہ انھوں نے کئی کتب تصنیف کیں۔

حمیدہ بیگم نے محترمہ رخشندہ کوکب اور صدر شعبہ علوم اسلامیہ لاہور کالج محترمہ بنت الاسلام کے ساتھ مل کر ماہنامہ بتول اور ادارہ بتول کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد معیاری ادب کے ذریعے اعلیٰ اقدار کا فروغ تھا۔ ان خواتین نے اپنی ادبی کاوشیں بڑے اعتماد سے پیش کیں۔ خواتین رومانی و بے مقصد رسائل و جرائد کے مقابل ایک بہترین ماہ نامہ زیورِ طباعت سے آراستہ کرکے ذریعہ تعلیم و تربیت کے  طور پر چلایا۔ بیگم مودودی اپنے انداز واطوار، زبان و بیان اور حکمت سے دعوتِ دین کے میدان میں نہایت مؤثر پیش رفت کر رہی تھیں۔ 

ان خواتین کی علمی اور سماجی حیثیت کو دیکھ کر یہ بات بخوبی سمجھ میں آتی ہے کہ مولانا مودودی کے نزدیک قیادت کے لوازم کیا تھے۔ قائد اپنی ذہانت اور علمی استعداد میں اپنے زمانے کے لوگوں سے آگے ہوتا ہے۔ بصیرت اور حکمت کی خوبیاں اس نعمت کو ترقی دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور وہ مقصد و منزل کی طرف پیش قدمی کرنے کے ذرائع صحیح وقت پر استعمال کرنا بھی جانتا ہے۔ اس طرح اپنے حالات اور لوگوں کے رجحانات سے گہری آگاہی رکھتا ہے۔

علمی لحاظ سے درپیش چیلنج کی ایک بنیاد نظام تعلیم کے سماجی اثرات بھی ہیں۔ملک میں جاری دہرے نظام تعلیم کی موجودگی میں آگے بڑھنے کی حکمتِ عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ملک میں دو قسم کے نظام تعلیم دو مختلف طبقات پیدا کر چکے ہیں اور یہ  خلیج گہری ہوتی جارہی ہے۔ جدید اور نجی ادارے، مغربی انداز کی تعلیم دے کر اشرافیہ کی تشکیل کرچکے ہیں۔ گذشتہ ۲۰برسوں میں معاشرے کا فکری اور سماجی توازن بڑی تیزی سے تبدیل ہوا ہے، جس کا ادراک کرنا بھی مشکل ہے۔ صاف دکھائی دےر ہا ہے کہ نئے تعلیم یافتہ طبقات میں دینی حلقوں کا اثرورسوخ محدود تر ہوتا جارہا ہے۔

دوسری فکر انگیز حقیقت یہ ہے کہ تحریک میں نئے ا ور نوجوان خون کی شمولیت جن نرسریوں کی مرہونِ منت تھی، یعنی طلبہ تنظیمیں ، وہ بھی نجی تعلیمی اداروں میں نہ ہونے کے برابر ہیں، اور اگر  کسی نجی تعلیمی ادارے میں ہیں تو وہ انھی تعلیمی اداروں کے اپنے ماڈل کے زیراثر ہیں۔ لہٰذا، معاشرے پر اثر انداز ہونے والی قیادت وہاں سے میسر آنے کے امکانات کو اس سے مزید دھچکا پہنچا ہے۔ یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اس وقت خواتین میں نئی ارکان کی ایک معتد بہ تعداد  ان دینی جامعات سے فارغ التحصیل ہے جو حلقہ خواتین کے تحت قائم کردہ ہیں۔ جو دُوردراز پسماندہ علاقوں کی ایسی بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی خدمت انجام دے رہی ہیں، جن کے لیے تعلیم کے اور کوئی مواقع نہیں ہیں اور کوئی سخت میرٹ بھی نہیں ہے۔یہ بلاشبہہ بہت بڑی خدمت ہے۔ یہ طالبات فطری صالحیت، نیکی اور سعادت مندی میں ملّت کا انتہائی قیمتی سرمایہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان جامعات سے فارغ التحصیل ہونے والی طالبات کی نصف تعداد اپنے اپنے علاقوں میں حلقہ خواتین سے ضرور وابستہ ہوجاتی ہے۔ جو خوش آیند اور بڑا مؤثر عددی عنصر ہے لیکن معاشرے پر مجموعی طور پر اثرانداز ہونے کے لیے عصری تعلیمی پس منظر رکھنے والی خواتین کی تعداد کا بڑھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔

سماجی سطحوں پر دعوت اور تنظیم کے دائرے میں زیادہ وسعت نہ آنے کے باعث، حال اس انجن کی طرح ہوتا ہے جس کی ساری توانائی اپنی ہی مشینری کو رواں رکھنے میں صرف ہورہی ہوتی ہے۔ سیّدسعادت اللہ حسینی نے اس بات کو فکری لحاظ سے محدود ہونے سے ان معنوں میں بیان کیا ہے کہ ’خود ہی لکھنے اور خود ہی پڑھنے کا عمل ایک بند گروہ کے لیے تو مفید ہو سکتا ہے ، کسی زندہ اور  عالم گیر مشن رکھنے والی تحریک کے لیے ہر گز مفید نہیں ہو سکتا‘۔۱  ایسی سماجی تحدید ، پھیلائو کو سکیڑتی اور آخرکار فکری جمود کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ ایسے خطرے سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی اپنی جگہ پر محدود دائرے سے نکل کر سوچنے ، سوال کرنے، نیا خیال پیش کرنے، یہاں تک کہ پروگراموں کے موضوعات تک منتخب کرنے کی کوششیں ہونی چاہییں۔ لیکن اگر اس باب میں روایتی موضوعات تک محدود رہا جائے گا اور زند ہ مسائل و معاملات کو حُسنِ استدلال اور حُسنِ بیان سے پیش نہیں کیا جائے گا تو دعوت کا دائرہ محدود تر ہوجائے گا۔

غور کرنا چاہیے کہ پاکستانی خواتین خصوصاً تعلیم یافتہ طبقے میں درس قرآن کے حلقے متعارف کروانے اور پھیلانے کے کام پر ایک عرصے تک ہم حاوی رہے ہیں۔ اسی دوران میں خواتین کی نئی بننے والی تنظیموں نے تعلیم دین کے نئے ڈھانچے متعارف کروائے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک وسیع حلقے پر اثر انداز ہوئیں۔ دیکھنا ہوگا کہ ہمارے حلقوں میں وسعت کے لیے کن چیزوں کی ضرورت ہے۔ تنظیمی رویوں کا ماہر جم کولنز لکھتا ہے کہ کامیاب تنظیموں کے انجماد کا آغاز دراصل   ان کے ہاں کامیابی کا احساس ہوتا ہے۔ جب وہ بہترین معیار کو یقینی بنائے بغیر محض اپنے پھیلاؤ کو اہمیت دینے لگتی ہیں، تب وہ تخلیقی جوہر کو جو انھیں یہاں تک لایا تھا، اسے چھوڑ کر تبدیلی کی راہ میں مزاحم ہو جاتی ہیں۔۲

یہ کمی اس وقت زیادہ محسوس ہوتی ہے جب ہم دوسرے ملکوں کی ان اسلامی تحریکوں کی خواتین کا اپنے سے موازنہ کرتے ہیں، جن کا اپنے اپنے معاشروں میں اثرورسوخ ہم سے زیادہ ہے اور وہ دنیاوی پیمانوں سے بھی کامیابی کے کسی درجے پر ہیں۔ ان میں اخوان المسلمون، پاس، اے کے پارٹی اور النہضہ سر فہرست ہیں۔انھوں نے بڑی تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی اور قومی حالات کے ساتھ مطابقت پیدا کی ہے۔

 میری ناچیز راے میں ہمیں ایک طویل المیعاد منصوبے کے تحت مستقبل کی قیادت کے لیے حسب ذیل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے:

۱- ارکان کی علمی و فنی استعداد کو بڑھانے اور معیاری بنانے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی ہونی چاہیے۔

۲- شعبہ تربیت کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے ارکان کو انفرادی علمی و ذہنی نشوونما کے لیے ہدف اور رہنمائی دی جائے۔ مختلف النوع شعبہ جات میں پھیلتے ہوئے کاموں میں ماہرین مہیا کرنے کے لیے ارکان کی تعلیمی استعداد بڑھا ئی جائے۔ اس لحاظ سے آگے کچھ کرنے کے   چند راستے یہ ہیں:

  •  سائنسی و انتظامی مضامین کے علاوہ سماجی علوم اور علوم انسانی کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ عمرانیات، نفسیات، فلسفہ، علم اصناف، ویمن سٹڈیز، ابلاغیات، کلچرل سٹڈیز، سیاسیات، تاریخ اور اقبالیات کے وسیع میدان موجود ہیں۔
  •  اگر زبان و ادب اور فنون لطیفہ کی طرف رجحان ہے تو اردو، عربی اور انگریزی زبان و ادب، لبرل آرٹس اور بصری وسائل کی ترقی کے شعبہ جات اچھا انتخاب ہوسکتے ہیں۔
  •  علوم دینیہ میں تقابلِ ادیان آج کے دور میں بہت اہم میدان ہے۔ عام یونی ورسٹی سے ایم اے اسلامیات دین کا گہرا ذوق پیدا نہیں کرپاتا۔ اس میں گہرائی پیدا کرنے کے لیے سنجیدہ تعلیمی و تربیتی مواقع کے علاوہ بیرونِ ملک اچھی یونی ورسٹیوں سے اسلامک اسٹڈیز میں تخصص، تحقیق، تقابل اور مکالمے کی زیادہ اچھی صلاحیت پروان چڑھ سکتی ہے، اگر ایسا کرنا ممکن ہو تو ضرور استفادہ کرنا چاہیے۔۳  مذکورہ بالا مضامین میں سے کسی میں بھی تخصیصی ڈگری لی جا سکتی ہے ۔ براہِ راست ایم فل میں بھی داخلہ لیا جا سکتا ہے ۔ تاہم اس درجے میں ذریعۂ تعلیم عربی یا انگریزی ہو تو کہیں زیادہ بہتر ہوگا۔

۳- اس کے ساتھ دورِ جدید کی مہارتیں حاصل کر نا بھی ایک لازمی ضرورت ہے۔ جن میں کمپیوٹر کے ورڈ (اردو انگریزی)، ایکسل، پاور پوائنٹ ، ان پیج، مائکرو سوفٹ آؤٹ لک پروگرام کی آگاہی اور مشق۔ اُردو انگریزی اور عربی میں رابطے ، بول چال کی عربی اور انگریزی، شماریات کے بنیادی تصورات (بشمول گراف)، دنیا کا نقشہ، بنیادی جغرافیے سے آگاہی۔ دنیا کی تین ہزار سال تک کی تاریخ کا بنیادی علم، حالاتِ حاضرہ پر گرفت، اسلامی تحریک کی تعلیم یافتہ ارکان کو آنی چاہییں۔  ان کے علاوہ اگر کوئی اپنی صلاحیت بڑھانا چاہے تو بزنس اینڈ کامرس، مینجمنٹ، شماریاتی تجزیہ، ڈاکیومنٹری میکنگ، انگلش رائٹنگ، ویب ڈیزائننگ ان کے شارٹ کورسز لیے جا سکتے ہیں۔ یہ کورسز اچھی یونی ورسٹیاں آن لائن بھی پیش کرتی ہیں اور ان کا معیار اورقدروقیمت دونوں بہتر ہوتے ہیں۔

۴- ذہنی اُفق وسیع کرنے اور معاشرے میں ہر طرح کے ذہن کو مخاطب کرنے کے لیے درج ذیل اقدامات فائدہ دیں گے:

  •  دعوت کے میدان میںبین الاقوامی سطح پر معروف اور مقبول ہونے والے صحیح العقیدہ مدرسین کے دروسِ قرآن سے استفادہ کرنے کی ترغیب دلائی جائے۔
  •  پاکستانی خواتین میں مختلف مقاصد کے لیے کام کرنے والے گروہوں سے آگاہی حاصل کرکے اپنے اجتماعات میں پیش کی جائے۔
  •  معاصر مسائل پر مکالمے کی تربیت دی جائے۔
  •  مؤثر ابلاغ (کمیونی کیشن) کے لیے کم وقت میں مؤثر خطبے دینے اور عام فہم بات کرنے کے طریقے سیکھے اور سکھائے جائیں۔

یہ دور دین کے نام لیواؤں کے لیے ہر جگہ آزمایش کا دور ہے اور اس کی شدت، وقت کے ساتھ کم نہیں ہورہی بلکہ بڑھ رہی ہے۔ ہماری تیاری میں یہ احساس جھلکنا چاہیے کہ ہمیں قلب و ذہن کی پوری صلاحیتیں لگا کر ان حالات میں اپنا فرض ادا کرنے کے راستے تلاش کرنے چاہییں۔

حواشی

۱-            تحریک اسلامی اور فکری چیلنج، سیّد سعادت اللہ حسینی ، ماہ نامہ عالمی ترجمان القرآن، دسمبر ۲۰۱۵ء

2-            How the Mighty Fall, Jim Collins, Businessweek, May 2009

3-            Use of Modern Media by Female Religious Groups in Pakistan, MPhil dissertation, Saima Esma, 2014, Punjab University database.