ڈاکٹر محدمد اقبال خلیل


لاہور اور سیہون شریف میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے بعد جس میں ۱۰۰سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، پاکستان کی جانب سے یک طرفہ طور پر طورخم اور چمن پاک افغان سرحدی راہداری کو بند کرنے کا جو فیصلہ ہوا تھا اس پر عمل درآمد گذشتہ ماہ سے جاری رہا۔ اس دوران میں صرف دودن کے لیے سرحدیں پیدل آنے جانے والوں کے لیے کھولی گئیں تھیں جس کے نتیجے میں ۱۱ہزار ۵۰۰ افغانوں کو پاکستان سے واپس اپنے وطن جانے کا موقع ملا، جب کہ ۳۵۰ پاکستانی واپس آئے۔ اس ماہ کے دوران دونوں اطراف سے ہزاروں کی تعداد میں تجارتی اجناس سے لدی ہوئی گاڑیاں سڑکوں پر کھڑی رہیں اور تاجروں کا نقصان ہوا۔ اجناس کی ترسیل میں تعطل کی وجہ سے افغانستان کی مارکیٹوں میں قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا جب کہ پاکستان کی طرف کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ افغانستان اس وقت پاکستانی مصنوعات کی ایک بڑی منڈی ہے، جو اس دوران بند رہی جس سے پاکستانی برآمدات کو سخت دھچکا پہنچے گا۔ بظاہر سرکاری سطح پر بھی اس اہم مسئلے پر کوئی پیش رفت یا مذاکرات کا سلسلہ نظر نہیں آرہا تھا۔ ECOکانفرنس کے موقعے پر افغان سفیر  عمر زخیلوال نے پاکستان سے سرحدیں کھولنے کا مطالبہ کیا تھا، لیکن اس کے بعد سے اس طرف سے خاموشی تھی۔ البتہ پاکستانی اور افغان میڈیا میں اس مسئلے پر گفتگو ہوتی رہی۔

افغان میڈیا میں حسب معمول پاکستان کو مورد الزام قرار دیا جاتا رہا۔ ویسے بھی افغانستان میں ہر چھوٹے بڑے واقعے کا الزام پاکستان بالخصوص اس کی خفیہ ایجنسیوں پر دھرا جاتا ہے۔ ۲۰۱۵ء میں جب میں کابل میں ایک بین الاقوامی سیمینار میں شرکت کے لیے گیا تھا تو وہاں افغان میڈیا کے سوالات پر اسی پروپیگنڈے کاگہرا رنگ چڑھا دکھائی دیا جو بہت حد تک بھارتی لابی کے زیراثر ہے کیوںکہ اس کے تمام چینلز بھارتی سیٹلائیٹ دور درشن کے ذریعے اپنی نشریات چلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ تکنیکی اسٹاف میں بھی بھارتی عملہ موجود ہے۔ ویسے بھی وہ ممالک کہ جن کا بحری راستہ کسی ہمسایہ ملک کے مرہون منت ہوتا ہے، اس میں اس ہمسایہ ملک کے خلاف جذبات کا پایا جاناایک فطری امر ہوتا ہے۔ یہ معاملہ میں نے نیپال میں بھی دیکھا ہے جو ہندو ریاست ہے لیکن وہاں کے لوگ بالعموم بھارت کے خلاف اور پاکستان کے حق میں ہیں۔ وہ تین اطراف سے ہندستان میں گھر ا ہوا ہے، اس لیے یہ جذبات فطری ہیں۔

 بہرکیف اس پابندی سے افغانستان میں پاکستان مخالف جذبات کو مزید تقویت ملتی رہی، جب کہ افغان حکومت متبادل راستے ڈھونڈ تی رہی ہے۔ دوسری طرف ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کو بھارتی حکومت کی اعانت سے ترقی دے دی گئی ہے اور بھارتی بحری جہاز وہاں یہ لنگر انداز ہوتے ہیں اور ایک بڑی شاہراہ بھی وہاں سے افغانستان کے شہروں کو منسلک کرنے کے لیے تعمیر کی گئی ہے۔ اسی طرح وسط ایشیائی ممالک سے غذائی اجناس بشمول گندم منگوائی جارہی ہے۔ ان تمام ذرائع سے ضروری اشیا کی ترسیل کے باجود پاکستان پر انحصار ختم نہیں ہو سکتا۔ اس لیے حکومت ِ پاکستان نے بالآخر پابندی ختم کر کے دونوں ملکوں کے درمیان آمدورفت بحال کردی ہے، جس سے دونوں طرف کے عوام نے سُکھ کا سانس لیا ہے۔

روس، طالبان روابط

افغانستان کے اندر کی صورت حال زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ ۸مارچ کو کابل میں ملٹری ہسپتال پر داعش کا حملہ اور اس کے نتیجے میں۳۸  قیمتی جانوں کا نقصان قابل افسوس ہے۔ اس حملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس حملے سے مستقبل میں داعش کے مزید ہلاکت خیز حملوں کا امکان بھی بڑھ گیا ہے۔ دوسری طرف تحریک طالبان بھی افغانستان کے طول و عرض میں اپنی پوزیشن مستحکم کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ایک امریکی ادارے کے حالیہ سروے میں افغان حکومت کی عمل داری ۴۳فی صد ملک پر بتائی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بقیہ ۵۷ فی صد پر طالبان کا  کنٹرول ہے۔ اسی ماہ افغانستان کے ایک صوبے مغربی ہرات میں ایک نوجوان کو طالبان کی عدالت سے ڈاکا زنی میں ملوث ہونے پر ایک ہاتھ اور پائوں کاٹنے کی سزا پر عملد رآمد کی بازگشت سنائی دی۔ اس سے پہلے شمالی صوبے بدخشاں میں ایک لڑکی کو مبینہ طور پر زنا کے الزام میں سنگسار کیا گیا تھا۔ یہ سخت سزائیں طالبان کی قائم کردہ شرعی عدالتیں سنا رہی ہیں۔ پورے افغانستان میں یہ نظام قائم ہے اور عوام ان سے رجوع کرتے ہیں اور ان کو فوری طور پر انصاف مل جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں سرکاری عدالتوں کا نظام بُری طرح بد عنوانی کاشکار ہے اور فیصلوں میں کئی سال لگ جاتے ہیں ایک عام آدمی کے لیے انصاف کا حصول بہت مشکل ہے۔ طالبان نے صرف عدالتی نظام قائم نہیں کر رکھا، بلکہ ہرصوبے اور ضلع کے لیے اپنے عہدے دار بھی مقرر کیے ہیں، جو ٹیکس بھی وصول کرتے ہیں۔ افغان طالبان کا یہ اثر و رسوخ دیہی علاقوں میں ہے مگر بڑے شہر ان کی دسترس سے باہر ہیں۔ چوں کہ ناٹو فضائی افواج افغانستان کے تمام اہم ہوائی اڈوں میں موجود ہیں، اس لیے طالبان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ کھل کر حرکت کر سکیں یا شہری علاقوں پر اپنا قبضہ جماسکیں۔ اس طرح کا توازن کافی عرصے سے قائم ہے جو آیندہ بھی جاری رہ سکتا ہے۔ یہی توازن دونوں فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لا سکتا ہے جس کے لیے زمینی حقائق کی بنیاد پر مشترکہ نکات ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔

بین الاقوامی سطح پر گذشتہ کچھ عرصے میں تحریک طالبان کو کئی کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں۔ روس کے صدر پیوٹن جو عالمی سطح پر روسی کردار کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں، ان کے رابطے طالبان سے قائم ہو چکے ہیں۔ روسی کمیونسٹوں نے افغانستان کو جس طرح تباہ و برباد کیا تھا۔ ایسے میں ان روابط کی بحالی بظاہر عجیب بات لگتی ہے لیکن عالمی تعلقات کا یہ بھی ایک اصول ہے کہ آج کے دشمن کل کے حلیف بن سکتے ہیں اور اس لیے یہ انوکھا ملاپ انہونی بات نہیں ہے۔ روس طالبان تحریک کو کس صورت میں امریکا کے خلاف جنگ میں مدد دے سکتا ہے، ابھی تک اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے، لیکن شنید ہے کہ مادی اور سیاسی دونوں قسم کی اعانت ممکن ہے۔ روسی حکومت نے مزید پیش رفت کرتے ہوئے افغانستان میں امن کے قیام کے عنوان سے ۱۴؍اپریل کو ماسکو میں ایک علاقائی کانفرنس طلب کرلی ہے، جس میں چین ، بھارت ، پاکستان اور ایران کے علاوہ دیگر ممالک بھی شریک ہوں گے۔

چین، طالبان تعلقات

اسی طرح چینی حکومت نے بھی طالبان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں ایک اہم قدم اُٹھایا ہے اور قطر میں مقیم طالبان مذاکراتی وفد نے چین کا دورہ کیا ہے۔ چین افغانستان کی تعمیر و ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جس کے لیے وہاں امن کا قیام ضروری ہے اور اس مقصد کے لیے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل کا آغاز لازم ہے۔ گذشتہ عرصے میں قطر میں مقیم افغان مذاکراتی ٹیم کی قیادت میں تبدیلی عمل میں آئی ہے۔ طیب آغا جو کئی برسوں سے وہاں نمایندگی کر رہے تھے، طالبان قیادت کے ساتھ اختلافات کی بنا پر مستعفی ہوگئے تھے اور ان کی جگہ شیر محمد ستانکزئی نے لی ہے جو طالبان حکومت میں وزیر صحت رہ چکے ہیں۔

افغانستان میں چینی حکومت کی سرمایہ کاری اس لیے بھی اہم ہے کہ ناٹو افواج کے بتدریج اخراج کے عمل کے بعد افغانستان میں بیرونی سرمایہ کاری میں خاصی کمی آئی ہے، جس کا اثر افغان معیشت پر واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس کمی کو چینی سرمایہ کاری پُر کر سکتی ہے، جو انفراسٹرکچر کو ترقی دینے کے ساتھ ساتھ ذرائع مواصلات پر خاص طور پر توجہ دینا چاہتی ہے۔ اس طرح بیک وقت دو سپر طاقتیں یعنی روس اور چین، طالبان سے روابط بڑھاکر افغانستان کے مستقبل کی نقشے گری ظاہر کرتے آتے ہیں لیکن ان روابط سے طالبان قیادت صرف اسی صورت میں فائدہ اٹھا سکتی ہے جب وہ اپنی پالیسیوں میں نرمی پیدا کرے۔ اس بارے میں بھی طالبان قیادت کی حکمت عملی میں چند تبدیلیاں واضح طور پر نظر آرہی ہیں۔ مثلاً لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں اب وہ اس سختی کا مظاہرہ نہیں کر رہے اور وہ افغان حکومت سے مذاکراتی عمل شروع کرنے کے لیے آمادگی کا عندیہ دے چکی ہے۔

افغان حکومت اور حکمت یار معاہدہ

افغانستان میں ایک اہم پیش رفت حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان طے پایا جانے والا معاہدہ ہے۔ صدر حامد کرزئی کے دور حکومت سے شروع ہونے والا مذاکراتی عمل ایک ۲۵نکاتی معاہدے پر اتفاق سے مکمل ہواجس پر ڈاکٹر اشرف غنی صدر افغانستان اور انجینیر گل بدین حکمت یار صدر حزب اسلامی افغانستان نے دستخط ثبت کیے اور کابل کے صدارتی محل ارک میں ۲۹ستمبر۲۰۱۶ء کو ایک شان دار تقریب میں اس کا اعلان ہوا، جس میں افغانستان کی تمام اہم سیاسی شخصیات شامل تھیں۔ اس معاہدے کی ایک اہم شق اقوام متحدہ کی جانب سے گل بدین حکمت یار سے پابندیاں ہٹانے کا معاملہ تھاجو اَب مکمل ہو چکا ہے اور دومارچ ۲۰۱۷ء کو انجینیر صاحب کو کلیرنس مل گئی ہے۔ اگلے مرحلے میں ان کی کابل آمد ہے جس کے لیے تیاریاں جاری ہیں، البتہ اس راہ میں کئی مشکلات حائل ہیں۔

معاہدے کے اہم نکات میں حکومت کے ذمے جو کام تھے ان میں گلبدین حکمت یار اور حزب اسلامی پر بین الاقوامی پابندیوں کا خاتمہ ، ان کے لیے اور حزب کے دیگر رہنمائو ں کے لیے عام معافی کا اعلان، ان پر عائد کردہ تمام الزامات اور مقدمات کا خاتمہ ، حزب اسلامی کے ارکان اور مجاہدین کو افغانستان کے قومی سکیورٹی اداروں میں ملازمتیں فراہم کرنا اور ان ۲۰ہزار افغان مہاجرین خاندانوں کی باعزت افغانستان واپسی کا انتظام کرنا،جو پشاور کے نصرت مینہ اور شمشتو کیمپوں میں آباد ہیں۔ انجینیر حکمت یار کو افغانستان میں قیام کی تمام سہولتیں فراہم کرنا اور ان کو جہاد افغانستان اور ملک کی آزادی اور خودمختاری کے لیے جدوجہد پر ان کا جائز مقام دینا وغیرہ شامل ہیں۔

اس کے مقابلے میں حزب اسلامی نے اپنے ذمے جو کام لیے ہیں ان میں سب سے اہم نکتہ جنگی حالت سے دست برداری اور ملک کے دستور و قانون کی پاسداری ہے۔ وہ کسی اور گروپ کو بھی جنگی تیاریوں میں مدد نہیں کریں گے۔ مکمل اور دیرپاسیز فائر کریں گے اور اپنا اسلحہ حکومت کے حوالے کریں گے اور ان کی مخالفانہ تحریکوں کا ساتھ نہیں دیں گے۔

معاہدے کے فوراً بعد اس سوال کا پیداہونا لازمی تھا کہ انجینیر حکمت یار کب کابل آئیں گے۔ امریکا نے ان کے سر کی قیمت ۲۵ملین ڈالر رکھی تھی اور اقوام متحدہ نے حزب اسلامی پر پابندی عائد کی ہوئی تھی، جس کی وجہ سے کئی یورپی ممالک نے بھی ان کے خلاف ہر قسم کی پابندیاں لگارکھی تھیں جن کی موجودگی میں ان کا منظر عام پر آنا ممکن نہیں تھا۔

اقوام متحدہ نے ۴فروری ۲۰۱۷ء کو گل بدین حکمت یار اور ان کی پارٹی پر عائد پابندیاں ختم کر دیں۔ اس طرح اب ان کے لیے ممکن ہوا ہے کہ وہ منظر عام پر آسکیں۔ امید کی جاتی ہے کہ وہ ماہِ مارچ میں جلال آباد کابل میں منظر عام پر آجائیں گے اور ان کا سرکاری سطح پر استقبال کیا جائے۔ یہ افغانستان میں ایک اہم پیش رفت ہو گی، جس سے مثبت توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔