ڈاکٹر فرینک ایلن


بارہا اس بات کو ثابت کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں کہ: ’’یہ عالمِ مادی اپنے وجود کے لیے کسی خالق کا محتاج نہیں ہے۔ لیکن چونکہ اس عالم کا وجود بہرحال ایک امرِواقعہ ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے لامحالہ اس کے موجود ہونے کی کوئی نہ کوئی توجیہہ کرنی پڑتی ہے۔ عام طور پر اس کی چار توجیہات پیش کی جاتی ہیں:

  •   اس دنیا کا وجود محض ایک فریب ِ نظر اور واہمہ ہے، اس کی اصل حقیقت کچھ بھی نہیں۔ 
  •   یہ کائنات اَزخود عدم سے وجود میں آگئی ہے۔
  •   یہ ازلی و ابدی ہے اور اس کا کوئی آغاز اور اختتام نہیں ہے۔
  •   یہ ایک خالق کی تخلیق کا شاہکار ہے۔

پہلی توجیہہ اگر تسلیم کرلی جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں انسانی شعور کی مابعد الطبیعی تعبیر کے سوا کوئی حل طلب مسئلہ ہی باقی نہیں رہتا، اور اسے خود ایک واہمہ قرار دیا جاچکا ہے۔ علمِ طبیعیات (Physics) کے ماہر سر جیمز جینز نے اپنی کتاب پُراسرار کائنات میں ان غیرحقیقی مفروضات پر ان الفاظ میں بحث کی ہے:

علمِ طبیعیات کے جدید تصورات کے مطابق کائنات کی کوئی مادی توجیہہ ممکن نہیں اور   اس کی وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ کائنات کا سارا معاملہ ہی ایک تخیلاتی معاملہ ہے۔

اس نقطۂ نظر کے مطابق گویا صورتِ حال یہ ہے کہ خیالی گاڑیاں، جو نظرِ بظاہر فرضی مسافروں سے لدی ہوئی ہیں، غیرحقیقی دریائوں کو تصورات کے ساختہ و پرداختہ پُلوں کے ذریعے عبور کررہی ہیں۔

دوسرا تصور کہ یہ مادہ و توانائی کی دنیا اَزخود پردئہ عدم سے وجود میں آگئی۔ یہ بھی اسی طرح ایک ایسا لغو مفروضہ ہے کہ اسے کسی طرح قابلِ غور نہیں قرار دیا جاسکتا۔

تیسرا خیال کہ یہ کائنات اَزلی و اَبدی ہے، نظریۂ تخلیق سے کم از کم اس پہلو سے میل کھاتا ہے کہ یا تویہ جامد مادّہ اپنے اندر مستور توانائی کے ساتھ اَزلی و ابدی وجود رکھتا ہے اور یا پھر اس کے خالق کی ذات اَزلی و اَبدی ہے۔ اس پہلو سے ان دونوں تصورات کے دلائل بھی تقریباً یکساں ہیں۔

لیکن حرکیات حرارت (Thermo Dynamics) کے قوانین سے یہ پتا چلتا ہے کہ کائنات بہ تدریج انحطاط پذیر ہے، اور ایک وقت آنے والا ہے جب تمام موجودات اپنی حرارت کھو بیٹھیں گی، توانائی و قوت فنا ہوجائے گی اور زندگی ناممکن ہوجائے گی۔ یہ دہکتا ہوا سورج، ستارے اور زندگی کے ہمہموں سے بھرپور یہ زمین اس حقیقت کی ایک جامع شہادت ہیں کہ اس کائنات کا کوئی نہ کوئی نقطۂ آغاز ضرور ہے اور ایک معین و مقرر ساعت میں یہ کائنات وجود میں   آئی ہے۔ اور یہی حقیقت اس امر کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ یہ کائنات خود بخود وجود میں نہیں آگئی بلکہ یہ کسی کی قوتِ تخلیق کا کرشمہ ہے۔ یہ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ علّت ِ اولیٰ کی حیثیت سے ایک اَزلی و اَبدی اور ایک علیم و قدیر ہستی کا وجود لازماً ہونا چاہیے۔ جس نے اس کائنات کو پیراہنِ وجود بخشا اور اس کی صورت گری کی۔

زندگی کو قائم و برقرار رکھنے کے لیے اس کرئہ ارضی پر اتنے بے شمار انتظامات نظر آتے ہیں کہ یہ کسی طرح باور نہیں کیاجاسکتا کہ یہ سب محض بخت و اتفاق کا نتیجہ ہیں۔

اوّلاً، یہ کرئہ زمین ایک گولے کی شکل میں خلا میں معلّق ہے۔{ FR 644 } اور اپنے قطبی محور پر اس طرح گردش کر رہا ہے کہ اس سے دن کے بعد رات اور رات کے بعد دن آتا ہے۔ پھر یہ کرہ  سورج کے گرد بھی گھوم رہا ہے اور سال کی معین مدت کے اندر اپنا ایک چکر پورا کرتا ہے۔ یہ حرکات خلا میں اس کو صحیح سمت میں قائم رکھتی ہیں۔ قطبی محور پر اپنے مدار کی جانب اس کا ۲۳درجہ جھکائو موسموں میں باقاعدگی پیدا کرتا ہے، جس کے نتیجے میں زمین کا زیادہ سے زیادہ رقبہ آبادکاری کے قابل ہوجاتا ہے اور مختلف انواع و اقسام کی رنگارنگ روئیدگی، زمین کی رونق و افادیت کو دوبالا کردیتی ہے۔  اگر یہ کرئہ زمین گردش کرنے کے بجاے ساکن و جامد ہوتا، تو نباتات اور پیداوار میں اتنی متنوع اور گوناگوں اقسام ممکن نہ ہوتیں۔

دوم، ایسی گیسیں جو بقاے حیات کے لیے ضروری ہیں، فضا میں تقریباً آٹھ سو کلومیٹر کی بلندی تک محیط ہیں، اور ان کا نہایت دبیز پردہ، کرئہ زمین کو اُن شہابوں کی تباہ کن بارش سے محفوظ رکھتا ہے جو روزانہ تقریباً ۲ کروڑ کی تعداد میں ۴۵ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے کرئہ ارضی کی فضا میں داخل ہوتے ہیں۔ دوسرے اثرات کے علاوہ اسی ہوا کا پردہ، درجۂ حرارت کو ان حدودِ اعتدال کے اندر رکھتا ہے، جو زندگی کی بقا کے لیے ناگزیر ہیں۔ ہوائیں بادلوں کی صورت میں سمندروں کے تازہ پانی کی بھاپ کو اُڑا کر خشکی کی طرف لے جاتی ہیں اور دُور دُور تک خشک اور پیاسی زمینوں کو سیراب کرتی ہیں۔ ورنہ یہ زمین بے آب و گیاہ صحرا میں تبدیل ہوجائے۔ گویا دوسرے لفظوں میں فطرت نے سمندروں اور ہوائوں کی ہم آہنگی کو اس کرئہ ارضی میں بقاے زندگی کا ذریعہ بنا دیا ہے۔

پانی میں چار اہم خصوصیات رکھ دی گئی ہیں: پہلی خصوصیت یہ کہ وہ کم سے کم درجۂ حرارت میں آکسیجن کی زیادہ سے زیادہ مقدار کو جذب کرتا ہے۔ دوسری خصوصیت یہ کہ نقطۂ انجماد سے ۴درجہ سنٹی گریڈ اُوپر اس کی کثافت (Density)انتہائی حد کو پہنچ جاتی ہے، جس کی وجہ سے دریا اور جھیلیں عموماً منجمد نہیں ہوتیں۔ تیسری خصوصیت یہ کہ برف کی کثافت پانی سے کم ہوتی ہے،   جس کی وجہ سے برف پانی کی سطح کے اُوپر ہی اُوپر رہتی ہے۔ اور چوتھی خصوصیت یہ کہ جب پانی جمنے لگتا ہے تو وہ کثیرتعداد میں حرارت خارج کرتا ہے۔ یہی وہ خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے سخت سردیوں کے طویل موسم میں جھیلوں، دریائوں اور سمندروں کے اندر بے شمار حیوانات زندہ رہتے ہیں۔ ورنہ اگر ان کا سارا پانی جم جاتا تو اِن میں کوئی زندگی ممکن نہ ہوتی۔

خشک زمین،زمین پر زندگی کے لیے ایک مستحکم بنیاد کا کام دیتی ہے۔ مٹی ایسے نمکیات مہیا کرتی ہے، جنھیں جذب کرکے مختلف قسم کی نباتات اور پودے دھرتی کا سینہ چیر کر باہر نکلتے ہیں اور جان دار مخلوق کے رز ق کا وسیلہ بنتے ہیں۔ اسی طرح زمین کی سطح کے بالکل قریب مختلف قسم کی دھاتوں کا وجود تہذیب کے نشوونما اور ارتقا میں ممد ومعاون ثابت ہوتا ہے۔

بعض لوگ فضاے بسیط کی بے اندازہ پہنائیوں میں اس ذرا سے کرئہ زمین کا کچھ اس طرح ذکر کرتے ہیں، جیسے یہ بڑی انمل بے جوڑ سی بات ہو۔ لیکن انھیں اس کا اندازہ نہیں کہ  اگر اس کا حجم کم و بیش ہوتا، تو اس میں زندگی محال ہوجاتی۔اگر یہ کرئہ زمین چاند جتنا چھوٹا ہوتا ، یعنی اس کا قطر اصل کی نسبت ۴/۱ ہوتا تو اس کی کششِ ثقل زمین کی موجودہ کششِ ثقل کا ۶/۱ رہ جاتی۔ اس میں پانی اور ہوا کا وجود ممکن نہ رہتا۔ اس میں درجۂ حرارت چڑھتا تو انتہائی حد تک جاپہنچتا اور گرتا تو انتہائی حد تک گرجاتا۔ 
اس کے برعکس کرئہ زمین کا قطر، اگر موجودہ قطر کی نسبت دگنا ہوتا تو اس کی سطح موجودہ سطح کے مقابلے میں چار گنا وسیع ہوجاتی، کششِ ثقل دگنی بڑھ جاتی، ہوا کے غلاف کا حجم خطرناک حد تک گھٹ جاتا اور اس کے دبائو میں فی مربع انچ ۱۵ تا ۳۰ پونڈ کا اضافہ ہوجاتا۔جس کا ردعمل زندگی پر نہایت مہلک ہوتا۔ ہمیشہ سرد رہنے والے خطوں میں نمایاں اضافہ ہوجاتا اور بہت تھوڑے ایسے علاقے باقی رہ جاتے، جہاں زندگی اور آبادی ممکن ہوسکتی۔ ایک علاقے کے رہنے والے دوسرے علاقے کے لوگوں سے بالکل کٹ جاتے۔ ذرائع رسل و رسائل اور ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں آمدورفت مشکل بلکہ تقریباً ناممکن ہوجاتی۔

اگر ہماری زمین سورج جتنی بڑی ہوتی اور اس کی کثافت برقرار رہتی تو اس کی کششِ ثقل ڈیڑھ سو گنا بڑھ جاتی، ہوا کے غلاف کی دبازت گھٹ کر ساڑھے سات سو کلومیٹر کے بجاے صرف چھے کلومیٹر رہ جاتی۔ پانی کا بھاپ میں تبدیل ہونا ممکن نہ رہتا، اور ہوا کا دبائو ایک ٹن فی مربع انچ تک جاپہنچتا۔ ایک پونڈ وزنی جانور کا وزن بڑھ کر ۱۵۰ پونڈ ہوجاتا۔ انسان کا جسم گھٹ کر گلہری کے برابر رہ جاتا، اور اس مخلوق میں کسی قسم کی ذہنی زندگی اور اس کی نشوونما ناممکن ہوجاتی۔
بخلاف اس کے کہ اگر زمین کا سورج سے موجودہ فاصلہ بڑھا کر دگنا کردیا جاتا، تو سورج سے حاصل ہونے والی حرارت کی مقدار گھٹ کر صرف ایک چوتھائی رہ جاتی۔ اس کی گردش کی رفتار نصف رہ جاتی، موسمِ سرما کا دورانیہ طویل ہوکر دگنا ہوجاتا اور زندگی منجمد ہوکر رہ جاتی۔

اگر سورج اور زمین کا درمیانی فاصلہ گھٹا کر نصف کردیا جاتا، تو سورج سے حاصل ہونے والی حرارت چار گنا بڑھ جاتی۔ زمین کی رفتارِ گردش دوگنی تیز ہوجاتی۔ موسموں میں اوّل تو تغیر کا امکان نہ رہتا اور اگر سردی کا موسم آتا بھی تو اس کی مدت نصف رہ جاتی اور کرئہ زمین پر تپش اس درجہ بڑھ جاتی کہ اس میں زندگی کا برقرار رہنا ممکن نہ ہوتا۔

یہ صرف کرئہ زمین کی موجودہ جسامت، اس کے سورج سے موجودہ فاصلے اور اس کی مقررہ رفتارِ گردش ہی کے برقرار رہنے کا نتیجہ ہے، کہ اس زمین پر جینا ممکن ہے اور بنی نوع انسان طبعی، ذہنی اور روحانی زندگی کی مسرتوں سے ہم کنار ہے۔
اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ اس عالمِ وجود کے پیچھے کوئی اسکیم اور کوئی کارفرما قوت موجود نہیں ہے، تو لامحالہ یہ قرار دینا پڑے گا کہ یہ عالمِ رنگ و بُو محض ایک اتفاقی حادثے کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوگیا۔ اب دیکھیے، بخت و اتفاق محض ایک فرضی چیز نہیں ہے بلکہ یہ ایک بہت ہی ترقی یافتہ حسابی نظریہ ہے، جس کا اطلاق ان اُمور پر کیا جاتا ہے جن میں قطعی اور یقینی معلومات ممکن نہیں ہوتیں۔ اس نظریے کے ذریعے ایسے بے لاگ اصول ہمارے ہاتھ آجاتے ہیں جن کی مدد سے ہم حق و ناحق میں بآسانی امتیاز کرسکتے ہیں اور کسی خاص نوعیت کے واقعے کے امکاناتِ صدور کا حساب لگاکر  صحیح صحیح اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اتفاقاً اس کا پیش آجانا کس حد تک ممکن ہے۔

پروٹین جو تمام ذی حیات خلیوں (Cells) کے لیے اجزاے لازم کی حیثیت رکھتے ہیں، پانچ عناصر پر مشتمل ہیں: کاربن، ہائیڈروجن، آکسیجن اور گندھک۔ ہر پروٹینی سالمہ (Molecule) ان عناصر کے ۴۰ ہزار دقیق ذرّات یا جواہر (Atoms) پر مشتمل ہوتا ہے۔ پھر کائنات میں ۹۲کیمیاوی عناصربالکل منتشر اور غیرمرتب حالت میں بکھرے ہوئے ہیں۔ اب اس امر کا امکان کہ ان ۹۲عناصر کے بے ترتیب ڈھیر میں سے نکل کر یہ پانچوں عناصر اس طرح باہم ملیں کہ ایک پروٹینی سالمہ آپ سے آپ وجود میں آسکے، کہاں تک ممکن ہے؟ مادّے کی وہ مقدار جسے مسلسل ملانے سے اتفاقاً یہ نتیجہ حاصل ہوسکتا ہو اور وہ مدت جس کے اندر اس کام کی تکمیل ممکن ہو، حساب لگاکر معلوم کی جاسکتی ہے۔ ایک سوئس حساب دان چارلس ایوجین گائی نے اس کا حساب لگایا ہے، اور اس کی تحقیق یہ ہے کہ اس طرح کے کسی اتفاقی واقعے کا امکان ۱۶۰ ۱۰ کے مقابلے میں صرف ایک درجہ ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ ۱۶۰ ۱۰ کا مطلب یہ ہے کہ ۱۰ کو ۱۶۰ مرتبہ پے درپے   ضرب دی جائے۔ گویا یہ ایک ایسا بعید از امکان قیاس ہے کہ اعداد کی زبان میں اس کا اظہار بھی مشکل ہے۔ صرف ایک پروٹینی سالمے کے اتفاقاً وجود میں آنے کے لیے اس پوری کائنات کے موجود مادّہ سے کروڑوں گنا زیادہ مقدارِ مادّہ مطلوب ہوگی جسے یک جا کرکے ملایا جائے، اور اس عمل سے کوئی نتیجہ برآمد ہونے کا ارب ہا ارب برسوں میں کہیں کوئی امکان ہوگا۔

پروٹین، امینو ایسڈز کے طویل سلسلوں سے وجود میں آتے ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ اہمیت اس طریقے کی ہے، جس سے یہ سلسلے باہم ملیں۔ اگر یہ غلط شکل میں یک جا ہوجائیں تو زندگی کی بقا کا ذریعہ بننے کے بجاے مہلک زہر بن جاتے ہیں۔ پروفیسر جے بی لیڈز (برطانیہ) نے حساب لگایا کہ ایک سادہ سے پروٹین کے سلسلوں کو لاکھوں ( ۴۸ ۱۰ ) طریقے سے یک جا کیا جاسکتا ہے۔ یہ کسی طرح عقل میں آنے والی بات نہیں ہے کہ ایک پروٹینی سالمہ کو وجود میں لانے کے لیے اتنے بہت سے بعید از امکان اتفاقات بیک وقت صادر ہوجائیں۔

پھر پروٹین خود ایک کیمیاوی شے ہے، جس میں زندگی موجود نہیں ہوتی۔ ان میں زندگی کی حرارت تو اسی وقت پیدا ہوتی ہے، جب ان کے اندر روح پھونکی جائے۔ صرف ایک عقل کُل، یعنی خدا ہی یہ سوچ سکتا تھا کہ زندگی کی آماج گاہ بننے کے لیے اس طرح کا ایک سالمہ موزوں ہوسکتا ہے، وہی اس سالمہ کی تخلیق کرسکتا تھا اور وہی اسے زندگی بخش سکتا تھا۔