ڈاکٹر علی بن عمربادحدح


ترجمہ: خدا بخش کلیار

اﷲ تعالیٰ نے انسان کو مٹی کی ایک مٹھی اور روح کی ایک پھونک سے پیدا فرمایا۔ مٹی کے جزو کے لیے کھانا پینا آسان کر دیا جس سے جسم نشوونما پاتا ہے اور بدن میں قوت آتی ہے‘لیکن جہاں تک روح کا تعلق ہے وہ ایک بڑا راز ہے جس کی حقیقت کو انسان نہیں سمجھ پاتا۔

روح کی غذا‘ قوت‘ زندگی اور اس کی حفاظت اس کے خالق اور موجد کے مقرر کردہ طریق کار سے ہی ممکن ہے: اَلاَ یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَط وَھُوَ الَّلطِیْفُ الْخَبِیْرُ (الملک  ۶۷:۱۴) ’’کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے؟ حالانکہ وہ باریک بین اور باخبر ہے‘‘۔ اﷲ تعالیٰ نے روح کے لیے وہ چیز بنائی ہے جس سے اسے بلندی‘ ارتقا‘ لطافت اور سرور حاصل ہو۔

ذکر: معنی و مفہوم

]’’ذکر‘‘ کا لفظ قرآن میں اصطلاحاً کلامِ الٰہی کے لیے استعمال ہوا ہے جو سراسر نصیحت بن کے آتا ہے۔ پہلے جتنی کتابیں انبیا پر نازل ہوئی تھیں وہ سب بھی ’’ذکر‘‘ تھیں اور یہ قرآن بھی ’’ذکر‘‘ ہے۔ ذکر کے اصل معنی ہیں ’’یاد دلانا‘‘، ’’ہوشیار کرنا‘‘، اور ’’نصیحت کرنا‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۲‘ ص ۴۹۸)[

’’روح کو جس چیز سے سب سے زیادہ توانائی اور راحت حاصل ہوتی ہے وہ اس کے خالق کا ذکر ہے۔اسی سے وہ غذا پاتی ہے اور وہی اس کی معراج اور زینت ہے۔ وہی اس کا ہتھیار ہے جس سے وہ تقویت پاتی ہے۔یہ وہ پروانۂ ولایت ہے کہ جسے دیا گیا وہ منزل پر پہنچا اور جس سے روک لیا گیا وہ محروم رہا۔ یہ لوگوں کے دلوں کی خوراک ہے کہ جب وہ نہیں ملتی تو ان کے جسم قبریں بن کر رہ جاتے ہیں۔ یہ ان کے گھروں کی آبادی ہے کہ جب وہ اس سے خالی ہو گئے تو وہ برباد ہو گئے۔ یہ وہ اسلحہ ہے جس کے ساتھ وہ رہزنوں سے لڑتے ہیں۔یہ وہ پانی ہے جس سے وہ آگ کے شعلے بجھاتے ہیں اور یہ بیماریوں کی وہ دوا ہے کہ جب نہیں ملتی تو ان کے دل بیمار پڑجاتے ہیں۔ یہ قرب کا وہ وسیلہ ہے جو انھیں علام الغیوب تک پہنچاتا ہے۔ اسی کے ذریعے وہ آفات سے اپنا دفاع کرتے ہیں‘ اسی سے تکالیف دور ہٹاتے ہیں اوراسی کے باعث مصیبتیں ان پر آسان ہوجاتی ہیں ۔ جب ان پر کوئی آزمایش آتی ہے تو وہی ان کی پناہ گاہ ہے۔جب بلائیں ان پر نازل ہوتی ہیں تو وہی ان کو بچاتا ہے۔ وہی ان کے جنت کے باغات ہیں جن میں وہ چلتے پھرتے ہیںاور ان کی خوش بختی کا راس المال بھی وہی ہے جس سے وہ تجارت کرتے ہیں۔وہ افسردہ دل کو مسرت سے ہم کنار کر دیتا ہے۔ وہ ذاکر کو مذکور سے ملاتا ہے اور اسے ذاکر و مذکور بنا دیتا ہے‘‘ (تہذیب المدارج‘ ص ۴۶۳) --- کتنی عمدہ ہے ذکر کی یہ تعریف جو ابن القیمؒ نے کی ہے۔ وہ کتنے بڑے صاحب فہم ہیں۔ ان معانی پر غور تو کرو!

اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:  یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا (الاحزاب ۳۳: ۴۱ )  ’’اے لوگو!جو ایمان لائے ہو‘ اﷲ کو کثرت سے یاد کرو‘‘۔ اور اس کے لیے وقت کی کوئی تخصیص نہیں۔ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:  وَمِنْ آنَائِ اللَّیْلِ فَسَبِّحْ وَاَطْرَافَ النَّھَارِ لَعَلَّکَ تَرْضٰی (طٰہٰ ۲۰: ۱۳۰)  ’’اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دن کے کناروں پر بھی‘ شاید کہ تم راضی ہو جاؤ‘‘۔اور کوئی حالت بھی ذکر سے مستثنیٰ نہیں‘ فرمایا: اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ (آل عمران ۳:۱۹۱) ’’وہ ہوش مند لوگ جو اٹھتے ‘بیٹھتے اور لیٹتے ‘ ہر حال میں اﷲ کو یاد کرتے ہیں‘‘۔

ذکر غفلت اور نسیان کی ضد ہے۔ غفلت ذکر کو عمداً  ترک کر دینا اور نسیان غیر ارادی طور پر ذکر کا ترک ہوجانا ہے۔ قرآن کریم میں غفلت کا حوالہ اس سے ممانعت اور اس سے پرہیزکے ضمن میں دیا گیا ہے۔  وَاذْکُرْ رَبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَۃً وَّ دُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَ لاَ تَکُنْ مِّنَ الْغَافِلِیْنَ(الاعراف ۷:۲۰۵) ’’ا پنے رب کو صبح و شام یاد کیا کرو‘دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ ‘اور ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں‘‘۔ نیز اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:  وَلاَ تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ھَوَاہُ وَ کَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا (الکہف  ۱۸:۲۸) ’’کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریق کار افراط و تفریط پر مبنی ہے‘‘۔ نسیان اس طرح کا نہیں ہوتا کیوں کہ اس کا صدور ارادے سے نہیں ہوتا اور اس سے متعلق قرآن عظیم نے وضاحت کی ہے: وَاذْکُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ (الکہف ۱۸:۲۴)   ’’اوراگر بھول ہو جائے تو اپنے رب کی تسبیح و تحمید اور اس سے استغفار کرو‘‘۔

ذکر دو معنوں پر مشتمل ہے:

قلبی ذکر : تذکر کے معنی کسی شے کا ذہن میں اس طرح استحضار ہے جیسا کہ تمھارا یہ کہنا’’ مجھے ایک ایسا اور ایسا حادثہ یا د آتا ہے ‘‘جب کہ تم نے اس حادثے کو اپنے ذہن میں حاضر کر لیا اور اس کی تفصیلات ذہن کے پردے پر آگئیں۔ یہ معنی ہیں نسیان کی ضد کے۔اور اسی سے متعلق اﷲ تعالیٰ کا قول ہے: وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَھُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ  فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ (آل عمران ۳:۱۳۵) ’’ایسے نیک لوگ جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اﷲ انہیں یا د آجاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں‘‘۔پس ذکر کی بنیاد دل میں مذکورہ شے کی یاد اور توجہ ہے۔

قولی ذکر: اس سے مراد زبان سے الفاظ کی ادایگی ہے اور اسی مفہوم میں عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے لہٰذا جب یہ کہا جائے کہ:’’ فلاں صاحب پابندی سے اذکار کرتے ہیں‘‘ تو مفہوم یہی ہوتا ہے کہ وہ الفاظ سے انھیں ادا کرتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا (الاحزاب۳۳:۴۱) ’’اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو اﷲ کو کثرت سے یاد کرو‘‘۔

زبان سے قول کو ذکر کا نام دیا گیا ہے۔ کیوں کہ وہ دل کے ذکر پر دلیل ہے۔ اور زیادہ تر زبانی قول کو ذکر کا نام دیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ شعوری طور پر وہی ذہن میں آتاہے۔ (المفہم‘۶-۷)

لہٰذا ہمارے نزدیک ذکر دو چیزوں پر مشتمل ہے۔ ذکر تذکر کے معنی میں‘ جس سے مقصود اﷲ کی یاد‘ اس کی عظمت و خشیت‘ اس کی حفاظت و نگرانی‘ اس کی نعمت کااحساس ‘ حتیٰ کہ بندے کے دل میں اس کی بڑائی سما جائے۔ وہ اﷲ سے ڈرے اور سمجھے کہ وہ  اس کی نظر میں ہے اور اس کی نعمت کا شکر ادا کرے۔ اسی طرح سے زبان سے ذکر ہے جو قلبی ذکر کا ثمرہ ہے‘ اس پرگواہ ہے اور اس کی ترجمانی کرنے والا ہے۔ پس جس نے اﷲ کی عظمت کو دل میں جگہ دی‘ اپنی زبان سے اﷲ کی تسبیح ‘ تہلیل اور تکبیر کی‘ اس کے حضور میں گریہ وزاری اور دعا کی‘ وہی صحیح معنوں میں ذاکر ہے۔

دائمی ذکر

]اللہ کو کثرت سے یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی زبان پر ہر وقت زندگی کے ہر معاملے میں کسی نہ کسی طرح خدا کا نام آتا رہے۔ یہ کیفیت آدمی پر اُس وقت تک طاری نہیں ہوتی جب تک اس کے دل میں خدا کا خیال بس کر نہ رہ گیا ہو۔ انسان کے شعور سے گزر کر اس کے تحت الشعور اور لاشعور تک میں جب یہ خیال گہرا اُتر جاتا ہے تب ہی اس کا یہ حال ہوتا ہے کہ جو کام اور جو بات بھی وہ کرے گا اس میں خدا کا نام ضرور آئے گا۔ کھائے گا تو بسم اللہ کہہ کر کھائے گا۔ فارغ ہوگا تو الحمدللہ کہے گا۔ سوئے گا تو اللہ کو یاد کرکے اور اُٹھے گا تو اللہ ہی کا نام لیتے ہوئے۔ بات چیت میں بار بار اس کی زبان سے بسم اللہ‘ الحمدللہ‘ ان شاء اللہ‘ ماشاء اللہ اور اس طرح کے دوسرے کلمات نکلتے رہیں گے۔ اپنے ہر معاملے میں اللہ سے مدد مانگے گا۔ ہر نعمت ملنے پر اس کا شکر ادا کرے گا۔ ہر آفت آنے پر اس کی رحمت کا طلب گار ہو گا۔ ہرمشکل میں اس سے رجوع کرے گا۔ ہر برائی کا موقع سامنے آنے پر اس سے ڈرے گا۔ ہر قصور سرزد ہوجانے پر اس سے معافی چاہے گا۔ ہر حاجت پیش آنے پر اس سے دعا مانگے گا۔ غرض اٹھتے بیٹھتے اور دنیا کے سارے کام کاج کرتے ہوئے اس کا وظیفہ خدا ہی کا ذکر ہو گا۔ یہ چیز درحقیقت اسلامی زندگی کی جان ہے۔ دوسری جتنی عبادات ہیں ان کے لیے بہرحال کوئی وقت ہوتا ہے جب وہ ادا کی جاتی ہیں اور انھیں ادا کر چکنے کے بعد آدمی فارغ ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ وہ عبادت  ہے جو ہر وقت جاری رہتی ہے اور یہی انسان کی زندگی کا مستقل رشتہ اللہ اور اس کی بندگی کے ساتھ جوڑے رکھتی ہے خود عبادات اور تمام دینی کاموں میں بھی جان اسی چیز سے پڑتی ہے کہ آدمی کادل محض ان خاص اعمال کے وقت ہی نہیں بلکہ ہمہ وقت خدا کی طرف راغب اور اس کی زبان دائماً اس کے ذکر سے تررہے۔ یہ حالت انسان کی ہوتو اس کی زندگی میں عبادات اور دینی کام ٹھیک اسی طرح پروان چڑھتے اور نشو و نما پاتے ہیں جس طرح ایک پودا ٹھیک اپنے مزاج کے مطابق آب و ہوا میں لگا ہوا ہو۔ اس کے برعکس جو زندگی اس دائمی ذکر خدا سے خالی ہو اس میں محض مخصوص اوقات میں یا مخصوص مواقع پرا دا کی جانے والی عبادات اور دینی خدمات کی مثال اس پودے کی سی ہے جو اپنے مزاج سے مختلف آب و ہوا میں لگایا گیا ہوا اور محض باغبان کی خاص خبر گیری کی وجہ سے چل رہا ہو۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۹۶-۹۷)[

ذکرکا مقام و مرتبہ

ذکر اکبر:  اﷲ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اُتْلُ  مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَط اِنَّ الصَّلٰوۃَ  تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِط وَلَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرُ ط وَاﷲ ُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ (العنکبوت ۲۹:۴۵) ’’اے نبیؐ، تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمھاری طرف وحی کے ذریعہ سے بھیجی گئی ہے اور نماز قائم کرو۔ یقینا نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے اور اﷲ کا ذکر اس سے زیادہ بڑی چیز ہے۔ اﷲ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو‘‘۔یہ آیت کریمہ واضح دلیل ہے اس پر کہ اﷲ کا ذکر فقط کبیر نہیں ہے بلکہ اکبر ہے اور یہی اس کی اہمیت اور عظیم مرتبے کی دلیل ہے۔

علما ومفسرین نے ذکر کے کئی واضح اور آسان معانی بیان کیے ہیں جو قابلِ توجہ ہیں اور ذکر اکبر کی وضاحت کرتے ہیں۔

اول: اﷲ کا ذکر ہر چیز سے بڑا اور افضل عبادت ہے کیوں کہ جملہ طاعات کا مقصود اﷲ کے ذکر کا قیام ہے ۔ وہ عبادات کا راز اور ان کی روح ہے۔ اس لیے کہ اس کی حقیقت اﷲ سے تعلق ‘اس کی عظمت کا استحضار ‘اس کی نگرانی کا شعور اور اس کے انعامات کی یاد ہے۔  لہٰذا عبادات سب کی سب ذکر ہیں۔

دوم: جب تم اﷲ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہو تو وہ تمھارا ذکر کرتا ہے۔ اس کا تمھارے لیے ذکر ‘ اس کے لیے تمھارے ذکر سے بہت بڑا ہے‘ اوریہ عظیم بات ہے۔ اے ضعیف اور عاجز انسان! تو قوی اور قادر مطلق اﷲ کا ذکر کرتا ہے ‘ تو فقیر اور حقیر انسان غنی اور عظیم اﷲ کا ذکر کرتا ہے۔تیرے ذکر کے مقابلے میں اس کا ذکر کتنا عظیم اور کتنا بلند ہے!

سوم:  اﷲ کا ذکر اس سے بلند و برتر ہے کہ اس کے ساتھ فحش اور منکر باقی رہے بلکہ جب ذکر مکمل ہوتا ہے تو خطا اور معصیت کو مٹا دیا جاتا ہے۔ بخدا! ذکر بہت بڑی چیز ہے۔ (تہذیب المدارج‘ ص ۴۶۳)

اجرعظیم: اگرچہ ذکر بذات خود بہت بڑی چیز ہے مگرا س کا اجر بھی بہت بڑا ہے۔ حضرت ابوالدرداء ؓ کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا : کیا میں تم کو وہ عمل نہ بتاؤں جو تمھارے سارے اعمال میں بہتر اور تمھارے مالک کی نگاہ میں پاکیزہ تر ہے۔وہ تمھاری روحوں کودوسرے تمام اعمال سے زیادہ بلند کرنے والا ہے اور راہِ خدا میں سونا اور چاندی خرچ کرنے سے بھی زیادہ اس میں خیرہے‘ اور تمھارے لیے اس میں جہاد سے بھی زیادہ خیر ہے جس میں تم خدا کے دشمنوں کی گردنیں مارو اور وہ تمھاری گردنیں ماریں؟صحابہؓ نے  عرض کیا : کیوں نہیں‘ یارسولؐ اﷲ! فرمائیے۔آپؐ نے فرمایا:وہ اﷲ عزوجل کا ذکر ہے۔ (مسند احمد‘ جامع ترمذی‘ ابن ماجہ)

اﷲ اکبر! کتنا بڑا درجہ ہے۔ وہ اﷲ کی راہ میں مال کے خرچ کرنے اوراس کی راہ میں جان قربان کرنے سے بھی بڑا ہے۔غور کرو کہ کس طرح سے نبی ؐ نے یہ بات فرمائی جو اس اجر کی عظمت کا اظہار کرتی اور اس کا شوق دلاتی ہے۔ آنحضورؐنے اس سوال سے ابتدا کی جو جاذب قلب ونظر ہے‘ اور سوال کا مضمون ایسا ترتیب دیا کہ جس سے اہل ایمان میں بے قراری‘  ان کے دلوں میں ولولہ اورجذبات میں تلاطم پیدا ہوا۔ وہ اسے جاننے کے لیے بے تاب ‘ اس پر لبیک کہنے کے مشتاق اور عملی اقدام کے لیے کمربستہ ہو گئے۔ یہ ذکر کی اہمیت ‘ اس کی بلند منزلت اور اس کے اظہار اور معانی کے واضح ابلاغ کا طریقہ تھا جو آنحضورؐ نے اختیار فرمایا۔

عبادات سے تعلق: ذکر طاعات کا نچوڑ اور عبادات کاجوہر ہے اور اکثر ظاہری فرائض اور شعائر کی بنیاد ہے۔ عبادات کی ادایگی سے قبل ان کے لیے تیاری ہوتی ہے اور ذکر ان کے اعمال اور ارکان کے ساتھ ان کے جزو کے طور پر ہوتا ہے اور عبادات سے فراغت پر اسی کے ساتھ ان کا اختتام ہوتا ہے۔

ہم نماز ہی کی مثال لیتے ہیں۔ ذکر نماز سے پہلے آتا ہے۔ اذان ذکر ہے جو تکبیر‘ تہلیل اور شہادتین کے الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے اور مؤذن کی متابعت سنت ہے۔ نبی ؐنے فرمایا :اذان سے فراغت کے بعد جس نے کہا:  اَللّٰھُمَّ  رَبَّ  ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ  التَّامَّۃِ وَالصَّلاَۃِ  الْقَائِمَۃِ   اٰتِ  مُحَمَّدًا  نِ الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا  نِ الَّذِیْ وَعَدْتَّہٗٓ(اے اﷲ اس دعوت تامہ ‘ کاملہ اور اس صلوٰۃ قائمہ کے رب ! محمد(ﷺ) کووسیلہ اور فضیلت کا خاص مرتبہ عطا فرما اور ان کو مقام محمود پر سرفراز فرما جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے) تووہ بندہ قیامت کے دن میری شفاعت کا حق دار ہوگا (بخاری)۔ نماز سے قبل وضو ‘ شرائط نماز میں سے ہے اور وضو سے فارغ ہونے کے بعد بھی ذکر ہے‘ جیسا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ  سے روایت کردہ حدیث میں ہے کہ نبی ؐ نے فرمایا: ’’ تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس نے کامل وضو کیا‘ پھر کہا:  اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْکَ لَہ‘ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ مگر یہ کہ اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھل گئے‘ جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے ‘‘ (مسلم)۔ اور  ترمذی نے  اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ کا اضافہ کیا ہے۔

نص قرآنی کی رو سے نماز کا مقصود ذکر ہے۔  وَاَقِمِ الصَّلاَۃَ لِذِکْرِیْ(طٰہٰ ۲۰:۱۴) ’’اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر‘‘۔ اس کا رکن اول ‘تکبیر تحریمہ ذکر ہے اور اس کا رکن اعظم فاتحہ کی قرأت ذکرہے۔ اور اس کے رکوع میں اﷲ کے عظیم نام کی تسبیح ہے اوراس کے سجدے میں اس کے اسم اعلٰی کی تسبیح ہے اور رکوع سے اٹھنے پر حمد ہے اور ذکر ہے۔ اس کے دو سجدوں کے درمیان استغفار ہے اور ذکر ہے‘اور نماز کی ادایگی کے بعد ذکر کی ہدایت کی گئی ہے۔ فَاِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوۃَ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ قَیَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْ (النساء ۴: ۱۰۳) ’’ پھر جب نماز سے فارغ ہو جاؤ تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ‘ ہر حال میں اﷲ کو یاد کرتے رہو‘‘۔ نبی ؐ السلام علیکم کہنے کے بعد تین مرتبہ استغفر اﷲ کہتے جیسا کہ حضرت ثعبان ؓسے روایت ہے کہ نبی ؐ جب نماز سے سلام پھیرتے تو تین مرتبہ استغفار کی دعا کرتے اور کہتے:  اَللّٰھُمَّ اَنْتَ السَّلاَمُ وَ مِنْکَ السَّلاَمُ تَبَارَکْتَ یَاذَالْجَلاَلِ وَاْلاِکْرَامِ (مسلم)۔ اور نمازوں کے بعد بہت سے اذکار مسنونہ کی روایت ہے۔ چنانچہ نماز ساری کی ساری ثنا ہے‘ خشوع و خضوع ہے اور دعا ہے۔

دوسری مثال حج کی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  لَیْسَ عَلَیْکُمْ  جُنَاحٌ  اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلاً مِّن رَّبِّکُمْ ط فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ص وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ھَدَاکُمْ (البقرہ ۲ :۱۹۸) ’’اور حج کے ساتھ ساتھ تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ‘ تواس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ پھر جب عرفات سے چلو‘ تو مشعرحرام (مزدلفہ) کے پاس ٹھہر کر اﷲ کو یاد کرو اور اسی طرح یاد کرو جس کی ہدایت اس نے تمھیں کی ہے‘‘۔ حج کا آغاز ذکرہی سے ہوتا ہے۔ احرام کی ابتدا تلبیہ سے ہوتی ہے اور یہ وہ ذکر ہے جس کے ساتھ آوازیں رب سموات وارض کی توحید اور اس کے حضور حاضری کے اعلان کے ساتھ بلند ہوتی ہیں۔طواف اور سعی ذکر ہے ‘اور تکبیر ہے اور تہلیل ‘ جیسا کہ نبی ؐنے فرمایا: ’’بیت اﷲ کا طواف اور صفا و مروہ کے درمیان سعی اور رمی جمار اﷲ کے ذکر کے لیے مقرر کیے گئے ہیں‘‘۔ عرفات کا وقوف پورے کا پورا اذکار اور دعائیں ہیں اور اس بار ے میں رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا کہ  بہترین کلمہ وہ ہے جو میں کہتا ہوں اور مجھ سے پہلے انبیا علیہم السلام نے کہا: لا الٰہ الا اﷲ۔ اور حج کے اختتام پر ذکر کی نصیحت ہے: فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِکَکُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَذِکْرِکُمْ آبَآئَ کُمْ اَوْاَشَدَّ ذِکْرًا (البقرہ ۲: ۲۰۰) ’’ پھر جب اپنے حج کے ارکان ادا کر چکو ‘ تو جس طرح پہلے اپنے آبا و اجداد کا ذکر کرتے تھے‘ اس طرح اب اﷲ کا ذکر کرو‘ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر‘‘۔ حتیٰ کہ جہاد میں صف بندی‘ تلواروں کے ٹکرانے اور اس میں موت کے وقت بھی ذکر کی ہدایت ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَاذْکرُوُا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ (الانفال۸ :۴۵) ’’اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو ‘ جب کسی گروہ سے تمھارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اﷲ کو کثرت سے یا دکرو‘ توقع ہے کہ تمھیں کامیابی نصیب ہوگی‘‘۔

اہل ذکر‘ سبقت لے جانے والے: ذکر بہت بڑی چیز ہے ‘ اس کا اجربہت بڑا ہے اور  اہل ذکر سبقت لے جانے والے ہیں۔جیسا کہ رسولؐ اﷲ نے فرمایا: مفردون سبقت لے گئے۔ عرض کیا گیا کہ اے اﷲ کے رسولؐ!مفردون کون ہیں؟ فرمایا: بکثرت ذکر کرنے والے مرد اور بکثرت ذکر کرنے والی عورتیں۔ (مسلم)

مفردین کے معنی میں ابن قتیبہ نے کہا ہے : وہ لوگ جن کی نسل ہلاک ہو گئی اور وہ تنہا رہ گئے اور اﷲ کا ذکر کرتے ہوئے باقی رہے۔ اور ابن اعرابی نے کہا: وہ آدمی جس نے غوروفکر کیا اور امر بالمعروف و نہی عن المنکرکے فریضہ کی ادایگی میں یکسو ہو گیا۔ اور ازہری نے کہا: وہ جو اﷲ کا ذکر کرتے ہوئے پیچھے رہ گئے ہیں(مسلم‘ بشرح النووی)۔ مقصد یہ ہے کہ وہ اس اہم صفت کے باعث جس نے ان کو سبقت لے جانے والے بنا دیا دوسروں سے ممتاز اور منفرد ہیںاور وہ صفت کثرتِ ذکر ہے۔

اہل ذکر کا بلند مرتبہ : اہل ذکر فقط نوع بشر کے ہی سابقین نہیں بلکہ وہ بزرگ فرشتوں کے‘ جو کبھی اﷲ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انھیں دیا جاتا ہے بجا لاتے ہیں ‘ مشابہ اور ان کے ہاں فخرو مباہات کے مقام پر فائز ہیں۔ وہ فرشتے جو فرماں برداری کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ‘ جن کی تخلیق عبادت پر ہے اور جو دن رات بغیر توقف کے اﷲ کی تسبیح بیان کرتے ہیں کیوں کہ ان کی پیدایش کی اصل اور ان کے وجود کی غایت ہی ذکر اور عبادت ہے۔ اور اس سب کچھ کے باوجود مومن اہل ذکر وہ بلند منزلت رکھتے ہیںکہ اﷲ تعالیٰ اہل ذکر کا  فرشتوں سے فخرکے ساتھ ذکر فرماتے ہیں۔ (تہذیب المدارج‘ ص۴۶۶)

اس دلیل کی وضاحت حضرت معاویہ ؓ کی روایت سے ہوتی ہے کہ نبی صلی اﷲعلیہ وسلم اپنے اصحاب کے حلقہ میں تشریف لائے اور استفسار فرمایا:کس چیزنے تمھیں یہاں بٹھایا ہے؟ انھوں نے جواب دیا:’’ہم اﷲ کا ذکر اور اس کی حمد کر رہے ہیں کہ اس نے ہمیں اسلام کی طرف ہدایت دی اور اس کے ساتھ ہم پر احسان فرمایا۔ آنحضور ؐ نے فرمایا:تمھیں اﷲ کی قسم!کیا صرف اسی چیز نے تمھیں بٹھایا ہے ؟ انھوں نے عرض کیا: بخدا! ہمیں صرف اسی چیزنے بٹھایا ہے۔ آپؐ نے فرمایا:’’خدا کی قسم! میں نے تم سے حلف تمھارے اوپر کسی بدگمانی کے باعث نہیں لیا بلکہ میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے ہیں اور انھوں نے مجھے بتایا ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرشتوںکے سامنے تمھارے اوپر فخرفرما رہا ہے‘‘۔ (النہایہ‘ ۱۶۹؍۱)

فرشتے مجالسِ ذکر تلاش کرتے ہیں‘ وہاں جمع ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو ان کی طرف بلاتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ  سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا : بے شک اﷲ تعالیٰ کے معزز فرشتے جو مجالس ذکر کی تلاش میں پھرتے رہتے ہیں ‘ جو نہی وہ کسی مجلس کو پالیتے ہیں جس میں ذکر ہورہا ہو تو ان کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں‘ ایک دوسرے کو اپنے پروں سے ڈھانک لیتے ہیں حتیٰ کہ زمین اور آسمان دنیا کے مابین کو بھر دیتے ہیں(مسلم)۔ مشہور حدیث ہے :’’جب اﷲ کے گھروں میں سے کسی گھر میں لوگ کتاب اﷲ کو پڑھتے ہیں اور ایک دوسرے کو سکھانے کے لیے جمع ہوتے ہیں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے ‘رحمت انھیں ڈھانک لیتی ہے ‘ فرشتے ان کا احاطہ کر لیتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ ان کا ذکر اپنے مقرب فرشتوں سے فرماتے ہیں‘‘(مسلم) ۔اور سب سے بڑی بات تو وہ ہے جو اﷲ تعالیٰ نے فرمائی: فَاذْکُرُونِیْٓ اَذْکُرْکُمْ  وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلاَ تَکْفُرُوْنِ(البقرہ ۲:۱۵۲)  ’’تم مجھے یاد رکھو‘ میں تمھیں یا د رکھو ںگا اور میرا شکر کرو‘ کفران نعمت نہ کرو‘‘۔کون سا شرف اور کون سا فخر اس سے برتر ہے کہ اﷲ رب العالمین انھیں یاد فرماتا ہے۔حدیث قدسی ہے : ’’میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں۔ جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے پاس ہوتا ہوں‘ جب وہ مجھے اپنے نفس میں یاد کرتا ہے تو میںاسے اپنے نفس میں یاد کرتا ہوں اور جب وہ میرا ذکرمجمع میں کرتا ہے تو میں اس کا ذکر اس سے بہتر مجمع (فرشتوں) میں کرتا ہوں‘‘۔

ذکر کے فوائد و ثمرات

اجر و ثواب کا آسان نسخہ

مسلمان ثواب کے حصول کا حریص اور زیادہ سے زیادہ نیکیوں کا طلب گار ہے۔طاعات میں کوشاں رہتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تم مصروفیات کی کثرت‘ مشکلات‘دل کش بہکاووں اور تفریح گاہوں کے ہوتے ہوئے بھی فکرمند رہتے ہوکہ اپنی نیکیوں کے کھاتے میں اضافہ کرو۔ آئو میں تمھیں بتاتا ہوں کہ ذکر اجر کے بہت بڑے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔ میں تمھیں ذکر کے بڑے اجر وثواب کا انکشاف کرنے والی نصوص کا چھوٹا سا مجموعہ پیش کروں گا جو سمندر میں سے ایک قطرے کے مصداق ہے ۔

(الف)  حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسولؐ اﷲ نے فرمایا:’’ جس نے ہر فرض نما زکے بعد ۳۳ مرتبہ سبحان اﷲ ‘ ۳۳ مرتبہ الحمد للّٰہ اور ۳۳ مرتبہ اﷲ اکبر کہا اور یہ ۹۹ ہوئے اور ۱۰۰ پورا کرنے کے لیے لا اِلٰہ الا اﷲ وحدہ لا شریک لہ‘ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر کہا تو اس کی خطائیں معاف کر دی گئیں‘ اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں‘‘۔(مسلم)

(ب)۔ حضورؐ کا ارشاد ہے :’’ دو کلمے ہیں جو زبان پر بہت ہلکے مگر میزان میں بہت وزنی ہیں‘ رحمان کو بہت پیار ے ہیں: سبحان اﷲ و بحمدہ‘ سبحان اﷲ العظیم‘‘- (متفق علیہ )

(ج)  حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ:’’جس نے  لا الہ الا اﷲ وحدہ لا شریک لہ‘ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قد یر دن میں  ۱۰۰ مرتبہ کہا تو   اس کے لیے ۱۰ غلاموں کو آزاد کرنے کے ساتھ ۱۰۰ نیکیاں لکھی جائیں گی اور ا س کے ۱۰۰ گناہ مٹا دیے جائیں گے‘ اور اس دن شام تک وہ شیطان کے شر سے بچا رہے گا۔ اور جس شخص نے  یہ پڑھا تو کوئی اس سے بہتر عمل نہ کر سکے گا سوائے ا س کے جو اس عمل کو اس سے زیادہ  کرے۔ (مسلم)

(د)  حضور ؐ نے فرمایا : ’’مجھے سبحان اﷲ والحمد للّٰہ ولا الہ الا اﷲ واﷲ اکبر کہنا ہر اس چیز سے عزیز تر ہے جس پر سورج چمکتا ہے۔ (مسلم)

(ہ)  حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا کہ ہم رسولؐ اﷲ کے پا س جمع تھے کہ آنحضورؐ نے فرمایا:’’ کیا تم میں سے کوئی اس سے عاجز ہے کہ وہ روزانہ ہزار نیکیاں کما لے؟‘‘ مجلس میں سے کسی نے سوال کیا:’’وہ ہزار نیکیاں کیسے کما سکتا ہے ؟‘‘ تو آپ ؐ نے فرمایا:’’وہ ۱۰۰ مرتبہ سبحان اﷲ کہے تواس کے لیے ہزار نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس کی ہزار خطائیں مٹا دی جائیں گی۔‘‘ (مسلم)

حفظ و سلامتی

اﷲ تعالیٰ نے ذکر کرنے والے کے لیے ذکر کو شیطان کے وسوسے‘ اس کی برائی ‘ اس کی پھونک اورتھوک سے حفاظت کا ذریعہ بنایا ہے۔ لہٰذا ذاکر‘ اﷲ کے اذن سے محفوظ رہتا ہے اور اسے کوئی تکلیف نہیں چھوتی۔ ذکر سے اسے محفوظ پناہ گاہ اور مضبوط باڑ حاصل ہے‘ اس لیے کہ اس کے دل میں اﷲ کی یاد ہے اور اس کی زبان پر اﷲ کا ذکر ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے:

ا -  حضرت عبداﷲ بن خبیب ؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ :’’تم  قل ھو اﷲ اور معوذتین صبح و شام تین تین مرتبہ پڑھو‘ وہ تمھارے لیے ہر چیز سے کفایت کریں گی۔‘‘ (ابوداؤد‘ ترمذی)

ب-  حضرت ابوہریرہؓ سے رسولؐ اﷲ کا ارشاد مروی ہے کہ ’’جب نماز کے لیے نداد ی جاتی ہے تو شیطان گوز اڑاتا ہوا پیچھے کو بھاگتا ہے اور جب اذان ہوچکتی ہے تو وہ آگے بڑھتا ہے۔اور جب تکبیر کہی جاتی ہے تو پیچھے ہٹ جاتا ہے۔جب اقامت ہو چکتی ہے تو آگے بڑھتا ہے۔ وہ آدمی کے دل میں وسوسے ڈالنا شروع کر دیتا ہے اور کہتا ہے فلاں چیز یاد کر‘ فلاں چیز یاد کر۔جب تک کہ وہ یاد نہیں کر لیتا اس کو اس کی وسوسہ اندازی جاری رہتی ہے۔حتیٰ کہ بندے کو کچھ یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی نماز پڑھی ہے‘‘۔(متفق علیہ)

ج-  حضرت انس ؓ نے کہاکہ رسولؐ اﷲ کا فرمان ہے:’’ جو شخص اپنے گھر سے نکلا اور اس نے بِسْمِ اللّٰہَ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ پڑھ لیا  توا سے کہا جاتا ہے کہ تیرے لیے  یہ کافی ہے اور تو بچ گیا اور تو نے ہدایت حاصل کرلی۔ اور شیطان کو اس سے ہٹا دیا جاتا ہے‘‘۔ (ترمذی)

د-  حضرت عثمان بن عفان ؓ نے کہا کہ رسولؐ اﷲ نے فرمایا ہے کہ ’’جو مسلمان ہر روز صبح اور شام کو  بِسْمِ اﷲِ الَّذِیْ لاَ یَضُرُّ مَعَ اسْمِہٖ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَلاَ فِی السَّمَآئِ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ (اس اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جس کے نام کے ساتھ زمین و آسمان میں کوئی چیز ضرر نہیں پہنچا سکتی‘ وہ سننے اور جاننے والا ہے)۳مرتبہ پڑھے اسے کوئی شے نقصان نہیں دے گی ‘‘۔ (ابوداؤد ‘ ترمذی)

ھ- حضرت ابومسعود انصاری ؓ نے حضور ؐ سے روایت کیا ہے ’’ جو شخص سورہ البقرۃ کی آخری دو آیات رات کے وقت پڑھ لے تو وہ اس کے لیے کفایت کریں گی۔‘‘ (متفق علیہ )

ذرا تم ان اثرات پر غور کرو جو ذاکر ہونے سے تم حاصل کرو گے۔ اپنے ماحول پر نظر دوڑاؤ اور اپنے اردگرد کے لوگوں کو دیکھو۔ تم دیکھو گے کہ کسی کو جن نے چھو رکھا ہے ‘ کوئی سحر زدہ ہے یا اسے شیطان نے بہکا رکھا ہے‘اور تم اﷲ کے فضل سے اس سب کچھ سے محفوظ ہو۔  بلکہ اﷲ عز وجل کا ذکر نفاق سے امان ہے کیوں کہ منافقین اﷲ تعالیٰ کا ذکر کم ہی کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں فرمان الٰہی ہے: لاَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اِلاَّ قَلِیْلاً (النساء ۴:۱۴۲) ’’وہ خدا کو کم ہی یاد کرتے ہیں‘‘۔ حضرت کعبؓ نے کہا:’’ جس نے اﷲ کا ذکر کثرت سے کیا وہ نفاق سے بری ہو گیا (الوابل الصیب ‘ص ۱۷۲۔۱۷۳) ۔ابوخلاد المصری نے ذکر کی قلعہ  بندی کے بارے میں کتنی عمدہ با ت کہی ہے:’’ جو اسلام میں داخل ہو ا وہ قلعہ میں داخل ہوا‘ جو مسجد میں داخل ہو ا وہ دو قلعوں میں داخل ہوااور جو اﷲ کا ذکر کرنے والی مجلس میں بیٹھا وہ تین قلعوں میں داخل ہوگیا‘‘۔(الوابل الصیب )

علم اور زندگی

ذکر دلوں کی زندگی اور غفلت ان کی موت ہے۔  ذکر سے دلوں کو حقیقی ایمان کی زندگی ملتی ہے اور اﷲ کے ساتھ دائمی تعلق قائم ہوتا ہے۔ حضور ؐ سے روایت ہے:’’ اپنے رب کو یاد کرنے والے اور اسے یاد نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی ہے‘‘ (بخاری)۔  مسلم کی روایت ہے:’’اس گھر کی مثال جس میں اﷲ کا ذکر ہوتا ہے زندہ کی ‘ اور جس گھر میں ذکر نہیں ہوتا مردہ کی ہے‘‘۔ گھرکے زندہ اور مردہ سے مراد گھر کے رہنے والے ہیں۔ ذاکر کے زندہ ہونے کا ظاہری پہلو یہ ہے کہ وہ نور حیات سے مزین ہے‘ اور اس کا باطن نور معرفت سے‘ جب کہ ذکر نہ کرنے والوں کے گھر ظاہری طور پر بنجر اور باطنی طو رپر ویران اور تاریک ہوتے ہیں۔

جب دل زندہ ہوتا ہے تووہ ایما ن کے ساتھ آباد ہوتا ہے اور اسی وجہ سے نصیحت اس پر اثر انداز ہوتی ہے اور یاد دہانی اسے فائدہ دیتی ہے‘ وعدہ اسے طمع اور ترغیب دلاتا ہے اور وعید اسے خوف دلاتی ہے۔پس وہ زندگی میں کامل اور بڑا اثر قبول کرنے والا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ:

(الف)  وہ نرم ہوتا ہے  نہ کہ سخت۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُھُمْ وَ قُلُوْبُھُمْ اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ (الزمر ۳۹:۲۳) ’’اﷲ کا ذکر(قرآن مجید) سن کران لوگوں  کے جسم اور ان کے دل نرم ہوکر اﷲ کے ذکر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں‘‘۔ اور جس کا دل سخت ہوا اور وہ اسی حال میں مر گیا ‘ اس کے بارے میں اﷲ کا فیصلہ ہے:  فَوَیْلٌ لِّلْقَاسِیَۃِ قُلُوْبُھُمْ مِّنْ ذِکْرِ اﷲِ  (الزمر۳۹:۲۲) ’’تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جن کے دل اﷲ کی نصیحت سے اور زیادہ سخت ہو گئے‘‘۔ایک شخص نے حسن بصریؒ سے کہا ’’اے ابوسعید !میں تم سے اپنے دل کی قساوت کی شکایت کرتا ہوں‘‘۔ انھوں نے کہا:’’اسے ذکر سے پگھلاؤ۔ یہ اس لیے کہ دل میں جتنی شدید غفلت ہوتی ہے ‘ اتنی ہی شدید اس میں سختی آتی ہے اور جب اس میں اﷲ کی یاد آتی ہے تویہ قساوت تحلیل ہوجاتی ہے‘‘۔

بے شک قرآن کریم زندہ دلوں کوتحریک دیتا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَوا اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیَاتُہ‘ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ (الانفال۸:۲) ’’سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اﷲ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اﷲ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے ‘ اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں‘‘۔بلکہ ذکر کا اثر بہت بڑا ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: لَوْ اَنْزَلْنَا ھٰذَا الْقُرآنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہ‘ خَاشِعاً  مُّتَصَدِعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اﷲِ (الحشر۵۹:۲۱) ’’اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اﷲ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے ‘‘۔

(ب)  وہ یاد رکھنے والا نہ کہ بھلا دینے والا اور غور وفکر کرنے والا نہ کہ غفلت شعار ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰیٰتِ لِّاُ ولِی  الاَلْبَابِo اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِھِمْ وَ یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِج  رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلاً ج سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ(آل عمران۳:۱۹۰-۱۹۱) ’’زمین اور آسمانوں کی پیدایش میں اور رات اور دن کے باری باری  سے آنے میں ان ہوش مند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں جو اٹھتے‘ بیٹھتے اور لیٹتے‘ ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور زمین اور آسمانوں کی ساخت میں غور وفکر کرتے ہیں۔ (وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں) ’’ پروردگار‘ یہ سب کچھ تونے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے‘ تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے۔پس اے رب‘ ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے‘‘۔ جب اس نے عظمت تخلیق دیکھی تو اس نے خالق کو یاد کیا‘ اس کی تسبیح بیان کی‘ اسی کے بارے میں غور وفکر کیا اور نتیجتاً دل کی گہرائیوں سے توجہ اورعجز و نیاز کے ساتھ ا س کو یاد کیا۔پھر اس کے حضور میںآتش دوزخ کے عذاب سے بچنے کی دعا اور گریہ وزاری میں مشغول ہوا۔ ذکر کی بدولت زندہ ہونے کی تاثیر سے جس کے دل کی یہ کیفیت ہو تواس کا دل علم و عمل اور فہم و ادراک کی بہترین حالت میں ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے : وَاتَّقُوا اللّٰہَط وَیُعَلِّمُکُمُ اللّٰہَط وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ  (البقرہ  ۲:۲۸۲)  ’’اﷲ کے غضب سے بچو ‘ وہ تم کو صحیح طریق عمل کی تعلیم دیتا ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے‘‘۔

پس جس نے اپنے رب کا ذکر کیا اس کا دل پاک و صاف ہو گیا‘ اس کا فہم بڑھ گیا ‘ اﷲ نے اس کے علم و فہم میں اضافہ کر دیا حتیٰ کہ اس کا دل صفائی اورشفافیت میں اس درجہ کو پہنچ گیا کہ وہ حق و باطل میں تفریق کر سکتا ہے۔  یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّ یُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ ط وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ (الانفال۸:۲۹)  ’’اے لوگو‘ جوایمان لائے ہو‘ اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اﷲ تمھارے لیے کسوٹی بہم پہنچا دے گا اور تمھاری برائیوں کو تم سے دور کرے گا اور تمھارے قصور معاف کرے گا‘ اﷲ بڑا فضل فرمانے والا ہے‘‘۔ لیکن وہ جس کا دل مردہ ہو گیا وہ فہم و ادراک سے محروم ہو گیا کیوں کہ دل دو چیزوں ‘ غفلت اور گناہ سے زنگ آلود ہوتا ہے‘ اور اس کی جِلا دو چیزوں‘ استغفار اور ذکر سے ہوتی ہے۔ پس جو اکثر اوقات غفلت میں رہتا ہوتواس کے دل پر زنگ تہہ بہ تہہ چڑھ جاتا ہے اور وہ زنگ اس کی غفلت کی نسبت سے ہوتا ہے۔ اور جب دل زنگ آلود ہو جاتا ہے توا س میں معلومات کی صورتیں اپنی اصلی حالت میں منعکس نہیں ہوتیں ۔ وہ باطل کو بصورت حق دیکھتا ہے اور حق کو بصورت باطل۔ کیوں کہ تہہ بہ تہہ زنگ سے دل تاریک تر ہو جاتا ہے اور اس میں حقائق کی صورتیں اصلی حالت میں نہیں آتیں ۔ پس جب دل پر تہہ بہ تہہ زنگ چڑھ گیا اور وہ بہت سیاہ اور میلاکچیلا ہو گیا توا س نے اس کے فہم و ادراک کوروک دیا۔(الوابل الصیب ‘ ص ۸۹)

عبودیت اور استعانت

ذاکر‘ ذکر کے ساتھ اپنے رب کی بندگی کی حقیقت اور اس سے استعانت کی طلب کو اپنے ذہن میں تازہ کرتا ہے‘ کیوں کہ اذکار کے الفاظ اﷲ کی عظمت کا اقرار ‘ اور اس کی نعمتوں پر اس کی حمد اور اس کی توحید کا اعلان کرتے ہیں۔ جب ذاکر کہتا ہے : سبحان اﷲ والحمد للّٰہ ولا اِلٰہ الا اﷲ واﷲ اکبر ‘تو اس کو اس کا شعور بھی ہوتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جس نے اپنے رب کو واحد باور کیا‘ اس کی تعظیم کی تو وہ اس کی جناب میں اپنے فقر کا شعور رکھتا ہے ‘اور اپنے آپ کو اس کے حضور میں گرا پڑامحسوس کرتا ہے اور اس کی مدد کا طلب گار ہوتا ہے۔ اگر دوسرے رخ سے دیکھا جائے تو ذاکر ہر طرح کے حالات میں ذاکر ہوتا ہے ‘ نتیجتاً وہ ہر عمل کی ابتداء میں یا حالات کے بدلنے پر اﷲ کو یاد کرتا ہے تواسے اپنی حاجت یاد آ جاتی ہے جس کے لیے وہ اﷲ سے مدد کی درخواست کرتا ہے‘مثلاً جب وہ گھر سے نکلتا ہے تواس موقع کے لیے ایک ذکر ماثور ہے۔ جب اس نے  ذکر کے وہ الفاظ کہے تواسے اپنے رب سے اپنی حفاظت اور اپنے رزق کے لیے مدد مانگنا یا د آگیا اور جب وہ کسی موٹر کار یا کسی جانور پر سوار ہوا اور ا س نے اﷲ کا زبان سے ذکر کیا تو اس کے دل میں اﷲ کی یاد آگئی اور اسے اپنی حاجت کے لیے اﷲ سے مدد مانگنے کا خیال آگیا‘ اور اسی طرح سے جب اس نے لباس پہنایا اسے اتارااور جب وہ سویا یا بیدار ہوا تو اس نے اﷲ سے استعانت کی حاجت محسوس کی۔

بسم اللّٰہ کی مثال

ہم بسم اﷲ کی واضح مثال لیتے ہیں جس کاہرکام کے آغاز میں پڑھنا نبی ؐ کی حدیث کی روسے مستحب ہے۔ آنحضورؐ نے فرمایا:’’ہر وہ عمل جو بسم اﷲ سے شروع نہ کیا گیا وہ بے برکت ہوا‘‘۔ اعمال کے آغاز میں‘ نیز کثیر اذکار میں بسم اﷲ وارد ہے۔پس کھانا کھانے کے وقت بسم اﷲہے‘ گھر میں داخل ہونے اور نکلنے کے وقت بسم اﷲ ہے اور اس کے دو معانی ہیں:

۱-  جب بندے نے کہا بسم اﷲ تواس کو اپنا خالق و مالک یاد آیا اور یہ کہ وہ عاجز بندہ ہے جومسلسل اﷲ کا ذکر کرتا اور اسی کا نام لیتا رہتا ہے اور اس کے فضل کااعتراف کرتا رہتا ہے۔ دنیا میں لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ ہر معاملے میں اپنے مالک کا ذکرکرتے رہتے ہیں۔ فرد کا نام اس کے مالک کے نام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ حالانکہ اعلیٰ مثال تو اﷲ ہی کی ہے۔پس اے انسان! تو بندگی میں اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اﷲ کے نام کے ساتھ لوگوں سے مخاطب ہو۔

۲- بسم اﷲ کہنے میں اللہ کی مدد کی طلب بھی ہے۔جس طرح کہ کھانے کے وقت جب بندہ کہتا ہے کہ میں اﷲ کے نام کے ساتھ کھاتا ہوں اور نکلنے کے وقت وہ کہتا ہے کہ میں اﷲ کے نام کے ساتھ نکلتا ہوں‘ تواس کے اندر بھی مدد کی طلب پائی جاتی ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ بندے کے لیے مصائب برداشت کرنے اور آزمایشوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اﷲ کا ذکر بہت بڑی تاثیر کا حامل ہے۔ مصیبت کے وقت وہ کہتا ہے:  اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ(البقرہ۲:۱۵۶) ’’ہم اﷲ ہی کے ہیں اور اﷲ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘ تو ا س کے نفس کو سکون اور دل کو اطمینان نصیب ہوجاتا ہے۔ اس کی عزیمت قوی اور اس کی ہمت بلند ہو جاتی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ اﷲ کا ذکر مشکل کو آسانی‘ تنگی کو فراخی اور مشقت کو خفیف کر دیتا ہے۔ اﷲ کا ذکر شدت کے بعد خلاصی‘ تنگی کے بعد فراخی‘ رنج و غم کے بعداس سے رہائی ہے۔ وہ ذاکر کو قوت مہیا کرتا ہے۔ ذکر کے ساتھ وہ وہ کچھ کرنے کی استطاعت رکھتا ہے جو اس کے بغیر نہیںکرسکتا۔ (الوابل الصیب‘ص ۱۶۳)

جب حضرت فاطمہؓ بنت محمد ؐنے اپنے والد گرامی جناب رسولؐ اﷲ سے گھر کے کام میں معاونت کے لیے خادم مانگا تو آنحضورؐنے انھیں اور ان کے شوہر حضرت علیؓ سے فرمایا:’’کیا تمھیں وہ چیز نہ بتاؤں جو تمھارے لیے خادم سے بہتر ہے؟ جب تم بستر پر لیٹو تو اﷲ کی تسبیح ۳۳ مرتبہ‘ تحمید ۳۳ مرتبہ اور تکبیر ۳۴ مرتبہ کرو۔ یہ تم دونوں کے لیے خادم سے بہتر ہے‘‘(متفق علیہ)۔

طمانیت وسکینت

اﷲسبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں: اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُھُمْ بِذِکْرِاﷲِ ط اَلاَ بِذِکْرِ اﷲِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ (الرعد۱۳:۲۸) ’’جنھوں نے نبیؐ کی دعوت کو مان لیا‘ان کے دلوں کو اﷲ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خبردار رہنا اﷲ کی یاد ہی وہ چیزہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے‘‘۔  یہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کے لیے اطلاع ہے کہ وہ اپنے دلوں کو اﷲ کے ذکر سے مطمئن کریں۔ وہ دلوں کے قلق و اضطراب کو زائل کر دے گا اور انھیں راحتیں اور لذتیں مہیا کرے گا۔ مزیدیہ کہ وہ اﷲ کے ذکر کے سوا کسی چیز سے مطمئن ہوتے بھی نہیں۔ کیوں کہ دلوں کے لیے ان کے خالق کی محبت ‘اس کے انس اور اس کی معرفت سے بڑھ کر کوئی چیز لذیذ نہیں۔ (تفسیر السعدی‘ج ۴‘ ص ۱۰۸)

طمانیت ‘ دل کا کسی چیز کے ساتھ سکون حاصل کرنا اوراضطراب و قلق کا خاتمہ ہے۔ (تہذیب المدارج‘ ص ۵۰۳)۔ ذاکر کا سکونِ قلب خوش حالی و بدحالی ‘تنگی و فراخی ہر حال میں دائمی ہے۔

اگر ذکر سے یہاں مراد قرآن کریم ہے توقرآن وہ ہے جس سے اہل ایمان کے دلوں کو طمانیت حاصل ہوتی ہے۔دل ایمان اور یقین کے بغیر مطمئن نہیں ہوتے اور ایمان و یقین کے حصول کا کوئی راستہ قرآن کریم کے علاوہ نہیں ہے۔ دل کا سکون اور اس کی طمانیت یقین سے ہے‘ جب کہ اس کا اضطراب اور قلق شک سے ہے۔ پس جس نے قرآن سے تعلق پیدا کر لیا تو اس سے اسے عقل کا اطمینان ‘نفس کی سکینت میسر آئی اور اس کے دل نے ایمان و یقین کے ساتھ سکون پا لیا۔

ذکر برکت ہے

اﷲ تعالیٰ کا ذکر‘ ذاکرین کے افعال اور ان کے معمولات میں برکت پیدا کرتا ہے۔ ذکر منعم کی نعمت اور رازق کی عطا پر دل و دماغ میں اس کی یاد تازہ کرتا ہے۔ ذکر منعم کے شکر اور اس کی حمد پرمشتمل ہے۔جس نے اﷲ کی نعمت کا اقرار کیا اور اس پر اس کا شکر ادا کیا تو اﷲ تعالیٰ نے وہ نعمت ا س کے لیے محفوظ فرما دی بلکہ اس میں اضافہ فرمایا جیسا کہ اﷲ عزوجل کا ارشاد ہے: لَئِنْ شَکَرْتُمْ  لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ (ابراھیم۱۴:۷) ’’ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘۔

امام مسلم کی صحیح روایت کردہ حدیث پر غور کرو کہ حضورؐ نے فرمایا:’’ اﷲ اس بات کو پسند فرماتا ہے  کہ بندہ جب کھانا کھاتا ہے توا س پر اﷲ کی حمد بیان کرتا ہے اور جب کوئی مشروب پیتا ہے تو اس پر اﷲ کی حمد بیان کرتا ہے‘ اور یہ سب کچھ کھانا اور پینا اسے کھلانے ‘ پلانے‘ عطا کرنے والے کی یاد دلاتا ہے۔‘‘ پس وہ منعم کی عظمت کو اپنے ذہن میں تازہ کرتے ہوئے اور اس کی نعمت کی قدر و قیمت کا اندازہ لگاتے ہوئے جو کہ اس نے انسانوں کے لیے آسان فرما دی ہے‘ اس کی حمد و شکر کے ساتھ اپنی زبان کو تر رکھتا ہے۔

پانی ہی کو لیجیے جو ایک نعمت ہے ۔ اگر انسان کو ا س سے محروم کر دیا جائے تواس کی کتاب زندگی کا آخری صفحہ آجائے اور وہ دنیا کو چھوڑ جائے۔ پانی کا ایک پیالہ شدید پیاس کی حالت میں پوری دنیا کے برابر ہے‘ توپھر ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ ہم نہ تو اﷲ کی حمد بیان کرتے ہیں اور نہ اس کا شکر ادا کرتے ہیں! کیا اس کی تذکیر و تنبیہ ہماری آنکھیں نہیں کھولتی؟ اَلاَ یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ  ط وَھُوَ الَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ (الملک۶۷:۱۴)  ’’کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے ؟ حالانکہ وہ باریک بین اور باخبر ہے‘‘۔ کیا ہم اس کی تحذیر سے  نہیں ڈرتے؟  اَفَرَاَیْتُمُ الْمَآئَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ o ئَ اَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَo لَوْ نَشَآئُ جَعَلْنَاہُ اُجَاجًا فَلَوْ لاَ تَشْکُرُوْنَ(الواقعہ۵۶:۶۸-۷۰) ’’کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا‘ یہ پانی جو تم پیتے ہو اسے تم نے بادل سے برسایا ہے یا اس کے برسانے والے ہم ہیں؟ ہم چاہیں تواسے سخت کھاری بنا کر رکھ دیں‘ پھر کیوں تم شکر گزار نہیں ہوتے؟‘‘

ذکر سے برکت حاصل ہوتی ہے‘ جب کہ اس کو مٹانے والی چیز کو روک دیا جائے اور ابلیس کے تسلط اور کھانے پینے میں شرکت سے تحفظ حاصل کرلیاجائے۔حدیث میں ہے:’’ شیطان آدمی کے ساتھ شریک ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ کھانے پینے میں حصہ دار بن جاتا ہے‘جب کہ اسے وہاں سے ہٹانے والا کوئی ذکر نہ ہو‘ روکنے والا کوئی مضبوط قلعہ نہ ہو اور اس کو رد کرنے والی کوئی دعا نہ ہو‘‘۔

بیشتر لوگ اس ذکر مسنون سے بے خبرہیں جو آدمی کو اپنی اہلیہ کے ساتھ مباشرت کے موقع پر کرنا چاہیے۔ غلبہ خواہش کے وقت اسے بھول جاتے ہیں‘ حالانکہ وہ بڑا اہم ذکر ہے۔ اﷲ نے جو اولاد ان کے مقدر میں لکھی ہو‘ اس کے حفظ و امان میں اس ذکر کی تاثیر ہوتی ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے:  لَوْ اَنَّ اَحَدَکُمْ اِذَا اَرَادَ اَنْ یَاْتِیَ اَھْلَہٗ قَالَ بِسْمِ اﷲِ اَللّٰھُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا فَاِنَّہٗ یُقَدَّرُ بَیْنَھُمَا وَلَدٌ لَمْ یَضُرَّہٗ شَیْطَانٌ اَبَدًا (متفق علیہ) ’’جب تم میں سے کوئی بیوی کے پاس جاتے وقت بسم اﷲ کہے اور یہ کہے ’’اے اﷲ! تو شیطان کے شرسے ہمیں بچا اور جو اولاد ہمیں عطا کرے اسے بھی بچا تو اگر ان کے بچہ مقدر ہوگا تو شیطان اس کو کبھی نقصان نہ پہنچا سکے گا‘‘۔ اس حدیث میں مذکور اس حفاظت کے معانی میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شیطان اس پر اﷲ کے نام کی برکت کی وجہ سے کبھی غالب نہ آئے گا۔ اس میں وہ سارے بندے پیش نظر ہیں جن کے متعلق کہا گیا ہے: اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ  لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطَانٌ اِلاَّ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغَاوِیْنَ(الحجر۱۵:۴۲) ’’بے شک جو میرے حقیقی بندے ہیں ان پر تیرا بس نہ چلے گا۔ تیرا بس تو صرف ان بہکے ہوئے لوگوں پر ہی چلے گا جو تیری پیروی کریں‘‘۔

اجر و ثواب کے ان عظیم فوائد اور آثار پر غور کرو‘ نیز حفظ و سلامتی‘ زندگی اور علم ‘ برکت اور نعمت‘ عبودیت اور استعانت اور جو اس سے بھی عظیم تر ہے اس پر غور کرو۔

کیا تم اپنے نفس کے لیے بخل کرنے اور اسے ان بھلائیوں اور برکتوں سے محروم رکھنے پر راضی ہو؟ کیا تم اجر سے بے نیا زہو کر ذکر کو ترک کر دو گے‘ جب کہ وہ اجرکا بڑا ذریعہ اور سبب ہے؟

تم کیسے اپنے نفس کو شیطان کی تیر اندازی اور اپنے دل کو اس کے غلبے کے لیے کھلاچھوڑ دو گے‘ جب کہ تم ذکر کرنے والوں میں سے نہ ہوئے؟ اور تم اپنے دل کے روگ اور اس کی موت کا احساس نہ کرو گے‘ جب تم منکر پر نکیر نہ کرو گے اور اﷲ کی حرمات کی حفاظت کے حریص نہ بنو گے؟

تم کیسے اپنے ضعفِ فہم اور قلت ِعلم کی طرف توجہکرو گے‘ جب کہ تم غافل رہو گے؟اور تم کیسے اپنے خالق ‘ اپنے مالک ‘ اپنے رازق اور نعمتوں کے عطا کرنے والے کے ذکر سے غافل بنوگے؟ بلاشبہہ ان میں سے کوئی چیز بھی تمھیں پسند نہیں بلکہ تم ان سب سے پناہ مانگتے ہو۔ لہٰذا ذکر کی طرف بڑھو‘ اس کے خواہش مند بنو اور اس میں سے مسنون اذکار حفظ کر لو‘ ان کے ساتھ اپنے دل کو متحرک کرو اور اپنی عقل کو ان میں مشغول رکھو‘ اور اپنی زبان کو ان کے ساتھ تر رکھو تاکہ تم ذاکرین میں شمار کیے جاؤ اور علیین میں اٹھائے جاؤ۔

ذکر کی صفات و خصوصیات

ذکر کی اس تاثیر اور اجر کے ساتھ کچھ ایسی خصوصیات بھی ہیں جو ان کو اختیار کرنے میں مددگار ہیں۔

سہولت و آسانی

ذکرسہل ہے ‘مشکل نہیں۔ وہ کسی بدنی عمل کا محتاج نہیں اور نہ ذہنی کاوش ہی کا۔ وہ استحضار قلب اور تعاون نفس کے ساتھ زبان سے ادایگی ہے‘ جب کہ دوسری عبادات میں بڑی محنت ہوتی ہے۔ رمضان کے روزوں میں بھوک و پیاس کی مشقت ہوتی ہے۔ زکوٰۃ میں بذل و انفاق کی نفسیاتی مشقت ہوتی ہے۔ حج میں سفر اور مناسک کی ادایگی میں بدنی مشقت ہوتی ہے۔ مگر ذکر سب سے زیادہ آسان عبادت ہے اور پھر وہ ان میں سے برتر و افضل بھی ہے‘ جب کہ وہ زبان کی حرکت ‘اعضا و جوارح کی حرکات میں سے سب سے ہلکی اور آسان ہے۔(الوابل الصیب‘ ص ۹۷)

مزید برآں ذکر کی کوئی شرائط نہیں ہیں‘ مثلاً نماز کے لیے وضو اور وقت کا ہونا ناگزیر ہے‘ اور حج کے لیے بیت اﷲ کا قصد ضروری ہے‘ اورزکوٰۃ سال میں صرف ایک بار ہے‘ اور روزوں کے لیے رمضان کا چاند نظر آنا ضروری ہے لیکن ذکر میں اس طرح کی کوئی قید نہیں۔ وہ جملہ عبادات میں سے سب سے زیادہ آسان ہے جس میں کوئی محنت و مشقت نہیں۔عبید بن عمیر نے اس بارے میں کہا ہے:’’اگر یہ رات تم پر بھاری ہے کہ تم اس کی مشقت جھیلو‘ اور اگر تم نے مال خرچ کرنے میں بخل سے کام لیا ہے‘ اور اگر تم دشمن خدا سے لڑنے سے اجتناب کرتے ہو توکثرت سے اﷲ عزوجل کا ذکر کرو۔‘‘

جامعیت اور تنوع

ذکربلا قید دن اور رات کے تمام اوقات پر مشتمل ہے۔  فَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوْبِھَا ج وَمِنْ اٰنَآئِ اللَّیْلِ فَسَبِّحْ وَ  اَطْرَافَ النَّھَارِ لَعَلَّکَ تَرْضٰی (طٰہٰ۲۰:۱۳۰) ’’پس اے نبیؐ، جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان پر صبر کرو‘ اور اپنے رب کی حمد وثنا کے ساتھ اس کی تسبیح کرو‘ سورج نکلنے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دن کے کناروںپر بھی‘ شاید کہ تم راضی ہوجاؤ‘‘۔ا س کی ادایگی ہر جگہ اور ہر حال میں بیٹھے‘ کھڑے اور لیٹے کی جاسکتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں‘‘(آل عمران۳:۱۹۱) ۔ اس طرح کا کوئی اور عمل نہیں ہے جس میں اوقات واحوال کی عمومیت پائی جاتی ہو۔ (الوابل الصیب‘ص ۱۰۸)

اس مرحلے پر ہم رسولؐ اﷲ کے معمول مبارک سے متعارف ہوتے ہیں کہ حضور ؐ ہر حال میں اﷲ کا ذکر کرتے تھے۔ اور ذکر میں تنوع وہ خصوصیت ہے جو بہت سارے اذکار مسنون کے ضمن میں نمایاں ہے۔دعاے استفتاح میں رسولؐ اﷲسے متنوع صورتیں وارد ہیں اور صبح و شام کے بہت سے اذکار ہیں جن میں سے بعض دوسروں سے بے نیا زکردیتے ہیں۔

ہم آہنگی و بلاواسطہ

ذکر جس میں قلب زبان کے ساتھ ہوتا ہے‘ نفس پر اس کی عظیم اور براہ راست تاثیر ہوتی ہے‘ اس لحاظ سے کہ وہ زبان کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے ۔جس پر کوئی مصیبت آپڑی اور اس نے کہا: انا للّٰہ وانا الیہ راجعون اور  لا حول و لا قوۃ الا باﷲ  تواس نے شرح صدر اور اطمینان قلب محسوس کیا اور  اﷲ تعالیٰ کے فیصلے اور اس کی تقدیر پر اپنی رضا کا اظہار کیا۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’تم مجھے یاد رکھو میں تمھیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو‘ کفران نعمت نہ کرو ۔ اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو صبر اور نماز سے مدد لو‘‘(البقرہ۲:۱۵۲-۱۵۳) ۔اسی لیے ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کی تلاوت ہر مصیبت میں جاے پناہ اور ہر تکلیف میں موجب راحت ہے۔

ذکر کی اقسام

ذکر کی کئی قسمیں ہیں۔ ابن القیم ؒ نے کہا ہے:’’ذکر کی تین قسمیں ہیں: وہ ذکر جس میں دل زبان کا رفیق ہو‘ وہ سب سے اونچا  درجہ ہے۔ اور دل کے ساتھ ذکر اس کا دوسرا درجہ ہے۔ اور صرف زبان سے ذکر اس کا تیسرا درجہ ہے۔‘‘(تہذیب المدارج‘ ص ۴۶۷)

ابن حجر ؒنے کہا ہے: ’’ ذکر بعض اوقات زبان سے ہوتا ہے اور اس پر ذاکر کو اجر دیا جاتا ہے اور اس کے معانی کا استحضار شرط نہیں ہے۔ لیکن وہ اس سے مشروط ہے کہ اس کا مقصود اس کے معنی کے علاوہ کچھ اور نہ ہواور اگر الفاظ کے ساتھ دل کو ملا لیا جائے تو وہ کامل ترہے۔ اگر زبان وقلب کے ساتھ معنی کو جمع کر لیا جائے اور وہ اﷲ تعالیٰ کی عظمت پر مشتمل ہو اور اس کے نقائص سے مبرا ہو تو اس کے کمال میں اضافہ ہو جائے گا‘اوراگر یہ ذکر نماز اور جہا دجیسے دیگر فرائض میں واقع ہو تواس کا کمال اور بڑھ جائے گا۔ اگر اس میں توجہبھی درست ہو اور نیت بھی خالصتاً اﷲ تعالیٰ کے لیے ہو توکمال آخری حد کو پہنچ جائے گا‘‘(الفتح ‘ج ۱۱‘ ص ۲۰۹)۔

فخرالدین رازیؒ نے کہا ہے: ’’ زبان کے ذکر سے مراد وہ الفاظ ہیں جو اﷲ کی تسبیح‘ تحمید‘ تکبیر اور تمجید پر دلالت کرتے ہوں ۔ دل کے ساتھ ذکر‘ اﷲ تعالیٰ کی ذات و صفات کے شواہد میں غور و فکر کرنا ہے۔ اﷲ کی تخلیق کے آثار میں غور و فکر‘ نیز اوامر و نواہی کے دلائل میں سوچ بچار‘ حتیٰ کہ بندہ ان کی حکمت سے آگاہ ہو جائے ۔ اعضاے جسمانی کے ساتھ ذکر دراصل طاعات میں شدتِ انہماک ہے‘‘۔ (الفتح ‘ ج۱۱‘ ص ۲۰۹)

ابن القیم ؒنے کہا ہے:’’ذکر کی تین قسمیں ہیں:ثنا‘ دعا اور رعایت۔ ذکرِ ثنا یوں ہے : سبحان اﷲ والحمد للّٰہ ولا اِلٰہَ اِلاَّ اﷲ واﷲ اکبر۔  ذکرِ دعا: رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَاسکتۃ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(الاعراف ۷:۲۳)’’اے رب ‘ ہم نے اپنے اوپر ستم کیا اور اگر تُو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا   تو یقینا ہم گمراہ ہو جائیں گے‘‘۔  یاحی یاقیوم برحمتک استغیث۔ا ور جہاں تک     ذکرِ رعایت کا تعلق ہے تو وہ ذاکر کے اس قول کے مثل ہے: اللھم معی‘ اللّٰہ ناظر علی ‘ اﷲ شاھدی‘ اور اس طرح کا ذکر جس سے اﷲ کے ساتھ حضوری کی تقویت استعمال کی جاتی ہے ۔ اور اس میں دل کی اصلاح کی رعایت ہو‘ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ ادب کی حفاظت‘ اور غفلت اور شیطان اور نفس کی برائی سے اجتناب ہو۔ (تہذیب المدارج‘ ص ۴۶۸)

ذکر کس لیے؟

]اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر کی ضرورت و اہمیت کے حوالے سے فرمایا: ’’اے نبیؐ، اپنے رب کو صبح و شام یاد کیا کرو۔ دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ۔ تم ان لوگوں میں سے نہ ہو جائو جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں‘‘۔ (الاعراف ۷:۲۰۵)

یاد کرنے سے مراد نماز بھی ہے اور دوسری قسم کی یاد بھی‘ خواہ وہ زبان سے ہو یا خیال سے۔ صبح و شام سے مراد یہی دونوں وقت بھی ہیں اور ان اوقات میں اللہ کی یاد سے مقصود نماز ہے‘ اور صبح و شام کا لفظ ’’دائماً‘‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس سے مقصود ہمیشہ خدا کی یاد میں مشغول رہنا ہے… اس کی غرض یہ بیان کی گئی ہے کہ تمھارا حال کہیں غافلوں کا سا نہ ہوجائے۔ دنیا میں جو کچھ گمراہی پھیلی ہے اور انسان کے اخلاق و اعمال میں جو فساد بھی رونما ہوا ہے اس کا سبب صرف یہ ہے کہ انسان اس بات کو بھول جاتا ہے کہ خدا اُس کا رب ہے اور وہ خدا کا بندہ ہے اور دنیا میں اُس کو آزمایش کے لیے بھیجا گیا ہے اور دنیا کی زندگی ختم ہونے کے بعد اسے اپنے رب کو حساب دینا ہوگا۔ پس جو شخص راہِ راست پر چلنا اور دنیا کو اُس پر چلانا چاہتا ہو اُس کو سخت اہتمام کرنا چاہیے کہ یہ بھول کہیں خود اُس کو لاحق نہ ہو جائے۔ (تفہیم القرآن‘ ج۲‘ ص ۱۱۴-۱۱۵)[

]ایک دوسرے مقام پر فرمایا: ’’یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جائو جو اُن کے لیے اُتاری گئی ہے‘‘۔ (النحل ۱۶:۴۴)

تشریح و توضیح صرف زبان ہی سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے بھی‘ اور اپنی رہنمائی میں ایک پوری مسلم سوسائٹی کی تشکیل کرکے بھی‘ اور ’’ذکرِالٰہی‘‘ کے منشا کے مطابق اُس کے نظام کو چلا کر بھی۔

اس طرح اللہ تعالیٰ نے وہ حکمت بیان کر دی ہے جس کا تقاضا یہ تھا کہ لازماً ایک انسان ہی کو پیغمبر بناکر بھیجا جائے۔ ’’ذِکر‘‘ فرشتوں کے ذریعہ سے بھی بھیجا جا سکتا تھا۔ براہِ راست چھاپ کر ایک ایک انسان تک بھی پہنچایا جا سکتا تھا۔ مگر محض ذکر بھیج دینے سے وہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا تھا جس کے لیے اللہ تعالیٰ کی حکمت اور رحمت و ربوبیت اس کی تنزیل کی متقاضی تھی۔ اُس مقصد کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ اس ’’ذکر‘‘ کو ایک قابل ترین انسان لے کر آئے۔ وہ اس کو تھوڑا تھوڑا کرکے لوگوں کے سامنے پیش کرے۔ جن کی سمجھ میں کوئی بات نہ آئے اس کا مطلب سمجھائے۔ جنھیں کچھ شک ہو ان کا شک رفع کرے۔ جنھیں کوئی اعتراض ہو ان کے اعتراض کا جواب دے۔ جو نہ مانیں اور مخالفت اور مزاحمت کریں اُن کے مقابلے میں وہ اُس طرح کا رویہ برت کر دکھائے جواِس ’’ذکر‘‘ کے حاملین کی شان کے شایاں ہے۔ جو مان لیں انھیں زندگی کے ہر گوشے اور ہر پہلو کے متعلق ہدایات دے‘ ان کے سامنے خود اپنی زندگی کو نمونہ بنا کر پیش کرے‘ اور ان کو انفرادی و اجتماعی تربیت دے کر ساری دنیا کے سامنے ایک ایسی سوسائٹی کو بطور مثال رکھ دے جس کا پورا اجتماعی نظام ’’ذکر‘‘ کے منشا کی شرح ہو۔ (ایضاً‘ ص ۵۴۳)[

اے میرے بھائی اور اے میری بہن!

تم نے دیکھ لیا ہے کہ ذکر میں کتنی بھلائیاں ہیں۔ وہ کتنا سہل و آسان ہے۔ تم نے دیکھ لیا ہے کہ اوقات کے حوالے سے اس میں کتنی وسعت ہے؟

عظیم نعمتیں ہیں جو اﷲ نے ہماری طرف بھیجی ہیں‘تو کیا ہم ان سے غافل رہیں اور محرومین میں سے ہو جائیں؟ ہماری زندگی میں غفلت ‘ اچانک وارد ہو نے والا خطرہ ہے۔ دل بہلاوے اور اکتاہٹیں بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔ جھوٹ اور گھٹیا کلام ‘ ناجائز دولت‘گستاخ شاعری‘ غیبت کی اشاعت ‘چغلی کی کثرت‘ باہمی گالی گلوچ اور بڑی برائیوں کے ساتھ زبان درازی کو بہت فروغ حاصل ہوا ہے اور اس سب کچھ نے  قلب کے نور کو بجھا دیا ہے اور اس کی قساوت کو بڑھا دیا ہے۔بلائیں بڑھ گئی ہیں اور مصیبتیں شدید ہو گئی ہیں‘ جب کہ اﷲ کے سوا انھیں کو ئی دور کرنے والا نہیں۔

غفلت بلا شبہہ دنیا میں بیماری ہے ‘اور آخرت میں ندامت و بدبختی۔ رسولؐ اﷲ نے فرمایا: ’’جو لوگ بیٹھے اور اس نشست میں اﷲ کا ذکر نہیں کیا تو یہ نشست ان کے لیے حسرت اور خسران کا باعث ہوگی۔ اﷲ چاہے گا تو سزا دے گا اور چاہے گا تو معاف فرما دے گا‘‘ (ترمذی) ۔ افسوس اور حسرت ہے غفلت شعاروں پر!..

ذکر کی مجالس فرشتوں کی مجالس ہیں اور غفلت کی مجلسیں شیطان کی مجلسیں ہیں‘اور جس کی جس کے ساتھ نسبت ہے وہ اسی کی مثل ہے(الوابل الصیب‘ص ۱۵۸)۔ تم دونوں میں سے کس فریق کے ساتھ ہونا چاہتے ہو؟

آخرمیں شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کا قول ہے :’’ذکر دل کے لیے ایسا ہی ہے جیسا مچھلی کے لیے پانی۔ مچھلی جب پانی سے جدا ہوتی ہے تواس کا کیا حال ہو جاتا ہے ؟ (الوابل الصیب‘ ص ۹۳)۔ یہ وہ معروف سوال ہے جس کا جواب ہے:’’ احتیاط‘غفلت سے احتیاط‘ اور اﷲ ہی اﷲ کا ذکر ‘‘۔

بعید نہیں کہ اﷲ ہمیں ذاکرین میں سے بنا دے اور ذکر کی بدولت ہمارے اجر بڑھا دے ‘اس کے لیے ہمارے سینوں کو کھول دے اور اس کے باعث ہمارے رنج و غم مٹا دے اور اس کے ساتھ ہماری روحوں کو راحت حاصل ہو!

اَللّٰھُمَّ اَعِنَّا عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ

اے اﷲ! تُو اپنے ذکر ‘ اپنے شکر اور اپنی بہترین عبادت میںہماری مدد فرما۔

(المجتمع ‘ شمارہ ۱۴۸۳-۱۴۸۵)


(کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۶ روپے۔ منشورات‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور)