ڈاکٹر وفا عبدالجواد


ہر انسان امن، محبت، سکون اور اس طرح کی دیگر نفسیاتی و جذباتی ضروریات کی تسکین کا حاجت مند ہے۔ لیکن مرد بعض ضروریات کی تسکین کے طریق کار میں عورت سے مختلف ہوتا ہے اور اس اختلاف سے ناواقفیت میاں بیوی کو بعض مشکلات میں مبتلا کر دیتی ہے۔

میاں اور بیوی کی جذباتی ضروریات جن کی تسکین ضروری ہے بڑی حد تک انسان کے طرزِعمل کو متاثر کرتی ہیں۔ انسان کا طرز عمل انھی کے زیر اثرہوتا ہے سوائے اس صورت کے کہ مرد کی جذباتی ضروریات مکمل طور پر عورت کی ضروریات سے مختلف ہوں۔ افسوس یہ ہے کہ مردوں اور عورتوں کی اکثریت ایک دوسرے کی جذباتی ضروریات کے اختلافات کو نہیں سمجھتی۔ اس عدم واقفیت کے نتیجے میں وہ ایک دوسرے کوسمجھنے سے قاصر رہتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اس فہم کا مثالی اسلوب کیا ہو، نیز وہ مطلوب تعاون کس طرح پیش کریں اور مشکلات سے کیسے بچیں۔ان میں سے ایک اہم مشکل غلط فہمی ہے۔

زوجین میں سے ہر ایک یہ سمجھتا ہے کہ اس نے دوسرے کی ضروریات کی خاطر بہت کچھ پیش کیا ہے اور بڑا ایثار کیا ہے لیکن اس سے کوئی سود مند نتیجہ برآمد نہیں ہوا بلکہ جو کچھ پیش کیا گیا وہ سارے کا سارا ضائع ہوگیا اور حسن سلوک کا اعتراف نہیں کیا گیا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ زوجین نیک نیتی کے ساتھ محبت، مہربانی، شفقت اور معاونت کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن  غلط اسلوب متوقع حسنِ سلوک کو بیگانگی میں تبدیل کردیتا ہے۔ جو چیز معاملات کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہے وہ یہ کہ طرفین میں سے کوئی یہ خیال کر لے کہ یہ پریشانیاں (دوسرے فریق کی) عمداً پیدا کردہ ہیں۔جیسے کہ مرد کوئی کام بیوی کی خوشنودی اور بھلائی کے لیے کرے لیکن وہ بیوی کو اس انداز سے پیش کرے ‘ گویا کہ وہ کسی دوسرے مرد کو پیش کر رہا ہے ‘ نہ جس طرح کہ عورت کو پیش کیا جانا چاہیے ۔ اسی طرح سے عورت اپنے شوہر کو اس انداز سے پیش کرے جیسا کہ اس کی ضرورت مند کوئی عورت ہو، نہ کہ مرد۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ فریقین میں سے ہر ایک کو دوسرے فریق کی ضروریات اس طرح نظر آئیں جیسے کہ وہ اس کی اپنی ہوں۔ وہ ضروریات حسب ذیل ہیں:

مرد کی ضروریات

۱اعتماد: میاں‘ بیوی کے ساتھ معاملات میں شرکت اور تعاون کرتا ہے‘ اس کی حفاظت و پاسبانی کے لیے مستعد رہتا ہے‘ اور جو کچھ بھی وہ خرچ کرتاہے وہ بیوی اور خاندان کی خوشنودی اورخوش حالی کے لیے خرچ کرتا ہے‘ نیز یہ کہ وہ ہمیشہ اپنے خاندان کی بہتری کے لیے کوشاں رہتا ہے۔لہٰذا اسے محسوس ہونا چاہیے کہ اسے اپنی بیوی کا اعتماد حاصل ہے اور وہ اس کی قدر دا ن ہے ۔

۲قبولیت: بیوی کی طرف سے میاں کو کسی اصلاح و تبدیلی کی شرط کے بغیر قبول کر نا  ہوگا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کامل فرد ہے‘ جب کہ کمال توصرف اﷲ وحدہ سبحانہ و تعالیٰ ہی کے لیے ہے، لیکن وہ قبولیت ‘ اس بات کی دلیل ہوگی کہ بیوی شوہرسے مطمئن ہے‘  اور وہ باور کرتی ہے کہ شوہر اپنی غلطیوں کی اصلاح کا اہل ہے اور بیوی کی دائمی نصیحتوں کا حاجت مند نہیں ہے ۔ اس صورت میں بیوی کے لیے سہولت پیدا ہو جائے گی کہ شوہر اس کی بات پر دھیان دے اور اس کی رائے کو قبول کرلے۔

۳- تحسین و قدردانی: شوہر بیوی کی طرف سے تحسین و قدردانی محسوس کرے۔ جب بھی وہ خاندان کے لیے زبانی یا عملی طور پر کوئی چیز پیش کرے تو بیوی کی طرف سے احسان مندی‘  شکر گزاری اور حسن سلوک کے اعتراف کا اظہار ہونا چاہیے‘ اور اسے شوہر کی شخصیت اوراس کی رائے کو قدر و منزلت کی نظرسے دیکھنا چاہیے۔

۴- پسندیدہ نگاہ : شوہر کی عملی زندگی میں کامیابی کی بنیاد‘ اس کے خاندان میں اندرونی امن و سکون‘ اس کی بیوی کی طرف سے اس کی شخصیت ‘ اور اس کی داد و دہش کو پسندیدہ نگاہوں سے دیکھنا شوہر کی اپنی ثابت قدمی اور پختہ ارادے پر منحصر ہے ۔ یہ سب کچھ مل کر شوہر کی زندگی میں اہم اور بنیادی مقاصدکی تسکین کا باعث بنتا ہے۔

۵تائید: یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ہر شوہر ایسا مردِ میدان بننے کا خواہش مند ہوتا ہے جو اپنی بیوی کی تمناؤں کا مصداق ہو۔ یہ مقام حاصل کرنے کی وہ سرتوڑ کوشش کرتا ہے ، اور بہترین حوصلہ افزائی جوشوہرکو اس دوران میں حاصل ہوسکتی ہے وہ اس کی بیوی کی تائیدہے۔ البتہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بیوی کی تائید کا مطلب شوہر کے ہر کام میں دائمی موافقت نہیں اور نہ یہ موافقت ہی خود اس کام کے لیے ہوتی ہے بلکہ یہ موافقت اور تائید ان اسباب اور نیک ارادوں پر بھی ہو سکتی ہے جو شوہر اس کام کے بارے میں بروے کار لاتا ہے۔

۶حوصلہ افزائی: بیوی کی طرف سے شوہر کی حوصلہ افزائی اور بلند خواہشات کے حصول کے لیے اس کی ثابت قدمی پراس کے عزم و ارادے کو تقویت دینے سے شوہر سمجھتا ہے کہ بیوی پورے طور پر اس کی مزاج شناس ہے‘ نیز شوہر کی کامیابی کے لیے بیوی کا خواہش مند ہونا ایک ایسا امرہے جوبیوی اور اس کے خاندان کی کامیابی کو یقینی بنا دیتا ہے۔

بیوی کی ضروریات

۱توجہ اور دل چسپی: بیوی اپنے میاں کی طرف سے توجہ کے اظہار اور دل چسپی کی ضرورت مند ہوتی ہے ۔ اسے آگاہی ہونی چاہیے کہ وہ میاں کی نظر میں ایک ممتاز شخصیت ہے اور شوہر کی زندگی میں اسے ایک قابل ذکر مقام حاصل ہے۔

۲- ہمدردی : بیوی محسوس کرے کہ اس کا شوہر اس کی نسوانی حالت سے باخبرہے اور اس کے احساسات کے ساتھ تعامل میں اپنے اوپر گزرنے والی نفسیاتی کیفیات کو سمجھتا ہے‘ اور یہ کہ وہ  اس کا ہمدرد ہے۔

۳- احترام: بیوی کی ضروریات میں سے ایک اہم ضرورت شوہر کی طرف سے بیوی  کے اس احساس کو پختہ کرنا ہے کہ وہ بذات خود ایک قابل احترام اور آزاد شخصیت ہے ‘  اور دلیل کے طور پر وہ اس کی بات کو دل چسپی سے سنتا ہے اور اس کی رائے اور خیالات کواہمیت  دیتاہے۔

۴- ترجیح: جب شوہربیوی کی ضروریات کو ترجیحاً پورا کردیتا ہے اور پوری مستعدی  کے ساتھ اس کی تائید اور اس کے ساتھ تعاون کرتا ہے ‘ تو بیوی اپنے تئیں اپنی حاجات کو پا لیتی ہے اور اپنے لیے اپنے شوہرکے جذبہ ( محبت ) کو محسوس کرتی ہے ۔ وہ سمجھتی ہے کہ وہ شوہر کی منظور نظر ہے حتیٰ کہ شوہر اسے اپنی ذات پر بھی ترجیح دیتا ہے تو وہ اس سے متاثر اور خوش ہو کر پورے اعتماد کے ساتھ اپنی زندگی کو اپنے شوہر اور خاندان کے لیے وقف کر تی اوراپنے احساسات کو ان پر نچھاور کر دیتی ہے۔

۵- اظہار احساسات کی آزادی : شوہر کی طرف سے بیوی کواسے تمسخر کا نشانہ بنائے بغیر اظہارخفگی کا استحقاق اور اسے اپنے احساسات کی تعبیر کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔

۶- مستقل یقین دہانی: اکثر شوہریہ سمجھتے ہیں کہ شوہر کی اپنی بیوی کے ساتھ طویل رفاقت اور بیوی کے حسن سلوک کا مطلب لازماً یہ ہے کہ وہ اس کے اخلاص اور ایثار کے باعث اسے ایک مثالی شخص باور کرتی ہے جو اس کے احساسات اور وفاداری کا ثبوت ہے‘ نیزیہ کہ وہ اس کے جذبات کی سچائی کی دلیل ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیوی مستقل یقین دہانی چاہتی ہے کہ وہ شوہر کے جملہ احساسات کی مالکہ ہے، اس کی توجہ اور دل چسپی کا محور و مرکز ہے اور شوہر کے ہاں مرورزمانہ کے ساتھ اس کی قدر ومنزلت میں کوئی کمی نہیں ہوئی ‘ بلکہ بڑھی ہے۔ یہ جواب ہے جو بیوی اپنے شوہر سے سننا چاہتی ہے۔ جب وہ ایک عمر کے بعد اس کے احساسات کی سچائی کے متعلق سوال کرنا چاہے توشوہر کی طرف سے سردمہری کی کیفیت اسے صدمے سے ہم کنار کر دیتی ہے۔

عوامل اور رکاوٹیں

اس میں کوئی شک نہیں کہ میاں بیوی میں سے ہر ایک ان جملہ کیفیات کا ضرورت مند ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میاں توجہ ، دل چسپی ، احترام، ترجیح وغیرہ کا حاجت مند نہیں ہوتا اور نہ یہ کہ بیوی اعتماد وتائید وغیرہ نفسیاتی حاجات سے بے نیاز ہوتی ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ میاں اپنی مخصوص چھ حاجات حاصل کرلے، وہ دوسری قسم کی حاجات ہرگز نہیں حاصل کر سکتا اور یہی صورت بیوی کے بارے میں ہے کہ جب تک وہ اپنی  بنیادی حاجات کو حاصل نہیں کر لیتی‘ دوسری قسم کی حاجات حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوتی۔ طرفین میں سے ہر ایک جب اپنی اپنی ضروریات حاصل کر لے گا تب ہی وہ دوسری جانب سے بڑے پیمانے کی تحسین و موافقت حاصل کرنے کے قابل ہو گا۔

اختلافات کے لیے فیصلہ کن محرک کیا ہے؟

اﷲ عزوجل نے میاں بیوی کی نفسیاتی حاجات میں اس اختلاف کو اسی وقت پیدا فرمادیا جب اس نے آدم و حوا‘مذکر و مؤنث کو پیدا فرمایا اور تخلیق کے اس اختلاف کی بنیاد پر دیگر اختلافات مرتب ہوئے اور یہی دونوں کی جسمانی ساخت اورنشوونما کی بنیاد ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے انھیں تذکیر و تانیث اور متعین ذمہ داریاں ودیعت فرمائیں۔

نفسیات، تربیت، عادات وروایات کے اس بنیادی اختلاف نے ضروریات میں اختلاف پیدا کر دیا۔ ہمارا اس سے اتفاق نہیں کہ اختلاف زندگی کے بگاڑ کا باعث ہے ‘ بلکہ وہ تو اس کا خدمت گار ہے کیوں کہ طرفین ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں اور ان کے مابین نفسیاتی موافقت تکمیل پا جاتی ہے۔

ان ضروریات کے کچھ مخصوص عوامل ہیں جن کی تکمیل کا طریقہ ، فطری طریقہء کار سے مختلف ہو گیا ہے۔ لہٰذا اس نے ماں کی مامتا‘ بیوی کی زندگی اور عورت کی کامیابی کے معاملے کو بگاڑ کر رکھ دیا ۔ نتیجتاً توازن بگڑ گیا ہے۔

قبل ازیں ماں اپنی بیٹی کی تربیت اس حیثیت سے کرتی تھی کہ پہلے اس نے  بیوی  بننا ہے، اس کے بعد ماں۔ مراحل کی یہ وہ ترتیب ہے جس کا اسے نفسیاتی طور پر اہل بنایا گیا ہے۔ مراحل کے توازن کا بگاڑ بہت بڑی غلطی کا ارتکاب ہے۔ لہٰذا ہم نہ صرف نفسیاتی حاجات کے مطالعہ کے ضرورت مند ہیں بلکہ ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم باہمی کش مکش کے مراحل‘جو میاں بیوی کے درمیان بُعد پیدا کرتے ہیں‘ سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بہت زیادہ نفسیاتی تعلیمات حاصل کریں۔

ازدواجی زندگی سے متعلق فریقین کا تصور الگ الگ ہوتا ہے لیکن بنیاد ی طور پر ضروریات میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا جیسا کہ حاجت پوری کرنے کے درجے میں بھی کوئی ضابطہ نہیں ہوتا۔ البتہ بعض حالات میں بیوی ا عتماد‘ توجہ یا تائید وغیرہ کی زیادہ مقدار کی   حاجت مندہوسکتی ہے۔

ایسے امور جو ان تمام نفسیاتی مطالبات کے پورا ہونے میں طرفین کے لیے رکاوٹ بن سکتے ہوں اور پھر وہ جاری بھی رہیں‘درج ذیل ہیں:

۱زوجین کے حقوق یا ان میں سے کسی ایک کی حاجات کا نظر انداز کر دینا ۔ اگر ان کی تکمیل کا براہ راست اور فوری طورپر اہتمام نہ کیا جائے تو وہ دردانگیز احساسات اکٹھے ہوتے  اور ایک لمبے عرصے تک تہ بہ تہ جمع ہو تے رہتے ہیں حتیٰ کہ وہ کسی غیر مناسب وقت پر پھٹ پڑتے ہیں۔ لہٰذا فریقین کا فرض ہے کہ وہ بلاتاخیر معاملات کو نمٹالیں۔

۲طرفین میں سے کوئی ایک اپنی بہت سی خواہشات کو ایثارو قربانی کے نام پر ترک کر دے تاکہ وہ ایثار کیش شمار کیا جائے‘ جب کہ وہ ان خواہشات کو پورا کرنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ ہاں ‘ اگر ان میں سے کسی ایک پر ایثار کرنا ناگزیر ہو تو ضرور کیا جائے اور زوجین اپنا نصب العین بنا لیں کہ وہ جو کچھ بھی اپنے خاندان کے لیے کریں ‘ وہ ایک ہی نہر میں ڈالا جائے جو ان کے خاندان کی سعادت مندی اور خوشحالی کی نہر ہے۔

اگر میاں یا بیوی کی طرف سے مذکورہ چھ ضروریات میں سے کوئی ضرورت سے زیادہ بطور عطیہ پوری کی جائے توا ن کے مابین تائید ،حوصلہ افزائی اور نصائح کی کثرت کے ساتھ ایسا تعلق پیدا ہو جائے گا جیسا کہ ماں کا بیٹے کے ساتھ۔ نتیجتاً معاملہ دو طرح تقسیم ہو جائے گا ‘ یا تو میاں اس بار ے میں کوفت و پریشانی میں مبتلا رہے گا اور یا ہتھیار ڈال دے گا اور اس دوران میں بیوی کو شکایت رہے گی کہ خاندان میں ہر شے کے بارے میں وہی مسئول اول بن کر رہ گئی ہے۔

۳زوجین کو یہ حقیقت معلوم ہو جانی چاہیے کہ مرد اپنے فیصلے میں تائید کا طلب گار ہوتاہے‘ جب کہ عورت اپنے فیصلے میں شرکت کی خواست گار ہوتی ہے۔ مردکی فطرت آزادی اور خوداعتمادی پر مشتمل ہوتی ہے‘ جب کہ عورت شرکت کی طرف مائل ہوتی ہے اور شرکت بھی اس کی ، جسے وہ پسند کرتی ہو۔

۴- سوے ظن اور بدگمانی ازدواجی زندگی کی رفتار میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ قرآن حکیم اور سنت مطہرہ میں ہمیں لوگوں سے بدگمان ہونے سے منع فرمایا گیا ہے اور میاں کی بیوی سے یا بیوی کی میاں سے بدگمانی بدرجہ اولیٰ اجتناب کی متقاضی ہے۔ لازم ہے کہ بیویاں اپنے شوہروں اور شوہر اپنی بیویوں کے ساتھ حسن ظن کا رویہ اختیار کریں ‘ اور کمال تو صرف اﷲ وحدہ لاشریک ہی کے لیے ہے۔ لیکن زوجین کے مابین حقیقی اشتراک و ہم آہنگی تو وہ ہے جو زندگی کے باہم متصادم نقطہ ہاے نظرمیں آئے۔ (انٹرویو: ایمان الشوبکی‘ ترجمہ: خدابخش کلیار‘ ہفت روزہ المجتمع ۲۵مئی ۲۰۰۲ء )