ترجمہ: امجد عباسی
مغرب‘ مذہب کے بارے میں یہ تصور رکھتا ہے کہ یہ نجی زندگی کا معاملہ ہے اور کاروبار حکومت سے اسے سروکار نہیں‘ جب کہ اسلام اجتماعی اور انفرادی زندگی کے ہر دائرے کے لیے ہدایات کا نام ہے۔ مسلم ممالک میں احیاے اسلام کی جو تحریکیں برپا ہیں‘ انھیں مغرب نے پالی ٹیکل اسلام کا نام دیا ہے۔ اس کا ترجمہ سیاسی اسلام‘ مفہوم کو مکمل طور پر ظاہر نہیں کرتا۔ ان کی اس سے مراد اسلام بحیثیت ایک اجتماعی قوت کے ہے۔ ’’پالی ٹیکل اسلام‘‘ کے بارے میں امریکہ کی پالیسی پر حال ہی میں دو کتابیں آئی ہیں:
1- America and Political Islam: Clash of Cultures or Clash of Interests? ] امریکہ اور پالی ٹیکل اسلام: تہذیبوں کا تصادم یا مفادات کا تصادم[۔ فواز اے گرجیز(Fawaz A. Gerges)۔ ناشر: کیمبرج یونی ورسٹی۔
Study of 2- Political Islam and the United States: A
US Policy Towards Islamist Movements in the Middle East ]پالی ٹیکل اسلام اور ریاست ہاے متحدہ امریکہ: امریکہ کی مشرق وسطیٰ میںاسلامی تحریکوں کے بارے میں پالیسی پر ایک مطالعہ[۔ ماریہ ڈوسی پنٹو(Maria do CEu Pinto)۔ناشر: ایتھے کا پریس۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کمیونزم کے بجائے پالی ٹیکل اسلام‘ ’’مغرب کو درپیش نئے خطرے‘‘ کی حیثیت سے مغربی میڈیا‘ علم و دانش کے حلقوں اور پالیسی ساز اداروں کا وقفے وقفے سے مرکزی موضوع
رہا ہے۔ ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ نظریہ بنیادی طور پر برنارڈ لیوس (Bernard Lewis) کی اختراع ہے اور سیموئیل ہنٹنگٹن کے نام سے معروف ہوا ۔اسے بڑی ہوشیاری سے اسلام اور مغرب کے درمیان ناگزیر
تصادم پر منطبق کر دیا گیا۔ ابھی تک یہ مغرب میں بہت سے مفکرین کی سوچ پر چھایا ہوا ہے۔
کیا امریکہ کے پالی ٹیکل اسلام کے تصور میں کوئی نمایاں تبدیلی واقع ہوئی ہے؟ مغربی ماہرین اسلام (Islamologists) جس چیز پر اب پالی ٹیکل اسلام کا ٹھپہ لگاتے ہیں‘ امریکہ کے اشرافیہ (elite) اس کا کیا تصور رکھتے ہیں؟ ان کے اس تصور کے کیا مآخذ ہیں؟ ان کے یہ تصورات پالیسی بنانے میں کس طرح سے اثرانداز ہوتے ہیں؟ اسلامی تحریکوں کے لیے زبانی کلامی اور عملی دونوں سطح پر امریکی پالیسی کی کیا نوعیت ہے؟ امریکہ اینڈ پالی ٹیکل اسلاماور پا لی ٹیکل اسلام اینڈ دی یونائیٹڈ اسٹیٹس ان سوالوں پر روشنی ڈالتی ہیں اور پالی ٹیکل اسلام اور اسلامی تحریکوں کے بارے میں امریکی اشرافیہ کا نقطۂ نظر ‘ تصورات اور پالیسیوں کا گہری نظر سے تجزیہ کرتی ہیں۔
دونوں مصنف امریکی اشرافیہ کے تصورات کو محاذآرائی (confrontation) اور مصالحت پسندی (accommodation) کے درمیان تقسیم کرتے ہیں۔ ’’محاذ آرا‘‘ فطری طور پر اسلام کو آمریت پسند ‘ تشدد پسند‘ جمہوریت مخالف اور مغربی اقدار سے مطابقت نہ رکھنے والا پاتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ سب ایک ہی موقف رکھتے ہیں اور ناگزیر طور پر مغرب دشمن‘ امریکہ دشمن اور اسرائیل دشمن ہیں۔ امریکی فیصلہ سازوں کو ان کی یہ پالیسی ہدایت ہے کہ وہ اسلام کا ہر سطح پر مقابلہ کریں۔ وہ اسلامی دنیا میں اسٹیٹس کو (status quo) برقرار رکھنے کی وکالت کرتے ہیں‘ جس کا مطلب مطلق العنان جابر حکومتوں کی حمایت کرنا ہے جو مغرب کے جغرافیائی‘ سیاسی اور اقتصادی مفادات کا تحفّظ کرتی ہیں۔ وہ مسلم ممالک میں ہر ایسی تحریک کی شدت کے ساتھ مخالفت کرتے ہیں جو نمایندہ حکومت کے لیے ہو‘ اس خدشے سے کہ کہیں اسلام پسند اقتدار میں نہ آجائیں‘ جس کا مطلب‘ ان کی نگاہ میں‘ اللہ کے نام پر جمہوریت کا خاتمہ ہے۔
دوسری طرف ’’مصالحت پسند‘‘ اسلام کو خطرہ سمجھنے کو محض ایک وہم سمجھتے ہیں نہ کہ ایک حقیقت۔ اسلام نہ تو monotholicہے اور نہ unified۔ وہ اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ پالی ٹیکل اسلام دراصل سماجی‘ اقتصادی اور نوآبادیاتی دَور کی سیاسی محرومیوں کا نتیجہ ہے ‘ اور اسلام جمہوریت سے مطابقت رکھتا ہے۔ وہ مسلم ممالک میں جمہوریت کے فروغ سے مغرب کی وابستگی کا سوال اٹھاتے ہیں‘ اور مسلم ممالک میں ان کے دہرے معیار پر مبنی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں۔
دونوں مصنفین کا خیال ہے کہ امریکی اشرافیہ کا نقطۂ نظر محاذ آرائی اور مصالحت پسندی میں متوازن طور پر بٹا ہوا ہے‘ اور بش اور کلنٹن انتظامیہ نے پوری سنجیدگی سے ان دونوں مکاتب فکر اور اپنی پالیسیوں کے درمیان توازن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
مصنفین کا خیال ہے کہ اشرافیہ کے نقطۂ نظر کے مآخذ مختلف ہیں۔ وہ امریکہ میں مروجہ کلچر سے متاثر ہیں جس کے مطابق اسلام ایک ’’معاندانہ کلچر‘‘ ہے‘ اور مسلمان ’’مذہبی انتہا پسند‘‘ ‘ جمہوریت مخالف‘ متشدد اور ناقابل اعتماد‘ اور صلیبی جنگوں کے بعد سے یورپ اور اسلام کے باہمی عمل کا ورثہ ہیں۔
گرجیز (مصنف) ‘ امریکہ میں اسلام کے بارے میں عوامی تاثرات معلوم کرنے والے بہت سے قومی سروے حوالے کے طور پر پیش کرتا ہے‘ جن کے مطابق ۳۶ فی صد امریکی اسلام کو امریکہ کے لیے ایک ’’شدیدخطرہ‘‘ سمجھتے ہیں۔ اسرائیل اور امریکہ کی اسرائیل نواز لابیاں بھی ایک بہت اہم ذریعہ ہیں‘ گو دونوں مصنفین کے اسرائیل کے بارے میں نقطۂ نظر میں فرق ہے۔ گرجیزکا اسرائیل اور اسرائیل کے حلیفوں کے کردار کے بارے میں تجزیہ مقابلتاً مختصر اور ذومعنین (ambivalent) ہے اور وہ اس امکان کو ردّ نہیں کرتا کہ تجزیہ نگار اسرائیل کے اثرات کو مبالغہ آرائی کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔
تاہم‘ پنٹوکاتجزیہ نہ صرف چبھتا ہوا ہے بلکہ تفصیلی بھی ہے۔ یہ کوئی شبہ نہیں رہنے دیتا کہ کس طرح اسرائیل اور اسرائیل نواز لابیاں دونوں امریکہ کے اسلام کے حوالے سے نقطۂ نظر اور پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں جو ایسے دبائو کی شکل اختیار کر لیتی ہیں جس سے ان کی ترقی اور آزادی عمل متاثر ہوتی ہے۔ پنٹونے بہت عمدگی سے اس بات کا تجزیہ کیا ہے کہ کس طرح اسرائیل سرد جنگ کے بعد کے دور میں اسلام کو امریکہ کے لیے اگلے نظریاتی خطرے کے طور پر پیش کر کے اپنے اسٹرے ٹیجک اور سیاسی مفادات پورے کرتا ہے۔
مغرب نواز مسلم حکومتوں نے بھی امریکہ کے اسلام مخالف نقطۂ نظر کو تقویت پہنچانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ مصر‘ الجزائر‘ ترکی‘ اردن‘ سعودی عرب اور پاکستان کے سربراہان‘ امریکی قیادت کو مغرب کو درپیش ’’بنیاد پرست اسلام کے خطرے‘‘ سے آگاہ کرنے کے لیے بڑے بے چین رہتے ہیں۔ ساتھ ہی اس خطرے کو دبانے اور محدود رکھنے میں اپنے کردار کی اہمیت بھی بتاتے رہتے ہیں۔
دونوں مصنفین اس بات پر متفق ہیں کہ بش اور کلنٹن انتظامیہ دونوں نے خوب سوچ سمجھ کر پالی ٹیکل اسلام کے متعلق مصالحت پسندانہ لفاظی اختیار کی‘ اسلام کی روایتی اقدار کی کھلے دل سے تعریف کی اور مختلف کلچروں اور مذاہب کے درمیان امریکہ کے بہ طور پُل کردار پر زور دیا۔ لیکن جب اسلامی تحریکوں سے متعلق امریکہ کی حقیقی پالیسیوں کا بغور جائزہ لیا جاتا ہے تو کوئی شبہ نہیں رہتا ہے کہ امریکہ کی اسلام اوراسلامی دنیا سے متعلق تمام پالیسیوں پر محاذ آرا مکتبہ فکربڑے گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔
الجزائر‘ مصر ‘ ترکی‘ ایران اور سوڈان کے مطالعات کے دوران دونوں مصنفین اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ امریکہ نے آزمایش کے طور پر الجزائر اور مصر میں اسلامی تحریکوں سے مکالمے کاآغاز کیا ‘لیکن پھر الجزائری اور مصری حکومتوں کی طرف سے احتجاج اور ان کے تنہا رہ جانے کے خوف کے پیش نظر مزید رابطے سے اجتناب کیا۔ امریکہ نے ترکی میں رفاہ پارٹی کے اقتدار میں شرکت کے تجربے کو برداشت کرنے کی بھی کوشش کی‘ لیکن؎ مختصر عرصے کے لیے۔ تاہم‘ انھوں نے جرنیلوںکو نجم الدین اربکان پر‘ اس کی تاریخ ساز پالیسیوں کے باوجود‘ استعفا دینے کے لیے دبائو ڈالنے سے نہ روکا۔ امریکہ‘ ایران اور سوڈان میں شدید معاندانہ‘ فی الواقع غیر اعلان شدہ جنگ‘ اور دونوں ممالک کو ہر ممکنہ طور پر نقصان پہنچانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ان دونوں جگہ کلنٹن انتظامیہ نے اسلام پسند حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے اور ان کا تختہ اُلٹنے کے لیے خفیہ فنڈ مختص کیے۔
گرجیز کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اسلام سے متعلق امریکہ کی پالیسیوں کا حتمی تعیّن امریکہ کے سیاسی‘ اسٹرے ٹیجک اور معاشی مفادات کرتے ہیں نہ کہ ثقافتی اقدار۔ امریکی پالیسی سازوں کو یقین ہے کہ اگر اسلام پسند اقتدار میں آتے ہیں تو وہ اس بات کے پابند ہوں گے کہ عرب اسرائیل امن مذاکرات کی مخالفت کریں‘ عالم اسلام میں مغرب نوازحکومتوں کو غیر مستحکم کر دیں‘ مغرب کو تیل کی فراہمی‘ خطرات سے دوچار ہو جائے۔ وہ ہولناک تباہی کے حامل اسلحہ جات بھی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے جس سے اسرائیل کی سلامتی کو شدید خطرات درپیش ہوں گے۔
اسلامی تحریکوں کی جمہوریت سے وفاداری اور ان کی خارجہ پالیسی کے ایجنڈے کے حوالے سے بھی امریکہ کی فکری قیادت کے ہاں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ چونکہ امریکہ کے اشرافیہ‘ عالم اسلام میں مفید مطلب اور بے ضرر اسٹیٹس کو بدلنے میں دل چسپی نہیں رکھتے‘ اس لیے جمہوری نصب العین‘ انسانی حقوق اور کثیر جہتی نظام (pluralism) پس پشت چلے جاتے ہیں۔ امریکی پالیسی میں یہ تضاد جتنا عالم اسلام میں نمایاں ہے‘ کہیں اور نہیں ہے۔
دونوں مصنف ‘اپنے تجزیے میں‘ اپنے قاری کے ذہن کو کسی شک میں نہیں رہنے دیتے کہ زور و شور سے اپنائی گئی مصالحت پسندی کی بش اور کلنٹن امریکی انتظامیہ کی پالیسی صرف عوام کو دکھانے کے لیے ہے‘ اور یہ کسی حقیقت (substance)سے خالی ہے۔ ان کی حکومتی پالیسیاں واضح طور پر محاذ آرا مکتبہ فکر کے حوالے سے طے کی جاتی ہیں۔
گرجیزنے اس حوالے سے دلائل پیش کیے ہیںکہ مصلحت پسند اور محاذ آرا مکاتب فکر کے درمیان توازن پیدا کرنے کی ایک کمزور سی کوشش کی گئی ہے۔ کلنٹن انتظامیہ نے اسلام پسندوں کے ساتھ سنجیدہ اور بامقصد مذاکرات کی کوئی حقیقی کوشش نہیں کی۔ ان کی پالیسیاں قلیل مدتی تناظر کے سیاسی‘ اسٹرے ٹیجک اور معاشی مفادات کے مطابق ہوتی ہیں جو عالم اسلام میں اسٹیٹس کو کے تحفظ کے ساتھ قریبی طور پر وابستہ ہیں۔
ہر اس شخص کو دونوں کتب کا مطالعہ لازماً کرنا چاہیے جو اسلام اور عالم اسلام سے متعلق امریکہ کی فکر اور پالیسی کو سمجھنے میں دل چسپی رکھتا ہو۔ انھوں نے نہ صرف اپنے موضوع پر بیش بہا معلومات فراہم کر دی ہیں بلکہ اس موضوع کے حوالے سے امریکی اشرافیہ کی دل چسپ اندرونی سوچ کو بھی اُجاگر کیا ہے۔
امریکہ کی اسلام سے متعلق متوازن پالیسیوں کے بارے میں مصنفین کی رجائیت سے خواہ کوئی اتفاق نہ کرے‘ البتہ ان کے نتائج ٹھوس تحقیق پر مبنی ہیں اور دانش وروں اور پالیسی سازوں کے سنجیدہ غوروفکرکے مستحق ہیں۔ (ماہنامہ امپیکٹ انٹرنیشنل‘ لندن ‘ جنوری ۲۰۰۱ء)