محمد عبدہ


ترجمہ:  محمد ظہیر الدین بھٹی

امام حسن البناشہید ؒاتنی عظیم الشان‘ مضبوط بنیادوں والی عمارت بنانے میں کیسے کامیاب ہوئے جس کے نتیجے میں ایمان و عمل سے معمور نسلیں پے درپے چلی آرہی ہیں؟ کیا ان کے پاس جادو کی چھڑی تھی جس سے وہ دلوں پر قبضہ کر لیتے تھے اور لوگوں کو مسخر کرلیتے تھے؟ کیا ان کے پاس کوئی ایسی طاقت تھی کہ لوگ ان کے نظریے کو مان لینے پر مجبور ہو جاتے ‘ ان کی جماعت کی تائید کرنے لگتے‘ اور دعوت کی خاطر جان و مال کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے؟ امام شہیدؒ اپنی دعوت میں اور اپنے ساتھیوں کی تربیت میں کیوںکر اس طرح کامیاب ہوئے کہ وہ ہمارے لیے بے شمار منفرد نمونے اور عظیم مثالیںچھوڑ گئے۔

آیئے ان سوالات کے جواب تلاش کریں۔

آج بہت سے نوجوان‘ اپنے دَور کی مختلف قسم کی نفسیاتی اور سماجی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ وہ حبِّ جاہ اور حبِّ دنیا کے مرض میں گرفتار ہیں۔ وہ زندگی کے دبائو کا شکار ہیں‘ اور لامتناہی اغراض کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنے حقیقی فریضہ --- دعوت الی اللہ--- کو بھول چکے ہیں۔ وہ شیطانِ لعین کا آسان شکار بن چکے ہیں اور اس کی وسوسہ کاری کا نشانہ بن کر بے کارمحض بن گئے ہیں۔ ان نوجوانوں کے قریب جایئے‘ ان سے بات چیت کیجیے تو وہ اپنے آپ کو مورد الزام ٹھیراتے ہیں۔ یہ نوجوان کامیاب گروہ کے ساتھ چلنے کی حقیقی خواہش کا اظہار کرتے ہیں‘ وہ نجات کی کشتی میں سوار ہونا چاہتے ہیں‘ وہ پاک دائرے میں داخل ہونے کے متمنی ہیں‘ ایمان سے معمور لشکر کی ہم رکابی کی سعادت حاصل کرنے کی تڑپ رکھتے ہیں مگر زندگی کی سختیوں اور شیطان کی مسلسل انگیخت کے سامنے سرنگوں ہو کر‘ جلد ہی ان کی یہ خواہش دم توڑ دیتی ہے اور ان کا یہ جذبہ ماند پڑ جاتا ہے۔

نوجوانوں کی مدد کرنے کے لیے اور ان کو درپیش اس مشکل سے نجات دلانے کے لیے کسی ایسے ذریعے کی تلاش بہت اہم ہے جس کے نتائج یقینی ہوں۔ اس کے لیے نوجوانوں کی حالت کے حقیقی اسباب کا کھوج لگانا ضروری ہے۔ تجزیے و مطالعے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس کا بنیادی اور براہِ راست سبب ایمان کی کمی اور اللہ کے ساتھ رابطے میں کمزوری ہے۔ اگر ہم نوجوانوں کی اصلاح اور ان کے مرض کا درست علاج کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایمان میں اضافے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں مضبوطی کے لیے کام کرنا ہوگا۔ اس مقصد کی خاطر ہمیں ایک بار پھر ’’روحانی تربیت کے مدارس‘‘ کی طرف رجوع کرنا ہے تاکہ ہم شروع ہی سے درست راستے پر چلنے لگیں اور بالآخر اپنا نصب العین پا لیں۔

اس سلسلے میں حسن البنا  ؒہمارے لیے ایک عملی نمونہ تھے جو اپنے دور کے بگاڑ و فساد کے باوجود مشکلات پر غالب آئے۔ آپ نے قرآن و سنت کی روشنی میں تربیت کے نئے اسلوب اختیار کیے اور ان کے مطابق نوجوانوں کی تربیت کی۔ اس تربیت سے آپ نے اپنی جماعت میں وہ حقیقی روح پھونک دی جس سے وہ اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکی۔ آپ کے زیرتربیت نوجوانوں نے ان تربیتی گہواروں سے روحانی و فکری بالیدگی پائی۔ ان تربیتی گہواروں نے سب سے پہلے‘ ایمان اور پروردگار کے ساتھ رابطہ بہتر بنانے پر توجہ کی۔ یہی اس عظیم جماعت کی ترقی کا راز ہے جس نے دشمنوں کے کاری وار سہے‘ پھر بھی اُس کی مضبوطی و بلندی میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ اس کے صبر کے سامنے جابر وسرکش حکمرانوں نے بھی ہار مان لی۔ یہ تربیتی گہوارے‘ افراد کی تربیت کتاب اللہ اور منہج نبویؐ کے مطابق کرتے تھے۔

امام البنا ؒ تربیت کے تین ارکان تعارف‘ تفاہم اور تکافل کی وضاحت کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

جب آپ نے یہ انفرادی‘ اجتماعی اور مالی ذمّہ داریاں پوری کر دیں تو بلاشبہ اس نظام کے ارکان حاصل ہو جائیں گے اور اگر آپ نے اس میں کوتاہی کی تو یہ نظام مرجھائے گا‘ سکڑے گا ‘ حتیٰ کہ مر جائے گا اور اس کی موت اس دعوت کے لیے سب سے بڑا خسارہ ہے۔ یہ دعوت تو اسلام اور مسلمانوں کی امید ہے۔

امام شہیدؒ تربیت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے تھے‘ چنانچہ فرماتے ہیں:

ہم اپنے نفسوں کی تربیت کریں گے تاکہ ہم مسلم بنیں۔ اپنے گھروں کی تربیت کریں گے تاکہ مسلم گھرانے وجود میں آئیں۔ ہم اپنی قوم کی تربیت کریں گے تاکہ ہم ایک مسلم قوم بنیں۔

اس تربیت کے لیے سازوسامان کیا تھا؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:

ہم نے اس کے لیے تیار کیا ہے: نہ ڈگمگانے والا ایمان‘ نہ رکنے والا یعنی مسلسل عمل‘ اور وہ روحیں جو اپنے لیے سب سے بہترین دن وہ سمجھتی ہیں جب وہ اللہ کے راستے میں شہادت پا کر‘ اس کی بارگاہ میں حاضر ہوں۔

ہمیں سخت ضرورت ہے کہ اپنے خالق سے دلوں کو مربوط کرنے والے ان اقوال پر غور کریں اور پھر اپنا جائزہ لیں۔ بہت سے لوگ کسی دعوت کے حقائق اور اس کی بنیادوں کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس دعوت کی بنیادوں اور اس کے مظاہر کو خلط ملط کر دیتے ہیں۔ امام حسن البنا ؒ فرماتے ہیں:

لوگ دعوتوں کے صرف عملی مظاہر اور شکل و صورت کو دیکھتے ہیں مگر ان نفسیاتی محرکات اور روحانی الہامات کو اکثروبیشتر نظرانداز کر دیتے ہیں جو فی الحقیقت ان دعوتوں کا اصل سرمایہ اور ان کی غذا ہے‘ اور جن پر ان کی ترقی اور غلبہ موقوف ہے۔

امام البنا ؒنے اسلام کی عظمت و وقار اور شان و شوکت کی ازسرنو بازیابی کی تمام تر امیدیں اور توقعات‘ سچّے ایمان اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھے رابطے و تعلّق کے ذریعے دلوں کو زندہ کرنے سے وابستہ کر رکھی تھیں۔ آپ اس سلسلے میں فرماتے ہیں:

...لہٰذا میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ سب سے پہلے ہم اپنی دعوت میں جس چیز کا اہتمام کرتے ہیں‘ اپنی دعوت کی ترقی اور غلبے میں جس بات پر انحصار کرتے ہیں‘ وہ ہے: روحانی بیداری۔ ہم سب سے پہلے روحانی بیداری‘ دلوں کی زندگی اور وجدان و احساسات کی حقیقی بیداری چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں: زندہ‘ مضبوط اور مستحکم نفوس‘ دھڑکنے والے نئے دل‘ اور غیور و اعلیٰ جذبات!

اللہ اکبر‘ کتنے سچّے ہیں یہ کلمات‘ یہ زندہ معانی‘ اور ازدل خیزد بردل ریزد‘ کے مصداق یہ عبارات! ان کلمات نے اعضا و جوارح پر وہ اثر ڈالا کہ الفاظ نے افعال کی صورت اختیار کر لی‘ کلمات نے زندگی کا روپ دھار لیا۔

امام مربی ؒ نے قلب کی بیداری‘ ایمان کی ضرورت و احساسات و وجدان کی حاضری پر زور دیا ہے کیوں کہ اسی سے مسلمان اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے قابل ہوتا ہے اوراس عظیم مہم کو سر کرنے کا اہل بنتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

اس سے پہلے کہ ہم آپ کو اس دعوت کے حوالے سے نماز و روزے کے بارے میں بتائیں‘ قضا و حکم‘ عادات و عبادات‘ اور نظم و معاملات کے متعلق بات کریں‘ ہم آپ سے زندہ دل‘ زندہ روح ‘ بیدار وجدان‘ حسّاس نفس اور گہرے ایمان کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں۔ دل و روح کی یہ بیداری انسان پر اثرانداز ہوتی ہے اور وہ اسلام کا مطلوب نمونہ بن جاتا ہے۔ اسلام انسان کو ایسا فرد بنا دینا چاہتا ہے جو حسّاس وجدان کا مالک ہو‘ حسن و قبح میں تمیز کر سکتا ہو‘ صواب و خطا کا درست ادراک کر سکتا ہو‘ ایسا مضبوط ارادہ رکھتا ہو جو حق کی خاطر کمزور پڑے نہ نرم۔ اسی لیے ہم ہر مسلمان بھائی سے کہتے ہیں کہ وہ احکامِ الٰہی کے مطابق عبادت کرے تاکہ اس کا وجدان ترقی کر سکے۔

یہ ہے ایمانی تربیت‘ اسلام کی وہ مضبوط بنیاد جس پر نبی ؐنے اپنی دعوت اور اسلامی مملکت کی تشکیل کی۔ امام شہید ؒ فرماتے ہیں:

حضور نبی کریم ؐنے اپنی دعوت کو راسخ کرنے کے لیے لوگوں کو ایمان کی طرف بلایا‘ پھر محبت و اخوت پر ان کے دلوں کو یک جا کیا۔ چنانچہ عقیدے کی قوت‘ وحدت و اتحاد کی قوت میں بدل گئی۔ آپؐ کی جماعت ایک ایسی جماعت بن گئی جس کے کلمے و دعوت کو ضرور غالب آکے رہنا تھا۔

ایمانی تربیت کا جذبہ امام شہیدؒ پر ہمیشہ غالب رہتا تھا۔ چنانچہ آپ اس مقصد کے لیے ہفتہ وار شبینہ مجالس منعقد کرنے پر زور دیتے تھے۔ ایک بار آپ نے فرمایا:

اخوان المسلمون کا طریقہ ہے کہ وہ ہفتے میں ایک رات تعارف‘ اخوت اور ذکر و دعا کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ میں نے چاہا کہ قیام اللیل‘ دعا اور استغفار کے بارے میں کچھ باتیں مختصراً عرض کر دوں۔

برادر عزیز! سب سے پاکیزہ مناجات یہ ہے کہ آپ اپنے رب سے اس وقت خلوت میں ہوں جب لوگ سوئے ہوئے ہوں‘ ماحول پرسکون ہو‘ رات نے اپنے پردے ڈال دیے ہوں۔ اس وقت آپ اپنے دل کو حاضر کریں‘ اپنے پروردگار کو یاد کریں‘ اپنی کمزوریوں کو سامنے رکھیں‘ اپنے مولا کی عظمت کا تصور کریں‘ اپنے آپ کو اس کے حضور پا کر آپ پرسکون ہوں۔ اس کی یاد سے آپ کا دل مطمئن ہو‘ اس کے فضل پر خوش ہوں اور اس کے خوف سے روئیں۔ اس کی نگرانی کا احساس کریں‘ دعا میں الحاح و اصرار کریں‘ استغفار میں محنت کریں‘ اور پھر اس ذات کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کریں جسے کوئی عاجز کر سکتا ہے نہ غافل۔

لہٰذا ہمیں سب سے پہلے تزکیہ قلوب اور تہذیب نفوس پر توجہ دینا چاہیے تاکہ ہم اطاعت کے عادی ہوجائیں‘ اللہ تعالیٰ ایمان کو ہمارا محبوب بنا دے‘ اور ہمارے دلوں کو اس سے مزین کر دے‘ کفر و فسق اور نافرمانی سے ہمیں نفرت ہو جائے۔ اس ایمانی بیداری کی بنا پر ہی ہم ان شا ء اللہ اُن ایمان والوں میں شامل ہو جائیں گے جو گہرے ایمان کی دولت سے مالا مال کیے جاتے ہیں۔

شہید حسن البنا  ؒکے مکتب فکر میں‘ فرد کے اپنے ربّ سے تعلق کو مضبوط کرنے پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ اس کے لیے وہ درج ذیل طریقہ اختیار کرتے ہیں:

روزانہ تلاوتِ قرآن مجید‘ ماثور دعائوں کا ورد‘ ۱۰۰ مرتبہ استغفراللّٰہ‘ ۱۰۰ مرتبہ اَللّٰھُمَّ صل علٰی سیدنا محمد وعلٰی آلہ وصحبہٖ وسلّم‘ ۱۰۰ مرتبہ لا الٰہ الا اللّٰہ۔ اس کے بعد‘ دعوت کی کامیابی اور دعوت کے لیے کام کرنے والوں اور اخوان کے لیے دعا۔ بعدازاں اپنے لیے اور اپنے گھر والوں کے لیے دعا۔ اس کے بعد جتنی دعائیں ممکن ہوں‘ کی جائیں۔ یہ وظیفہ صبح کی نماز کے بعد اور مغرب یا عشا کی نماز کے بعد خشوع کے ساتھ کیا جائے۔ اس ورد میں مجبوری کے سوا‘ دنیوی بات نہ کی جائے۔

اگر ہم واقعی نجات کے طالب ہیں‘ دنیا و آخرت میں اللہ کی رضا اور فوز و فلاح چاہتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم دلوں میں خفتہ ایمان کو جگانے کی کوشش کریں۔ اگر ہم اپنی دعوت میں کامیابی چاہتے ہیں‘ اپنے ذرائع میں کامرانی کے متمنی ہیں‘ اپنے اہداف تک پہنچنا چاہتے ہیں تو ایمان کی بیداری ہی اس کا واحد حل ہے--- ایمان جو ایک مضبوط ہتھیار ہے‘ جو ہمارا سب سے بڑا خزانہ ہے!

امام شہیدؒ فرماتے ہیں:

ایمان قوت کے بھیدوں میں سے ایک بھید ہے‘ جس کا ادراک سچّے اور مخلص مومن ہی کرسکتے ہیں۔ آج سے پہلے اگر کارکنوں نے جہاد کیا ہے تو ایمان کے ذریعے ہی کیا ہے‘ اور آج کے بعد بھی وہ ایمان ہی کے ذریعے جہاد کریں گے۔ ایمان نہ رہے تو مادی اسلحہ کتنا بھی ہو‘ لوگوں کے لیے کسی کام کا نہیں۔ ایمان موجود ہے تو مقصد تک پہنچنے کا راستہ بھی موجود ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:

وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا  نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ o (الروم ۳۰:۴۷)

اور ہم پر یہ حق ہے کہ مومنوں کی مدد کریں۔

(  ہفت روزہ المجتمع‘ کویت‘ شمارہ ۱۴۳۹ ‘ ۲۰ فروری ۲۰۰۱ء سے ماخوذ)