سجاد میر


یہ ایک انتہائی خطرناک مغالطہ ہے جو پیدا کیا جا رہاہے۔ ہمارے ایک دانش وَر [ایازامیر] نے مخصوص طبقے کی نمایندگی کرتے ہوئے کہا ہے: ’’بھارت اگر ہندو ریاست ہے تو اس میں خرابی کیا ہے؟ ہم بھی تو آخر ایک مسلم ریاست ہونے کے دعوے دار ہیں۔ اگر وہ فاشسٹ ہیں تو پھر ہمیں بھی خودکو فاشسٹ ڈکلیئر کر دینا چاہیے‘‘۔ یہ بات کئی مغالطوںکا ملغوبہ ہے اور اس ملک میں ایک خاص ذہنیت پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ بات کی وضاحت یوں کی جاتی ہے: ’’جناح نے تو ۱۱؍اگست کو جس نظام کا اعلان کیا تھا، ان کے مطابق ایک سیکولر ریاست تھی، جب کہ ان کی وفات کے فوراً بعد اس بات کی کوششیں شروع ہو گئیں کہ پاکستان کو ایک مذہبی ریاست بنا دیا جائے۔ قراردادِ مقاصد اسی کوشش کا نتیجہ ہے‘‘۔ 
پہلی بار میں نے یہ بات ایم بی نقوی کے ہاں پڑھی جو بائیں بازو کی طرف کھلا جھکائو رکھتے تھے،مگر تھے انتہائی سنجیدہ اور باوقار صحافی۔ انھوں نے لکھا: ’’قائد اعظم کے خیالات سے پہلا انحراف قراردادِ مقاصد تھی‘‘۔ اگلے ہی روز وہ ہمارے ممتاز فلسفی استاد ڈاکٹر منظوراحمد صاحب کے ہاں اس محفل میں موجود تھے، جہاں کراچی کے ۲۰،۳۰  چوٹی کے اہل علم ہر ماہ شریک ہوا کرتے تھے۔ میں نے عرض کیا: ’’اگر یہ مان لیا جائے کہ قائد اعظم کا مطلب وہی تھا جو آپ لوگ بیان کرتے ہیں تو آیا ایک شخصِ واحد کی راے جو چاہے قائد اعظم ہی کی کیوں نہ ہو، اہم ہے یا    اس کے مقابلے میں منتخب دستور ساز اسمبلی کی متفقہ راے؟‘‘ ظاہر ہے ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ پھر عرض کیا: ’’حضور، پہلے تو آپ جنابِ جناح کو غلط سمجھے اور ان سے سیکولرزم کا تصور منسوب کر دیا، حالانکہ انھوںنے زندگی بھر اس لفظ کو اپنی کسی تقریر میں بھی استعمال تک نہیں کیا‘‘۔ پھر تفصیل کے ساتھ اپنا موقف دہرایا جو میں اس ۱۱؍اگست کی تقریر کے حوالے سے رکھتا ہوں: ’’یہ میثاقِ مدینہ کا عکسِ ثانی ہے، اس کی ایک ایک سطر اس سے مشابہت رکھتی ہے‘‘۔
علامہ اقبال نے تو خطبہ الٰہ آباد میں واضح کر دیا تھا کہ: اسلام انسان کی وحدت کو کسی ناقابلِ ملاپ دوئی یا ثنویت میں تقسیم نہیں کرتا۔ ایسی دوئی جو مادہ اور روح، ریاست اور کلیسا میں پیدا کردی گئی ہے۔ اس طرح گویا ریاست اور مذہب کے الگ الگ ہونے کے خیال کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا تھا۔ لیکن کیا کیا جائے کہ ہمارے یہ دانش ور اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ: ’’تم سیکولرزم کا اردو میں غلط ترجمہ کرکے اسے ’لادینیت‘ کے معنوں میں استعمال کرتے ہو‘‘۔ ہم نے عرض کیا: ’’اچھا تو آپ بتادیجیے، پھر اس کا مطلب کیا ہے؟‘‘ 
اس کا پس منظر سن لیجیے کہ یہ یورپ میں کلیسا کی بالادستی کے خلاف بغاوت تھی۔ اس لفظ نے مختلف مواقع پر مختلف شکلیں اختیارکیں، تاہم اس کی فلسفیانہ تعبیر سب سے پہلے لندن میں بیٹھے ایک شخص نے اس وقت کی، جب کارل مارکس فروری ۱۸۴۸ء میں کمیونسٹ مینی فیسٹو   شائع کر رہا تھا۔ دو سال پہلے ۱۸۴۶ء میں جارج جیکب ہولیاک (۱۳؍اپریل ۱۸۱۷ء- ۲۲جنوری ۱۹۰۶ء) اسی شہر میں بیٹھا سیکولرزم کو باضابطہ منضبط کر رہا تھا ۔اُس نے اسے کلیسا کے مقابلے ایک نظام اور ایک سوچ کے طور پر مرتب کیا۔ فلسفے کی بحث سے قطع نظر، اس وقت دنیا میں اس کے چھے ماڈل ہیں، جن سے سیکولرزم کو سمجھا جاسکتا ہے۔ ہمارے دوست پروفیسر ڈاکٹر ممتاز احمد [م: ۳۱؍مارچ ۲۰۱۶ء] نے مذہب اور ریاست کے تعلق پر بڑی عالمانہ شان سے چار مزید اضافے کیے، مگر میں خود کو چھے تک ہی محدود رکھتا ہوں:
                   ۱-    پہلا ماڈل امریکا کا ہے، جس کے سیکولرزم کے دو اصول ہیں: ایک یہ کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں اور دوسرا یہ کہ ہر شخص کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ 
                  ۲-     دوسرا ماڈل برطانیہ کا ہے جس میں ریاست کا مذہب ہے، اس کا اپنا کلیسا ہے اور برطانیہ کا بادشاہ یا ملکہ اس کے سربراہ ہیں، البتہ ہر شخص کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔
                  ۳-    تیسرا ماڈل فرانس کا ہے جو انقلابِ فرانس میں کلیسا سے جنگ کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ اس میں کلیسا یا مذہب سے اس کی مخاصمت واضح ہے، جو گویا اس کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔
                  ۴-     ترکی کا ماڈل اسی فرانسیسی ماڈل سے متاثر، مگر بہت آگے بڑھ گیا۔ وہاں مسلمان اپنے مذہب کے مطابق شادی کر سکتے تھے نہ عبادت، مگر یہودی ہر معاملے میں آزاد تھے۔ ترکی میں عربی میں اذان تک دینے پر پابندی تھی۔ غیر مسلموں کو بڑی چھوٹ تھی۔ یہ جو میرا دانش وَر پوچھتا ہے کہ: ’’لبرل کو سیکولر سے ملا دیا جائے تو اس سے دین دار طبقہ کیوں چڑتا ہے؟‘‘ اس لیے کہ پھر اس کی یہی شکل ہمارے اس سیکولر یا لبرل طبقے کے لیے پسندیدہ بنتی ہے، جو ترکی میں رہی ہے اور جس سے ترکی اب نجات حاصل کر رہا ہے۔
                 ۵-     اس کی پانچویں شکل اشتراکی روس میں پائی جاتی تھی، جس کے مطابق ’مذہب افیون ہے‘۔ 
                 ۶-     اور آخری شکل بھارت کی ہے، جس کے بارے میں اول روز سے کہا جاتا تھا اور درست کہا جاتا تھا: ’’یہ منافقت کے لبادے میں اپنی جنونیت کو چھپانے کا دوسرا نام ہے‘‘۔ حالات نے ثابت کر دیا کہ اب پردہ چاک ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بڑے [یعنی علامہ اقبال، محمدعلی جناح، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا مودودی وغیرہ] اس جھانسے میں نہیں آئے۔ وہ اس لفظ سے دُور رہے۔ ان کی نظر میں ان کا اپنا نظام حیات زیادہ طاقت ور اور جان دار ہے جس میں ریاست کا اپنا مذہب ہے۔(برطانیہ کی طر ح) ہر شخص کو مذہبی آزادی حاصل تو ہے، مگر زندگی کے تمام معاملات میں آپ کو مادر پدر آزادی نہیں، آپ ایک ضابطۂ حیات اور ضابطۂ  اخلاق کے پابند ہیں۔ 
اس مختصر مضمون میں گنجایش نہیں ہے کہ اُس اسلوبِ حیات کو بیان کیا جائے جو یہ لبرل سیکولر طبقہ ان لفظوں کی آڑ میں اپنانا چاہتا ہے۔ تاہم، یہ ایک بڑی حماقت ہو گی اگر اس بات پر اصرار کیا جائے کہ: ’’اسلامی جمہوریہ اورہندو توا کے ایک ہی معنی ہیں‘‘۔ آپ کو’ ہندوتوا‘کا متبادل ڈھونڈنا ہے تو پھر ’داعش کا ماڈل‘ دیکھیے۔ حتیٰ کہ پاکستان میں طالبان کا ماڈل بھی قبول نہیں کیا گیا، جس نے افغانستان سے نہ صرف پوست تک کی کاشت ختم کر دی تھی بلکہ اس ہتھیار بند معاشرے سے نجی ملکیت میں ہتھیار بھی ختم کرنے کا ناقابلِ تصور کارنامہ عملاً کر دکھایا تھا۔ ۲۰۰۲ء میں الیکشن جیتنے کے بعد جب مولانا فضل الرحمان صاحب سے پوچھا گیا: ’’کیا آپ طالبان کا ماڈل لائیں گے؟‘‘، تو انھوں نے صاف لفظوں میں کہا: ’’طالبان کا اپنا ماڈل ہے اور ہمارا اپنا آئین‘‘۔ ان کا جواب وہی تھا جو فرانس میں بائیں بازو والوں نے اور کیرالہ میں کمیونسٹ پارٹی نے انتخابات جیت کر اختیار کیا تھا۔
’اسلامی جمہوریہ‘ کا ماڈل صاف بتاتا ہے کہ یہ پہلی ’ری پبلک‘ ہے، جو اسلام کے اصولوں کے مطابق چلنا چاہتی ہے۔ یہاں ’ری پبلک‘ کا لفظ اہم ہے۔ پاکستان ان معنوں میںمذہبی ریاست نہیں، جن معنوںمیں اسرائیل ہے اور بھارت ان معنوں میں مذہبی نہیں ہو سکتا، جن معنوں میں اسرائیل ہے۔ اس لیے کہ یہاں ہندوئوں کے علاوہ ایک بہت بڑی اکثریت غیرہندوئوں کی آباد ہے۔ پاکستان کے قیام کے وقت صاف بتا دیا گیا تھا، یہ شمال مغربی ہند میں مسلمانوں کے مسئلے کا حل ہے یا بنگال کے مسلمانوں کے لیے ایک تجویز ہے۔ باقی جو لوگ ہندستان میں رہ جائیں گے، ان میں آبادی کی تقسیم ویسی نہ ہو گی جیسی مسیحی یورپ میں تھی۔ آبادی کے اس مجموعے میں اگر آپ ان اصولوں پر نہیں چلتے، جن کی بنیاد پر ملک بنا تھااور اس کا آئین ترتیب دیا گیا تھا، تو پھر تاریخ اس خطے کے بارے میں ایک بار پھر نئے فیصلے کرے گی۔ شاید ان فیصلوں کا وقت ان ’ہندوتوا‘ والوں نے خود ہی قریب کر دیا ہے۔ 
ایک ہندو ریاست کے یہ معنی کیسے ہو گئے کہ آپ اپنے اندر موجود ایک مسلم آبادی کے اکثریتی خطے پر فسطائیت نافذ کریں، جیسا کشمیر پر کیا جا رہا ہے۔ جو لوگ ہندو ریاست سے ڈر کر ہمیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم اسلام کا نام لینا چھوڑ دیں، وہ سمجھ لیں کہ ہم نے ہر بات میں احتیاط برتی ہے۔ ’جمہوریہ‘ کا لفظ ہم نے سوچ سمجھ کر استعمال کیا تھا اور ہم کبھی ’تھیوکریسی‘ کے قائل نہیں رہے۔ ہم نے اپنے نظام کو اور کوئی نام بھی نہیں دیا۔ رہی رام راج کی بات تو اس پر قائد اعظم کی سدابہار اور جامع تنقید یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ ہم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟ ہم نے بحیثیت  قوم تو ان کو بھی پذیرائی نہیں بخشی، جو حکومت الٰہیہ اور غلبۂ اسلام کا پروگرام پیش کرتے تھے۔ برصغیر میں مسلم فکر کا ذرا باریک بینی سے جائزہ لیجیے آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ یہ دیس کیسا دیس ہے؟ رہا، آپ کے نائو نوش اور عیش وعشرت کا معاملہ، تو اس کے لیے ہم ملک کا نظام نہیں بدل سکتے، بلکہ دوسرے لفظوں میں اپنا دین نہیں چھوڑ سکتے!