ترجمہ: رئیس احمد مغل
سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور مغرب میں غروب ہو جاتا ہے۔ یہ ضرب المثل صدیوں سے مسافروں اور بھٹکے ہوئوں کو سمت کا پتا دیتی آئی ہے لیکن آج یہ ضرب المثل امریکہ کے لیے مستقبل کے استعارے کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اس وقت امریکی حکومت کا اوّلین مسئلہ نہ دہشت گردی کا خاتمہ ہے اور نہ ہی ٹیکسوں کی عدم وصولی یا عالمی تجارت میں خسارہ۔ پورے مغرب اور امریکہ کے اعصاب پر سوار‘ اوّلین مسئلہ پچھلی ایک صدی میں آبادی میں مسلسل کمی اور اب معیشت‘ دفاع اور عالمی تعلّقات پر پڑنے والے اس کے نمایاں اثرات ہیں۔
واشنگٹن میں قائم ’’مرکز براے دفاعی و عالمی مطالعات‘‘ (سی ایس آئی ایس) (Center for Strategic and International Studies) وسائل اور کارکردگی کے لحاظ سے ایک موقر تحقیقی ادارہ ہے۔ آبادی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے سی ایس آئی ایس نے ایک علیحدہ مستقل منصوبہ ’’اقدام براے عالمی عمررسیدگی‘‘ (جی اے آئی) (Global Aging Initiative) جاری کیا ہے۔ اس ادارے کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے تعارفی کلمات میں درج ہے، ’’اگلے تین عشروں میں جاپان‘ مغربی یورپ اور امریکہ آبادی کے لحاظ سے تاریخ کی بے مثال تبدیلی سے گزریں گے‘ جس میں معمر افراد کی تعداد بڑھتی چلی جائے گی اور کام کرنے کے قابل افراد کی تعداد جوں کی توں رہے گی یا اکثر جگہوں پر گھٹتی چلی جائے گی‘‘۔ رپورٹ میں اس صورت حال کے اثرات بہت ہی محتاط الفاظ میں بیان کیے گئے ہیں کہ ’’آج کی تمام بڑی طاقتوں کو ساختیاتی تبدیلی‘ قومی بچت میں کمی اور معاشی ترقی میں سست رَوی کے خطرات لاحق ہیں‘‘ اور یہ کہ ’’یہ سب عناصر اہم دفاعی مضمرات کا باعث بنیں گے‘‘۔
مغرب میں آبادی کی کمی کا مسئلہ کیا ہے اور اس کے کیا اثرات متوقع ہیں؟ اس کی تفصیل جاننے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہاں ’’مغرب‘‘ سے مراد دُنیا کے نقشے پر موجود مغرب نہیں۔ مثال کے طور پر‘ امریکی ریاست سائوتھ فلوریڈا سے صرف ۹۰ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع کیوبا‘ اس مغرب میں شامل نہیں۔ یہی حال ہیٹی‘ جنوبی امریکہ کے تمام ممالک اور وسطی امریکہ کے ممالک کا ہے۔ اسی طرح نافٹا (Nafta) کے رکن ممالک بھی اگرچہ دنیا کے نقشے پر مغرب کا حصہ ہیں لیکن یہ ذکر اس ’’مغرب‘‘ کا نہیں۔ یہاں ’’مغرب‘‘ سے مراد وہ سیاسی اور عالمی اتحاد ہے جس میں شامل ہر ملک میں چند خصوصیات مشترک ہیں۔ یعنی اتحاد میں شامل تمام ممالک ترقی یافتہ ہیں یا مابعد ترقی کے دَور سے گزر رہے ہیں۔ یہ سب سرمایہ دار‘ سیکولر ریاستیں ہیں اور ان سب کی ایک بنیادی خصوصیت امریکہ کا حلیف ہونا ہے۔ یوں جاپان‘ جو نقشہ میں ایشیا کا حصہ ہے‘ اس تعریف کی رُو سے ہر طرح اس ’’مغرب‘‘ میں شامل ہے۔
یہ ہے وہ مغرب جو آبادی کی کمی کے مسئلے کا شکار ہے‘ جب کہ دنیا کے دیگر حصوںمثلاً مشرق وسطیٰ‘ افریقہ کے اکثر ممالک اور جنوبی ایشیا کی آبادی کم از کم اگلے ۲۰ سے ۵۰ سال تک مسلسل بڑھتے رہنے کا امکان ہے۔
اس صورت حال پر مغرب کا ردعمل بجا طور پر گھبراہٹ اور پریشانی پر مشتمل ہے۔ ۱۹۹۳ء میں پیرے لیلاچے نے‘ جو اس وقت یاک شیراک کے مشیر تھے‘ اپنے ایک بیان میں کہا: ’’جنوبی ایشیا اور عرب ریاستیں اگلے ۳۰ سال میں ۴ ارب افراد پر مشتمل ہوں گی‘ جب کہ مغرب میں آبادی کی کمی کے تمام تر دبائو کے علاوہ ۵۰ لاکھ معمر افراد کا بوجھ بھی سر پر ہے‘‘۔ یوں دیکھا جائے تو سورج واقعی مغرب میں غروب ہو رہا ہے اور مشرق سے طلوع ہونے والا ہے۔ امریکی صدر جارج بش کا اعلان کردہ نیو ورلڈ آرڈر‘ یوں محسوس ہوتا ہے گویا اپنے بچپن ہی میں موت کا شکار ہو چکا ہے۔ اب اس کی جگہ وہ نیا نظام لے رہا ہے جس میں نئی توانا اقوام‘ جن کی آبادی کا اکثر حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے‘ آیندہ اپنے مفادات کے پیش نظر نئے اتحاد بنائیں گی‘ جس سے مغرب کے سوا پوری دنیا کو فائدہ ہوگا۔
جاپان میگزین میں حال ہی میں ایک مقالہ شائع ہوا ہے۔ اس میں جاپان کی معیشت پر آبادی کی کمی کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ مقالے میں کہا گیا ہے کہ چڑھتے سورج کی سرزمین جاپان کے تمام تجارتی مفادات اور تعلقات مغرب سے وابستہ ہیں۔ اس لیے مستقبل میں‘ مشرق کی ترقی کی صورت میں‘ جاپان اس میں حصہ دار نہ بن پائے گا۔ اس مقالے میں جس کا عنوان، ’’لرزتے سورج کی سرزمین: گھٹتی ہوئی آبادی والے جاپان میں تجارت‘‘ ہے‘ لکھا ہے: ’’جاپان جہاں ۲۰۰۱ء سے انسانی وسائل (کارکنوں) اور ۲۰۰۷ء سے آبادی میں مسلسل کمی آنا شروع ہو گی ‘ معیشت کو موجودہ رفتار سے آگے بڑھانے کی تمام پالیسیاں ناکام ثابت ہوں گی۔ یہ صورت حال کس حد تک جائے گی اس کا درست اندازہ‘ حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی نہیں لگا سکتا۔ لیکن کئی پیشانیاں ابھی سے عرق آلود دیکھی جا سکتی ہیں‘‘۔
آبادی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے صرف جاپان ہی پسینہ نہیں بہا رہا۔ اقوام متحدہ کا شعبہ آبادی‘ جو درحقیقت امریکہ اور برطانیہ کے اصرار پر اس لیے قائم کیا گیا کہ ’’محکوم‘‘ اقوام کی بڑھتی ہوئی آبادی اور اس کے سیاسی مضمرات پر نظر رکھی جا سکے‘ اس کوشش میں جاپان کا شریک ہے۔ ۱۹۹۰ء کے پورے عشرے میں اس ادارے کی توجہ کا مرکز و محور ایک ہی موضوع رہا: مغرب میں گھٹتی ہوئی آبادی اور اس کے عالمی معیشت پرپڑنے والے اثرات۔
اس مسئلے کا ایک انتہائی توجہ طلب پہلو اس موضوع پر مغرب کی سنجیدگی اور توجہ ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے حکومتیں‘ تحقیقی ادارے‘ درجنوں تھنک ٹینک اور مالی ادارے سر جوڑے بیٹھے ہیں۔ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں فرانس کے قومی مرکز براے مطالعہ آبادی کے سربراہ ژاں کلاڈچیسفائر کا بیان قابل توجہ ہے کہ ’’پہلے کوئی حکومت نہ اس قدر خوف زدہ تھی اور نہ ہی اس قدر عوامی سطح پر اس مسئلے کے اثرات کو زیربحث لایا گیا‘‘۔ اس انٹرویو میں آگے چل کر وہ کہتے ہیں’’دنیا بچوں کے بغیر قائم ہی نہیں رہ سکتی‘‘ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہ ’’چین‘ بنگلہ دیش اور افریقہ کے اکثر ممالک… یہاں آبادی کم کرنے کا عمل ہر لحاظ سے ناکام ثابت ہوا ہے‘‘۔ اکثر افراد کی کوشش ہوتی ہے کہ اس مسئلے پر نسلی تعصب ظاہر نہ ہونے پائے‘ تاہم یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مغرب کے قائدین اس وقت مغرب کی آبادی میں اضافہ اور ترقی پذیر ممالک میں اس کی کمی کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔
ایک منصوبہ: اقدام براے عالمی عمر رسیدگی (جی اے آئی) کا ذکر ابتدائی سطور میں گزر چکا ہے۔ صرف یہی ایک منصوبہ مغرب کی سنجیدگی اور پریشانی ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ سی ایس آئی ایس کا دو سالہ منصوبہ ہے جس کا مقصد یہ طے کیا گیا ہے کہ مغرب میں آبادی کی قلّت کی وجوہات معلوم کی جائیں اور اس کے ممکنہ حل تجویز کیے جائیں۔ اس کی سربراہی سابق نائب صدر امریکہ والٹروان ڈیل‘ جاپان کے سابق وزیراعظم ہاشی موتو اور جرمنی کے بنڈس بنک کے سابق صدر اوٹویومیل کر رہے ہیں۔ اس کمیشن میں امریکی حکومت کے کئی سابق قانون ساز‘ دنیا کے مختلف ممالک کے ماہرین‘ عالمی مالیاتی اداروں کے سربراہ اور درجنوں فلاحی ادارے شامل ہیں۔ اس ادارے کے تحت منعقد ہونے والے پروگراموں اور سیمیناروں میں فرانس کا ادارہ او ای سی ڈی ‘ ورلڈ بنک‘ آئی ایم ایف اور اسی درجے کے دیگر عالمی اداروں کے نمایندے شریک رہے ہیں۔ اس منصوبے کا باقاعدہ آغاز اپریل ۱۹۹۹ء میں کیا گیا۔ پالیسی کانفرنس کا اجلاس پچھلے سال جنوری میں ہوا۔ ستمبر میں مزید اظہار خیال کیا گیا۔ اب بنیادی سمٹ کانفرنس ۲۰۰۱ء کے ابتداء میں زیورخ اور واشنگٹن میں ہوئی جس میں مغربی ممالک کے نمایندہ ماہرین نے شرکت کی جو بعد میں امریکی قانون ساز نمایندوں کو قانون سازی کے حوالے سے مشاورت مہیا کریں گے۔ اب ایک اہم اجلاس اگست ۲۰۰۱ء میں ٹوکیو میں منعقد ہونا ہے۔
دیگر ادارے: لیکن یہ ادارہ اس کوشش میں تنہا نہیں۔ او ای سی ڈی نے ۳۰ ممالک سے اس حوالے سے پالیسی اور اس کے ممکنہ اثرات پر معلومات اکٹھی کی ہیں۔ ان ممالک میں مغرب کے ساتھ ساتھ ترکی اورمیکسیکو جیسے ترقی پذیر ممالک بھی شامل تھے۔ امریکی افواج سے وابستہ ادارہ رینڈکارپوریشن آبادی میں تبدیلی کا بڑی توجہ سے مطالعہ کر رہا ہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی آبادی میں فرق کا مطالعہ اس کے بنیادی موضوعات میں شامل ہے۔ حتیٰ کہ حال ہی میں امریکی سی آئی اے نے ایک تفصیلی غیر خفیہ دستاویز جاری کی ہے جس میں مغرب کی گھٹتی ہوئی آبادی اور اس کے اثرات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی موقر ادارے اس موضوع کے مختلف حصوں پر کام کر رہے ہیں۔ مثلاً ہارورڈ یونی ورسٹی میں قائم ’’مرکز مطالعہ آبادی و ترقی‘‘۔ اس مرکز نے ۱۹۹۶ء میں ایک رپورٹ جاری کی جس کا ذیلی عنوان تھا ’’عالمی قلّت آبادی- قیاسات‘‘۔ اس رپورٹ میں ایک ایسی دُنیا کا نقشہ کھینچا گیا ہے جہاں بچے ’’بہن بھائی سے محروم ہوں گے۔ ان کے کوئی چچازاد‘ خالہ زاد نہ ہوں گے‘ چچا خالہ بھی نہیں۔صرف والدین ‘ ان کے والدین اور غالباً ان کے والدین‘‘۔ واشنگٹن میں قائم ووڈرو ولسن مرکز براے اہل علم ایک ایسا ادارہ ہے جو صرف عالمی آبادی اور مغربی مفادات کے موضوع پر تحقیق میں مصروف ہے۔ اس کی توجہ ’’بڑھاپے‘‘ کے مطالعہ پر بھی ہے اور ترقی پذیر ممالک میں شرح آبادی پر بھی۔
اثرات و خطرات: سی ایس آئی ایس کی اب تک کی مطبوعہ تحقیق کا بنیادی محور شرح آبادی میں کمی اور اس کے معاشی اثرات ہیں۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ مغربی ممالک میں جہاں شرح آبادی دو بچے فی گھرانہ یا اس سے قدرے زیادہ ہے وہاں بہ مشکل ’’متبادل آبادی‘‘ فراہم ہو پاتی ہے۔ یوں ہر نسل پچھلی نسل سے تعداد میں کم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ یہ عمل اگر زیادہ عرصے جاری رہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آبادی میں بڑی عمر کے افراد بڑھتے چلے جاتے ہیں اور نوجوان‘ جو کسی بھی قوم کے حقیقی انسانی وسائل ہوتے ہیں‘ اور وہی تمام کام کرنے اور ٹیکس ادا کرنے والے افراد ہوتے ہیں‘ کم پڑتے جاتے ہیں۔ یوں حکومت جس کے اخراجات ٹیکس پر منحصر ہوتے ہیں‘ کمزور ہوتی جاتی ہے۔ سی ایس آئی ایس کی رپورٹ کے مطابق اس وقت مغرب میں ۱۵فی صد آبادی کی عمر ۶۵ سال یا اس سے زائد ہے۔ اگلے دو عشروں میں یہ شرح ۲۰ فی صد ہو جائے گی۔ ۲۰۳۰ء تک معمر افراد کل آبادی کا ایک چوتھائی جب کہ بعض ممالک میں ایک تہائی ہوں گے۔ گویا ۲۵ فی صد سے ۳۵فی صد۔
یقینا شرح پیدایش میں کمی اس ساری صورت حال کی واحد وجہ نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اوسط عمر میں اضافے کی وجہ سے ان افراد کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے جو پنشن وصول کرتے ہیں اور زیادہ عرصے تک وصول کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اگر آبادی میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا تو افراد کی طویل العمری ’’مصیبت‘‘ نہ شمار ہوتی۔ کیونکہ معمرافرادکے اضافے کا مسئلہ صرف پنشن کی ادایگی تک محدود نہیں۔ یہ مسئلہ اس سے کہیں زیادہ گھمبیر اور پیچیدہ ہے۔ طبّی اخراجات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ پنشن کی موجودہ پالیسیاں مرتب کرتے وقت اوسط عمر کے تخمینے مختلف تھے۔ اب اوسط عمر میں اضافے سے یہ تمام پالیسیاں ناکافی ثابت ہو رہی ہیں۔ دوسری جانب یہ تمام اضافی اخراجات پہلے سے کم نوجوانوں کو اٹھانے پڑ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ چونکہ انھی نوجوانوں نے اگلی نسل کی افزایش کرنی ہے اس لیے اس اضافی معاشی دبائو کے باعث اگلی نسل مزید کم افراد پر مشتمل ہوگی۔ اور یوں آبادی میں کمی سے ہر فرد پر ٹیکس کا بوجھ ناقابل برداشت ہوتا چلا جائے گا۔
آبادی کی کمی سے صرف فرد ہی متاثر نہیں ہوگا‘ صنعت و تجارت بھی براہِ راست اس کی زد میں ہیں۔ سی ایس آئی ایس کے مطابق’’بڑھاپے کی بڑھتی ہوئی شرح مستقبل کے معاشی چیلنج کی بنیاد بنے گی‘‘۔ جوں جوں آبادی گھٹتی چلی جائے گی اشیا کے خریدار بھی کم ہوتے جائیں گے۔ مثال کے طور پر ۲۰۲۰ء میں یورپی ممالک میں ۲۰ سے ۳۹ سال کی عمر کی آبادی میں ۱۳ فی صد کمی ہوگی۔ یہ افراد کا وہ گروہ ہے جو نیا گھر بساتا ہے اور گھریلو اشیا کا سب سے زیادہ استعمال کرتا ہے۔ جب اس عمر کی آبادی کم ہوگی تو صنعت و تجارت کے بہت بنیادی گوشے مثلاً تعمیرات‘ جایداد اور گھریلو استعمال کی اشیا سے متعلق تجارت بری طرح متاثر ہوگی۔
دفاع کے حوالہ سے سی ایس آئی ایس کی ایک رپورٹ،’’عالمی بڑھاپا: نئے ہزاریے کا چیلنج‘‘ میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ فوج اور بیرون ملک دفاعی آپریشنز کے اخراجات بھی’’شدید مالی دبائو کا شکار ہوں گے۔ یہ مالی دبائو پنشن اور حفظانِ صحت پر اٹھنے والے اخراجات کے باعث ہوگا‘‘ اور نتیجتاً ’’ایک بوڑھی‘ ترقی یافتہ دنیا کے لیے اپنی دفاعی ضروریات پوری کرنا مشکل ثابت ہوگا‘‘۔
تیسری دنیا کا ردّعمل: اس ساری صورت حال پر تیسری دنیا کا ردّعمل غیر واضح ہے۔ اسی سال ۲۴ جنوری کو اندر کمار گجرال ‘ سابق وزیراعظم بھارت نے سی ایس آئی ایس کے ایک اجلاس میں صدارتی خطبہ میں اس وقت کے نائب صدر امریکہ الگور کے وہ الفاظ دہرائے جو انھوں نے ۱۹۹۴ء میں قاہرہ کانفرنس میں کہے تھے،’’ہم سب آج یہاں جمع نہ ہوتے اگر ہمیں یہ احساس نہ ہوتا کہ آبادی کا مسئلہ اہم مسئلہ ہے‘‘۔ اس کے بعد گجرال نے کہا:’’یہ صرف سات سال کی بات ہے۔ اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ تیسری دنیا کی آبادی کے توازن کو اصل خطرہ مخالف سمت سے ہے‘‘۔ خود بھارت میں بڑھاپا ایک مسئلے کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے‘ گو شرح پیدایش ہنوز ’’متبادل نسل‘‘ کی حد سے اُوپر ہے۔
موجودہ صورت حال: اس وقت دنیا کی ۶۰ فی صد آبادی ایسے ممالک میں رہایش پذیر ہے جہاں آبادی میں اضافے کی شرح صفر فی صد یا اس سے کم ہے۔ یعنی ہر نسل پچھلی نسل سے یا تو برابر ہے یا تعداد میں کم۔واشنگٹن میں قائم پاپولیشن ریفرنس بیورو کے مطابق‘ مزید ۳۵ فی صد آبادی ایسے علاقوں میں رہایش پذیر ہے جہاں فی گھرانہ اوسط تین بچوں کا ہے۔ تاہم ان تمام اقوام کی شرح آبادی میں بھی پچھلے دوعشروں میں واضح کمی آئی ہے اور آبادی کو کم کرنے کے لیے مانع حمل اشیا کے استعمال کے لیے انھیں مسلسل دبائو کا سامنا ہے۔ گویا یہ اقوام بھی اگلی ایک نسل تک آبادی میں صفر فی صد اضافہ کی حد تک پہنچ جائیںگی۔
مغرب کے اقدامات: مغرب میں اس سلسلے میں جاری تحقیق اور دیگر مباحث اپنی جگہ‘ اس حوالے سے کیے گئے عملی اقدامات تاحال مشکوک نتائج کے حامل ہیں۔ بچوں میں اضافے کے لیے والدین کو معاشی تحریصات بعض علاقوں میں جزوی طور پر کامیاب رہی ہیں۔ اسی طرح جاپان میں اس حوالے سے ایک نئی اصطلاح ’’طفیلی کنوارا‘‘ وضع کی گئی ہے۔ طفیلی کنواروں سے مراد آبادی کا وہ حصہ ہے جو ۲۰ سے ۳۰ سال کی عمر تک پہنچنے کے باوجود اپنا گھر بسانے کے بجائے والدین کے ساتھ رہتے ہیں۔ معروف جاپانی ماہر عمرانیات ماسیدو مچارا نے یہ تجویز تک پیش کی ہے کہ ماسوائے ان جوانوںکے جن کے والدین حقیقی ضرورت مند ہیں باقی تمام طفیلی کنواروں پر الگ سے ٹیکس عائد کر دیا جائے۔
ایک اور حل اقوام متحدہ کے ماہرین تجویز کرتے ہیں جسے وہ ’’متبادل بذریعہ ہجرت‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ وہ حل یہ ہے کہ کم ترقی یافتہ ممالک سے افراد کو شہریت دے کر ’’کمائوپوت‘‘ کی کمی پوری کی جائے۔ اس حوالے سے اب تک کے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ باہر کے ممالک سے زیادہ تعداد میں افراد کے آنے سے کلچر اور معاشرتی اقدار پر حرف آتا ہے۔ بعض صورتوں میں مقامی افراد کی طرف سے نسلی ردّعمل بھی سامنے آیا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ مقامی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے درکار مہاجروں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ سٹوانگلینڈ کے مطابق: ’’جرمنی میں محض آبادی کی کمی کو روکنے کے لیے اگلے پچاس سالوں میں ایک کروڑ ۷۲ لاکھ افراد کی ضرورت ہوگی۔ بوڑھے افراد کی زیادتی سے پیدا ہونے والا عدم توازن سہارنے کے لیے ہمیں کل ۱۸ کروڑ مہاجروں کی ضرورت ہوگی گویا تین لاکھ چھ ہزار افراد سالانہ!!‘‘
لینے کے باٹ: اس مسئلے کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جسے عام طور پر اس حوالے سے شائع ہونے والی رپورٹوں اور سیمیناروں وغیرہ میں زیربحث لانے سے گریز کیا جاتا ہے‘ وہ ہے تیسری دنیا میں آبادی سے متعلق جاری پالیسی۔ وہی پالیسیاں جو مغرب میں ایسے بھیانک نتائج کا باعث بنی ہیں‘ تیسری دنیا میں روک کیوں نہیں دی جاتیں۔
مثال کے طور پر کینیا میں آبادی کا مسئلہ ان تمام ممالک سے گھمبیر ثابت ہوگا جو آج مغرب میں اس کا شکار ہیں۔ جرمنی اور انگلینڈ میں آبادی کی کمی کا تناسب مسلسل تھا۔ یعنی معمر افراد کی تعداد رفتہ رفتہ بڑھتی گئی اور آبادی کی شرح میں کمی بھی پوری صدی پر محیط ہے۔ جب کہ کینیا میں ۱۹۸۰ء تک اوسط آٹھ بچے فی گھرانہ تھی۔ وہاں آبادی کے حوالے سے مصروف کار تمام تنظیموں کا ہدف شرح آبادی میں صفر فی صد اضافہ ہے‘ یعنی فی گھرانہ دو بچّے۔ اس صورت میں اس ملک میں معمر افراد اور نئی نسل کا تناسب کیا ہوگا؟ جب کہ دیگر عناصر جیسے ایڈز اور ایڈز سے ملتی جلتی بیماریوں سے اگلی ایک نسل میں ایک تہائی کارکن آبادی کے مر جانے کا بھی تخمینہ ہے۔ اگر آبادی کی یہ ساری کمی مدنظر رکھی جائے تو دنیا کے نقشے سے کینیا کا مٹ جانا یقینی ہے۔
حاصل کلام: مغرب میں آبادی کا مسئلہ کئی وجوہات سے پیدا ہوا: بڑی عمر میں شادی‘ طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح‘ طلاق کے بعد نکاح سے گریز‘ گھر بسانے سے ہی گریز اور کم بچوں کی خواہش۔ لیکن بنیادی وجہ خاندانی منصوبہ بندی ہی ہے۔ترقی پذیر ممالک ‘ جن پر آبادی کی کمی کے لیے مسلسل دبائو ڈالا جا رہا ہے‘ بہتر ہوگا کہ وہ اس ساری صورت حال کو مدنظر رکھیں۔ غریب ترین ممالک کو بھی‘ زیادہ آبادی سے فائدہ ہی پہنچے گا۔ جیسا کہ سی ایس آئی ایس کے تعارفی کتابچہ میں درج ہے کہ دنیا بھر میں شرح آبادی کی تبدیلی کا عمل’’اب محض قیاس نہیں رہا۔ یہ ایک ایسا انقلاب ہے جسے ہر حال میں آنا ہے۔ اور جب یہ انقلاب آئے گا تو کوئی چیز بھی سابقہ حالت میں نہیں رہے گی‘‘۔ (بہ شکریہ امپیکٹ انٹرنیشنل‘ لندن‘ مارچ ۲۰۰۱ء)