بیسویں صدی عیسوی کے آخری عشرے میں دنیا میں ایسی سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیاں رونما ہوئیں کہ عالمی نقشہ نئے سرے سے مرتب کیا گیا۔ سوویت یونین کے انہدام اور اس کے نتیجے میں سرد جنگ کے خاتمے نے دنیا میں سیاسی اور اقتصادی گروہ بندی کو نئی جہت عطا کی۔ عالمی سیاسی منظر دو قطبی سے یک قطبی شکل اختیار کر گیا۔ اس یک قطبی دنیا میں امریکہ بلاشرکت غیرے عالمی طاقت بن کر اُبھرا۔ امریکی سیاسی و انتظامی اداروں اور تحقیق و دانش کے اداروں (think tanks) نے یہ خیال عام کرنا شروع کر دیا کہ گذشتہ تاریخ اپنے منطقی انجام کو پہنچی اور آیندہ جب بھی تاریخ مرتب کی جائے گی تو اس میں امریکی قیادت میں مغرب کی مرضی کو بنیادی عمل دخل ہوگا۔ ان کے دانش وروں نے تہذیبوں کا ایک مثلث بھی دنیا کے سامنے متعارف کرایا جس کے تینوں سروں پر بالترتیب عیسائی غرب‘ عالم اسلام اور چین دکھائے گئے۔ مدعا یہ تھا کہ آیندہ تہذیبوں کی جو جنگ ہوگی ان میں مذکورہ بالا تہذیبیں فریق ہوں گی۔ اس حوالے سے سیموئل ہنٹنگٹن اور فرانسس فوکویاما کی کتابوں The Clash of Civilizations(تہذیبوں کا تصادم) اور The End of History (تاریخ کا اختتام) نے کافی شہرت پائی۔
امریکہ اور عیسائی غرب نے یک قطبی دنیا کی قیادت اپنے بے پناہ وسائل اور زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کے بل پر حاصل کر رکھی ہے۔ دنیا کی دیگر تہذیبوں کی طرف سے مغربی تہذیب کو کوئی خاص چیلنج ان میدانوں میں سامنے نہیں آیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ خود روس اور اس کے اتحادی امریکہ کے حاشیہ بردار بن گئے۔ اس کی بڑی مثال بھارت ہے جس نے سرد جنگ کے دوران ایشیا کی طاقت کے توازن میں اپنا وزن
ہمیشہ روس کے پلڑے میں ڈالا لیکن یک قطبی دنیا میں روس کا یہ روایتی اتحادی امریکہ کا عزیز ترین دوست بن گیا ہے۔
چین پر سرد جنگ کے خاتمے کا کوئی بڑا منفی اثر مرتب نہیں ہوا۔ وجہ یہ تھی کہ چین نے اپنی بے پناہ اقتصادی ترقی کے بل پر دنیا میں اپنی صلاحیت کا لوہا کافی حد تک منوا لیا۔ تاہم‘ اس عرصے میں عالم اسلام سیاسی اور اقتصادی حوالوں سے کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھا سکا۔ اس کے واحد سیاسی ادارے یعنی اسلامی کانفرنس کی تنظیم نے عالمی سیاست پر کوئی اثر مرتب نہیں کیا۔ جنگ خلیج‘ بلقان کے بحران اور چیچنیا کے تنازعے میں او آئی سی نے جو مایوس کن کردار ادا کیا اس نے عالمی سیاسی منظرنامے میں اس کو ایک بے جان سیاسی پلیٹ فارم کے طور پر متعارف کرایا۔ نہ صرف اسلامی کانفرنس کی تنظیم بلکہ اسلامی دنیا کے ممالک انفرادی طور پر بھی مجموعی قومی کارکردگی‘ اقتصادی ترقی اور علمی ترقی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے۔ چنانچہ عالمی سطح پر نئی صف بندی میں عالم اسلام عملی طور پر تماشائی بنا رہا۔ اس نئی صف بندی میں اقوام متحدہ اور اقتصادی امداد کی عالمی تنظیمیں یعنی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور عالمی بنک امریکی اشارہ ابرو کے منتظر رہے۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ غالب تہذیبیں دنیا کو نئی اصطلاحات اور طرزِ زندگی عطا کرتی ہیں۔ اسلامی تہذیب غالب تھی تو یہ کام اس نے کیا‘ اور آج مغرب کا بول بالا ہے تو اس کا طرزِ زندگی اور اصطلاحیں باقی دنیا اپنا رہی ہے۔ ان نئی اصطلاحات اور مظاہر میں سے ایک غیر حکومتی تنظیمیں یا این جی اوز (NGO's) ہیں۔
زیرنظر مضمون میں ان تنظیموں کا تعارف‘ تاریخی پس منظر‘ پاکستان میں مقاصد اور حکمت عملی اور اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے لائحہ عمل پر گفتگو کی گئی ہے۔
این جی او ہر اس تنظیم یا ادارے کو کہتے ہیں جو متعین مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں ہو اور جس کے انتظامی اور مالیاتی امور حکومتی اثرات سے آزاد ہوں۔ اس عمومی تعریف کی رُو سے سیاسی جماعتیں‘ مزدور اور پیشہ ور تنظیمیں‘ تجارتی اور ثقافتی انجمنیں اور دیگر تنظیمیں فی الحقیقت غیر سرکاری تنظیمیں ہیں۔ تاہم‘ غیر سرکاری تنظیموں کے مخصوص پس منظر‘ مقاصد اور طریق کار کی روشنی میں ان کی تعریف یوں کی جاتی ہے:
وہ تنظیمیں جو غیر سرکاری طور پر معاشرے کے مجموعی یا ایک مخصوص شعبے کی فلاح اور ترقی کے لیے کام کریں۔
بدلتے ہوئے حالات میں یہ تنظیمیں صرف بہبود اور ترقی میں شرکت پر اکتفا نہیں کر رہی ہیں بلکہ مفادِعامہ کے کسی بھی مسئلے پر نہ صرف یہ کہ حرکت میں آتی ہیں بلکہ محرومیت‘ استحصال‘ حقوق انسانی کی پامالی اور معاشرے کے خلاف ہونے والے ہر کام پر ردعمل ظاہر کرتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ان کا کام اب یہ نہیں رہا کہ قدرتی آفات میں مدد بہم پہنچائیں یا لوگوں کو ترقی کے بنیادی تصورات اور زیورتعلیم سے آراستہ کریں بلکہ اب یہ تنظیمیں سیاسی معاملات اور حکومتی پالیسیوں کو چیلنج کر رہی ہیں۔ یہ تنظیمیں ملکی قوانین‘ اقتصادی پالیسیوں اور بین الاقوامی تعلقات میں اپنے مخصوص نکتہ نظر کو منوانے کے لیے سڑکوں پر آنے سے بھی نہیں کتراتیں۔ اپنے دائرہ کار میں وسعت کی وجہ سے ان تنظیموںسے متعلق لوگ اپنے آپ کو این جی او کے بجائے پی آئی اوز (Public Interest Organizations) یعنی مفادِعامہ کی تنظیمیں کہلوانا پسند کرتے ہیں۔
تاریخی پس منظر : این جی اوز کا تصور انیسویں صدی عیسوی کے دوران امیر صنعتی ممالک میں پروان چڑھا‘ جہاں خوش حال اور درمیانے طبقے نے اپنے ہاں کے غریب اور غیر مراعات یافتہ لوگوںکی بہبود کے لیے کام شروع کیا۔ ان کی رائے یہ تھی کہ وسائل پر محض امیروں کی اجارہ داری نہ رہے بلکہ اس کا ایک حصہ غریبوں کو بھی منتقل کیا جائے۔ دوسری طرف یہ سماجی کارکن سیاسی عمل کے لیے آواز اٹھاتے رہے۔ مزیدبرآں اس وقت کے مسائل یعنی غلاموں کی حالت زار‘ بچوں کی مشقت اور بالغ رائے دہی جیسے امور پر اپنا موقف سامنے لاتے رہے۔ مشنری اداروں کا ایک ہی مقصد تھا یعنی یہ کہ دنیا کو مشرف بہ عیسائیت کیا جائے۔ ان مشنری اداروں کے اثرات انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے اوائل میں برعظیم میں بھی نظر آنے لگے۔ آج بھی پاکستان کے ہر قابل ذکر شہر اور قصبے میں مشنری اداروں کے قائم کردہ ادارے ابھی تک کام کر رہے ہیں۔
بیسویں صدی عیسوی کے دوسرے نصف میں عوامی بہبود کے کام حکومتی سرپرستی میں ہوتے رہے۔ تاہم‘ مغربی ممالک میں اس حوالے سے جائزہ لیا گیا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ ریاستی سرپرستی میں بہبود کے سارے کام ممکن نہیں۔ کیونکہ ایک طرف حکومت کو بھاری اخراجات برداشت کرنا پڑتے تھے اور دوسری طرف سرکاری اداروں کی خامیاں یعنی کام کرنے کی اہلیت کی کمی‘ عدم مساوات اور مسائل حل کرنے کی صلاحیت سے محرومی ان کی ناکامی کے اسباب میں شامل تھے۔ چنانچہ بہبود کے کاموں کو غیر سرکاری سطح پر انجام دینے کی روایت آگے بڑھی۔ اس مرحلے پر غیر حکومتی تنظیموں نے بہبود سے ایک قدم آگے جا کر نئے تصورات سے دنیا کو آگاہ کر دیا۔ ان جدید تصورات میں انسانی ترقی‘ شراکت اور سماجی تبدیلی جیسے اصول شامل تھے۔ آج دنیا کے کسی بھی حصے میں این جی اوز درج ذیل شعبہ جات میں سب‘ یا ان میں سے بعض میں مداخلت کرتی ہیں:
پاکستان میں این جی اوز کا ارتقا: پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد قبل از تقسیم قائم کردہ خیراتی اداروں نے اپنا کام جاری رکھا۔ ایک جائزے کے بعد حکومت پاکستان نے ان اداروں کو سماجی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے ناکافی قرار دیا۔ اس مرحلے پر اس ضرورت کا احساس ہوا کہ سماجی خدمات کے ایک مربوط نظام کی بنیاد ڈال دی جائے۔ چنانچہ ۱۹۵۱ء میں اقوام متحدہ کے تعاون سے حکومت پاکستان نے سماجی بہبود اور امداد باہمی کا مربوط نظام متعارف کرایا۔ ۱۹۵۶ء سے ۱۹۵۸ء تک اس کام کو وزارت ورکس اور سماجی بہبود سرانجام دیتی رہی۔ ۱۹۵۸ء میں اس مقصد کے لیے ایک علیحدہ وزارت قائم کی گئی جس کو وزارتِ محنت اور سماجی بہبود کا نام دیا گیا۔ اگلے سال ۱۹۵۹ء میں وزارتِ صحت‘ محنت اور سماجی بہبود کو یک جا کرتے ہوئے اسے ایک مرکزی سیکرٹری کے تحت کر دیا گیا۔ ۱۹۶۱ء میں ایک آرڈی ننس کے ذریعے رضاکارانہ سماجی خدمات کے اداروں (Voluntary Social Welfare Services Association) کے عنوان سے ایک قانون نافذ کر دیا گیا۔ اس قانون میں سماجی اداروں کی ہیئت ترکیبی‘ مقاصد‘ دائرہ کار اور احتساب جیسے امور صراحت کے ساتھ بیان کیے گئے۔ یہی قانون آج تک پاکستان میں نافذ ہے۔ ۱۹۶۲ء میں سماجی بہبود کا محکمہ صوبائی سطح پر بھی قائم کیا گیا۔ چنانچہ صوبوں میں موجودہ انتظامی ڈھانچہ وزیر سماجی بہبود‘ سیکرٹری (ان کا ماتحت عملہ)‘ نظامت سماجی بہبود اور اس کے ذیلی اداروں پر مشتمل ہے۔
۱۹۷۹ء میں افغانستان پر روسی قبضے کے بعد امریکہ کی قیادت میں مغربی دنیا نے جہاں جنگی سامان اور مالی و سیاسی امدادسے افغانوں کو نوازا وہاں ان ممالک سے بڑی تعداد میں رضاکار تنظیموں نے پاکستان کا رخ کیا۔ ان میں سے قابل ذکر ۵۰ تنظیمیں تھیں جو مہاجرین سے متعلق پاکستانی ادارے افغان کمشنریٹ کے ساتھ باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ تھیں۔ ان میں سے صرف چھ تنظیمیں اسلامی ممالک سے تعلق رکھتی تھیں۔ ابتدا میں ان تنظیموں نے مہاجرین کی خوراک‘ لباس اور علاج معالجے پر توجہ دی لیکن بعد میں انھوں نے افغان معاشرے میں کام شروع کیا اور مختلف امور کے بارے میں افغانوں کی رائے بنانے کی کوششیں شروع کیں‘ جن میں خواتین کے حقوق اور آبادی کی منصوبہ بندی جیسے شعبے شامل تھے۔ کہا جاتا ہے کہ افغانوں کے لیے پاکستان میں کام کرنے والی این جی اوز نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنا دائرہ کار پاکستان کے اندر بھی بڑھانا شروع کر دیا اور ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کے عشروں میں ان کے کام میں نمایاں اضافہ ہوا۔
اس وقت پاکستان میں این جی اوز کی رجسٹریشن کے لیے پانچ قوانین نافذ ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
۱- رضاکار تنظیموں کی رجسٹریشن اور کنٹرول کا قانون مجریہ ۱۹۶۱ء: اس قانون کے تحت ذیل میں سے ایک یا زیادہ شعبوں میں کام کرنے والی تنظیمیں رجسٹر ہوتی ہیں:
بچوں‘ نوجوانوں‘ خواتین‘ معذوروں‘ قیدیوں‘ ناداروں‘ مریضوں اور ضعیفوں کی بہبود‘ فروغِ تعلیم‘ تفریحی امور اور سماجی تربیت۔ قانون ۱۹۶۱ء کی دیگرضروریات میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے تحت رجسٹرڈ ہونے والی تنظیموں میں مسلمہ جمہوری روایات کے ذریعے عہدیداران کا باقاعدہ انتخاب کیا جاتا ہے۔
۲- سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ ۱۸۶۰ء : جو تنظیمیں اس قانون کے تحت رجسٹریشن کی خواہش مند ہوں اُن کے کارپرداز محکمہ صنعت میں موجود جوائنٹ اسٹاک کمپنیز کے رجسٹرار کے پاس درخواست جمع کراتی ہیں۔ عام طور پر اس قانون کے تحت جو تنظیمیں رجسٹرڈ ہوتی ہیں وہ سائنس‘ ادب اور تعلیم کے فروغ‘ تاریخی و ثقافتی امور اور عام رفاہی کاموں میں حصہ لیتی ہیں۔ آج کل این جی اوز کی بہت بڑی تعداد اس قانون کے تحت رجسٹر ہونا پسند کرتی ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ اس قانون میں کشش کا سبب یہ ہے کہ اس میں عہدیداروں کا انتخاب نہیں کیا جاتا بلکہ چند افراد پر مشتمل بورڈ آف ڈائرکٹرز اس کے سیاہ و سفید کا مالک ہوتا ہے جو عام طور پر اساسی ارکان کے خاندان یا قرابت داروں پر مشتمل ہوتا ہے۔
۳- امداد باہمی کے اداروں کا قانون مجریہ ۱۹۲۵ء: اس قانون کے تحت رجسٹریشن کے کام کی نگرانی امداد باہمی کے رجسٹرار کرتے ہیں۔ جو تنظیمیں اس قانون کے تحت رجسٹر ہو سکتی ہیں ان میں کاشتکاروں‘ وکلا‘ اساتذہ‘ ڈاکٹر‘ صارفین‘ ہنرمند خواتین اور ٹرانسپورٹ کے شعبے سے متعلق این جی اوز شامل ہیں۔
۴- کمپنیوں کا آرڈی ننس مجریہ ۱۹۸۴ء: کوئی بھی ایسی تنظیم جو غیر منافع بخش ہو اور تجارت‘ سائنس‘ مذہب‘ کھیلوں‘ سماجی خدمات اور عمومی رفاہی کاموں میں دل چسپی لیتی ہو‘ وہ اس قانون کے تحت رجسٹر ہوتی ہے۔ مذکورہ قانون کے تحت رجسٹریشن کا اختیار کارپوریٹ لا اتھارٹی کو حاصل ہے‘ جس نے صوبائی سطح پر یہ اختیار ڈپٹی رجسٹرار کو تفویض کر دیا ہے۔
۵- ٹرسٹ یا وقف کا قانون مجریہ ۱۸۸۲ء: قانونِ وقف کے تحت کوئی بھی وقف کا ادارہ ضلعی کچہری کے سب رجسٹرار کے پاس رجسٹر کرایا جاتا ہے۔ رجسٹرڈ وقف مذہب‘ تعلیم‘ حفظانِ صحت‘ انسانی حقوق اور مفادِعامہ کے دیگر امور جیسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا مجاز ہوتا ہے۔
پاکستان میں این جی اوز کی صحیح تعداد کا ابھی تک تعین نہیں کیا جا سکا۔ وجہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا پانچ قوانین کے تحت رجسٹرڈ ہونے والی تنظیموں کی اس قدر زیادہ اقسام ہیں کہ ان میں سے مخصوص طریق کار کے مطابق کام کرنے والی این جی اوز کو علیحدہ کرنا خاصا مشکل ہے۔ تاہم‘ ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میںچھوٹی بڑی این جی اوز کی تعداد ۲۰ ہزار کے لگ بھگ ہے۔
پاکستان میں کام کرنے والی اکثر این جی اوزکے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سیکولر سوچ کی علم بردار ہیں۔ ابھی تک اس حوالے سے کوئی تحقیقی کام نہیں ہوا جس کے نتیجے میں انھیں اسلامی یا سیکولر بنیادوں پر تقسیم کیا جاسکے۔ تاہم‘ عمومی مشاہدے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مذہبی جماعتیں یا تنظیمیں عمومی طور پر (ایک خاص مفہوم میں) سماجی بہبود کے کاموں سے لاتعلق ہیں۔ چند استثنائی صورتیں ضرور ہیں لیکن وہاں بھی سرگرمیوں کا انداز لگا بندھا اور محدود نوعیت کا ہے۔ اس وقت پاکستان میں لاتعداد مغربی تنظیموں اور امداد فراہم کرنے والے اداروں (Donor Agencies)کے مقابلے میں چند ایک بین الاقوامی اسلامی این جی اوز کے دفاتر بھی قائم ہیں لیکن ان کا زیادہ تر کام یتیموں‘ بیوائوں اور ناداروں کی مدد تک محدود ہے۔ یہ تنظیمیں رجب‘ رمضان اور عیدین کے موقع پر زکوٰۃ کی تقسیم‘ افطاریوں کے اہتمام اور قربانی کا گوشت تقسیم کرنے جیسی سرگرمیوںمیں حصہ لیتی ہیں۔ نچلی سطح پر دیہاتوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ المختصر ملک کے کونے کونے میں قائم چھوٹی چھوٹی تنظیموں کو تو شاید مذہبی اور سیکولر بنیادوں پر تقسیم کا علم بھی نہیں لیکن ان تنظیموں کو مالی وسائل‘ تربیت اور دیگر امداد جن بین الاقوامی اداروں سے ملتی ہیں وہ بہرحال اپنی سوچ کے لحاظ سے سیکولر ہیں۔
اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ این جی اوز کا اصل ایجنڈا کیا ہے؟ اس حوالے سے پاکستان کے اندر مختلف اور انتہاپسندآرا پائی جاتی ہیں۔ ایک مکتب فکر ان تنظیموں کو تقاضاے وقت سمجھتا ہے ‘ جب کہ دوسرا زہرِقاتل۔ دونوں کے پاس اپنے موقف کے حق میں دلائل ہیں۔ اس مسئلے کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
عالمی تناظر میں جب ہم عالم گیریت اور منڈی کی معیشت کے رجحانات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ عالمی برادری ان تنظیموں کی ممدو معاون اور پشتی بان ہے۔ بین الاقوامی سیاسی اور مالیاتی ادارے ان کی اخلاقی اور مادی مدد پر کمربستہ ہیں۔ گذشتہ ۱۰ سال سے اقوام متحدہ کی براہِ راست نگرانی میں مختلف موضوعات پر عالمی کانفرنسیں منعقد ہوتی رہی ہیں جن میں دنیا بھر کی این جی اوز اور سربراہان حکومت پہلو بہ پہلو بیٹھ کر ان مسائل کے بارے میں عالمی سطح پر پالیسی وضع کرتے رہے۔ چنانچہ ۱۹۹۲ء میں ریوڈی جینرو کی ارض سربراہ کانفرنس‘ ۱۹۹۴ء کی آبادی کانفرنس منعقدہ قاہرہ‘ کوپن ہیگن میں ۱۹۹۶ء کی سماجی سربراہ کانفرنس‘ اور اسی سال بیجنگ میں عالمی خواتین کانفرنس اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال ستمبر۲۰۰۰ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا میلینیم سربراہی اجلاس تھا جس میں ریکارڈ تعداد میں سربراہان مملکت و حکومت‘ بادشاہوں اور دیگر اعلیٰ سطحی عہدیداروں نے شرکت کی۔ اس اجلاس کے اختتام پر جو اعلامیہ جاری ہوا جس پر پاکستان اور تمام اسلامی ممالک سمیت ممبر ممالک نے دستخط کیے‘ اس میں نئے ہزاریے کے لیے ایک واضح ایجنڈا پیش کیا گیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق شرکا نے غربت‘ بیماری‘ جہالت اور خوں ریز جھگڑوں کو کم کرنے‘ عالمی سطح پر جمہوریت کی کارفرمائی‘ قانون کی حکمرانی‘ انسانی حقوق اور خواتین کے مساوی درجے کے تحفظ اور تمام اقوام عالم کے مابین امن و تعاون اور ترقی کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ اس اعلامیے میں این جی اوز کے بارے میں واضح طور پر کہا گیا ہے: ’’نجی شعبے اور این جی اوز کے ذریعے ہم اقوام متحدہ کے خوابوں کو تعبیر دیں گے‘‘۔ چنانچہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ترقی کا جدید تصور این جی اوز کے ذریعے عام کرنے کے عمل کو اقوام متحدہ کی سند اور حمایت حاصل ہے اور اسلامی دنیا اس پورے پروگرام کی حامی ہے۔
پاکستان سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں این جی اوز کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ لیکن اس کے پہلو بہ پہلو ان تنظیموں کے خلاف آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں۔ پاکستان میں این جی اوز کے مخالفین ان پر جو الزامات لگاتے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے:
۱- این جی اوز ایک مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا ہو کر ملک میں فحاشی‘ عریانیت اور مغربی ثقافت کو فروغ دے رہی ہیں۔
۲- متعدد تنظیمیں پاکستان اور افغانستان میں عیسائیت کی تبلیغ کر رہی ہیں۔
۳- یہ تنظیمیں محسوس اور غیر محسوس انداز میں اسلامی شعائر کا مذاق اڑا کر اسلام اور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کر رہی ہیں۔ مزیدبرآں یہ لوگ پاکستان کو تقسیم کرنے کی سازش میں شریک ہیں۔
۴- یہ انسانیت کی بھلائی کے نام پر پیسے بٹور رہی ہیں۔
۵- یہ پاکستان میں مشرقی تیمور جیسی صورت حال پیدا کرنا چاہتی ہیں۔
۶-غیر سرکاری تنظیموں کو افغانستان میں طالبان حکومت کو کمزور کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔
۷- پاکستان کے کمیونسٹوں نے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد این جی اوز کی آڑ میں پناہ لے کر اپنا کام ایک نئے انداز سے شروع کر رکھا ہے۔
۸- پاکستان کی این جی اوز بھارت کے حق میں فضا ہموار کر کے ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدات پر تیشہ چلا رہی ہیں۔
ان کے علاوہ بھی الزامات ہو سکتے ہیں تاہم درج بالا باتیں مذہبی جماعتوں کی طرف سے بالخصوص اور دیگر طبقوں کی طرف سے بالعموم تکرار کے ساتھ سامنے آتی رہی ہیں۔ حالیہ مہینوں میں تو بات الزامات سے آگے بڑھ کر ایک منظم احتجاجی تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ چنانچہ این جی اوز مخالف تحریک پچھلے سال صوبہ سرحد سے شروع ہو کر پورے ملک میں پھیل گئی جس میں تقریباً تمام مذہبی جماعتوں نے حصہ لیا۔ اگرچہ اس وقت اس تحریک میں وہ شدت نہیں رہی جو گذشتہ سال تھی‘ تاہم یہ چنگاری ابھی تک بجھی نہیں اور کسی بھی وقت دوبارہ بھڑک سکتی ہے۔
پس چہ باید کرد: این جی اوز کی صورت میں جو چیلنج اس وقت درپیش ہے اس کا سامنا عالمی اور قومی دونوں سطحوں پر کیا جا سکتا ہے۔ عالمی سطح پر اگر اسلامی دنیا اپنے وسائل کو یک جا کرتے ہوئے ترقی کا اپنا ماڈل سامنے لائے اور مغربی دنیا کی عالم گیریت کو چیلنج کرے تو یہ مسئلہ خوش اسلوبی سے حل ہو سکتا ہے۔ یعنی ترقی کا مغربی ماڈل اور اسلامی ماڈل‘ یہ دونوں ماڈل اپنی کارکردگی کی بنیاد پر مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی دنیا ایسا کرنے کی پوزیشن میں ہے؟ عالم غیب سے تبدیلی کی کوئی صورت ہو تو وہ الگ بات ہے ورنہ عالم اسلام کی موجودہ کارکردگی کی روشنی میں اس کے امکانات دُور تک نظر نہیں آتے۔ نتیجہ وہی ہوگا کہ اپنا پروگرام نہ ہونے کے سبب اسلامی ممالک گلوبلائزیشن کے سیلاب کی سمت میں بہتے جا رہے ہوں گے تاوقتیکہ ان میں عالم گیریت کی تیز لہروں کی مخالف سمت میں جانے کی صلاحیت اور قوت پیدا نہ ہو۔ جب تک یہ قوت مجتمع نہیں ہوگی عالم اسلام من جملہ دیگر مغربی اصطلاحوں کے‘ این جی اوز کو ترقی کے لیے قبول کرنے پر مجبور ہوں گے۔
پاکستان میں ہمیں سنجیدگی سے اس مسئلے کا جائزہ لینا ہوگا۔ اگر ہماری حکومت اقوام متحدہ کے میلینیم اجلاس میں این جی اوز کو فروغ دینے کا عہد کر چکی ہے اور ملک کے اندر پانچ مختلف قوانین کے تحت این جی اوز کی رجسٹریشن جاری ہو‘ علاوہ ازیں بین الاقوامی امدادی ادارے اپنی شرائط میں غیر سرکاری تنظیموں کو ترقی کے عمل میں شریک کرنے کا تقاضا کر رہے ہوں‘ تو ان حالات میں محبان ملّت و وطن کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟ جن الزامات کا اوپر ذکر ہوا ان کو نہ تو کلی طور پر مسترد کیا جا سکتا ہے اور نہ انھیں ۱۰۰ فی صد قبول کیا جا سکتا ہے‘ جب تک ان کی صحت کے حوالے سے تحقیقی کام نہ ہو۔
آخر میں این جی اوز کے کارپردازوں اور حکومت کی خدمت میں چند گزارشات پیش خدمت ہیں:
این جی اوز کے ذمہ داران جائزہ لیں کہ جو الزامات ان پر عائد کیے جا رہے ہیں اس حوالے سے ان کی صفوں میں وہ کون سے لوگ ہیں جن کے اندر ان میں سے ایک یا زیادہ خامیاں پائی جاتی ہیں؟ یہ حقیقت ہے کہ تمام غیر سرکاری تنظیمیں خراب نہیں لیکن ایسی این جی اوز ضرور ہیں جن کے طرزعمل سے یہ پورا سیکٹر آج بے پناہ تنقید کی زد میں ہے۔ این جی اوز اگر اس ملک میں کام کرنے اور زیریں سطح پر ترقی کا عمل آگے بڑھانے کا دعویٰ کرتی ہیں‘تو انھیں مقامی آبادی کے عقائد اور روایات کا احترام کرنا ہوگا۔ ایسا کرنا خود ان کے مفاد میں بھی ہے اور پاکستان میں امن و سکون کے لیے بھی ضروری ہے۔
اس حوالے سے حکومت کی ذمہ داری کافی اہم ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ملک سے کرپشن‘ بدعنوانی‘نااہلیت ختم کرتے ہوئے ملک کو خود انحصاری اور معاشی ترقی کی منزل سے ہم کنار کر دے ۔ ایسا ہوگا تو مغربی ممالک اور ان کے مالیاتی ادارے ہم پر اپنی مرضی مسلط نہیں کریں گے۔ حکومت کو این جی اوزکے حوالے سے تصادم کی وہ کیفیت نظرانداز نہیں کرنی چاہیے جو اس وقت ان تنظیموں اور ان کے مخالفین کے درمیان موجود ہے۔ ہمارا ملک بیرونی خطرات‘ معاشی تنزل‘ فرقہ وارانہ اور لسانی فسادات کے اس مقام پر ہے کہ کسی نئے تصادم کا صدمہ نہیں سہہ سکتا۔ اس لیے اُسے ان عوامل کا جائزہ اور اس حوالے سے عملی اقدامات کرنے ہوں گے جو اس کش مکش کا محرک ہیں۔
حکومت کو فی الفور درج ذیل اقدامات کرنے چاہییں:
۱- این جی اوز کے بارے میں قابل اعتبار اعداد و شمار شائع کیے جائیں۔
۲-رجسٹریشن کے موجودہ قوانین میں احتساب اور نگرانی کے عمل کو موثر بنایا جائے۔
۳- این جی اوز کے خلاف شکایات کا جائزہ لینے کے لیے ایک آزاد کمیشن قائم کیا جائے۔
۴- تصادم کو روکنے کے لیے علما‘ مذہبی جماعتوں اور این جی اوز کے نمایندوں کے درمیان مذاکرات کروا کر ایک ضابطہ اخلاق مرتب کیا جائے۔