نجدت کاظم لاطۃ


ترجمہ:  محمد ظہیر الدین بھٹی

عصرِحاضر میں ذرائع ابلاغ کی اہمیت‘ ضرورت اور افادیت سے انکار نہیں کیاجا سکتا۔ افغانستان پر ہونے والی امریکی جارحیت کو اگر الجزیرہ چینل نمایاں طور پر پیش نہ کرتا تو دنیا اس بھیانک تباہی سے آگاہ نہ ہو سکتی جو امریکہ نے برپا کی‘ نہ افغانوں کی ترجمانی ہی ہو سکتی۔ ایک عرب قاری نے ڈاکٹر یوسف القرضاوی کے نام ایک کھلا خط لکھا ہے جس میں فلم سازی کے اسلامی ادارے کے قیام پر زور دیا ہے۔ دراصل اس کا خطاب احیاے اسلام کے لیے کام کرنے والی سب تحریکوں سے ہے۔ ہم ہفت روزہ  المجتمع کے شکریے کے ساتھ اس کا اردو ترجمہ پیش کر رہے ہیں۔ (ادارہ)

آپ نے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں کہا ہے کہ آپ دو ادارے قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں: ۱- عالم اسلام کے نمایاں طلبہ کی قائدانہ تربیت کے لیے ادارہ --- یہ چند ماہ قبل‘ آپ کے دورئہ دبئی کے موقع پر عملاً قائم ہو چکا ہے۔ ۲-مسلم علما کا ایسا ادارہ جو تمام مسلمانوں کے لیے علمی مرجع ہو۔

وقت کا تقاضا ہے کہ ایک اور ادارہ قائم کیا جائے جس کی اُمت کو سخت ضرورت ہے‘ اوروہ ہے ’’فلم سازی کے لیے اسلامی ادارہ ‘‘۔ یہ ادارہ تمام بصری ابلاغیات کی تدوین و تشکیل کا ذمہ دار ہو‘ جیسے فلمیں‘سلسلہ وار ڈرامے‘ پروگرام‘ متحرک تصاویری فلمیں‘ باتصویر نغمے اور ویڈیو فلمیں وغیرہ۔

اس ادارے کے قیام کی اہمیت اس لیے ہے کہ اس میں جیتی جاگتی زندگی کی عکاسی کی جاتی ہے جس کا ناظرین پر فعال اور بھرپور اثر پڑتا ہے۔ سینما اور ٹیلی وژن کے فروغ کے بعد اخبارات اور مجلات کے اثرات نے ثانوی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ مصنوعی سیاروں کے ذریعے سیٹلائٹ چینلز نے اس پر سونے پہ سہاگے کا کام کیا ہے۔ ڈاکٹر اسماعیل الشطی نے کس قدر برمحل کہا ہے: ’’ابلاغیات محض اخبار یا رسالہ نکال لینے کا نام نہیں ہے۔ ابلاغیات تو ٹیلی وژن کا قسط وار ڈراما‘ فکری و ثقافتی پروگرام‘ اسلامی تھیٹر اور ڈرامے پیش کرنا ہے جن سے عوام کو سرور اور تفریح بھی ملے اور فکری و اخلاقی راہنمائی بھی‘‘۔

عالمی پروڈیوسر مصطفی العقادمسلم اقوام کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’آپ لوگ مجھے ایک جنگی طیارے کی رقم دیں تو میں اسلام کے بارے میں‘ آپ کو‘ پوری دنیا کی رائے تبدیل کر کے دوںگا‘‘۔ العقاد کی اس سے مراد فلم سازی ہے۔ انھوں نے عرب ممالک کے کئی ذمہ داروں سے مل کر اپنی خدمات ’’اسلامی ہالی وڈ‘‘ کے قیام کی خاطر پیش کی تھیں مگر کسی نے توجہ نہ دی۔ انسانی عقل کی تشکیل میں فلم سازی کے اہم کردار کے پیش نظر‘ عہدِحاضر کو فلم سازی کا دور کہا جاتا ہے۔ فلم کے اثرات معاشرے کے ثقافتی‘ اخلاقی‘ سماجی اور نفسیاتی پہلوئوں پر پڑتے ہیں۔ سابق سوویت یونین کا صدر خروشیف‘ امریکی میزائلوںسے اتنا نہیں ڈرتا تھا جتنا ہالی وڈ سے ڈرتا تھا۔

اس ادارے کے قیام میں پہلے قدم کے طور پر ‘ کسی معروف اسلامی شخصیت کی سرپرستی کی ضرورت ہے تاکہ اُمت اس ادارے پر اعتماد کر سکے۔ آں جناب (ڈاکٹر یوسف القرضاوی) اس کے موزوں سرپرست ہو سکتے ہیں۔ آپ اہل ثروت کو اس ادارے کے قیام میں‘ حصہ لینے پر آمادہ بھی کرسکتے ہیں۔

اس قسم کے ادارے کے لیے سب سے پہلے ایک مضبوط بنیادی زیریں ڈھانچہ کھڑا کرنا ہوتا ہے جس میں قابل و ماہر پروڈیوسروں‘ اداکاروں‘ کیمرہ مینوں اور کہانی لکھنے والوں کی ایک ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ شاید پوچھا جائے کہ ایسے ماہرین کہاں ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے لیے سچے عزم و ہمت کی ضرورت ہے۔ عالم اسلام اور دنیاے عرب میں زیریں ڈھانچہ پہلے سے ہی موجود ہے۔ فلم سازی کی صنعت اور پروڈکشن کے میدان میں کافی تجربہ بھی ہے۔ مجوزہ منصوبے پر کام شروع کرتے وقت ان تمام تجربات اور مہارتوں سے فائدہ اٹھانا ممکن ہے۔ اداکاری کے لیے ان ذمہ دار نوجوانوں کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں جو دوران تعلیم کامیاب ڈرامے کر کے اپنی قابلیت کا لوہا منوا چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اگر پیشہ ور سابقہ فن کاروں کو جو فلمی زندگی سے تائب ہو چکے ہیں--- اس ادارے میں کام پر آمادہ کیا جا سکتا ہے‘ جیسے حسن یوسف‘ محمد العربی وغیرہ تاکہ وہ باصلاحیت نوجوانوں کو اداکاری کی تربیت دیں۔ کافی مالی وسائل مہیا ہونے کے بعد متعلقہ ماہرین کی فراہمی مشکل نہ ہوگی۔ ادبی تخلیق کے لیے پیشہ ورکہانی نویسوں کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے تاکہ وہ اسلامی ادب کی عالمی تنظیم (رابطۃ الادب الاسلامی العالمیۃ) کی راہنمائی میں کہانیاں لکھیں۔ اس کے لیے عصری اور تاریخی واقعات کو سینمائی تشکیل دی جائے۔ مارکیٹ میں اس وافر لوازمہ سے ادبی تخلیق کے لیے استفادہ کیا جائے جو اسلامی تصورات کے منافی نہ ہو۔

مجھے اعتراف ہے کہ ان تیار کردہ فلموں اور ڈراموں کی مارکیٹنگ میں کئی رکاوٹیں ہوںگی مگر نئے اداروں کی پیش کش کو عوامی مقبولیت حاصل ہونے کے بعد یہ ساری رکاوٹیں دُور ہو جائیں گی۔ مختلف سیٹلائٹ چینلز کا وجود‘ مارکیٹنگ کے مسئلے کی شدت کم کر دے گا۔ بہت سے ایسے چینلز ہیں جو ایسے پروگراموں کو ترجیح دیتے ہیں جو بیک وقت سنجیدہ بھی ہوں اور تفریحی بھی۔

مجھے امید ہے کہ عالم اسلام میں اس وقت فلم کے شائقین ہی اس ادارے کی فلموں کے ناظرین بنیںگے‘ خصوصاً جب وہ دیکھیںگے کہ تائب اداکار کام کررہے ہیں۔ سنجیدگی اور اعلیٰ فنی ذوق کی موجودگی ان شائقین کو اس ادارے کی پروڈکشن دیکھنے پر آمادہ کرے گی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں‘ اردن یونی ورسٹی کے شریعت کالج کے ہال میں ’’الہجرۃ‘‘ ڈراما دیکھنے گیا جس میں کچھ ذمہ دار نوجوان کام کر رہے تھے۔ ان میں ابو راتب گلوکار بھی شامل تھا۔ داخلہ مفت نہ تھا مگر ہال کے گیٹ پر بہت زیادہ رش تھا۔ یہ ڈراما بہت مقبول تھا اور رش آخر تک جوں کا توں تھا۔

اس ادارے کے لیے مناسب مرکز کا انتخاب مشکل نہیں ہے۔ اس کے لیے موزوں ملک مصر ہے جہاںتائب فنکار موجود ہیں جو اس ادارے کی کامیابی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مجوزہ ادارہ مسلمانوں کے مختلف مسائل پر اسلامی تصور کے مطابق فلمیں بنائے‘ جن میں تفریح کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور فکری رہنمائی بھی ہو مگر اسلامی چھاپ نمایاں ہو۔ اس وقت عالمی سینما  زیادہ تر یہودی گرفت میں ہے۔ یہودی غلبے کے خاتمے کے لیے فلم سازی کو اسلامی رنگ میں ڈھالنا ہوگا مگر اس کے لیے وعظ اور براہ راست تعلیمی طریقے سے بچنا ہوگا تاکہ ناظرین اُکتا نہ جائیں۔ ایسے موضوعات سے بھی اجتناب کرنا ہوگا جن سے مسلمانوں میں اختلافات اُبھریں یا حکومتوں سے تصادم ہو بلکہ سیاست سے بھی دُور رہنا ہوگا تاکہ یہ ادارہ اپنی بقا اور تسلسل کی حفاظت کر سکے۔

اس ادارے کی تشکیل میں ایک اہم عنصر مال ہے۔ اس مقصد کے لیے کسی بھی تجارتی کمپنی کے حصص کے طریقے پر مال جمع کیا جائے۔ ’’اسلامی بنک‘‘ کا نظریہ کامیاب رہا ہے اور دنیا کے کئی ممالک میں یہ بنک قائم ہیں۔اسی طرح فلم سازی کا یہ ادارہ بھی کامیاب ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ مسلمان پہلے سے زیادہ فلم کی اہمیت محسوس کریںگے۔

حالیہ ایرانی فلموںنے عالمی سینما میں نہایت اہم مقام پا لیا ہے۔ اس نے عالمی میلوں میں متعدد انعامات جیتے ہیں۔ حالانکہ وہ جنس اور تشدد سے مکمل طور پر پاک ہے‘ جب کہ یہ دونوں چیزیں امریکی سینما کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ امید ہے کہ مجوزہ ادارہ عالمی سینما کے مقابلے میں جلد موزوںمقام حاصل کرلے گا۔

اس خط کا مخاطب آپ کو بنانے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ پیش کردہ امور میں ایک فقیہہ کی سخت ضرورت ہوگی تاکہ وہ شرعی رہنمائی کر سکے۔ آپ یہ فریضہ بہتر طور پر سرانجام دے سکتے ہیں۔

فلم ناظرین کی عقل کی تشکیل و راہنمائی کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے۔ دنیا پر اثرانداز ہونے میں ہالی وڈ‘ وہائٹ ہائوس سے ذرا بھی کم نہیں۔ اگر وہائٹ ہائوس سیاسی اور عسکری راہنمائی کرتا ہے تو ہالی وڈ اخلاقی‘ سماجی‘ ثقافتی بلکہ سیاسی راہبری بھی کرتا ہے۔

ہم مسلمان جو دنیا کی سب سے بڑی تہذیب کے خالق ہیں‘ کیا ہم اپنے گھروں میں‘ ذہنی غسل دینے والی فلموں اور ڈراموں کی خوف ناک یلغار کا مقابلہ کرنے اور ان کا متبادل پیش کرنے سے قاصرہیں؟