ڈاکٹر سید اسعد گیلانی


اسلام کی نشاتِ ثانیہ اور احیا کے لیے مولانا مودودیؒ نے جس فکر کی آبیاری کی اور جس تحریک کی داغ بیل ڈالی اس کو آگے بڑھانے میں جن ہستیوں نے کلیدی کردار ادا کیا اور فکری رہنمائی کا فریضہ انجام دیا‘ ان میں ڈاکٹر سید اسعد گیلانیؒ ایک نمایاں شخصیت ہیں۔ انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں اور قلم کی جولانیوں کو افکارِ مودودی کی ترویج‘ کارکنان تحریک اسلامی کے تزکیہ و تربیت اور تحریک کی صحیح سمت میں پیش رفت میں لگا دیا اور ساتھ ساتھ تحریک کی طرف سے تفویض کردہ بہت سی ذمہ داریاں بھی ادا کیں۔ مولانا کی رحلت کے بعد انھوں نے اپنی ایک تحریر میں مولانا مودودیؒ کے لٹریچر کی اہمیت‘ خصوصیات اور اثرپذیری کا جائزہ لیا ہے۔ مولانا مرحوم کے صدسالہ یومِ ولادت  کی مناسبت سے ہم یہ تحریر پیش کر رہے ہیں‘ تاکہ تحریک اسلامی کے لٹریچر کی اہمیت و افادیت ایک بار پھر اُجاگر ہوسکے اور اس کی توسیع و اشاعت کے ذریعے مولانا مودودیؒ کو بہترین انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا جاسکے۔ (ادارہ)

مولانا مودودیؒ کا تیار کردہ لٹریچر زندگیوں کو بدل دینے اور انھیں ایک سمت سفر دینے کی قوت اور توانائی رکھتا ہے۔ اس میں یہ قوت موجود تھی کہ اس نے اپنے زور سے ایک عظیم اسلامی تحریک پیدا کر دی جو پھیلتے پھیلتے پورے برعظیم جنوب مشرقی ایشیا میں پھیل گئی۔ پھر اس کی وسعت کے لیے برعظیم بھی صغیر تر ثابت ہوا اور پورے عالم اسلام میں اور وہاں سے گزر کر دنیا کے بیشتر ممالک میں اپنے نظریاتی اثرات کے ساتھ یہ تحریک وسعت پکڑتی چلی گئی۔

اسلامی تحریک کی اساس و بنیاد

مولانا مودودیؒ کا تیار کردہ لٹریچر ہی دراصل تحریک اسلامی کا بنیادی اور اساسی لٹریچر ہے اور وہی اسلامی تحریک کی غذا اور نمود کا ذریعہ ہے۔ یہ لٹریچر ہر دم تازہ‘ ہر جگہ موزوں اور ہر حالت میں دعوت کا بہترین سرچشمہ ہے۔ اس لٹریچر کا کارنامہ اور پھل خود تحریک اسلامی ہے۔

تحریک اسلامی کا لٹریچر اس کے جسم کی روح‘ اس کے کارواں کی مشعل اور اس کے خزانے کا سرمایہ ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اسی لٹریچر نے مردہ دلوں کو زندگی دی‘ پست ہمتوں کو بلند عزائم دیے اور شکست خوردہ ذہنیتوں کو ایک نہ تھکنے والا ولولہ تازہ دیا۔ تحریک کے اندر اور باہر جو کام یہ لٹریچر کر رہا ہے وہ نہ فوجیں کر سکتی ہیں‘ نہ خزانے انجام دے سکتے ہیں اور نہ بڑے بڑے لیڈروں کی لیڈری ہی وہ کام کر سکتی ہے۔

ہماری ملّی زندگی کے ہر گوشے میں صالح خون کی طرح پھیل پھیل کر یہ لٹریچر دیرینہ بیماریوں کا علاج کر رہا ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ اس کی تشخیص سے اور اس کے علاج سے جن لوگوں نے رجوع کیا ہے‘ ان کے قلوب کی بیماریوں کو اﷲ نے ضرور ہی شفا دے دی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لٹریچر تمام تر کتاب اﷲ اور سنت رسول صلی اﷲ علیہ و سلم سے اخذ کردہ ہے۔ وہیں سے یہ اپنا رخ متعین کرتا ہے‘ وہیں سے یہ اپنا طرز فکر لیتا ہے اور وہیں سے دعوت لیتا ہے۔ جو کچھ قرآن کریم‘ انسانوں سے کہنا چاہتا ہے وہی کچھ یہ لٹریچر قرآن حکیم سے لے کر بندوں تک پہنچاتا ہے۔ جو کچھ سنت رسول صلی اﷲ علیہ و سلم سے ہدایت ملتی ہے‘ اس ہدایت کو یہ لٹریچر لے کر اﷲ کے بندوں میں تقسیم کرتا اور بانٹتا ہے۔ یہ لٹریچر انھی دونوں روشنی کے میناروں سے ضیا حاصل کرتا ہے اور اس راستے کی طرف بھولے بھٹکے لوگوں کو بلاتا ہے۔

جس طرح قرآن کے لانے والے رسولؐ کا پیغام روم میں پہنچانے کے لیے جانے والا روم کی زبان کو‘ اور فارس میں پہنچانے والا فارس کی زبان کو اختیار کرتا تھا اور ہر رنگ اور ہر زبان میں اﷲ اور اس کے رسولؐ کی ایک ہی بات‘ ایک ہی دعوت اور ایک ہی ہدایت پہنچائی جاتی تھی‘ اس میں زیر زبر یا شوشے کا اضافہ نہ ہوتا تھا‘ اسی طرح تحریک اسلامی کا لٹریچر بھی جن انسانوں تک اﷲ اور اس کے رسولؐ کا پیغام پہنچا رہا ہے‘ ان کی بولیوں کو اختیار کر کے بندوں کے خالق اور مالک کی وہی بات پہنچا رہا ہے جو قرآن اور سنت نے انسانوں سے کہی ہے۔ اس لٹریچر نے ہماری ملی زندگی کے ہر گوشے کو متاثر کیا اور اسے کسی نہ کسی پہلو سے اسلام کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے قدم قدم پر اسلام کا مفہوم اور منشا نکھار نکھار کر پیش کیا ہے‘ تاکہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ وہ اسلام سے دور رہا اور اس کے ذہن میں فلاں شبہات اور اشکال تھے جن کا کوئی تسلی بخش حل اسے نہ ملا۔ تحریک اسلامی کے لٹریچر نے اس پہلو سے باخبر انسانوں پر یہ حجت بڑی حد تک تمام کر دی ہے۔

مؤثر دعوت

دعوت دین میں مولانا مودودیؒ کا تخلیق کردہ لٹریچر جو کامیابی حاصل کرتا ہے‘ وہ کامیابی کارکنوں کی ذاتی گفتگو اور دعوت سے بالعموم بڑھ کر ہوتی ہے۔ اس لیے کہ دعوت پہنچانے اور کسی فرد کو غور و فکر پر ابھارنے اور پھر مثبت انداز سے متاثر کرنے کے لیے ایک کتاب کو جو سہولتیں حاصل ہوتی ہیں‘ وہ ایک کارکن کو نہیں ہوتیں۔

ایک کارکن جب کسی کے سامنے اپنی دعوت پیش کرتا ہے تو اصل داعی کی بات اس شخص تک بالواسطہ پہنچتی ہے۔ وہ جب اس کی دعوت کو سنتا ہے تو وہ اس کے ساتھ ہی بات پیش کرنے والے کی ذات کو بھی شامل رکھتا ہے۔ اس کی شخصیت‘ اس کی زبان‘ انداز‘ لہجہ‘ لباس‘ کارکن کے بارے میں کوئی گذشتہ تاثر‘ سبھی مل کر دعوت کے نفوذ کو بڑھاتے یا گھٹاتے ہیں‘ اور چونکہ شخصیتیں ہرقسم کے تاثرات ڈالتی ہیں اس لیے بہت ممکن ہوتا ہے کہ کارکن کا لہجہ‘ بات کا انداز‘ بحث کا طریقہ‘ یا کوئی گذشتہ ناپسندیدہ تاثر‘ اس بہترین دعوت کے اثر کو کم کر دے۔ پھر ظاہر ہے کہ ایک بات جس طرح اصل داعی کہہ سکتا ہے‘ اس طرح ایک کارکن نہیں کہہ سکتا۔

اسی وجہ سے ایک کتاب کسی کو متاثر کرنے کے لیے بہت سی سہولتیں رکھتی ہے۔ اس سے شخصی پرخاش ممکن نہیں۔ قاری اس کے ساتھ بحث نہیں کرتا۔ اس کی بات توجہ سے سنتا ہے۔ اس کے ساتھ شخصی اور ذاتی لحاظ سے کسی کے مخالفانہ یا ناپسندیدگی کے جذبات وابستہ نہیں ہوتے۔ کتاب کی بات وہ ٹھنڈے دل سے سنتا اور اس پر غور کرتا ہے۔ پھر کتاب‘ اسلامی تحریک کے بہترین دماغ یا داعی کی نمایندگی اس کے الفاظ میں کرتی ہے --- ظاہر ہے کہ جہاں ایک بات مولانا مودودیؒ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہوں‘ وہ بہرحال ایک عام کارکن سے بہتر طور پر سمجھا سکتے ہیں۔ اسی طرح تحریک کا یہ لٹریچر قوت نفوذ اور تاثر و تاثیر کے لحاظ سے کارکنوں سے بھی زیادہ کام کر سکتا ہے اور کرتا ہے۔

تعمیرسیرت

تعمیر کردار کے سلسلے میں اس لٹریچر نے قوم کی جو خدمات انجام دی ہیں‘ ان کی نظیر صدیوں سے مسلمان قوم میں نہیں ملتی۔ اول تو اﷲ کے فضل و کرم نے اس کی اشاعت کا اس وقت انتظام فرمایا جب مسلمان قوم اپنے انحطاط کی نچلی سطح کو چھو رہی تھی اور اس کی زندگی کا کوئی گوشہ بھی الا ماشاء اﷲ اس اسلام سے آشنا نہ رہا تھا‘ جسے مسلمانوں نے خود دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔

تحریک اسلامی کے اس لٹریچر نے قوم کی تعمیر سیرت میں زبردست حصہ لیا اور اسے اسلام کے تمام گوشوں سے نہ صرف آگاہ کیا‘ بلکہ اسلام کے مطابق چلنے پر ابھارا۔ ایک ایک فرد کا ہاتھ تھام تھام کر اسے بتایا کہ مسلمان کی حیثیت سے تیرا مقام یہ نہیں ہے۔ اس نے فرد فرد کو اس ’’حاضر و موجود‘‘ سے بے زار کیا جس پر یہ قوم تکیہ کر کے بیٹھ گئی تھی۔ انحطاط کے جس گھورے پر یہ قوم آ بیٹھی تھی اس کی غلاظت‘ کم مایگی اور پستی سے قوم کو آگاہ کیا اور اسے اس کا مقام بلند دکھایا۔ اسے بتایا کہ جس ٹہنی پر تو آشیانہ بنانے کی فکر میں ہے‘ یہ نخل طور نہیں ہے بلکہ الحاد و زندقہ کا زقوم ہے۔

اشتراکیت‘ الحاد اور آمریت کا مقابلہ

اس لٹریچر نے الجھے ہوئے افکار کو صاف کیا۔ کسی ذہن پر اشتراکیت ہتھوڑے چلا رہی تھی‘ کسی ذہن کو الحاد لذت پرستی میں مبتلا کر رہا تھا‘ کسی ذہن کو آمریت میں اسلام اور اسلام میں آمریت نظر آنے لگے تھے‘ کچھ لوگ اسلام کو جنون اور دقیانوسیت کہہ کر اپنی آزاد خیالی کا اظہار فرمانے لگے تھے‘ اور کچھ لوگ حجروں میں بند ہو کر اور خانقاہوں میں چھپ کر اپنے بچے کھچے آثار ایمان کو بچانے کی فکر میں تھے۔ کچھ لوگ دنیا کے سامنے اسلام سے اپنی وابستگی پر معذرتیں پیش کر رہے تھے اور اسلام میں سے وہ سب کچھ نکال نکال کر پھینک رہے تھے جو یورپ کے تاجر کو ناپسند تھا‘ تاکہ وہ اپنی دکان میں وہ مال رکھیں جس کو سب لوگ پسند کریں۔ نہ اس پر شیطان کو اعتراض ہو اور نہ قیصر کو۔ ان ساری بوقلمونیوں نے قوم کے اجتماعی مزاج کو ایک عجیب انتشار‘ کج فکری‘ پست ہمتی اور معذرت خواہی سے بدل دیا تھا۔

تحریک اسلامی کا لٹریچر جب آیا تو اس نے سارے جھاڑ جھنکار کو چھانٹا۔ اس نے ذہنوں پر پڑی ہوئی ساری الجھنیں صاف کیں۔ اشتراکیت‘ آمریت‘ الحاد‘ مغرب پرستی‘ سب کو لا کر روشنی میں رکھا اور اس کے خدوخال واضح کیے۔ ان کے مقابلے میں اسلام کے گوشے گوشے کی وضاحت کی اور بتایا کہ یہ کمخواب میں ٹاٹ‘ مونج‘ کھدر اور گاڑے کے جو پیوند لگائے جا رہے ہیں‘ یہ اس لیے لگ رہے ہیں کہ بے چارے ضرورت مند ان کی علیحدہ علیحدہ جنس کی پہچان نہیں رکھتے۔ ان کی بصیرت کمزور ہے‘ اس لیے اس لٹریچر نے ان کو بصیرت کی روشنی دی اور تمام جنسوں کی پہچان بتائی۔ اب جو مخلص ضرورت مند ہو اس کے لیے ممکن نہیں ہے کہ دھوکے سے کمخواب کی جگہ ٹاٹ یا کھدر لے لے۔

یہ لٹریچر ملک کے گوشے گوشے میں پھیل گیا۔ سیکڑوں دارالمطالعوں میں پہنچ گیا۔ ہزاروں اور لاکھوں انسانوں کی نظروں سے گزرتا چلا گیا اور انھیں اسلام کے سوا ہر چیز سے غیر مطمئن کر گیا۔ لاکھوں کو اس نے اپنا ماحول بدلنے پر آمادہ کیا۔ لاتعداد لوگوں کو جو بالکل خاموش طبع اور غیر حرکت پسند لوگ تھے‘ انھیں اپنے ماحول سے لڑ کر اسے بدلنے پر آمادہ کر دیا۔ جو مسجد کی طرف سے گزرتے ہوئے شرماتے تھے‘ انھیں مسجدوں میں بار بار حاضری کا عادی بنا دیا۔

مغربی تہذیب وافکار کی بیخ کنی

جو لوگ مغربی علوم کے ساتھ مغربی تہذیب کو بھی آثار ترقی و تہذیب سمجھتے تھے‘ اس لٹریچر نے ان کے وہ سارے آثار ترقی و تہذیب دریا برد کر دیے‘ اور انھیں اچھا خاصا مرد مسلمان بنادیا۔ کالجوں کے وہ نوجوان جو سیر و تفریح‘ کھیل تماشا‘ ہنسی مذاق‘ غل غپاڑے اور لپاڈگی کو ہی حاصلِ زندگی سمجھتے تھے‘ انھیں زندگی کے مسائل پر غور کرنے کے لیے سنجیدگی‘ متانت اور وقار دے دیا۔ جو سڑکوں پر چلتے ہوئے چھیڑ چھاڑ کرتے جانا اپنے ماڈرن ہونے کا لازمی جزو سمجھتے تھے‘ انھیں شرافت سے چلنا‘ سنجیدگی سے گفتگو کرنا‘ متانت سے اٹھنا بیٹھنا اور وقار کے ساتھ غض بصر کا پورا پورا اہتمام کرنا سکھا دیا۔ اس لٹریچر نے ماڈرن تعلیم کے ساتھ تہذیب حاضر کے زخم خوردہ لوگوں کو اپنی بات انھی کی اصطلاحات‘ انھی کے انداز اور انھی کے ذوق اور معیار علم کے مطابق بتائی اور انھیں فتوے سے نہیں‘ بلکہ دلیل سے سمجھایا۔ پہلے ان کے دماغوں کو مطمئن کیا‘ پھر دل کی بیماریوں کو رفع کیا۔ اس نے پوری حکمت اور تدریج سے قوم کے اجتماعی شعور میں اسلام کے بارے میں جاہلیت کے لگائے ہوئے ایک ایک کانٹے کو چن چن کر دور کرنے کی مہم جاری کی۔ یہ مہم اس نے پوری قوت سے چلائی۔

ملّی شعور کی آبیاری

ملت میں جس طرف کوئی فتنۂ جاہلیت اُبھرتا ہوا نظر آیا‘ اس نے آگے بڑھ کر اس کی جڑ کاٹنے کی کوشش کی۔ جس طرح کسان بیج بونے سے پہلے کھیت کے ایک ایک ڈھیلے کو توڑ کر زمین مکمل طور پر ہموار کرتا ہے‘ اسی طرح اس لٹریچر نے صحیح فکر کا بیج ڈالنے کے لیے غیر اسلامی فکر کے ایک ایک ڈھیلے کو ملی شعور کی کھیتی میں چن چن کر توڑا‘ اور پست کیا۔ آج مسلمان قوم کا کوئی فرد یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسلامی زندگی کے متعلق فلاں مسئلے کے بارے میں تحریک اسلامی کا لٹریچر خاموش ہے اور کوئی رہنمائی نہیں کرتا۔ اس بیمار ملت کو جس جس دوا کی ضرورت پیدا ہوتی رہی یہ تیماردار فراہم کرتا رہا ہے‘ اور اب کیفیت یہ ہے کہ تیماردار کے پاس بیمار کی نفسیاتی کیفیات‘ امراض‘ عادات‘ تشخیص مرض اور علاج کا پورا چارٹ تیار ہے۔ اب مریض کو کچھ اپنی قوت ارادی کی بھی ضرورت ہے‘ جس کے بعد صحت کلی لازمی نتیجہ ہے۔

اس لٹریچر نے دینی احساس اور علم کے ساتھ اسلامی خطوط پر ملت میں سیاسی شعور بھی بیدار کیا۔ وہ لوگ جو دستور اور قانون کا فرق تک نہ جانتے تھے‘ تحریک اسلامی کے لٹریچر نے انھیں قانون اور دستور کے موضوعات پر تقریروں کے لیے تیار کر دیا۔ لوگوں کو دستور کی اہمیت بتائی۔ لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کو اس مسئلے پر حساس بنایا اور انھیں آمادہ کر دیا کہ وہ اپنا دستور حکومت سے طلب کریں۔ جس قوم کے عوام دستور کا تلفظ نہ جانتے تھے اس قوم کو دستوری مطالبے پر جلسے‘ جلوس‘ مظاہرے‘ تار‘ ریزولیوشن اور ہر جمہوری طریق سے اظہار خیال پر تیار کیا اور نہ صرف تیار کیا‘ بلکہ انھیں اسلامی اور غیر اسلامی دستور کے خدوخال اتنے واضح کرکے بتا دیے کہ اب کسی کے لیے ممکن نہیں رہا ہے کہ دجل و فریب سے کفر پر اسلام کا لیبل لگا کر قوم کو دھوکا دے جائے۔

اصولی سیاست کی داغ بیل

اس لٹریچر نے قوم کو اسلامی اصولوں پر ایک بالکل ہی انوکھی انتخابی پالیسی سے روشناس کیا۔ ایسی انوکھی پالیسی جو اسلام سے ناواقفیت کی بنا پر انوکھی ہو کر رہ گئی تھی۔ ورنہ صفاتی نمایندگی پر مبنی انتخابی جدوجہد اسلام کے اصولوں سے ہی اخذ کی گئی تھی اور کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ اس میں فلاں فلاں جزو اسلام کی روح کے منافی ہے۔ اس طریق کار کے ذریعے اس لٹریچر نے عوام کے ہاتھ میں ایک ایسا معیار دے دیا کہ وہ اپنے درمیان سے اچھے اور برے لوگوں کو چھانٹ سکیں۔ بروں سے بچیں اوراچھوں کو آگے لانے کی کوشش کر سکیں۔

اس لٹریچر نے قومی سیاسیات میں پہلی بار شرافت‘ سنجیدگی‘ الزام تراشی سے اجتناب‘ وقار‘ متانت‘ صاف گوئی‘ ایمان داری اور دیانت کو داخل کیا۔ اس نے بتایا کہ قوموں کی تعمیر نعروں سے نہیں ہوتی‘ کام اور کردار سے ہوتی ہے۔ اس نے جلسوں میں غل غپاڑہ مچانے والوں کو شرافت سے مخالف کی بات سننا اور اپنی بات کہنا سکھایا۔ اس نے قوم میں جمہوری اقدار کی اس وقت بھی پاسبانی اور وکالت کی اور اس کے لیے پابندیِ نشرو اشاعت اور ضبطی کی مصیبتیں برداشت کیں جب آمریت اپنی ننگی تلواروں کے ساتھ روح ملت کو بار بار چھیدنے پر آمادہ ہوتی رہی۔ اس نے قیصر کے سامنے حق بات ہمیشہ کہی۔ اس نے سیاسیات میں دلائل کو شامل اور دھاندلی کو خارج کیا۔ شرافت کو داخل کیا اور غنڈا گردی کے خلاف مورچہ لگایا‘ اور بار بار یہ ثابت کیا کہ حق ہی ایک ایسی پونچی ہے جس کے لیے انسان جانیں دیں اور پھانسیوں پر چڑھیں۔

پایدار انقلاب کی بنیاد

بعض لوگ تحریک کے لٹریچر کو اس تحریک کی روح رواں اور مروج سیاسیات میں اس کی سست رفتاری دیکھ کر یہ کہتے ہیں کہ ’یہ تو ایک علمی ادارہ ہے جو بہت اچھا علمی کام کر رہا ہے لیکن اس کا سیاسیات سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ تحریک اسلامی کو ایسی سیاسیات سے کوئی واسطہ نہیں‘ جس کے جلسوں میں کرسیاں چلتی ہیں‘ جس کے انتخاب میں بوگس ووٹ‘ شرارت اور غنڈا گردی چلتی ہے۔ جس میں جوڑ توڑ اور اکھاڑ پچھاڑ چلتی ہے‘ اور جس میں اخلاق‘ دیانت‘ شرافت اور صاف گوئی کے بجاے بد اخلاقی‘ بد دیانتی‘ دھاندلی اور دھوکا بازی ہی اس کے معمولات میں شامل ہیں۔ لیکن تحریک اسلامی تو ظاہر ہے کہ ایک انقلابی فکر اور دعوت لے کر آگے آ رہی ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں تعمیری اور اسلامی رحجانات کی پرورش کی داعی ہے۔ یہ کام دل و دماغ کی تبدیلی اور زندگی کی یکسر کایا پلٹ کا پروگرام ہے۔ یہ کام چند بلند بانگ نعروں یا جوڑ توڑ سے تو انجام نہیں دیا جا سکتا۔ جوڑ توڑ کے ذریعے داخلی سازشیں کر کے حکومت کا تختہ تو اُلٹا جا سکتا ہے لیکن قوم کا مزاج نہیں بدلا جا سکتا‘ جو انقلاب کی اصل کھیتی ہے اور جس میں جڑ پکڑے بغیر کوئی انقلاب بھی پاے دار نہیں ہو سکتا۔

تحریک اسلامی کا لٹریچر جس تدریج اور رفتار سے دل و دماغ کی تبدیلی اور اخلاقی بنیادوں پر معاشرتی اور ملی انقلاب کی تیاری کا کام کر رہا ہے‘ اس کی جڑ ملت کے دلوں میں اتر رہی ہے۔ یہ ایسی جڑ ہے جسے کسی داخلی جوڑ توڑ یا سازش یا فوج کی سیاسی مہم جوئی سے اکھاڑا نہیں جا سکتا۔ تحریک اسلامی کی سیاست اوپر ہی اوپر چند سیاسی گٹھ جوڑ کر کے کسی اصلاح کا خواب نہیں دیکھتی۔ وہ پوری ملت کو آہستہ آہستہ تربیت دے کر اپنی اصلاح کے معیار مطلوب پر لا رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ پوری قوم کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کا کام کوئی کھیل نہیں ہے جسے چند آدمی مل کر اور چند دوسرے آدمیوں کو اپنے ساتھ ملا کر کھیل لیں اور ساری قوم صرف منہ دیکھتی رہے۔

انقلابی قوت

یہ لٹریچر ایک عظیم انقلابی قوت ہے جو قوم کے اندر پرورش پا رہی ہے۔ یہ انقلابی قوت انھی خطوط کی پیروی کر رہی ہے جن پر خاک حجاز سے انقلاب برپا ہوا تھا۔ جس طرح اس قوت نے پسماندوں کو اٹھا کر استحصال اور ظلم کے نمایندہ سرداروں سے لڑا دیا تھا‘ ایک اﷲ کی پرستش بتا کر سارے الہٰوں کے خلاف لڑ جانے کے لیے دبے اور پسے ہوئے لوگوں کو اُبھار دیا تھا‘ جس طرح بدوؤں کو شاہوں کے درباروں میں نیزوں کی انی ٹیکتے اور قالینوں کو چھیدتے ہوئے چلے جانے کا حوصلہ دے دیا تھا‘ اسی راستے پر چلنے کی اتباع کرتے ہوئے سید مودودیؒ کے اس لٹریچر نے بھی ہزاروں لاکھوں زندگیوں میں انقلاب برپا کیا ہے۔ جن لوگوں کے سینے سروس شیٹ کی معمولی خرابی پر دھڑکتے تھے‘ ان کے سینوں میں شیروں کا دل رکھ دیا ہے۔ اس نے ہزاروں کو اپنے قریب ترین ماحول سے لڑ جانے پر اُبھار دیا‘ حرام کمائی کے عیش چھوڑ کر حلال کی خشک روٹی پر آمادہ کر دیا۔ قریب ترین عزیزوں سے کٹ کر صرف اﷲ کی راہ میں سینے پر زخم سہہ جانے کا حوصلہ پیدا کر دیا۔

اسی لٹریچر کی حرارت کا اثر ہے کہ اس کا داعی ہنسی خوشی اﷲ کی رضا کے حصول کے لیے پھانسی کے تختے تک بلا جھجک پہنچ گیا اور اس کا قدم نہ ڈگمگایا۔ اس کے ساتھی وہ لوگ جو لٹریچر سے متاثر ہو کر آگے بڑھے‘ وہ بڑی سے بڑی تکلیف میں سے گزر گئے لیکن اف تک نہ کی۔ اس لٹریچر کی قوت نے لوگوں کی رگوں کا خون گرم رکھا اور ان کے عزائم کو پہاڑ سے زیادہ بلند کر دیا۔ اس لٹریچر نے ان میں یہ اخلاص پیدا کیا‘ کہ قوم کی ہر مصیبت پر وہ تڑپ گئے اور ان کی راتوں کی نیند حرام اور دن کا چین رخصت ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ خود تحریک اسلامی کے داعی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ یہ لٹریچر ہمیشہ اپنے مطالعے میں رکھتے تھے اور کبھی اس سے اس بنا پر غافل نہیں ہوئے تھے کہ یہ لٹریچر بیش تر ان کا اپنا ہی تیار کردہ ہے۔

یہ لٹریچر اقتصادی لحاظ سے بھی ہمیشہ اس تحریک کی ریڑھ کی ہڈی رہا‘ اور اس نے تحریک کو چندا بازی کی اس پست جگہ سے ہمیشہ بلند رکھا جس سطح پر آکر تحریکیں اپنا وقار اور اعتماد کھو بیٹھتی ہیں۔ ایک طرف اس نے عوام میں انفاق فی سبیل اﷲ کا جذبہ اُبھارا‘ اور تحریک کی طرف آنے والے کو اس بات پر مطمئن کر دیا کہ جب وہ خدا کی راہ میں آ رہا ہے تو اپنے ساتھ اپنے سارے ذرائع و وسائل لے کر آئے۔ اپنے کردار کے ساتھ ساتھ اپنی جیب کو بھی مسلمان بنائے اور دوسری طرف اس کی وسعت اشاعت نے تحریک کی مالیات کو سب سے زیادہ تقویت پہنچائی۔

روحانی غذا

دراصل یہ لٹریچر خون جگر سے لکھا گیا ہے۔ اس میں خلوص نیت کو تحلیل کر کے شامل کیا گیا ہے۔ اس کی سطر سطر میں لکھنے والے نے اپنی رگوں کا خون نچوڑا ہے۔ وہ راتوں کو لکھنے کی میز پر بیٹھا ہے تو لکھتے لکھتے صبح کر دی ہے۔ اس نے اپنی زندگی کی راتیں قرآن کے تدبر پر صرف کی ہیں۔ اس نے سنت رسولؐ کے انمول موتیوں کو چُننے کے لیے غواصی کی ہے۔ اس نے پہلے اپنے رب سے پیمان وفا باندھا ہے‘ پھر اس کی راہ میں قدم اٹھایا ہے۔ اس نے پہلے جنگ میں لڑ کر شہید ہو جانے کی نیت کی ہے‘ پھر اس کے بعد ہاتھ میں قلم اٹھایا ہے۔ جب دنیا آرام کی نیند سوتی رہی ہے تو اس نے شب بیداریاں کی ہیں اور ان شبوں کا گداز اپنی تحریروں میں سمویا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا لٹریچر اپنے اندر کتنی کچھ تاثیر رکھ سکتا ہے اور کتنی کچھ قوت تسخیر اس کے اندر پوشیدہ ہوسکتی ہے۔

یہ وہ لٹریچر ہے جس نے خدا کے ہزاروں لاکھوں کھوئے ہوئے بندوں کو زندگی کا نصب العین سمجھایا ہے۔ طاغوت کی فوج کے سپاہیوں کو حق کے رضاکاروں میں شامل کیا ہے۔ دوزخ کے گڑھے کی طرف جوق درجوق جانے والوں کو اﷲ کی رضا کے راستے پر لگایا ہے۔ کتنے ماں باپ کی دعائیں اس کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ کتنی عورتوں کا سہاگ لٹتے لٹتے اس لٹریچر نے بچایا ہے۔ کتنی اﷲ کی رضا ہے جو اس کی روشنی میں اس کے بندوں کو حاصل ہوئی ہے۔ یہ تو وہ روشنی ہے جس نے کتنے ہی زندگی کے بھٹکے ہوئے مسافروں کو سیدھی راہ پر لگا دیا ہے۔ وہ جن کے دلوں میں ذاتی سربلندی کے ولولے تھے‘ ان کو اسلام کی سربلندی کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دینا سکھایا‘ جن کے سروں میں اغراض کا سودا تھا‘ انھیں رضاے الٰہی کے حصول کا جنون عطا کیا۔

سرمایۂ گراں مایہ

یہ لٹریچر تووہ متاع عزیز ہے جس کا ایک ایک ورق سونے میں تولا جائے اور ہیرے جواہرات سے بھی اس کی قیمت لگائی جائے تو اس کی قیمت نہ لگ سکے‘ اور وہ لوگ جنھوں نے اپنی زندگیوں کے رخ اس لٹریچر کے زور سے بدلتے ہوئے دیکھے ہیں‘ وہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان کے لیے اس لٹریچر کی معنوی قیمت سونے چاندی کے ڈھیروں سے ہزار گنا بڑھ کر ہے۔ (۲۰مارچ ۱۹۸۳ئ)