ڈاکٹر محمد ساعد


وزیرستان قبا ئلی علاقہ جات کاسب سے جنوبی علاقہ ہے۔ یہاں وزیر‘ مسعود اور داوڑ قبائل آباد ہیں جن کی کل آبادی ۸لاکھ ہے۔ انتظامی لحاظ سے اس کو شمالی اورجنوبی وزیرستان کی ایجنسیوں میں تقسیم کیا گیاہے۔ میران شاہ‘ شمالی وزیرستان اور وانا‘ جنوبی وزیرستان کا صدر مقام ہے۔ چونکہ یہ علاقہ وفاق کے زیرانتظام ہے اس لیے امن وامان اور ترقیاتی منصوبوں کی ذمہ داری گورنرصوبہ سرحد کی ہے۔وزیرستان کی سرحد ۲۶۰کلومیٹر تک افغانستان سے ملتی ہے۔ سرحدکے مغرب میں افغانستان کا صوبہ پکتیکاواقع ہے جو انتہائی دشوارگزار پہاڑی علاقہ ہے۔یہاں امریکی افواج کے خلاف زبردست مزاحمت جاری ہے۔اب تک خوست‘ اُرزگان‘شکین اور سروبی کے مقامات پر افغان مجاہدین کا مکمل قبضہ ہے۔

وزیرستان کے قبائل حریت پسند ہیں۔وزیر اور مسعود قبائل۱۸۵۰ء سے ۱۹۴۷ء تک انگریزی راج کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔۱۸۵۲ء میں میجر نکلسن‘ ۱۸۶۰ء میں بریگیڈیر جنرل چیمبرلین‘۱۸۷۸ء میں کرنل بویس راگن‘ ۱۸۸۱ء میں بریگیڈیرکینڈی کے زیر کمان قبائل کو دبانے کے لیے فوج کشی کی گئی لیکن ناکام رہی۔۱۸۹۷ء میںمُلا پاوندھ نے انگریز کی فارورڈ پالیسی کے خلاف جہاد کا علم بلند کیا اور ایک طویل عرصے تک انگریزوں سے برسر پیکاررہے۔ مُلاپاوندھ کی وفات کے بعدمُلا فضل دین اور مُلا عبدالحکیم نے انگریزوں کے خلاف جہاد جاری رکھا۔اس جہاد میں فقیر ایپی نے بھی نمایاں کردار ادا کیا جو ۱۹۴۷ء تک تحریک جہاد کے قائداور روح رواں رہے۔ انگریزی افواج جتنا عرصہ وزیرستان میں رہیں جہادی قوتوں نے ان کو آرام واطمینان سے رہنے نہیں دیا۔وزیرستان پر مستقل قبضہ جمانے اور قبائل پر قابو پانے کی غرض سے انگریزوں نے یہاں بڑی تعداد میں چھائونیاں قائم کیں‘ جن میں دو ڈویژن فوج ہر وقت قیام پذیر رہتی تھی۔ اسی طرح میران شاہ اور رزمک میں ایرفورس کے بڑے اڈے تعمیر کیے گئے جن میں ایک ایک اسکوارڈن ایرفورس متعین رہتی تھی۔ غیرمنقسم ہندستان میں وزیر ستان کمانڈ برطانوی دفاعی سسٹم کا ایک بہت اہم حصہ تھا جس پر کل ہندستان کے دفاعی بجٹ کا کثیر حصہ خرچ ہوتا تھا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آزادی سے پہلے پاکستان کے کئی ایک اعلیٰ فوجی جرنیل بشمول ایوب خان اور یحییٰ خان وزیرستان کمانڈ میں تحریک مجاہدین کے خلاف آپریشن میں شریک رہے ہیں۔اِن’’نوآبادِیاتی خدمات‘‘کے عوض ان کو’’تمغہ وزیرستان‘‘ (Waziristan Medal) سے بھی نوازاگیا۔

تحریک آزادی میں سرحد کے قبائل نے جو خدمات سر انجام دی تھیں‘ ان کے اعتراف میں قائداعظمؒ نے قبائلی علاقہ جات سے فوج کو واپس بلایا۔اُس وقت سے یہاںپر مکمل امن وامان رہاہے۔ مقامی آبادی نے امن وامان اور ترقیاتی کاموں میں حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کیا ہے۔ ایسے وقت میں‘ جب کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہت کشیدہ تھے اور وزیرستان کی سرحد پر افغانی فوج کی دراندازی روزمرہ کا معمول تھا ‘قبائلی عوام خود ان سرحدات کی حفاظت کرتے رہے اورپاکستانی فوج کو کبھی بھی مداخلت کی ضرورت پیش نہیں آئی ۔

افغانستان پر روسی حملے کے نتیجے میں افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد غزنی اور پکتیکا کے علاقے سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئی جو گذشتہ۲۰ سال سے امن وامان کی زندگی گزار رہی ہے۔ یہ زیادہ تر خانہ بدوش ہیںاور گلہ بانی کا کام کرتے ہیں۔ اپنی بھیڑ بکریوں کو چرانے کے لیے یہ افراد سردی کے موسم میںٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کے میدانی علاقے میں چلے جاتے ہیں۔ گرمیوں میں وزیرستان کی پہاڑی چراگاہوں میںآ جاتے ہیں۔افغان مہاجرگلہ بانی کے علاوہ محنت مزدوری  اور تجارتی کاروبار بھی کرتے ہیں۔

۹ اکتوبر۲۰۰۳ء کو جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا سے ۵۰کلومیٹر دور انگور اڈا کے قریب ایک بہت ہی افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔ انگور اڈا سے چارکلومیٹر کے فاصلے پر چند گھروں پر مشتمل باغر گائوں کی آبادی ہے۔ اس میں تین چار گھروں میں ۲۰ سال سے زیادہ عرصے سے سلیمان زئی قبیلے کے افغان مہاجر آباد ہیں۔ مردجنگل کی کٹائی کا کام کرتے ہیں اورعورتیں اور بچے چیڑ کے درختوں سے چلغوزے اکٹھا کرتے ہیں۔ علی الصباح اس بستی کو مسلح افواج نے اپنے گھیرے میں لے لیا۔ سارے راستوں میں رُکاوٹیںکھڑی کر دی گئیں۔صرف خواتین اوربچے گھروں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔اس کے بعد ان پر پاکستانی فوج کے کمانڈوز‘ سکائوٹ ملیشیا‘ خاصہ داروں اور ایف بی آئی کے کمانڈوزنے حملہ کیا۔ اس فوجی کشی کو ۱۶ہیلی کاپٹروں کی معاونت بھی حاصل تھی۔ پورے دن ان گھروں پر شدید گولہ باری کی گئی۔ جس کے نتیجے میں گھر مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔شام کے وقت تک یہ ہنستے خوشحال گھرملبے کا ڈھیر تھے۔ ان سے ۱۸مکینوں کی لاشیں نکالی گئیں‘      جب کہ۲۲افراد زندہ نکالے گئے۔ ان میں ۱۴شدید زخمی تھے‘جن کو طبی امداد فراہم کرنے کے بجاے ہتھکڑیاں پہنائی گئیںاور نامعلوم مقام پر منتقل کر دیے گئے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ مکینوں نے گھروں کے اندر نہ باہر کوئی مورچہ بندی کی تھی اور نہ ان کے پاس اپنے دفاع یا جوابی حملے کے لیے کوئی بھاری اسلحہ تھا۔ صرف روایتی بندوق اور کارتوس تھے جو کہ ہر ایک قبائلی اپنے گھر میں ذاتی حفاظت کے لیے رکھتاہے۔

اس کارروائی میں جو افراد جاںبحق ہوئے فوجی ترجمان کے مطابق یہ’’القاعدہ کے مشتبہ ارکان‘‘تھے۔یہ افسوس کی بات ہے کہ بے حد اصرار کے باوجودان کے رشتے داروں کو مقتولین کی نماز جنازہ ادا کرنے اور دفنانے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ لاشوں کو ہیلی کاپٹروں سے نامعلوم مقام لے جایا گیا۔مقامی باشندوں کا خیال ہے کہ یہ اس لیے کیا گیا کہ اگر مقتولین رشتے داروں کے ہاتھوں دفن ہوتے تو معلوم ہوجاتا کہ یہ غیر ملکی جنگجو افراد نہیں ‘ بلکہ اپنی بستی کے مہاجر بھائی ہیں۔ فوجی ترجمان‘ جنرل شوکت سلطان نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ’’دہشت گردوں کے بارے میں فوری طور پر نہیں بتایا جا سکتا کہ یہ کون ہیں‘‘۔اس خونی ڈرامے کو جس انداز سے کھیلا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا مقصد صرف بیرونی آقائوں کوخوش کرنا اور اپنی وفاداری کا مظاہرہ کرنا تھا‘ ورنہ اگر کسی دہشت گرد کو گرفتار کرنا پیش نظر تھا تو اس کو رائج قبائلی قوانین کے تحت آسانی سے اور بغیر کسی مزاحمت اور خون خرابے کے قابو کیا جا سکتا تھا۔

اس بے جا قتل وغارت کے بعد حکومت نے مطالبہ کیا کہ جن قبائل نے افغان مہاجرین کوکرایے پرمکانات دیے ہیں ان کے ۱۲افراد کو حکومت کے حوالے کیاجائے۔اس کے نتیجے میں یارگل خیل‘ کارے خیل اور ڈسی خیل قبائل کی ہزاروں دوکانوںاوربے شمارپیٹرول پمپوں کو سیل کیاگیا۔ ان کی درجنوں گاڑیاں بھی قبضے میں لے لی گئیں۔ آپریشن کا دائرہ وسیع کر کے ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان تک بڑھا دِیا گیا جو سراسر خلاف قانون تھا‘ اس لیے کہ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کا دائرہ اختیار صرف قبائلی علاقے تک محدود ہے۔ پکڑ دھکڑ کی یہ کارروائی تین ہفتے تک جاری رہی جس کے دوران بے شماربے گناہ افراد کو گرفتار کیا گیا اوران کی تجارت کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔

یہ آپریشن ایسے وقت میں کیا گیاجب قومی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا۔ لہٰذا اُصولی طورپراس کے لیے قومی اسمبلی کی منظوری لینا چاہیے تھی۔ متحدہ مجلس عمل کے اراکین پارلیمنٹ نے اس آپریشن کو غیر قانونی اور قومی وحدت کے منافی قرار دیااور سرکاری ترجمان نے آپریشن کے متعلق جو حقائق پیش کیے تھے ان کو غیر تسلی بخش قرار دیا ۔ حقائق معلوم کرنے کے لیے ایک پارلیمانی وفد تشکیل دیا گیا ‘جو وزیرستان جاکر موقع پر اس افسوسناک آپریشن کے متعلق حقائق معلوم کرتا لیکن جب یہ وفد۱۵ اکتوبر ۲۰۰۳ء کو وزیر ستان کی جنڈولہ چیک پوسٹ پہنچا تواِسے ایجنسی کے حکام نے آگے جانے سے روک دِیا ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نہیں چاہتی کہ فوجی یلغار سے متعلق اصل حقائق منظر عام پر لائے جائیں۔

یہ بات وزیرستان میںہر شخص کی زبان پر ہے کہ یہ آپریشن غیر ملکی اشارے پر کیا گیا ہے جس میں پاکستانی فوج  اوردیگر ایجنسیوں کو امریکی مقاصد کے لیے برے طریقے سے استعمال کیا گیا ہے۔ اس آپریشن کے شمال مغربی سرحد کی دفاعی صورتِ حال پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟  وزیرستان کے قبائل کے اعتمادکو جو ٹھیس پہنچی ہے اور ان کو جو مالی نقصان ہوا ہے اس کی تلافی کیسے ہوگی؟ وزیر ستان میں اگرریگولر آرمی کی تعیناتی کی ضرورت پڑی توملک کی سالمیت پر اس کے کیا اثرات پڑیں گے اور ملکی خزانے پراس کا کتنا بوجھ پڑے گا؟یہ وہ سوالات ہیں جن پر سنجیدگی سے غوروفکر کی ضرورت ہے۔صاف بات ہے کہ پاکستانی فوج اور قبائل کے تصادم سے جو مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور نفرت کی جو فضا جنم لے رہی ہے‘ امریکی حکومت کواس سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ یہ اس کا مسئلہ نہیں۔ لیکن ہمارا تو ہونا چاہیے۔ امریکہ تو صرف یہ چاہتا ہے کہ وقتی طور پر جومعمولی فوجی سازوسامان پاکستان کومہیا کیا گیا ہے اُس کو القاعدہ اور طالبان کی گرفتاری میں استعمال کیا جائے اورجلد از جلد کوئی ٹھوس کارکردگی دکھائی جائے۔

ایک عرصے سے بھارت کی یہ خواہش رہی ہے کہ کشمیرمیں کنٹرول لائن پر دبائو کم کرنے کے لیے شمال مغربی سرحد پر پاکستانی فوج کے لیے ایک نیا فرنٹ کھولا جائے ۔ کوششِ بسیار کے باوجود وہ اس میں کامیاب نہیں ہوا تھا۔اس وقت امریکی دبائو کے نتیجے میں تقریباً ۶۰ ہزار پاکستانی فوج‘پاک افغان سرحد کو سیل کرنے کے لیے تعینات کی گئی ہے۔ اس طرح افغانستان اور امریکہ کے تعاون سے بھارت کا یہ دیرینہ خواب بالآخرشرمندہ تعبیرہو رہا ہے۔اس وقت وزیرستان آپریشن نے ملک کو ایک نئی اور سنگین دفاعی صورت حال سے دو چار کر دیا ہے جس سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کی اشد ضرورت ہے ۔اس کے لیے لازم ہے کہ قبائلی علاقہ جات میں امریکہ کی ایما پر گھر گھر تلاشی اورہر قسم کے فوجی آپریشن کو فوراً بند کیا جائے اورکوشش کی جائے کہ تنازعات نوآبادیاتی دور کے’’گولہ بارود‘‘اور’’پکڑ دھکڑ‘‘کی پالیسی کے بجاے افہام وتفہیم سے طے کیے جائیں۔ قبائل علاقہ جات میں محب وطن افراد کی کمی نہیں ہے۔ ان کو اعتماد میں لے کر بہت سے مسائل پرامن طریقے سے حل کیے جا سکتے ہیں۔

پس منظر و پیش منظر

برعظیم میں انگریزی حکومت کے قائم ہونے کے بعدمسلمانانِ ہندنے اپنی آزادی اور اسلامی تشخص کی جدوجہد کا آغاز کیا۔ تحریک پاکستان کا سب سے بڑا محرک ایک ایسی آزاد مملکت کا قیام تھا جہاں مسلمان مذہبی تعلیمات اور اپنے رسم رواج کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔ یہی وجہ تھی کہ برعظیم میں پاکستان کے قیام کا مطلب’’لاالٰہ اِلا اللہ محمدؐ رسول اللہ‘‘کی سربلندی سمجھا اور مانا گیا۔ پاکستان بننے کے بعد ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کئی ایک کوششیں کی گئیں۔ ان کے نتیجے میں قانون ساز اسمبلی نے ۱۹۴۹ء کو قرارداد مقاصد منظور کی‘جس میں اس بات کا عہد کیا گیاکہ    نئی مملکت میں مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن و سنت کی روشنی میں بسر کرسکیں۔اُس کے بعد سے ملک کے جتنے بھی آئین بنے‘ اُن سب میں اسی عہد کا اعادہ کیا گیا ہے۔

۱۹۷۳ء کے آئین نے بھی یہ قرار دیا کہ موجودہ قوانین قرآن وسنت کے احکامات کے ساتھ ہم آہنگ کیے جائیں گے‘ اور ملک میں کوئی ایسا قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو اسلامی احکامات سے متصادم ہو۔ ممبران پارلیمنٹ کے لیے ضروری قرار پایا ’’کہ وہ اچھے اخلاق رکھتے ہوں‘ اور جن کے متعلق یہ تاثر نہ ہو کہ وہ اسلامی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اُنھیں اسلامی تعلیمات کا علم ہو، فرائض بجا لاتے ہوں اور کبائرسے اجتناب کرتے ہوں‘‘۔ قرارداد مقاصد، جو آئین میں دیباچے کی شکل میں شامل کی گئی تھی‘۱۹۸۵ء  میں ایک ترمیم کے ذریعے اس کو دستور کا حصہ بنادِیا گیا۔

یہ مقامِ افسوس ہے کہ ان ساری کوششوں کے باوجود ملک میںاسلامی قوانین عملی طور پر نافذ نہ ہو سکے۔ ۱۹۹۱ ء میں نواز شریف کے دورِ حکومت میں قومی اسمبلی نے شریعت ایکٹ کے نام سے ایک مسودہ قانون منظور کیا۔لیکن یہ ایکٹ بھی سینیٹ سے پاس نہ ہو سکا۔ ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل میں شامل تمام پارٹیوں کے انتخابی منشور میں نفاذ شریعت ایک اہم نکتہ تھا۔ ان پارٹیوں نے اس امر کا وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ برسِر اقتدار آگئیں تو وہ ملک میں نفاذ شریعت کے لیے عملی اقدامات اُٹھائیںگی۔ انتخابات کے نتیجے میں صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت قائم ہوئی،  تو اس نے نفاذ شریعت کے لیے ایک کونسل تشکیل دینے کی تجویز پیش کی۔ صوبہ سرحد کے گورنر نے۳ فروری ۲۰۰۳ء کو Law Reform Council کے نام سے شریعت کونسل کی منظوری دے دی۔ یہ کونسل جو ۲۱ ارکان پر مشتمل تھی مفتی غلام الرحمن کی سربراہی میں قائم کی گئی۔اس میںجید علماے کرام کے علاوہ ماہرین قانون اور تعلیم بھی شامل تھے۔ اس میں ہرطبقۂ فکر کو نمایندگی دی گئی تھی اور اقلیتی برادری کا نمایندہ بھی شامل تھا‘جب کہ صوبائی سیکرٹری محکمہ قانون وپارلیمنٹ وانسانی حقوق قانون سازی میں بحیثیت ممبر کونسل کی معاونت کر رہے تھے۔

شریعت کونسل کے ذمے یہ کام سونپاگیا کہ وہ صوبہ سرحد میں امور مملکت اور زندگی کے دیگر شعبوں میں شرعی قوانین کے نفاذ کے لیے مناسب تجاویز مرتب کرے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کو یہ ذمہ داری بھی دی گئی کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل‘ وفاقی شرعی عدالت اوراپیلٹ بنچ آف سپریم کورٹ کی تجاویز کی روشنی میں عدالتی نظام کی اصلاح کے لیے سفارشات پیش کرے۔

فروری اورمارچ کے مہینے میں کونسل نے کل۲۵ اجلاس منعقد کیے۔ ان اجلاسوں میں کونسل نے عدالتی اور انتظامی نظام سے وابستہ وکلا، ججوںاور افسران سے تبادلۂ خیال کیا اور مختلف امور پر ان کی رائے حاصل کی۔ ملک کے دیگر علما اور ماہرین قانون سے رائے طلب کرنے کے لیے کونسل کے دو ارکان نے کوئٹہ‘ کراچی اور لاہور کا دورہ کیا۔الغرض کافی غوروخوض اور تحقیق کے بعد کونسل نے اپنی سفارشات مرتب کیں۔ ان پر متحدہ مجلس عمل کی سپریم کونسل کی رائے بھی لی گئی۔ ان کی آرا کی روشنی میں رپورٹ کو حتمی شکل دی گئی۔ کونسل نے یہ رپورٹ وزیراعلیٰ صوبہ سرحد کو پیش کی۔اسے صوبائی محکمہ قانون کو بھیجا گیا تاکہ ان کو ایک بل کی صورت میں مرتب کرکے صوبائی اسمبلی میں پیش کیاجاسکے۔ اِسے اسمبلی میں پیش کرنے کے لیے صوبائی گورنر کی منظوری کے لیے بھی بھیجا گیا۔

۱۰ مئی ۲۰۰۳ء کو گورنر سرحد نے شریعت بل کو اسمبلی میں پیش کرنے کی اجازت دے دی۔اس کے فوراً بعد سرحد کی کابینہ نے ایک اجلاس میں شریعت بل کی منظوری دے دی اور ۲۷مئی ۲۰۰۳ء کو اسمبلی کا اجلاس بلانے کے احکامات صادر کیے ۔ اس دوران صوبائی وزیر قانون نے وفاقی وزرات قانون اور وزرات مذہبی امور کے حکام سے شریعت بل پر مشورہ کیا۔ اُنھوں نے اس سے مکمل اتفاق رائے کیا اور اسمبلی میں پیش کرنے کی سفارش کی۔

۲۷ مئی ۲۰۰۳ء کو شریعت بل اسمبلی میں پیش ہوا۔ دو تین دِن اس پرگرما گرم بحث ہوئی۔ پیپلزپارٹی پارلیمنٹیر ین گروپ کے پارلیمانی لیڈر اور صوبائی وزیر قانون نے اس میں چند ترامیم پیش کیں۔ لیکن ۲ جون ۲۰۰۳ء کے اجلاس میں یہ ترامیم واپس لے لی گٗئیں اور شریعت بل کو تمام جماعتوں کے ۱۲۴ارکان نے بِالاتفاق منظور کیا۔


اس بل کے مطابق صوبہ سرحد میں صوبائی دائرہ اختیار کی حد تک شریعت بالا دست قانون ہو گی۔ تمام عدالتیں صوبائی دائرہ اختیار میں آنے والے قوانین کی تشریح و تعبیر شریعت کے مطابق کرنے کی پابند ہوں گی ۔ دیگر قوانین میں اگر ایک سے زائد تشریح وتعبیرکی گنجایش ہو‘ تو عدالتیں اُس تشریح وتعبیر کو اختیار کرنے کی پابند ہوں گی جو شریعت کے مطابق ہو۔ صوبہ سرحد میں ہرمسلمان شہری شرعی احکامات کا پابند ہوگا۔ صوبائی حکومت اور اس کے اہل کاروں کو شرعی احکامات کا پابند اورشرعی اقدار کا پاسدار بنانے کے لیے قانونی ضوابط مرتب کیے جائیں گے۔

شریعت کی تعلیم وتربیت کے لیے لا کالجوں میں اسلامی فقہ کو نصاب میں شامل کیا جائے گا اور عربی زبان کی تعلیم وترویج کااہتمام کیاجائے گا۔ صوبائی حکومت کا تعلیمی نظام‘شریعت کی درس وتدریس‘ اسلامی کردار سازی اور اسلامی تربیت کا ضامن ہو گا۔اس کے لیے شریعت بل کے نفاذ کے ایک ماہ کے اندر صوبائی حکومت ایک تعلیمی کمیشن مقرر کرے گی،جو علما‘ تعلیمی ماہرین‘ فقہا اور عوامی نمایندوں پرمشتمل ہو گا۔ کمیشن کی سفارشات کو صوبائی اسمبلی میں قانون سازی کے لیے پیش کیاجائے گا۔

معیشت کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کے لیے بھی صوبائی حکومت شریعت بل کے نفاذ کے ایک ماہ کے اندر کمیشن مقرر کرے گی۔یہ کمیشن ان اقدامات کی سفارش کرے گا جن کے ذریعے معیشت کو اسلامی خطوط پر استوار کیا جا سکتاہے اور سود سے پاک قابل عمل متبادل نظام قائم کیا جا سکتاہے۔ اس کے علاوہ کمیشن موجودہ قوانین براے حصول ٹیکس، انشورنس اور بنک کاری کو اسلامی معیشت کے اُصولوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے تجاویز مرتب کرے گا۔کمیشن کی سفارشات کو قانونی شکل دینے کے لیے صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔

وہ ذرائع ابلاغ جن تک صوبائی حکومت کی رسائی ہو، اسلام کی تشہیر وترویج کے لیے استعمال ہوں گے۔ ہر شہری کی جان ومال ‘ عزت وآبرو اور شخصی آزادی کے تحفظ کے لیے صوبائی حکومت ضروری انتظامی اور قانونی اقدامات کرے گی۔رشوت‘ دھونس دھاندلی کے خاتمے کے لیے انتظامی احکامات کے ساتھ ساتھ ضروری قانون سازی ہو گی۔ جرائم کی روک تھام کے لیے مثالی اور تعزیری سزائیں مقرر کرے گی۔ معاشرے سے سماجی برائیوں کے خاتمے کے لیے قرآن پاک کے حکم کے مطابق امربالمعروف اور نہی عنِ المنکر کا اہتمام کرے گی۔ اسی طرح بے حیائی اور آوارہ گردی کے خاتمے کے لیے انتظامی احکامات کے ساتھ ساتھ قانون سازی بھی کی جائے گی۔

صوبے کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات میں عدالتی نظام کی اصلاح کے لیے ایک کمیشن مقرر کیا جائے گا جو علما‘ فقہا اور قانونی ماہرین پر مشتمل ہو گا۔یہ کمیشن رائج الوقت قانون کا جائزہ لے گا اور ان میں نقائص کی نشان دہی کے ساتھ متبادل تجاویز پیش کرے گا۔ اس کے علاوہ کمیشن کو اسلامی ضابطہء دیوانی‘ اسلامی ضابطہء فوجداری اور اسلامی قانون شہادت کی تدوین کی ذمہ داری بھی دی جائے گی۔


سرحد اسمبلی سے شریعت بل کا بالاتفاق پاس ہونا ایک تاریخی کارنامہ ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سرحد کے عوام کا مزاج دینی ہے اور وہ سیاسی اختلافات کے باوجود نفاذ شریعت کے حامی ،شیدائی اور آرزومند ہیں۔ شایدیہی وجہ تھی کہ حضرت سید احمد شہیدؒ بریلوی نے تحریک مجاہدین کی سرگرمیوں کے لیے صوبہ سرحد کی سرزمین کا انتخاب کیا تھا۔سید احمد شہیدؒ کی بالاکوٹ میں شہادت کے کئی سال بعد تک سرحد کے مجاہدین انبیلہ، مالاکنڈ، مہمند اور کالا ڈاکہ اور دیگر قبائلی علاقہ جات میں انگریزوں سے برسرپیکار رہے ۔ اس تحریک کو انگریز ی افواج نے پوری قوت اور شدت کے ساتھ دبانے کی کوشش کی‘ لیکن وہ بری طرح ناکام رہیں۔ یہی جذبہ ۱۹۴۷ء کے ریفرنڈم میں بھی کارفرما تھا، جب سرحد کے عوام کو اختیار دِیاگیا کہ وہ بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں، تو اُنھوں نے بھاری اکثریت سے پاکستان سے الحاق کے حق میں فیصلہ کیا۔

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ۱۹۷۴ء میں سرحد اسمبلی نے ختم نبوتؐ کے بارے میں قرارداد متفقہ طور پر منظور کی تھی۔اسی طرح سرحد اسمبلی کا اُردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینا اور خیبر بنک میں بلاسود بنک کاری بھی ایک بہت ہی دلیرانہ اور مستحسن اقدام ہے۔ یہاں اس امر کا ذکربھی ضروری ہے کہ صوبہ سرحد کی اسمبلی ملک کی دوسری صوبائی اسمبلیوں سے قدرے مختلف ہے۔ یہاں مسائل پر بحث وگفتگو، پشتونوں کی روایات کے مطابق افہام وتفہیم اور عزت و وقار کے ماحول میں ہوتی ہے۔ یہ امتیازی رویہ ہر پارٹی کے ممبراسمبلی کا طرۂ امتیاز ہے۔ یہ اچنبھے کی بات نہیںہے کہ جب اسمبلی نے شریعت بل کی منظوری دے دی تو سب ارکان اسمبلی نے بیک آواز بلند نعرہ تکبیر‘ اللہ اکبر سے شریعت بل کا خیر مقدم کیا جس سے اسمبلی کا ہال گونج اُٹھا۔

نفاذ شریعت کی خوشی میں ۲۲ جون ۲۰۰۳ء کو پورے صوبے میں یومِ تشکر منایا گیا۔ لوگوں نے اجتماعی طور پر مسجدوں میں نوافل ادا کیے۔ متحدہ مجلس عمل کے رہنمائوں کے لیے بالخصوص یہ مسرت اور خوشی کا موقع تھا ‘اس لیے کہ نفاذِ شریعت کا جو وعدہ انھوں نے انتخابی منشور میںعوام سے کیا تھا اسے پورا کرنے کا آغاز ہوگیا۔

۲۷ جون ۲۰۰۳ء کو وزیر اعلیٰ سرحد کے زیر قیادت متحدہ مجلس کے قائدین اور صوبائی وزرا کا ایک جلوس مسجد درویش پشاورصدر سے نکالا گیا‘جو شہر کے مختلف گلی کوچوں سے ہوتا ہوا جناح پارک پرختم ہوا۔ اس جلوس کا جس گرم جوشی اور والہانہ انداز سے شہریوں نے استقبال کیا اور جس طرح جلوس پرجگہ جگہ پھول نچھاور کیے گئے‘ اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرحد کے عوام کونفاذ شریعت پر کتنی مُسرت اور خوشی ہوئی ہے۔

مرکز میں برسراقتدار پارٹی کے رہنمائوں کا ردِعمل مایوس کن تھا۔ اُنھوں نے اس بل کی بھرپور مخالفت کی اور یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کی کہ صوبہ سرحد میں نفاذ شریعت کے لیے جو کچھ ہو رہا ہے، وہ افغانستان کے طالبان اور طالبنائزیشن کے منصوبے کا حصہ ہے۔اس منفی پروپیگنڈے کا آغاز جنرل مشرف نے خود کوہاٹ دوستی ٹنل کی افتتاحی تقریب میں کیا‘ اور کھلے بندوں داڑھی ،شلوار قمیص اور پردے کا مذاق اُڑایا۔ برسراقتدار پارٹی کے دیگر رہنمائوں نے اسی تضحیک آمیزانداز میں شریعت بل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ایک وفاقی وزیر نے تو یہاں تک کہا کہ سرحد اسمبلی کے ممبران جنھوں نے شریعت بل منظور کیاہے بالکل ’’جاہل‘‘اور ’’ان پڑھ‘‘ہیں۔ حالانکہ اگریہی ناقدین شریعت بل کو پڑھتے تو ان کومعلوم ہوتا کہ جن امور کو وہ تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں اُن کااس بل میں کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ مغربی اقوام اور بالخصوص امریکہ کے ذرائع ابلاغ نے شریعت بل کا سختی سے نوٹس لیا۔ اُنھوں نے اس کا تانابانا طالبانائیزیشن سے جوڑا۔ عوام کو شریعت کے نفاذ سے خوفزدہ کیا اور ڈرایا۔ کئی دِنوں تک مسلسل پروپیگنڈا کرتے رہے کہ شریعت بل میں ’’خواتین کو زبردستی پردے کا پابند بنایا جائے گا۔ خواتین کی تعلیم پر پابندی ہو گی۔ خواتین علاج معالجے کے لیے ہسپتال نہیں جا سکیں گی۔ شلوار قمیص کا پہننا لازمی ہوگا۔ ہر ایک آدمی داڑھی رکھنے کا پابند ہو گا۔ مسلمانوں کو نماز کے لیے بہ زور مساجد میں لایا جائے گا‘‘۔

یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ ۱۹۹۱ ء میںجب نواز شریف کے دورِ حکومت میں اسی سے مشابہ شریعت بل نیشنل اسمبلی نے منظور کیا تھا‘ تو کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا اور نہ کسی نے اس پر کوئی تنقید کی ۔ ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ اس بل پر شوروغل صوبائی اسمبلی کو معطل کرنے کا جواز پیدا کرنے کے لیے کیا گیا تھا ۔اسی لیے جنرل مشرف نے اعلان کیا تھا کہ ’’اگر طالبانائزیشن کا یہ عمل آگے بڑھتا ہے، تو وہ اسمبلی توڑنے سے گریز نہیں کریں گے‘‘۔  اس کے ساتھ ساتھ بیرونی دنیا کوخطرے کا پیغام دِیا جارہا تھا کہ ’’صوبہ سرحد میں طالبنائیزیشن کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس کو روکنا اور کنٹرول کرنا صرف فوج کے بس کی بات ہے‘ اس لیے جنرل مشرف کو کسی صورت میں بھی اقتدار سے نہ ہٹایا جائے بلکہ اس کے ہاتھ مزید مضبوط کیے جائیں‘‘۔جنرل مشرف نے اپنے دورۂ برطانیہ اور امریکہ میں صوبہ سرحد کے نفاذ شریعت کے اقدامات کو بلاضرورت منفی تنقید کا نشانہ بنایا ، طالبانائزیشن کا ہوّا کھڑا کر کے اپنے آمرانہ طرز حکومت کے لیے عذر لنگ پیش کیا‘ اوراپنے ناجائز قبضہء اقتدار کو دوام اور تقویت دینے کے لیے بش اور بلیئر کی پشت پناہی اور تائیدحاصل کرنے کی کوشش کی۔

اب ‘جب کہ نفاذ شریعت کے لیے قانونی راہ ہموار ہو چکی ہے‘ اس کے عملی نفاذ کے لیے بہت ہی فراست اور حکمت سے کام لینا ہو گا۔تعلیم ‘ معیشت اور عدالتی نظام کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کے لیے بل میں جن کمیشنوں کا ذکر کیا گیاہے، ان کو جلد از جلد تشکیل دینا ہو گا۔ ان میں  ایسے علما‘ فقہا اور جدید ماہرین تعلیم‘ معیشت اور قانون کو شامل کرنا ہو گا‘ جو تعلیم‘ معیشت اور عدلیہ کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ڈھالنے کی صلاحیت اور مہارت رکھتے ہوں۔ یہ ایک مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ اس کو کم سے کم وقت میںاور اولین فرصت میں سر انجام دینا ضروری ہو گا‘ تاکہ کمیشن کی سفارشات کو قانون سازی کے لیے اسمبلی میں جلد از جلدپیش کیا جا سکے۔ اس کے لیے ایک حکمت عملی کے تحت ممبران اسمبلی کوبھی ہم خیال بنانا ہو گا‘تاکہ قانون سازی کا مرحلہ بخیروخوبی طے ہو سکے۔

یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ اسلامی نظام میں نفاذ شریعت کا آغاز تعزیرات سے نہیں بلکہ فلاح عامہ سے ہوتا ہے۔ یہ نظام ہر فرد کی جان ومال اورعزت وآبرو کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے‘ اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی طرف سب سے پہلے اور سب سے زیادہ توجہ دیتا ہے۔ اُمید ہے کہ جب معاشرے پرنفاذشریعت کے اثرات مرتب ہوں گے، تو لوگوں کی زندگی میں واضح تبدیلی کے آثار نظر آئیں گے۔ اس خوشگوار تبدیلی سے دوسرے صوبے غیرمتاثر نہیں رہ سکیں گے۔ وہاں بھی نفاذ شریعت کا مطالبہ ہو گا۔اس طرح جس نیک کام کا آغاز صوبہ سرحد سے ہواہے وہ پورے ملک میںمقبول عام ہو گا اور اس کی پذیرائی ہو گی۔

نفاذ شریعت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت کے اہل کار نمودونمایش اور بے جا اخراجات کی مکمل روک تھام کریں۔ اس سلسلے میں سرحد کے صوبائی وزرا نے خود پہل کی ہے اور سادگی اور کفایت شعاری کا نمونہ پیش کیا ہے۔ کئی وزرا نے سرکاری شاہا نہ رہایش گاہ میں رہنے سے انکار کیا ہے۔ نئی اور مہنگی گاڑیاں جو وزرا کے لیے خریدی گئی تھیں اُن کے استعمال سے بھی اجتناب کیاہے۔کئی نے اپنی تنخواہوں میں رضاکارانہ طور پرکمی کا اعلان کیاہے۔عوام سے مسلسل ان کا رابطہ ہے ۔ دفاتر‘ گھروں اور مساجد میں اُن سے  بغیر کسی روک ٹوک کے ملاقات ہو سکتی ہے۔

یہ امربھی باعث مُسرت ہے کہ نفاذ شریعت کے سلسلے میں صوبائی حکومت نے پہلے ہی سے کئی ایک مستحسن اقدامات کیے ہیں۔ ان میں خواتین یونی ورسٹی اور خواتین میڈیکل کالج کا قیام‘ خیبر بنک میں سود سے پاک بنک کاری کا آغاز‘فحش کیسٹوں کے کاروبار اور عریاںفلمی پوسٹروں کی نمایش کی ممانعت ،پبلک ٹرانسپورٹ میں گانے بجانے پر پابندی‘بس اڈوں پر خواتین کے لیے پردہ دار انتظار گاہ اور طہارت خانوںکی تعمیراورشراب کے لائسنس اور پرمٹ کی منسوخی‘ ہسپتالوں میں نادار اور غریب مریضوں کو مفت ادویات کی فراہمی شامل ہیں۔مزید براں اوقات نماز میں بسوں کو ٹھہرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ خواتین کی تصاویر کے تجارتی اشیا کے فروغ کے لیے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے۔ ان اقدامات سے صوبہ سرحد میں ایک واضح اور مثبت تبدیلی نظر آرہی ہے‘ اور نفاذ شریعت کے لیے مناسب اور پاکیزہ ماحول کی تیاری اور آب یاری ہورہی ہے!