ترجمہ: پروفیسر عبدالقدیر سلیم
موجودہ دور میں اسلام کے فکری احیا کے لیے کام کرنے والوں میں ڈاکٹر اسماعیل راجی الفاروقی ؒ (۱۹۲۱ء-۱۹۸۶ء) نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ انھوں نے امریکہ میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ (IIIT)قائم کیا جس کی اس میدان میں نمایاں خدمات جاری ہیں۔ ان کی کئی کتابیں ہیں۔ ان کی کتاب: Al Towheed: Its Implications for Thought and Life.زیرترجمہ ہے۔ یہاں اس سے ماخوذ ایک تحریر پیش کی جا رہی ہے ۔ (ادارہ)
آج کی دنیا میں‘ خصوصاً مغرب میں تشکیک کا نقطۂ نظر بہت مقبول ہوا ہے‘ اور خوب پھولا پھلا ہے۔ پڑھے لکھے لوگوں نے تو اسے ایک غالب فلسفے کے طور پر قبول کر لیا ہے‘ مگر اکثر ناخواندہ بھی اس کا شکار نظر آتے ہیں‘ کیوں کہ وہ اپنے اپنے معاشروں کے ’’دانش وروں‘‘ کی پیروی ہی کو مناسب خیال کرتے ہیں۔تشکیک کے اس وسیع پیمانے پرفروغ کی ایک وجہ تو سائنس کی وہ کامیابی ہے ‘ جسے مذہبی ذہن اور سوچ کے مقابلے میںتجربی فکر کی مسلسل فتوحات کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ مذہبی ذہن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ چرچ ]عقیدے‘ ایمانیات[ سے وابستگی کا نام ہے۔ تجربیئین کے نزدیک مذہب تو ایک عرصہ ہوا کہ حق و صداقت کی تعلیم و تلقین کا اختیار گنوا بیٹھا ہے اور چرچ اس اختیار کا سزاوار بھی نہ تھا‘ کیوں کہ اس کی پوزیشن ہمیشہ ہی ادّعائی رہی: وہ ایسے دعووں کو عقائد اور ایمانیات کے طور پر پیش کرتا رہا ہے‘ جنھیں کبھی تجربی جانچ پڑتال کی کسوٹی اور تنقید کے امتحان سے نہیں گزارا گیا۔ مغربی دنیا‘ اور اس کے سارے مقلدین ابھی تک عیسائی چرچ پر سائنسی فکر کی فتوحات کے نشے میں سرشار ہیں۔ اسی فکر کے زیراثر وہ اس غلط اور دُہری تعمیم تک جست لگا دیتے ہیں کہ چوں کہ تمام مذہبی علم لازمی طور پر ادّعائی ہے‘]اس لیے قابل ردّ ہے‘ اور[ اس لیے صداقت تک رسائی کے لیے تمام راہیں تجربیت ہی سے ہو کر گزرنی چاہییں‘ اور ان کی توثیق حسّی تجربات ہی کے ذریعے ہونی چاہیے‘ جو منضبط تجربے کے نتیجے میں حاصل ہوں۔ انھیں یہ فیصلہ کرنے میں کچھ دیر نہیں لگتی کہ ہر وہ بات جس کی اس طرح توثیق نہیں ہو جاتی‘ مشکوک ہے۔ مزید یہ کہ اگروہ اس طرح قابل توثیق نہیں‘ تووہ لازماً غلط ہی ہے۔
اس طرح اُن کی نظر میں ہر مذہبی دعویٰ یا عقیدہ‘ ایک ایسے نظریے سے وابستگی کی نشان دہی کرتا ہے‘ جو تجربی طور پر ناقابل توثیق اور نتیجتاً بالکل بے وقعت ہے۔ صداقت‘ نامعلوم ہے‘ اور اس کا علم ہو بھی نہیں سکتا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایمان و ایقان‘ ایک عمل کے نام ہیں‘ یہ ایک فیصلے کی غمازی کرتے ہیں‘ جس کے ذریعے کوئی شخص ایک دشوار اور ناقابل عبور امر کوتسلیم کر لینے کا تہیہ کر کے چلتا ہے۔(۱) پاسکل اُسے ’’بازی کی ایک شرط‘‘ یا دائو کے طور پر پیش کرتا ہے‘ جس کی قطعیت‘ دائو لگانے والے سے ہمیشہ گریزاں ہی رہتی ہے۔
عیسائیوں کے درمیان لامذہب لوگوں نے عیسائی عقیدے کی تصویرکشی یوں کی ہے کہ یہ ایک اندھیرے کمرے میں‘ اندھے شخص کا اُس کالی بلی کی موجودگی پر یقین ہے‘ جو وہاں موجود ہی نہیں۔ انیسویںصدی میں‘ جب سائنسی فتوحات کا نشہ اپنے عروج پر تھا‘ ایک جرمن عالم دینیات شلیئرماخر (Schleiermacher) نے ’’مذہب سے عناد رکھنے والوں‘‘ (۲)کے جواب کے طور پر اپنے عیسائی ساتھیوں کو یہ نصیحت کی تھی کہ عیسائی عقیدے کی صداقت کو امر واقعہ کی میزان میں نہ تولیں‘ اور نہ حقیقت کو تنقید کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کریں‘ اسے تو بس ایک موضوعی تجربے کے طور پر قبول کر لیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یورپی شعور پر رومانیت کے انقلاب نے پوری طرح تسلط پا لیا ہے۔ اس رومانی فکر کے مطابق خدا کو اپنے حقیقی وجود کے اثبات کے لیے عقیدہ رکھنے والے کی محسوسات ہی پر انحصار کرنا ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمان کو اپنے ایمان کے لیے ’’belief‘‘ یا ’’faith‘‘کے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہییں۔ آج کل اپنے عمومی مفہوم میں یہ انگریزی الفاظ عدمِ صداقت‘ ظن وقیاس‘ شک اور بے اعتمادی کا رنگ لیے ہوئے ہوتے ہیں‘ جو اُن کے مفہوم سے لازماً مُترشح ہوتے ہیں۔ ان میں صداقت اُسی وقت تصور کی جاتی ہے‘ جب وہ کسی مخصوص شخص یا گروہ کے حوالے سے استعمال ہوتے ہیں اور اس صورت میں بھی ان کا مطلب بس یہی ہوتا ہے کہ وہ مخصوص شخص یا گروہ کسی قضیے کو درست مانتے ہیں۔ مگر اِن دونوں انگریزی الفاظ کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ یہ قضیہ‘ واقعتا دُرست بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ’’ایمان‘‘ کی اصطلاح کے بالکل متضاد ایک تصور ہے۔ یہ اصطلاح جو ’’امن‘‘ کے مادے سے مشتق ہے‘ اپنے اندر حفاظت کا مفہوم رکھتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جن قضایا پر محیط ہے‘ وہ حقیقتاً دُرست بھی ہیں‘ اور یہ کہ ان کی صداقت کو ذہن نے قبول بھی کر لیا (یعنی اچھی طرح سمجھ لیا اور تسلیم کر لیا) ہے۔
عرب کے محاورے میں ایک شخص ’’کاذب‘‘ (دروغ گو) یا ’’منافق‘‘ (دھوکے باز) تو ہو سکتا ہے‘ مگر ایمان اس مفہوم میں غلط نہیں ہو سکتا کہ اس کا معروض وجود ہی نہ رکھتا ہو‘ یا یہ اپنے معروض کے علاوہ کسی اور شے کے لیے استعمال ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ایمان اور یقین ہم معنیٰ الفاظ ہیں۔ یقین کی کیفیت سے پہلے کوئی شخص حقیقت کا انکار کر سکتا ہے یا اس پر اعتراض کر سکتا ہے۔ مگر جب یہ یقین آ موجود ہوتا ہے ‘ تو صداقت ایسی ہی محکم اور یقینی ہو جاتی ہے جیسے حسّی شہادت۔(۳) یہ ناقابل تردید مسلمہ حقیقت بن جاتی ہے۔ اب وہ شخص‘ جو اب بھی شک میں مبتلا ہے اُسے یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا؟ اب تم خود ہی دیکھ لو۔ یوں دیکھیں تو یقین صرف صداقت ہی کا ہو سکتا ہے۔ وہ امر مسلمہ ہوتا ہے‘ ناقابل تردید۔ اس طرح ایمان‘ نام ہے پختہ یقین کا: یہ تذبذب‘ شک‘ قیاس آرائی اور غیر یقینیت سے قطعی طور پر مبرا ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا عمل‘ فیصلہ یا ارادہ نہیں‘ جس میں کوئی انسان اپنا اندھا اعتماد کسی ایسی چیز پر کر رہا ہو‘ جس کے بارے میں اُسے یقینی طور پر معلوم نہ ہو۔ ایک مذبذب آدمی تو ہمیشہ اس غلطان میں مبتلا رہتا ہے کہ اپنا سرمایہ اس خانے میں رکھوں یا اُس دوسرے میں۔ ایمان ایک واردات ہے‘ جو کسی شخص پر وقوع پذیر ہوتی ہے اور یہ تب ہوتا ہے جب کسی چیز کی صداقت‘ اس کا امر واقعہ ہونا بغیر کسی شک کے اس کے یوں سامنے آجاتا ہے کہ اس کے دُرست ہونے میں کسی طرح کے شک کی گنجایش ہی باقی نہیں رہتی۔ علم ہندسہ کے نتائج کی طرح کہ اگر ہم ابتدائی مقولات اور قضایا کو دُرست تسلیم کر کے چلیں‘ تو اُن کے نتائج کے درست ہونے میں کوئی شک نہیں ہوتا‘ ایمان کی صداقت اور اس کا لابدی ہونا بھی ناگزیر ہوتا ہے۔ قرآن کا استدلالی طریق بھی یہی ہے: جس شے میں لوگوں کو شک ہوتا ہے وہ اُسے ناظرین کے سامنے اس طرح لے آتا ہے گویا وہ اُسے دیکھ رہے اور محسوس کر رہے ہیں۔(۴)
اسلام کا ایمان‘ عیسائیوںکے ایمان/ عقیدے (faith)سے یوں بھی مختلف ہے کہ اس میں صداقت‘ ذہن کو تفویض کی جاتی ہے‘ اس کی باور کرنے کی صلاحیت کو نہیں آزمایا جاتا۔ ایمان کی صداقتیں اور مقولات اپنی ماہیت کے اعتبار سے تنقیدی اور معقول ہیں۔ یہ کوئی پرُاسرار‘ ناقابل یقین‘ علم کی رسائی سے ماورا اور نامعقول دعوے نہیں ہیں۔انھیں شک کی کسوٹی پر پرکھا جا چکا ہے‘ اور جانچ پڑتال سے اس عمل سے وہ سرخ رُو نکلے ہیں۔اُن کی طرف سے اب کسی مزید وکالت کی ضرورت نہیں ہے۔ اب جو شخص بھی انھیں تسلیم کر لیتا ہے‘ وہ ایک معقول انسان ہے‘ اور جو بھی اُن کے انکار پر اڑا رہتا ہے‘ یا اپنے شکوک کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں‘وہ نامعقول رویے پر قائم کہا جا سکتا ہے۔ مگر اس کی تعریف ہی کی رُو سے عیسائی عقیدے کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جا سکتی‘ ہاں اسلام کے ’’ایمان‘‘ کی یہ لازمی خصوصیات ہیں‘ جن کو بیان کیے بغیر اس کی تعریف کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اسلام کی صداقت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: (اس وحی کے ذریعے) حق ظاہر ہو چکا ہے۔ کذب اور باطل پسپا ہوگیا‘ اور اسے ایسا ہونا ہی تھا… دانائی اب واضح طور پر سامنے آ چکی ہے‘ باطل کا تو معاملہ ہی الگ ہے۔(۵) اسلام کی معقولیت ہی یہ ہے کہ وہ تنقیدی ذہن کو مطمئن کرنے کی پوری پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ اسلام اس بات سے ہرگز خوف زدہ نہیں کہ اس کے مزعومات کے خلاف کوئی شواہد سامنے آ جائیں گے‘وہ کسی خفیہ کارروائی کا قائل نہیں‘ اس کی اپیل یہ بھی نہیں کہ تمھارے کسی اندرونی احساس کی اس سے تسکین ہوتی ہے‘ کوئی ’’اندرونی‘‘ شبہات کا ازالہ ہوتا ہے‘ اور حقیقت کے برخلاف ہی سہی‘ کسی تشویش یا خواہش کی آرزوئوں کی اس سے تکمیل ہوتی ہے۔ اسلام کا دعویٰ تو ظاہر و باہر ہے۔ وہ عقل کو اپیل کرتا ہے‘ اور اُسے صداقت پر مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اُسے سمجھ میں نہ آنے والے معمّوں میںاُلجھانے اور ذہن کو ان سے مغلوب کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتا۔(۶) اُسے اس عقیدے کے قبول کرنے پر آمادہ کرتا ہے‘ جو معقولیت اور سمجھ کی ہر جانچ پر پورا اترتا ہے۔(۷)
مندرجہ بالا تاملات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ایمان کو محض ایک اخلاقی درجہ بندی میں محدود نہیں کیا جا سکتا۔ سچ تو یہ ہے کہ اولاً اس کا تعلق ’’آگاہی اور علم کی جماعت سے ہے۔ گویا اس کا وظیفہ علم ہے‘ اس کا تعلق اس کے قضایا کی صداقت سے ہے۔ اور چوں کہ اس کے قضایا کے مشتملات بھی وہی ہیں‘ جو منطق اور علم کے ہیں‘ مابعدالطبیعیات کے ہیں‘ اور اخلاقیات اور جمالیات کے ہیں‘ اس لیے لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس کا وظیفہ ایک ایسی روشنی کا سا ہے‘ جو ہر شے کو منور کرتی ہے۔ غزالی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ ایمان ایک ایسی بصیرت ہے‘ جو تمام مواد اور حقائق کو اُن کے ٹھیک ٹھیک تناظر میں رکھ دیتی ہے اور ان کی درست تفہیم کے لیے یہ نہایت ضروری بھی ہے۔(۸) یہ کائنات کی عقلی توجیہ کی اصل بنیاد ہے۔ عقل کا بنیادی اصول فی نفسہٖ غیر عقلی یا نامعقول نہیں ہو سکتا‘ اور یوں خود اپنا متضاد نہیں ہو سکتا۔ یہی تعقل کا اوّلین تقاضا ہے۔ اس کا انکار کرنا‘ یا اس کی مخالفت کرنا گویا معقولیت سے عاری ہو جانا ہے اور اس طرح کا شخص انسانیت کے درجے ہی سے گر جاتا ہے۔
التوحید‘ بطور اصولِ علم‘ اس امر واقعہ کو تسلیم کر لینے کا نام ہے کہ اللہ --- الحق (سچائی‘ صداقت) --- ہے‘ اور یہ کہ وہ ایک ہے۔ یہ امر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ تمام دعوے‘ تمام شکوک‘ اُسی کے حوالے سے دیکھے جانے چاہییں۔ کوئی دعویٰ‘ کوئی حتمی فیصلہ بھی جانچ پڑتال سے ماورا نہیں۔ التوحید پر ایمان اس بات کو تسلیم کر لینے کے مترادف ہے کہ صداقت کی فی الواقع معرفت ہوسکتی ہے‘ اور انسان اس تک رسائی کی استطاعت بھی رکھتا ہے۔ تشکیک‘ جو اس صداقت سے انکاری ہے‘ التوحید کی ضد ہے۔ یہ صداقت کی تلاش اور جستجو کے عمل کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے میں ہمت و حوصلے کی کمی کا نام ہے۔ یہ منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں تھک کر بیٹھ جانے کا نام ہے ‘ کہ صداقت تک رسائی ہو ہی نہیں سکتی۔ ایک علمیاتی اصول کے طور پر یہ ایک مایوسی کا رویہ ہے‘ گویا یہ بات پہلے ہی تسلیم کر لی گئی ہے کہ انسان ایک خوابِ مسلسل کی حالت میں ہے‘ جہاں کبھی بھی حقیقت کو غیر حقیقت سے متمیز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کو لاوجودیت کے فلسفے سے جدا نہیں کیا جا سکتا‘ جو سرے سے تمام اقدار ہی کا انکار کر دیتا ہے‘ کیوں کہ اقدار شناسی کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان کو اقدار کی صداقت تک پہنچنے کا اہل تسلیم کر لیا گیا ہے۔ جس چیز کو قدر کے طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے‘ کیا وہ فی الواقع ایسی ہی ہے؟ ایک مخصوص صورتِ حال میں کیا وہ قدرتکمیل کو پہنچ رہی ہے‘ یا اُسے برباد کیا جا رہا ہے؟ اور وہ مخصوص صورتِ حال کیا وہی ہے ‘ جسے بیان کیا جا رہا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے بغیر کسی اقداری دعوے کی جانچ اور تصدیق نہیں ہو سکتی۔ جب تک تیقن کے ساتھ ان کا جواب دینا ممکن نہ ہو‘یعنی ان کی صداقت کا ٹھیک ٹھیک علم نہ ہو‘ اقدار کا علم اپنی بنیادوں پر قائم نہ رہ سکے گا۔ کسی قدر کی قدریت اور کسی مخصوص صورتِ حال میں اس کے انطباق پر تو شک کیا جا سکتا ہے کہ اس طرح کا شک ہر طرح کے مواد پر ہو سکتا ہے۔ اس لیے جب تک ایک انسان‘ تشکیک کے مفروضے کو تَج کر نہیں نکلتا‘ جب تک آغازِ سفر ہی میں وہ یہ مان کر نہیں چلتا کہ اِن امور میں صداقت تک رسائی ممکن ہے‘ اس وقت تک وہ لاوجودیت کے چنگل سے نہیں بچ سکتا۔
اللہ کی اُلوہیت اور اس کی توحید کو تسلیم کرنا دراصل صداقت اور اس کی وحدت کو تسلیم کرنا ہے۔ اُلوہی وحدت اور وحدتِ صداقت ایک دوسرے سے جدا نہیں کیے جا سکتے۔ یہ بات اس وقت بالکل واضح ہو جاتی ہے‘ جب ہم اس امر پر غور کرتے ہیں کہ التوحید ---یعنی یہ اقرار کہ اللہ ایک ہے--- کا ایک وصف ہی صداقت ہے۔ کیوں کہ اگر صداقت ایک سے زیادہ ہوتی‘ تو یہ بیان کہ ’’خدا ایک ہے‘‘ بھی درست ہوتا‘ اور یہ بیان کہ ’’کوئی اور شے یا قوت خدا ہے‘‘ یہ بیان بھی صحیح ہوتا۔ اس لیے یہ کہنا کہ صداقت ایک ہے‘ نہ صرف یہ اقرار کرنا ہے کہ اللہ ایک ہے‘ بلکہ ساتھ ہی یہ بھی اقرار کرنا ہے کہ سوائے اللہ کے کوئی خدا ]معبود[ ‘ اللہ نہیں۔ یہی انکار اور اقرار کا وہ اتصال ہے ‘ جس کا اظہار کلمۂ شہادت میں ہوتا ہے: لا الٰہ الا اللّٰہ!
طریقیاتی اصول کی حیثیت سے دیکھیں‘ تو التوحید تین اصولوں پر مشتمل ہے: اولاً اُس سب کا انکار جو حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا‘ ثانیاً غائی تضادات کا انکار‘ اور ثالثاً نئی اور /یا متضاد دلیل کے لیے ذہن کو کھلا رکھنا۔ پہلا اصول‘ کذب اور فریب کو اسلام سے خارج کر دیتا ہے‘ کیوں کہ وہ مذہب کی ہر بات کو تفتیش‘ پڑتال اور تنقید کے لیے کھلا رکھتا ہے۔ اس حقیقت سے انحراف یا اس سے عدمِ مطابقت‘ اسلام میں کسی بھی چیز کو باطل کر دینے کے لیے کافی ہے۔ چاہے کوئی قانون ہو‘ ذاتی یااجتماعی اخلاقیات کا کوئی اصول ہو‘ یا کائنات کے بارے میں کوئی بیان‘ ہر چیز تفتیش و تنقید کے لیے کھلی ہوئی ہے۔ پھر یہ اصول‘ اہل اسلام کو ’’رائے‘‘کی دست و برد سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ علم (یقینی) کا کوئی دعویٰ بغیر جانچ پڑتال اور وثوق کے نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن واضح الفاظ میں اعلان کرتا ہے کہ ہر بلاتحقیق دعویٰ‘ ظن (فریب علم) ہے‘ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک ممنوع‘ (۹) قطع نظر اس کے کہ بات کتنی ہی چھوٹی ہو۔ مسلم کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ وہ ایک ایسا انسان ہے‘ جو صداقت کے بغیر کوئی دعویٰ نہیں کرتا‘ وہ حق ہی کو پیش کرتا ہے‘ چاہے اس میں اس کی اپنی ذات کے لیے کتنے ہی خطرات مضمر ہوں۔ منافقت اور مکروفریب ‘ سچ اور جھوٹ کا آمیزہ تیار کر لینا‘ سچ/ صدق کو اپنے ذاتی مفاد یا اپنے عزیزوں کے مفاد سے کم تر حیثیت دینا‘ اسلام میں اتنے ہی قابلِ نفرت ہیں ‘ جتنے کہ قابلِ حقارت۔
دوسرا اصول یہ ہے کہ ایک طرف تو کوئی تضاد نہ ہو‘ اور دوسرے یہ کہ قضایا متناقض نہ ہوں۔(۱۰) یہ اصول دراصل عقلیت کی رُوح ہے۔ اِس کے بغیر تشکیک سے چھٹکارا نہیں مل سکتا۔ کیوں کہ ایک لاینحل تضاد کا مطلب یہ ہوگا کہ دو متضاد قضیوں میں سے کسی ایک کی صداقت کا کبھی پتا ہی نہیں چل سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانوں کی فکر اور کلام میں کبھی نہ کبھی تضاد تو پایا جاتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ آیا تضاد سے بچا بھی جا سکتا ہے یا نہیں۔ کیا ایسا اصول دریافت کیا جا سکتا ہے‘ جو دونوں متضاد قضایا پر حاوی ہو‘ اور اس کی مدد سے ان کا تناقض رفع کیا جا سکے‘ اور اختلافات ختم کر دیے جائیں۔
یہ بات وہاں بھی درست ٹھہرتی ہے جب الہام اور عقل کے درمیان تضاد واقع ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ اسلام نہ صرف یہ کہ اس طرح کے تضاد کے منطقی امکان کا انکار کرتا ہے‘ بلکہ اس زیربحث دوسرے اصول کے ذریعے اس طرح کے تضاد کے وقوع کی صورت میں اس کے حل کے لیے مناسب ہدایات بھی فراہم کر دیتا ہے۔ نہ تو یہ عقل کے لیے سزاوار ہے کہ وہ الہام پر بالادستی کا دعویٰ کرے‘ اور نہ الہام کو ایسا کرنا چاہیے۔ اگر صرف الہام ہی کو غیر مشروط فوقیت حاصل ہو‘ تو کوئی ایسا اصول باقی نہ رہے گا‘جو ایک الہام کو دوسرے سے متمیز کر سکے‘ یا الہام کے دو مختلف دعووں کے درمیان فرق کر سکے۔ اس طرح دو بیانات یاالہامی ہونے کے دعوے دار دو موقفوں کے الفاظ کے درمیان سادہ تضادات‘ اختلافات یا ظاہری عدمِ تطابق بھی اس طرح حل نہیں ہو سکیں گے۔ یہ بات واضح ہے کہ کوئی الہام خود کو اپنے آپ سے ہم آہنگ کرنے کے وسائل سے محروم نہیں کر سکتا کہ اسی طرح اس کا اپنا مکان درست حالت میں رہ سکتا ہے۔ مگر ایک دوسری صورت حال یہ بھی ہے کہ الہام‘ عقل کے خلاف--- یعنی عقلی جانچ پڑتال اور شعور کے خلاف--- بھی ہوسکتا ہے۔ جہاں بھی ایسی صورتِ حال پیدا ہو‘ اسلام دعویٰ کرتاہے کہ تضاد حقیقی اور غائی نہیں ہے۔ پھر وہ تفتیش کنندہ کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ الہام کی اپنی تفہیم پر نظرثانی کرے یا اپنے نتائج عقلی پر‘ یادونوں پر۔
التوحید ‘ تضاد کے غائی ہونے کورَد کر کے ‘ صداقت کی وحدت ہونے کے ناتے‘ ہم سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ متضاد دعوئوں کو پھر سے دیکھیں اور دوبارہ ان کی چھان بین کریں۔ وہ یہ مان کر چلتی ہے کہ اس مسئلے کا کوئی پہلوایسا ضرور ہے ‘ جس پر کماحقہ غور نہیں کیا جا سکا ہے‘ اور اگر اس پر غور کر لیا جائے تو متناقض دعوے ایک کُل میں ضم ہو جائیں گے۔ ساتھ ہی التوحید ہم سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ الہام کو نہیں‘ بلکہ الہام کے قاری کو ایک مرتبہ پھر اس الہام کے مطالعے کے لیے کہا جائے‘ کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر واضح اور غیر صریح معانی اس کی نظر میںآنے سے رہ گئے ہوں‘ اور دوبارہ غوروفکر سے یہ تضاد رفع ہو جائے۔ عقل اور فہم کی طرف اس رُجوع کا مقصد خود الہام میں کسی طرح کی ہم آہنگی پیدا کرنا نہیں‘ کیوں کہ الہام تو ہر طرح کے انسانی جوڑ توڑ اور کارستانیوں کی آماجگاہ ہونے سے کہیں بلند ہے۔ اس کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ ہماری انسانی تفہیم میں آہنگ پیدا ہو جائے۔ اس سے ہوتا یوں ہے کہ عقل نے اب تک جن شواہد کا ذخیرہ جمع کر لیا ہے الہام کی ہماری فہم اس کے مطابق ہو جاتی ہے۔ اس کے برخلاف متناقض یا متضاد قضایا کو اپنی جگہ غائی طور پر درست سمجھ لینا‘ ایک کمزور ذہن ہی کو بھاتا ہے۔ ایک مسلمان‘ عقل پر یقین رکھنے والا انسان ہوتا ہے کیوں کہ وہ صداقت کے دونوں مصادر--- الہام اور عقل--- کے اتحاد پر اصرار کرتا ہے۔
التوحید کا تیسرا اصول‘ صداقت کی یک جہتی ہے ‘یعنی نئے اور/ یا متناقض شواہد کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھنا۔ یہ اصول مسلمان کو لفظ پرستی‘ مذہبی انتہا پسندی اور جمود پیدا کرنے والی قدامت پرستی سے محفوظ رکھتا ہے ۔ وہ اس میں دانش مندانہ انکسار کو پروان چڑھاتا ہے اور اس سے مطالبہ کرتا ہے کہ اپنے اقرار اور انکار کے ساتھ اللّٰہ اَعْلَمْ (اللہ بہتر جانتا ہے!) کے فقرے کا بھی اضافہ کرے۔ کیوں کہ اس کو پورا یقین ہوتا ہے کہ صداقت‘ اپنی کلی ہیئت میں اس کی اپنی فہم سے کہیں زیادہ وسیع اور بڑی ہے۔(۱۱)
اللہ تعالیٰ کی مطلق وحدت کا اقرار کرتے ہوئے التوحید‘ حق یا صداقت کے مصادر کی وحدانیت کا بھی اقرار کر رہی ہوتی ہے۔ انسان جس کائنات سے علم حاصل کرتا ہے‘ اس کا خالق بھی اللہ ہی ہے۔(۱۲) ہمارا معروضِ علم کیا ہے‘ فطرت کی وہ یکسانیاں اور سانچے ہی تو ہیں‘ جن کا بنانے والا خود اللہ تعالیٰ ہے۔(۱۳) چوں کہ اللہ ہی ان کا خالق ہے‘ اس لیے بلاخوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ وہ ان کو جانتا بھی ہے۔ اور یہ بات بھی شبہے سے بالا ہے کہ الہام کا سرچشمہ بھی اُسی کی ذات ہے۔ وہ اپنے علم میںسے کچھ انسان کو بھی عطا کرتا ہے ‘ اور اس کا علم مطلق اور آفاقی ہے۔(۱۴) اللہ تعالیٰ ]نعوذ باللہ[ کوئی چال باز یا بدخواہ / بدباطن عامل نہیں‘ جس کا مقصد ہی لوگوں کو راستے سے بھٹکا دینا اور گمراہ کرنا ہو۔ اور پھر یہ بات بھی نہیں کہ انسانوں کی طرح‘ جو اپنے علم کو ٹھیک کرتے رہتے ہیں‘ اور اپنے ارادے اور فیصلے بدلتے رہتے ہیں‘ اللہ بھی اپنے حکم اور فیصلے کوبدلتا رہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کامل ہے‘ اور اس کا علم بھی کامل ہے‘ وہ ہر شے کا علم رکھتا ہے۔ وہ غلطیاں نہیں کرتا۔ اگر یوں ہوتا‘ تووہ اسلام کا خداے قدوس --- ہر شے سے ماورا معبود ---نہ ہوتا۔
التوحید اس بات کو تسلیم کر لینے کا نام ہے کہ صرف اللہ ہی معبود یا ’’الٰہ‘‘ ہے۔ ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ اس بات کو مان لینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ تمام خیر اور تمام اعلیٰ اقدار کا اصل مصدر ]سرچشمہ[ہے۔ اس لیے اس کا اعلان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہی کو غائی خیر تصور کیا جا رہا ہے‘ یعنی وہ اعلیٰ ترین خیر‘ جس کی وجہ سے خیر کی حامل ہر شے خیر بنتی ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی خیر کو اس کے خیر ہونے کا وصف‘ اور قدر کو اس کی صفتِ قدر عطا فرماتا ہے۔ غائی خیر کے سرچشمے میں خیر کی صفت پر کبھی شک کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ہمیں ہمیشہ یہ مان کر ہی چلنا چاہیے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جو اَمر بھی مقدر فرمایا ہے‘ اس نے ایک اچھے مقصد ہی کے لیے یہ مقدر کیا ہے‘ اور یہ مقصد بھی اُسی کی ذات کا متعین کردہ ہے۔ اس کے برخلاف کوئی رائے رکھنا‘ فی الاصل‘ التوحید ہی کا انکار کر دینا ہے۔ اسی لیے قرآن مجید نے زور دے کر یہ بات کہی ہے کہ مسلمانوں کو اللہ کے بارے میں کسی برائی کا خیال بھی نہ لانا چاہیے۔(۱۵) قرآن نہایت واضح الفاظ میں اُن لوگوں کی مذمت کرتا ہے‘ جو اس طرح کے خیال میں مبتلا ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اذیت اور دکھ دینے یا گمراہ کرنے کے لیے نہیں تخلیق کیا‘ نہ اس نے ہمیں علم‘ ہماری جبلتیں اور خواہشیں ہی اس لیے عطا کی ہیں کہ اِن قوتوں اور صلاحیتوں کے ذریعے ہمیں درست راستے سے بھٹکا دے۔ ہمارے حواس ہمیں جو خبر دیتے ہیں‘ اُسے درست ہی سمجھنا چاہیے‘ سوائے اس کے کہ واضح طور پر ہمارے حواس بگڑے ہوئے یا بیمار ہوں۔ ہماری فہمِ عام کے نزدیک جو بات دُرست ہے‘ اُسے ٹھیک ہی سمجھنا چاہیے‘ سوائے اس کے کہ اس کے برخلاف ثابت ہو جائے۔اسی طرح ہماری جبلتوںاور خواہشات کی طلب بھی بنیادی طور پر خیر ہی ہوتی ہے‘ سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے واضح طور پر اُن کی ممانعت کر دی ہو۔ التوحید ‘ علمیاتی اور اخلاقی سطحوں پر ہمیں رجائیت اور سرخوشی کی تلقین کرتی ہے۔ اِسی کو ہم رواداری کہتے ہیں۔
ایک علمیاتی اصول کی حیثیت میں رجائیت‘ حال کو‘ جیسا کہ وہ ہے‘قبول کر لینے کا نام ہے‘ جب تک کہ اس کا باطل ہونا ثابت نہ ہوجائے۔ ایک اخلاقی اصول کی حیثیت میںاس کا مفہوم یہ ہے کہ خواہشات کا احترام کیاجائے‘ سوائے اس کے کہ اُن کا ناپسندیدہ ہونا ثابت ہو جائے۔(۱۶) اول الذکر کو ساعد(!) کہا گیا ہے اور ثانی الذکر کو یُسْر (آسانی‘ رواداری)۔ یہ دونوں رویے مسلمان کو ساری دنیا کے لیے اپنے دریچے بند کر لینے اور مردہ کر دینے والی قدامت پسندی سے بچاتے ہیں۔ یہ دونوں اُسے حیات کی تصدیق کرنے اور اس کی صدا پر لبیک کہنے اور نئے تجربات کے لیے آمادگی پر اُبھارتے ہیں۔ یہ دونوںاُسے ‘ نئے مواد کو اپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھنے‘ اپنے تعمیری مشاغل پر تیار رہنے‘ اور اس طرح اپنے تجربے اور زندگی کو باثمربنانے پر آمادہ کرتے ہیں‘ اور اس طرح اُسے اپنی ثقافت اور تہذیب کو آگے بڑھانے میں مدد کرتے ہیں۔
التوحید کے جوہر کے دائرے میں بحیثیت ایک طریقیاتی اصول کے رواداری دراصل یہ ایقان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کو ایک رسول یا پیغام بر کے بغیر نہیں چھوڑا ہے‘ جو انھی کے درمیان سے مبعوث ہوتا ہے اور اس بعثت کی غرض و غایت انھیں یہ تعلیم دینی ہوتی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے‘اور یہ کہ اُنھیں اِسی کی عبادت اور اُسی کی غلامی اختیار کرنی چاہیے۔(۱۷) رسول اُنھیںشر اور اس کو وجود میں لانے والے عوامل سے بھی خبردار کرتا ہے۔(۱۸) یوں دیکھیں تو رواداری اس تیقن کا نام ہے کہ تمام ایک احساسِ مشترک سے بہرہ ور کیے گئے ہیں‘ جس کی وجہ سے وہ سچے مذہب کا شعور حاصل کرتے ہیں ‘ اور اسی کے ذریعے وہ اللہ کی مشیت اور اس کے احکام کو پہچان لیتے ہیں۔ یہ وہ عقیدہ ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ مذاہب کا سارا تنوع اور اختلاف‘ تاریخ کی پیداوار ہے‘ جس پر اثرانداز ہونے والے عناصر بہت سے ہیں: زمان ومکان کے بدلتے ہوئے عوامل‘ اس کے تعصبات‘ جذبات اور ذاتی مفادات ان میں سے چند ایسے عوامل ہیں۔ مذاہب کی ان مختلف النوع صورتوں کے پیچھے الدین الحنیف (اللہ کا اصل دین) ہی نظر آتا ہے‘ جس پر تمام انسان اصلاً پیدا ہوتے ہیں‘ اور پھر اپنا دین تبدیل کر کے کسی ایک یا دوسرے مذہب کے مقلد بن جاتے ہیں۔(۱۹) رواداری تقاضا کرتی ہے کہ مسلمان‘ تاریخ (بصیغۂ جمع) کا اس نقطۂ نظر سے مطالعہ کرے کہ اُسے ہر جگہ اللہ تعالیٰ کی اصل اور اولین عطا کا شعور حاصل ہو سکے۔(۲۰) یہ وہ عطا ہے‘ جس کی تعلیم و تلقین کے لیے اللہ تعالیٰ نے تمام مقامات پر‘ اور ہر زمانے میں اپنے رسولوں کو مبعوث فرمایا ہے۔ یہ مطالعہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے ذریعے اس اصل دین کی اہمیت پر زور دیا جاتا ہے‘ اور نہایت خوب صورت انداز میں‘ نہایت مضبوط دلائل اور شواہد کے ساتھ لوگوں کو اس کی طرف دعوت دی جا سکتی ہے۔(۲۱)
مذہب میں (اور یہ بات تو واضح ہے کہ انسانی رشتوں میں اس سے زیادہ اہم اور اولیت کی حامل کوئی دوسری شے نہیں ہے) رواداری‘ مذاہب کے درمیان محاذ آرائی اور باہمی مخاصمت و مذمت کو ایک عالمانہ تحقیق و تفتیش میں بدل دیتی ہے‘ جس کے ذریعے مذاہب کے ظہور‘ اور ان کی نشوونما کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے‘ اور اس طرح اصل الہام کو اس کے تاریخی حشو و زوائد سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے۔ اخلاقیات میں‘ جو کہ دوسرا نہایت اہم میدان ہے‘ یُسْر کا تصور مسلمان کو تمام حیات بیزار رجحانات سے محفوظ رکھتا ہے‘ اور تمام انسانی آلام اور مصیبتوں کے درمیان‘ رجائیت کی اس کم سے کم مقدار کی ضرور ضمانت دیتا ہے‘ جو اس کی صحت‘ توازن اور احساس تناسب و موزونیت کے لیے ناگزیر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ ’’تنگی اور سختی کے ساتھ سہولت و آسانی بھی ہے‘‘۔(۲۲) اورچوں کہ اس نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ فیصلہ کر لینے سے پہلے ہر دعوے کی اچھی طرح جانچ پڑتال اور تفتیش کر لی جائے‘ (۲۳) اِسی لیے اُصولیّون (علماے فقہ و قانون)نے کسی بھی مطلوبہ چیز پر جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے واضح احکام نہیں ہیں‘ خیر یا شر کا فتویٰ لگانے سے پہلے اُسے اچھی طرح آزما لینے کا طریقہ اپنایا ہے۔
۱- یہود‘ ثبوت کے لیے معجزات طلب کرتے ہیں اور یونانی‘ عقل کے جویا ہیں۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے‘ ہم مسیح مصلوب کی منادی کرتے ہیں۔ یہ وہ پیغام ہے‘ جو یہود کے لیے بارِخاطر ]ناگوار[ اور ملحدین کے نزدیک مہمل ہے۔ سینٹ پال: Cornithians I‘ ۱: ۲۲-۲۳
۲- Religion - Speaches to Its Cultural Despisers: Friedrich D. Schleiermacher ترجمہ: John Oman (Harper & Brothers‘نیویارک‘ ۱۹۵۸ء)ص ۹۴ اور آگے۔
۳- کلا لو … الیقین (التکاثر ۱۰۲: ۵-۷) ’’]بات تو یہ ہے کہ[ اگر تم ]صداقت کو[ یقینی علم کے طور پر جان لیتے‘ تو تم ضرور جہنم کا مشاہدہ کر لیتے‘ اور پھر تم اُسے اس طرح دیکھ لیتے جیسے یقین کی آنکھ سے اُسے دیکھ رہے ہو‘‘۔
۴- اسلام کے تصور ایمان اور پاسکل کے ’’ایمان‘‘ (faith)میں بڑا گہرا تفاوت ہے۔ پاسکل کے نزدیک ایمان ایک جوے کا دائو یا بازی ہے‘ جو اپنی ماہیئت کے اعتبار سے ہمیشہ غیر حتمی اوراَن جانا ہی ہوتا ہے۔ اس کے خیال میں صورتِ حال یوں ہے کہ اللہ کے وجود کے بارے میں انسان کو کبھی شہودی قطعیت نصیب نہیں ہو سکتی‘ اور نہ اُس کے احکام اور آخری فیصلے کے بارے میں اُس طرح کا تیقن حاصل ہو سکتا ہے۔ مگر اسلام نے اس طرح کی برہانِ قاطع لانے کا چیلنج قبول کر لیا۔ اسی لیے مسلمانوں نے اس طرح کے عقلی عقیدے کے لیے ہر طرح کی دلیل سے کام لیا۔ تخلیق اور تغیر پر مبنی دلائل‘ دلیل منصوبہ اور مقصدیت‘ اور شعورِ اخلاقی کی دلیل‘ اپنی بہترین صورت میں قرآن مجید ہی میں ملتی ہیں۔
۵- وقل جاء الحق … زھوقًا (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱) ’’]اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم[ کہہ دیجیے کہ اب حق آ چکا ہے (صداقت ظاہر ہو چکی ہے) اور باطل (غیرحق) مٹ گیا ہے اور باطل کو تو پسپا ہو ہی جانا ہے‘‘۔ قد تبین … الغی (البقرہ ۲:۲۵۶) ’’صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے‘‘۔
۶- اسلام کی اس عقلیت پسندی ‘ واضح اور بین ثبوتوںکے سلسلے میں اس کے اصرار‘ علم اور دانائی سے اس کی وابستگی‘ توصیف اور فروغ کی کوشش‘ سائنس اور ساری کائنات میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے نمونوں کی دریافت کی سعی‘ خواہ وہ آسمانوں میں ہوںیا نفسِ انسانی میں--- ان سب کا موازنہ عیسائیت میں ایمان کے بیان سے کیجیے۔(I Cornithians)
۷- I Cornithians ‘ ۱: ۱-۲۰
۸- ابوحامد الغزالی: المنقذ من الضلال (یونی ورسٹی پریس‘ دمشق‘ ۱۳۶۷ھ/۱۹۵۶ء)‘ ص ۶۲-۶۳۔ غزالی یہاں کہتے ہیں کہ ایمان‘ عقل کی شہادت کا انکار نہیں کرتا‘ نہ اس کی تردید کرتا ہے‘ اور نہ اس کے خلاف جاتا ہے‘ بلکہ اس کی توثیق کرتا ہے۔ ’’…میں نے اپنے شکوک کا علاج کرنا چاہا‘ مگر شہادت عقل کے بغیر یہ ناممکن تھا‘ تاہم بنیادی علوم ]مابعد الطبیعیات[ کے بغیر کوئی شہادت قائم نہیں رہ سکتی تھی۔ اور چوں کہ ان علوم کی بنیادیں ہی محفوظ و مستحکم]اور شکوک سے بالا[ نہیں تھیں‘ اس لیے اُن کے نتائج اور اُن کی بنیادوں پر تعمیر ہونے والے نظریات بھی غیر مستحکم ہی تھے مگر بعد میں (ایمان کے تحت یا اس کے ساتھ)… ]سائنس اور مابعد الطبیعیات کی[ یہ تمام عقلی بنیادیں مستحکم ومحفوظ‘عقلی طور پر صحیح اور قابل قبول بن گئیں۔ علم میں ان کی بنیادوں نے ان کو پوری طرح سہارا دیا‘‘۔ (ص ۶۲)
۹- یا ایھا الذین امنوا … اثم (الحجرات ۴۹:۱۲) ’’اے وہ لوگو’ جو ایمان لائے ہو‘ ]اپنے ساتھیوں کے بارے میں[بہت زیادہ ظن و گمان سے بچو‘ کیوں کہ تھوڑا سا شک وگمان بھی گناہ کے زمرے میں آتا ہے‘‘۔
۱۰- اس نکتے کی مزید وضاحت اور تجزیے کے لیے الحضارہ الاسلامیہ میں اس مصنف کا مضمون اور ردّعمل ملاحظہ ہو (باب ۲‘ نوٹ ۱)۔
۱۱- وسع … تتذکرون (الانعام ۶:۸۰) ’’میرے رب کا علم تمام چیزوں پر محیط ہے‘ تو پھر کیا تم اس پر توجہ نہیں دیتے؟ اللّٰہ الذی … علمًا (الطلاق ۶۵:۱۲) ’’وہ اللہ ہی ہے‘ جس نے سات آسمانوں کو پیدا کیا ہے‘اور انھی کی طرح ]سات[ زمینوں کو بھی۔ اس کا حکم ان سب پر غالب آتا ہے۔ ]اس لیے ہے کہ[ تم جان لو کہ اللہ ہر چیزپر قادر ہے ‘ اور یہ کہ ہر شے اس کے دائرئہ علم میں ہے‘‘۔ ان … بالمھتدین (الانعام ۶:۱۱۷) ’’تمھارا رب بہتر طور پر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بے راہ ہوتا ہے‘ اور وہی اس بات کا بھی بہتر جاننے والا ہے کہ ٹھیک راستے پر چلنے والے (ہدایت یافتہ) کون ہیں‘‘۔
۱۲- دنیا‘ مظاہر یا فطرت کے بارے میں قرآن مجید کے بیان کے یہی معنی ہیں۔ اس کے مطابق یہ اللہ کی آیات‘ یعنی نشانیوں (نشانی کے لفظی معنی ہی اشاریے یا شہادت کے ہیں) سے بھری پڑی ہیں۔ اِن تمام مثالوں میںقرآن مجید اس استنتاج/ استدلال کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کے ذریعے ایک کھلے ذہن والا شخص مخلوق اور خالق کے درمیان تعلق کو واضح طور پر دیکھ لیتا ہے۔ مظاہر ِفطرت اس خالق کے وجود اور اس کے عمل مسلسل کی صاف شہادت دیتے ہیں۔
۱۳- وفی الارض … للمؤمنین (الذاریات ۵۱:۲۰) ’’زمین میں اللہ تعالیٰ ]کی کاری گری[ کی نشانیاں موجود ہیں‘ ]لیکن انھیں وہی لوگ دیکھ پاتے ہیں[جو یقین رکھنے والے ہیں‘‘۔ ھو الذی … یتقون (یونس ۱۰:۵-۶)’’ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمھارے لیے سورج کو روشنی اور چاند کو نور بنایا‘ اور اس نے اس کی منزلیں مقرر کر دیں‘ تاکہ اپنے ]ماہ و[سالوں کی گنتی اور ان کا حساب معلوم کر سکو۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو سچائی کے ساتھ ہی تخلیق فرمایا ہے۔ وہ جاننے والوں کے لیے اپنی نشانیوں کو واضح طور پر بیان کرتا ہے… رات اور دن کے اختلاف میں‘ اور اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین پر جو پیدا کیا ہے‘ اُن سب میں اُن لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو اللہ سے ڈرتے ہیں‘‘۔
۱۴- ان اللّٰہ… علیماً (النساء ۴: ۳۲) ’’اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے‘‘۔وسع … تتذکرون (الانعام ۶:۸۰) ’’میرے آقا نے علم کی رُو سے تمام چیزوں کا احاطہ کر لیا ہے۔ تم اس بات پر دھیان کیوں نہیں دیتے؟ ‘‘ وعلم … کلھا (البقرہ ۲:۳۱) ’’اور ]اللہ نے[ اُن سب ]چیزوں[ کے نام سکھا دیے‘‘۔ ا لذی علم … یعلم (العلق ۹۶:۴-۵) ’’وہ ]اللہ[جس نے قلم کے ذریعے سکھایا ]پڑھنا لکھنا[۔ انسان کو اس چیز کا علم دیا‘ جسے وہ پہلے نہیں جانتا تھا‘‘۔ ویعملمکم …تعلمون (البقرہ ۲:۱۵۱) ’’وہ تمھیں کتاب اور دانائی سکھاتا ہے‘ اور تمھیں ان باتوں کا علم عطا کرتا ہے ‘ جنھیںتم جان نہ سکتے تھے‘‘۔
۱۵- ویعذب … مصیرًا (الفتح۴۸:۶) ’’وہ ]اللہ[ منافق مردوں اور منافق عورتوں (اسلام کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں)‘ اور اس کے ساتھ دوسرے معبودوں کو شریک کرنے والے مردوں اور ایسی عورتوں کو ‘ ]یعنی[ ان سب لوگوں کو جو اللہ کے ساتھ برا گمان رکھتے ہیں‘ عذاب دے گا۔ اُن پر برائی کی گردش مسلط ہو گئی ہے‘ اللہ ان سے ناراض ہو گیا ہے‘ اور اس نے ان کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے‘ جو کہ ایک بہت برا ٹھکانا ہے ‘‘۔
۱۶- اسی اصول کی روشنی میں اسلام کے قانون سازوں نے قانون کی بنیاد کے طور پر یہ اصول اختیار کر لیا ہے کہ ’’سوائے ان چیزوں کے‘ جن کی اللہ نے ممانعت کر دی ہے‘ عمومی طور پر تمام چیزیں جائز ہیں‘‘۔
۱۷- وما خلقت … لیعبدون (الذاریات ۵۱: ۵۶) ’’میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میرے عبادت ]اطاعت[ کریں‘‘۔
۱۸- ولقد بعثنا … المکذبین (النحل ۱۶: ۳۶) ’’اور ہم نے ہر اُمت ]انسانوں کے ہر گروہ[میںایک رسول ]پیغام بر[بھیجا تاکہ وہ انھیں تلقین کرے کہ وہ اللہ ہی کی عبادت بجا لائیں‘ اور طاغوت ]سرکش گمراہ کرنے والے[سے بچیں۔ تو پھر اُن میں سے کچھ وہ ہیں جنھیں اللہ نے ہدایت دی‘ اور بعض وہ ہیں جن کی گمراہی ثابت ہوگئی۔ تم زمین پر گھوم پھر کر اچھی طرح دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا‘‘۔
۱۹- ’’میں اس لیے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں کہ معتدل حنیفیتہ کی تعلیم دوں۔ اس سوال کے جواب کہ آپ ]ماضی کے[مذاہب میں کس کو سب سے زیادہ پسند فرماتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معتدل ]یا رواداری والی[ حنیفیتہ‘ یا مذہب ابراہیمی۔ اس حدیث کو حضرت ابن عباس ؓنے روایت کیا ہے (الزبیدی: تاج العروس‘ بذیل ’’حنف‘‘ ج ۶‘ ص ۷۸): الامام مسلم‘ صحیح مسلم‘ خلاصہ الحافظ المنضری: مختصر صحیح مسلم‘ ترتیب: محمد ناصرالدین البانی (کویت: الدار الکویتیہ للطباعۃ‘ ۱۳۸۸ھ/۱۹۶۹ء)‘ ج ۲‘ ص ۲۴۹‘ حدیث نمبر ۱۹۸۲ء۔
۲۰- فاقم … یعلمون (الروم ۳۰: ۳۰) ’’پس تم اپنا رخ اصل دین کی طرف کر لو‘ بالکل خالص ہو کر ]یکسوئی کے ساتھ[ یہ اللہ کی بنائی ہوئی وہ اصل فطرت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں میں رکھ دیا ہے ]یا جس پر اللہ نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے[ اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں کوئی تغیر نہیں ہو سکتا۔ یہی سیدھا اور سچا دین ہے‘ لیکن اکثر لوگ اس کا علم نہیں رکھتے‘‘۔
۲۱- ادع … بالمھتدین (النحل ۱۶: ۱۲۵) ’’اپنے رب کی طرف دانائی اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دو اور لوگوں کے ساتھ احسن طریقے سے جدال کرو۔ ]یعنی اختلاف کا اظہار بھی خوبی اور سلیقے سے ہو[۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمھارا رب اچھی طرح جانتا ہے کہ کون راہِ راست سے بھٹک گیا ہے‘ اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو بھی بخوبی جانتا ہے‘‘۔
۲۲- یرید اللّٰہ … العسر (البقرہ ۲: ۱۸۵) ’’اللہ تعالیٰ تمھارے لیے آسانی چاہتا ہے‘وہ تمھیں تنگی اور سختی میں مبتلا کرنا نہیں چاہتا‘‘۔
۲۳- یا ایھاالذین … ندمین (الحجرات ۴۹: ۶) ’’اے اہل ایمان ! اگر تمھارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے‘ تو اس کی ]اچھی طرح[تحقیق کر لیا کرو‘ ایسا نہ ہو کہ تم جہالت ]غلط علم[ کی بنا پر کسی قوم پر حملہ آور ہو جائو‘ اور بعد میںتمھیں اپنے کیے پر پچھتانا پڑے‘‘۔