امام ابن قیم الجوزی


گناہوں کے بے شمار برے اثرات میں سے ایک یہ ہے کہ گنہگار علم سے محروم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ علم نور الٰہی ہے جسے اللہ تعالیٰ انسانوں کے قلوب میں القا فرماتا ہے‘ گناہ اس نور کو بجھا دیتے ہیں۔ امام شافعیؒ سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت امام مالکؒ سے درس لینے لگے تو ان کی فطانت‘ ذہانت‘ فہم و بصیرت کی بے پناہ کثرت و فراوانی نے امام مالکؒ کو انتہائی حیرت میں ڈال دیا اور فرمانے لگے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمھارے قلب میں نور القا فرما دیا ہے۔ کہیں تم اس نور کو گناہوں کی ظلمت سے بجھا نہ دینا۔

ایک موقع پر حضرت امام شافعی ؒ نے یہ شعر کہے:

شکوت الی وکیع سوء حفظی
فاوصانی الی ترک المعاصی

فان العلم نور من الہ
ونور اللّٰہ لا یعطی لعاصی

امام وکیع کے سامنے میں نے اپنے حافظے کی کمزوری کی شکایت کی تو انھوں نے مجھے گناہوں سے بچنے کی ہدایت فرمائی اور فرمایا: سمجھ لو کہ علم اللہ تعالیٰ کا نور ہے اور یہ نور نافرمانوں کو نہیں ملا کرتا۔

گناہ کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ انسان کی روزی اور اس کے رزق میں تنگی ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ مروی ہے:

ان العبد لیحرم الرزق بالذنب یصیبہ (مسند احمد ۵:۲۷۷)

بندہ اپنے ارتکاب گناہ سے روزی و رزق سے محروم ہو جاتا ہے۔

تقویٰ و پرہیزگاری روزگار کو کھینچ لاتے ہیں اور انحراف و اعراض فقر وافلاس کا سبب بنتا ہے۔ حصول رزق اور فراخی معاش کے لیے ترک گناہ سے بہتر کوئی چیز نہیں۔

گناہوں کے اثرات

وحشت قلبی کی شکایت: گناہوں کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ گنہگار کے قلب اور خدا کے درمیان ایک خطرناک نامانوسیت پیدا ہو جاتی ہے اور یہ وحشت اس قدر خطرناک ہوتی ہے کہ دنیا و مافیہا کی ساری لذتیں بھی اسے میسر آ جائیں تب بھی زندگی بے کیف ہی رہتی ہے۔ یہ حقیقت خدا کا وہی بندہ سمجھ سکتا ہے جو زندہ دل ہو‘ اور جس کا قلب بیدار ہو۔ مردے کو تو کوئی سا بھی زخم لگایا جائے‘ اسے تکلیف نہیں پہنچتی۔ اگر اس وحشت سے بچنے اور اس گڑھے سے محفوظ رہنے کے لیے ہی گناہوں کا ترک کرنا مفید ہے‘ تو صاحب عقل و بصیرت گناہوں سے بچنے کے لیے صرف اسی ایک سبب کو کافی سمجھ لے۔

کسی شخص نے بعض عارفین کے سامنے اپنی وحشت قلبی کی شکایت کی تو انھوں نے کہا کہ گناہوں کی وجہ سے تم وحشت میں مبتلا ہو تو گناہ کیوںترک نہیں کر دیتے؟ گناہ ترک کر دو گے تو اللہ تعالیٰ سے تمھیں انس پیدا ہو جائے گا اور تمھیں سکون و اطمینان حاصل ہوگا۔ لہٰذا سمجھ لینا چاہیے کہ پے درپے گناہ کرنے سے قلب پر وحشت کا بوجھ بڑھتا چلا جاتا ہے اور اس سے بدتر بوجھ کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔

لوگوں سے وحشت: گناہوں کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ گنہگار کولوگوں سے وحشت ہو جاتی ہے۔ ارباب خیر و صلاح سے خصوصاً اسے کچھ ایسی نفرت ہوجاتی ہے کہ وہ ان سے دُوربھاگتا ہے۔ جس قدر یہ وحشت ترقی کرتی چلی جاتی ہے اسی قدر وہ ان کے ساتھ بیٹھنے اٹھنے سے گریز کرتا ہے جس کے نتیجے میں وہ ایسے لوگوں کے خیر ہی سے محروم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح وہ جس قدر رحمانی گروہ سے دُور ہوتا ہے شیطانی گروہ سے قریب تر ہوتا جاتا ہے۔اس کی وحشت دھیرے دھیرے اس قدر ترقی کر جاتی ہے کہ اسے اپنے بیوی بچوں‘ اقربا‘ اعزہ بلکہ اپنی جان تک سے وحشت و نفرت ہونے لگتی ہے۔ چنانچہ سلف صالحین میں سے بعض کا قول ہے کہ جب کبھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہو جائے تو اس کا اثر اپنی سواری کے جانور اور اپنی بیوی کے برتائو سے محسوس کر لو۔

مشکلات میں اضافہ: گناہوں کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ گنہگار کے معاملات میں طرح طرح کی مشکلات اور دشواریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ جس کام کا وہ عزم و ارادہ کرتا ہے اسے اس کا دروازہ بند نظر آتا ہے یا وہ اسے سخت دشوار پاتا ہے۔ برخلاف اس کے جو آدمی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اس کے تمام کام آسان ہو جاتے ہیں‘ اور جو شخص تقویٰ و پرہیزگاری کو چھوڑ دیتا ہے اس کے سارے کام مشکل اور دشوار ہو جاتے ہیں۔

قلب کی تاریکی : گناہ کا ایک اثر یہ ہے کہ نافرمان آدمی اپنے قلب میں ایک خطرناک ظلمت و تاریکی اس طرح محسوس کرتا ہے جیسے تاریک رات کی ظلمت۔ وہ تاریکی کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ طاعت و عبادت ایک نور ہے اور معصیت ایک تاریکی۔ معصیت جب بڑھ جاتی ہے تو گنہگار کی حیرانی و پریشانی بھی مزید ہو جاتی ہے‘ رفتہ رفتہ وہ شخص ہمہ وقت کی بدعات اور گمراہیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے‘ مہلک اور خطرناک امور میں پھنس کر اس کی جان وبال میں پڑ جاتی ہے اور پھر طرفہ تماشا یہ کہ اسے اپنی اس حالت کا شعور و احساس تک نہیں رہتا۔ اس کی حالت ایک ایسے اندھے کی سی ہو جاتی ہے جو اندھیری رات میں نکل کھڑا ہو اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتا پھرے۔ اور پھر یہ ظلمت و تاریکی رفتہ رفتہ اس پر اس قدر چھا جاتی ہے کہ اس کی آنکھوں سے ظاہر ہونے لگتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ اس کے چہرے پر بھی چھا جاتی ہے۔ یہ سیاہی ایسی پھیل جاتی ہے کہ ہر شخص اسے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:

نیکی سے چہرے پر روشنی ہوتی ہے۔ قلب میں نور‘ رزق میں فراخی‘ بدن میں قوت اور مخلوق کے دلوں میں محبت پیدا ہوتی ہے۔ اور گناہ سے چہرے پر سیاہی آ جاتی ہے‘قبر اور دل میں ظلمت اور تاریکی پیدا ہوتی ہے‘ جسم میں کمزوری اور روزی میں تنگی آجاتی ہے اور مخلوق کے دلوں میں بغض و نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔

قلب و بدن کی کمزوری اور بزدلی : گناہوں کا ایک اثر یہ ہے کہ معاصی سے قلب اور بدن کمزور اور بزدل ہو جاتا ہے۔ پھر قلب کی کمزوری تو ظاہر ہے بڑھتے بڑھتے بالآخر زندگی کو ختم کر دیتی ہے۔

جسم کی کمزوری کی حقیقت یہ ہے کہ مومن کی قوت کا دارومدار اس کے قلب کی قوت پر ہے۔ مومن کا قلب قوی اور مضبوط ہے تو اس کا جسم بھی قوی اور مضبوط ہوتا ہے۔ فاسق و فاجر کا حال اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ وہ اگرچہ جسم و بدن کے لحاظ سے کتنا ہی قوی اور مضبوط کیوں نہ ہو لیکن بزدل و کمزور ہوتا ہے اور بہ وقت ضرورت اس کی جسمانی طاقت بے کار ثابت ہوتی ہے۔جان بچانے کے موقع پر اس کی جسمانی قوتیں اس سے بے وفائی کر جاتی ہیں۔ اہل فارس و روم کے بہادروں کو دیکھیے کہ یہ لوگ کس قدر قوی اور مضبوط تھے لیکن عین تحفظ و دفاع کے موقع پر ان کی قوتوں اور طاقتوں نے ان کے ساتھ کیسی خیانت اور بے وفائی کی اور اہل ایمان اپنی ایمانی قوت اور جسم و قلب کی طاقت سے ان پر کس طرح غالب اور مسلط ہو گئے۔

اطاعت خداوندی سے رُک جانا: گناہوں کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ انسان اطاعت خداوندی سے رک جاتا ہے۔ صرف یہی ایک سزا اس کے لیے طاعت و عبادت کا راستہ بند کردیتی ہے اور پھر اس سے اس کے لیے خیر کا راستہ منقطع ہو جاتاہے۔ اس طرح بندے کے لیے طاعتوں کی راہیں بند ہو جاتی ہیںحالانکہ اس کے حق میں ہر طاعت و عبادت دنیا و مافیہا سے بہتر‘ قیمتی اور موجب خیروبرکت تھی۔ اس کی مثال یوں ہے کہ ایک آدمی کسی ایسی چیز کا لقمہ کھا لیتا ہے جو اسے ایک طویل مرض میں مبتلا کر دیتی ہے‘ پھر وہ اس کے سبب طویل عرصے تک لذیذ غذائوں سے محروم ہو جاتا ہے جن کا ہر لقمہ کہیںزیادہ لذیذ اور بہتر تھا۔

عمر کم ہونا: گناہوں کی ایک تاثیر یہ ہے کہ گناہ عمر کو تباہ کر دیتے ہیں‘ اور عمر کی ساری برکتیں اس سے چھن جاتی ہیں۔ یہ لازمی امر ہے کہ نیکی جس طرح عمر کو بڑھاتی ہے‘ فسق و فجور سے عمر کوتاہ ہوتی ہے۔

عمرکی کوتاہی کا مطلب ہے کہ عمر کی برکتیں کم ہوجاتی ہیں اور عمر اس کے حق میں موجب زحمت وبال بن جاتی ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ گناہوں کی وجہ سے حقیقی عمر فوت ہو جاتی ہے۔ کیونکہ حقیقی اور اصلی زندگی یہ ہے کہ انسان کا قلب زندہ ہو‘ چنانچہ اسی معنی کی رو سے اللہ تعالیٰ نے کافر کو مردہ کہا ہے جیسا کہ ارشاد ہے:

اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآئٍ ج  (النحل ۱۶: ۲۱) کافر مردے ہیں جن میں جان نہیں۔

پس حقیقی زندگی قلب کی زندگی ہے اور انسان کی عمر اس کی اسی زندگی کے زمانے کا نام ہے۔ انسان کی عمر اس کے وہی اوقات زندگی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ گزریں اور یہی اوقات اس کی عمر کی حقیقی ساعتیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ تقویٰ و پرہیزگاری‘ طاعت و عبادات ان اوقات میںاضافہ اور خیروبرکت پیدا کرتے ہیں۔ یہ انسان کی حقیقی عمر ہے جس کے بغیر عمر کی کوئی حقیقت نہیں۔

حاصل کلام یہ ہے کہ بندہ جب اللہ تعالیٰ کی جناب سے گریزکرتے ہوئے معاصی کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کی وہ حقیقی زندگی فنا ہو جاتی ہے جس کے فنا ہو جانے کا افسوس اس کو اس دن ہوگا جس دن اس کی زبان سے بے ساختہ نکل پڑے گا:

یٰلَیْتَنِیْ قَدَّمْتُ لِحَیَاتِیْo (الفجر ۸۹:۲۴) کاش کہ میں اپنی آخرت کی اس زندگی کے لیے پہلے سے کچھ حاصل کر چکا ہوتا۔

یہاںسمجھ لینا چاہیے کہ عملی اعتبار سے بندے کی دو ہی حالتیں ہیں۔ وہ یا تو اپنی دنیوی اور اخروی مصالح سے بے خبر ہو یا باخبر۔ اس سے اگر بالکل بے خبر ہے توساری عمر رائیگاں گئی‘ اور اگر ان مصالح سے بے خبر نہیں ہے مگر معاصی میں گرفتار ہے تو اس نے اپنی زندگی کی راہ میں عوائق و مشکلات پیدا کر لیں جس کی وجہ سے اصل راہ اس کے لیے طویل ہو گئی اور خیروصلاح کے اسباب اس کے لیے اسی قدر دشوار ہوگئے جس قدر خیروصلاح کے مخالف امور میںاس کی مشغولیت رہی۔ بندے کی یہ حالت بھی اس کی حقیقی عمر کا عظیم الشان نقصان ہے۔

مسئلے کا حقیقی راز یہ ہے کہ انسان کی عمر حقیقتاً اس کی زندگی کی مدت کا نام ہے۔ انسان کی زندگی یہی ہے کہ وہ اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرے‘ اس کی محبت و ذکر سے لذت اندوز ہو اور اس کی رضامندی و رضا جوئی کو سب سے مقدم سمجھے۔

گناہ در گناہ: گناہوں کا خاصا یہ ہے کہ ایک گناہ دوسرے گناہ کے لیے بیج کا کام کرتا ہے۔ اس طرح ایک سے دوسرا اور دوسرے سے تیسرا گناہ پیدا ہوتا ہے‘ یہاں تک کہ آدمی کے لیے گناہ کو چھوڑنا اور اس بھنور سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بعض سلف صالحین کہتے ہیں کہ گناہ کی سزا دوسرے گناہ کی شکل میں ملتی ہے اور نیکی کا صلہ مابعد کی نیکی کے صلے میں حاصل ہوتا ہے۔ ایک بندہ کوئی نیکی کرتا ہے تو دوسری قریبی نیکی کہتی ہے کہ مجھے بھی انجام دیتے چلو۔ وہ جب اس کو انجام دے لیتا ہے تو ایک اور نیکی اسے یہی دعوت دیتی ہے۔ اس طرح نیکیوں کا سلسلہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ اس سے بندے کو بے حساب نفع حاصل ہوتا ہے اور اس کی نیکیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ جو شکل نیکیوں کی ہے وہی گناہوں کی بھی ہے۔ طاعات اور معاصی بندے کے حق میں نہ مٹنے والی تصویریں‘ لازم اور غیر منفک صفات اور ثابت و لازم بن جاتی ہیں۔ جس وقت کسی نیکوکار آدمی سے کوئی نیکی رہ جاتی ہے تو وہ اپنے لیے تنگی اور تکلیف محسوس کرتا ہے‘ اور اس غفلت کی وجہ سے اس پر زمین تنگ ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے کو اس مچھلی کی طرح پاتا ہے جو پانی سے الگ کر لی گئی ہو اور وہ پانی میں جانے کے لیے بے تاب ہو۔ مچھلی کو پانی میں جا گرنے ہی سے سکون ملتا ہے اور اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں۔

یہی حالت ایک عاصی و گنہگار کی ہے۔ وہ کسی معصیت کو چھوڑ کر نیکی کی طرف توجہ کرتا ہے تو اس پر بھی زمین تنگ ہو جاتی ہے‘ سینے میں تنگی پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ دوبارہ جب تک یہ گناہ نہ کرے‘ زندگی کی ساری راہیں اس پر تنگ ہو جاتی ہیں تاآنکہ بعض فاسق وفاجر لوگوں کا تو یہ حال ہوتا ہے کہ بلاکسی لذت‘ لطف‘ بلاداعیہ اور خواہش کے بھی ارتکاب گناہ کرتے رہتے ہیں ۔ بات صرف یہی ہوتی ہے کہ گناہوں کی مفارقت سے انھیں تکلیف ہوا کرتی ہے۔ چنانچہ اس گروہ کے شیخ حسن بن ہانی کا شعر ہے    ؎

وکاس شربت  علی  لذۃ
واخری تداویت منھا بھا

ایک جام شراب میں نے لذت سے نوش کیا‘ اور دوسرے جام سے پہلے سے پیدا شدہ مرض کا علاج کیا۔

اور کسی دوسرے شاعر نے کہا ہے    ؎

وکانت دوائی وھی دائی بعینہ
کما یتداوی شارب الخمر بالخمر

میری دوا بعینہ میرے لیے بیماری تھی‘ جس طرح کہ شرابی آدمی شراب سے اپنا علاج کرتا ہے۔

نیک بندے کی مدد : اللہ تعالیٰ کا کوئی بندہ جب طاعت الٰہی کا اہتمام و التزام کرتا ہے اور طاعت و عبادت سے اسے خاص قسم کا انس اور الفت و محبت ہو جاتی ہے تو اسے ہر چیز سے مقدم سمجھتا ہے۔ بندے کی اس حالت میں حق سبحانہ وتعالیٰ اس کے لیے اپنی رحمت کے فرشتے بھیجتا ہے جو ہر طرح اس کی امداد کرتے ہیں۔ اسے اطاعت الٰہی اور عبادت کا شوق دلاتے ہیں۔ اس کے جذبات ایمانی کو اُبھارتے ہیں‘ بستر تک چھڑا دیتے ہیں۔ کیسی حالت اور کیسی ہی مجلس میںبیٹھا ہوا ہو‘ اسے اٹھا کر طاعت و عبادت میں لگا دیتے ہیں۔

اس طرح جب کوئی بندہ معاصی اور گناہوں سے الفت کرنے لگتا ہے‘ گناہوں کو محبوب رکھتا ہے اور خیرونیکی کے مقابلے میں گناہوں کو ترجیح دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ شیاطین کو اس پر مسلط کر دیتا ہے۔ یہ شیاطین معاصی اور گناہوں میں اس کی معاونت کرتے ہیںاور اس کے جذباتِ شیطانی و نفسانی کو ابھارتے ہیں۔ پس پہلا بندہ وہ ہے جس کی اعانت و امداد کے لیے طاعت و عبادت کا پورا لشکر موجود ہوتا ہے جو اس کی پشت پر رہ کر اس کی بھرپور امداد کرتا ہے اور اس لشکر کی امداد سے بندہ نہایت قوی اور مضبوط ہو جاتا ہے۔دوسرا بندہ وہ ہے کہ جس کی پشت پر معصیت اور گناہوں کا لشکر ہوتا ہے جو معصیت اور گناہوں میںاس کی اعانت و امداد کرتا ہے۔ یہ شیطانی لشکر اسے معصیت و گناہ میں قوی اور مضبوط بنا دیتا ہے۔