سیدابوالاعلیٰ مودودی بلاشبہہ ایک بہت بڑے انسان تھے‘ جنھوں نے اپنی زندگی میں لاکھوں لوگوں کو اپنے افکار و خیالات سے اس حد تک متاثر کیا کہ اُن کی سوچ ہی نہیں‘ اُن کی زندگیاں بدل ڈالیں۔ وہ اپنی وفات کے بعد بھی بہت سے زندہ لوگوں کی بہ نسبت کہیں زیادہ موثر ہیں۔ اُن کے قلم سے نکلی ہوئی تحریروں سے آج بھی بے شمار لوگ اسلام کے بارے میں رہنمائی حاصل کر رہے ہیں۔ میں نے اپنی ۷۲ سالہ زندگی میں ابتدائی ۱۲ سال چھوڑ کر بقیہ ساٹھ سال میں مولانا مودودیؒ کو اپنے آس پاس اور ارد گرد موجود و متحرک محسوس کیا ہے اور تمام تر نظریاتی اور سیاسی اختلافات کے باوجود اُنھیں اعلیٰ پایے کا ادیب اور صاحب ِ بصیرت عالم پایا ہے۔
مجھے تقریباً ۳۰ سال کی عمر میں احساس ہوا کہ گو میں نے لائبریریاں پڑھ ڈالی ہوں لیکن خدا کی کتاب قرآن عظیم پڑھنے کا حق ادا نہیں کیا۔ ۱۹۵۲ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے اقتصادیات میں ایم اے کرنے کے بعد میں نے لارنس کالج گھوڑا گلی میں پڑھایا تھا اور پھر ایک مختصر وقفے سے دوبارہ گورنمنٹ کالج میں داخلہ لے کر دو سال فلسفے کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی۔ میں ۱۹۶۱ء میں برعظیم کے ایک معروف اشاعتی ادارے‘ مکتبہ جدید کا سربراہ تھا اور ایک معتبر ادبی جریدے سویرا اور ایک مقبول عام ہفت روزہ نصرت کا مدیر تھا۔ میں نے لاہور کے دو مشہور اہل علم و فضل کی خدمت میں یکے بعد دیگرے حاضر ہوکر گزارش کی کہ مجھے قرآن پڑھا دیں۔ اُن کی خصوصی توجہ کے عوض میں نے ان صاحبوں کو پیشکش کی کہ میں ان کے گھر میں نوکر کی حیثیت سے کام کرنے کو بھی تیار ہوں۔ لیکن خدا کی مرضی کہ ان میں سے ایک بھی رضامند نہ ہوا اور یہ منزل بہرحال مجھے اکیلے ہی سر کرنی پڑی۔ میں نے لاہور سے کوچ کر کے ۱۹۶۱ء سے ۱۹۶۳ء کا عرصہ کوئٹہ کے ایک گھر میں دنیا کی نظروں سے چھپ کر قرآن پڑھا۔ بُری بھلی جتنی عربی کالج میں اور پھر مرحوم محی الدین سلفی سے سیکھی تھی اس موقع پر بہت کام آئی۔ انگریزی اور اردو کے بیشتر تراجم اور سرسید سے مولانا مودودی تک کی تمام تفسیروں کی مدد سے ہر روز ایک رکوع کے حساب سے میں نے دو مرتبہ قرآن کا دور مکمل کیا۔ قرآن کا جو مفہوم مجھ پر وارد ہوا وہ مختصراً یہ تھا کہ کائنات کے خالق و مالک خدا کو اپنے لیے کچھ نہیں چاہیے‘ وہ اپنے بندے سے صرف یہ چاہتا ہے کہ وہ اُس کے ضرورت مند بندوں کے کام آئے۔ اس اعتبار سے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میری سیاست کی بنیاد قرآن عظیم اور دین اسلام ہے اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ قرآن اور اسلام کو سمجھنے میں مجھے مودودی صاحب سے بہت روشنی ملی۔
لڑکپن میں مجھے تاج کمپنی کی طرف سے شائع کردہ مولانا مودودی کی کوئی درجن بھر مختصر لیکن جامع کتابیں پڑھنے کا موقع ملا تھا۔۱؎ ان کتابوں نے میرے اندر دین سے محبت اور اس کی سرفرازی کے لیے جاں فشانی سے لے کر جان فروشی تک پر تیار رہنے کا جذبہ پیدا کردیا۔ بعد میں قیامِ پاکستان کے وقت میری تمام تر ہمدردیاں قائداعظم کی مسلم لیگ سے ہوگئیں اور روزنامہ نواے وقت میں حمید نظامی مرحوم کے اداریوں نے مجھے مولانا مودودی سے بدگمان کردیا۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ اسلام کے احیا کی شدید لگن رکھنے والے مولانا مودودی پاکستان کے قیام کی تحریک کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں۔ پاکستان کی تحریک کا اسلام سے تعلق تھا یا نہیں‘ مسلمانوں سے تو تعلق تھا۔ یہ ان کی قومی تحریک تھی۔ مسلمان قوم مستحکم ہوتی ہے تو اس سے اسلام بھی مستحکم ہوتا ہے۔ مجھے آج بھی افسوس ہے کہ مولانا مودودی کے موقف کے باعث تحریکِ پاکستان ان بے شمار نیک اور لائق کارکنوں سے محروم ہو گئی جو آپ سے متاثر تھے۔ اگر یہ لوگ قومی تحریک میں شامل ہوتے تو قائداعظم کوشاید یہ کہنے کی ضرورت پیش نہ آتی کہ ان کی جیب میں کھوٹے سکّے ہیں۔ اگر مولانا کے اسلامی افکار سے متاثر کارکن تحریکِ پاکستان کے اندر شامل ہوتے تو ابتدائی سالوں ہی میں پاکستان پایدار اخلاقی بنیادوں پر قائم ہوجاتا اور رشوت اور بدعنوانی کا وہ بازار جو مسلم لیگ کے کھوٹے سکّوں نے گرم کر دیا تھا اس کی جگہ دیانت داری اور ذمہ داری کا دور دورہ ہو جاتا۔
اس دوران میری واقفیت طلوع اسلام کے حوالے سے غلام احمد پرویز مرحوم کے افکار و خیالات سے ہوئی۔ پھر جوں جوں میں پرویز صاحب سے قریب ہوتا گیا۔ میں مودودی صاحب سے دُور ہوتا چلا گیا۔ لیکن جب میں نے قرآن پاک کے مطالعے پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کر دی تو مولانا کی یہ خوبی واضح طور پر میری سمجھ میں آئی کہ وہ مشکل سے مشکل مضامین کو سلیس اور عام فہم انداز سے پیش کرتے ہیں اور جتنا صاف اور آسان وہ لکھتے ہیں اسلام کے بارے میں لکھنے والے ایسے بہت کم لوگ ہیں۔ میں نے پرویز صاحب کے علاوہ مولانا ابوالکلام آزاد کو بھی غور سے پڑھا ہے لیکن ان حضرات کی زبان اتنی معرب اور مفرس ہے کہ پڑھنے والا مرعوب زیادہ اور متاثر کم ہوتا ہے۔ ان کے برعکس میں نے مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کے بارے میں محسوس کیا کہ بلندیِ خیال کو قربان کیے بغیر یہ تفسیر مشکل ترین مقامات کو سلاست اور روانی کے ساتھ طے کر جاتی ہے۔ یہ کام وہی مفسرکرسکتا ہے جسے قرآن نے اپنے اندر اترنے کا شرف عطاکیا ہو۔ تفہیم القرآن پڑھتے ہوئے صاف پتا چلتا ہے کہ لکھنے والا جانتا ہے کہ وہ کیا لکھ رہا ہے۔ آپ اُس سے اختلاف تو کرسکتے ہیں لیکن یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ جناب آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ ہمارے یہاں ایسے ادیبوں اور سیاست دانوں کی کمی نہیں جو کچھ نہ کہنے کے لیے لکھتے اور تقریریں کرتے ہیں۔
میں نے تفہیم القرآن کے علاوہ مولانا مرحوم کی دیگر تصانیف کا بھی مطالعہ کیا ہے۔ جس طرح وہ خود امام ابن تیمیہؒسے متاثر ہیں۔ میں طبعی اور ذوقی اعتبار سے حضرت ابوذر غفاریؓ اور امام ابن حزمؒ سے متاثر ہوں۔ چنانچہ میں سماجی انصاف (social justice) کے معاملے میں کچھ زیادہ ہی مساوات پسند واقع ہوا ہوں۔ زمین کی ملکیت کے ضمن میں مولانا مرحوم سے میرا اختلاف رہا۔ میں قرآن کے اعلان کے مطابق زمین کو اللہ کی ملکیت (الارض للّٰہ) سمجھتا ہوں اور اس پر افراد کی لامحدود ملکیت کو تسلیم نہیں کرتا۔ اقبالؒ نے بھی تو کہا تھا ؎
دہ خدایا یہ زمیں تیری نہیں‘ تیری نہیں
تیرے آبا کی نہیں‘ تیری نہیں‘ میری نہیں
مودودی صاحب سے میرا یہ اختلاف اس وقت کھل کر سامنے آیا جب پاکستان پیپلز پارٹی قائم ہوئی اور میرے زیرادارت شائع ہونے والے ہفت روزہ نصرت اور پھر روزنامہ مساوات میں جماعت اسلامی کے ساتھ چپقلش چلتی رہی۔
زمانہ کب ایک سا رہتا ہے۔ پاکستان دولخت ہوگیا۔ بچے کھچے پاکستان میں پیپلز پارٹی برسرِاقتدار آگئی۔ ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم بن گئے۔ میں پنجاب کا وزیراعلیٰ مقرر ہوا۔ میں تو ایک سوچ کے تحت سیاست میں شامل ہوا تھا ۔ابتداً بھٹو مرحوم نئی جماعت نہیں بنانا چاہتے تھے۔ میں نے اور میرے جیسے کچھ لوگوں ہی نے انھیں اس پر آمادہ کیا تھا۔ میں پنجاب میں پہلا شخص تھا جس نے ۱۹۶۶ء میں اُن سے اقتدار سے الگ کیے جانے کے بعد مل کر الاشتراکیۃ الاسلامیہ کے حوالے سے ایک نئی جماعت بنانے کے لیے کہا تھا۔ اس وقت مصر میں صدرناصر کا انقلاب آچکا تھا اور اسلامی سوشلزم کے فلسفے کا عالمِ عرب میں بڑا چرچا تھا۔ یہی فلسفہ اقبال‘ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے افکار میں بھی نمایاں تھا۔ پھر میرے ہفت روزہ نصرت نے نیشنل پریس ٹرسٹ کے چیئرمین مسٹراے-کے سومار اور میرے درمیان اسلامی سوشلزم کے موضوع پر ہونے والی ملک گیر بحث پر ایک خصوصی شمارہ بھی شائع کر رکھا تھا۔ اگرچہ پیپلز پارٹی نے ’’اسلام ہمارا دین ہے‘‘ اور ’’سوشلزم ہماری معیشت ہے‘‘ کے دو الگ الگ نعرے دیے تھے‘ لیکن میری سوچ اور عوامی دبائو کے تحت یہ دونوں نعرے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کی ایک اصطلاح میں ڈھل گئے تھے۔ جب اقتدار آیا تو میری اور میرے جیسے دوسرے نظریاتی کارکنوں کی خواہش اور کوشش تھی کہ اب حسب وعدہ جاگیرداری اور اس کے تمام تر لوازمات کا خاتمہ کیا جائے۔ بھٹوصاحب نے ابتدا میں زرعی اصلاحات کے ذریعے سے اس سلسلے میں ایک اہم قدم ضرور اٹھایا‘ لیکن بعد میں خصوصاً ۱۹۷۷ء کے انتخابات کے آس پاس جاگیرداروں کو پارٹی میں نمایاں جگہ دینی شروع کر دی۔ اس پر میرے اور ان کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے تھے اور انھوں نے مجھے جیل میں ڈال دیا۔
میں ۱۶ مہینے (مارچ ۱۹۷۴ء سے جولائی ۱۹۷۵ئ) وزیراعلیٰ کی کرسی پر بیٹھا اور پھر ]بھٹو صاحب کی وزارت عظمیٰ کے زمانے میں[ ۱۶ مہینے ہی میں نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے کاٹے۔ یہ وہ دور ہے (مارچ ۱۹۷۶ئ-جولائی ۱۹۷۷ئ) جب مولانا مودودیؒ سے میرا ایک اور تعارف ہوا۔ شروع شروع میں جیل کے اندر مجھے سوائے قرآن پاک کے کوئی اور کتاب پڑھنے کو نہیں دی جاتی تھی۔ بعد میں بڑی مشکل سے مولانا محمد علی کا انگریزی ترجمہ و تفسیر اور مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کی اجازت ملی۔ تب ایک مرتبہ پھر میرے دل میں مولانا صاحب کے لیے قدرو منزلت پیدا ہوئی۔ گو اب بھی چند معاملات پر ان سے ذہنی اختلاف تھا‘ لیکن انھوں نے اسلام کے پیغام کو عام کرنے کے ساتھ ساتھ ایک پوری نوجوان نسل کو اسلام کے خدمت گاروں کی شکل دینے میں جو مشقت اٹھائی تھی‘ مجھے اس کی اہمیت اور معنویت کا اندازہ ہوا۔ تفہیم القرآن کے دوبارہ مطالعے سے جو بات سب سے زیادہ میرے دل پر نقش ہوئی وہ یہ تھی کہ جب تک سیاست کی بنیاد دینی اخلاقیات پر قائم نہ ہوگی‘ اس سے خلق خدا کو کوئی فائدہ نہ پہنچ سکے گا۔
جب ۸ جولائی ۱۹۷۷ء کو لاہور ہائی کورٹ نے میری رہائی کا حکم دیا تو کچھ دنوں کے بعد میں مولانا مودودی سے ملنے اچھرہ‘ لاہور میں ان کی رہائش گاہ پر گیا۔ یہ زندگی میں میری ان سے پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ میں نے ان سے دو گزارشات کیں۔ ایک نظریاتی اور ایک ذاتی۔ نظریاتی سطح پر میں نے عرض کی کہ جماعت اسلامی خود اپنے منشور میں‘ اور جس حد تک اس کا پی این اے ]پاکستان نیشنل الاینس‘ پاکستان قومی اتحاد[ پر زور چلتا ہے اس کے مطابق اس کے منشور میں اسلام کے عطا کردہ حقوق العباد اور عدل و احسان کے قرآنی احکامات کو شامل کرے اور کرائے۔ ذاتی سطح پر میں نے ان سے مشورہ مانگا کہ مجھے ایک انسان اور مسلمان ہونے کے ناتے کیا کرنا چاہیے۔ اس وقت میں متحدہ مسلم لیگ کا چیف آرگنائزر اور اس کی منشور کمیٹی کا چیئرمین تھا۔ مولانا مودودی نے فرمایا: ’’آپ مسلم لیگ ہی میں کام کریں جو ایک بہت بڑی جماعت ہے۔ آپ اپنی سوچ کو وہاں رہ کر بہتر طور پر عمل میں لاسکتے ہیں‘‘۔ مولانا نے مجھے یہ نہیں کہا کہ آپ جماعت اسلامی میں شامل ہو جائیں ‘ بلکہ یہ کہا کہ آپ مسلم لیگ ہی میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔
میں نے اس ملاقات کے دوران یہ بات خاص طور پر نوٹ کی کہ آپ کا طرزِ زندگی نہایت سادہ تھا۔ آپ ایک چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ بات میں نے اقبال کے بارے میں بھی سنی ہوئی تھی کہ وہ ایک چارپائی پر بیٹھتے تھے اور ان کی زندگی بہت سادہ تھی۔ تقریباً یہی نقشہ میں نے مولانا مودودی کے ہاں دیکھا۔
میں نے ۱۹۶۱ء میں نصرت کے ایک اداریے میں لکھا تھا کہ ’’اردو کی جتنی خدمت ابوالاعلیٰ مودودی نے کی وہ بابائے اُردو مولوی عبدالحق نے بھی نہیں کی‘‘۔ مولانا مودودیؒ کو دنیاے علم و دین میں ایک ایسا مقام حاصل ہوا کہ ان کی تحریروں کا مطالعہ لازمی امر بن گیا۔ اس لحاظ سے مولانا نے اسلام کے ساتھ ساتھ اردو کو بھی پوری دنیا میں پہنچایا۔
مولانا مرحوم کا ایک کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اسلام کے حوالے سے ایک ایسی جماعت بنائی جو کبھی فرقہ واریت کا شکار نہیں ہوئی۔ اہل سنت اور اہل حدیث کی الگ الگ سیاسی جماعتیں ہیں۔ یہی حال دیوبندیوں‘ بریلویوں اور شیعوں کا ہے۔ لیکن جماعت اسلامی میں فرقہ بندی نہیں۔ یہ مودودی صاحب کی معتدل سوچ کا نتیجہ ہے کہ انھوں نے ایک ہمہ گیر اسلامی جماعت بنائی‘ جس میں مختلف مذاہب اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں‘ جب کہ اسلام کے نام پر بننے والی دوسری تمام جماعتیں خالصتاًفرقہ وارانہ ہیں۔
مولانا مودودی مرحوم کی معتدل سوچ کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ ۱۹۷۳ء کے دستور کی تیاری اور منظوری کے اہم دور میں تمام تر اختلافات کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے ملاقات پر راضی ہوگئے اور جماعت اسلامی نے اس اسلامی جمہوری اور وفاقی دستور کو متفقہ طور پر منظور کرنے میں گراں قدر حصہ لیا۔