مولانا عبدالماجد دریابادیؒ


جلدی جلدی تازہ وضو کر کرا‘ جامہ احرام میں ملبوس‘ اپنے معلم کی رہنمائی میں حرم کو روانہ ہوئے۔ فاصلہ کچھ بہت زیادہ نہیں‘ کوئی تین فرلانگ کا ہوگا‘چند منٹ میں پہنچ گئے ہوں گے مگر نہ پوچھیے کہ یہ چند منٹ اس وقت کَے گھنٹے معلوم ہوئے!

زبان پر لبیّک لبیّک ہے‘ لیکن دل کہہ رہا ہے‘ کون سی تمنا ہے‘ جو اس وقت دل میں نہیں؟ تمنائوں کا ہجوم‘ آرزوئوں کی کش مکش اور پھر ہیبت ودہشت کہ کس دربار میں حاضری ہورہی ہے۔ دل ہے کہ ہر لحظہ اس کی دہشت بڑھتی جا رہی ہے اور قدم ہیں کہ ہر قدم پر بھاری ہوتے جا رہے ہیں۔ کہاں کسی سیہ کار کی جبین اور کہاں کسی بے مکان و بے نشان کا سنگ آستانہ‘ یہ ناپاک قدم کس پاک سرزمین کو روند رہے ہیں؟ آہ یہ گلیاں تو تیرے اس خلیل ؑکے قدموں کے لائق تھیں‘ جو تیرے نام پر دہکتی ہوئی آگ میں کودا تھا اور جو محض تیرا اشارہ پاکر اپنے پلے پلائے نورنظر کے حلقوم پر چھری پھیر چکا تھا! اسی کم سن لڑکے کے لائق تھیں جو محض تیری رضا کے لیے بے خطا وبے قصور اپنے ذبح کرانے کو حلق سامنے کرکے ہنسی خوشی لیٹ گیا تھا! تیرے اس حبیب اور محبوب بندے کے لائق تھیں جو تیرے نام اور تیرے پیغام کی منادی کرنے کے جرم میں انھی گلیوں میں سالہا سال ہر طرح کی ایذائیں سہتا اور اذیتیں برداشت کرتا رہا تھا۔

سنتے چلے آئے تھے اور کتابوں میں بھی بارہا پڑھا تھا کہ کعبہ تجلی گاہِ جلال ہے۔ یہاں تجلیات قہری کا زور ہے۔ روایتوں کا اثر دل میں بیٹھا ہوا تھا‘ ہیبت و دہشت کا غلبہ تھا‘ ہمت    بار بار جواب دے رہی تھی‘ اور دل یہ کہہ رہا تھا کہ سامنا کیوں کر کیا جائے گا؟ ’’زمین‘‘ کی زبان سے یہ مصرع بارہا سنا تھا کہ  ع

تو مرا خراب کر دی بہ ایں سجدہ ریائی!

اس دکھلاوے کے سجدے سے تو نے مجھے برباد کر دیا

دل کھٹک رہا ہے‘ ذرا کان لگا کر سننا کہیں یہ ندا اس وقت اسی مسجد حرم کی سرزمین سے تو نہیں آ رہی ہے؟ شاعری کی دنیا میں بارہا یہ آواز کانوں میں پڑ چکی تھی    ؎

چوبطوف کعبہ رفتم بحرم رہم ندادند

تو برون درچہ کردی کہ درون خانہ آئی

جب میں کعبہ کے طواف کے لیے گیا تو مجھے حرم میں داخل نہ ہونے دیا گیا اور کہا گیا کہ تو نے حرم سے باہر اپنی زندگی میں اللہ کی نافرمانی کی‘ اب بیت اللہ میں کس منہ سے آتا ہے۔

کیا آج اور اس وقت یہ شاعری حقیقت بن کر رہے گی؟ یا اللہ اس پاک سرزمین پر اپنی ناپاک پیشانی کو کیوںکر رگڑا جائے گا؟ اس عظمت و جلالت والے مکان کے طواف پر کیسے قدرت ہوگی؟ جن گلیوں میں ہاجرہ صدیقہؓدوڑی تھیں‘ نبی کی ماں اور نبی کی بیوی دوڑی تھیں وہاں اس ننگ اُمت سے ’’سعی‘‘کیوںکر بن پڑے گی۔

لیجیے مسجد حرام کی چار دیواری شروع ہو گئی۔ کئی دروازے چھوڑتے ہوئے باب السلام سے اندر داخل ہوئے۔ کس کے اندر داخل ہوئے؟ اس ارض پاک کے اندر‘ اس بقعہ نور کے اندر‘ جہاں ایک ایک نماز ایک لاکھ یا کم از کم ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے! اندر داخل ہوتے ہی نگاہ اس سیاہ غلاف والی عمارت پر پڑی‘ جسے خشکی اور تری میں نہ سما سکنے والے نے‘ زمین و آسمان‘عرش و کرسی کی سمائی میں نہ آنے والے نے‘ وہم و خیال کی وسعت میں نہ گھرنے والے نے ’’اپنا گھر‘‘کہہ کر پکارا ہے۔ نگاہ پڑی اور پڑتے ہی‘ جہاں پڑی تھی‘ وہیں جم کر رہ گئی! اس گھڑی کی کیفیت کیا اور کن لفظوں میں بیان ہو۔ کہتے ہیں کہ موسیٰ کلیم اللہ کے ہوش و حواس کسی ایک تجلی کی تاب نہ لا سکے تھے۔ جب ’’تجلی بیت‘‘ کا یہ حال ہے کہ ہوش و حواس قائم رکھنے دشوار تو’’رب البیت‘‘ کی تجلی نے خدا معلوم کیا غضب ڈھایا ہوگا۔ جب ’’گھر‘‘ کی برق پاشیوں کا یہ عالم ہے تو ’’گھروالے‘‘کے انوار و تجلیات کی تاب کون بشری آنکھ اور انسانی بصیرت لا سکتی ہے؟ اللہ اللہ! کیا حسن و جمال‘ کیا رعنائی و زیبائی ‘ کیا خوبی و محبوبی‘ کیا دلکشی و دلبری ہے! جن لوگوں نے اسے قہروجلال کی تجلی گاہ بتایا ہے‘ خدا معلوم انھوں نے کیا اور کس عالم میں دیکھا۔ اپنا تو یہ حال تھا کہ سرتاپا مہروجمال ہی ٹپکتا نظر آتا تھا اور ہر چہار طرف سے رفق و الفت‘ شفقت و مرحمت کے کھلے ہوئے پھولوں کی خوشبوئیں لپکی اور دوڑی چلی آ رہی تھیں۔ ابراہیم ؑکی خُلّت‘ اسماعیل ؑکی فداکاری‘ ہاجرہؓ کی مسکینیت‘اللہ اکبر‘ جہاں تینوں‘ اکٹھا ہوں‘ انوار مہروجمال کی تجلیات اس ٹھکانے سے بڑھ کر اور کہاں ہوں گی! اب نہ قلب کو اضطراب ہے‘ نہ طبیعت میں انتشار‘ نہ خوف نہ دہشت‘ نہ رعب نہ ہیبت‘ سرتاسر سکون ہے اور انبساط و سرور ہے اور نشاط! وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا کی تفسیریں بہت سی پڑھی تھیں لیکن جو تفسیر اس گھڑی بغیر کسی کتاب و عبارت کے توسط کے لوح قلب پر القا ہو رہی تھی‘ وہ سب سے الگ‘ سب سے نرالی‘ سب سے عجیب تھی اور اگر فاش گوئی کی اجازت دی جائے تو اپنے حق میں سب منقول و مکتوب تفسیروں سے بڑھ کر صحیح بھی تھی‘ آہ     ؎

در مصحف روے او نظر کن

خسرو‘ غزل و کتاب تاکَے؟

اس کے چہرے کی زیبائی کو دیکھیے‘اے خسرو! شعروکتاب میں کب تک مشغول رہو گے۔

غزالی ؒ ، احیاء العلوم میں لکھتے ہیں کہ قیامت کے دن کعبہ کا حشربنائو سنگار کی ہوئی نئی دلہن کی شکل میں ہوگا‘ لیکن یہ قید اس روز کے لیے کیوں؟ اور اس کے مشاہدے کے لیے قیامت کے انتظار کی کیا ضرورت ہے؟ قسم ہے خانہ کعبہ کے رب کی کہ کعبہ آج بھی نئی دلہنوں ہی کی طرح حسن و جمال‘ رعنائی و زیبائی‘ دلکشی و دلبری کے پورے سازوسامان سے آراستہ ہے‘ اور اپنی خوبی و محبوبی میں بجز مدینہ کی مسجد نبویؐ کے نہ کوئی شریک رکھتا ہے نہ سہیم۔ اسے محبوبیت کے جامے میں حسن و جمال کی جملہ ادائوں کے ساتھ اس عالم ناسوت میں کس نے نہیں دیکھا؟ آنکھیں رکھنے والوں نے دیکھا اور انتہا یہ ہے کہ جو بصیرت سے محروم‘ اور بصارت سے ضعیف ہے‘ اس تک نے دیکھا! شاید امام غزالیؒ ہی نے یا کسی اور بزرگ نے فرمایا ہے کہ آج جن آنکھوں نے خانہ کعبہ کی زیارت کی ہے کل ان میں اتنی قوت و استعداد پیدا کر دی جائے گی کہ وہ ربِ کعبہ کا بھی دیدار کرسکیں۔ اس مرتبے اور اس اکرام کا کیا کہنا‘ لیکن اس مرتبے کی توقع تو وہ کرے جو خود      ذی مرتبت ہو۔ ہم جیسے درماندوں اور زبوں ہمتوں کے لیے مکیں کو چھوڑ کر مکان ہی کا دیدار خود کیا کم ہے! روایات میںآتا ہے کہ خانہ کعبہ پر نظر کرنا ایک مستقل عبادت ہے اور شاید کسی حدیث میں یہ تصریح بھی آگئی ہے کہ کعبہ پر روزانہ ۱۲۰ رحمتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے جن میں سے ۶۰ ان کے لیے ہیں جو اس کے اندر نماز پڑھتے ہیں اور ۴۰ان کے لیے ہیں جو اس کا طواف کرتے ہیں اور ۲۰ ان کے لیے ہیں جو اس کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ لیکن اجر و عبادت سے قطع نظر کر کے اپنے ذوق و شوق اور ولولے کے لحاظ سے کون دل ایسا ہے جو اس کی ہوس دیدار سے خالی اور اس کی حرص نظارہ سے کورا ہوگا؟ جی بیتاب کہ دیکھیے اور پھر دیکھیے‘ ۱۰ بار دیکھیے‘ ہزار بار دیکھیے‘ دیکھتے رہیے ‘ اور دیکھے جایئے اور دیکھنے سے کبھی نہ تھکیے۔  ع

نظارہ ز جنبیدن مژگاں گلہ دارد

منظر اتنا خوب صورت ہے کہ آنکھ جھپکنے پر بھی نظارہ گلہ کرتا ہے کہ آنکھ جھپکنے کی مدت بھی منظر سے محروم کیوں ہوئی؟

بار معاصی و ذنوب سے دبا ہوا انسان! کیا تو گناہوں کے بوجھ کا مقابلہ اللہ        کے عفوورحمت سے کرنا چاہتا ہے؟ تیرے گناہ خواہ کتنے ہی ہوں بہرحال گنے جاسکتے ہیں۔     پرخداے رحمن و رحیم کے کرم بے حساب کی پیمایش ساری دنیا جہاں کے مہندس مل کر بھی کرسکتے ہیں؟ پھر یہ کیسی نادانی ہے کہ محدود کو غیرمحدود کے مقابلے میں لایا جائے؟ کیا وہ جو اپنے بندوں کو محض انھیں نوازنے اور سرفراز کرنے کے لیے اپنے در پر حاضری کے لیے بلاتا ہے‘وہ صرف نیک کرداروں کو چن لے گا اور نالائقوں کو اپنے آستانے سے دھتکار دے گا؟ اپنے خوان کرم سے اُٹھا دے گا؟ یہ خیال کرنا بھی کتنی سخت گستاخی اور کیسی صریح نادانی ہے؟ اسی لیے فرمایا ہے اس بشارت دینے والے نے جس سے بڑھ کر کوئی بشیر اب تک پردۂ زمین پرپیدا نہیں ہوا کہ

اَعْظَمُ النَّاسِ ذَنْبًا مَنْ وَّقَفَ بِعَرَفَۃَ فَظَنَّ اَنَّ اللّٰہَ لَمْ یَغْفِرْلَہٗ ، سب سے بڑا گنہگار وہ انسان ہے جو عرفات میں وقوف کرے اور یہ سمجھے کہ اس کی مغفرت نہیں ہوئی۔

اس پروانہ مغفرت کے بعد کیا کوئی دیوانہ ہے کہ جو اپنے سفرحج کو ضائع سمجھے؟ جو جو نعمتیں اس سہ ماہہ سفر میں نازل ہوئی ہیں‘ جو جو نوازشیں اس درمیان میں سرفراز کرتی رہیں‘ کس کی زبان میں طاقت ہے کہ ان کا شکریہ ادا کر سکے۔ بہرحال جو کچھ پیش آیا وہ اپنی اہلیت سے کہیں بڑھ کر اور اپنے ظرف سے کہیں زائد...

ہاں ‘ایک پیام لایا ہوں ہر مرد کے لیے‘ ہر عورت کے لیے‘ ہر چھوٹے کے لیے‘ ہر بڑے کے لیے ایک پیام ہے اور وہ ایک پیام ہے جو مسجدحرام سے‘ خانہ کعبہ سے‘ مسجد نبویؐ سے‘      حجرہ مطہرہ سے‘ محراب شریف سے‘ منبر مبارک سے ‘ منیٰ کی قربان گاہ سے‘ عرفات کے میدان سے‘ زمزم کے قطروں سے‘ خاک حرم کے ذروں سے‘ سب کہیں وہی ایک پیام ملا اور وہ پیام کونوا انصارَ اللّٰہِ کا ہے۔ وہ پیام دین کی نصرت کا ہے۔ ملائکہ رحمت نصرت دین کے مظاہروں کے اشتیاق میں ہیں خواہ وہ معرکہ بدر کی صورت میں ہوں یا واقعہ کربلا کی شکل میں!

(سفرِحجاز‘ ص ۱۸۴-۱۸۶‘ ۱۷-۱۸)

انسان نہ محض جسم و مادہ ہے اور نہ صرف جان و روح بلکہ دونوں کے ایک مرتب مجموعے کا نام ہے۔ جس طرح جسم و مادہ کا ایک عالَم ہے اور اس کی صحت و مرض کے خاص قوانین ہیں‘ ٹھیک اسی طرح ایک مستقل عالَم جان و روح کا ہے‘ اور روح کی صحت و مرض‘ ضعف و قوت‘ بالیدگی و پژمردگی‘ ترقی و تنزلی کے لیے بھی کچھ خاص قواعد اور ضابطے مقرر ہیں۔ شریعت اسلامی ان دونوں عالموں کے متعلق ضروری ہدایتوں کی جامع ہے۔

جسم کو ہلاک کر دینا انسان کے لیے خدا کی مرضی نہیں البتہ جسم کو روح کا ماتحت و مطیع رکھنا عین منشاے خداوندی ہے۔ نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ وغیرہ تمام عبادتوں سے مقصود صرف اسی قدر ہے کہ روح کی لطافتِ طبیعی قائم رہے اور مادہ کی کثافتیں اس کی اصلی سرشت پر غالب نہ آنے پائیں کہ یہی راہِ عبدیت‘ یہی طریق معرفت‘ یہی مسلک خود شناسی ہے۔

روح کا انتہائی کمال یہ ہے کہ جسم سے الگ اور مجرد ہو کرنہیں بلکہ جسم کے ساتھ مراتب ِترقی طے کرے۔ ٹھیک اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ روح کی رفتارِ ترقی میں سب سے زیادہ رکاوٹیں بھی جسم ہی پیدا کرتا رہتا ہے۔ غصہ‘ کینہ‘ حسد‘ حرص وغیرہ جسم ہی کی ترکیب کا نتیجہ ہیں اور یہی وہ چیزیں ہیں جو روح کی کمزوری و پژمردگی کا باعث ہوتی ہیں‘ اور اس کی طبیعی پاکیزگی و صفائی کو گدلا کرتی رہتی ہیں۔

روح کی صحت و پاکیزگی و بالیدگی برقرار رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جسم کو ہلاک کیے بغیر کبھی کبھی مادی دنیا کے تعلقات کو کمی کے انتہائی نقطے پر پہنچا دیا جایا کرے۔ شریعت کی بولی میں اس صورتِ پرہیز کا نام روزہ ہے‘ اور اس ’’پرہیز‘‘ کے شرائط جب ذرا زیادہ سخت کر دیے جاتے ہیں تو اس کا نام ’’اعتکاف‘‘ پڑ جاتا ہے۔ اعتکاف کے لفظی معنی کسی مکان کے اندر اپنے تئیںمقید کردینے کے ہیں۔ اصطلاح شریعت میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان عبادت کی غرض سے مسجد میں قیام و سکونت کو لازم قرار دے لے۔

مسجد اس مکان کو کہتے ہیں جو محض یاد الٰہی و عبادت خداوندی کے لیے مخصوص ہو۔ اس میں بیٹھ جانے کے معنی ہی یہ ہیں کہ بندے نے اپنے تعلقات سب طرف سے توڑ کر صرف اپنے خالق سے جوڑ رکھے ہیں۔ اور جس وقت تک وہ اس زاویہ نشینی کی حالت میں ہے وہ نہ کسی کا دوست ہے نہ عزیز‘ نہ حاکم ہے نہ محکوم‘ نہ بھائی ہے نہ شوہر‘ نہ رفیق ہے نہ رقیب‘ بلکہ بندہ ہے اور محض بندہ۔ عورت کی خواہش کرنا اس کے لیے ممنوع‘ غیر ضروری گفتگو اس کے لیے ناجائز‘ کھانا پینا صرف اسی حد تک جائز جو جسم کو ہلاک ہونے سے محفوظ رکھ سکے۔ دوران اعتکاف بندہ‘ گویا اپنے تصور میں ہر وقت دربارِ خداوندی میں حاضر رہتا ہے۔ اسی لیے ہر وہ شے جو اس دربار کے منافی ہے‘ اس کے لیے ناجائز ہے۔

چراغ اسی وقت روشن ہوسکتا ہے جب اس میں تیل موجود ہو‘ انجن جب ہی حرکت کرسکتا ہے جب اس میں برقی یا دخانی قوت کا ذخیرہ موجود ہو‘ جسم کی زندگی جب ہی قائم رہ سکتی ہے جب اسے غذا پہنچتی رہے۔ روح کی زندگی بھی جب ہی قائم و برقرار رہ سکتی ہے جب اسے اپنے مزاج و سرشت کے مطابق غذا پہنچتی رہے۔ اور روح کی غذا یہی ہے کہ کبھی کبھی اسے مادی کثافتوں کے ماحول سے دُور رکھ کر اس کی فطری لطافت کو اُبھرنے اور طبیعی پاکیزگی و شرافت کو چمکنے کا پورا موقع دیا جائے۔

دنیا کا سب سے بہتر و برتر انسان علیہ الصلوٰۃ والسلام‘ خلوت و جلوت دونوں کے آئین و انداز کا پورا رمز شناس تھا۔ رمضان المبارک کے آخر عشرے میں اعتکاف عادتِ شریف میں داخل تھا۔ ماہِ صیام سارے کا سارا عبادت و ذکر الٰہی میں گزرتا تھا۔ لیکن آخر کے ۱۰ دن میں آتشِ شوق اور زیادہ تیز ہو جاتی تھی۔ ازواج و اصحاب سے بے تعلق ہو کر یہ پورا عشرہ مسجد ہی کی چار دیواری کے اندر گزرتا تھا‘ اور بندے کو اپنے معبود کے ساتھ خلوت نشینی کے سارے لُطف حاصل ہوتے تھے۔

ہماری آج ایک بڑی شامت یہ ہے کہ ہم اپنے تئیں ’’جنگ بدر‘‘ شروع کرنے کے لیے آمادہ پاتے ہیں لیکن نہیں سوچتے کہ جنگ بدر سے بہت پیش تر ایک منزل ’’غارحرا‘‘ کی بھی طے ہو چکی تھی۔ واقعات میں ترتیب قائم رکھنا یہ بھی بجائے خود ایک بہت اہم شے ہے۔ کسی واقعے کے اجزا سب وہی رہیں‘ لیکن اگر اجزا کی ترتیب الٹ دی جائے تو وہ واقعہ سچ سے جھوٹ میں تبدیل ہو جاتا ہے چہ جائیکہ بعض اجزا کو سرے سے نظرانداز کر دینا!

آج ہم میں انجمنوں کی کمی نہیں‘ کانفرنسوں کا قحط نہیں‘ جلسوں کی سردبازاری نہیں۔ لیکن اس  ذوقِ انجمن آرائی و جلسہ سازی کے ساتھ کتنے ایسے ہیں جو اپنے اُمّی ہادیؐ کی پیروی میں رمضان المبارک کو اس کی شرائط کے ساتھ گزارنا اور پھر اعتکاف کرنا ضروری سمجھتے ہیں؟ کیا رسولؐ خدا کا یہ فعل عبث و لاحاصل ہوتا تھا؟ کیا اس کی ضرورت ان کو تھی؟ مگر ہمارے تہذیب یافتہ دل اور تعلیم یافتہ دماغ اس سے بے نیاز ہیں؟ کیا ہم نے کبھی اس عارضی زاویہ نشینی کا تجربہ کر کے دیکھا ہے‘ اور یہ تجربہ ناکام و لاحاصل رہا ہے؟

حاشا یہ مقصود نہیں کہ ساری قوم اجتماعی زندگی کو چھوڑ کر اپنے اپنے زاویوں کے اندر ہمیشہ کے لیے بیٹھ رہے لیکن یہ گزارش ضرور ہے کہ دوسروں کی اصلاح و ہدایت سے اپنی اصلاح و ہدایت ترتیباً مقدم ہے‘ اور اپنی اصلا ح کا ایک اہم ذریعہ یہ ہے کہ ہم اپنے مقدس ہادیؐ کے طریقے کے موافق کبھی کبھی ذرا دنیا کی کش مکش سے کنارہ کش ہو کر خود اپنے نفس کا جائزہ لینے‘ اپنے اعمال کا احتساب کرنے اور دنیا کے پاک و بے نیاز  خالق کے حضور میں اپنی کمزوریوں اور خطائوں کا اعتراف کرنے‘ اور آیندہ کے لیے اس کی توفیق طلب کرنے میں کچھ وقت صرف کیا کریں۔

چراغ پانی سے نہیں‘ تیل سے روشن رہتا ہے۔ ہمارے اندر اگر روحانی صفائی و پاکیزگی کا تیل ختم ہوچکا ہے اور اس کی جگہ نمایش‘ نفسانیت و جاہ پسندی کے پانی نے لے لی ہے تو کیونکر ہم سے ہدایت کی روشنی پیدا ہو سکتی ہے؟ ہر فرد سے پہلے سوال خود اس کی ذاتی زندگی کے متعلق ہوگا۔ یہ زندگی کانفرنسوں اور مجموعوں کی خود نمائیوں کے اندر نہیں سنورتی‘ اس کے سدھارنے اور سنوارنے کے لیے ضروری ہے کہ کبھی کبھی تو بندہ بے حجاب و بے واسطہ اپنی حضوری اس بڑے دربار میں محسوس کرے جہاں پرسش صرف خلوص و راستی کی ہوتی ہے۔ بحث و گفتگو یا مناظرہ و تردید کی حاجت نہیں۔ صرف تجربے کی ضرورت ہے۔ ان شاء اللہ ہرحال میں اعتکاف کا تجربہ مفید ہی نتائج پیدا کرے گا!

______________