یہ حقیقت واضح ہے کہ پروردگارِ عالم نے کرّہ ارض پر انسانوں کو بسا کر یہ دیکھنا چاہا ہے کہ کون بندگی کا راستہ اختیار کرتا ہے اور کون سرکشی دکھاتا ہے؟اللہ تعالیٰ بند گی اختیار کرنے والوں کو دائمی فلاح و کامرانی سے نوازیں گے اور سرکشی دکھانے والوں کو سزا دیں گے۔ دنیوی زندگی کو اس امتحان کے لیے سازگار بنانے کی خاطر شریعت دی گئی، تاکہ زندگی کا نظم ونسق بھی چلے اور افراد کی آزادیِ اختیار بھی باقی رہے۔یہاں پر ہم اس بات پر غور کریں گے کہ مقصدِ تخلیق اور مقاصدِ شریعت کی روشنی میں اسلامی تحریکات کا کیا رول ہونا چاہیے؟ اسلامی تحریکات سے ہماری مراد وہ تحریکات ہیں جو گذشتہ دو سو سال سے سرگرم کار ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کے [سیاسی]زوال کو عروج سے اور مغلوبیت کو اسلام کے غلبے سے بدلنا چاہتی ہیں۔ چوںکہ اس سوال کا جواب (کہ اسلامی تحریکات کیا طریق کار اختیار کریں؟) آنے والے دنوں سے متعلق ہے، اس لیےپہلے ہم یہ دیکھنا چاہیں گے کہ مستقبل کیسا ہوگا؟
یہ ایک فطری خیال ہے کہ آنے والے دن گزرے دنوں سے مختلف ہوںگے ،ہم مل جل کر سوچیں کہ کیوں اور کس حد تک مختلف ہوسکتے ہیں؟ اور یہ کہ اپنا اندازکار بدل کر نئے حالات میںکس طرح نئے طریقے اختیار کر سکتے ہیں؟اس امید کے ساتھ کہ بدلے ہوئے طریقے تحریک اسلامی کو اپنے مقصد، یعنی اللہ کے بندوں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلانے میں کامیابی کی طرف لے جائیں گے۔
سب سے پہلے ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں دنیا آج کی دنیا سے کن باتوں میں مختلف ہوگی؟ آبادی بڑھے گی، دیہات سے شہر منتقلی بڑھے گی،مواصلات اور نقل و حمل کی تیزی بڑھے گی،ہر ملک میں مختلف رنگ و نسل کے لوگ اور مختلف مذاہب کے ماننے والے ایک ساتھ رہیں گے، غریبی اور محتاجی کم ہوگی، مگر دولت اور آمدنی میں فرق بڑھتا جائے گا۔ حکمرانی میں عوام کی شرکت بڑھے گی،مقامی حکومت اور بین الاقوامی اداروں کا رول بڑھے گا،قومی حکومتوں کا عمل دخل اور دور دورہ کم ہو گا۔ خاندان کی گرفت ڈھیلی پڑتی جائے گی،اوسط انسانی عمر میں اضا فہ ہوگا، لوگ طویل عمر تک زندہ رہیں گے۔ صحتیں پہلے سے بہتر ہوں گی۔ ہر آدمی،مرد ہویا عورت،اپنی فکر میں لگارہے گا، خود غرضی بڑھےگی۔ باہمی تعاون میں کمی آئے گی۔ باہم لین دین کےمعاملات درمیانی واسطوں کے بغیر براہ راست ہوں گے ،(مثلاً انٹرنٹ کے ذریعے۔) زرِ نقد، کا استعمال کم سے کم ہوگا۔ بڑی کارپوریشنوں کا زوال ہوگا، مالیاتی لین دین (Finance) میں بھی بڑے اداروں کی جگہ جو درمیانی واسطوں کا کام کرتے ہیں،براہِ راست مالیات فراہم کرنے والوں اور مالیات کے ضرورت مندوں کے باہمی ربط کا رواج بڑھے گا۔ ماحولیاتی تحفّظات کے سبب شرحِ نمو کم ہوگی، ہو سکتا ہے معیار زندگی بھی کمی کی طرف مائل ہو۔
دنیا کی چودھراہٹ کی دوڑ اور بڑی طاقتوں کی باہمی کشاکش بڑھے گی یا کم ہوگی، کچھ کہنا مشکل ہے۔ اگرچہ امن عالم کے بارےمیں کچھ کہنا اس سوال کا جواب دیے بغیر ممکن نہیں۔ رہا معاملہ عدل کا تو کوئی قطعی بات کہنا مشکل ہے۔ سماجی عدل کا ا نحصار نابرابری میں کمی اور کفالت عامّہ و شاملہ پر ہے، اور معاملات میں انصاف تب ہوتا ہے جب لوگ ایک دوسرے کے حقوق دینے کو تیار ہوں اور حکومت استحصالی ہو نے کے بجاے عوام کی خدمت میں مخلص ہو۔ دونوں باتوں کا تعلّق اخلاقی اقدار اور روحانی تصوّرات سے ہے(زندگی کیوں،کہا ں سے، کدھر کو؟) جب کہ باقی مذکورہ بالا باتوں کا تعلّق ٹکنالوجی سے ہے۔د یکھنا یہ ہے کہ ٹکنالوجی بدلنے سے ہونے والی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے کیا کرنا ہے اوردوسروں کے ساتھ عد ل و انصاف سے پیش آنے کے لیے لوگوں کو کیسے آمادہ کیا جائے؟ استحصالی حکمرانی کی جگہ خدمت گار حکمرانی لانے کا مسئلہ، مستقبل کے سیاق میں، خصوصی غور و فکر کا طالب ہے۔
اسلام [ایک بنیادی حد کے بعد] لوگوں کی آزادیاں برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ ٹکنالوجی ہو یا اس میں تبدیلی سے پیدا ہونے والے سماجی مسائل، اصولی طور پر لوگ آزاد ہیں جو چاہیں کریں۔ البتہ کچھ مقاصد ہیں جن کو سامنے رکھنا چاہیے ، کچھ حد یں ہیں جن کے اندر رہنا ہوگا۔ یہ حدود اور مقاصد انسانوں کی اپنی بھلائی کے لیے ہیں۔ اس میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ ان حدود و مقاصد کو جاننے کے لیے کن مآخذ کی طرف رجوع کیا جائے؟ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ یہ حدود و مقاصد دائمی ہیں یا اُن میں تبد یلی ہوسکتی ہے؟ اگر ان میں لچک ہے تو اس کا معیار کیا ہے؟ ایک اور پہلو جو قابلِ توجّہ ہے، حدود اور مقاصد کے رول کو ایک دوسرے سے ممتاز کر کے سمجھنا ہے۔
پہلے آخری سوال کو لیتے ہیں۔یقیناً مقاصد مذکورہ حدود سے زیادہ اہم ہیں۔ اس لیے کہ انسانوں اور معاشروں اور تنظیموں کی جانب سے حدیں اصلاً مقرر کی گئی ہیں، مقاصد میں یک گونہ ہم آہنگی اور توازن پیدا کرنے اورمؤثر بنانےکے لیے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مقاصد دائمی ہیں مگر یہ وضعی حدیں لچک رکھتی ہیں۔ مقاصد میں اگر کوئی لچک ہے تووہ درجۂ تحصیل سے متعلّق ہوگی(یعنی مقداری لچک)کہ خود مقاصد نہیں بدلتے۔ گویا مقاصد معیار کا درجہ رکھتے ہیں۔ وسائل کم ہوں تو درجۂ تحصیل کم ہوگا،وسائل فراواں ہوں تو درجۂ تحصیل زیادہ ہوگا۔ البتہ حدوں میں لچک مقداری (Quantitative)اور وصفی(Qualitative)دونوں طرح کی ہوتی ہے،تاکہ بدلتے حالات میں تحصیلِ مقاصد ممکن ہوسکے۔
ہم اس بات کو ایک مثال کے ذریعے واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ سارے انسانوں کو کھانا پینا، کپڑا اور سر چھپانے کی جگہ ملے، یہ مقصود ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ہر اس فرد کو، جو کام کرسکتا ہے محنت کرنا چاہیے۔ جوافراد کم عمری، بڑھاپے، یا کسی معذوری کی وجہ سے اپنی ضروریات خود نہ پوری کر سکتے ہوں ان کی ذمّہ داری ،پہلے قدم پر، خاندان کے قریبی ان رشتہ داروں پر ڈالی گئی ہے کہ جو اس کی قدرت رکھتے ہوں۔ جن خاندانوں میں اس فارمولے پر عمل سے کام نہ چلے، یا جب خاندان بکھر چکے ہوں (جیسا کہ آج کل دیکھنے میں آرہا ہے)، تو ان معذوروں اور ضرورت مندوں کے لیے اجتماعی بندوبست درکار ہے۔ اکثر حالات میں غیر سرکاری ادارے، مثلاً: یتیم خانے وغیرہ یہ ذمّہ داری سنبھال لیتے ہیں۔ آخری چارہ کار ریاستی طور پر ضرورت کی تکمیل ہے۔ ہرصورت میں ضرورت کی تکمیل کا معیار اس ملک یا آبادی کو میسّر وسائل پر منحصر ہے۔
اس ذمّہ داری کی ادایگی کے لیے اسلام نے حکمراں کو امیروں سے ، زکوٰۃ ناکافی ہونے کی صورت میں مزید ٹیکس لینے کا بھی اختیار دیا ہے ( جہاں تک عمل کا سوال ہے ،پندرہ سو برسوں میں اس ذمّہ داری کی ادایگی یا اس کی ادایگی میں کوتاہی کی بے شمار مثالیں مسلمان ملکوں میں ملیں گی)۔ انسانی ہمدردی اور خدمت کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حاجت روائی ضرب المثل اور معروف ہے۔ ضرورت پڑی تو آپؐ نے مکّہ والوں کو غذائی امداد بھیجی حالاں کہ اس وقت تک مکّہ والے دائرۂ اسلام میں نہیں داخل ہوئے تھے۔دوسرے خلیفہ،سیّدنا عمر فاروقؓ نے قحط کے زمانے میں مدینہ کی عام آبادی کو کھانا کھلانے کا انتظام کیا تھا۔ ترقّی یافتہ ممالک میں جب سے فلاحی ریاست کے تصوّر نے جڑ پکڑی ہے اس بارے میں ایک سے بڑھ کر ایک اعلیٰ نمونے ملتے ہیں۔ آج بعض ممالک میں ہرشہری کو مفت تعلیم،علاج، نقل و حمل اور دوسری سہولتیں حاصل ہیں۔ جدید اسلامی معاشرے کو مقامی حالات اور عالمی معروفات کی روشنی میں اپنا موقف اختیار کرنا ہوگا۔
یہ مثال نسبتاً سادہ سی تھی، جس کے بارے میں زیادہ اختلاف کی گنجایش نہیں۔ اب ہم ایک دوسری مثال پیش کریں گے جس کی تفصیلات میں اختلاف کی کافی گنجایش ہے۔ انسانی عزّوشرف بھی ایک مقصد ہے جس کے ایک تقاضے کے طور پر یہ حکم دیا گیا ہے کہ اجتماعی امور باہمی مشورے سے طے کیے جائیں۔ تکریم بنی آدم کا مقصد جبرواستبداد سے اِبا کرتا ہے۔ یہ بات کہ کچھ لوگ دوسروں پر حکم چلائیں، نسلی بادشاہی ہو، کچھ لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فیصلوں میں شرکت سے محروم کردیے جائیں، اسلام کو منظور نہیں۔
اس طریقے پر عمل درآمد کی کچھ مثالیں عہد نبویؐ اور خلافت راشدہؓ کے زمانے میں ملتی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مکّہ سے مدینہ آئے تو آپؐ نے آبادی کے مختلف گروہوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے ایک ایسا دستور بنایا جس میں آپؐ حکمران تھے، مگر غیر مسلم بھی اس وفاق میں برابر کے شریک تھے۔ سیّدنا عمرفاروقؓ نے مجوسی مذہب والوں کے جذبات کی رعایت سے انھیں حفاظتی ٹیکس، جزیہ سے مستثنیٰ کرتے ہوئے ان پر دوسرا ٹیکس لگایا۔ قدیم دور میں جو نظیریں ملیں، وہ اس زمانے کے معروفات، عادات اور امکانات کو سامنے رکھ کر سمجھی جانی چاہییں۔ آج اس مقصد کو آج کی عادات، معروفات اور امکانات کو سامنے رکھتے ہوئے حاصل کرنا ہو گا۔ عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دینا، غیر مسلم شہریوں کی شرکت کا خیر مقدم کرنا اور ملکی فیصلوں میں بین الاقوامی قانون اور عہد و پیمان کا لحاظ رکھنا، ایسے امور ہیں، جن کو جدید اسلامی فکر کی تائید حاصل ہے (اگرچہ اس حوالے سے اختلاف کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔) اس کے سوا چارہ نہیں کہ اس بارے میں اختلاف کو بھی باہمی مشوروں سے طے کیا جائے، اس شرط کے ساتھ کہ اصل مقصد نہ فوت ہو،یعنی آدم کی ہر اولاد برابر کی عزّت رکھتی ہے، جو اسے ملنی چاہیے۔
ہماری نظر مقاصدِ شریعت پر ہونی چاہیے۔ فوری طور پر حدود کے نفاذ پر اصرار سے اگر مقاصد کا حصول خطرے میں پڑ رہا ہو توان کی تشریح، تعبیر اور تنفیذ کے حوالے سے دیکھا جائے کہ اسلامی شریعت کے اصولوں کی پاس داری کرتے ہوئے کہاں اور کتنی گنجایش ممکن ہے۔قیام عدل کی خاطر اور اجتماعی طور پر کفالت عامّہ کی ضمانت دینے کے لیے ملکی دستور میں مسلمان اور غیر مسلم شہریوں کو یکساں حقوق کی ضمانت دینا اس کی ایک اہم مثال ہے۔
ہم چاہیںگے کہ مسلمانوں کو اپنی اقدار و اطوار کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہر ملک میں حاصل ہو( جہاں وہ اکثریت میں ہوں وہاں بھی، اور جہاں وہ اقلیت میں ہوں وہاں بھی)۔ اس مقصد شرعی کے حصول کے لیے ہمیں غیر مسلم ہم وطن شہریوں کو بھی ہر ملک میں یکساں حقوق دینے چاہییں۔ اس دستور کے مطابق کسی عہدے پر کوئی بھی فائز ہو سکے گا۔ اگرچہ جدید بندو بست میں کسی بھی عہدے دار کو فیصلہ کن اختیا رات نہیں ملتے بلکہ انتظامیہ، مقنّنہ اور عدلیہ کے الگ الگ دائرۂ کار مقرر کرکے مطلق العنانی پر قابو پانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ماضی میں اس کی نظیر نہ ملنا اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ موقف غلط ہے۔ یہ دیکھنا ہے کہ مقاصد کے حصول کا بہتر طریقہ کیا ہے؟
سب انسانوں کے لیےبہتر ہوگی ایک ایسی دنیا، جس میں ہر ملک میں ہر فرد کو یکسا ں حقوق حاصل ہوں۔ اُسے اختیار ہوکہ وہ جس مذہب پر چاہے عمل کرے،یا کسی مذہب کو نہ مانے۔ جس میں ہر ایک کو دوسروں کے سامنے اپنے خیالات اور عقائد کی تبلیغ کا حق ہو۔ جس میں ہر مذہبی گروہ کو خاندانی زندگی اپنے پرسنل لا کے مطابق منظّم کرنے کا حق ہو،جو شخص کسی مذہبی پرسنل لا کی پابندی نہ پسند کرے اسے متبادل سول لاز کی تشکیل میں حصّہ لینے کا حق ہو۔باقی امور میں قانون سازی ایک ایسے فورم کے ذریعے عمل میں آئے، جس میں ہر فرد کو اپنی بات دلیل کے ساتھ پیش کرنے اور دوسروں کو سمجھانے کا موقع ملے۔اور جب ایک قانون بن جائے تو اس میں تبدیلی لانے کے مواقع بھی میسّر ہوں۔
سب کے لیے اچھّا ہوگا کہ کوئی ملک جو دوسرے ملکوں پر اپنی چودھراہٹ جمانے کی کوشش نہ کرے۔ امن کا قیام ،باہمی جھگڑوں کا خاتمہ، اظہارِ خیال کی آزادی یہ سب اُمور… مقاصد شریعت میں سے ہیں۔ آج کے حالات میں جب دنیا ایک آبادی میں تبدیل ہو چکی ہے (جس میں ہر رنگ و نسل، ہر مذہب کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں اور ایک دوسرے سے لین دین، عہد و پیمان کے تعلّقات رکھتے ہیں) اس مقصد کے حصول کے لیے ایسی ہی فضا درکار ہے۔ انیسویں صدی کی وہ دنیا جس میں ایک ملک میں زیادہ تر ایک طرح کے لوگ رہتے تھے۔ ہرملک خود مختاری کے دعوے کے ساتھ خود کو اس بات کا مجاز سمجھتا تھا کہ ملک کی آ بادی کی اکثریت کی راے کے مطابق ایک نظام نافذ کرے اور باقی آبادی کو (جو اقلیتوں پر مشتمل ہو) چند بنیادی حقوق کی ضمانت دے۔ دوسرے ملکوں کو اس کی اجازت نہ تھی کہ وہ کسی خود مختار مُلک کے اس اختیار میں مداخلت کریں،لیکن وہ دنیا اب داستان ماضی بنتی جا رہی ہے۔ اب دنیا کے سارے ملک متعدد بین الاقوامی معاہدوں کے پابند ہیں۔ کسی ملک میں کوئی گروہ خواہ وہ اقلیّت میں ہی کیوں نہ ہو،اکثریت اس پر اپنی مرضی نہیں تھوپ سکتی۔عملی طور پر اس نقشے کے خلاف بہت کچھ ہوتا نظر آتا ہے، مگرعالمی طویل المیعاد رجحان یہی معلوم ہوتا ہے۔
تحصیل مقاصد میں لچک کی ایک مثال وہ حکمت ِتدریج ہے، جو اسلام نے غلامی کے رواج کو ختم کرنے کے سلسلے میں اختیار کی۔ ساتویں صدی کی دنیا، بالخصوص جزیرۃ العرب میں جنگی قیدیوں کو غلام بنالیا جاتا تھا،مفتوحہ عورتوں کو لونڈی بنا لیا جاتا تھا۔ پوری معیشت بھی غلامی پر قائم تھی۔ اس رواج کو رفتہ رفتہ ختم کرنے کے لیے اسلام نے متعدّد اقدامات کیے۔ حالت امن میں آزاد انسان کو پکڑ کر غلام بنا لینے کو قطعاً ممنوع قرار دیا،غلاموں کو اپنی آزادی خریدنے کی ترغیب دی اور ہمّت افزائی کی، اور غلام کے مالک کے لیے ضروری قرار دیا کہ وہ اسے معاوضہ لے کر آزاد کرنے پر راضی ہو۔ جن لونڈیوں کے یہاں اپنے مالک سے اولاد ہو،ان کو مالک کی وفات کے بعد آزاد قرار دیا، اور جنگی قیدیوں کو فدیہ کے عوض یا بلا معاوضہ( بطور احسان )رہا کرنے کی ہدایت دی۔ ان اقداما ت کے باوجود دنیاے اسلام میں غلامی اس وقت تک جاری رہی جب تک مغربی اقوام نے اس کے خاتمے کے لیے قدم نہ اٹھایا تو اس کی ذ مّہ داری ان مسلمان حکمرانوں پر تھی جنھوں نے اپنے مفادات کے لیے غلامی کو باقی رکھا۔ورنہ اِسلام کا منشا یہ نہ تھا کہ غلامی، دائماً باقی رہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں غلاموں کے ساتھ حُسن سلوک اور ان کے حقوق ادا کرنے کی واـضح تاکید کی تھی۔ یہی نہیں ،ابنِ ماجہ کی روایت کے مطابق بسترِ مرگ پر بھی آپؐ کی وصیّت میں اس امر کی تاکید شامل تھی۔
اب دنیا میں قانوناً غلامی ختم ہوئی، دنیا میں رائج قانون کے مطابق کسی حال میں کسی انسان کو غلام نہیں بنایا جا سکتا۔ غور کیجیے تو مقصد تخلیق کا تقاضا ہے کہ انسان آزاد ہو، غلامی دنیوی زندگی کی امتحانی کیفیت کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتی۔ اِنسان کی آزادی مقصود ہے۔اس لیے کہ انسان آزاد حالت میں دنیا میں بھیجا گیا تھا ، ہر انسان آزاد پیدا ہوتا ہے اور اسے آزاد ہی رہنا چاہیے۔ تاریخ انسانی میں اس اصول کی خلاف ورزی(جو انسانوں کے ایک گروہ نے مرضیِ الٰہی کے خلاف کی تھی)اس کا سلسلہ اب نبیِ آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں ختم ہوا۔ یہ مقاصد میں لچک کی ایک مثال تھی۔ حالات کی بنا پر مقصد کی تکمیل کے لیے مناسب حالت تک پہنچنے میں تاخیرہوئی۔ ظاہر ہے کہ اب ایک بار مقصد کے مطابق حالت حاصل ہو جانے کے بعد پچھلی حالت کی طرف واپسی نا قابل قبول ہے۔ حال کے چند برسوں میں اس کے بر عکس موقف بعض احباب نے پیش کیا ہے۔ اُن کی بات مقصد تخلیق اور مقاصد شریعت دونوں سے ٹکرانے کی بنا پر نا قابل قبول ہے۔
سطورِ با لا میں ہم نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ مقاصد کہاں سے اخذ کیے جائیں؟ اصولاً اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ مقا صد کا ماخذ قرآن و سنّت ہیں، ساتھ ہی ان کی پہچان اور تعبیر میں عقل و فطرت کا بھی حصّہ ہے۔ انسان کی اصل مطلوب حالت آزادی اور خود اختیاری کی حالت ہے۔یہی خلافت ارضی اور اُخروی جواب دہی سے مناسبت رکھنےوالا موقف ہے۔اب اگر کوئی کتاب و سنّت کی بعض نصوص سے استدلال کرتے ہوئے جن کا تعلّق غلامی سے ہے، غلامی کے تسلسل یا احیا کا دعویٰ کرے تو اس کا یہ دعویٰ اس لیے نہیں قبول کیا جائے گا کہ وہ معیارِ مقصود سے ٹکراتا ہے جو چاہتا ہے کہ ہر فرد انسانی اپنے فیصلے خود کرے۔ یہی عقل کا تقاضا ہے اور فطرت کے مطابق ہے۔ کتاب و سنّت کی نصوص کو مقاصد کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔ مقصد تخلیق آیات محکمات سے واضح ہے اور مقاصد شریعت قرآن و سنّت کی نصوص کے مجموعے سے سمجھے گئے ہیں۔ کسی ایک باب میں ان دونوں کو پس پشت ڈال کر اختیا ر کیا ہوا موقف درست نہیں ہو سکتا۔
اسی قسم کی ایک دوسری مثال جنگ کے نتیجے میں قبضے میں آنے والی زمینوں، دوسرے غیرمنقولہ اثاثوں اور منقولہ دولت کی ہے۔ اس بارے میں بھی معروفات بدلتے رہے ہیں اور ان کے بدلنے کے ساتھ اسلامی بندوبست بھی بدلا ہے۔ آج یہ پورا معا ملہ’ جنیوا کنونشن‘ اور دوسرے متعلقہ معاہدوں کے تحت آتا ہے، جن کی پابندی کا ہر ملک نے عہد کیا ہے۔ ماضی میں بھی اس کی مثال موجود ہے۔بعض صحا بیوںؓ کے اصرار کے با وجود حضرت عمرؓ نے عراق و شام کی مفتوحہ زمینوں کو ان فوجیوں کے درمیان تقسیم نہیں کیا جنھوں نے لڑ کر اس علاقےکو فتح کیا تھا، کیوںکہ ایسا کرنے سے اعلیٰ تر مقاصد مجروح ہوتے۔ اب اگر کوئی گروہ غنیمت کی تقسیم سے متعلّق آیات کا حوالہ دے کر عرف عام اور معاہدوں کے خلاف عمل کرے تو اس کا فیصلہ درست نہیں قرار دیا جائے گا۔
اسلامی تحریکات بیسویں صدی کے شروع میں ابھریں ۔انھوں نے بیسویں صدی کے وسط تک وہ شکل اختیار کرلی، جو آج ان کی پہچان بن چکی ہے۔ تحریکوں کے ظہور اور ارتقا کے وقت ان کے سامنے مخصوص حالات تھے۔ان کے میدان کار میں یہ سوال اٹھ چکا تھا کہ اجنبی حکومت کے خاتمے کے بعد (جس کی تشکیل میں ان ملکوں کے باشندوں کا کوئی دخل نہ تھا )ملک میں ریاست کی تشکیل کن اصولوں کے مطابق ہو؟ قدرتی طور پر وہ تحریکیں یہ مطالبہ کرنے لگیں کہ آزاد قومی حکومت اللہ کی حاکمیت کے تحت کتاب و سنّت میں دیے گئے اصولوں کے مطابق تشکیل پائے۔ دنیا میں آج کے ماحول میں حاکمیّت اعلیٰ کی بحث اب سرِ فہرست نہیں رہی۔ایک ملک پر دوسرے ملک سے آئے ہوئے لوگوں کی حکومت کا زمانہ گزر گیا تو حاکمیّت اعلیٰ کی بحث بھی پسِ پشت چلی گئی اور اسی کے ساتھ ملکی دستور وں میں حاکمیّتِ الٰہی کی صراحت بھی تحصیل حاصل سمجھی جانے لگی۔اب دوسرے ملکوں کی طرح مسلم اکثریت والے ممالک بھی کچھ عملی مسائل کے حل تلاش کر رہے ہیں اور وہا ں کام کرنے والی تحریکوں کو ان مسائل کا حل پیش کرنا ہے۔
رہےغیر مسلم اکثریت والےملک، تو وہاں اصل مسئلہ اسلام کے تعارف اور پیغمبرؐ اسلام کے مشفقانہ (یعنی محسنِ انسانیتؐ ہونے کے) تصوّرسے متعارف کرانے کا ہے۔ آج کسی جگہ بھی وہ سوالات سرفہرست نہیں جو گذشتہ صدی کے وسط تک سرفہرست تھے۔ غور سے دیکھیے تو ان ملکوں میں (خواہ مسلم اکثریتی ممالک ہوں یا وہ ممالک جہاں مسلمان اقلیّت میں ہیں) چلنے والی اسلامی تحریکوں کے عملی طور طریقے بھی عملاً بدل چکے ہیں۔ انھوں نے بدلے ہوئے حالات میں بدلے ہوئے طریقے بھی اختیار کرنا سیکھ لیا ہے۔
فکر مندی کی بات یہ ہے کہ ابھی تک ان نئے رجحانات کے بیان اور توجیہ و تشریح پر مشتمل خاطر خواہ لٹریچر نہیں تیار ہو سکا ہے۔ چنانچہ ایک طرف ماضی کے مخصوص حالات کی پیداوار لٹریچر کو اس طرح پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے جیسے وہ زمان و مکان سے بلند ہو۔ دوسری طرف حکمت عملی کے نام پر ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں جن کو پرانے لٹریچر کے پروردہ ذہن سمجھ نہیں پاتے۔
اس سے دو طرح کی خرابیاں جنم لیتی ہیں: ایک طرف ضمیر ملامت کرتا ہے کہ حالات اور راے عامّہ کے دباؤ کے تحت عزیمت کی راہ چھوڑی جا رہی ہے۔ خیال آتا ہے کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اسلامی ریاست قائم کرنے کے مقصد کے تحت ایسا دستور بنایا جائے جو شریعت اسلامی کو ملکی قانون قرار دیتا ہو، صدر مملکت کا مسلمان ہونا ضروری قرار دیتا ہو،وغیرہ وغیرہ۔مگر سوال یہ ہے کہ (اسلامی دستور سازی کی) اس تجویز کو کثرت راے سے منظور کرانا ممکن نہ ہو ، اور اسے بزورِ قوت نافذ کرنے کے لیے فوج ساتھ دینے کو تیار نہ ہو، یا فوج بھی اس کی طاقت نہ رکھتی ہو، تو کیا کیا جائے؟ مسلم ضمیر حیران ہے کہ ایسی صورتِ حال میں کیا کیا جائے؟
دوسری خرابی یہ پیدا ہوتی ہے کہ ایسے میں بعض مسلمان گروہ یہ خیال کرتے ہیں کہ عوام کو ساتھ لینے کی کوشش جس کو اسلامی تحریکات نے اسلامی ریاست قائم کرنے کی شرطِ لازم سمجھ رکھا ہے ’’غیر ضروری ہے۔ جب جہا ں موقع ملے اسلامی قانون کی حکمرانی کا اعلان کر دینا چاہیے‘‘۔ عملاً یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے گروہ اسلامی قانو ن کا جو نفاذ کرتے ہیں وہ چند جرائم کی سزاؤں، یعنی حدود کے نفاذ تک محدود رہتا ہے۔ شریعت کےبڑے بڑے مقاصد اُن کی توجہ مبذول نہیںکراپاتے، مثلاً: قیامِ عدل، کفالت عامّہ، شاملہ اور معقول تقسیم دولت، آمدنی میں پائےجانے والے فرق کو کم کرنا، ملک کو اقتصادی طورپرمضبوط بنانا،تاکہ دوسروں کی محتاجی ختم ہو، کرپشن کا خاتمہ اور اعلیٰ کارکردگی کی حامل انتظا میہ کی بحالی۔ اِن مقاصدکے حصول کی کوشش کم ہی نظر آتی ہے۔ مزید برآں ان گروہوں کے جابرانہ اقدامات کا ہدف زیادہ تر دوسرے مسلمان ہی ہوتے ہیں۔ ان کے نفاذِ حدود پر مرکوز اقدامات سے مقامی اور عالمی دونوں سطحوں پر اسلام سے توحّش پیدا ہوتا ہے، اسلام کی ترجیحات کے بارے میں شدید غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور متعدد اسلامی مقاصد مجروح ہوتے ہیں۔ نیز بزعمِ خود جو محدود مقاصد وہ حاصل کر پاتے ہیں، وہ دیرپا نہیں ثابت ہوتے۔ ان کی ایسی ہی حرکتوں سے غیرمسلم اکثریت والے ملکوںمیں اسلام کی بدنامی ہوتی ہے اور پیغمبرؐ اسلام کی تصویر بگڑتی ہےاور مسلم ممالک میں اسلامی تحریکات کو شبہے کی نظر سے دیکھا جانے لگتا ہے۔
مشکل یہ ہے کہ اکثر مخلصین یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ: ’’اسلامی تحریک ہر زمان و مکان میں ایک لگابندھا طریقہ اختیار کرنے پر مامور ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تحریک اپنے مقصود، اللہ کے بندوں کو بندگیِ ربّ کی طرف بلانے کے لیے حالات کی مناسبت سے مختلف طریقے اختیار کر سکتی ہے، کسی لگے بندھے اور غیرلچک دار طریقے کی پابند نہیں۔
اس مرحلے میں ضروری ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف حالات کا مقابلہ کس طرح کیا۔تفصیلات میں جائے بغیر ہم یہ بتانا چاہیں گے کہ مقاصد سے وابستگی کے ساتھ حدود اور ذرائع میں لچک کی تعلیم ہمیں سیرتِ مطہرہؐ میں ملتی ہے۔ کارِ نبوت کی انجام دہی سے متعلّق جن مختلف حالات کی طرف ہم قارئین کی توجّہ مبذول کرانا چاہیں گے وہ درج ذ یل ہیں:
¤ شعب ابی طالب میں محصوریت ¤ طائف کے داعیانہ سفر سے واپسی پر شہر مکّہ میں سکونت کا مسئلہ ¤ ہجرت حبشہ اولیٰ اورہجرت حبشہ ثانیہ ¤ بیعتِ عقبہ،اولیٰ و ثانیہ ¤ مدینہ پہنچنے پر مواخات کی تنظیم ¤ مسجدِ نبویؐ کی تعمیراور مسلمانوں کے لیے بازار کا قیام ¤ میثاق مدینہ ¤ صلح حدیبیہ ¤ فتح مکّہ پر عام معافی کا اعلان ¤ غزوۂ حنین کے موقعے پر تقسیمِ غنائم میں مکّہ والوں کو ترجیح ¤ خطبہ حجّۃ ا لوداع۔
سطورِ بالا میں مقاصد اور ذرائع،حدود میں لچک، وغیرہ امور پر گفتگو سے ہمارا منشا یہ تھا کہ ایسے غورو فکر کا آغاز کریں جو آج اور آیندہ کے ممکنہ حالات میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے اور ان کو عام انسانوں کے درمیان مقبول بنانے میں مددگار ہوسکے۔نیز مسلمانوں کو اس مخمصے سے نکال سکے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، یعنی یہ کہ ہم بدلے حالات میں مناسب نئے طریقے کس بنیاد پر اختیار کرسکتے ہیں؟
ایک دقّت یہ ہے کہ بعض لوگ اسوۂ نبویؐ سے استشہاد میں ہر طرح کے حالات کا احاطہ کرنے کے بجاے اپنی پسند کی نظیریں پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔یہی طریقہ وہ بعد کی صدیوں میں اسلامی تاریخ کے مطالعے کے بارےمیں اختیار کرتے ہیں۔اس غلطی کا ازالہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ قرآن وسنّت ،سیرت نبویؐ اور اسلامی تاریخ کا مطالعہ پہلے سے اختیار کیے ہوئے کسی موقف کی تائید کے لیے نظیریں جمع کرنے کے لیےنہ کیا جائے، بلکہ کھلے ذہن کے ساتھ کیا جائے۔اس کے باوجود، مختلف مطالعہ کرنے والے مختلف نتیجے نکالیں تو تبادلۂ خیال کے ذریعے ایک راے تک پہنچنے کی کوشش کریں، اور اتفاق راے نہ ہو سکنے کی صورت میں رواداری سے کام لیں۔ ایک دوسرے کو کافر یا گمراہ قرار دینے اور مرنے مارنے پر نہ اتر آئیں۔ مذکورہ بالا ابواب سیرت کا مطالعہ ابن ہشام کی السیر ۃ النبویہ یا تاریخ اسلامی کی کسی مستند کتاب میں کیا جا سکتا ہے۔یہاں ہم تفصیلات بیان کرنے کے بجاے صرف اس سبق کو یاد دلانے پر اکتفا کریں گے، جو کسی خاص واقعے سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ان مثالوں کا تفصیلی مطالعہ حکمت کے نئے سبق سکھا سکتا ہے۔ دنیا میں حالات بدلتے ہیں۔ ہر بار ایک نئی صورت حال در پیش آتی ہے۔ہر بار ایک نئے انداز کا حل درکار ہوتا ہے۔ اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی تحریک کسی لگے بندھے لائحۂ عمل کی پا بند نہیں، بس مقاصدِ اسلام سے وابستگی شرط ہے۔اس کے ساتھ کتاب و سنّت، سیرت و تاریخ،عقل و فطرت اور با ہمی مشاورت اور تجربوں سے سبق حاصل کرنا لازم ہے۔آج کے حالات میں اسلامی تحریکات کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ وہ نئے حالات میں نئی بات، نئے انداز سے، نئے مخاطب لوگوں کے سامنے رکھنے میں کتنی مستعدی، حاضر دماغی اور دانش مندی دکھاتی ہیں۔
یہ مسئلہ کسی ایک تنظیم کا نہیں ہے۔ تنظیمیں بنتی اور ٹوٹتی رہتی ہیں مگر مجموعی طور پر آثار اُمیدافزا ہیں۔تشویش اس بات کی ہے کہ نئے حالات کے تجزیے ، کتاب و سنّت، تاریخ و سیرت اور تجربات سے سبق سیکھنے اور کھلے ذہن سے با ہم تبادلۂ خیال کا خا طر خواہ اہتمام نہیں کیا جارہا ہے۔اس کے لیے ہمارے مدارس،جامعات،تعلیم گاہوں، یونی ورسٹیوںاور منبرو مسجد، گھر و بازار سب کوایساکردار ادا کرنا ہوگا جو ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیے سازگار ہو۔
آج دنیا بڑے تشویش ناک حالات سے دو چار ہے۔ اسلام اور مسلمان انسانیت کی مدد کے لیے آگے بڑھ سکیں تو ا نھیں خوش آمدید کہا جائے گا۔ آیندہ سطور میں ہم یہی بات قدرے تفصیل سے پیش کریں گے۔
مسائل کی فہرست تو بڑی لمبی ہے مگر ہم تین اہم مسائل کے ذکر پر اکتفا کریں گے، جن کا تعلّق بالترتیب: آب و ہوا، فنانس اور نظام زر اور خاندان اور سماجی رشتوں سے ہے، یعنی ماحولیات، مالیات اور سماجیات۔ مسائل کے ذکر کے بعد ہم یہ بتائیں گےکہ اسلامی تعلیمات کس طرح ہمیں ان مسائل کا سامنا کرنے میں مدد کرتی ہیں۔
ایسی دنیا کو تباہی سے بچا سکتے ہیں تو صرف ایسے لوگ، جو رشتوں کی خاطر مفادات کی قربانی دے سکیں، سماجی بہبود کی خاطر نجی اغراض کو بھول سکیں،آنے والی نسلوں کے لیے کرۂ ارض کو بچائے رکھنے کی خاطر اپنے آرام و آسایش میں کچھ کمی برداشت کریں،کاروبار اورمالیاتی لین دین میں جس عدم تیقّن اور جن خطرات کا سامنا ناگزیر ہے، ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے دوسروں کے شریک بننے کو تیار ہوں( نہ کہ اپنی ساری ذہانت اِس پر صرف کرتے ہوں کہ کاروباری خطرات اور عدم تیقّن کو کس طرح اپنے سر سے ٹال کر دوسروں پر تھوپا جائے ، نفع ہو تو ان کو ملے، نقصان پہنچے تو اسے دوسرے بھگتیں)۔ آخرت میں جواب دہی کا احساس جگا کر اور اُس دائمی زندگی کو سنوارنے کے لیے آج کے دنیوی مفادات کو ثانوی درجہ دینے کی تعلیم دے کر اسلام ایسے ہی انسان بناناچاہتاہے۔
تاریخ نے ایسے دوربھی دیکھے ہیں، جب سیاسی رہنمائوں نے انسانوں کی خدمت کا راستہ اختیار کیا اور کاروبارِ معیشت سنبھالنے والوں نے عام صارفین اور مزدوروں کی بھی بھلائی چاہی۔ خاندانی زندگی محبّت اور خلوص پر قائم رہی اور سماجی رشتوں کو نفع اندوزی پر ترجیح دی گئی۔ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ مذاہب عالم، بے لوث بزرگ،دانش وَر، فلسفی،شاعر، قصّہ گو، غرض ہر جہت سے اس رجحان کو تقویت ملی ہے اور آج بھی مل سکتی ہے۔ اسلام اور مسلمان ان جہتوں میں سے ایک اہم جہت ہیں، جو دوسرے مذاہب کے مخلص پیرووں ، دیگر دانش وَروں، اور اچھے انسانوں کے ساتھ مل کر مذکورہ بالا تینوں دائروں ،یعنی ماحولیات،مالیات اور سماجیات، میں دنیا کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچا سکتے ہیں۔
افسوس کا مقام ہے کہ آج مسلمان یہ کردار ادا کرنے کے لائق دکھائی نہیں دیتے۔ مستقبل کی دنیا کو اپنی رہنمائی، خدمت اور تعمیری سرگرمیوں کے ذریعے سہارا دینے اور سنبھالنے کے بجاے مسلمان ماضی کے جھگڑے چکانے میں لگے ہوئے ہیں۔ انسانوں کی خدمت کی خاطر متّحد ہونے کے بجاے وہ مسلکی اختلافات اورفرقہ وارانہ تعصبات کی بنیادوں پر بٹے ہوئے ہیں۔اپنے خداداد کردارِ شہادت علی النّاس کی ادایگی کی خاطر یکسو ہونے کے بجاے وہ پراگندہ فکر اور پراگندہ حال ہیں۔ بڑے کاموں میں مطلوب تعاون اور تضامن کی خاطر اختلافات کو نظر انداز کرکے رواداری اور خوش خلقی کے ساتھ خدمتِ انسانیت کو اپنا ایجنڈا بنانے کے لیے ہمیں اپنی ترجیحات بدلنی ہوں گی۔
مستقبل پر توجہ کی مرکوزیت (focus)،ماضی کے اختلافات کو پسِ پشت ڈالنے کے حوصلے اور باہمی اتحاد و رواداری کے ساتھ ساتھ دنیا میں تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے طاقت درکار ہے: اقتصادی قوت چاہیے جو مسلمان کو دوسروں کا دست نگر نہیں ان کو سہارا دینے والا بناسکے۔ معاشی قوت تجارت سے آئے گی جس کے لیے پیداواری عمل کی عادت ڈالنی ہو گی۔اس عمل میں انہماک خود بخود ایجاد و اختراع اور تعاون و تنظیم کی طرف لے جا ئے گا، جو اقتصادی قوت کی کلید ہے۔ اُمّت مسلمہ کی اٹھان میں اس پہلو نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کا معمار، میدانِ تجارت میں بھی رہنما ئی کرتا تھا،جس نے منتشر قبائل کی توانائی کو ایک انسانی مِشن پر مرکوز( فوکس) کرکے دنیا کی تاریخ بدل دی۔ یہ آج بھی ممکن ہے۔