سادہ الفاظ میں قیادت‘ اس صلاحیت اور کردار کا نام ہے جس کے ذریعے آپ لوگوں کو مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے اپنے ساتھ لے کر چل سکیں‘یعنی وہ آپ کے کہے کو ماننے لگیں۔ اس حوالے سے روزمرہ زندگی پر غورکریں تو آپ محسوس کریں گے کہ یہ ایک فطری جذبہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو ودیعت کیا ہے۔ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اس کی بات مانیں اور درحقیقت اسی جذبے کے نتیجے میں انسانی زندگی آگے بڑھتی ہے۔ جس معاشرے یا گروہ میں یہ جذبہ مفقود ہو جائے اس کے آگے بڑھنے کا عمل رک جاتا ہے۔
اسی بات کو اس مشاہدے کی روشنی میں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ کسی بھی مقام پر اور کسی بھی مجلس میں‘ جہاں ایک سے زائد لوگ موجود ہوں‘ وہاں کوئی نہ کوئی قائد ہوتا ہے اور باقی لوگ پیچھے چلنے والے ہوتے ہیں‘ یعنی ایک آدمی وہ ہوتا ہے جس کی بات مانی جاتی ہے اور باقی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس کی بات مان رہے ہوتے ہیں‘ اور اس میں کسی کا عمر میں چھوٹا یا بڑا ہونا بھی اہم نہیں ہے۔
لوگ کسی کی بات کیوں مانتے ہیں؟ اس کے عوامل کچھ بھی ہوں،لیکن قیادت اور اُس کے پیچھے چلنے والوں میں یہی تعلق ہوتا ہے۔ قیادت فیصلہ کرتی ہے اور لوگ اس کے پیچھے چل رہے ہوتے ہیں ۔ یوں قیادت کا یہ تصور منصب کے بجاے ایک کردار کی نشان دہی کرتا ہے۔ ایسا کردار جو رہنمائی اور نشان دہی کر سکے کہ کس سمت میں جانا ہے، کس رفتار سے جانا ہے‘ اور کس تیاری کے ساتھ جانا ہے‘ اور یہ کردار انسانی زندگی کی ایک فطری ضرورت ہے۔ انسانوں کے جس گروہ میں اس طرح سے رہنمائی کے لیے قیادت موجود نہ ہو، اس گروہ میں بحران، انتشار اور تصادم ناگزیر ہے۔
قیادت کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر اللہ کے رسولؐ نے بھی یہ بات سمجھائی ہے کہ دو آدمی ہوں اور کسی جنگل میں بھی سفر کر رہے ہوں، تب بھی اپنے میں سے ایک کو قائد بنالیں۔ اس لیے کہ ’’قائدانہ کردار‘‘ کی ضرورت بار بار پیش آئے گی، اختلاف رائے ہو گا، یہ سوال پیدا ہو گا کہ کیسے اور کس سمت آگے بڑھا جائے؟ قائدانہ کردار متعین ہو گا تو ان امور میں فیصلہ کرنے کا عمل بہ حسن و خوبی مکمل ہو جائے گا۔ اس طرح قیادت ایک اسلامی تصور ہے۔
متعدد دوسری تعلیمات بھی ہمیں یہ احساس دلاتی ہیں کہ قیادت تو خالص اسلامی تصور ہے، جسے انسانی زندگی میں نظر انداز کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ نبیؐ کی یہ حدیث کہ: تم میں سے ہرایک راعی ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا‘ اسی جانب اشارہ کرتی ہے۔ یہ وہی بات ہے کہ آپ گھر میں ہوں، کسی مجلس میں ہوں، دفتر میں ہوں، سکول یا کالج میں ہوں، کوئی نہ کوئی راعی ہو گا، اور باقی اس کی رعیت۔
قیادت کے تصور پر اس حوالے سے بھی غور کیجیے کہ نبیؐ سے بڑا قائد کون ہو گا؟ ہمارا تو یہ ایمان ہے کہ اس دنیا میں انسانوں کی رہنمائی کے لیے آنے والے سب سے بڑے لیڈر اللہ کے نبیؐ تھے اور رہتی دنیا تک وہی سب سے بڑے لیڈر ہیں۔ اگر وہ سب سے بڑے قائد ہیں تو کیا قائد یا لیڈر ہونا نامطلوب قرار پائے گا؟ نہیں‘بلکہ یہ تومسلمان ہونے کا ایک اہم تقاضا قرار پائے گا۔ کیونکہ یہ نبیؐ کی سنت کا ایک حصہ ہو گا اور جب اس کو سنت نبویؐ کا ایک حصہ سمجھا جائے تو جس فرد کو قیادت کے مقام پر فائز کردیا گیا‘ اسے دراصل نبیؐ کی ان تمام سنتوں کو قائم کرنے کا موقع ملا ہے جو آپؐ نے قائد کی حیثیت سے ادا کیں۔ سنت نبویؐ کو ایک اور انداز میں آگے بڑھانے کا موقع تو اس کے لیے ایک سعادت ہے، کہ وہ نبی ؐ کی ان سنتوں پر بھی عمل کرسکے جو قیادت کے منصب پر فائز نہ ہونے والے لوگ نہیں کر سکتے۔
قیادت کے متعدد پہلوؤں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ قرآن مجید کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے تو دراصل اسے ایک خاص دائرے میں‘ دیگر تمام مخلوقات پر فیصلہ کن حیثیت دے دی ہے۔ خلیفہ کی یہ حیثیت دراصل قیادت ہی کی ایک صورت ہے۔
قیادت سے متعلق ان تصورات کو سامنے رکھا جائے تو اس بارے میں کوئی غلط فہمی نہیںہونی چاہیے کہ قیادت سے گریز یا فرار کوئی موزوں طرز عمل نہیں ہے۔ بلاشبہہ قائد کی ذمہ داری اور جوابدہی زیادہ ہے لیکن درحقیقت کسی فرد کو قائدانہ کردار ادا کرنے کاموقع ملتا ہے تو یہ اس مفہوم میں بھی اس کے لیے سعادت ہے، کہ اسے صدقہ جاریہ کا موقع دستیاب ہو جاتا ہے۔ کیونکہ جب آپ مامور (follower) ہیں تو آپ صرف اپنے کام کے ذمہ دار ہیں اور آپ کو صرف اپنی حد تک کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔ لیکن جب آپ قائد ہوں اور رفقا اور کارکنوں کو بامقصد کام کی جانب لے جائیں تو وہ تمام نیکیاں بھی آپ کے حصے میں آئیں گی جو یہ سارے لوگ کر رہے ہوں گے۔ قیادت کے تصور کو اس حیثیت میں قبول کریں تو اس کے نتیجے میں آپ کی اپنی کارکردگی بھی بڑھے گی‘ اور جس جس دائرے میں آپ قیادت کا منصب سرانجام دے رہے ہیں اس میں زیادہ بہتر نتائج حاصل کر سکیں گے۔
قیادت اگر ایک فطری عمل اور کردار کا نام ہے تو یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل نہیںکہ اس کردار کی ادایگی کا فطری حق کسے حاصل ہو؟ ذرا غور کیجیے! انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ کس بنا پر حاصل ہوا؟ معلوم ہو گا کہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو جو عقل دی ہے اس کی بنا پر‘ وہ دیگر تمام مخلوقات سے ممتاز ہو جاتا ہے۔ جسامت میں انسان بہت سوں سے چھوٹا اور جسمانی قوت میں بہت سی دوسری مخلوقات سے کمزور ہے۔ بصارت اور سننے کی صلاحیت بلکہ گویائی کی قوت بھی اللہ تعالیٰ نے بہت سارے حیوانات کو دی ہے۔ جدید تحقیقات تو یہ بتاتی ہیں کہ نباتات کو بھی کسی نہ کسی درجے میں یہ صلاحیت حاصل ہوتی ہے۔ جس میدان میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے زیادہ اشرف بنایا ہے‘ وہ اس کی عقل یعنی سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کرنے کی صلاحیت ہے۔ چنانچہ اگر اشرف المخلوقات کا رتبہ انسان کو عقل کی بنا پر حاصل ہوا ہے تو پھر انسانوں میں بھی فطری طور پر وہی اشرف اور برتر ہو گا جو عقل کے میدان میں برتر ہو۔ جینیاتی اعتبار سے انسانوں میں کچھ نہ کچھ فرق ہو سکتا ہے لیکن مستثنیات کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ نے سب ہی انسانوں کو دماغ دیا ہے۔جو اس دماغ اور اسے دی گئی صلاحیت‘ یعنی عقل کا بہتر استعمال کرے گا اور غور و فکر اور تدبر کرے گا‘ سوچ بچار میں اپنا وقت لگائے گا، وہی اصل میں ایک فطری لیڈر قرار پائے گا۔
اس بات کو دہرا لیجیے کہ قیادت منصب کا نام نہیں ہے بلکہ قیادت درحقیقت یہ ہے کہ لوگ رضاکارانہ آپ کے پیچھے چلیں۔ اس پہلو سے دیکھیں تو بعض اوقات لوگ منصب پر فائز نظر آئیں گے لیکن مامورین ان کی بات مان نہیں رہے ہوںگے‘ یا اصل رہنمائی و ہدایت کے برعکس اپنے اپنے انداز میں عمل کر رہے ہوں گے‘ یا یہ عمل مارے باندھے اور مجبوری کی بنا پر ہو رہا ہو گا۔ یوں قیادت پر فائز افراد کے لیے‘ اپنے آپ کو جانچنے کا ایک آسان پیمانہ یہ ہے کہ کیا لوگ ان کی بات مانتے ہیں اور کس حد تک مانتے ہیں؟ بات ماننا اور قیادت کے پیچھے چلنا‘ اگر حکم اور جبر کے ذریعے سے ہو یا اس کے لیے تاکید ، اور بار بار تاکید کرنی پڑ رہی ہو توپھریہ حقیقت میں پیچھے چلنا نہیں ہے، یہ جبر اور مجبوری کی بنا پر کیا جانے والا عمل ہے جو پایدار نہیں ہو سکتا۔ حقیقی اور فطری قیادت کو کچھ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی‘ لوگ خود اشارے دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ ان کا قائد کیا چاہ رہا ہے؟ اور اس مقام تک پہنچنے میں وہی کامیاب ہو سکتا ہے جس کی عقل اور ذہانت کی بنا پر لوگ اس کے شعور اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت پر اعتماد رکھتے ہوں۔
قیادت کے حوالے سے یہ اصول فرد ہی پر نہیں بلکہ ادارہ‘ تنظیم‘ گروہ‘ قوم‘ یا ملک‘ تمام پر یہی اصول صادق آتا ہے کہ غور و فکر، تدبر اور علم و تحقیق میں دل چسپی‘ انھیں قیادت پر فائز کر دیتی ہے۔ اگر حادثاتی طور پر کوئی دوسرا آگے آ بھی جاتا ہے تو قیادت کے مقام پر اس کا برقرار رہنا ممکن نہیں ہے۔ نبیؐ کی زندگی میں غور و فکر اور تدبر کا اندازہ آپؐ کی قبل از نبوت کی زندگی سے بھی لگایا جا سکتا ہے‘ جب آپؐ باقاعدگی سے غار حرا تشریف لے جاتے اور کئی کئی روز غور و فکر میں مشغول رہتے تھے۔
قیادت کے بارے میں اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قیادت اور تبدیلی میں بہت گہرا تعلق ہے۔ انسانی زندگی مسلسل حرکت، تبدیلی اور اتار چڑھاؤ کا نام ہے۔ جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں اس میں مسلسل تبدیلیاں آ رہی ہوتی ہیں۔ زمین مسلسل گردش میں ہے، دن، رات میں اور رات، دن میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ موسم تبدیل ہوتے ہیں، علم‘ ٹکنالوجی اور سائنس کے میدان میں تبدیلیاں آرہی ہوتی ہیں، ہر تبدیلی کسی نہ کسی شکل میں انسانوں پر اثر انداز ہو رہی ہوتی ہے۔ قائدانہ کردار کے نقطۂ نظر سے تبدیلی اور اس پر ردعمل کے حوالے سے انسانوں کو پانچ گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے۔
پہلی قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو آنے والی سماجی و معاشرتی تبدیلیوں اور انسانی زندگی پر ان کے اثرات سے بے نیاز، اپنی ایک محدود دنیا میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ اردگرد کی تمام تبدیلیوں سے بے نیاز یہ لوگ ایک مخصوص دائرے میں سرگرم اور مطمئن ہوتے ہیں۔
دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو موجودہ صورت حال (status quo) میں آنے والی ہرتبدیلی کے مخالف ہوتے ہیں۔ تبدیلیوں کے منفی یا مثبت اثرات پر غور کیے بغیر‘ ہر تبدیلی سے خوف زدہ یہ لوگ، آنے والی تبدیلیوں کی مزاحمت کر کے ان تبدیلیوں کو روکنا چاہتے ہیں۔
تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جو ہر صورت حال اور تبدیلی کے اثرات کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ ان کے کوئی نظریات اور اپنی ترجیحات نہیں ہوتیں۔ جو بھی تبدیلیاں آ رہی ہوتی ہیں یہ انھیں بخوشی، ورنہ بہ امر مجبوری قبول کر لیتے ہیں۔
چوتھی قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جو متوقع تبدیلیوں کا قبل از وقت اندازہ کر کے ان کے مطابق اپنے آپ کو، اردگرد کے ماحول کو اور اپنے اہداف اور ترجیحات کو ایڈجسٹ کرتے ہیں۔ اس طرح یہ آنے والی تبدیلیوں کے مطابق اپنے آپ کو manage کرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
ان سب کے مقابلے میں پانچویں قسم‘ تبدیلیوں کے لیے خود ہوم ورک کرنے والوں کی ہے جو آنے والے حالات کا اندازہ کرتے ہیں اور تجزیے کی بنیاد پر اپنی مرضی کے مطابق تبدیلی کو خود تخلیق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مذکورہ بالا تقسیم پر غور کیا جائے تو یہ وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ بلاشبہہ ان پانچوں میں سے قیادت کے منصب پر وہی لوگ فائز ہو سکتے ہیں جو اپنی مرضی کے مطابق تبدیلیوں کی تخلیق کے لیے سرگرم ہوتے ہیں۔ وہ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ آنے والے وقت کو وہ کیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔ تبدیلیاں لانے کے لیے ماحول کو ساز گار بنانے کے نقطۂ نظر سے ضروری اقدامات کرتے ہیں۔ عزم کرتے ہیں کہ کسی اور کی سوچ بچار‘ غور و فکر اور ترجیح کے مطابق اپنے آپ کو تبدیل کرنے کے بجاے تبدیلی ہمیں خود لانی ہے۔مستقبل ہماری مرضی کے مطابق ہوگا‘ اور دوسروں کو اس کے مطابق تبدیل ہونا ہو گا۔ یوں یہ ایک رویے کا نام ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ ہمیشہ اپنے عزائم میں کامیاب بھی ہو جائیں لیکن وہ اس کی ہر ممکن کوشش ضرور کرتے ہیں۔ یہی قائدانہ رویہ اور قائدانہ کردار ہے۔
تبدیلی سے بے نیاز، تبدیلی پر مزاحمت کرنے، تبدیلی کو قبول کرنے والے‘ یا تبدیلی کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کرنے والے پیچھے رہنے والے لوگ ہیں۔ چنانچہ قیادت کے منصب پر اگر آپ فائز ہیں تو آپ کو یہ سوچنا ہو گا کہ ہمارے اردگرد کیا کیا تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں‘ اور ان تبدیلیوں کی روشنی میں مستقبل کا نقشہ کیا بن رہا ہے، اس مستقبل کے نقشے کو ہم اپنی مرضی کے مطابق کیسے ڈھال سکتے ہیں؟ یہی قیادت ہے۔ ورنہ تبدیلی اور قائدانہ کردار کسی اور کا حق ہوتا ہے اور آپ اس کے پیچھے چلنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
تبدیلی کے حوالے سے ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ جو لوگ تبدیلی تخلیق کرنا چاہتے ہوں‘ ان کا ہر فیصلہ اور اقدام ایک طے شدہ حکمت عملی کا حصہ ہوتا ہے۔ ان کے علم میں ہوتا ہے کہ کون سے ایسے مواقع ہیں جہاں آگے بڑھ کر کوئی کردار ادا کرنا ہے‘ اور کن مواقع پر آگے بڑھنے کی ضرورت نہیں۔ بے نیازی، مزاحمت یا قبولیت اور ایڈجسٹمنٹ کا رویہ بذات خود غلط نہیں ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ کچھ چیزوں سے بے نیازی اور انھیں نظرانداز کر دینا ہی بہتر ہے۔ نوٹس صرف اس چیز کا لینا ہے جو اپنی مطلوبہ تبدیلی کے راستے میں رکاوٹ ہے‘ اور یہ نوٹس بھی صرف اس حد تک لینا ہے جس حد تک کوئی چیز رکاوٹ ہے‘جب کہ اپنی مرضی کے مطابق تبدیلی میں جو چیز معاون ہے اس کو آگے بڑھانے کی کوشش ناگزیر ہے۔
اس بات کو مختصراً ایک بار پھر دہرا لینا چاہیے کہ ایک جانب قیادت اور قائدانہ کردار اس عمل کا نام ہے کہ آپ تبدیلی کو تخلیق کرنے کی کوشش کر رہے ہوں اور دوسری جانب یہ اس عمل کا نام ہے کہ آپ کو معلوم ہو کہ جس نوعیت کی تبدیلی کو آپ تخلیق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ اگر کوئی چیز اس سے متعلق نہیں تو آپ بھی اس سے غیر متعلق اور بے نیاز ہو جائیں گے۔ اسی طرح مزاحمت، قائد کا بنیادی کردار نہیں ہے کیونکہ مزاحمت ردعمل کا نام ہے۔ لیکن اگر مرضی کی تبدیلی لانے میں کوئی چیز رکاوٹ ہے‘ تب آپ مزاحمت بھی کریں گے۔ قائد کی حیثیت سے آپ کو ہر ہر مرحلے پر سوچ سمجھ کر اقدام کرنا ہے۔
قائد کے مذکورہ بالا کردار کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ قائدانہ اوصاف کیا ہو سکتے ہیں۔ ہم یہاں انھیں مختصراً تین عنوانات: بصیرت، اپنی ذات پر قابو اور انسانی تعلقات‘ کے تحت بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔ درحقیقت قیادت کی صلاحیت اور بنیادی صفات ہر آدمی میں موجود ہوتی ہیں لیکن میدان عمل میں قیادت کا کردار ادا کرنے کے لیے مسلسل عمل اور شعوری کوشش سے ان صلاحیتوں کو نکھارنے اور جِلا بخشنے پر توجہ دینا ناگزیر ہے۔ سوچنے اور عمل کرنے میں یہ اوصاف جس قدر کسی شخصیت کا حصہ بنتے چلے جائیں گے اس قدر ہی وہ شخصیت قائدانہ مزاج کی حامل قرار پائے گی۔
بصیرت (مستقبل میں دیکھنے کی صلاحیت): قائد کے لیے اہم ترین چیز وژن (بصیرت) ہے۔ وژن سے مراد مستقبل میں دیکھنے کی صلاحیت ہے۔ کیونکہ تبدیلی ماضی میں نہیں مستقبل میں آتی ہے‘ اور مستقبل میں تبدیلی وہی لا سکتا ہے جو مستقبل میں دیکھ سکتا ہے۔ چنانچہ قیادت اس صلاحیت کا نام ہے کہ آپ مستقبل میں دیکھ رہے ہوں۔ مثلاً یہ مارچ کا مہینہ ۲۰۰۴ء ہے۔ آپ ایک تنظیم کے سربراہ یا ایک علاقے کے منتظم ہونے کی حیثیت سے آج سے پانچ سال کے بعد‘ یعنی ۲۰۰۹ء میں اس تنظیم یا علاقے میں کیا تبدیلیاں دیکھنا چاہتے ہیں، اس کا تعین آپ کو آج کرنا ہو گا۔ قائد‘ ماضی کی کامیابیوں اور ناکامیوں پر غور و فکر کر کے ماضی سے سبق بھی حاصل کرتا ہے اور اس کا یہ سارا عمل مستقبل کے لیے ہوتا ہے۔ کیونکہ اسے آگے جانا ہے۔ جو لوگ ماضی میں ڈوبے رہتے ہیں کہ فلاں چیز غلط ہو گئی تھی اس پر شکوہ کر رہے ہیں، مایوسی کا شکار ہیں یا حوصلہ ہار بیٹھے ہیں‘ وہ کامیاب نہیں ہو سکتے۔ یا اسی طرح اگر کامیابی حاصل ہو گئی ہے تو اس پر سرشاری میں اردگرد سے بے نیاز ہو جانے والے لوگ بھی قائدانہ کردار ادا نہیں کرسکتے۔ جسے آگے سفر کرنا ہے اسے دل کا بخار نکالنے، کسی دوسرے کو مطعون کرنے‘ یا کسی دوسرے پر ناکامی کی ذمہ داریاں ڈال دینے سے دل چسپی نہیں ہوتی۔ یہ وقت ضائع کرنے والے لوگ ہیں۔ جس کے سامنے مستقبل میں کوئی منزل ہو گی وہ اپنے وقت کے بارے میں بے فکر نہیں ہو سکتا۔ جس کی کوئی منزل طے ہے اور اسے منزل تک کسی خاص وقت پر پہنچنا ہے‘ وہ اپنے ہدف اور منزل کے بروقت حصول کے لیے بہت سی غیر ضروری اور کم اہم چیزوں کو نظرانداز کرنے کے لیے تیار رہے گا‘ اور ایک منزل پر پہنچنے کے بعد اگلی منزل کا تعین اور اس کے لیے پیش قدمی اس کا ہدف ہو گی۔
اس نقطۂ نظر سے دنیا پر نظر ڈالیں تو صاف نظر آئے گا کہ وہی ادارے، گروہ اور قومیں قیادت کے منصب پر فائز ہیں اور ماضی میں بھی فائز رہی ہیں جنھوں نے مستقبل کو سمجھنے، جاننے اور اس کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
مستقبل ظاہر ہے غیر یقینی ہے۔ لیکن یہی اس کا چیلنج ہے۔ اس میں دیکھنے کے لیے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ معلومات اور حالات کی روشنی میں آپ عمل اور ردعمل، اقدامات اور نتائج اور واقعات و اثرات کے درمیان رشتے کو سمجھنے کی صلاحیت حاصل کریں۔ یہی عمل مستقبل کا تجزیہ کرنے کی کوشش کہلاتی ہے اور اسی بنیاد پر قائد یہ فیصلہ کرتا ہے کہ مطلوبہ تبدیلیاں لانے کے لیے کیا کیا جائے۔
پُرامید ہونا: قائد کے لیے محض مستقبل پر نگاہ رکھنا ہی کافی نہیں، بلکہ مستقبل کے بارے میں پرامید ہونا ضروری ہے۔ مایوسی کے شکار لوگ کبھی کوئی قائدانہ کردار ادا نہیں کرسکتے۔ قائد کو خود بھی پُرامید ہونا ہے اور اپنے ساتھ چلنے والے لوگوں کو بھی پُرامید رکھنا ہے۔
پُرعزم اور منصوبہ ساز: مستقبل کے بارے میں پرامید ہونے کے لیے پرعزم ہونا ضروری ہے۔ یہ عزم کہ میں جو کرنا چاہتا ہوں وہ ان شاء اللہ کر کے رہوں گا۔ مستقبل کو تسخیرکرنے کا عزم قائد کے پاس ہونا چاہیے۔ تسخیر کا عزم اور اعتماد اسی وقت ممکن ہے جب مستقبل کے بارے میں منصوبہ بندی کا ضروری اہتمام ہو اور پورے منصوبے کے لیے موزوں حکمت عملی اور اس کے مطابق ٹیم بنانے کا درست طور پر اہتمام ہو۔ اس ٹیم کو متحرک رکھنا، اسے motivate کرنا اور ٹیم کے ہر فرد سے اس کی صلاحیتوں کے مطابق کام لینے کی استعداد‘ قائد کے اہم اور ضروری اوصاف ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مسلسل جائزہ لینے اورمنصوبے میں حسب ضرورت ردوبدل کرنے کی صلاحیت اور آمادگی بھی ضروری ہے۔
قائدانہ کردار کا تعلق عقل کے استعمال سے ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ کیا ایسا آدمی جو غبی یا ذہین ہو لیکن غور و فکر اور تدبر کے لیے تیار نہ ہو‘ یا روزمرہ مصروفیات میں اس طرح الجھا ہوا ہو کہ اس کے پاس غور و فکر کے لیے وقت ہی نہ ہو‘ تو کیا اس میں مستقبل بینی کی صلاحیت ہو گی؟
اس تناظر میں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قائد کا یہ کام نہیں کہ وہ ۲۴ گھنٹے بہت مصروف رہے‘ بڑی بھاگ دوڑ کر رہا ہو۔ یہ تو مینیجراور منتظم کا کام ہے۔ کوئی چاہے تو اس کردار پر بھی مطمئن ہو سکتا ہے‘ یہ قابلِ تعریف عمل ہے لیکن بحیثیت قائد یہ مطلوب نہیں ہے۔ قائد کا اصل کام یہ ہے کہ وہ مشکلات کا قبل از وقت اندازہ لگائے اور ان مشکلات سے نکلنے‘ آگے بڑھنے اور دوسرے لوگوں کو متحرک کرکے اپنے ساتھ چلانے کے لیے سوچے اور بروقت فیصلے کرے۔
اپنے آپ پر قابو: قائدانہ کردار ادا کرنے والے لوگ وہی ہو سکتے ہیں جو خود اپنی قیادت کر سکتے ہیں یعنی جن کو اپنے اوپر قابو (کنٹرول) ہو۔ اپنے آپ پر قابو پانے کے یوں تو کئی پہلو ہیں لیکن اہم ترین پہلو‘ قائد کا اپنے وقت پر قابوپانا ہے۔ قائد اپنی مرضی سے اور اپنی ترجیحات کے مطابق اپنا وقت گزارتے ہیں۔ ان کی مصروفیات ان کی اپنی طے کردہ ہوتی ہیں اور ان کا تعلق اس ہدف کے حصول سے ہوتا ہے جو انھوں نے طے کیا ہوتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ سماجی تعلقات ختم کر لیتے ہیں یا دوسروں کے کام نہیں آتے۔ اس کے برعکس وہ اپنے تعلقات کو اپنے اہداف کے حصول میں معاون بناتے ہیں۔
اپنی ذات پر قابو پانے کا دوسرا اہم پہلو قائد کا اپنے جذبات پر قابوہے۔ ایسا نہیں ہے کہ قائد جذباتی نہیں ہوتا۔ درحقیقت اچھا قائد خود بھی جذباتی ہوتا ہے اور انسانی جذبات و احساسات کو سمجھتا بھی ہے لیکن اس کے فیصلے اور اقدامات‘ جذبات کی بنیاد پر نہیں ہوتے۔ اسے کوئی مشتعل نہیں کر سکتا۔ حالات خواہ کتنے ہی غیر معمولی کیوں نہ ہوں‘ وہ ردعمل اور اشتعال سے بچنے کا اہتمام کرتا ہے۔
قائدانہ کردار‘ اپنے معمولات پر قابو پانے کا نام ہے۔ معمولات کے مطابق زندگی گزارنا لیکن اس کے لیے ذہنی اور جسمانی طور پر تیار ہونا کہ معمولات میں تبدیلی کے باوجود کارکردگی متاثر نہ ہو‘ بہ الفاظ دیگر قائد کے معمولات اس کی مجبوری نہیں ہوتے۔ اسے اپنی امیدوں، دل چسپیوں اور خواہشات پر کنٹرول ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کہ ہر نئی اور پرکشش چیز اسے کھینچ کر اپنی جانب لے جائے اور اس کی ترجیحات گڈ مڈ ہو جائیں۔
اپنے ساتھیوں پر اعتماد: اپنے آپ پر قابو پانے کا ایک اور اہم پہلو‘ دوسروں پر اعتماد ہے۔ اپنی اجتماعیت (ادارہ، تنظیم وغیرہ) میں ایسا نظام قائم کرنا کہ لوگوں کو کام تفویض کیا جائے۔ قائد کو ہر کام خود کرنے کی خواہش نہیں ہوتی۔ اگرچہ وہ جانتا ہے کہ جب کام تفویض کیا جائے تو اس میں بعض اوقات غلطی یا معیار میں کمی کا خطرہ ہو سکتا ہے‘ جب کہ وہ خود اسے بہت اچھی طرح کر سکتا ہے۔ لیکن قائد غلطی کے امکان کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اسے آگے بڑھنا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر میں خود یہی کام کرتا رہوں اور یہی تقسیمِ کار رہے تو ہم کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔ جو کام میں آج کر رہا ہوں یہ مجھے کل نہیں کرنا۔ میری جگہ کوئی اور آنا چاہیے۔ مجھے دو قدم اور آگے بڑھنا چاہیے۔ اس طرح قیادت ایک عمل (پراسیس) ہے اور جہاں یہ عمل جاری نہیں وہاں افراد ‘تنظیمیں اور ادارے آگے نہیں بڑھ سکتے۔
محنتی اور سخت کوش: اپنے اوپر قابو پانے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ قائد سخت کوش، ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے آمادہ ہوتا ہے ‘ وہ اپنے جسمانی آرام اور صحت کا خیال ضرور رکھتا ہے کہ یہ اس کی توانائی برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے، لیکن آرام طلبی اور سُستی اس کی طبیعت پر بوجھ ہوتی ہے۔ وہ اپنا ایک ایک لمحہ ہدف کے حصول کے لیے صرف کرتا ہے۔
خود احتسابی: ایک اور اہم بات یہ ہے کہ قائد خود احتسابی کر سکتا ہے کہ میں نے کہاں غلطی کی؟ جو کچھ کیا اسے کس طرح بہتر طور پر کیا جا سکتا تھا؟ یہاں یہ فرق واضح رہنا چاہیے کہ خوداحتسابی اور خود ملامتی دو مختلف چیزیں ہیں۔ خود احتسابی آگے بڑھنے کے لیے ہے اور خود ملامتی انسان کو اپنے آپ سے مایوس کرتی ہے، اس کی خود اعتمادی اور حوصلے کو ٹھیس پہنچاتی ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا فرد نہیں جو ہمیشہ کامیاب ہو اور اسے کبھی ناکامی کا سامنا نہ ہو۔ اتفاقات اور حادثات بھی ہوسکتے ہیں اور بڑے سے بڑے انسان غلطیاں بھی کرتے ہیں۔ بہت سارے ایسے عوامل ہوتے ہیں جن کی بنا پر آگے بڑھنا ممکن نہیں ہو پاتا۔ ایسی صورت حال میں خوداحتسابی کے ذریعے غلطی کا تعین اور اس کی روشنی میں منصوبہ، حکمت عملی یا اقدامات میں حسب ضرورت تبدیلی لانا‘ یا اسے نئے سرے سے بنانا‘ قائدانہ کردار کی پہچان ہے‘ جب کہ خود ملامتی میں مبتلا لوگ آگے بڑھنے کا ازسرنو منصوبہ نہیں بنا سکتے۔
سیکھنے کی صلاحیت: قائدانہ مزاج کی ایک اور اہم خصوصیت اپنی محدودیتوں (limitations) کو جاننا ہے۔ قائد دوسروں کے تجربات سے سیکھنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ قائدانہ کردار یہ نہیں ہے کہ ہر کام کو خود کر کے دیکھا جائے۔ دنیا ترقی کے جس مقام پر آج پہنچی ہے اس مقام پر پہنچ نہیں سکتی تھی اگر ہر انسان ہر چیز کے لیے خود تجربہ کرتا۔ قائد دوسروں سے‘ حتیٰ کہ اپنے مامورین سے بھی‘ بہت سی چیزیں سیکھ رہا ہوتا ہے۔ سیکھنے کی یہ صلاحیت قائد کی خود اعتمادی کی بنا پر ہوتی ہے۔ جن لوگوں میں خود اعتمادی ہو وہ دل و دماغ کو کھلا رکھتے ہیں‘ دوسروں کے تجربات معلوم کرتے ہیں‘ پڑھتے ہیں‘ سنتے ہیں‘ تجزیہ کرتے ہیں کہ دوسرے کیسے آگے بڑھ گئے، انھوں نے کیسے کامیابی حاصل کی‘ حتیٰ کہ دشمن کے تجربات سے بھی اپنے لیے کوئی مفید پہلو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
قیادت سے دستبرداری کے لیے تیار: قائدانہ کردار اپنے ہدف کے لیے قربانی بھی مانگتا ہے۔ یہ قربانی کئی طرح کی ہو سکتی ہے۔ قائد ہر قربانی کے لیے تیار ہوتا ہے لیکن بعض اوقات یہ قربانی خود منصبِ قیادت سے دستبرداری بھی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ قائد کی نگاہ مستقبل میں ہدف کے حصول پر ہوتی ہے اور وہ اپنی محدودیتوں کو بھی جانتا ہے۔ چنانچہ اچھے جانشین کی تلاش اور تیاری بھی اس کے پیش نظر ہوتی ہے اور اس لیے وہ مناسب وقت پر قیادت سے دستبرداری کے لیے تیار رہتا ہے۔
دوسری جانب اس بات کو اس تناظر میں بھی سمجھنا چاہیے کہ کسی بھی گروہ میں فطری قائد ایک ہی ہوتا ہے۔ میرٹ پر فیصلے ہوں تو عمر‘ علم‘ تجربے اور صلاحیت خود بخود انسانوں کو قیادت کے منصب پر لے آتی ہیں۔ یہ ساری چیزیں اول تو کسی خاص وقت میں تمام انسانوں میں برابر نہیں ہوتیں۔ لیکن اگر نظری طور پر یہ تصور بھی کیا جائے کہ کسی خاص وقت میں یہ برابر ہوں تو بھی قائد کوئی ایک ہی ہوسکتا ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں کسی بھی اجتماعیت کا امتحان ہوتا ہے۔ یہ امتحان کہ اجتماعیت کی بقا اور تحفظ کے لیے کوئی ایک اپنے آپ کو پیچھے ہٹا لے۔ ایسی صورت میں کسی ایک کو یہ فیصلہ کرنا ہی پڑتا ہے کہ اپنی باری کا انتظار کرے۔ کیونکہ کسی ایک مقام پر دو قائد ہوں گے تو ان میں تصادم ہو جائے گا۔
لوگوں سے تعلقات: قائدانہ اوصاف کے حوالے سے اگلا عنوان انسانی تعلقات ہے۔ انسانوں کے ساتھ رویہ اور ان کے ساتھ میل جول کا انداز‘ ان پر اثر انداز ہونے کا موقع بھی ہوتا ہے اور انھیں اپنے سے دور کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ قائد اور اس کے ساتھیوں کے درمیان محبت اور اخلاص کا تعلق جتنا بڑھتا چلا جائے گا‘ قائد کا کام آسان تر ہوتا جائے گا۔ حقیقی قائد کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ تعلق مادیت اور مفاد پر نہیں بلکہ اعتماد اور خیر خواہی پر مبنی ہوتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ لوگ قائد کی بات مانتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ڈاکٹر مریض کو اس کی پسندیدہ غذا سے روکتا ہے اور مریض اس کی ہدایات کی تعمیل کرتا ہے‘ یا بچے کو آپ کسی وقت اس کی دل چسپی کے کسی عمل سے روکتے بھی ہیں تو بھی وہ بخوشی آپ کی بات مانتا ہے۔ وہ یہ اعتماد کرتا ہے کہ یہ عمل اس کے ساتھ خیر خواہی‘ اخلاص و محبت پر مبنی ہے۔ یہی عام مشاہدہ ہے۔ لیکن جہاں والدین سے تعلق کے بارے میں محبت‘ اخلاص اور خیرخواہی کا تصور موجود نہ ہو وہاں بچہ پھر اپنے والدین کی بات نہیں مانتا۔ ایسا نہیں ہے کہ والدین بچے کے خیر خواہ نہ ہوں‘ لیکن درحقیقت ان کے درمیان باہمی ابلاغ میں ایک فاصلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ قائد اور اس کے ماننے والوں کے درمیان اعتماد اور تعلق برقرار رہنا چاہیے۔ ایسا تعلق جو اخلاص اور محبت پر مبنی ہو کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھی اور حصہ ہیں۔
واقفیت: اس تعلق کے قیام اور اسے برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ قائد اپنے ساتھ چلنے والے لوگوں سے واقف ہو۔ واقفیت صرف نام جاننے کا نام نہیں‘ واقفیت گھر کے حالات سے ہو‘ اہل خانہ کے بارے میں ہو‘ خاندان سے ہو۔ اس شناسائی کے نتیجے میں روزمرہ معاملات میں شرکت ہوتی ہے اور ایک دوسرے سے قربت کے نئے نئے مواقع ملتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں کا خیال اور اپنے ساتھیوں کی خوشیوں اور پریشانیوں میں شرکت کے نتیجے ہی میں قائد کے لیے قائدانہ کردار ادا کرنا ممکن ہے۔ اس کے بغیر قائم ہونے والا تعلق ملازم اور افسر کا تعلق ہوتا ہے۔ یہ تعلق بھی ایک حد تک نتائج دیتا ہے لیکن یہ کسی ادارے یا تنظیم کو آگے بڑھانے اورمستقبل میں اپنے مقاصد کے تحت کسی بڑی تبدیلی لانے کے قابل نہیں بنا سکتا۔ اس اعتبار سے اپنے ساتھیوں کو جاننا‘ انھیں اپنی محبت‘ ہمدردی‘ اپنائیت‘ ذاتی تعلق اورخیرخواہی کا احساس دلانا۔ ان کی پسند‘ان کے مزاج کا خیال رکھنا یہ ساری کی ساری چیزیں قائد کے مزاج اور طبیعت کا ناگزیر حصہ ہوتی ہیں۔
مزاج کا خیال: مزاج کا خیال بذات خود ایک اہم عنوان ہے۔ قائد کا کام ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی منصوبہ بندی اور ترجیحات کے مطابق کام پر لگائے لیکن یہ ممکن نہیں کہ ہر آدمی اپنے مزاج‘ دل چسپی اور میدانِ کار کے حوالے سے یکساں ہو۔ چنانچہ قائد کا ایک بہت اہم فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ چلنے والوں کے بارے میں سوچے اور فیصلہ کرے کہ کون سا آدمی کس کام کے لیے اہل ہے؟ جو جس کام میں دل چسپی اور شوق رکھتا ہے وہ بالعموم اس کام کی اہلیت بھی حاصل کر لیتا ہے۔ حکم اور ہدایت تو دُور کی بات ہے‘ ایسی صورت میں اشارے کی بھی ضرورت نہیں ہو تی۔ لوگ مشکل سے مشکل صورت حال سے نمٹنے کے لیے خود ہی راستہ نکال لیتے ہیں‘ نئے نئے تجربات کرتے ہیں اور اپنی نجی ضروریات کی قربانی بھی دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً وہ خود بھی کامیاب ہوتے ہیں اور قائد کا سر بھی بلند کرتے ہیں۔
چنانچہ جب کہا جاتا ہے کہ قائد کو عقل استعمال کرنی ہے‘ تو عقل کے استعمال کا یہ ایک اہم مقام ہے کہ وہ اپنے پاس موجود انسانی وسائل کو بہترین انداز میں استعمال کرنے کے لیے سوچے‘ غوروفکر کرے۔ جتنا وہ اس پر غور کرے گا اس کے لیے ضروری ہوتا جائے گا کہ اپنے ہدف کے حصول کے لیے نئے نئے راستے اور نئے نئے کام نکالے۔ اگر میدان عمل محدود ہے جس میں نئے اقدامات کی گنجایش نہ ہو تواس کا فرض ہے کہ جو کام فی الوقت موجود ہیں انھیں دل چسپ بنائے۔ لوگوں میں کسی خاص کام یا شعبے کے حوالے سے کوئی حجاب ہے تو اسے دور کرنے کے لیے اقدامات کرے اور جہاں ضروری ہو ان کے لیے تربیت کا اہتمام کرائے۔
قائد کو یہ احساس ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اپنا وقت اس کے حوالے کر دیا ہے‘ جو اس کے فیصلوں اور اس کی ترجیحات کے مطابق اپنی صلاحیتوں اور وسائل کے ساتھ سرگرم عمل ہیں تو ان کی صلاحیتوں کی نشوونما‘ ان کی ترقی اور ان کا مفاد قائد کے اپنے مفاد کی طرح ہے۔ وہ انتظام کرتا ہے کہ وہ لوگ نئے نئے کام اور ہنر سیکھیں‘ ان میں مشکلات سے نبرد آزما ہونے کی استعداد پیدا ہو جائے اور وہ زندگی کے میدان میں بڑا کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکیں۔ اس طرح لوگ آگے بڑھتے ہیں تو مجموعی استعداد میں بھی اضافہ ہوتاہے۔ ماحول سازگار تر ہو جاتا ہے اور ادارہ اور تنظیم جس تبدیلی (ہدف کے حصول) کے لیے کوشاں ہوتے ہیں وہ تبدیلی آسان تر ہو جاتی ہے۔
سماجی و نظریاتی اور دعوتی تنظیموں کے حوالے سے تو اس میدان میں بڑی وسعت ہے۔ یہاں تو معاشرے کے ہر طبقے میں کام کے لیے لوگ درکار ہوتے ہیں اور ہر طرح کے کاموں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ چنانچہ ہنر سکھانے‘ یعنی اپنی ٹیم کے افراد کو زیادہ کار آمد بنانے کے لیے کتنے ہی عنوانات ہوسکتے ہیں مثال کے طور پر آپ کو پبلسٹی اور ریکارڈ کے لیے تصویر کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے اس کے لیے اپنے کارکن کو فوٹو گرافی سکھائی جا سکتی ہے۔ کسی کارکن کو ڈرائیونگ نہیں آتی تو اسے ڈرائیونگ سکھائی جا سکتی ہے۔ اپنے کارکنوں کو ابتدائی طبی امداد کے طریقے سکھائے جا سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے تنظیمی اور ادارتی طور پر کئی برسوں میں بھی اس کی ضرورت نہ پیش آئے لیکن ابتدائی طبی امداد کا کام سیکھ کر وہ اپنے محلے اور گاؤں میں‘ اپنے حلقۂ احباب اور برادری میں یا کسی ہنگامی صورت حال میں‘ لوگوں کی خدمت کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ یہ درست ہے کہ بعض کارکنوں کے لیے ایسا سلسلہ ایک بڑا اضافی بوجھ ہو گا۔ ایسے کارکنوں کو یہ کام نہ دیا جائے لیکن بہت سے کارکن‘ بڑے شوق سے ایسے کام کریں گے۔ سماجی تنظیموں کے قائد کا کام تو یہ ہے کہ معاشرے کے بے شمار مسائل میں سے جس جس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی تربیتی پروگرام وہ بنا سکتے ہوں بنائیں۔ تربیتی پروگرام سے ان کی انفرادی اور اجتماعی صلاحیت میں اضافہ ہو گا۔ اس اعتبار سے قائد کا کام ایک لگی بندھی فہرست پر کام کروانا نہیں ہے۔ جو لوگ ساتھ چل رہے ہیں ان کو جاننے‘ ان کے مزاج‘ شوق اور دل چسپیوں کو جاننے اور ان کی صلاحیت اور استعداد کار میں اضافہ کرنے کے ان تمام پہلوؤں پر قائد کی نگاہ ہوتی ہے۔
رابطے اور گفتگو کی صلاحیت: اس کے ساتھ ساتھ قائد ابلاغ اور رابطے کی صلاحیت پر توجہ دیتا ہے۔ اس کی بات میں ابہام نہیں ہوتا۔ اس کا ذہن صاف ہوتا ہے کہ اسے کیا کرنا اور کرانا ہے۔اپنے پیغام کو وہ اس کے مطابق واضح طور پر ترتیب دیتا ہے اور اس واضح پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے صحیح الفاظ اور صحیح وقت کا انتخاب کرتا ہے۔ اس کے لیے ناگزیر ہے کہ قائد دوسروں کی ذہنی سطح پر اور ان کے حالات کی روشنی میں چیزوں کو سمجھ سکتا ہو۔
ابلاغ اور رابطے ہی کا ایک اہم پہلو جس کی جانب پہلے بھی ضمنی طور پر اشارہ آیا‘ یہ ہے کہ قائد خود اپنے ساتھ بات کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے پاس اپنے لیے کچھ وقت ہوتا ہے۔ روزانہ‘ ہفتے میں چند گھنٹے‘ وہ تنہائی میں غور کرتاہے‘ سوچتا ہے کہ جو کچھ کیا‘ ٹھیک کیا ہے؟ کیسے آگے بڑھوں؟ فلاں فلاں مسئلہ کیسے حل ہو سکتا ہے؟ جب کوئی فرد اپنے ساتھ ملاقات کا وقت نہیں نکال سکتا تو اس کی اصلاح کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ وہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ درحقیقت وہ مستقبل میں درست طور پر دیکھنے کے قابل نہیں رہتا۔ چنانچہ جو جتنے بڑے منصب پر فائز ہے‘ اس کے لیے اتنا ہی ناگزیر ہے کہ وہ اپنے ساتھ ملاقات کے لیے وقت نکالے۔
مخاطب کی استعداد اور دل چسپی: واضح اور دوٹوک پیغام‘ غیر مبہم الفاظ‘ مناسب وقت اور مو قع محل کا انتخاب ابلاغ اور رابطے کے بے حد اہم اجزا ہیں۔ کیا بات کرنی ہے اور کس طرح کرنی ہے‘ اس پر قائد کی مسلسل توجہ رہتی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ قائد کو یہ معلوم ہوتا ہے‘ اور یہ بہت اہم بات ہے‘ کہ اس نے اپنی بات کب ختم کرنی ہے۔ قائدانہ کردار کے حامل لوگ ماحول‘ مخاطب کی ذہنی استعداد اور موضوع میں ان کی دل چسپی کے مطابق گفتگو کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ یہ منصوبہ بندی ایک ایسا ذہنی عمل ہے جو ملاقات اور گفتگو کے دوران بھی جاری رہتا ہے۔ چنانچہ وہ بہت جلد یہ اندازہ کر لیتے ہیں کہ ان کی گفتگو میں سامعین کی دل چسپی کس قدر ہے۔ اگر یہ دل چسپی باقی نہ رہے توکسی مناسب انداز میں بات کو ختم کر دینا یا موضوع کو تبدیل کرنا چاہیے۔ گفتگو کے ضمن میں یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ گفتگو صرف بولنے کا نام نہیں ہے۔ درحقیقت گفتگو‘ بولنے اور سننے کے مشترکہ عمل کا نام ہے۔ قائد کی گفتگو کا بڑا حصہ سننے پر مشتمل ہوتا ہے۔ زیادہ بولنے والا‘ درحقیقت دوسروں کی رائے‘ جذبات‘ معلومات اور تجزیے سے محروم ہوجاتا ہے۔
حرکات و سکنات کا فہم: یہاں ابلاغ کے اہم ترین پہلو کی نشان دہی ضروری ہے۔ عام خیال کے برعکس رابطہ‘ ملاقات اور گفتگو میں الفاظ کی اہمیت سے کہیں زیادہ اہمیت‘ چہرے کے تاثرات اور ان جسمانی حرکات کی ہوتی ہے جو بولنے اور سننے والے کی جانب سے بے ساختہ سامنے آتی ہیں۔ اسے حرکات و سکنات کی زبان (Body Language) کہا جاتا ہے۔ الفاظ کی ادایگی کس لب و لہجے میں کی جا رہی ہے؟ چہرے کے تأثرات کیا ہیں؟ ہاتھ اور پاؤں کی جنبش کیا اشارے دے رہی ہے؟ انسان کی آنکھیں بتاتی ہیں کہ وہ کسی چیز میں کس قدر دل چسپی لے رہا ہے‘ جسے حرکات و سکنات سمجھنا نہیں آتا وہ ابلاغ کے فن سے ناواقف ہے۔ باڈی لینگویج بتا دیتی ہے کہ غصہ آ رہا ہے‘ حیرانی ہو رہی ہے‘ دل چسپی بڑھ رہی ہے‘ مخاطب محظوظ ہو رہا ہے یا دل چسپی ختم ہو چکی ہے اور ذہن کسی اور طرف متوجہ ہو چکا ہے۔ اور جو ان چیزوں کو جانتا ہے وہ زبان سے الفاظ کی ادایگی کے ساتھ اپنے تاثرات اور اپنی حرکات و سکنات سے بھی پیغام رسانی کر رہا ہوتا ہے۔ باڈی لینگویج کی اہمیت انفرادی رابطے میں بھی اسی قدر ہے جتنی خطابت اور اجتماعی رابطے میں ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ ٹیلی فون اور خط و کتابت میں بھی اس کی جھلک پوری طرح موجود ہوتی ہے جسے قائدانہ مزاج کے حامل لوگ بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔
بروقت فیصلہ: قائدانہ کردار کے حوالے سے ایک اہم عنوان فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ یہ اتنا اہم اور بڑا موضوع ہے کہ اس پر علیحدہ سے گفتگو ہونی چاہیے‘ تاہم ابلاغ کے ذیل میں اس کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ قائد کا بنیادی کام ہی فیصلے کرنا اور عملدرآمد کے لیے اپنے ساتھیوں کو مطلع کرنا ہے۔ اگر وہ تذبذب کا شکار اور گومگو کے عالم میں ہے تو لوگ منتظر ہی رہ جائیں گے اور بہت سا قیمتی وقت ضائع ہو جائے گا۔ قائد جانتا ہے کہ فیصلے میں غلطی ہو سکتی ہے لیکن وہ خطرات مول لینے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ غور و فکر کے ضروری تقاضوں کی تکمیل کے بعد وہ بروقت فیصلے کرتا اور متعلقہ افراد تک پہنچاتا ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ ایک غلط فیصلہ اس سے بہتر ہے کہ غیریقینی صورت حال میں رہا جائے۔ غلط فیصلہ ہو بھی جائے تو اس کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے کوئی نیا فیصلہ ہو سکتا ہے۔ لیکن جو لوگ تذبذب اور گومگو کے عالم میں رہتے ہیں ان کے ساتھ لوگ چل نہیں سکتے۔
آپ اچھی طرح سوچیں‘ بہتر سے بہتر فیصلہ کرنے کے بارے میں غور و فکر اور مشاورت کریں۔ دعا اور استخارہ اور اللہ سے مدد طلب کرنے کا اہتمام کریں۔ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود کوئی حد ہونی چاہیے کہ سارے خطرات کے باوجود اب فیصلہ کرنا ہے۔ فیصلے کے اثرات توقع کے مطابق نہ ہوں تو اس پر بھی غور کریں کہ کیا فیصلے کے لیے سوچ بچار میں کوئی کسر تھی؟ مفروضے اور اندازے غلط تھے؟ یا محض حادثہ اور اتفاق ہے کہ حالات تبدیل ہو گئے اور فیصلے کے مطلوبہ اثرات سامنے نہ آ سکے۔ بلاشبہہ اب ان اثرات کے تدارک کا انتظام کرنا ہو گا۔ لیکن آپ غیر یقینی کیفیت سے نکل آئیں گے۔
نظرانداز کرنے کی خوبی: قائدانہ کردار کے لیے ایک اور اہم وصف بھول جانے اور نظرانداز کرنے کی صلاحیت ہے۔ قائد‘ اعلیٰ ظرف ہوتا ہے۔ اس لیے لوگوں کی جانب سے پہنچنے والی بہت سی تکالیف کو نظر انداز کر سکتا ہے۔ تلخیوں اور شکایتوں کو یاد رکھنے والے لوگ قائدانہ کردار ادا نہیں کر سکتے کیوں کہ وہ اشتعال‘ غصے اور انتقام کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کی صلاحیتیں منفی مقاصد کے لیے استعمال ہونے لگتی ہیں اور اصل اہداف اور ترجیحات پسِ منظر میں چلی جاتی ہیں۔ انتقام ہی ہدف بن جاتا ہے۔
انسانی ذہن کو اللہ تعالیٰ نے بہت کچھ ذخیرہ کرنے کی صلاحیت دی ہے لیکن ہر ہر چیز کو یاد رکھنا اور اپنے ذہن پر بوجھ بنانا درست طرز عمل نہیں ہے۔ کامیاب لوگ محض کام کی بات یاد رکھتے ہیں اور مختصر الفاظ میں یاد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی لوگ دراصل قائدانہ کردار ادا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ قائدانہ کردار کے حوالے سے ان چیزوں کو اپنے دماغ میں محفوظ کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے جن کا تعلق مطلوبہ ہدف اور منزل سے ہے۔ ہدف کی طرف آگے بڑھانے والی چیزوں کے علاوہ باقی چیزوں کو نظرانداز کر دینا چاہیے۔
اسی طرح قائد پریشانیوں اور مشکلات کو اپنے اوپر طاری نہیں ہونے دیتا۔ وہ جانتا ہے کہ پریشانیاں اور مشکلات زندگی کا حصہ ہیں۔ بلاشبہہ انھیں حل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے لیکن اگر وہ حل نہیں ہو سکتیں تو انھیں بھول جانا ہی بہتر ہے‘ کیونکہ انھیں ہروقت ذہن پر طاری رکھا جائے تو ذہن الجھاؤ اور انتشار کا شکار رہے گا اور کوئی بھی کام مثبت طور پر نہ ہو سکے گا۔ اسی طرح قائد جانتا ہے کہ بڑھتی ہوئی عمر اور بیماریوں کو بھول جانا چاہیے۔ جو لوگ عمر کو یاد رکھتے ہیں کہ میں اب ۵۰یا ۶۰سال کا ہو گیا ہوں‘ اب فلاں فلاں کام کیسے کر سکوں گا؟ پہلے بہت کچھ کرتا تھا اب مشکل ہو گیا ہے‘ مشکلات ان کے ذہن پر مسلط ہوتی چلی جاتی ہیں جس سے اُن کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔
دُور رس اثرات اور اعلٰی معیار پر توجہ: یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جتنے دن ہم اس دنیا میں ہیں‘مستقبل اس سے کہیں زیادہ طویل اور لامتناہی ہے۔ زندگی تو ایک ہزار سال بعد بھی ہو گی۔ سال ۲۰۰۳ء کے بعد سال ۳۰۰۳ء بھی آئے گا۔ دنیا تو اس سے آگے بھی چل رہی ہو گی۔ قیادت کو صدقہ جاریہ کا موقع حاصل ہے اور صدقہ جاریہ تو نام ہی اس کا ہے کہ مستقبل کے بارے میں سوچا جائے۔ ایسا کام جو انسان کی موت کے بعد بھی نتائج دے سکتا ہو اس حوالے سے کاموں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے‘ اس کو اپنی عمر کے ساتھ محدود کیوں کیا جائے۔ آج ہم وہ کتابیں پڑھتے ہیں جو آج سے ایک ہزار سال پہلے لکھی گئیں۔ کیا ان کتابوں کے لکھنے والوں نے یہ سوچا تھا کہ وہ اپنے یا اپنے بعد کے دور کے لیے لکھ رہے ہیں؟ اگر آج سے ایک ہزار سال پہلے لوگ یہ کام کر سکتے تھے تو آج تو سہولتیں زیادہ ہیں۔ ٹکنالوجی بہت آگے بڑھ گئی ہے۔ ٹکنالوجی کی ترقی اور دستیاب سہولتوں کو دیکھا جائے تو آج کے انسان کا حصہ (contribution) تو ماضی کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہو سکتا ہے۔ بڑا اور وسیع تر وژن سامنے ہو تو انسانی صلاحیت محدود نہیں ہوتی۔
اسی ضمن میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ ہر کام کو اچھے سے اچھے معیار پر کرنے کی کوشش کی جائے۔ اچھے معیار کا پیمانہ یہ ہے کہ خواہ معمولی کام ہی کیوں نہ ہو‘ پوری توجہ اور اہتمام سے اس طرح کریں کہ اگر اس پر اپنے دستخط کرنے کے لیے کہا جائے تو آپ خوشی خوشی دستخط کر رہے ہوں کہ ہاں‘ لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے یہ کام میں نے کیا ہے۔ جب آپ نے ایک کام میں ہاتھ ڈال دیا تو پھر اسے احسن انداز میں ہونا چاہیے۔ ہدف یہ ہو کہ اس کام کو اتنی اچھی طرح کرنا ہے کہ اس سے زیادہ بہتر انداز میں اسے سرانجام دینے والا دنیا بھر میں کوئی نہیں ہو گا۔ احسن انداز میں کام کی بروقت اور وسائل کے اندر رہتے ہوئے تکمیل بھی شامل ہے۔ معیار اور معیار کے حصول میں درکار وقت اور وسائل میں توازن قائم کرنے کا نام قائدانہ کردار ہے۔ یہ لوگ اپنے کاموں کے ساتھ تعلق کی اس کیفیت میں ہوتے ہیں۔ ان کو جب کوئی کام ملتا ہے تو وہ اپنے میدان میں خود بخود آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ قائد کا یہ طرز عمل اس کے ساتھیوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔
کامیابیوں کو یاد رکھنا: قائد کے لیے جہاں بہت سی چیزوں کو بھول جانا ضروری ہے وہاں اپنی کامیابیوں کو یاد رکھنا بھی ضروری ہے۔ قائد ‘تنہائی میں اپنی کامیابیوں کو بھی یاد کرتے ہیں۔ اس لیے کہ کامیابیاں خود اعتمادی اور آگے بڑھنے کے لیے امنگ پیدا کرتی ہیں۔ کامیابیوں پر خوش ہونا فطری ہے۔ پریشانیاں گھیر رہی ہوں‘ مشکلات کا سامنا ہو تو اس موقع پر اپنی خوشیوں کو یاد کیجیے۔ اس سے ناکامیوں اور مشکلات کے ناگوار اثرات کم ہو جاتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ کے شکر کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور اس ہستی کی جانب انسان متوجہ ہو جاتا ہے جو سب سے زیادہ طاقت ور ہے اور ہر مشکل کو آسان بنا سکتی ہے۔ زندگی کامیابیوں اور ناکامیوں کے امتزاج کا نام ہے۔ اس میں سارے لوگوں کو کامیابیاں بھی نہیں ملتیں‘ اور سارے لوگوں کو ناکامیاں بھی نہیں ملتیں۔ کامیاب لوگ کامیابیوں اور ناکامیوں کے ذخیرے سے اپنی کامیابیاں یاد رکھتے ہیں‘ ان سے خود اعتمادی اور حوصلہ حاصل کرتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر دوسروں کو حوصلہ بھی دیتے ہیں۔
اپنی جگہ سے ہٹ کر دیکھنا: قائد اس امر کا بھی اہتمام کرتا ہے کہ کبھی کبھی اپنی جگہ سے ہٹ کر دوسروں کے نقطۂ نظر اور زاویۂ نگاہ سے چیزوں پر غور کرے۔ وہ جانتا ہے کہ جب مسلسل ایک ہی مقام سے چیزوں کو دیکھا جائے تو تصویر کا ایک خاص رخ ہی نظر آتا ہے۔ دوسری جانب سے دیکھا جائے تو تصویر کا دوسرا رخ بھی نظر آنے لگے گا۔ قائدانہ کردار ادا کرنے والوں کی یہ انتہائی اہم ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ اپنی جگہ سے ہٹ کر چیزوں کو دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ کوئی دوسرا منظر اور تناظر بھی ہے۔ اس کے نتیجے میں فیصلے کا پورا عمل مثبت طور پر متاثر ہوتا ہے۔
مشغلہ اور شوق: اپنے معمولات میں کوئی نہ کوئی مشغلہ اور شوق اختیار کرنا بھی کامیاب قائد کے اوصاف میں شامل ہے۔ قائدانہ کردار ادا کرنے والے کامیاب لوگوں پر نظر ڈالی جائے تو ان کی زندگی میں کہیں نہ کہیں کوئی ایسا مشغلہ مل جائے گا جس سے وہ اپنے آپ کو relax کرتے ہیں‘ اپنے آپ کو تروتازہ اور ازسرنو کام کے لیے تیار کرتے ہیں۔ درحقیقت عام مشاغل اور دل چسپیاں انسان کو ایک مختلف دائرے میں کامیابیاں اور کامیابیوں کا احساس دے رہی ہوتی ہیں۔ یوں بھی انسان یکسانیت سے اکتا جاتا ہے دیگر مشاغل‘ روز مرہ معمول کے مقابلے میں تبدیلی فراہم کرتے ہیں۔ مشاغل اور دل چسپیاں عمومی دائرے سے ہٹ کر نئے نئے تعلقات اور نئے تجربات کے حصول کا ذریعہ بھی بنتی ہیں۔
مسکراہٹ: مسکراہٹ‘ قائد کی شخصیت کا اہم ترین پہلو ہے۔ قائد کا مسکراتا ہوا چہرہ لوگوں کو اس کے قریب لاتا ہے۔ نبی صلی اﷲ علیہ و سلم نے اسی لیے مسکراہٹ کو صدقہ قرار دیا ہے۔ چہرے پر تناؤ‘ اجنبیت‘ غصہ یا سرد مہری‘ شخصیت کی ساری کشش ختم کر دیتی ہے۔ قائد کی مسکراہٹ لوگوں کو خوشیاں دیتی ہے۔ اور یاد رکھیے لوگوں کو خوشیاں وہی دے سکتا ہے جو مشکلات اور پریشانیوں کے باوجود زندگی کے مثبت پہلو کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور بھرپور اور مطمئن زندگی گزارتا ہو۔ (یہ تحریر ستمبر ۲۰۰۳ء میںلاہور میں کی گئی ایک تقریر کی تلخیص پر مبنی ہے)