شیخ محمد محمود الصّواف


اخذ و ترجمہ: عبدالرحمن الکاف

الشیخ محمد محمود الصواف جامعہ ازہر کے فارغ التحصیل ایک معروف عالم دین تھے۔ عراق میں اخوان المسلمون کے مراقب عام رہے۔ اپنے علمی مقام و مرتبے کی بنا پر انھوں نے عراقی ریڈیو پر روزانہ درس قرآن علٰی مائدۃ القرآن (قرآنی دسترخوان پر) کے ذریعے بھی خدمات انجام دیں۔ وزیراعظم نوری السعید کے دور میں اخوان پر ظلم و ستم توڑا گیا۔ شیخ الصواف نے بھی قیدوبند کی صعوبت برداشت کی۔ بعد میں مخدوش حالات کے پیش نظرعراق سے سعودی عرب منتقل ہو گئے۔ یہاں انھوں نے وزارت تعلیم میں نمایاں خدمات انجام دیں اور ریڈیو پر دروس من کتاب اللّٰہ کے عنوان سے تقاریر کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ سعودی عرب میں علمی اعتبار سے شیخ موصوف کی پذیرائی ہوئی۔ انھوں نے عراقی اور سعودی ریڈیو کی تقریروں سے یہ کتاب ترتیب دی‘ جس کا نام انھوں نے فاتحۃ القرآن  وجزعم الخاتم للقرآن (تفسیر و بیان) رکھا ہے۔ اس تفسیر کو بہت سراہا گیا۔

قرآن کریم ایک ناقابل تقسیم وحدت

شیخ محمد الصواف کے ہاں قرآن کریم (از اول تا آخر) ایک ناقابل تقسیم وحدت ہے۔ اس حقیقت کو انھوں نے اپنی تفسیر کے مقدمے میں اس طرح واضح کیا ہے:

فاتحۃ القرآن ___ سورئہ فاتحہ ___ اور خاتمۃ القرآن ___ سورۃ الناس ___میں ایک گہرا ربط‘   ہم آہنگی اور معنوں میں یک جہتی پائی جاتی ہے۔ ایک مسلمان قرآنی گلستان اور اس کے وسیع سمندر میں   اللہ رب العالمین ‘ رحمن و رحیم کے شکروثنا کے ساتھ داخل ہوتا ہے۔ اس سے اس کی ہدایت‘ حمایت‘ سرپرستی طلب کرتے ہوئے اس کا یہ سفر قرآن کریم کے موتیوں کی تلاش میں غوطہ زن ہونے سے شروع ہوتا ہے جس میں وہ ہر سو قرآنی انوار میں گھرا ہوا ہوتا ہے۔ جب وہ اپنا سفر ختم کر لیتا اور اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے تو وہ  رب الناس (بندوں کے رب) کی پناہ طلب کرتا ہے۔ قرآن کے خاتمے میں جو رب الناس ہے وہی   آغاز میں رب العالمین ہے‘ تو دیکھوکتنا گہرا ربط ہے ان دونوں سورتوں میں ___ سورۃ الفاتحہ اور سورۃ الناس میں۔ آخری سورہ میں جو ملک الناس (لوگوں کا مالک اور بادشاہ) ہے وہی سورۃ الفاتحہ میں مالک یوم الدین ہے۔ اس طرح مالک اور رب بھی ایک ‘ الٰہ اور معبود بھی ایک‘ جس سے مدد طلب کی جائے وہ بھی ایک اور دیّان (چھا جانے والا/ دبوچنے والا/ چت کرنے والا) بھی ایک ہی ہوا۔ وہی رحمن اور رحیم اور وہی الہادی العظیم ہے۔ اسی نے وہ قرآن نازل فرمایا ہے جس کے پہلے اور آخری حصے میں ایک ایسی چیز پائی جاتی ہے جو اس کے ہر لفظ کو اس سے پہلے آنے والے لفظ سے اس طرح جوڑتی ہے جیسے روح ‘ جسد سے جڑی ہوئی ہوتی ہے۔ وہ ایک ایسا مرتب اور مرصّع ہار ہے جس کا ہر کلمہ اپنے سے پہلے اور بعد کے کلمے سے اس طرح مربوط ہے جس طرح ہاتھ مٹھی سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔

اس آخری سورہ میں اللہ تعالیٰ نے قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاس (کہو کہ میں لوگوں کے رب کی پناہ طلب کرتا ہوں) فرماکر صرف اپنے آپ سے مدد طلب کرنے اور پناہ طلب کرنے کا حکم دیا ہے‘ جب کہ سورہ فاتحہ میں طلب ِامداد کو صرف اپنی ذاتِ شریفہ و مبارکہ کے لیے مخصوص کرنے کا حکم یہ کہہ کر دیا تھا:  اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ (ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں‘ اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں)۔

یہ ایک دوسرا انداز ہے یہ کہنے کا کہ مصحف شریف میں جو کچھ بھی ہے وہ ایک ہی شے ہے جو ایک دوسرے سے مربوط ہے۔ وہ یہ بتانے کے لیے ہے کہ ابتداے کتاب سے انتہاے کتاب تک‘ اس دین میں‘ اس عظیم اسلام میں اور اس کی کتابِ عظیم میں‘ سارے ہی معاملات کی باگ ڈور صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ صرف اس کی طرف متوجہ ہو کر اور اس کی ربوبیت و الوہیت کا اس کے اسماے مبارکہ اور صفاتِ عالیہ کے ساتھ اقرار کر کے اور قول و عمل کو صرف اس کے لیے خالص کر کے‘ اس کی پناہ طلب کر کے اور مدد مانگ کر اور اس پر بھروسا کر کے اور اس کی چادر کو تھام کر اور اس میں پناہ اور عافیت طلب کرتے ہوئے اور اس کے دروازے کے آگے کھڑے رہ کر کہ وہ ایسا بادشاہ ہے جس کو شکست نہیں دی جا سکتی‘ کیونکہ اس کا اقتدار سب سے وسیع اور قوی ہے___ شدائد میں اسی کی پناہ طلب کی جاتی ہے۔ برے حالات میں اسی کو پکارا جاتا ہے کیونکہ وہ مدد دینے اور کمک پہنچانے والا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور ایسا بادشاہ نہیں ہے جس کی آغوش میں پناہ لی جا سکے۔ جب اچانک کوئی دشمن دھاوا بول دے تو اسی کی دہائی دی جاتی ہے۔ جب کوئی دشمن گھر میں در آئے تو وہی یومِ جزا کا مالک ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور نہ تو مالک ہی ہے اور نہ جزا دینے والا۔ دنیا میں وہ ایک ایسا بادشاہ ہے جو اپنے اقتدار میں کسی اور کی شراکت قبول نہیں کرتا ہے‘ اور آخرت میں وہ تنہا جزا و سزا کا مالک ہے۔

فاتحۃ القرآن میں ہم اللہ سے سیدھے راستے کی ہدایت طلب کرتے ہیں اور سورۃ الناس میں وسواس الخنّاس(جو جنوں اور انسانوں کے سینوں میں وسواس پیدا کرتا ہے) سے اس کی پناہ کے طالب ہوتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ملعون وسواس (جو جنوں اور انسانوں کی طرف سے ہوتا ہے) کا مقصد تمھیں جادئہ حق سے دُورکرنا اور تمھیں گمراہیوں کے اندھیروں میں دھکیلنا ہوتا ہے۔ تم ختم قرآن پر  اللہ سے دعا کرتے ہو کہ وہ تمھیں گمراہی سے بچائے اور اس راہِ حق پر گامزن رکھے جس کی طلب تم نے  فاتحۃ الکتاب میں کی تھی۔ دیکھو اس گہرے اور قوی ربط کو جو اوّل کتاب اور آخر کتاب میں پایا جاتا ہے اور وہ اپنے اسی مدار میں گھوم رہی ہے۔ جب تم اس مبارک سفر سے (جس میں ہدایت ہی ہدایت ہے‘ نور ہی نور ہے اور دلیل ہی دلیل ہے) فارغ ہوتے ہو‘ تلاوتِ قرآن کر کے‘ تم ان شیاطین سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہو تاکہ وہ تم کو جادئہ حق سے ہٹا کر گمراہیوں کے اندھیروں میں بھٹکنے کے لیے نہ چھوڑ دیں اور وہ تمھیں اُس پر عمل کرنے سے منع نہ کر سکیں جو تم نے قرآن پڑھ کر سیکھا اور حاصل کیا ہے۔ اگر انھوں نے تمھارے سامنے گناہ کو حسین بنا کر پیش کیا اور تمھیں ورغلایا تاکہ وہ تمھیں تمھارے ربّ کی کتاب سے دُور کریں اور اس سے ملاقات میں حائل ہوں اور اس سے سرگوشی میں تم وحشت محسوس کرو تو تمھیں چاہیے کہ قرآن کی تلاوت کرو۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: ’’جو شخص یہ چاہے کہ اپنے رب سے بات چیت کرے تو اسے چاہیے کہ وہ قرآن کی تلاوت کرے‘‘۔

انھوں نے اگر تم کو گمراہ کرنے کی کوشش کی تو تم ان پر غالب رہو گے کیونکہ تم نے اللہ کی پناہ طلب کی تھی۔ اس لیے تم اپنے رب الرحمن الرحیم کی طرف لوٹو‘ جو رب العالمین ہے۔ پھرایک اور بار اس سفر تلاوتِ قرآن پر چل پڑو اور پھر وہاں سے شروع کرو جہاں تک تم پہنچے تھے۔ اسی طرح اس راہِ الٰہی اور طریق ربانی پر اُن مسافروں کی طرح چلتے رہو جو ایک سفر سے فارغ بھی نہیں ہوتے ہیں کہ دوسرے سفر پر چل پڑتے ہیں۔ تم بھی کتاب اللہ کے سفر پر‘ اللہ کے نور کی روشنی میں‘ چلتے ہی رہو‘ بغیر اُکتائے ہوئے اور بغیر تھکے ہوئے‘ ایک ختم قرآن سے دوسرے ختم قرآن کی طرف‘ اور جب جب ختم کرو پھر شروع کرو اور سفر کو جاری رکھو اور اپنے ربّ کے فضل اور اس کی توفیق و ہدایت سے آگے ہی آگے بڑھتے رہو۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہترین عمل منزل پر پہنچ کر پھر سفر پر چل پڑنا ہے‘‘، یعنی قرآن کو شروع کر کے آخر تک پڑھنا اور پھر شروع کر دینا۔

قرآن کریم کے نظم اور اس کے اوّل سے آخر تک ایک دھاگے میں پروئے ہوئے ہونے کے سلسلے میں اتنی شان دار بحث میں نے آج تک کہیں نہیں پڑھی ہے۔

تفسیر سورۂ فا تحہ

’’المعنٰی العام‘‘ (عام معنیٰ) کے تحت لکھتے ہیں:

سورہ فاتحہ اپنے پہلو میں سارے ہی اہم قرآنی موضوعات و مطالب کو لیے ہوئے ہے۔ وہ قرآن کے اہم مقاصد و اہداف پر مشتمل ہے۔ علاوہ ازیں وہ قرآن کے اعلیٰ مقاصد پر محیط ہے۔

اس سورہ نے ہمارا تعارف رب الوجود وربِ معبود کے تین مبارک ناموں سے کرایا ہے بلکہ یہ تین نام اسماے حسنیٰ کے مرجع و مدار ہیں‘ اور وہ ہیں‘ اللہ‘ الرب‘ الرحمن۔ ان ناموں نے اللہ تعالیٰ کی حقیقی وحدانیت کو ثابت کیا ہے۔ یہی وہ ربّ ہے جس نے اس دین کو نازل فرمایا جو دین توحید ہے۔ اس سورہ نے قیامت کے دن کو ثابت کیا ہے جب بندوں کے بھلے اور برے اعمال کا بدلہ ایک ایسا خالق اور ربّ مقصود دے گا جو ان صفات میں یکتا ہے اور ان میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ وہ اس دن فیصلے صادر کرنے میں یکا و تنہا ہوگا۔ اس کا حکم عدل پر مبنی ہوگا اور ترازو کے پلڑوں کی برابری کی بنیاد پر ہوگا۔ یہ سب کچھ مالک یوم الدین کے مفہوم میں آتا ہے۔

اس کا نام الرحمن ہے۔ کیوں کہ اس کی رحمت کا تقاضا ہے کہ اس کے بندے ہدایت پائیں تاکہ وہ کمال کے اعلیٰ درجات تک پہنچ سکیں اور دنیا اور آخرت میں سعادت کی بلندیوںکو چھو سکیں۔

رحمت الٰہی کا ایک اور تقاضا یہ بھی تھا کہ پانی برسایا جائے‘ نباتات اُگائے جائیں‘ اناج پیدا کیے جائیں‘ زمین سے چشمے اُبل پڑیں‘ دریا بہیں‘درخت بارآور ہوں اور ملک آباد ہوں۔ اب رہا دلوں اور رُوحوں کی زندگی کا معاملہ اور ان کے آباد ہونے کا تقاضا تووہ اللہ کے رسولوں کے ذریعے پورا کیا گیا تاکہ وہ بندوں کی راہِ حق کی طرف رہنمائی کر سکیں ‘ان کو گمراہی‘ ظلم‘ فساد اور مہلک اعمال سے بچا سکیں‘ ان کے دلوں کی مادیت کے طوفان کے مقابلے میں حفاظت کر سکیں اور ان کو اخلاقی بحران اور بے راہ روی سے دُور کرسکیں۔

اس سورہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ عبادت صرف اور صرف اللہ ہی کی‘کی جانی چاہیے کیونکہ اس کے سوا کوئی اور عبادت کے لائق ہے ہی نہیں۔ اسی طرح مدد بھی صرف اور صرف اسی سے طلب کی جانی چاہیے (اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ) ‘اور یہ کہ ہدایت اور ضلالت اللہ کے ہاتھ میں ہے‘وہ جس کو چاہے ہدایت سے نوازے اور جس کو چاہے گمراہ کر دے۔ اس لیے ہدایت کی طلب بھی خاص اسی سے کی جانی چاہیے (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ)۔ اسی طرح اس سورہ نے گزری ہوئی قوموں کی داستانیں بیان کی ہیں جن پر اللہ نے رحم فرمایا‘ اورہدایت سے سرفراز فرمایا تھا۔ انبیا‘ شہدا‘ صالحین‘ یہ وہ لوگ ہیں جن کی صحبت بہت ہی حسین و جمیل اور پرلطف ہے (صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ)۔ اس کے مقابلے میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو گمراہی کے اندھیروں میں بھٹک گئے‘ جنھوں نے سرکشی کی روش اختیار کی اور غضب ِ الٰہی کے مستحق قرار پائے (الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ)۔

اگر آپ نے اس مقدمے کو غور سے پڑھا ہے تو آپ محسوس کریں گے کہ وہ دراصل کہنا چاہتے ہیں کہ سورہ فاتحہ اس منارئہ نور کی طرح ہے جس کی شعاعیں ہر طرف حرکت پذیر ہو کر جہازوں کی سمندر کے اندھیروں میں رہنمائی کرتی ہیں۔ اس طرح قرآن کریم کی ہر ہر سورہ‘ ہر ہر آیت اور ہر ہر لفظ میں سورئہ فاتحہ کی شعاعیں دیکھی اور محسوس کی جا سکتی ہیں‘ مثلاً ۳۰ ویں پارے کی پہلی سورہ عَمَّ یَتسآء لون ہی کو لیجیے۔ اس کا ربط سورہ فاتحہ کے الفاظ یوم الدّین سے بآسانی پیدا کیاجا سکتا ہے۔ کیونکہ اس میں کفار‘ اس کے بارے میں سوال جواب کر کے ‘ اختلاف کا شکار ہو رہے ہیں۔ آگے چل کر خود اللہ تعالیٰ نے قیامت کے واجب الوقوع ہونے کے بارے میں سوال کر کے مثبت جوابوں کی راہ ہموار کی ہے اور اس دن کی کیفیات‘ کوائف اور حالات بیان کیے ہیں (اگرچہ یہ میری طرف سے اضافہ ہے مگر یہ شیخ موصوف کی تحریر سے ازخود مترشح ہوتا ہے)۔

چند سورتوں کا باہمی ربط

آیئے اب ہم الشیخ الصواف کی سورتوں کے درمیان نظم قائم کرنے کی کوششوں کا جائزہ لیں۔ سب سے پہلے ہم سورہ النّبا  ہی کو لیتے ہیں۔ اس کا ربط انھوں نے اس سے ماقبل سورۃ المرسلات سے اس طرح قائم کیا ہے:

اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المرسلات کا اختتام قیامت کے دن کے ذکر سے فرمایا اور اس کے جھٹلانے والوں کو یہ کہہ کر دھمکی دی کہ:  وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ o فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ م بَعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَo (المرسلات ۷۷:۴۹-۵۰) ’’تباہی ہے اس روز جھٹلانے والوں کے لیے۔ اب اس (قرآن) کے بعد اور کون سا کلام ایسا ہو سکتا ہے جس پر یہ ایمان لائیں؟‘‘ سورہ کا آغاز اللہ تعالیٰ نے نبا ٔ عظیم اور قیامت کے ذکر سے کیا اور وہ دلائل پیش کیے جو قدرتِ الٰہی پر دلالت کرتے ہیں کہ وہ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھانے پر قدرت رکھتا ہے تاکہ لوگ اپنے اپنے اعمال کی جزا پانے کے لیے رب العالمین کے سامنے حاضر ہوں۔

اس کے علاوہ ان دو سورتوں المرسلات اور النّبا کے درمیان ایک اور پہلو سے بھی تعلق پایا جاتا ہے۔ دونوں سورتوں میں جنت اور جہنم کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں اور یہ بتایا گیا ہے کہ متقین کن نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے اور جھٹلانے والے کس قسم کے عذاب کا مزہ چکھیں گے۔ سورۃ النّبا میں ان امور کی تفصیلات کا ذکر ہے جو سورۃ المرسلات میں اجمالاً بیان کیے گئے تھے۔ سورۃ المرسلات میں اللہ تعالیٰ نے یوم الفصل کے بارے میں سوال پر اکتفا فرمایا تھا:

لِاَیِّ یَوْمٍ اُجِّلَتْ o لِیَوْمِ الْفَصْلِ o وَمَآ اَدْرٰکَ مَا یَوْمُ الْفَصْلِ o (المرسلات ۷۷: ۱۲-۱۴) کس روز کے لیے یہ کام اٹھا رکھا گیا ہے؟ فیصلے کے روز کے لیے۔ اور تمھیں کیا خبر کہ وہ فیصلے کا دن کیا ہے؟

سورۃ النّبا  میں اس دن کی تفصیل بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس میں کیا کچھ ہوگا:

اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ کَانَ مِیْقَاتًا o یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَتَاْتُوْنَ اَفْوَاجًا o وَّفُتِحَتِ السَّمَآئُ فَکَانَتْ اَبْوَابًا o وَّسُیِّرَتِ الْجِبَالُ فَکَانَتْ سَرَابًا o (النّبا ۷۸:۱۷-۲۰)

بے شک فیصلے کا دن ایک مقرر وقت ہے جس روز صور میں پھونک مار دی جائے گی‘ تم فوج در فوج نکل آئو گے اور آسمان کھول دیا جائے گا حتیٰ کہ وہ دروازے ہی دروازے بن کر رہ جائے گا‘ اور پہاڑ چلائے جائیں گے یہاں تک کہ وہ سراب ہو جائیں گے۔

سورۃ النّبا کا سورۃ النازعات سے ربط

سورۃ النّازعات کے مقدمے میں وہ لکھتے ہیں:

اس کی ۴۶ آیات ہیں اور یہ سورۃ النّبا کے بعد نازل ہوئی۔ اس کو النازعات ‘ السامرہ اور الطامۃ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کو النّبا کے بعد جگہ دی گئی کیونکہ جس دن زوردار جھٹکا ہوگا تو بڑی خبر (النبأ العظیم) کی ابتدا ہوگی۔ بالفاظِ دیگر یہ زوردار جھٹکا ’’بڑی خبر‘‘ کے دن کی شروعات میں سے ہے۔ اس کا ذکر الشیخ موسیٰ جار اللہ نے اپنی کتاب ترتیب السور وتناسبھا میں کیاہے۔

پھر وہ: صِلَۃُ السُّوَرَۃِ بِالَّتِیْ قَبْلَھَا (اس سورہ کا ماقبل سورہ سے تعلق) کے تحت لکھتے ہیں:

سورۃ النّبا میں اللہ تعالیٰ نے کفار کو قیامت کے دن کے عذاب سے ڈرایا تھا اور ان کو جہنم کی دھمکی دی تھی جو بدانجام ہونے کی دلیل ہے اور یہ کہ اس میں‘ ان کو‘ جو عذاب دیا جائے گا وہ ان کے عناد اور باطل پر اصرار اور نبی امینؐ کو جھٹلانے کے برابر ہوگا۔

اس سورہ میں اللہ تعالیٰ قسم کھاتے ہیں کہ موت کے بعد زندہ کیا جانا ایک ایسی حق بات ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے… جب انھوں نے دنیا میں دوبارہ اٹھائے جانے سے انکار کیا اور اس پر تعجب کا اظہار کیا تو ان کو جواب دیا گیا کہ الٰہ عظیم کے ہاں یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ صرف ایک چیخ کا معاملہ ہے جو پلک جھپکنے سے بھی کم مدت میں گونج اُٹھے گی اور پھر اچانک لوگ ایک بہت ہی بڑے میدان میں اپنے رب کے آگے نمودار ہو جائیں گے۔

قیامت کے وقوع پذیر ہونے کے بعد ہی مجرم قسم کھائیں گے کہ وہ دنیا میں ایک گھڑی ہی رہ پائے ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنی قبروں سے تیزی سے برآمد ہوں گے‘ ایک دوسرے سے سبقت لے جاتے ہوئے‘ گویا کہ ان کو کسی قربان گاہ کی طرف ہانکا جا رہا ہے۔ اس حال میں کہ ان کے دل منہ کو آ رہے ہوں گے اور آنکھیں خوف سے بھری ہوں گی اور وہ اپنے رب کی طرف اس کا عادلانہ فیصلہ سننے کے لیے دیکھ رہے ہوں گے۔ ان میں بعض بدبخت اور بعض خوش بخت ہوں گے۔

سورۃ الاعلٰی کا ماقبل ومابعد سورتوں سے تعلق

اب ہم نصف کے قریب سے ایک سورہ کو لیتے ہیں‘یہ دیکھنے کے لیے کہ ’’شیخ الصواف‘‘ نے کس طرح اس کا اگلی اور پچھلی سورتوں سے ربط بیان کیا ہے۔ یہ سورۃ الاعلیٰ ہے۔ مناسبتھا لما قبلھا (اس کی ماقبل سورہ سے مناسبت) کے تحت وہ کہتے ہیں:

سابقہ سورۃ الطارق ‘ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدایش کا ذکر فرمایا اور اسے یاد دہانی کروائی کہ: فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ o (الطارق ۸۶:۵) ’’پھر ذرا انسان یہی دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے‘‘۔ اور نباتات کی تخلیق کی طرف یہ کہہ کر اشارہ فرمایا کہ:  وَالْاَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ o (الطارق ۸۶: ۱۲) ’’اور پھٹ جانے والی زمین کی‘‘وغیرہ۔ یہاں اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے خلق انسان کا ذکر کیا ہے کہ اس نے اس کو پیدا کیا اور اس کو ٹھیک ٹھیک انداز میں بنایا اور اس کی تقدیر لکھ کر اس کی ہدایت کا سامان مہیا کیا۔ بعدازاں نباتات کی پیدایش کا حال سابقہ سورہ سے زیادہ وضاحت اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا۔ یہ فرماتے ہوئے کہ:  وَالَّذِیْٓ اَخْرَجَ الْمَرْعٰی o فَجَعَلَہٗ غُثَآئً اَحْوٰی o (الاعلٰی ۸۷: ۴-۵) ’’جس نے نباتات اُگائیں پھر اُن کو سیاہ کوڑا کرکٹ بنا دیا‘‘(تاکہ خشک ہو کر بھی جانوروں کے چارے کا کام دے)۔ انسان کی پیدایش کا قصہ بھی یہاں زیادہ وضاحت کے ساتھ اور زیادہ عمومیت اورتفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔

سورۃ الغاشیہ سے سورۃ الاعلٰی کی مناسبت

سورۃ الاعلیٰ میں حق تبارک و تعالیٰ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ اس کی خلقت میں مومن اور کافر پائے جاتے ہیں اور جنت اور نار بھی موجود ہے مگر یہ بات وہاں اجمالاً کہی گئی تھی۔ اس سورہ میں اس کی تفصیلات کا ذکر ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ لوگ دو فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں: ایک گروہ جنتی ہے تو دوسرا دوزخی۔ پھر بعض آفاقی حقائق کی طرف توجہ مبذول کی اور اپنے نبی کو حکم دیا کہ وہ یہ کہتے رہیں کہ ان کو ہر حال میں اپنے ربّ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔

اختصار کے باوجود اس میں ان امور کی تفصیل وارد ہوئی ہے جن کا ذکر سورۃ الذاریات کی ابتدا میں کیا گیا تھا۔ اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ o وَّاِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِعٌ (الذّٰریٰت ۵۱: ۵-۶) ’’حق یہ ہے کہ جس چیز کا تمھیں خوف دلایا جا رہا ہے وہ سچی ہے اور جزاے اعمال ضرور پیش آنی ہے‘‘۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الغاشیہ کو سورۃ الاعلیٰ کے بعد اس لیے رکھا کہ اس کے خاتمے کی شرح بیان کی جاسکے اور وہ یہ آیت ہے:  بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا o  وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰیo (الاعلٰی ۸۷:۱۶-۱۷)’’مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو‘ حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے‘‘، جب کہ اس سورۃ الغاشیہ کا خاتمہ ان کلمات پر ہوا ہے: اِنَّ اِلَیْنَآ اِیَابَھُمْ o ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَھُمْ o (الغاشیہ ۸۸:۲۵-۲۶) ’’ان لوگوں کو پلٹنا ہماری طرف ہی ہے‘ پھر اِن کا حساب لینا ہمارے ہی ذمہ ہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاعلیٰ کا خاتمہ آخرت کی طرف رغبت کے ساتھ کیا تھا کہ وہ: خَیْرٌ وَّاَبْقٰی (بہتر اور دیرپا) ہے اس فانی دنیا کے مقابلے میں۔ یہاں اس سورہ میں ‘ اس آخرت کے حالات کے بیان سے آغاز کیا جا رہا ہے جس کی پچھلی سورہ میں ترغیب دی گئی تھی۔

سورۃ الاخلاص کا ربط

سابقہ سورہ ’’تبّت‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو اہل توحید اور رسولؐ کے دشمن ہیں۔ وہ اللہ کے‘ اسلام کے اور حق کے ہر جگہ اور ہر وقت دشمن ہیں‘ خواہ وہ رشتہ دار ہوں یا دُور کے لوگ‘ کیونکہ وہ رسالۂ توحید کے دشمن ہیں۔ اس سورہ میں توحید کا ذکروبیان ہے۔اس میں توحید کی حقیقت کو کھولا گیا ہے۔ یہ کتابِ عزیز کی وہ سورہ ہے جس کی عظمت سے غالباً ہر اُمتی آگاہ ہے۔ اس کے معنوں کی انتہا کا کوئی شخص ادراک نہیں کر سکتا ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کے معنوں کی انتہا کو صرف اس سورہ کو نازل کرنے والا ہی جانتا ہے۔ یہ قرآن کی مقدس ترین سورہ ہے اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وہ ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔

توحید چونکہ دین اسلام کی بنیاد اور اس کی انتہا ہے ‘ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کتاب عزیز کے آخر میں جگہ دی کیونکہ خاتمۂ کتاب کے بعد صرف پناہ مانگنے کی گنجایش رہ جاتی ہے جیسا کہ سورہ فاتحہ سے پہلے صرف بسملہ (بسم اللہ الرحمن الرحیم) ہی مناسب ہے۔ گویا کتاب کی ابتدا اللہ کے نام سے ہوئی اور اس کی انتہا اور خاتمہ اس کی ذاتِ مبارکہ کے ذکر اور اس کی صفات کے بیان پر ہوا جو توحید ِ خالص سے عبارت ہے۔

سورۃ الاخلاص کا سورۃ الفلق سے تعلّق

اللہ تعالیٰ نے سورہ ’’اللّھب ‘‘ میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کا ذکر کیا اور سورہ اخلاص میں توحید کو بیان فرمایا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ یکا و تنہا اور باقی رہنے والا ہے۔ یہی وہ ذات ہے جس کی دہائی مدد کے طالب دیا کرتے ہیں اور اسی سے فتح طلب کرنے والے مدد مانگتے ہیں اور ضرورت مند اسی کا سہارا طلب کرتے ہیں اور اُسی کی پناہ میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔

اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس سورہ میں اور اس کے بعد کی سورہ میں پناہ کا ذکر کیا ہے‘ یعنی سورۃ الناس میں یہ واضح کر دیا ہے کیونکہ وہ الوہیت و ربوبیت میں یگانہ ہے اور ان میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے ‘ اس لیے لوگ اس کی پناہ کے طالب ہوں۔ اسی کے لیے حکم خاص ہے اور اسی کی طرف تم لوٹنے والے ہو۔

آپ نے دیکھا کہ کس طرح الشیخ الصواف نے سورۃ اللّھب ‘ الاخلاص‘ الفلق اور الناس میں ربط و مناسبت پیدا کر کے ان کو سورہ فاتحہ سے جوڑ دیا اور ان سب کو اول سے آخر تک ایک ہی نظم میں اس ہار کی طرح پرو دیا جس کا ہر ہیرا اور ہر موتی اپنی اپنی جگہ پر چمک پیدا کر رہا ہو اور بحیثیت مجموعی ایک دوسرے سے مل کر یہ ہیرے اور یہ موتی ہار کو نہایت درجہ خوب صورت اور جاذبِ نظر بناتے ہوں۔