l ]قیام پاکستان سے قبل[ میں جمعیت علماے ہند کے ایک اجلاس میں شرکت کے لیے دہلی جا رہا تھا‘ کہ مجھے مولانا مودودی کی طرف سے ارسال کردہ کتاب مسلمان اور موجو دہ سیاسی کش مکش کے دو حصے موصول ہوئے۔ میں نے اس وقت یہ سمجھا کہ جس طرح غلام احمد پرویز ایک اچھا لکھنے والا سرکاری آدمی ہے‘ اسی طرح یہ بھی اچھا لکھنے والا کوئی سرکاری آدمی ہو گا۔ اس لیے میں نے اس وقت تو یہ کتابیں نہ پڑھیں‘ البتہ اپنے ساتھ لے گیا۔ واپسی پر جب میں بٹھنڈہ لائن دہلی سے آیا تو راستے میں انھیں پڑھا۔ ان کتابوں نے کانگریس سے میرا دل کھٹا کر دیا۔
ایک بار جواہر لال نہرو یہاں گوجرانوالہ بڑے ریلوے اسٹیشن پر تقریر کے لیے آئے۔ میں اور میرے دوست مولانا محمد اسماعیل سلفی (ہم دونوں اس وقت کانگریسی تھے) تقریر سننے جا رہے تھے۔ مولانا مودودی کی تحریروں کے تذکرے پر مولانا محمد اسماعیل صاحب فرمانے لگے: ’’مودودی نے کانگریس سے ہمارا وضو تو توڑ دیا ہے‘ لیکن ابھی میں کانگریس کے ساتھ ہوں علٰی علاتہ (خرابیوں کے باوجود)‘‘۔
اس کے بعد جب ڈیرہ غازی خان میں قادیانیوں کے خلاف ایک مقدمے میں مسلمانوں کی طرف سے احمد خان پتافی مرحوم مقدمے کی پیروی کر رہے تھے‘ تو میں نے وہاں احمد خان پتافی مرحوم کے پاس رسالہ ترجمان القرآن دیکھا۔ اسے میں نے پڑھا تو محسوس کیا کہ یہ تو اچھا بھلا دین دار آدمی ہے۔ یہ رسالہ مجھے بہت پسند آیا۔
چنانچہ میں نے گوجرانوالہ آکر مولانا مودودی کو لکھا کہ آپ کے پاس ترجمان القرآن کے سابقہ جتنے شمارے ہیں‘ مجھے بھیج دیں۔ انھوں نے جلد آٹھ سے لے کر مابعد تک تمام شمارے مجھے بھیج دیے۔ اس سے قبل کے شمارے ان کے پاس بھی نہیں تھے۔ چنانچہ میں نے اس سے پہلے کے شمارے چودھری علی احمد مرحوم کے ہاں دیکھے۔ ان رسالوں کو میں نے پڑھنا شروع کیا تو میں نے سمجھ لیا کہ یہ ایک صاحبِ ایمان‘ صاحبِ بصیرت اور صاحبِ عزیمت انسان ہے۔ اس کے بعد ۱۹۴۸ء میں قرارداد مقاصد کے سلسلے میں مولانا مودودی نے پاکستان کے دورے شروع کیے تو میں نے منڈھیالہ وڑائچ (نزد گوجرانوالہ شہر) میں مولوی نور حسین کے ہاں قیام کیا۔ وہاںخواب میں دیکھتا ہوں کہ: مودودی صاحب کی داڑھی سرخ ہے۔ وہی کھلا سا پاجامہ پہنا ہوا ہے۔ سر پر سفید ٹوپی ہے اور تغاری اٹھائے غریب اکیلا ہی شاہی مسجد کی مرمت کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اس خواب کے بعد مجھے مولانا سے ایک محبت اور عقیدت سی ہو گئی۔
مولانا کی مختلف تحریروں پر جب اعتراضات کا سلسلہ شروع ہوا تو اس دوران میں جب کہیں چھوٹے بڑے سفر پر جاتا تو مولانا کی کتب کو اپنے ساتھ رکھتا۔ اس پر بعض لوگ مجھے کہتے کہ یہ کتابیں ساتھ کیوں اٹھائے رکھتے ہو؟ میں کہتا: ’’میں اسے ایک مظلوم انسان سمجھتا ہوں اور اس کی حمایت کے لیے چل رہا ہوں‘‘۔
چار سال پہلے کی بات ہے‘ میں نے مولانا سے کہا: ’’بعض لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تو مولانا کی مدافعت کرتا ہے‘ حالانکہ مولانا کہتے ہیں کہ میری مدافعت کوئی نہ کرے۔ میں (اپنی مدافعت) خود ہی کروں گا۔ میں انھیں جواب دیا کرتا ہوں کہ مولانا میرے امام نہیں ہیں‘ نہ وہ میرے مقتدی ہیں۔ پھر میں جماعت اسلامی کا باقاعدہ متفق نہیں ہوں اور نہ رکن‘ تاہم مولانا مودودی میرے دوست ہیں اور میں انھیں مظلوم سمجھتے ہوئے ان کی مدافعت کرتا ہوں‘‘۔ مولانا کہنے لگے: ’’یہ بات تو ٹھیک ہے کہ آپ ہمارے کوئی رکن وغیرہ تو نہیں ہیں‘‘۔
ایک بار وہ اپنے دورے کے دوران یہاں جامع مسجد (شیرانوالہ باغ) میں آئے اور تقریر کی۔ ان دنوں یہاں (گوجوانوالہ) میں ایک کشمیری ہوا کرتا تھا۔ وہ مولانا سے کہنے لگا: ’’آپ انھیں اپنا ممبر کیوں نہیں بناتے‘‘؟ تو مولانا کہنے لگے: ’’میں کسی کو نہیں کہتا کہ وہ ضرور ممبر بنے‘ حتیٰ کہ میں نے تو اپنی بیوی کو بھی نہیں کہا کہ وہ لازماً رکن بنے‘‘۔
انّہی والے استاذ الاساتذہ حضرت مولانا ولی اﷲ رحمۃ اﷲ کو مولوی غلام اﷲ صاحب وغیرہ ابھارتے رہتے‘ لیکن وہ کسی کی باتوں میں نہیں آتے تھے‘ بلکہ وہ میری تائید بھی کیا کرتے تھے۔ حضرت مولانا عبداﷲ صاحب رحمۃ اﷲ ضلع گجرات والے میرے استاذ تو نہیں البتہ بزرگ تھے۔ وہ بڑے عالم اور ہر فن مولا تھے‘ علم الافلاک‘ علم المیراث‘ اور علم عروض میں انھیں خصوصی درک تھا۔ انھوں نے علم عروض میں ایک دو ورقہ بنایا ہوا تھا۔ مفتی خلیل احمد صاحب‘ چونترہ (ضلع جہلم) والے جب ہمارے پاس [مدرسہ عربیہ میں] ہوتے تو ہم انھیں یہاں بلایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ وہ جہلم گئے تو میں نے انھیں بتایا کہ دیکھیں لوگ مولانا مودودی کے ذمے کیا کیا لگا رہے ہیں؟ تو وہ مجھے کہنے لگے کہ کسی موقع پر مفتی محمد حسن مرحوم و مغفور ]بانی جامعہ اشرفیہ[ کے پاس چلیں گے اور ان سے بات کریں گے۔ مگر یہ موقع نہ مل سکا۔
کراچی میں کاکاخیل کے مولانا عزیز گل جو حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ علیہ کے ساتھ گرفتار ہوئے تھے‘ ان سے ملاقات ہوئی۔ وہ اس وقت مولانا محمد یوسف بنوری صاحب کے مدرسے میں مدرس تھے۔ ان سے بات چیت ہوئی‘ مگر اس دوران مولانا بنوری خاموش بیٹھے رہے۔ کسی بات پر ہاں یا نہ نہیں کی۔
بعض لوگوں نے اعتراض کیا تفہیم القرآن میں مولانا نے لکھا ہے کہ طلوع فجر ہوجائے تب بھی بیشک کھا پی لو۔ میں نے دیکھا کہ بہت سے اشخاص کے اسی طرح کے اقوال ہیں۔ ابوبکر اعمش کا قول بھی ہے۔ عبدالماجد دریا بادی نے کافی قول نقل کیے ہیں۔ میں نے اپنی کاپی میں کافی اقوال نقل کیے ہیں۔ حتیٰ کہ امام ترمذی باب باندھتے ہیں باب ماجاء فی بیان الفجر الحمر اور فجر احمر کی روایت نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ علیہ عامۃ اہل العلم (اکثر اہل علم کا یہی خیال ہے)۔ پھر نسائی میں غالباً حضرت حذیفہ رضی اﷲ عنہ کی روایت اس کی تائید میں ہے اور ابوالمنذر بیان کرتے ہیں کہ بعض اہل علم فرماتے ہیں: صبح وہ نہیں ہے جو آپ نے سمجھی ہوئی ہے‘ بلکہ صبح وہ ہے جو درختوں اور مکانوں پر نظر آتی ہے۔ اس طرح میں نے اپنی کاپی میں دیگر بہت سے اہل علم کے اقوال جمع کیے ہیں۔ لیکن لوگ مولانا مودودی کی رائے کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ یہ بالکل خلاف شرع ہے۔ غالباً ۱۹۳۶ء کی بات ہے جب کلکتہ میں فسادات شروع ہوئے‘ میں مولانا عبدالعلیم‘ عبدالحلیم وغیرہ کے گاؤں گیا ہوا تھا۔ حافظ خلیل احمد صاحب جو‘ انگہ (ضلع سرگودھا) کے رہنے والے تھے‘ میرے دوست تھے اور ان کے بھائی حافظ اسماعیل میرے شاگرد تھے۔ انھوں نے سحری پر میری دعوت کی۔ کھانے پر میرے علاوہ حافظ خلیل‘ حافظ اسماعیل اور مولانا عبدالحلیم بھی تھے ]گاؤں کی کھلی فضا میں افق نظر آ رہا تھا[۔ میں نے کہا بتاؤ‘ کیا صبح صادق ہو گئی ہے اور ہمیں کھانا بند کر دینا چاہیے یا نہیں ]ہم چاروں‘ طبقہ علما میں سے تھے‘ لیکن[ اس سلسلے میں دو قول ہو گئے۔ دو ایک طرف اور دو دوسری طرف۔ دو کہہ رہے تھے صبح صادق ہوگئی ہے‘ دو کہہ رہے تھے‘ نہیں -- میں نے کہا ایسی چیز جس میں علما اختلاف کر رہے ہیں‘ عوام الناس کو اس کا پابند کرنا کیا آسان ہے؟
اعتراض کرنے والے بعض لوگ عجیب اعتراض کرتے ہیں۔ ایک حافظ صاحب (مرحوم) میرے دوست لاہور چھاؤنی میں خطیب تھے‘ کہنے لگے: ’’یہ ابوالاعلیٰ تو خدا کا باپ بن گیا نا (نعوذ باﷲ)‘کیونکہ الاعلیٰ تو خدا کو کہتے ہیں‘‘۔ میں نے کہا: ’’حافظ صاحب آپ کا سوال واقعی بڑا اعلیٰ ہے اور اس کا جواب بھی اعلیٰ ہونا چاہیے تو کیا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ سوال و جواب دونوں خدا ہیں‘‘۔
ایک مولانا صاحب نے اعتراض کیا کہ: انھوں (مولانا مودودی) نے لکھا ہے کہ قرآن کا مصنف یوں کہتا ہے‘ گویا انھوں نے خدا کو مصنف لکھا ہے‘ اس طرح تو خدا حادث ہو جاتا ہے -- اب یہ بھی کوئی باتیں ہیں۔
حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے متعلق انھوں (مولانا مودودی) نے لکھا: ’’وہ اپنے پیشروؤں کی جمیع صفات کے حامل نہیں تھے --- مگر انھوں نے سر دے دیا‘‘۔اب بعض نسخوں میں غلطی سے لفظ جمیع نہ چھپ سکا۔ اس پر بعض لوگوں نے کہا: ’’یہ دیکھیں‘ کہہ رہے ہیں کہ وہ کچھ نہیں تھے‘‘۔ میں ان سے کہتا: ’’خدا کے بندو آپ خود ہی تو کہتے ہیں کہ اول ابوبکر صدیق‘ پھر فاروق اعظم‘ پھر عثمان غنی‘ اور پھر علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنھم اور وہ بھی تو یہی کہہ رہے ہیں کہ ان کے اندر اپنے پیشروؤں کی تمام صفات نہیں پائی جاتی تھیں‘‘۔
ایک دفعہ جب وہ تفسیر لکھ رہے تھے‘ انھوں نے متعہ کے بارے میں یہ لکھا کہ متعہ کے جواز کے بارے میں فلاں فلاں کا یہ مسلک تھا۔ ان دنوں کراچی میں علما کا ایک اجلاس تھا۔ وہاں شاید مفتی محمد شفیع صاحب مرحوم نے اس پر اعتراض کیا۔ میں نے کہا: جی‘ کیا آپ کی کتابوں میں مختلف مسائل کے بارے میں مختلف علما کے اقوال درج نہیں ہوتے؟ کیا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ آپ ان اقوال کے قائل ہیں۔ پھر آپ یہ کیونکر کہتے ہیں کہ یہ اس کے قائل ہیں۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ وہ خود اس کے قائل ہیں‘ تاہم مولانا نے یہ مضمون درمیان سے نکال ہی دیا۔
مخالفین ظلم یہ کرتے ہیں کہ اگر وہ کسی ایک صحابی کے متعلق کوئی بات کہتے ہیں‘ تو وہ سب پر ٹھونس دیتے ہیں کہ صحابہ کو یہ کہا گیا‘ یہ کہا گیا۔
پھر میں نے ۴۱ ایسے اقوال اور حوالے جمع کیے تھے‘ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مولانا مودودی پر اعتراض کے لیے جن اقوال کو بنیاد بنایا گیا ہے‘ وہ سرے سے ہی غلط ہیں اور مولانا مودودی کی طرف ان کی نسبت درست نہیں۔ میں نے یہ مواد چودھری محمد اسلم (سابق امیر جماعت اسلامی ضلع گوجرانوالہ) کو دیا تھا کہ وہ اس کو مرتب کر کے شائع کریں۔
سب سے پہلے حضرت شاہ صاحب (مولانا محمد انور شاہ کشمیریؒ) کے دروس اور تقریروں سے میرا (مولانا محمد چراغ) کا ذہن بنا کہ سارے ائمہ ٹھیک ہیں۔ وہ بھی حق پر ہیں ہم بھی حق پر ہیں۔ اس کے بعد شاہ ولی ؒاﷲ صاحب کی کتب دیکھیں تو ذہن میں مزید وسعت پیدا ہوئی‘ کہ شاہ صاحب نے حنفی ہونے کے باوجود بعض مقامات پر حنفیہ کے مؤقف سے اختلاف کیا ہے۔ پھر سید صاحب (مولانا مودودی) کی کتب سے مزید وسعت پیدا ہوئی۔ اب میرا یہ خیال ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ صحیح خیال ہے کہ ائمہ کے اختلافات کے سلسلے میں اگر کوئی آدمی اپنے امام کو چھوڑ کر دوسرے امام کی طرف جائے (بشرطیکہ محض سہولتوں کی طلب اور خواہش پرستی نہ ہو) تو اﷲ تعالیٰ اس پر مؤاخذہ نہیں کرے گا۔ چنانچہ شاہ ولی ؒاﷲ صاحب کا قول حجۃ اﷲ البالغہ میں ہے‘ الاصل المرضی (پسندیدہ قول یہ ہے کہ) قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ اس کے بارے میں نہیں پوچھے گا۔ عقل بھی یہ کہتی ہے کہ آخر یہ سب اﷲ تعالیٰ کے پیارے ہیں اور جو کچھ کہتے ہیں خدا اور اس کے رسولؐ کی محبت کے تحت کہتے ہیں۔ ججوں کے اختلاف پر کوئی حکومت گرفت نہیں کرتی‘ یا کوئی مقدمے میں کسی جج کے فیصلے کی پابندی کر رہا ہو تو حکومت اس پر کوئی پابندی نہیں لگاتی اور گرفت نہیں کرتی۔
میں کہا کرتا ہوں کہ یہ اکیلا شخص ہے‘ جس کی زندگی میں اس کے مداح اور ناقد اس کثرت کے ساتھ ہیں اور زندگی میں اس کی تشہیر ساری دنیا تک ہو گئی ہے۔
بعض لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تم مولانا مودودی کے مقلد ہو۔ میں انھیں کہا کرتا ہوں کہ میں مودودی صاحب کا مقلد نہیں ہوں‘ میں نے مولانا مودودی کی کئی تحریروں پر گرفت کی ہے اور کسی کو معلوم کرنا ہو تو اسے مولانا عاصم نعمانی کی مرتب کردہ کتاب مکاتیب مودودی دیکھنی چاہیے‘ جس میں مولانا کے خطوط ہیں۔
مولانا نے مجھے خط لکھا کہ میری بیٹی اسماء کانکاح آپ پڑھائیں۔ میں نے اس موقعے پر مولانا سے کہا: ’’مولانا‘ اجازت ہے نکاح پڑھانے کی‘‘‘ انھوں نے کہا: ’’اس کے ماموں سے پوچھیں‘‘--- وہ چاہتے تھے کہ نکاح کے رجسٹر میں ان کا نام نہ آئے۔ وہ رسم و رواج کی شرارتوں (اور ایوب دور کے وضع کردہ بعض خلاف شریعت عائلی قوانین) کی وجہ سے ان رجسٹروں میں اپنا نام آنا پسند نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ ایک آدمی نے ان سے نکاح پڑھوانے کے لیے کہا‘ تو مولاناکہنے لگے: ’’دستخط نہیں کروں گا‘‘۔ اس نے کہا جی! آپ بے شک نہ کریں۔
تفہیم القرآن کی ہر جلد مولانا نے یہ لکھ کر مجھے بھیجی کہ وہ مجھے یہ کتاب ہدیۃً بھیج رہے ہیں۔ چنانچہ اب اگر کوئی مجھے کہے کہ آپ یہ عمدہ عمدہ کتابیں لے لیں اور یہ جلدیں مجھے دے دیں‘ تو میں کبھی یہ جلدیں دینے کے لیے تیار نہیں ہوں گا کیونکہ ان پر مولانا کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے: ہدیہ محمدچراغ کی طرف۔
جب پاکستان بنا تو یہاں گوجرانوالہ میں محمد عاصم الحداد‘ مولانا مسعود عالم ندوی سے عربی پڑھتے تھے۔ اس وقت مولانا مسعود عالم ندوی کا دفتر دارالعروبہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس دفتر میں ایک دفعہ بیٹھے تھے کہ مولانا مودودی کہنے لگے ’’میری بعض کتابیں اور تفاسیر وہیں دارالاسلام (پٹھان کوٹ) میں رہ گئی ہیں‘‘۔ میں نے کہا: تفسیر روح المعانیتو میرے پاس ہے‘ اگر آپ کو چاہیے تو میں عاریۃً دے سکتا ہوں‘‘۔ چنانچہ مولانا نے روح المعانیمجھ سے لے لی۔
پھر ایک دفعہ میں نے ان کی بعض باتوں سے سمجھا کہ انھیں حضرت اشرف علی تھانوی مرحوم و مغفور کی کتاب تفسیر بیان القرآن کی ضرورت ہے۔ میں نے وہ بھی انھیں بھیج دی۔ سالہا سال تک یہ کتابیں ان کے پاس رہیں۔ میں نے انھیں اجازت دی ہوئی تھی کہ وہ ان کتابوں کی عبارت پر جہاں چاہیں خط کھینچ سکتے ہیں اور نوٹس لکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے روح المعانی کی بہت سی عبارتوں کو زیر خط (under line) کیا ہوا تھا۔ تین چار سال پہلے انھوں نے مجھے کہا: ’’میں آپ کو ملتان کی چھپی ہوئی نئی روح المعانی خرید کر بھیج دیتا ہوں۔ آپ اپنی روح المعانی میرے پاس رہنے دیں کیونکہ میں نے اس کی بعض عبارتوں کو under line کیا ہوا ہے‘ اور بعض نوٹس بھی ہیں‘‘۔ میں نے کہا: ’’آپ نئی روح المعانی پر بھی اپنے نوٹس اور لکیریں لگا کر بھیج دیں تو ٹھیک ہے‘‘۔ پھر وہ کہنے لگے: ’’اس پر آپ کا نام لکھا ہوا ہے کہ آپ نے یہ کتاب اتنے کی خریدی ہے‘‘۔ میں نے کہا: ’’میں اس کتاب پر آپ کا نام لکھ دیتا ہوں‘ اور آپ نئی کتاب پر میرا نام لکھ دیں‘‘۔ چنانچہ انھوں نے میرے لیے لکھ دیا کہ میں ہدیہ دے رہا ہوں محمد چراغ کو‘ اور میں نے اس پر لکھ دیا کہ میں یہ ہدیہ مودت مولانا مودودی کو دے رہا ہوں۔
پھر بیان القرآن کے متعلق مجھے لکھنے لگے: ’’ایک یہ رکھی ہے بیان القرآن‘ اور ایک وہ رکھی ہے۔ آپ اپنی دیکھ لیں کون سی ہے‘‘۔ چنانچہ میں اپنی کتاب لے آیا۔
سید صاحب (مولانا مودودی) اور شاہ صاحب ( مولانا سید محمد انور شاہ صاحب کاشمیری رحمۃ اﷲ علیہ) کو میں نے دیکھا ہے کہ ان دونوں حضرات کی نماز میں انتہائی خشوع و خضوع تھا‘ اور عجز کا کمال نمونہ تھی۔