عمرہا در کعبہ و بت خانہ می نالد حیات
تاز بزم عشق یک دانائے راز آید بروں
یوں تو سید مودودی ؒ کی ذات میں اللہ تعالیٰ نے بیک وقت گونا گوں اوصاف جمع کر دیے تھے‘ لیکن ان پر دین کی محبت ہر چیز سے زیادہ غالب تھی‘ اور عمر بھر مختلف انداز سے اُنھوں نے اس کی خدمت کی۔ سید مودودیؒ اپنے عہد میں اُردو زبان کے سب سے بڑے مصنف تھے۔ اُنھوں نے مختلف موضوعات پر متعدد ضخیم کتابیں لکھیں‘ اور ایک زمانے سے خراجِ تحسین حاصل کیا۔ سید صاحب نے مستقل تصانیف کے علاوہ‘ مختلف موضوعات پرسیکڑوں محققانہ علمی‘ ادبی‘ دینی‘ تاریخی اور تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں جو ترجمان القرآن کے ہزاروں اوراق پر پھیلے ہوئے ہیں۔
سید مودودی ؒنے ہوش سنبھالا تو ان کی تعلیم کا سلسلہ ان کے والد گرامی نے خود اپنی نگرانی میں شروع کیا اور انھیں کسی مکتب یا مدرسے میں بھیجنا گوارا نہ کیا۔ گھر میں اتالیق کا انتظام کیا‘ جو سیدصاحب کو عربی ادب اور علوم دینیہ کی تعلیم دیتے تھے۔ ۱۹۱۴ء میں جب سید صاحب کی عمر ۱۱ سال کی تھی‘ انھوں نے مولوی کا امتحان پاس کر لیا۔
۱۹۱۸ء میں آپ نے صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔ مختلف اوقات میں مدینہ‘ بجنور‘ تاج‘ جبل پور اور مسلم دہلی سے وابستگی رکھنے کے بعد ۱۹۲۳ء میں بھوپال تشریف لے گئے۔ بھوپال میں آپ کا قیام تقریباً ڈیڑھ سال تک رہا۔ اس بارے میں سیدصاحب نے خود لکھا ہے: ’’اس ڈیڑھ سال کو میں نے بالکلیہ پڑھنے اور سوچنے کے لیے وقف کر دیا تھا۔ علوم قدیمہ و جدیدہ کے جتنے ذخائر تک میری رسائی ممکن تھی‘ میں نے ان سے استفادہ کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ غور و فکر اور مطالعے کو میں نے اتنی شدت اور تسلسل سے جاری رکھا کہ آخرکار میرے اعصاب پر تکان کے آثار ہویدا ہونے شروع ہو گئے‘‘۔
۱۹۲۴ء میں سید صاحب بھوپال سے دہلی واپس آ گئے تو انھیں مولانا محمد علی جوہرؒ کی طرف سے ان کے اخبار ہمدرد اور جمعیت العلما کی طرف سے جمعیت کے ترجمان الجمعیۃ کی ادارت کی پیش کش کی گئی۔ سید صاحب نے الجمعیۃ کو ترجیح دی اور آپ تقریباً چار سال تک‘ یعنی ۱۹۲۸ء تک اس اخبار کے ایڈیٹر رہے۔
اس دور کا ذکر کرتے ہوئے سید مودودی نے خود بیان کیا ہے: یہ غوغا آرائی ایک مدت تک بڑے زور و شور سے جاری رہی۔ مولانا محمد علی جوہرؒ نے ان بہتان تراشیوں سے تنگ آکر جامع مسجد دہلی میں ایک تقریر کی‘ اور آبدیدہ ہو کر کہا کہ کاش! کوئی اللہ کا بندہ ان الزامات کے جواب میں اسلام کا صحیح نقطۂ نظر پیش کرتا۔ تقریر سننے والوں میں سے ایک میں بھی تھا۔ میں جب وہاں سے اٹھا تو یہ سوچتا ہوا اٹھا کہ کیوں نہ میں ہی اللہ کا نام لے کر اپنی سی کوشش کروں۔
ہندوئوں کی غوغا آرائی اور مولانا محمد علی جوہرؒ کی اس اپیل نے سید مودودی کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ مسلمانوں اور اسلام کی مدافعت کے لیے قلم سنبھالیں۔ اگرچہ اخبار نویسی اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ اس کے ساتھ ساتھ کوئی علمی یا تحقیقی کام کیا جائے۔ لیکن سید صاحب نے ۱۹۲۷ء کے شروع میں الجمعیۃ کے کالموں میں اس مبسوط بحث کا آغاز کر دیا۔ جب یہ مقالے اخبار الجمعیۃ میں شائع ہو رہے تھے اس وقت سید صاحب کی عمر ۲۴ سال کی تھی۔ پھریہ مقالے کتابی صورت میں الجہاد فی الاسلام کے نام سے شائع ہو کر منظرعام پر آئے تو ان کو پڑھ کر علامہ محمد اقبال ؒنے فرمایا: اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانون صلح و جنگ پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے۔ اور میں ہر ذی علم آدمی کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس کا مطالعہ کرے۔
یہ رسالہ آج جس مرحلے میں قدم رکھ رہا ہے وہ بہت کٹھن اور دشوار ہے۔ کٹھن اور دشوار اس معنی میں نہیں کہ اس کے پیش نظر اب پہلے سے زیادہ مشکل کام ہے‘ بلکہ اس معنی میں بھی کہ جن ہاتھوں میں وہ منتقل ہو رہا ہے وہ پہلے کام کرنے والے ہاتھوں سے زیادہ کمزور ہیں۔ ایک طرف یہ ضعیف و ناتواں ہے اور دوسری طرف پیش نظر کام یہ ہے کہ اسلام کو اس اصلی روشنی میں پیش کیا جائے جس میں قرآن کریم نے اس کو پیش کیا ہے۔ کہنے کو یہ کام بہت آسان ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ مشکوٰۃ نبوت سے بُعد‘ علم صحیح کی کمی‘ سلامت قلب و استعداد نظر کے فقدان‘ یونانی تفلسف‘ عجمی موشگافی‘ مغربی تشکیک اور سب سے بڑھ کر خود پرستی اور ہواے نفس کے اتباع نے ہمارے اور معارف قرآنی کے درمیان ایسے پردے ڈال دیے ہیں کہ جس قرآن کو آسان کہا گیا تھا‘ وہ اب سب سے زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔ ان حالات میں قرآن مجید کو اس کی اصلی صورت میں پیش کرنا ایک بڑا مشکل کام ہے۔
تفہیم القرآن وہ تفسیر قرآن ہے جس نے ایک کٹھن اور فیصلہ کن دور میں قرآن کے زیرسایہ ایک خاموش انقلاب برپا کیا ہے‘ اور یہ انقلابی دور ابھی جاری ہے۔ بلاشبہہ جو خدمت تفہیم القرآن نے انجام دی ہے اور دے رہی ہے‘ وہ بڑی اہم اور تاریخی ہے۔ خالص علمی نقطۂ نظر سے تفہیم القرآن کا مقام بہت بلند ہے۔ تفہیم القرآن میں جس نقطۂ نظر سے قرآن کریم کا مطالعہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ کتاب صحیفہ ہدایت ہے۔ کتاب ہدایت کی حیثیت سے قرآن کریم ہر فرد میں اور پوری امت میں غور و فکر اور مطالعہ و نظر کا ایک خاص انداز پیدا کرتا ہے۔
تفہیم القرآن کے اساسی نقطۂ نظر کے مطابق بنیادی بات یہ ہے کہ قرآن مجید محض ایک الہامی کتاب یا ایک تاریخی کتاب یا ایک عظیم کتاب نہیں۔ اس کا بنیادی دعویٰ یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ابدی ہدایت ہے جو ایک دعوت کی طرف بلانے والی اور ایک جدوجہد کو برپا کرنے والی ہے۔ یہ ایک دعوت اور ایک تحریک ہے۔ قرآن کریم ایک پیغام کا علم بردار اور ایک دعوت اور تحریک کا داعی ہے۔ یہ ایک نظریاتی ملت کی تعمیر کرتا ہے اور پھر اسے ایک مشن سونپ دیتا ہے۔ اس دعوت اور اس جدوجہد کے لیے مقصد‘ اصول‘ اقدار اور ضابطے فراہم کرتا ہے۔ اس کے لیے کام کرنے والے انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا نقشہ متعین کرتا ہے۔ اس کام کو کرنے کے لیے جن صفات‘ محرکات‘ جذبات اور احساسات کی ضرورت ہے‘ وہ اسے پیدا کرتا ہے۔ یہ کتاب فرد کی زندگی میں بھی اور معاشرے اور آخرکار پوری دنیا میں بھی ایک کش مکش کو جنم دیتی ہے‘ حق و باطل کے درمیان کش مکش تاکہ زندگی کا نظام حق کے مطابق چل سکے اور باطل کو بالآخر ہتھیار ڈالنے پڑیں۔ یہ کتاب کائنات‘ انسان اور زندگی کا ایک خاص تصور پیش کرتی ہے۔ جو لوگ اس تصور حیات کو قبول کر لیں‘ یہ ان کی زندگی کی تعمیر ایک خاص نقشے کے مطابق کرتی ہے‘ اور جو اسے قبول نہ کریں ان سے مسلسل جہد و مقابلہ اور دعوت تبلیغ کا معاملہ کرتی ہے۔
قرآن مجید کے ایک دعوت کی کتاب ہونے کا تصور وہ مثالی کلید ہے جس سے فہم قرآن کی راہ کی تمام مشکلات دُور ہو جاتی ہیں۔ پھر قرآن کریم کا اسلوب‘ اس کا طریق استدلال‘ اس کا نظم‘ اس کا ادب‘ اس کے موضوعات کا تنوع‘ اس کے مضامین کی تکرار‘ اس کی اخلاقی تعلیمات‘ اس کے قانونی احکام‘ اس کے تاریخی مواعظ‘ غرض اس کی ہر بات سمجھ میں آ جاتی ہے‘ اور یہ کار زار حیات میں مشعل راہ بن جاتی ہے۔ اگر ایک شخص اس تصور کے ساتھ قرآن مجید کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کی ہدایات کے مطابق اپنی زندگی اور دوسرے انسانوں کی زندگی بدلنے کی جدوجہد کرتا ہے تو پھر قرآن کی آیات اس کے لیے محض کتاب میں لکھی ہوئی آیات نہیں رہیں گی‘ بلکہ آیاتِ زندگی بن جائیں گی‘ اور اسے محسوس ہو گا کہ قرآن کریم زندگی کے ہر قدم پر اس کی رہنمائی کر رہا ہے۔ بقول علامہ اقبال: ’’قرآن کو اس طرح پڑھو گویا یہ تمھارے قلب پر نازل ہو رہا ہے‘‘۔
تفہیم القرآن نے نظم قرآن کا ایک منفرد تصور پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ سید صاحب نے ہر سورہ کے تاریخی پس منظر اور اس کے مرکزی مضمون اور موضوعات کا تعین بھی کیا ہے۔ تفہیم القرآن میں فقہی احکام کی تشریح اور فقہی مکاتب فکر کا نقطۂ نظر اور قرآن کریم کی مجموعی تعلیمات اور قرآن کے بتائے ہوے نظامِ اخلاق و تمدن کے مجموعی خاکے کی روشنی میں احکام کی وضاحت کی گئی ہے۔ اسلام اور دوسرے ادیان‘ یعنی یہودیت و عیسائیت کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے اور ان اعتراضات کا بھی کافی و شافی جواب دیا گیا ہے‘ جو مسیحی اہل قلم اور مغربی مستشرقین نے قرآن کریم پر کیے ہیں۔
سید مودودی نے جب تفہیم القرآن کا آغاز کیا تو جلد اول کے دیباچے میں لکھا :میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ جس غرض کے لیے میں نے یہ محنت کی ہے وہ پوری ہو‘ اوریہ کتاب قرآن مجید کے فہم میں بندگانِ خدا کے لیے واقعی کچھ مددگار ثابت ہو سکے۔ وماتوفیقی الاباللّٰہ العلی العظیم!
۱۹۷۲ئ‘ یعنی ۳۰ سال میں تفہیم القرآن مکمل ہوئی ہے۔ سید مودودی فرماتے ہیں: بندہ اپنے رب کے حضور عاجزی کے ساتھ چند اوراق لیے کھڑا ہے اور ایک زمانہ گواہی دے رہا ہے کہ یہ محنت دین حق کے لیے تھی۔ یہ تفسیر‘ تفہیمِ حق کے لیے ہے۔ اور یہ زندگی‘ شہادت حق کے سوا کسی کام کے لیے وقف نہیں رہی اور یہ خدا ہی ہے جو اپنے بندوں کو اس کی توفیق دیتا ہے جس طرح کہ اس نے اپنے اس بندے کو توفیق دی ہے۔
بارِ الٰہا‘ تیری کتاب کی خدمت کرنے کے لیے میں نے جو بھی کوشش کی‘ وہ صرف تیری خوشنودی کے لیے کی اور اس لیے کی کہ وہ تیرے بندوں کے لیے رہنمائی اور ہدایت کا ذریعہ بنے۔ اس کام میں جو کچھ صحیح ہے وہ تیری رہبری اور رہنمائی کا نتیجہ ہے‘ اور جو کچھ غلط ہے وہ میری غلطی اور تاویل کا نتیجہ ہے۔ مجھے اس کی توفیق عطا فرما کہ اس میں جو غلطی ہو اس کی اصلاح کر سکوں‘ اور اپنے بندوں کو بھی توفیق عطا فرما کہ جہاں جہاں بھی مجھ سے غلطی ہوئی وہ مجھے دلیل سے سمجھائیں‘ میں ان شاء اللہ اس کی اصلاح کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو قبول فرمائے اور اس کتاب کو اپنے بندوں کی ہدایت کا ذریعہ اور میری مغفرت کا ذریعہ بنائے۔ (آمین)
یا اللہ! ہم تیرے نام کی عظمت و سربلندی کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ تیرے علم میں ہے کہ کون مفسد ہے اور کون مصلح‘ اے اللہ! جو مصلح ہیں‘ تو ان کی مدد فرما اور جو مفسد ہیں ان کے شر سے مصلحین کو بچا۔
۱۹۶۴ء میں جماعت اسلامی پر پابندی عائد کر کے مولانا مودودی کو ان کے قریبی رفقا سمیت گرفتار کر لیا گیا۔ ۱۹۶۹ء میں جنرل ایوب خان سے دو آئینی مطالبات منوانے کے لیے گول میز کانفرنس میں شرکت کی‘ اور اسی سال مراکش میں اسلامی کانفرنس تنظیم (OIC)کی تاسیسی کانفرنس میں شرکت کی۔ یکم نومبر ۱۹۷۲ء کو ۲۲ سال تک تحریک اسلامی کی رہنمائی کرنے کے بعد مسلسل علالت اور کمزوری صحت کی وجہ سے جماعت اسلامی کی امارت سے سبکدوش ہوگئے‘ البتہ علمی و تحقیقی کاموں میں تادمِ آخر مصروف رہے۔
۲۷ فروری ۱۹۷۹ء کو ان کی دینی و علمی خدمات کے اعتراف کے طور پر انھیں شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ جسے آپ کے صاحبزادے سید حسین فاروق مودودی نے ریاض (سعودی عرب) جا کر وصول کیا۔ سید صاحب اس ایوارڈ سے حاصل کردہ تمام رقم ادارہ معارف اسلامی کو دے دی‘ تاکہ علمی کاموں میں وسعت کے کام آئے۔
۲۶ ستمبر کو آپ کا جسدِ خاکی پاکستان لایا گیا اور اچھرہ لاہور میں آپ کی قیام گاہ کے سامنے لان میں سپرد خاک کیا گیا۔
اسی مطالعہ و تحقیق کے نتیجے میں‘ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ دین پوری طرح لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ سکتا جب تک براہ راست قرآن سے اسے نہ سمجھا جائے۔ میں نے قرآن مجید کی تفسیر سیرت پاک سے اس کا ربط جوڑتے اور جگہ جگہ آیتوں اور سورتوں کا تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ نزول قرآن اور سیرت رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کے حالات و واقعات کسی طرح ایک دوسرے کے ساتھ چلتے رہے ہیں۔ اسی طرح میں نے جگہ جگہ قرآن مجید کی آیات اور احکام کی تشریح میں معتبر احادیث نقل کی ہیں جن سے احادیث اور قرآن کا تعلق بھی اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے اور اس غلطی فہمی کے لیے کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی کہ حدیث کے بغیر بھی قرآن کو سمجھا جا سکتا ہے‘ بلکہ پڑھنے والوں کو یقین ہو جاتا ہے کہ حدیث کے بغیر قرآن کے بکثرت ارشادات و احکام کو آدمی سمجھ ہی نہیں سکتا۔
۱- اسلام ایک انسان میں کس قدر عظیم الشان انقلاب برپا کرتاہے‘اور وہ اﷲ تعالیٰ کے لیے کام کرنے کی راہ میں ہر قسم کی رکاوٹیں دور کر دیتا ہے‘ اس کی ایک مثال اس زمانے میں ہمارے سامنے مولانا مودودی ؒہیں۔
۲- اس میں رائی برابر مبالغہ نہیں ہے کہ سید مودودی مرحوم نے دین اسلام کی خاطر بہت سی مصیبتیں مول لے کر اپنے راحت و آرام کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ اس شخص نے بیمار رہ کر وہ کام کیا جو بہت سے لوگ تندرست اور صحت مند رہ کر نہیں کر سکتے۔
۳- جو شخص سید مرحوم کی تحریروں کو پڑھے گا اسے معلوم ہو گا کہ ان کے ایمان میں کس قدر قوت تھی اور ان کا ادب کس قدر بلند اور شستہ تھا۔ ان کی تحریر ایک فنی انداز میں تہذیب و ادب کی تحریر تھی‘ جس سے ان کے گہرے مطالعے‘ باریک بینی‘ دینی تڑپ‘ رقت قلب اور زندگی کے وجدان کا اندازہ ہوتا ہے۔
۴- سید مودودیؒ قدرت کی طرف سے بڑا اچھا دل و دماغ لے کر پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے روشن فکر‘ درد مند دل اور سلجھا ہوا دماغ پایا تھا۔ ذہن و ذکاوت کے ساتھ قوت حافظہ بھی قوی تھا۔
۵- سید مودودیؒ ان معدودے چند خوش قسمت افراد میں سے تھے‘ جنھوں نے زبان کو صحیح طریقے پر استعمال کیا۔ اپنے فطری ذوق اور وہبی صلاحیتوں سے ان کے فن کو جلابخشی۔ قدیم ماخذ کے گہرے مطالعے اور جدید لٹریچر سے براہ راست استفادہ کیا ۔ایک مناسب اور معقول طرز میں ادبیت کو ڈھال دیا۔
۶- سید مودودیؒ اوقات کے بڑے منضبط تھے۔ وہ اصولی زندگی گزارنے کے عادی تھے۔ نظم و ضبط پر اتنا زور دیتے تھے کہ جیسے زندگی کو مشن بنا دینا چاہتے تھے۔ اگر سید صاحب اوقات میں ضبط و نظم کا اتنا اہتمام نہ کرتے تو وہ علم و ادب کی خدمت نہ کر سکتے تھے۔ بے قاعدگی اور بد نظمی سے ان کو سخت نفرت تھی۔
۷- سید مودودیؒ ٹھوس مطالعے کے عادی تھے۔ عربی ادب و انشائ‘ تفسیر‘ حدیث‘ فقہ‘ تاریخ‘ اشتراکیت اور اسلام کا تقابلی مطالعہ‘ ان کے خاص موضوع تھے۔ اس لیے ان فنون میں ان کا مطالعہ بہت ٹھوس اور تنقیدی تھا۔
۸- سید مودودیؒ عالم اسلام کی ایک عظیم شخصیت تھے۔ علوم اسلامیہ میں تبحرعلمی کے علاوہ سیاست‘ فلسفہ‘ سائنس اور جغرافیہ وغیرہ سے مکمل واقفیت رکھتے تھے۔