پروفیسر عبدالمغنی


مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ درحقیقت عصر حاضر کی سب سے بڑی انسانی تحریک کے     علم بردار تھے۔ وہ ایک آفاقی مفکر تھے اور اصلاح و انقلاب کی جو دعوت انھوں نے دی‘ وہ پورے  عالمِ انسانیت کے لیے تھی۔ ان کی قائم کی ہوئی تنظیم کا اصل مقصد انسان سازی کا ایک عظیم معرکہ بالکل ناموافق حالات میں سر کرنا تھا۔ آزادی‘ برابری اور برادری کے جو نعرے لگائے جاتے رہے ہیں‘ ان کو انھوں نے ایک ٹھوس‘ منطقی اور تجزیاتی بنیاد اپنے عالمانہ و حکیمانہ لٹریچر سے فراہم کی۔

یہی وجہ ہے کہ انھوں نے دورِ جدید کے ہر مسئلے کا حل پیش کیا۔ مذہب‘ معاشرت‘ معیشت اور سیاست کے موضوعات پر ان کی مدلل بحثیں معلومات افزا اور بصیرت افروز ہیں۔ ان کا تصور دین زندگی کے ہر گوشے پر محیط تھا۔ وہ رسمی فرقہ وارانہ مذہب کے بجاے ایک کائناتی نظریۂ حیات کے قائل تھے۔ اسی لیے وہ اسلام کو ایک ہمہ گیر انسانی نظامِ زندگی کی حیثیت سے پیش کرتے تھے اور قرآن و سنتِ رسولؐ کو انسانیت کا مشترک سرمایہ سمجھتے تھے۔ اس سلسلے میں مسلم اور غیر مسلم معاشرے کی تفریق کرنے کی ضرورت نہیں‘ اگرچہ عملاً اسلامی تحریک کے اولین مخاطب‘ ذمہ دار اور کارکن ظاہر ہے کہ مسلمان ہی ہوں گے۔ یہ اسلام کا اصولی موقف بھی ہے‘ جس کا روے سخن سب کی طرف ہے‘ اس لیے کہ وہ رب العالمین کا نازل کیا ہوا دین ہے اور اس کے آخری پیغام بر رحمۃللعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں۔ لیکن اس دین کی اشاعت اور اقامت کاعلَم تو قدرتی طور پر وہی لوگ اٹھائیں گے جو اس پر ایمان رکھتے اور عمل کرتے ہوں۔

مولانا مودودیؒ نے دعوت دین‘ فہم دین اور اجتماعیت کے لیے اپنی فکر مندی کو جس انداز سے پیش کیا‘ اس کا سب سے اہم ماخذ ان کی تصانیف ہیں۔ یہاں پر اس حوالے سے میں اپنے موضوع کو زیر بحث لاؤں گا۔

  • دیـنـیـات: اس تناظر میں مولانا مودودیؒ کے وسیع لٹریچر کی پہلی کتاب دینیات  ان کا  نقطۂ نظر واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس کتاب میں فقہ کے مسائل نہیں ہیں‘ صرف اصل دین اور اس پر ایمان کی تبلیغ‘ حکمت کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔ فطرت کے عام مظاہر‘ قوانینِ قدرت‘ کائناتی حقائق اور زندگی کی تسلیم شدہ حقیقتوں‘ نیز معروف انسانی صداقتوں کو دل نشیں‘ اور عام فہم دلیلوں کے ساتھ پُر اثر طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ ان دلیلوں سے کوئی عقلِ سلیم رکھنے والا انسان انکار نہیں کرسکتا‘ اس لیے کہ اس کے سامنے روزمرہ کے واقعات اور مشاہدات صاف صاف رکھ دیے گئے ہیں۔ مسلم اور غیرمسلم دونوں ہی ان واقعات و مشاہدات پر غور کر کے تمام الجھنوں کے درمیان چھپی ہوئی سچائی کا سراغ بآسانی لگا سکتے ہیں۔ غیر مسلم معاشروں میں رائج زبانوں میںدینیات کا ترجمہ اپنا اثر بخوبی دکھا رہا ہے۔ اس کتاب میں آدمیت کی معروف قدریں ہر شخص کے سامنے نکھر کر آ جاتی ہیں اور اس کے دل پر دستک دیتی ہیں۔ دینیات براہِ راست ضمیرِ انسانیت کو اپیل کرتی ہے اور اس کے الستُ بربکمکے جواب میں قالوا بلٰی‘ کے اسرار و رموز آشکارہوتے ہیں۔ یہ انسان کے ذہن  کو خود شناسی سے خداشناسی تک پہنچا دیتی ہے۔ یہ توحید‘ یعنی وحدتِ الہٰ کا پیغام دیتی ہے‘ جو انسانی وحدت و اخوت کا واحد نظریہ ہے‘ جس کی بنیاد پر ہر قسم کے رائج الوقت تفرقوں کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ ’’وحدت آدم‘‘ (اقبالؒ) کا یہ آفاقی پیام ہی عالمی جنگوں کے خاتمے اور عالمی امن کے قیام کی فضا سازگار کر سکتا ہے۔
  • مسلمان اور موجودہ سیاسی کـش مکش: اس موضوع پر مولانا مودودیؒ نے‘ اس وقت قلم اٹھایا‘ جب آزادی سے قبل ہندستان میں فرقہ وارانہ سیاسی کش مکش بہت تیز ہو گئی تھی اور مسلم و غیر مسلم فرقوں کے رہنما اور جماعتیں بڑی تیزی کے ساتھ تصادم کی طرف جا رہے تھے۔ اس فرقہ پسندانہ نزاع میں مسلمان اسلام کا نعرہ لگا کر غیر مسلموں کو دینِ فطرت سے برگشتہ کر رہے تھے۔ لہٰذا مولانا نے واضح کیا کہ اسلام کوئی فرقہ پرستانہ مذہب نہیں ہے‘ جس پر کسی نسلی فرقے کا اجارہ ہو‘ بلکہ یہ ایک آفاقی نظریۂ حیات ہے‘ جو انسانیت کی مشترکہ میراث ہے اور بلا لحاظِ فرقہ و طبقہ کوئی بھی  اس پر ایمان لا کر عمل اور اپنی صلاح و فلاح کا سامان کر سکتا ہے۔ غیر مسلم معاشروں میں تحریکِ اسلامی کے لیے یہ سب سے بڑی رہنمائی تھی‘ جو مولانا مودودیؒ کی تحریر سے ملی۔ چنانچہ مولانا نے مسلمانوں کو ایک انتہائی نازک اور پیچیدہ صورت حال میں مشورہ دیا کہ وہ فرقہ پرستانہ سیاست سے الگ ہو کر اور اوپر اٹھ کر اسلام کی نظریاتی دعوت ہر فرقے کے انسانوں کو عمومی طور پر دیں۔ انسان دوستی کی یہ صلاے عام اتنی بلند ہوئی اور پرکشش ثابت ہوئی کہ بعض وقت غیر مسلموں کے ایک بڑے لیڈر نے جماعت کے جلسۂ عام میں بطور سامع شرکت کر کے اس کے پیغام کے لیے اپنی پسندیدگی کا برملا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ ہندووں کے مہاتما گاندھی نے اپنے مثالی و علامتی رام راج کی تشریح عملی اور تاریخی طور پر حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی خلافتِ راشدہ کے حوالے سے کی۔
  • الجہاد فی الاسلام: یہ موضوع ماضی میں بھی بحث انگیز رہا ہے اور آج بھی پوری دنیا میں وقت کا سب سے گرم موضوع بنا ہوا ہے‘ مگر اس کی حقیقت عام طورپر مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہی ہے۔

مولانا مودودیؒ کی اس معرکہ آرا تصنیف نے جہاد کی اصل نوعیت و اہمیت تحقیقی طور پر واضح کر دی۔ انھوں نے ناقابلِ تردید دلائل سے ثابت کر دیا کہ اسلامی جہاد صرف خدا کی راہ میں نیکی‘ حق اور صداقت کے لیے انتہائی کوشش کا نام ہے۔ یہ ہر گز کوئی جارحانہ و ظالمانہ قتل و غارت گری اور فتنہ و فساد نہیں ہے۔ یہ مظلوموں کا دفاع ہے۔ اس کا مقصد عدل اور امن کا قیام ہے۔ یہ خفیہ تخریب کاری نہیں‘ تعمیر و ترقی کی علانیہ کوشش ہے۔ اس کی کچھ ضروری شرطیں ہیں۔ یہ افراد کی قانون شکنی نہیں‘ ریاست کا آئینی اقدام ہے۔ اس میں عہد شکنی کی کوئی گنجایش نہیں‘ بلکہ بین الاقوامی معاہدات کی  سخت پابندی ہے۔ یہ جنگ و امن کا اسلامی قانون ہے‘ جس پر عمل کرنے کا اختیار صرف اسلامی حکومت کو ہے‘ جب کہ اسلام میں جارحیت کا کوئی تصور نہیں۔ دفاعی جنگ کی حالت میں بھی بے قصور اور پُرامن شہریوں کو اسلام جان و مال و آبرو کا تحفظ دیتا ہے‘ قیدیوں کے ساتھ انسانی برتائو کی تاکید کرتا ہے‘ لڑنے والے مقتولین کی لاشوں تک کی حفاظت کی ہدایت کرتاہے‘ عورتوں‘ بچوں‘ بوڑھوں‘      عبادت گاہوں اور مذہبی اداروں کے کارکنوں کو ہر قسم کی ضروری سہولت کی ضمانت دیتا ہے‘ فتح کے متکبرانہ مظاہر تک سے منع کرتا ہے۔ مجاہد‘ دشمنوں کا بھی محافظ بن کر دیارِ غیر میں قدم رکھتا ہے۔

اسلامی جہاد کی یہ صحیح تصویر آج کی مہذب کہلانے والی غیر مسلم طاقتوں کو اسی طرح تہذیب کا سبق دیتی ہے‘ جس طرح عہدِ وسطیٰ کے انتہائی طاقت ور متمدن ملکوں کو اس نے انسانیت کا سبق سکھایا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ جنگ و امن کے جتنے بھی مہذب قوانین آج اصولاً رائج ہیں وہ سب اسلامی جہاد کے وضع کیے ہوئے ہیں۔ ضرورت ہے کہ غیر مسلم معاشروں اور خود مسلمانوں کو اس تاریخی حقیقت کی یاددہانی کرائی جائے۔ رہا جبرو ظلم کے مقابلے میں اعلاے کلمۂ حق تو یہ افضل جہاد ہر حال اور ہر مقام میں مسلمانوں اور غیر مسلموں‘ سب کے سامنے احقاقِ حق اور قیامِ عدل کے لیے کیا جا سکتا ہے‘ مگر اس شہادتِ حق کی شرطیں بھی وہی ہیں جو جہاد کی ہیں‘ جو دراصل راہِ خدا اور صراطِ مستقیم کی طرف حکمت و موعظت کے ساتھ دعوتِ بلیغ ہے۔

  • خلافت و ملوکیت: جمہوریت یا عوامیت ابتدا ہی سے اصولاً ایک ناقص       طرزِ حکومت رہا ہے اور اب پوری دنیا میں بوسیدہ و فرسودہ اور ازکارِ رفتہ ہو چکا ہے۔ یہ محض        تعداد و مقدار پر مبنی اوصاف و اقدار سے خالی ایک جابرانہ وطیرۂ اقتدار ہے‘ جس میں عددی     اکثریت و اقلیت کا کھیل جوڑ توڑ‘ خریدو فروخت اور سازش و الزام سے بالکل عامیانہ طور پر‘ انتہائی  بے کرداری سے کھیلا جاتا ہے۔ اس میں درحقیقت راے عامہ کو ہموار کرنے کے بجاے سطحی     ’عوام فریبی‘ سے کام لیا جاتا ہے۔ اس کا پارلیمانی طریقہ برطانیہ میں اور صدارتی طریقہ امریکہ میں رسوا ہوچکا ہے۔ اس کے مقابلے میں ملوکیت اور نوابی یا جاگیرداری کے نظام پہلے ہی نامقبول ہو کر رد ہوچکے ہیں۔ آمریت اور اشتراکیت بھی ناپسندیدہ اور استبدادی اطوارِ حکومت ہیں۔ قابلِ اعتبار‘ معیاری اور مفید سیاسی نظام وہ ہے جس میں مخلص اور سنجیدہ اہل الراے عوام کی حقیقی نمایندگی کریں۔  یہ باشعور اور باکردار افراد کی وہ شورائیت ہے جس کے فیصلوں کو عوامی اعتماد اور تائید حاصل ہو۔ یہ افراد اپنا اعتبار ایک صالح نصب العین کے ساتھ وابستگی اور اس کے تحت عمل کی‘ دنیا اور آخرت میں   جواب دہی سے قائم کرتے ہیں۔

اسلام کی اصطلاح میں اس کا نام خلافت ہے‘ جس میں خدا اور رسولؐ کی نیابت کا تصور انسانی فطرت کی اُس خودسری اور سرکشی پر روک لگا دیتا ہے جو ملوکیت کی روح رواں ہے۔ یہ بادشاہی کی وہ اسپرٹ ہے جو رائج الوقت جمہوری کہلانے والے نقالوں میں بالکل نمایاں ہے‘ ٹھیک جس طرح  عہدِقدیم کی شہنشاہیت میں تھی۔ یونان و روم و ایران سے برطانیہ و امریکہ تک کے پرانی اور نئی استعماریت (Imperialism) اور نوآبادیت (Colonialism) کی تباہ کاریوں کی روداد کل تاریخ کے صفحات میں پڑھی جاتی تھی‘ آج ان اوراق کے علاوہ میڈیا کے مناظر میں بھی دیکھی جا رہی ہے جو انسانیت کو لرزہ براندام کر رہی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اپنی کتاب  خلافت و ملوکیت میں اسلامی تاریخ کے حوالے سے اسی حقیقت کی نشان دہی کی ہے۔ انھوں نے واضح کیا ہے کہ غیر اسلامی ملوکیت کے مقابلے میں اسلامی خلافت ہی وہ نظریۂ سیاست ہے جو صحیح معنوں میں آزادی رائے‘ مساوات‘ عدلِ اجتماعی اور فلاحِ عامہ (public welfare) کی ضمانت دیتا ہے اور صلاحیت و خدمت دونوں کی قدرشناسی کرتا ہے۔ ریاست کے اسی تصور سے معاشرے کی درستی و ترقی ہوتی ہے۔

  • پردہ: کسی بھی سماج کی ریڑھ کی ہڈی ہے مرد اور عورت کے تعلق کا توازن‘ جس پر پورا خاندانی نظام مبنی ہوتا ہے اور انسانیت کو اس کے محور پر قائم رکھتا ہے۔ اس توازن کو برہم کرنے والی  چیزبے پردگی ہے‘ جو اگر قدیم دورِ جاہلیت میں ایک بیماری تھی تو اب ایک وبا بن گئی ہے۔ اسی نے یونان و روم کے معاشرے کو تباہ کیا تھا اور یہی برطانیہ و امریکہ وغیرہ کے معاشرے کو غارت کر رہی ہے۔ مرد و زن کے بے محابا اختلاط کی تباہ کاری کا ایک عبرت انگیز نمونہ سترھویں صدی عیسوی کے دوسرے نصف میں لکھی جانے والی Restoration Comedy کے انگریزی ڈرامے ہیں‘ جو جنسی سازشوں‘ آلودگیوں اور بے حیائیوں کے شرم ناک مرقعے پیش کرتے ہیں‘ اگرچہ دورِ جدید کی بے پردگی ان مرقعوں سے بھی زیادہ ہولناک اور نفرت انگیز ہے۔ آج کے مخلوط سماج نے رشتوں کو پامال کر دیا ہے‘ نسوانیت کو بازار اور کاروبار کی جنس بنا دیا ہے‘ یہاں تک کہ فنونِ لطیفہ عریانی و فحاشی کا دوسرا نام بن گیا ہے۔

اپنی کتاب پردہ میں مولانا مودودیؒ نے جسمانیات (Physiology) اور نفسیات (Psychology) وغیرہ علوم و فنون کے مستند حوالوں سے بہ تحقیق ثابت کیا ہے کہ قدرتی طور پر مرد اور عورت دو مختلف جنس ہیں اور ان کے فطری تقاضے مختلف ہیں۔ لہٰذا دونوں جنسوں کا بے حجابانہ    خلط ملط‘ غلط اور نقصان دہ ہے۔ چنانچہ ان کے دائرہ ہاے کار ایک دوسرے سے الگ ہونے چاہییں اور ہر ایک کو اپنے مخصوص دائرے میں اپنے خاص طریقے ہی سے کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ اسی طرح ان کی جداگانہ صلاحیتوں کا نشوونما بھی ہو گا اور ان کے عزائم کی تکمیل بھی ہو گی۔ یہ سماج کی بہتری کے لیے مرد اور عورت کے باہمی تعاون اور اشتراکِ عمل کی صحیح و مفید شکل ہو گی۔ اس مقصد کے حصول کے لیے عورت کا نامحرم مردوں سے پردہ ضروری ہے۔ اس سلسلے میں مولانا نے پردے کی معقول کیفیت بھی بیان کر دی ہے اور اس کی قابلِ عمل حدود کا تعین کر دیا ہے‘ تاکہ خاندانی نظام انتشار سے محفوظ رہے اور معاشرے کی تنظیم برہم نہ ہو۔

  • سود:معاشیات میں ساری خرابیوں کی جڑ زر پرستی ہے‘ جسے مروجہ اصطلاح میں   سرمایہ پرستی (Capitalism) کہا جاتا ہے۔ یہ مال کی حد سے بڑھی ہوئی محبت ہے‘ جو دولت کی پرستش تک پہنچ کر آدمیت کا خاتمہ کر دیتی ہے۔ نفع اندوزی کی یہ ہوس (lust for interest) انسانی اخلاق اور تہذیبی اقدار کے لیے سم قاتل ہے۔ مولانا مودودیؒ نے سودمیں تفصیل و تحقیق کے ساتھ اس مہلک زر پرستی کا پول کھول دیا ہے‘ حالانکہ جدید تمدن کی رونق اسی پر مبنی ہے اور بنکوں نے  سود (Usury) کو پورے انسانی معاشرے میں زہر کی طرح پھیلا دیا ہے۔ یہ سودی بنک کاری اشتراکی کہلانے والے ملکوں میں اسی طرح موجود ہے‘ اس کی شکل جو بھی ہو‘ جس طرح سرمایہ دار کہلانے والے ملکوں میں جمہوریت ہو کہ آمریت‘ کوئی بھی نظامِ سیاست سود کے معاشی سرطان سے محفوظ نہیں۔

جدید تمدن کا سارا کاروبار سودی نفع اندوزی (profiteering) کے اصول پر چل رہا ہے‘ جس کے سبب امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہے ہیں۔ سود ہی کے بل پر دولت‘ خدائی کا سکہ چلا رہی ہے۔ حد یہ ہے کہ عالمی بنک اور انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) جیسے اداروں کے ذریعے ایک نئی شہنشاہیت دنیا کو نو آبادیت کے دورِ وحشت کی طرف واپس لے جا رہی ہے۔  سود کے ذریعے مولانا مودودیؒ نے تمام مسلم و غیر مسلم معاشروں کے سامنے ان کی اخلاقی پستی اور ترقیات کے مظاہروں کے باوجود انسانیت کے تشویش انگیز زوال کا آئینہ رکھ دیا ہے‘ تاکہ وہ خرابیِ احوال کا اندازہ کر کے اصلاحِ احوال کی جانب مائل ہوں۔

  • اسلام اور ضبط ولادت: سود کی تباہ کن معاشیات کی طرح ضبطِ ولادت کا روگ بھی معاشرت کو گھن کی مانند چاٹ کر کھوکھلا کر رہا ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی درحقیقت قتلِ انسانیت کی ایک سازش ہے‘ جب کہ سود کی طرح اس منصوبہ بندی کو مقبول عام بنا کر رواج دینے کے لیے حکومتیں‘ خاص کر ترقی پذیر کہلانے والے ملکوں میں‘ پورے زور و شور کے ساتھ نہایت بے شرمی سے میڈیا کا استعمال کر رہی ہیں اور احمقانہ اشتہارات کے ذریعے فحاشی کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ یہ     دراصل خوش حالی کے نام پر خود کشی کی کوشش ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اس غلط پالیسی کے تار و پود  اپنے مدلل و حکیمانہ تجزیے سے بکھیر دیے ہیں۔

مجدد عصر

آج کے معاشرے کے حالات و رحجانات پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جو تنقید کی ہے اور ان کی خرابیوں کی اصلاح کے لیے جو تجویزیں اپنی مذکورہ بالا کتابوں اور دوسرے لٹریچر میں پیش  کی ہیں‘ وہ ایک عظیم الشان کارِ تجدید ہے۔ مولانا کی دعوت ایک انقلابی دعوت ہے جس کا خطاب  مسلم و غیرمسلم معاشروں سے یکساں ہے۔ بلاشبہہ مولانا کا محورِ فکر اسلامی ہے اور قرآن و سنت کے احکام و ہدایات پر مبنی ہے لیکن انھوں نے اول تا آخر اسلام کو ایک آفاقی نظریۂ حیات کے طور پر پوری انسانیت کی اصلاح و تجدید کے لیے پیش کیا ہے‘ اور وقت کے جتنے بنیادی مسائل ہیں ان کا حل ایک حکیمانہ انداز سے تجویز کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے دور جدید کے مریضانہ رحجانات پر‘ خواہ وہ کتنے ہی عام اور مقبول ہوں‘ ایسی کاری ضرب لگائی ہے کہ ان کا پول کھل گیا ہے اور ان کی تباہ کاری واضح ہو گئی ہے۔

فتنہ و فساد‘ بے پردگی‘ سود‘ مغربی جمہوریت‘ ضبط ولادت جیسے عالم گیر مہلک امراض کی صحیح تشخیص کرکے ایک عالمانہ بصیرت و جرأت کے ساتھ ان کے علاج کا نسخۂ شفا تجویز کرنا‘ ایک بے مثال کارنامہ ہے جو مولانا مودودیؒ کی تحریک اسلامی نے انجام دیا ہے۔ فکر و عمل دونوں کے اعتبار سے   اس تحریک کی رہنمائی مسلم و غیرمسلم معاشروں کے لیے عام ہے۔ اس سلسلے میں مولانا کا لٹریچر       رائج الوقت غلط افکار و خیالات کی قطعی تردید کر کے ان کے متبادل صحیح نظریات و تصورات مؤثر ترین اسلوب میں پیش کرتا ہے۔ ان حقائق کے مدنظر عصر حاضر میں مولانا مودودیؒ کو صرف مسلم امہ کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا مجدد کہا جا سکتا ہے۔ ضرورت ہے کہ مولانا کی تحریروں کو مناسب طور سے دنیا کی تمام زبانوں میں شائع کیا جائے اور ان کی دکھائی راہوں پر عمل کرنے کی تدابیر اختیار کی جائیں۔

غیرمسلم معاشروں میں تحریک کا طریق کار

                ۱-            مولانا مودودیؒ نے اسلامی تحریک کی رہنمائی کا جو کام اپنے لٹریچر سے کیا ہے‘ اسے غیرمسلم معاشروں میں ایک انسانی تحریک کی حیثیت سے‘ جو فی الواقع اسلامی تحریک بجاے خود ہے‘ پیش کیا جائے۔ اس لیے کہ انسانیت کی اصلاح و ترقی‘ یعنی انسان دوستی یا انسان سازی ہی مولانا کی ساری جدوجہد کا منشا و مقصود رہا ہے۔ اسی لیے انھوں نے اسلامی نظریۂ حیات اور موجودہ مسلم فرقے کے درمیان فرق و امتیاز کیا‘ اور خلافت راشدہ کے بعد کی عام مسلم تاریخ کو خالص اسلامی تاریخ کہنے سے انکار کیا۔

                ۲-            مختلف اہم موضوعات پر مولانا کے مباحث کا خلاصہ انھی کی تصانیف سے‘ انھی کے لفظوں میں تیار کر کے ہر قابل ذکر زبان میں وسیع پیمانے پر شائع کیا جائے۔

                ۳-            اس مقصد کے لیے ایک علمی ادارہ کسی معروف مصنف کے زیر قیادت مستعد رفقاے کار کے ساتھ مناسب مقام پر قائم کیا جائے‘ جس میں رہایش وغیرہ کی تمام ضروری سہولتیں اور نشرواشاعت کے جدید ترین کاروباری وسائل مہیا ہوں۔ ابتدائی و بنیادی سرمائے کے ساتھ یہ ادارہ حتی الوسع خود کفیل ہو جائے اور اپنی جگہ خود مختار ہو۔

                ۴-            افکار مودودی کی اشاعت اور اس کے مطابق مسلم یا غیرمسلم معاشرے میں عملی جدوجہد کے لیے دنیا کے جو ادارے بھی تعاون کرنا چاہیں ‘ان کے ساتھ تعاون کیا جائے۔

                ۵-            غیر مسلم معاشروں کی سب سے مقبول زبان انگریزی ہے۔ لہٰذا اس زبان پر قدرت رکھنے والوں سے ادبیات مودودی کی تلخیص و ترتیب کا کام لیا جائے۔

                ۶-            مغرب کی زبانوں میں فرانسیسی‘ جرمن‘ روسی‘ اطالوی اور مشرق کی زبانوں میں عربی‘ فارسی‘ چینی‘ جاپانی‘ ہندی‘ بنگلہ‘ سواحلی وغیرہ میں بھی کام کیا جائے۔

                ۷-            مولانا مودودیؒ کے خیالات کو فکری و عملی طور پر پھیلانے کے لیے دینی جذبے سے سرشار کارکن‘ رکھے جائیں‘ جو کھلے ذہن اور صالح کردار کے ساتھ کام کریں۔

نظریاتی مقابلے کے موجودہ دور میں وہ جدوجہد بہت ضروری ہے جس کا ایک مختصر خاکہ اوپر پیش کیا گیا۔ اس سلسلے میں تاخیر و تامل نقصان دہ ہو گا۔ آج عالمی ذرائع ابلاغ (Media)‘ خاص کر ٹی وی اور انٹرنیٹ کے ذریعے‘ ایک وحشیانہ تہذیب و تمدن کو‘ سائنس اور ٹکنالوجی کے بل پر‘ فروغ دے رہے ہیں۔ لہٰذا‘ ان کو ناکام بنانے اور صحت مند تعمیری اقدارِ انسانیت کو نمایاں کرنے میں مزید تاخیر کو راہ نہ دی جائے۔ اس معاملے میں مستعدی و چستی وقت کی پکار ہے!