مولانا مودودیؒ کے زندہ کارناموںمیں ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے مسلمان نوجوانوں کے دلوںمیںاسلامی عقائد اورنظام زندگی کے حوالے سے پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کا ازالہ کرنے کے لیے بھرپور جدوجہد کی‘ اور ان کی تحریروں نے مسلم نوجوانوں میں اس اعتماد کو بحال کیا کہ اسلام ہی وہ واحد نظام زندگی ہے جو دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق دنیا کی رہنمائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے (مجلہ البعث الاسلامی‘ بابت محرم ۱۴۰۰ھ)
سید مودودیؒ کی دعوت کادائرئہ اثر کسی خاص طبقے تک محدود نہیں رہا ‘ بلکہ ان کی دعوت پر لبیک کہنے والوں میں ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے اورہر عمر کے لوگ شامل تھے۔ ان کی دعوت کا دائرئہ اثر صرف انفرادی زندگی تک محدود نہیں تھا‘ بلکہ ان کی دعوت انفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ اجتماعی زندگی پر بھی یکساںطور پر حاوی تھی۔
جب میںنے الجہاد فی الاسلام لکھنے کا فیصلہ کیا تو اس سلسلے میں قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اﷲ علیہ و سلم کی سیرت پاک اور احادیث کا گہرامطالعہ کیا۔اس وقت مجھے یکا یک احساس ہوا کہ یہ کتاب تو ایک تحریک کی قیادت کے لیے نازل ہوئی ہے ۔ یہ محض تلاوت کر کے رہ جانے کے لیے نہیں ہے بلکہ اس غرض کے لیے ہے کہ اس کو لے کر ایک تحریک دنیا میں اٹھے --- اسی خیال کو لے کر میں برسوں سوچتا رہا کہ یہ کام کس طرح کیا جائے۔ آخر کار ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی قائم کی اورالحمدللہ اس کے صرف چھ ماہ بعد میں نے فروری ۱۹۴۲ء میں تفہیم القرآن لکھنے کاکام شروع کردیا ۔(مولانا مودودی کے انٹرویو‘ مرتبہ: ابو طارق‘ ص ۴۹۷)
اس طرح ۱۹۷۲ء میں تکمیل تفہیم القرآنکی تقریب سے خطاب کر تے ہوئے سیدمودودیؒ نے اپنی دعوت اور قرآن کریم کے درمیان اس تعلق کو ان الفاظ میں بیان کیا: ’’جماعت اسلامی کی تحریک شروع کرنے کے ساتھ ہی میں نے یہ محسوس کیا کہ میں اپنے قلم اور اپنی زبان سے اللہ کے دین کو سمجھانے کے لیے خواہ کتنا ہی زور لگا لوں لیکن جب تک خود اللہ کی کتاب کے ذریعے سے اللہ کے دین کوسمجھانے کی کوشش نہ کی جائے ‘ اس وقت تک دین کا فہم پوری طرح حاصل نہیں ہوسکتا۔ یہ کتاب دین ہی کو سمجھانے کے لیے اللہ نے نازل کی ہے اور اگر دین کو سمجھانا ہے تو اس کتاب کو سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جب تک لوگ اس کو نہیں سمجھیں گے‘ اس وقت تک ان کے لیے اس مقصد ہی کو سمجھنا ممکن نہیں ہے جس کے لیے میں اور میری جماعت کام کر رہی ہے‘‘۔ (رسالہ آئین‘ جولائی ۱۹۷۲ئ)
دراصل مولانا مودودیؒ کی دعوت کا سر چشمہ بھی قرآن کریم ہی ہے اور منشأو مقصودبھی۔ یہی وہ مرکز و محور ہے جس کے گرد ان کی پوری دعوت و تحریک گھومتی ہے ۔ یہی وہ کتاب عظیم ہے جس نے خود ان کی زندگی میں انقلاب برپا کیا۔ یہی وہ سراج منیر ہے جس کے ذریعے ان پر حق واضح ہو ا۔ یہی وہ شاہ کلید ہے‘ جس کے ذریعے مولانا مودودی ؒ دور حاضر کے مسائل کی گتھیوں کو سلجھانے کے قابل ہوئے۔ یہی وہ کتاب ہے جس کے ذریعے مولانا ؒ نے موجودہ دور کے نئے نئے چیلنجوں کا مقابلہ کیا اور معاشرے میںبرپا ہونے والی منفی تحریکوں کا سدباب کیا۔ ا سی کتاب کے ذریعے انھوں نے ـمغرب پرستی اور جدیدتہذیب کی ذہنی غلامی کاقلع قمع کیا اور موجودہ نسل کے اس اعتمادکو بحال کیا کہ اسلام ہی وہ واحد نظام حیات ہے جو موجودہ دور میں بنی نوع انسان کی قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔
اس بحث سے سید مودودیؒ کی دعو ت و تحریک اور ان کی تفسیر کے درمیان گہرے تعلق کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ انھوں نے تحریک اسلامی کی بنیاد ہی اس لیے رکھی کہ یہ قرآن کریم کی دعوت کا بنیادی تقاضا ہے‘ اور قرآن کریم کی تفسیر اس لیے لکھی کہ تحریک اسلامی کی عملی رہنمائی کے لیے ایسا کرناناگزیر تھا ۔
l چند اہم پہلو: جب قرآن کے گہرے مطالعے سے ان پر یہ بات آشکارا ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو نازل ہی اسی مقصد کے لیے کیا ہے کہ اس کے ذریعے عملاً ایک اسلامی تحریک برپا کی جائے‘ تو انھوں نے عملاً تحریک اسلامی کے قیام کا فیصلہ کر لیا۔ پھر جب انھوں نے عملاًدعوت کے میدان میں قدم رکھا تو انھیں اندازہ ہوا کہ جس مقصد کے لیے انھوں نے یہ تحریک برپا کی ہے‘ اس کی تکمیل اس کے بغیر ممکن ہی نہیں کہ قرآن کریم کو اس کا ذریعہ اور وسیلہ بنا یا جائے۔ چنانچہ انھوں نے تفہیم القرآن کی تالیف شروع کر دی۔ مولانا مودودی ؒ کی دعوت اور ان کی تفسیر میںموجود اس تعلق کا یہ فطری نتیجہ ہوا کہ انھوں نے اپنی تفسیرمیں ان پہلوؤں کو زیادہ واضح کرنے کی طرف توجہ مبذول کی‘ جن کا تعلق دعوتِ دین سے ہے‘ یا جن میں فریضہ اقامتِ دین کی اہمیت واضح کی گئی ہے‘ یا ان پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے جو مغرب کی جاہلی تہذیب و نظریات کے غلبے کی وجہ سے پس منظر میں چلے گئے تھے‘ یا جن کی حقیقت ان نظریات کی مصنوعی چکا چوند کی وجہ سے دھندلا گئی تھی۔
مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں موجودہ دور کے فتنوں ‘ ـ مغربی تہذیب کے جلو میں آنے والے ـ لادین ا ور ـ مادہ پرستانہ فلسفوں اور دیگر نئے نئے چیلنجوںکا جواب بھی قرآن کی روشنی میں دیاہے۔ ان کی تفسیر کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ انھوں نے مستشرقین‘ عیسائی مشنریوںاور مغرب زدہ طبقے کے باطل نظریات کو دلائل کے ساتھ رد کیا ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے اسلامی اقدار و نظریات کے خلاف کام کرنے والی مختلف تنظیموں اور گروہوںکے باطل عقائد و نظریات اور افکار و تاویلات کا مؤثر و مدلل جواب دینے کا اہتمام بھی کیا ہے‘ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ انھوں نے روایت ودرایت کا خاص اہتمام کرتے ہوئے کیا ہے۔
تفہیم القرآن سب سے زیادہ متاثر کن پہلو یہ ہے کہ انھوں نے تحریک اسلامی کی قیادت کرتے ہوئے تفسیر لکھنے کا کام بھی جاری رکھا اور یہ خدمت انھوں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ پر چلتے ہوئے انجام دی۔ جب اسلامی تحریک کا آغاز کیا ‘ تو اس کے ساتھ ہی انھوں نے اس کے لیے رہنمائی کا سامان بہم پہنچانے کے لیے قرآن کریم کی تفسیر لکھنے کا پروگرام بھی بنایا۔ اس طرح یہ تفسیر تحریک اسلامی کی عملی و فکری قیادت کرتے ہوئے ا سلام اور جاہلیت کے مابین جاری کش مکش کے دوران میں تالیف کی گئی جس کا اندازہ اس تفسیر کے مطالعے سے ہوتا ہے۔
چونکہ سید مودودیؒ بیک وقت ایک داعی بھی تھے اور ایک مفسر بھی ‘ اس لیے انھوں نے ٰتفسیر میں جدید جاہلی تہذیب کے دین اور سیاست کی علیحدگی کے اس نعرے کا طلسم چاک کرنے کا اہتمام کیا ہے‘ اور بڑ ی وضاحت سے یہ بات ثابت کی ہے کہ اسلام‘ اہل مغرب کی اصطلاح کے مطابق محدود معنوں میں ایک مذہب نہیں ہے بلکہ ایک مکمل نظام حیات ہے جو دور حاضر میں ریاست کے تمام امور چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ سید مودودی ؒ کی تفسیر کا تیسرا اہم پہلویہ ہے کہ چونکہ وہ بیک وقت مغرب کی تہذیبی یلغا ر کے جلو میں آنے والے لا دین افکارو نظریات اور جدید مادہ پرستانہ فلسفوں پر بھی گہری نظررکھتے تھے اور قرآن و سنت اور دینی علوم میں بھی مکمل بصیرت رکھتے تھے ‘ اس لیے انھوں نے موجودہ دور کے چیلنجوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا اورجدید تہذیب کی کوکھ سے جنم لینے والے افکارونظریات او ر فلسفوں‘ مثلاً سیکولرزم‘ کمیونزم‘ ڈارون کے نظریۂ ارتقا‘ مارکس کے تاریخ کی مادی تعبیر کے نظریے اور اس طرح کے دوسرے نظریات کو عقلی دلائل سے باطل ثابت کیا ہے ‘ نیز مستشرقین‘ عیسائی مشنریوں اورمغرب زدہ طبقے کے پیدا کردہ شکوک و شبہات کا بھی مؤثر انداز میں ازالہ کیا ہے۔ اسی طرح انھوں نے مغربی سامراج کے زیر سایہ پروان چڑھنے والی تحریکوں‘ مثلاً فتنہ ء انکار سنت اور قادیانیت کا بھی مؤثر انداز میں توڑ کیا ہے ۔
یہ تفسیر تین عشروں میں مکمل ہوئی۔ بظاہر یہ عرصہ کسی تفسیر کی تکمیل کے لیے غیرمعمولی دکھائی دیتا ہے لیکن انھوں نے اس عرصے میں صرف تفسیرکی تکمیل کا کام نہیں کیا‘ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بہت سی دیگر مستند اور علمی کتب بھی تالیف کیں‘ اور ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کی فکری وعملی قیادت کا فریضہ بھی انجام دیا۔ انھوں نے ایک طرف قرآن کی تفسیر لکھی اور دوسری طرف نئی نسل کی تربیّت پر بھی توجہ مرکوز رکھی اور اسلام مخالف تحریکوںکے داعیوں سے بر سر پیکار بھی رہے۔ اس عرصے کے دوران میں ملک میں آمریت کے علم برداروں سے بھی نبرد آزما رہے۔ یوں اس پورے عرصے کے دوران میں ان کی کیفیت یہ رہی کہ کبھی تووہ اپنے دفتر میں ضخیم علمی اور دینی کتابوں کا مطالعہ کررہے ہوتے‘ اور کبھی کسی جلسہ گاہ میں عوام الناس سے خطاب کر رہے ہوتے‘ یا ان کے مسائل سنتے اور ان کا حل بتارہے ہوتے‘ اور کبھی کسی یونی ورسٹی میں اہل علم و دانش اور قانون دان طبقے کو اس بات پرقائل کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے جو موجودہ دور میں بھی زندگی کے ہر میدان میںمکمل رہنمائی کا سامان فراہم کرتا ہے‘ اور کبھی کسی جیل کی کال کوٹھڑی میں صرف اس جرم کی پاداش میں پابند سلاسل ہوتے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کی حاکمیت تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے۔
یہ تھے وہ غیرمعمولی حالات جن میں سید مودودی ؒنے اپنی تفسیر مکمل کی اور انھی غیرمعمولی حالات کی وجہ سے یہ عظیم کام اتنے طویل عرصے میںپایہ تکمیل کو پہنچا ۔
تفہیم القرآن کی جملہ خصوصیات کا احاطہ کرنے کے لیے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے۔ یہاں ہم صرف چند خصوصیات کا اجمالی ذکر کرنے پر اکتفا کریں گے۔
مزید برآں شریعت اسلامی کے بنیادی ماخذ اور اسلامی ریاست میں شوریٰ کی اہمیت کا ذکر بھی ٹھوس اور مدلل انداز میں کیا ہے‘ اور بتایا ہے کہ اسلامی نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کرنا دین کا بنیادی تقاضا ہے ۔ اس لیے کہ اسلامی نظام کے قیام کے بغیر دین کی تعلیمات اور تقاضوں پر صحیح طور پر عمل درآمد کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ یوں تفہیم القرآن کے مطالعے سے نہ صرف یہ کہ انسان پر اسلام کے ایک مکمل نظام حیات ہونے کا تصور واضح ہوتا ہے بلکہ وہ اقامت دین کی جدوجہد کے لیے عملاً بھی تیار ہوجاتا ہے۔
اس جائزے سے یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ سید مودودیؒ کا اسلوب تفسیر روایت و درایت کے اصولوں پرپورا اترنے کے ساتھ ساتھ موجودہ دور میں جب اسلام او ر مسلمانو ںکوطرح طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہے ‘ دعوت دین کے تقاضوں کے عین مطابق بھی ہے۔ انھوں نے اپنی تفسیر تفہیم القرآن کے ذریعے ایک طرف جدید تعلیم یافتہ طبقے کا تعلق قرآن سے جوڑ کراس میں یہ اعتماد پیدا کیا ہے کہ وہ جدید تہذیب سے پیدا ہونے والے جاہلی فلسفوںکے سحر سے نکل کر بھر پور انداز میں اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد میں شریک ہو‘ اور دوسری طرف علما و مشایخ اور دینی طبقے کے لوگوں کو یہ حوصلہ دیا ہے کہ وہ جدید تہذیب کے چیلنجوں سے عہدہ برآ ہوں۔
مجھے سید مودودیؒ کی تفسیر کاکئی دوسری جدیدو قدیم تفاسیر کے ساتھ موازنہ کرنے کا موقع بھی ملا ہے ‘ جیسے تفسیرابن جریر طبری‘ تفسیر رازی ‘تفسیر ابن کثیر‘ تفسیر روح المعانی‘ تفسیر فی ظلال القرآن وغیرہ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اس تقابلی جائزے کے بعد سید مودودیؒ کے اسلوب تفسیر پر میرا یقین اس پہلو سے اور بھی پختہ ہو گیاہے کہ انھوں نے اپنی تفسیر کے دوران اصولِ تفسیر کے تمام پہلوؤں کو پوری طرح ملحوظ رکھنے کااہتمام کیا ہے۔ اس اہتمام کے ساتھ ساتھ تفہیم القرآن کی وہ دیگر امتیازی خصوصیات جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے ‘ سیدمودودی ؒ کی اس تفسیر کو فی الواقع دیگر تفاسیر میں ایک ایسا امتیازی مقام عطا کرتی ہیں جو اسی کا حصہ ہے۔