محمد رفیق چودھری


مولانا مودودی رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنے دور میں دین کا تجدیدی کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ انھوں نے دلائل سے ثابت کیا کہ عصر حاضر میں بھی اسلام ہی ایسا نظریۂ حیات ہے‘ جو نہ صرف  قابل عمل ہے بلکہ انسانی فلاح و کامرانی کا ضامن ہے۔جس زمانے میں مولانا مرحوم نے دین کا   یہ جامع تصور پیش کیا‘ اس زمانے میں وقت کے علما و صوفیا‘ اسلام کے اس تصور سے نا آشنا تھے اور  اگر کچھ لوگ آشنا بھی تھے تو اس کے حق میں ایسے مضبوط دلائل نہیں رکھتے تھے کہ جدید ذہن کے شکوک و شبہات کو دور کر کے اسے مطمئن کر سکتے۔

مولانا مودودیؒ کا یہی وہ تجدیدی کام ہے جو ان کو اپنے عہد کی تمام دوسری دینی شخصیات سے ممتاز کر دیتا ہے۔ وہ اپنے عہد میں اسلام کی ایک علامت (symbol) بن چکے تھے‘ جنھوں نے عام ذہنوں میں پیدا ہونے والے ہر سوال کا تشفی بخش جواب دیا۔

مولانا سید سلیمان ندویؒ نے مولانا مودودی کے بارے میں بجا طور پر کہا تھا: اﷲ تعالیٰ نے اس دور پُرفتن میں ہمیں ایسا دماغ فراہم کر دیا ہے جس نے ہمیں اسلام پر مغرب کے حملوں کے جواب سے مستغنی کر دیا ہے۔ اسی طرح مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے مولانا مودودیؒ کے بارے میں اپنی کتاب پرانے چراغ میں لکھا ہے: ’’واقعہ یہ ہے کہ جدید تعلیم یافتہ نسل پر ذہنی و علمی طور پر مولانا مودودی نے گہرا اور نہایت وسیع اثر ڈالا ہے۔ انھوں نے اس نسل کی صدہا بے چین روحوں‘ ذہین اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اسلام کے قریب کرنے بلکہ اس کا گرویدہ بنانے اور ان کے       دل و دماغ میں اسلام کا اعتماد و وقار بحال کرنے کی قابلِ قدر خدمت انجام دی ہے۔ جہاں تک اس تعلیم یافتہ اور ذہین (intellectual) طبقے کا تعلق ہے‘ اس اثر انگیزی میں (اس ربع یا نصف صدی میں) مشکل سے کوئی مسلمان مصنف و مفکر ان کا مقابل و ہمسر ملے گا‘‘۔

مولانا مودودیؒ سے لوگوں کے سوال و جواب کا سلسلہ کبھی تو زبانی طور پر رہتا اور کبھی یہ سلسلہ خط کتابت کی صورت میں ہوتا‘ جسے ماہنامہ ترجمان القرآن میں رسائل و مسائل کے مستقل عنوان کے تحت چھاپ دیا جاتا۔ یہ سلسلہ جوابات‘ اب رسائل و مسائل(پانچ حصے) کی صورت میں ہمارے پاس طبع شدہ کتابی شکل میں موجود ہے۔ خط کتابت سے کتابی صورت میں لاتے وقت اس کی مناسب اصلاح‘ ترمیم اور توضیح کی گئی ہے اور بعض مقامات پر اضافے بھی کیے گئے ہیں۔

مولانا مرحوم کی اس  رسائل و مسائلسیریز پر نقد و تبصرہ کرنا میرا منصب نہیں۔ یہ کام راسخین فی العلم ہی کر سکتے ہیں۔ البتہ دین کے ایک طالب علم کی حیثیت سے اس کتاب کے بارے میںایک مختصرمضمون میں چند معروضات ہی پیش کرپائوں گا:

رسائل و مسائلمیں سوال و جواب کا سلسلہ انسانی زندگی کے کم و بیش ہر شعبے پر محیط ہے۔ اس میں اعتقادی‘ علمی‘ فقہی‘ معاشی‘ تمدنی اور سیاسی‘ غرض ہر قسم کے ایسے مسائل آ گئے ہیں جو عام طور پر لوگوں کے ذہن میں کھٹکتے ہیں۔دراصل موجودہ زمانے کے ذہن کو اسلامی تعلیمات پر مطمئن کرنے کا جو سلیقہ اﷲ تعالیٰ نے مولانا مودودیؒ کو عطا فرمایا تھا وہ دوسرے کم ہی لوگوں کو نصیب ہوا ہے۔ یوں تو مولانا مرحوم کی یہ خداداد صلاحیت اور فضل و کمال ان کی تمام تصانیف میں نمایاں ہے لیکن رسائل و مسائلکے ان پانچ حصوں میں یہ چیز اور زیادہ اجاگر ہوئی ہے۔

بظاہر تو رسائل و مسائل سوالات اور جوابات کا ایک سلسلہ ہے‘ لیکن درحقیقت یہ اس اسلامی تحریکی لٹریچر کا ایک نہایت قیمتی حصہ ہے جو اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ یہ ایک کُل کا جزو ہے اور اسے اسی حیثیت سے لیا جانا چاہیے ورنہ اس کی افادیت و اہمیت واضح نہ ہوگی۔ اس بارے میں مولانا خلیل احمد حامدی مرحوم نے بالکل بجا لکھا ہے: ’’رسائل و مسائل کتاب… درحقیقت اس ہمہ گیر جنگ کا ایک اجمالی خاکہ پیش کرتی ہے جس میں ]مولانامودودی[ نصف صدی سے زیادہ عرصے تک مشغول رہے ہیں۔ اس اجمالی خاکے سے قارئین اندازہ کر سکتے ہیں کہ مرحوم ایک مفتی کے انداز میں سوالات کا جواب دینے کے بجاے ایک معالج کے طرز پر سائل سے ہم کلام ہوتے ہیں اور سائل جس الجھن اور جس شکایت سے دوچار ہے‘ اپنے ناخن گرہ گشا سے اسے دور کر دیتے ہیں‘‘۔ (رسائل و مسائل‘ ح ۵‘ مقدمہ ‘ص ۴)

  • مولانا مودودیؒ کا مسلک:مولانا مودودیؒ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ وہ معروف معنوں میں نہ مقلد تھے اور نہ غیر مقلد‘ نہ وہ غالی حنفی تھے اور نہ کٹر اہل حدیث۔ جس بات کو وہ قرآن و سنت کی روشنی میں حق سمجھتے‘ اسی کو اختیار کرتے تھے۔ چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’میرا مسلک یہ ہے کہ ایک صاحبِ علم کو براہ راست کتاب و سنت سے حکمِ صحیح معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس تحقیق و تجسس میں علماے سلف کی ماہرانہ آرا سے بھی مدد لینی چاہیے۔ نیز اختلافی مسائل میں اسے ہر تعصب سے پاک ہو کر کھلے دل سے تحقیق کرنی چاہیے کہ ائمۂ مجتہدین میں سے کس کا اجتہاد کتاب و سنت سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔ پھر جو چیز حق معلوم ہو اس کی پیروی کرنی چاہیے‘‘۔پھر وہ کہتے ہیں: ’’میں نہ مسلک اہل حدیث کو اس کی تمام تفصیلات کے ساتھ صحیح سمجھتا ہوں اور نہ حنفّیت و شافعیّت کا پابند ہوں‘‘ (رسائل و مسائل‘ ح ۱‘ ص ۱۸۹)۔ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: ’’میرا تو صرف یہ قصور ہے کہ کسی مسئلے میں مسلک حنفی کی تائید کرتا ہوں تو اہل حدیث        خفا ہوجاتے ہیں‘ اور کسی مسئلے پر اہل حدیث کی تائید کرتا ہوں تو حنفی پیچھے پڑ جاتے ہیں‘‘۔ (رسائل و مسائل ‘ح ۴‘ ص ۱۸۵ - ۱۸۶)

البتہ ایک مقام پر فرماتے ہیں: ’’جن مسائل میں مجھے تحقیق کا موقع نہیں ملتا‘ ان میں‘ میں امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کی پیروی کرتا ہوں‘ کیونکہ اکثر مسائل میں‘ میں نے ان کے مسلک کو اپنے اصلی امام نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کے قول و فعل کے زیادہ مطابق پایا ہے‘‘…مولانا مودودی حنفی طریقے سے نماز پڑھا کرتے تھے اور دوسرے مسلکوں کے اماموں کے پیچھے نماز پڑھنے کو جائز سمجھتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’میں خود حنفی طریقے پر نماز پڑھتا ہوں‘ مگر اہل حدیث‘ شافعی‘ مالکی‘ حنبلی سب کی نماز کو درست سمجھتا ہوں اور سب کے پیچھے پڑھ لیا کرتا ہوں‘‘۔ (رسائل و مسائل‘ ح ۲‘ ص ۳۵۱)

  • رسائل و مسائل کا عمومی اسلوب: رسائل و مسائل میں سوالات کے جوابات دینے میں مولانا مودودیؒ کا عام طریقہ یہ ہے کہ آپ زیر بحث مسئلے میں سب سے پہلے قرآن مجید سے دلائل دیتے ہیں۔ پھر احادیث کے حوالے دیتے ہیں‘ اور پھر اجماع صحابہؓ اور  اجماع اُمت کے مطابق رائے دیتے ہیں۔ جن مسائل میں امت کا اختلاف ہے‘ ان میں تمام اختلافی آرا کا ذکر کرتے ہیں پھر ان پر محاکمہ کرتے ہیں۔ پھر ان میں سے کسی ایک رائے کی ترجیح دلائل سے قائم کرتے ہیں اور راجح قول اختیار کر لیتے ہیں۔ جدید مسائل میں وہ خود بھی اجتہاد سے کام لے کر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں‘ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی رائے کے حق میں عقلی دلائل بھی دیتے ہیں اور اس طرح سائل کو پوری طرح مطمئن کر دیتے ہیں۔

حیرت ہوتی ہے کہ اتنا مصروف شخص جو ایک منظم جماعت کی امارت کی ذمہ داریاں بھی سنبھالے ہوئے ہے‘ جسے کبھی جیل میں بند کر دیا جاتا ہے‘جو روزانہ بیسیوں لوگوں سے عام ملاقاتیں بھی کرتا ہے‘ تصنیف و تالیف کا کام بھی کرتا ہے‘ وہ اتنے زیادہ سوالوں کے زبانی اور تحریری جوابات لکھنے کے لیے وقت کیسے نکال لیتا ہے!

اب ہم رسائل و مسائل میں سے نمونے کے چند سوالات و جوابات پیش کریں گے‘ جس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ مولانا مودودی نے قرآن‘ حدیث‘ فقہ اور دوسرے علوم سے متعلق سوالوں کے کس عمدگی سے جوابات دیے ہیں۔

  • ترجمہ قرآن سے متعلق ایک سوال کا جواب: ایک صاحب نے ایک معاصر تفسیر سے خوشہ چینی کرتے ہوئے تفہیم القرآنپر عربیت کے لحاظ سے چند اعتراضات وارد کرکے مولانا مودودی مرحوم کے پاس بھیجے تھے۔ مولانا مرحوم نے ان تمام اعتراضات کا نہایت عمدہ‘ مدلل اور مفصل جواب لکھا (یہ سارے اعتراضات مع جوابات رسائل و مسائل کی جلد پنجم کے صفحہ ۹۵ تا صفحہ ۱۲۱ پر موجود ہیں)۔ ان میں سے ایک اعتراض اور اس کا جواب آپ بھی ملاحظہ کیجیے:

اعـتراض: نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ ]یوسف ۱۲:۳[۔  ’اَلْقصَص‘یہاں مصدر کے طور پر استعمال نہیں ہوا ہے۔ مصدر عربی کے معروف قاعدے کے مطابق نکرہ آنا چاہیے۔ ’احسن القصص‘ ’احسن الحدیث‘ کی نوعیت کی ترکیب ہے اور’قصص‘ یہاں بمعنی  ’مَقْصُوْص‘ استعمال ہوا ہے۔ لفظ کا یہ استعمال عربیت کے مطابق ہے۔ قَصَّ یَقُصُّ مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے اور قرآن میں یہ ہر جگہ مفعول ہی کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ بنابریں صحیح ترجمہ ہو گا: ’’ہم تمھیں بہترین سرگذشت سناتے ہیں‘‘۔ لسان العرب میں ’نَحْنُ نُبَیِّنُ لَکَ اَحْسَنَ الًبَیَانِ‘ کا فقرہ بھی اسی ترجمے کی تائید کرتا ہے۔ اس لیے کہ ’بیان‘ کا لفظ یہاں اسم کے طور پر استعمال ہوا ہے‘ مصدر کے طور پر استعمال نہیں ہوا‘‘۔

جـواب:  تفہیم القرآن میں اس آیت کی ترجمانی ان الفاظ میں کی گئی ہے: ’’ہم بہترین پیرایہ میں واقعات اور حقائق تم سے بیان کرتے ہیں‘‘۔ اگر اس آیت کا لفظی ترجمہ کیا جاتا تو عبارت یہ ہوتی کہ: ’’ہم تم سے بیان کرتے ہیں بہترین پیرائے میں بیان کرنا‘‘۔ لیکن یہ اردو زبان کے لیے ایک نامانوس اسلوب ہوتا‘ اس لیے ہم نے ’قصہ بیان کرنے‘ اور’بہترین پیرائے میں بیان کرنے‘ کے مفہومات کو اردو زبان کے محاورے کے مطابق ادا کیا ہے۔ اب قبل اس کے کہ اس پر قواعد زبان کے لحاظ سے بحث کی جائے‘ یہ دیکھ لینا چاہیے کہ اکابر اہلِ علم نے اس آیت کا کیا ترجمہ کیا ہے:

شاہ ولی اﷲ صاحبؒ: ’’ما قصہ خوانیم بر تو بہترین قصہ خواندن‘‘۔

شاہ رفیع الدین صاحبؒ: ’’ہم بیان کرتے ہیں اوپر تیرے بہت اچھی طرح بیان کرنا‘‘۔

شاہ عبدالقادر صاحبؒ: ’’ہم بیان کرتے ہیں تیرے پاس بہترین بیان‘‘۔

مولانا اشرف علی صاحبؒ: ’’ہم آپ سے ایک بڑا عمدہ قصہ بیان کرتے ہیں‘‘۔

’’پہلے دونوں بزرگوں نے ٹھیک وہی کام کیا ہے جو آپ کے نزدیک غلط ہے‘ یعنی انھوں نے الْقَصَصَ کو مصدر کے معنی میں لے کر ’قصہ خواندن‘ اور ’بیان کرنا‘ اس کا ترجمہ کیا ہے۔ البتہ دوسرے بزرگوں نے اسے اسم قرار دے کر اس کا ترجمہ ’بیان‘ اور’قصہ‘ کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عربی زبان میں دونوں تعبیرات کی گنجایش ہے۔ شاہ ولی اﷲ صاحبؒ اور شاہ رفیع الدین صاحبؒ کے بارے میں مشکل ہی سے کوئی شخص یہ دعویٰ کرنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ وہ عربی کے معروف قاعدوں سے ناواقف تھے۔

’’اب قواعد زبان کے لحاظ سے دیکھیے۔ زمخشریؒ کہتے ہیں کہ القصص مصدر بھی ہو سکتا ہے‘ اِقْتِصاص (قصہ بیان کرنے) کے معنی میں۔ اور فعل بمعنی مفعول بھی ہو سکتا ہے‘ جیسے الخبر سے مراد وہ بات ہے جس کی خبر دی گئی ہو۔ اور جائز ہے کہ مفعول کو مصدر کے نام سے موسوم کیا جائے‘ جیسے مخلوق کا نام خلق۔ اب اگر القصص کو مصدر کے معنی میں لیا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ نحن نقص علیک احسن الاقتصاص (ہم بیان کرتے ہیں تم سے بہترین بیان کرنا)۔   اور اگر القْصَصَ سے مَقْصوص (بیان کی ہوئی چیز) مراد ہو تو اس کے معنی ہوں گے:     نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ اَحْسَنَ مَا یَقُصُّ مِنَ الْاَحَادِیْثِ(ہم بیان کرتے ہیں تم سے وہ چیز جو بہترین ہے ان باتوں میں سے جو بیان کی جاتی ہیں۔)

’’یہی بات امام رازی ؒنے بھی کہی ہے اور اس پر یہ اضافہ کیا ہے کہ اگر قَصَص کو اِقْتِصَاص کے معنی میں مصدر مانا جائے تو لفظ احسن جس خوبی کے لیے استعمال ہوا ہے وہ حسن بیان کی طرف راجع ہو گی نہ کہ قصے کی طرف‘ یعنی اس کا مطلب ہو گا بہترین طریقے بیان کرنا‘ نہ کہ بہترین قصہ۔ اور اگر قَصَص کو مَقْصُوْص (بیان کردہ بات) کے معنی میں لیا جائے تو یہ خوبی اُس قصے کی طرف ہو گی جو بیان کیا گیا ہے۔

علامہ آلوسیؒ نے قَصَص کو مصدر اور اقتصاص کا ہم معنی قرار دیتے ہوئے ایک نکتے کا اور اضافہ کیا ہے‘ اور وہ یہ ہے کہ اس جملے میں اَحْسَنَ الْقَصَص‘ نَقُصُّ کا مفعول نہیں ہے بلکہ اس کا مفعول محذوف ہے‘ اور وہ ہے اس سورت کا مضمون۔ اسی بناء پر ہم نے اُس محذوفِ مُقَدّرکو ’واقعات اور حقائق‘ کے الفاظ میں بیان کیا ہے‘‘۔ (رسائل و مسائل‘ ح ۵‘ ص ۹۶-۹۸)

  • حدیث کے بارے میں ایک سوال کا جواب:ایک سائل نے چند احادیث کے بارے میں اپنے شبہات کا اظہار کیا کہ ان کو پڑھنے سے دل میں کچھ بے اطمینانی پیدا ہو گئی ہے۔ انھوں نے مولانا مودودیؒ کو لکھا کہ ان احادیث کی اگر وضاحت کر دی جائے تو شاید ان کی      بے اطمینانی دُور ہوجائے۔ ان احادیث میں سے ایک یہ حدیث تھی:

’’اگر مکھی کسی پینے کی چیز میں گر جائے تو اسے غوطہ دے کر نکالو‘ کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہوتی ہے اور دوسرے میں شفا۔ (الجامع الصحیح‘ ج ۲‘ ص ۱۱۵)

اس کے جواب میں مولانا مودودیؒ نے فرمایا کہ: ’’اس مضمون کی روایات بخاری نے کتاب بدء الخلق اور کتاب الطب میں نقل کی ہیں‘ نیز ابن ماجہ‘ نسائی‘ ابوداؤد اور دارقطنی میں بھی یہ موجود ہیں۔ بعض شارحین نے اس حدیث کے الفاظ کو ٹھیک ان کے لغوی معنی میں لیا ہے اور اس کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ فی الواقع مکھی کے ایک پر میں زہر اور دوسرے میں اس کا تریاق پایا جاتا ہے۔ اس لیے جب یہ کسی کھانے پینے کی چیز میں گر جائے تو اسے ڈبو کر نکالا جائے۔٭

بعض نے اس کا یہ مطلب لیا ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ و سلم دراصل اس بے جا غرور کا علاج کرنا چاہتے تھے جس کی بنا پر بعض لوگ دودھ کے اس پیالے یا سالن کی اس پوری رکابی سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں جس میں مکھی گری ہو۔ اور پھر یا تو اسے پھینک دیتے ہیں‘ یا اپنے خادموں کو کھانے کے لیے دے دیتے ہیں۔ اس طرح کے لوگوں کا غرور توڑنے کے لیے آپؐ نے فرمایا کہ مکھی اگر تمھارے کھانے میں گر جائے تو اسے ڈبو کر نکالو اور پھر اس کھانے کو کھاؤ۔ اس کے ایک پَر میں بیماری ہے‘ یعنی کبرو غرور کی بیماری جو اسے دیکھ کر تمھارے نفس میں پیدا ہوتی ہے‘ اور دوسرے پر میں اس کا تریاق‘ یعنی اس کبروغرور کا علاج جس کی وجہ سے تم ایسے کھانے کو پھینک دیتے ہو یا اپنے خادموں کو کھلاتے ہو۔ اس معنی کی تائید وہ احادیث بھی کرتی ہیں جن میں نبی صلی اﷲ علیہ و سلم نے برتن میں تھوڑا سا کھانا چھوڑ کر اُٹھ جانے کو ناپسند فرمایا ہے اور حکم دیا ہے کہ اپنی رکابی کو صاف کر کے اٹھو۔ اس حکم کی وجہ بھی یہی ہے کہ جو شخص اس طرح برتن میں کچھ چھوڑ کر اٹھتا ہے ‘وہ گویا یہ چاہتا ہے کہ یا تو اس بقیہ کھانے کو پھینک دیا جائے یا اسے کوئی دوسرا کھائے‘‘۔(رسائل و مسائل‘ ح ۲‘ ص ۱۸‘ ۴۱-۴۳)

ظاہر ہے مولانا مودودی کی اس وضاحت سے حدیث کا مضمون بہت اچھی طرح سمجھ میں آ جاتا ہے۔

  • ہندستان میں گائے کی قربانی کا مسئلہ:تقسیم ملک سے قبل کسی سائل نے ہندستان میں گائے کی قربانی سے متعلق بڑے جارحانہ انداز میں سوال کرتے ہوئے لکھا: ’’مسلمان قوم اگر ہندستان میں گائے کی قربانی روک دے تو اسلام کی نگاہ میں کوئی قیامت نہیں آ جاتی‘ خصوصاً‘ جب کہ اس فعل میں نفع کم اور نقصان زیادہ ہے۔ پھر کیوں نہ ایک ہمسایہ قوم کا اتحاد حاصل کرنے کے لیے رعایت سے کام لیا جائے؟ اکبر اعظم‘ جہانگیر‘ شاہجہان اور موجودہ نظام حیدرآباد نے عملی مثالیں اس سلسلے میں قائم کی ہیں‘‘۔

مولانا مودودیؒ نے سوال کا کچھ طنزیہ مگر نہایت معقول پُرسوز‘ مدلل اور ایمان پرور جواب لکھتے ہوئے فرمایا: ’’آپ نے جن بڑے بڑے ’’اماموں‘‘ کا نام لیا ہے مجھے ان میں سے کسی کی تقلید کا شرف حاصل نہیں ہے۔ میرے نزدیک مسلمانوں نے ہندستان میں ہندوؤں کو راضی کرنے کے لیے اگر گائے کی قربانی ترک کی‘ تو چاہے وہ کائناتی قیامت نہ آ جائے جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے‘ لیکن ہندستان کی حد تک اسلام پر واقعی قیامت تو ضرور آ جائے گی۔ افسوس یہ ہے کہ آپ لوگوں کا نقطۂ نظر اس مسئلے میں اسلام کے نقطۂ نظر کی عین ضد ہے۔ آپ کے نزدیک اہمیت صرف اس  امر کی ہے کہ کسی طرح دو قوموں کے درمیان اختلاف و نزاع کے اسباب دور ہو جائیں‘ لیکن اسلام کے نزدیک اصل اہمیت یہ امر رکھتا ہے کہ توحید کا عقیدہ اختیار کرنے والوں کو شرک کے ہر ممکن خطرے سے بچایا جائے۔

’’جس ملک میں گائے کی پوجا نہ ہوتی ہو اور گائے کو معبودوں میں شامل نہ کیا گیا ہو اور اس کے تقدس کا عقیدہ بھی نہ پایا جاتا ہو‘ وہاں تو گائے کی قربانی محض ایک جائز فعل ہے جس کو اگر نہ کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن جہاں گائے معبود ہو اور تقدس کا مقام رکھتی ہو‘ وہاں تو گائے کی قربانی کا حکم ہے‘ جیسا کہ بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا۔ اگر ایسے ملک میں کچھ مدت تک مسلمان مصلحتاً گائے کی قربانی ترک کر دیں اور گائے کا گوشت بھی نہ کھائیں تو یہ یقینی خطرہ ہے کہ آگے چل کر اپنی ہمسایہ قوموں کے گاؤ پرستانہ عقائد سے وہ متاثر ہو جائیں گے‘ اور گائے کے تقدس کا اثر ان کے قلوب میں اسی طرح بیٹھ جائے گا جس طرح مصر کی گاؤ پرست آبادی میں رہتے ہوئے بنی اسرائیل کا حال ہوا تھا کہ’اُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْعِجْلَ‘۔ پھر اس ماحول میں جو ہندو اسلام قبول کریں گے وہ چاہے اسلام کے اور دوسرے عقائد قبول کر لیں‘ لیکن گائے کی تقدیس ان کے اندر بدستور موجود رہے گی۔ اسی لیے ہندستان میں گائے کی قربانی کو میں واجب سمجھتا ہوں اور اس کے ساتھ میرے نزدیک کسی نو مسلم ہندو کا اسلام اس وقت تک معتبر نہیں ہے جب تک وہ کم از کم ایک مرتبہ گائے کا گوشت نہ کھا لے۔ اسی کی طرف وہ حدیث اشارہ کرتی ہے جس میں حضورؐ نے فرمایا کہ: ’’جس نے نماز پڑھی جیسی ہم پڑھتے ہیں‘ اور جس نے اسی قبلے کو اختیار کیا جو ہمارا ہے‘ اور جس نے ہمارا ذبیحہ کھایا‘ وہ ہم میں سے ہے‘‘۔یہ ’ہمارا ذبیحہ کھایا‘ دوسرے الفاظ میں یہ معنی رکھتا ہے کہ مسلمانوں میں شامل ہونے کے لیے ان اوہام و قیود اور بندشوں کا توڑنا بھی ضروری ہے جن کا جاہلیت کی حالت میں کوئی شخص پابند رہا ہو‘‘۔ (رسائل و مسائل‘ ح ۱‘ ص ۱۷۴ - ۱۷۶)

  • غذاؤں کی حُرمت و حلّت:برطانیہ میں مقیم کسی صاحب نے غذاؤں کے حلال و حرام ہونے کے بارے میں مولانا کو سوال بھیجا۔ مولانا مرحوم نے اس سوال کے جواب میں قرآنی دلائل کے ساتھ ساتھ عقلی دلائل بھی دیے جس سے یہ مسئلہ بخوبی واضح ہو جاتا ہے اور ایمان بھی تازہ ہوتا ہے۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:

سوال: ’’میں ایک عرصے سے انگلستان میں مقیم ہوں۔ یہاں اہل فرنگ سے جب کبھی مذہب کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے‘ یہ لوگ اکثر سؤرکے گوشت کی بابت ضرور گفتگو کرتے ہیں‘ اور پوچھتے ہیں کہ اسلام میں اسے کیوں حرام کیا گیا ہے؟ میں اس سوال کا کوئی جواب نہیں دے سکتا۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس معاملے میں میری رہنمائی فرمائیں اور واضح کریں کہ قرآن کی    رُو سے اس گوشت کی ممانعت کس بنا پر کی گئی ہے اور اس میں کیا حکمت ہے؟‘‘

جواب: ’’سؤر کے گوشت کو جس طرح قرآن میں منع کیا گیا ہے اسی طرح بائیبل (عہد نامۂ قدیم) میں بھی منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ یہودی آج بھی اس سے پرہیز کرتے ہیں۔ عہد نامۂ جدید میں بھی خود حضرت عیسیٰؑ نے کہیں یہ نہیں کہا کہ بائیبل کا یہ قانون منسوخ کر دیا گیا ہے۔وہ سینٹ پال تھا جس نے عیسائیت کو مغربی اقوام میں پھیلانے کے لیے شریعت کی قیود توڑ ڈالیں اور جو کچھ خدا نے حرام کیا تھا اسے حلال کر دیا۔ خدا کی شریعت میں تو سؤر ہمیشہ حرام رہا ہے۔

’’جن چیزوں کی مضرت انسان اپنے تجربات سے خود جان لیتا ہے ان کے متعلق خدا کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ ان کا علم حاصل کرنے کے لیے انسان کے اپنے ذرائع علم کافی ہیں۔ اسی لیے خدا کی شریعت میں سنکھیا کی حرمت نہیں بیان کی گئی۔ مگر جن چیزوں کی مضرت جاننے کے ذرائع انسان کو حاصل نہیں ہیں‘ ان کے متعلق اﷲ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ ان سے پرہیز کرو۔ ہمارے لیے  عقل مندی یہی ہے کہ ہم خدا پر بھروسا کر کے ان سے پرہیز کریں تاکہ ان کے نقصان سے بچے رہیں۔

’’حقیقت یہ ہے کہ غذاؤں کا اثر صرف انسان کے جسم ہی پر نہیں پڑتا‘ بلکہ اس کے اخلاق پر بھی پڑتا ہے۔ جسم پر پڑنے والے اثرات کو تو ہم اپنے تجرباتی علوم سے معلوم کر لیتے ہیں اور بہت کچھ کرچکے ہیں‘ مگر اخلاق پر غذاؤں کے جو اثرات پڑتے ہیں ان کا علم اِس وقت تک بھی انسان کو حاصل نہیں ہو سکا ہے۔ خدا کی شریعت میں سؤر‘ مردار‘ خون اور درندوں کی حرمت اسی لیے بیان کی گئی ہے کہ انسانی اخلاق پر ان غذاؤں کا برا اثر پڑتا ہے۔ (رسائل و مسائل‘ ح ۵‘ ص۱۹۴ -۱۹۵)

  • انعامی بانڈز:دور جدید کے نئے مسائل جن کا ذکر ہماری قدیم فقہی کتب میں موجود نہیں ہے‘ جب ان کے بارے میں شرعی اور فقہی رائے طلب کی گئی تو مولانا مودودیؒ نے خداداد اجتہادی بصیرت سے کام لیتے ہوئے ان کے تشفی بخش‘ عالمانہ اور فقیہانہ جوابات دیے۔ مثال کے طور پر کسی صاحب نے انعامی بانڈز (Prize Bonds) کی شرعی حیثیت سے متعلق درج ذیل سوال کیا:

سوال: ’’آج کل حکومت کی طرف سے امدادی قرضوں کے تمسکات جو انعامی بانڈز کی شکل میں جاری کیے گئے ہیں‘ ان میں شرکت کرنا اور ان پر متوقع انعام حاصل کرنا جائز ہے یا نہیں؟ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ قمار نہیں‘ کیونکہ ہر شخص کی قرض کی اصل رقم بہرحال محفوظ ہے جو بعد میں ملے گی۔ اس پر کوئی متعین شرح سے اضافہ بھی بانڈزہولڈر کو نہیں ملتا جسے سود قرار دیا جائے۔ براہِ کرم اس کاروبار کی شرعی حیثیت کو واضح کیا جائے‘ کیونکہ بہت سے لوگ اس معاملے میں خلجان کا شکار ہیں‘‘۔

جواب: ’’انعامی بانڈز کے معاملے میں صحیح صورت ِ واقعہ یہ ہے کہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ بانڈز بھی اسی نوعیت کے قرضے ہیں جو حکومت اپنے مختلف کاموں میں لگانے کے لیے لوگوں سے لیتی ہے اور ان پر سود ادا کرتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے ہر وثیقہ دار کو اس کی دی ہوئی رقم پر  فرداً فرداً سود دیا جاتا تھا‘ مگر اب جملہ رقم کا سود جمع کر کے اسے چند وثیقہ داروں کو بڑے بڑے ’انعامات‘ کی شکل میں دیا جاتا ہے‘ اور اس امر کا فیصلہ کہ یہ ’انعامات‘ کن کو دیے جائیں ‘ قرعہ اندازی کے ذریعے سے کیا جاتا ہے۔ پہلے ہر وثیقہ دار کو سُود کا لالچ دے کر اُس سے قرض لیا جاتا تھا۔ اب اس کے بجاے ہر ایک کو یہ لالچ دیا جاتا ہے کہ شاید ہزاروں روپے کا ’انعام‘ تیرے ہی نام نکل آئے‘ اس لیے قسمت آزمائی کرلے۔

’’یہ صورت واقعہ صاف بتاتی ہے کہ اس میں سود بھی ہے‘ اور روحِ قمار بھی۔ جو شخص یہ وثائق خریدتا ہے وہ اولاً: اپنا روپیہ جان بوجھ کر ایسے کام میں قرضے کے طور پر دیتا ہے جس میں   سود لگایا جاتا ہے۔ ثانیاً: جس کے نام پر ’انعام‘ نکلتا ہے‘اُسے دراصل وہ سُود اکٹھا ہو کر ملتا ہے جو   عام سودی معاملات میں فرداً فرداً ایک ایک وثیقہ دار کو دیا جاتا تھا۔ ثالثا:ً جو شخص بھی یہ وثیقے خریدتا ہے وہ مجرّد قرض نہیں دیتا بلکہ اس لالچ میں قرض دیتا ہے کہ اسے اصل سے زاید ’انعام‘ ملے گا۔ اور یہی لالچ دے کر قرض لینے والا اس کو قرض دینے پر آمادہ کرتا ہے۔ اس لیے اس میں نیت سودی  لین دین ہی کی ہوتی ہے۔ رابعاً: جمع شدہ سُود کی وہ رقم جو بصورت ’انعام‘ دی جاتی ہے‘ اس کا کسی وثیقہ دار کو ملنا اسی طریقے پر ہوتا ہے جس پر لاٹری میں لوگوں کے نام’انعامات‘ نکلا کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ لاٹری میں انعام پانے والے کے سوا تمام باقی لوگوں کے ٹکٹوں کی رقم ماری جاتی ہے اور سب کے ٹکٹوں کا روپیہ ایک انعام دار کو مل جاتا ہے۔ لیکن یہاں انعام پانے والوں کے سوا باقی سب وثیقہ داروں کی اصل رقمِ قرض نہیں ماری جاتی بلکہ صرف وہ سود‘ جو سودی کاروبار کے       عام قاعدے کے مطابق ہر دائن کو اس کی دی ہوئی رقم قرض پر ملا کرتا ہے‘ انھیں نہیں ملتا‘ بلکہ قرعے کے ذریعے سے نام نکل آنے کا اتفاقی حادثہ ان سب کے حصوں کا سُود ایک یا چند آدمیوں تک اس کے پہنچنے کا سبب بن جاتا ہے۔ اس بنا پر یہ بعینہٖ قمار تو نہیں ہے مگر اس میں روحِ قمار ضرور موجود ہے‘‘۔ (رسائل و مسائل‘ ح۳‘ ص ۳۳۴ - ۳۳۶)


یہ چند مثالیں‘ مولانا مودودیؒ کے اسلوبِ تفہیم کی تصویر ہمارے سامنے پیش کرتی ہیں‘ جب کہ مولانا مودودیؒ کے اسلوبِ تحریر کا جوہر تو ان پانچوں حصوں کو پڑھنے کے بعد ہی سامنے آتا ہے۔