ڈاکٹرمصطفی محمدطحان


امام ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی ہمہ جہت شخصیت سے کام لے کر پورے عالم اسلام کی فکری خدمت کا فریضہ سرانجام دیا۔ ان کے کام اور فکر کے اثرات، دنیا کی تمام جدید اسلامی تحریکوں پر پڑے اور یہ تحریکیں آپ کو اپنا پہلا اولیں مفکر سمجھتی ہیں۔ مولانا کی شخصیت کی نمایاں خوبیاں یہ تھیں:

  • نابغۂ روز گار شخصیت:کسی انسان کی عظمت کا اندازہ اس کی ابتدائی زندگی دیکھ کر بھی لگایا جا سکتا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے عنفوانِ شباب ہی میں جو علمی و فکری کام کیا، وہ ان کی نابغۂ روزگار شخصیت ہونے کا ثبوت اور ان کی اعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں کی دلیل ہے۔ آپ نے ۱۱ سال کی عمر سے ہی لکھنا شروع کر دیا تھا اور ۲۰سال کی عمر تک تاریخ ہند کے اس نازک ترین دور میں متعدد سیاسی اخبارات و رسائل کی ادارت کے فرائض سرانجام دے چکے تھے۔

متنوع اور تعمیری صلاحیتوں کا مالک فرد کسی بھی قوم کے لیے عطیہ خداوندی ہوتا ہے۔  جب ہم امام ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی شخصیت‘ متنوع و متعدد صلاحیتوں اور تجزیہ و استدلال کے اسلوب کو دیکھتے ہیں تو قدرت حق کی فیاضی پر بے اختیار سبحان اﷲ کہہ اٹھتے ہیں۔

آپ ایک سحر البیان ادیب تھے، جو عبارت و لفظ اور معنٰی و فکر کو اس طرح باہم مربوط کر کے پیش کرتے تھے ‘کہ تحریر کی اثر آفرینی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی تھی۔ آپ کو زبان و بیان پر مکمل عبور تھا۔ اعلیٰ ادب و فکر سے مملو‘ مولانا کے لٹریچر نے امت مسلمہ کے مختلف طبقات کو متأثر کیا۔ کسی اور مسلم مفکر و عالم کی کتابوں کو عالمی سطح پر اتنی پذیرائی نہیں ملی جتنی آپ کی کتابوں کو ملی۔

آپ ایک منفرد اسلوب کے مفکر تھے۔ آپ کو بجا طور پر عصر حاضر میں جدید اسلامی تحریک کا مفکر کہا جا سکتا ہے۔ اس وقت عالم اسلام میں موجود تمام فکری قیادتوں نے مولانا کے افکار سے استفادہ کیا ہے اور اس حقیقت کا اعتراف بھی کیا ہے۔ تاہم کچھ ایسے بھی ہیں کہ جنھوں نے استفادہ تو خوب کیا ہے، لیکن گروہی تعصب کے ہاتھوں مجبور ہو کر انھوں نے الٹا مولانا مودودیؒ کو ہی نشانہ تنقید ہی بنایا ہے۔

مولانا مودودیؒ نے کئی فکری محاذوں پر بیک وقت جنگ کی۔ ہندستان میں واحد نظریہ قومیت کی مخالفت کی۔ آپ نے بتایا کہ ’’قومیں اوطان سے بنتی ہیں‘‘ کے نعرے کا بالواسطہ مقصد مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے اکثریت کی غلامی میں رکھنا ہے۔ آپ نے نظریہ وطنیت کی تردید میں دلائل پیش کرتے ہوئے واضح کیا کہ کافر اقوام اوطان سے بنتی ہیں، جب کہ امت مسلمہ، عقیدۂ اسلام کی اساس پر وجود میں آتی ہے۔ آپ نے خبردار کیا کہ انگریز اور ہندو دونوں مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے اور اسلام کی بیخ کنی کے لیے سرگرم عمل ہیں۔

مولانا مودودیؒ کی یہ کوششیں رنگ لائیں۔ فرزندان اسلام کا اپنے دین پر اعتماد بحال ہوا‘ اس کے ساتھ ہی انھوں نے مغرب کے مفید علوم کو حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی بھی کی۔

مولانا مودودی نے بعض علما کے جمودی رویے پر تنقید کی اور بعض علما کی انتہا پسندی اور غلو کی روش کو ناپسند کیا۔ اپنی اس جرأت ایمانی کی انھیں زندگی بھر بڑی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ مولانا اول و آخر داعی تھے۔ آپ نے تحریر و تقریر سے داعی کا فریضہ سرانجام دیا۔ اسلام کو ایک جامع و کامل نظام حیات کے طور پر پیش کیا اور اس کے مختلف پہلوؤں کی بڑے دل نشین انداز میں وضاحت کی۔ آپ نے عصر حاضر کے اسلوب کے ذریعے قارئین کے دل و دماغ تک رسائی حاصل کی۔

  • چیلنجوں کا سامنا: مولانا مودودیؒ نے لکھا تھا : ’’مسلمان ہونے کی حیثیت سے میری نگاہ میں اس سوال کی کوئی اہمیت نہیں کہ ہندستان ایک ملک رہے یا ۱۰ ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائے۔ تمام روے زمین ]فی الحقیقت[ ایک ملک ہے۔ انسان نے اس کو ہزاروں حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ یہ اب تک کی تقسیم اگر جائز تھی تو آیندہ مزید تقسیم ہو جائے گی تو کیا بگڑ جائے گا؟۔ اس بت کے ٹوٹنے پر تڑپے وہ جو اسے معبود سمجھتا ہے۔ مجھے تو اگر یہاں ایک مربع میل رقبہ بھی ایسا مل جائے جس میں انسان پر خدا کے سوا کسی کی حاکمیت نہ ہو تو میں اس کے ایک ذرّہ خاک کو تمام ہندستان سے زیادہ قیمتی سمجھوں گا۔ اور جب پاکستان بنا تو آپ اور آپ کے رفقا نے اسے حقیقی اسلامی مملکت بنانے کی ٹھان لی۔ نوخیز مملکت کی مفاد پرست اور سیکولر انتظامیہ نے مولانا کے اسلامی افکار کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے، سننے اور تعاون کرنے کے بجاے حامیانِ اسلام کے خلاف ایک نہ ختم ہونے والی جنگ چھیڑ دی اور مولانا مودودیؒ کو ان کے ساتھیوں کو متعدد بار جیل میں ڈال دیا۔ ماضی قریب کے مسلم حکمرانوں نے نفاذ اسلام کے مطالبے پر اسلامی تحریکوں کے ساتھ یہی سلوک کیا ہے۔ پاکستان، مصر، الجزائر، تیونس، شام، عراق، ترکی، انڈونیشیا اور سوڈان‘ ہر جگہ پر یہی ہوا۔

عوام کا حقیقی قائد وہی ہوتا ہے جو درست تشخیص کے بعد قوم کی صحیح رخ پر رہنمائی کرے۔ مولانا مودودیؒ نے قوم کے مرض کی بروقت تشخیص کی، اس کے لیے لائحہ عمل اور راست منصوبۂ کار مرتب کیا۔ اس نصب العین کے حصول کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں اور چیلنجوں کا سامنا کیا۔

قیام پاکستان سے بہت پہلے حیدر آباد، دکن کی جامعہ عثمانیہ کی طرف سے مولانا مودودیؒ کو گراں قدر مشاہرے کی اسامی کی پیش کش ہوئی۔ آپ کے خاندان کے معاشی حالات اس پیش کش کو قبول کرنے کے کا بجا طور پر تقاضا کرتے تھے۔ آپ کے بڑے بھائی سیدابوالخیر مودودیؒ اور ممتاز عالم دین سید مناظر احسن گیلانی ؒنے اصرار بھی کیا، مگر آپ نے ملی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دی۔ آپ نے جس مالی بے بضاعتی اور تنگی و عسرت کی حالت میں ترجمان القرآن نکالا، یہ ایک بہت بڑا جہاد تھا۔

مولانا مودودی کا مشن بڑے صبر و تحمل کا متقاضی تھا۔ اس لیے آپ کا ساتھ دینا ہر کسی کے بس کی بات نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کئی لوگ آئے اور جلد ہی الگ ہوگئے۔ میرا گمان ہے کہ ان علیحدگیوں میں اصولی بنیاد کم اور راستے کی مشکلات زیادہ آڑے آئیں، واللّٰہ اعلم بالصواب۔ بہرحال، یہ بڑے صدمے کی بات تھی، جسے آپ نے پامردی سے برداشت کیا۔

مولانا کے جلسوں پر حکومت نے حملہ کروایا، مگر آپ نہ دلبرداشتہ ہوئے، نہ اپنے مؤقف سے ہٹے اور‘ نہ اس ردعمل میں حد سے تجاوز کیا، بلکہ صبر و برداشت کے ساتھ ثابت قدم رہے۔

۱۹۶۵ء میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا، تو پاکستانی آمر سے شدید اختلافات کے باوجود مولانا نے بھارت کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’حکمران سے پہلے یہ سرزمین ہماری ہے۔ کسی اور انسان سے پہلے اس کا دفاع ہمارا فرض ہے‘‘۔ جماعت اسلامی نے پورے ملک اور بالخصوص آزاد کشمیر کے علاقے میں طبی امداد کے مراکز قائم کیے۔ مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کے لیے تمام استعماری طاقتوں خصوصاً کمیونسٹ روس، امریکہ و یورپ، بھارت اوران کے زیراثر چند پاکستانی سیاسی لیڈروں نے سازش تیار کی تھی۔ مولانا مودودیؒ نے پاکستان کو متحد رکھنے کی سرتوڑ کوشش کی۔ ’البدر‘ کے نام سے جماعت اسلامی کے رضاکاروں نے پاکستان پر چاروں طرف سے ہونے والے حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے آخری لمحے تک ملک کو بچانے کی جدوجہد کی۔

  • مولانا مودودیؒ کے انقلابی تصورات: بیشتر مسلمانوں کے نزدیک اسلام انھیں اپنے باپ دادا سے ورثے میں ملنے والی ایک شے کے سوا کچھ نہیں، جو ان پر کوئی ذمہ داری نہیں ڈالتا۔ وہ اسے نکاح کرنے، طلاق دینے یا مردوں کو دفن کرنے کے طریقوں تک محدود سمجھتے ہیں۔ مولانا نے واضح کیا کہ اسلام زندگی کا ایک مکمل نظام ہے، جو مسلمانوں کے تمام معاملات پر محیط ہے۔ اسلام‘ مسلمان کے لیے متاع زندگی اور سرمایۂ حیات ہے۔ اگر وہ اسلام میں کوتاہی کرے یا اسے نظرانداز کرے تو وہ صحیح معنوں میں مسلمان ہی نہیں۔

مولانا مودودیؒ کے نزدیک ارکان اسلام پر عمل کرنا ہی کافی نہیں، بلکہ امت مسلمہ پر شہادت حق کا فریضہ ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ پوری دنیا پر اسلام کی تعلیمات واضح کرنا ملّت اسلامیہ کا حقیقی ہدف ہے۔ مطلوبہ شہادت کی دو صورتیں ہیں: قولی و عملی۔ قولی شہادت یہ ہے کہ مصنفین، علما اور خطبا، تمام ممکنہ ذرائع اور وسائل سے کام لیتے ہوئے اسلامی تعلیمات دل کش اسلوب میں تمام انسانوں تک پہنچائیں۔ عملی شہادت یہ ہے کہ ہم اسلام کے اصولوں پر عمل کریں‘ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر۔ یوں ہم اپنے قول و فعل سے دنیا پر یہ ثابت کر دیں کہ جس دین کے اصولوں پر یہ اُمت قائم ہے، وہ دین ہی انسان کی فلاح و کامیابی کا واحد ضامن ہے اور اسی کی پیروی میں تمام انسانیت کی بھلائی ہے۔ جب قولی و عملی دونوں شہادتیں بیک وقت ادا ہوں گی تو پھر یہ کہا جا سکتا ہے، کہ مسلم فرد اور امت نے اپنے اوپر عائد کردہ ذمہ داری، کسی کمی کے بغیر ادا کر دی ہے۔ (خطبہ، شہادت حق)

  • اسلام زندہ و حرکت پذیر دین: مولانا مودودیؒ نے ثابت کیا کہ اسلام ہر زمانے اور ہر جگہ پر تمام حالات اور تمام ترقیوں کاساتھ دیتا ہے بلکہ رہنمائی کرتا ہے۔ یہ رسوم و رواج کا مجموعہ نہیں بلکہ مکمل دستور زندگی ہے۔ اصل سیاست یہ ہے کہ انسان پاکیزہ اصولوں پر چلے، وفاداری کا مظاہرہ کرے، حق کی حمایت کرے، سچ بولے، درست مؤقف اپنائے، اس کی تائید کرے اور امت کے حقوق کا تحفظ کرے۔ اسلام میں یہی سیاست مطلوب ہے۔

مولانا مودودیؒ نے محض جذباتی فکر پیش کرنے کے بجاے اسلامی نظام کے نفاذ اور تطبیق کا تفصیلی نقشہ پیش کیا۔ آپ نے نظام اسلامی کے تمام خدوخال تفصیل سے بیان کیے۔ حکومت الٰہیہ، مقام رسالتؐ، خلافت، اصول شوریٰ، اصول انتخاب، مقصد حکومت، اولی الامر کی اطاعت کے اصول، پبلک سروس، شہری حقوق اور ذمیوں کے حقوق وغیرہ کی جملہ تفصیلات بتائیں۔

  • تحریک اسلامی کے کارکن اور اسلامی اخلاق: مولانا مودودیؒ نے  اس بات پر زور دیا کہ تحریک اسلامی میں شامل ہونے والے تمام افراد اسلامی اخلاق سے آراستہ ہوں۔ اپنے خالق و مالک اور پروردگار سے ان کا خاص تعلق ہو۔ اس چیز کو مولانا ’’قرآنی سلوک‘‘ کہتے تھے‘ یعنی انسان قرآن شریف کے احکام اور رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کے ارشادات کی اتباع دل و جان سے کرے۔ تحریک اسلامی کے ارکان ’قومیت‘، ’صوبائیت‘، ’جاہلی عصبیت‘، ’فرقہ واریت‘ اور اس طرح کی دیگر غیر اسلامی باتوں کو قریب نہ آنے دیں۔

کچھ حضرات کی رائے ہے: ’’پہلے فرد کی تربیت کی جائے، معاشرے کی اصلاح اسلامی مملکت کے قیام کی صور ت میں خود بخود ہو جائے گی‘‘۔ اس کے برعکس کچھ کے خیال میں: ’’اسلامی فکر کی اشاعت سے عوام میں فکری تبدیلی آئے گی، جس کے نتیجے میں اسلامی انقلاب آئے گا‘‘۔ ان دو مختلف صورتوں کے برعکس مولانا مودودیؒ نے فکر و تربیت دونوں کو بیک وقت ضروری قرار دیا اور بڑی وضاحت سے کہا کہ انھیں کسی صورت میں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔

  • افکار مودودیؒ کی خصوصیات: مولانا کی فکر اپنی بنیاد کے اعتبار سے مضبوط، واضح اور نمایاں تھی۔ فکری تردّد اور غیر واضح فکر اختیار کرنے سے داعی اور دعوت کے بارے میں لوگوں کا اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ اپنی فکر سے سرمو انحراف تحریک اسلامی کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ فکری جمود اختیار کیا جائے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ داعی جسے حق سمجھتا اور کہتا ہو اس کے بارے میں واضح مؤقف اختیار کرے اور پھر ثابت قدم رہے۔

مولانا مودودیؒ نے قومیت یا وطنیت اور مغربی تہذیب کے بارے میں واضح مؤقف اپنایا۔ صاحب علم کے طور پر مغربی تہذیب کا مطالعہ کیا اور ایک باخبر خردمند انسان کی طرح اس پر تنقید کی۔ تہذیب مغرب کے سماجی، اخلاقی، اقتصادی اور سیاسی نظاموں پر نقد و جرح کی۔ آپ کا مؤقف ان لوگوں کی طرح بے لچک نہیں تھا جو تہذیب مغرب کی تمام باتوں کا انکار کرتے ہیں اور یوں اپنی قوم کو جمود و تعطل اور پسماندگی میںدھکیل کر اسے بہت سے فوائد سے محروم کر دیتے ہیں۔ اسی طرح مولانا کا طریقہ ان لوگوں کی طرح بھی نہیں تھا جو تہذیب مغرب کو اس کے تمام خیر و شر سمیت قبول کر لیتے ہیں۔

آپ مثبت اور متوازن فکر کے حامل تھے۔ جدید آلات و ایجادات کے بارے میں اصولی نقطۂ نظر رکھتے تھے۔ مثلاً جب بعض علما و فقہا نے نماز کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال ممنوع قرار دیا اور کہا کہ چونکہ اس آلے کا استعمال لہو و لعب میں ہوتا ہے اس لیے نماز کے لیے اس کا استعمال ناجائز ہے۔ اس پر مولانا نے فرمایا: ’’ہمارے لیے یہ کہنا ممکن نہیں کہ اس آلے کا استعمال شراعاً حرام ہے۔ اس کا استعمال اس وقت حرام ہو گا جب یہ باطل کی آواز بلند کرے مگر جب یہ آوازِ حق بلند کرے گا تو اس کا استعمال جائز و مستحب ہو گا‘‘۔

مولانا مودودیؒ کی فکر کی ایک خصوصیت مکمل احتیاط ہے۔ مثلاً کئی علما کسی مسلمان کو کافر قرار دینے میں دور اندیشی سے کام نہیں لیتے‘جب کہ مولانا کے نزدیک مسلمان کے بارے میں حسن ظن سے کام لینا چاہیے۔ اس فرد کی غیر محتاط بات کو جہالت و عدمِ فہم پر ہی محمول کرنا چاہیے۔ مسلمان کو ہمدردی سے سمجھانا چاہیے اور اس پر کفر کا فتویٰ صادر کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لینا چاہیے۔

موجودہ نظام تعلیم کے تحت جو کچھ مسلمان طالب علم کو پڑھایا جاتا ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ طالب علم زندگی کے معاملات کے بارے میں غیر اسلامی انداز سے سوچتا ہے۔ اسلام کے بارے میں اس کی معلومات محدود، منتشر اور غیر مربوط ہوتی ہیں، جن سے اسے فائدے کے بجاے نقصان پہنچتا ہے اور اس کا ذہن اسلام سے بدکتا اور دور ہٹتا چلا جاتا ہے۔ اس لیے مولانا مودودیؒ نے اسلامی نظریۂ تعلیم کی بنیاد پر جدید علوم کو اسلامی علوم سے مربوط کرنے کی دعوت دی۔

مولانا مودودیؒ کی فکر کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ ہر علاقے اور ملک کے بارے میں وہاں کے حالات اور ماحول کو مدنظر رکھ کر پالیسی بنانے اور اپنانے پر زور دیتے تھے۔ آپ کے نزدیک تحریک اسلامی کو یہ بات ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے اور اس کے مطابق اپنی پالیسی وضع کرنا چاہیے۔ جب مولانا مودودیؒ، پاکستان میں اسلامی شریعت کے نفاذ کی جدوجہد میں مصروف تھے اور پاکستان کو اسلامی مملکت میں بدلنے کے لیے سرگرم عمل تھے‘ اس وقت بھارت کی جماعت اسلامی کا لائحہ عمل اس سے جدا تھا۔ اس لیے کہ تقسیم ہند کے بعد بھارت کے حالات اور وہاں کے تقاضے بالکل الگ تھے۔

  • مولانا مودودی اور سیاسی تبدیلی: ہر سیاسی پارٹی تبدیلی اور انقلاب کا دعویٰ کرتی ہے اور اس کے لیے مختلف ذرائع استعمال کرنے کو جائز سمجھتی ہے‘ جب کہ مولانا کے نزدیک انقلاب بندوقوں اور توپوں سے نہیں آتا۔ ایسا انقلاب دیرپا ثابت نہیں ہوتا، بہت عارضی اور ہنگامی ہوتا ہے۔ اس لیے کہ یہ عوام کے دلوں میں راسخ نہیں ہوتا۔ لہٰذا، عوام کی حمایت سے محروم رہتا ہے۔ مگر جو انقلاب تبدیلی رائے و فکر اور شعوری تبدیلی سے آتا ہے‘ اس کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں۔ اس انقلاب میں خلل یا نقص نہیں آ سکتا۔ اس انقلاب کے لیے عوام کے دل، عقل اور ضمیر کی حمایت و تائید بہت بڑی ضمانت ہوتی ہے۔ یہ انقلاب تعلیم و فکر سے برپا ہوتا ہے اور عفو و درگزر سے بڑھتا‘ پھیلتا اور پھولتا ہے۔ اسلام اسی قسم کے انقلاب پر یقین رکھتا ہے۔ اسلام کا مزاج انتقام پر مبنی نہیں۔ وہ سختی، شدت، دھوکے‘ ظلم و قہر اور خیانت و بدعہدی سے پاک ہے۔ اسلام معافی، ایثار، سکون، سلامتی، عدم تشدد اور تدریج و ارتقا پر یقین رکھتا ہے۔ اسلام انسانوں کو ہلاک کرنے کے بجاے‘ آخری امکانی حد تک انسانی زندگی کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔

سید مودودیؒ کی یہ باتیں اور یہ ہدایتیں، فی زمانہ کسی اور دنیا کے ملکوتی انسان کی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن حکمت، ایمان اور دانش و عمل کی یہ باتیں‘ بالکل ہمارے عہد کے اس عظیم انسان نے ہمارے سامنے بیان کیں۔ کیا ہم نے ان باتوں کو سننے اور پڑھنے کے بعد اپنی عملی زندگی میں کوئی جگہ دی ہے؟ میرے نزدیک یہ آج کا بڑا اہم سوال ہے!