ڈاکٹر محمدالرمیحی


مالکؒ بن نبی کے افکار کی روشنی میں

ترجمہ: محمد احمد زبیری

الجزائرکے مسلم مفکرمالکؒ بن نبی (۱۹۰۵ئ-۱۹۷۳ئ) کے افکار و خیالات میرے ذہن میں اکثر گردش کرتے رہتے ہیں۔ نئی نسل مالکؒ بن نبی سے واقف نہیں جو علمی اعتبار سے ایک دائرۃ المعارف تھے۔ آج اگر ہم ان کے افکار کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اولیں دور کے اور آج کے مفکرین نے کس قدر عرق ریزی سے فکری رہنمائی کا سامان کیا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں جن علما اور مفکرین کی تحریروں نے اُمت مسلمہ کی فکری غذا کی فراہمی کا سامان کیا‘ ان میں محمدعبدہ‘ جمال الدین افغانی اور طہٰ حسین وغیرہ معروف ہیں۔ انھوں نے عالمِ عرب کی ثقافت اور فکر کو متاثر کیا اور اپنے معاشرے میں نئے افکار روشناس کرائے جو پہلے سے معروف نہیں تھے‘ لیکن اس فہرست میں مالکؒ بن نبی نظر نہیں آتے۔ میری خواہش ہے کہ قارئین کو ان کی فکر سے روشناس کروایا جائے۔

مالکؒ بن نبی کا تعارف

مالکؒ بن نبی مشہور اسلامی مفکرہیں۔ الجزائر کے شہر قسطنطنیہ میں ۱۹۰۵ء میں پیدا ہوئے۔ اسلامک انسٹی ٹیوٹ سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۳۵ء میں پیرس سے الیکٹریکل انجینیرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ تمام مسائل کو تہذیبی مشکلات اور مسائل کا نام دیتے ہیں۔ اس لیے ان کی تمام تالیفات مشکلات الحضارۃ کے نام سے طبع ہوئیں۔ پیرس میں قیام کے دوران ان کی کئی کتب فرانسیسی زبان میں شائع ہوئیں جن میں انھوں نے اُمت مسلمہ کے مسائل اور اس کی عظمت رفتہ کی بحالی کو موضوع بنایا۔ ۱۹۵۶ء میں وہ قاہرہ چلے آئے۔ یہاں بھی ان کی کئی کتب شائع ہوئیں اور فرانسیسی زبان میں لکھی گئی کتب کے عربی ترجمے بھی شائع ہوئے۔ الجزائر کی آزادی کے بعد وہ وطن واپس آگئے۔ ۱۹۶۳ء میں الجزائر میں اعلیٰ تعلیم کے ڈائرکٹر جنرل کے طور پر کام کیا لیکن اس کے بعد تصنیف و تالیف سے وابستہ ہوگئے۔ اس عرصے میں ان کی ۱۷کتب شائع ہوئیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے مشہور الجزائری مفکر ابن بادیس کے حالاتِ زندگی اور خدمات پر ایک کتاب تصنیف کی۔ انھوں نے عالمِ اسلام اور عالمِ عرب کے فکری مسائل‘ الظاہرۃ القرآنیۃ اور ثقافت کی مشکلات جیسی گراں قدر تصانیف بھی لکھیں۔ تہذیبی اور فکری مسائل کے بارے میں مالکؒ بن نبی کے افکار اور خیالات ان کتابوں کے ذریعے معلوم ہوتے ہیں۔

پیرس میں دورانِ تعلیم انھوں نے علمی اور عملی دونوں لحاظ سے تعلیم حاصل کی اور فکری لحاظ سے انھیں غوروفکر کرنے کا موقع ملا۔ اپنی زندگی کا ابتدائی حصہ انھوں نے الجزائر میں گزارا جہاں عربی اور اسلامی تہذیب کی جڑیں ان کے دل و دماغ میں پیوست ہوگئیں۔ قاہرہ میں قیام کے دوران انھیں عالمِ عرب کے مسائل اور مشکلات کو جاننے اور مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ اس زمانے میں الجزائر اپنی آزادی کے لیے تگ و دو میں مصروف تھا۔ قاہرہ میں قیام کے دوران ہی انھیں مشرقی فکر سے آگاہی ملی‘ خاص کر انھیں علامہ محمد اقبال ؒکی فکر سے واقفیت ہوئی۔ اسلام کے مبنی بر اعتدال تصور کو انھوں نے علامہ محمد اقبالؒ کی فکر سے مستعار لیا۔ ۳۱ اکتوبر ۱۹۷۳ء کو الجزائر میں ان کا انتقال ہوا۔

مالکؒ بن نبی کے بعض افکار

اقوام کے استعمار (امپریلزم) سے سامنا کرنے کے حوالے سے ایک معروف عرب اسکالر ڈاکٹر کمال ابودیب استعمار کی نمایاں خصوصیات کے حوالے سے لکھتے ہیں: بعض اوقات یہ استعمار تعمیری اور مثبت اقدار پر مبنی ہوتا ہے اور اکثر اوقات صورت حال اس کے برعکس ہوتی ہے۔ تاریخ میں جتنے بھی قابلِ ذکر انقلابات برپا ہوئے ہیں انھوں نے وسیع پیمانے پر استعمار کی تحریک کو جنم دیا ہے۔ اس میں اقتصادی اور مادی پہلو بھی بہت نمایاں نظرآتا ہے۔ پہلی صدی عیسوی سے لے کر اکیسویں صدی تک‘ اس طرز پر کئی ایک انقلابات صفحۂ ہستی پر برپا ہوئے۔ ان کے اثرات کا اگر ہم جائزہ لیں تو چار بڑے انقلابات نظرآتے ہیںجنھوں نے تاریخ انسانی پر اَن مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ پہلا اسلامی عربی انقلاب‘ دوسرا جغرافیائی آگہی کا انقلاب‘ تیسرا علمی اور صنعتی انقلاب‘ چوتھا برقی ترقی اور بیالوجیکل انقلاب جس سے آج ہم گزر رہے ہیں۔

پہلے انقلاب میں عرب تہذیب دنیا میں وسعت پذیر ہوئی اور دنیا میں اسے فروغ حاصل ہوا۔ دوسرے اور تیسرے انقلاب میں مغربی استعمار کو فروغ پانے کا موقع ملا۔ اندلس‘ پرتگال‘ فرانس اور برطانیہ سے اس کا آغاز ہوا اور ساری دنیا کو اس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

چوتھا انقلاب برقی ترقی کا انقلاب ہے۔ اس کے ساتھ امریکی استعمار کا آغاز ہوتا ہے۔ گذشتہ سارے انقلابات زمان و مکان کے لحاظ سے محدود پیمانے پر رونما ہوئے جو ایک انقلابی معاشرے کے لیے فکری اور اقتصادی تقاضوں پر پورے نہ اترتے تھے۔ اس لیے ان انقلابات نے یکساں نوعیت کے گہرے اثرات نہیں چھوڑے‘ جیساکہ مشرق سے مغرب تک‘اورایشیا سے لے کر یورپ‘ بلکہ امریکہ تک ان کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ ایک سمندر سے لے کر دوسرے سمندر تک‘ بحرِمتوسط سے لے کر اٹلانٹک اور بحرالکاہل تک یہ سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ ہراستعمار نے واضح جغرافیائی وسعت حاصل کی اور مختلف خطوں میں انسانی نقل مکانی عمل میں آئی۔ دُور اور قریب میں انسان آباد ہوئے لیکن یہ توسیع دو بنیادوں پر عمل میں آئی۔ عسکری قوت میں اضافہ اور مقبوضہ علاقوں کی طرف انسانی نقل مکانی اور ان علاقوں سے اس استعمار کے مرکز کی طرف نقل مکانی۔ عربوں نے دنیا میں عسکری اور انسانی دونوں لحاظ سے وسعت اختیار کی۔ جن علاقوں پر قبضہ کیا انھیں اپنا وطن بنایا اور اس علاقے کے مقامی باشندوں کے ساتھ گھل مل گئے اور وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ پھر ان علاقوں سے انھیں واپس بھی آنا پڑا۔

امریکی استعمار کا پھیلائو یا وسعت سابقہ استعماروں سے جس لحاظ سے نمایاں ہے وہ یہ ہے کہ امریکی استعمارمیں عسکری‘ اقتصادی اور ثقافتی وسعت شامل ہے۔ خام مال کا استعمال‘ امریکی مصنوعات کے لیے مارکیٹ کی تلاش اور امریکی مرکزسے دُور‘ امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے اڈوں کا قیام‘ وہ ضروری اور نمایاں اوصاف ہیں جو امریکی استعمار اپنی بقا اور تحفظ کے لیے کر رہا ہے۔ جنھیں وہ اپنا دشمن خیال کرتا ہے‘ ان سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے وہ ان اقدامات کو ضروری خیال کرتا ہے۔

آج اہلِ عرب بہت سے اسباب کی وجہ سے مفکر ابن نبی کو یاد کریں گے۔ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم نئے سرے اور نئے زاویے سے ان کے افکار کا مطالعہ کریں۔ اس مطالعے کے نتیجے میں ہم دیکھیں گے کہ انھوں نے اس علمی حقیقت کے بارے میں بہت زیادہ گفتگو کی ہے کہ اقوام‘ استعمار کا تر نوالہ کیسے بنتی ہیں‘ استعمار کو قبول کرنے پر کیسے راضی ہوجاتی ہیں‘ اور استعمار کا مقابلہ کرنے کی حقیقت کیا ہے؟ اگرچہ وہ اس فکر کے بانی تو نہیں‘ لیکن ایک نیا زاویۂ نگاہ ضرور سامنے لائے ہیں۔ اس موضوع پر مالکؒ بن نبی نے تفصیل سے لکھا ہے۔ استعمارکا شکار ہونے والی اقوام کے بارے میں ان کے خیالات اور افکار کسی قوم یا نسل کے ساتھ مخصوص نہیں کہ کسی قوم کے لیے بدبختی ہمیشہ کے لیے مقدر کر دی گئی ہو۔

اسلامی تاریخ بالخصوص اور روے زمین کی دیگر اقوام کی تاریخ شاہد ہے کہ ایک قوم عزت‘ اقتدار اور خوش حالی سے سرفراز ہوتی ہے۔ اس کے بعد آنے والی نسلیں ذلت‘ ادبار اور نکبت کا شکار ہوجاتی ہیں اور غلامی کا مزا چکھتی ہیں۔ پھر اس کے بعد کچھ نسلیں ایسی آتی ہیں جو اس قوم کی عظمت رفتہ کی بحالی کا سبب بنتی ہیں۔ یہ معروف تاریخی فلسفہ ہے جو ازل سے کارفرما ہے۔ برطانوی مفکر آرنلڈ ٹائن بی نے بھی اسے بیان کیا ہے۔

مالکؒ بن نبی کہتے ہیں کہ بعض اقوام اپنی تاریخ کے کسی خاص مرحلے پر استعمار کا نشانہ بننے کے لائق ہوتی ہیں اور اس مرحلے میں وہ قوم کمزوری اور غفلت کا شکار ہوتی ہے۔ علمی انقلاب اپنی آستین میں استعمار کو بھی چھپا کر لاتا ہے۔ وہ اقوام‘ استعمار کا لقمۂ تر ثابت ہوتی ہیں جو فکری اور تحقیقی میدان میں پیچھے رہ جاتی ہیں اور ان کی کمزوری میں دن بدن اضافہ ہوتا جاتاہے اور وہ استعمار کی گود میں بے حس و حرکت‘ پکے ہوئے پھل کی طرح آگرتی ہیں۔ ابودیب نے بھی استعمار اور علمی انقلاب کے باہمی تعلق پر گفتگو کرتے ہوئے ایک دوسرے اسلوب میں یہی بات کہی ہے جو مالکؒ بن نبی نے کہی ہے۔ بن نبی نے اپنی معرکہ آرا کتاب vocation de I'islamمیں اسلامی دنیاکی حالت اور نشات ثانیہ پر اپنے خیالات کو وضاحت سے پیش کیا ہے۔ ان کا تجربہ آج کے بہت سے مسلم ممالک پر بھی چسپاں ہوتا ہے۔ مختصراً وہ یہ کہتے ہیں کہ مغربی نوآبادیاتی استعمار لازمی طور پر ایک اہم عنصر تھا جس نے مسلم دنیا میں دورِ غلامی کا آغاز کیا۔ لیکن اس استعمار کے قبضے سے زیادہ اس کے قبضے کو ذہناً تسلیم کرلینازیادہ سنگین تھا۔ اور جب تک مسلمان ذہن اس مغلوبیت سے نہیں نکلتا وہ ترقی اور نشات ثانیہ میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتا۔

عالمِ عرب کی نشات ثانیہ کی شرائط

مالکؒ بن نبی کے خیال میں ایک طویل عرصے سے عالمِ عرب کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ گویا مستقبل کے لیے اس کا کوئی نصب العین اور ہدف ہی نہیں ہے۔ یعنی مریض نے بیماری کے سامنے سپرڈال دی ہے اور درد اور تکلیف کا احساس مریض کو نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ وہ مرض کو اپنے جسم کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔

بیسویں صدی سے پہلے اس کی بیماری کا چرچا ہونے لگا اور عالمِ عرب اپنی طویل اور گہری نیند سے بیدار ہونے اور اس بیماری کا احساس کرنے لگا۔ اس خاموش بیداری اور تاریخ کے اس عرصے کو مالکؒ بن نبی نشات ثانیہ کا عنوان دیتے ہیں۔

اس نشات ثانیہ یا اس پیش رفت کا کیا مفہوم ہے؟ اس حوالے سے مالکؒ بن نبی کہتے ہیں کہ محض مرض کا احساس ہونا‘ اس مرض سے شفایاب ہونے کے لیے کافی نہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بیسویں صدی کے نصف اول پر نظرڈالی جائے۔ اس کے نتیجے میں عالمِ عرب کی موجودہ کیفیت کے اسباب سمجھ میں آجائیں گے۔

مالکؒ بن نبی کے نزدیک گذشتہ ۵۰سالہ جدوجہد کے دو متضاد نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ ایک لحاظ سے اس جدوجہد کا نتیجہ موافق یا مثبت ہے‘ اور ایک دوسرے لحاظ سے یہ نتیجہ ناکامی کے مترادف ہے۔ کیونکہ اس زمانے میں ہونے والی تبدیلیوں کے مطابق عوام نے اپنے اہداف اور جدوجہد کی سمت کا تعین نہیں کیا۔ عالمِ عرب میں جمہوریت‘ عوام کی شرکت اور علمی پیش رفت مفقود رہی۔

اس عرصے کی تاریخی دستاویزات اور وثائق کا ہم آج مطالعہ کرسکتے ہیں۔ اخبارات‘ جرائد اور کانفرنسوں کی رودادیں ہمیں ترقی یا نشات ثانیہ کے موضوع پر ہونے والے کام یا پیش رفت کے بارے میں پتا چلانے کے لیے ممدومعاون ثابت ہوسکتی ہیں۔ ان دستاویزات کا مطالعہ استعمار‘ جہالت‘ غربت اور نظم ونسق کے بگاڑ اور ان کے حل کے بارے میں تفصیلات فراہم کرتا ہے۔ لیکن مرض کا حقیقی تجزیہ اس سارے ذخیرے میں نظرنہیں آتا‘ یعنی مرض کی ایسی تشخیص جس میں وہم و گمان کو بنیاد نہ بنایا گیا ہو‘ بلکہ مرض کے اصل اسباب معلوم کرنے کی کوشش کی گئی ہو جن میں عالمِ عرب کا جسدِخاکی مدتوں سے مبتلاے اذیت ہے۔ ان دستاویزات کے مطالعے سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہرمصلح نے وقتی صورت حال کا علاج اپنے ذوق‘ رائے اور انھی مشکلات کی روشنی میں تجویز کیا۔

اس مشکل کا علاج عقیدے کی اصلاح اور وعظ و نصیحت سے ہو سکتا ہے‘ جیسا کہ محمد عبدہ نے کیا۔ یہ ساری تجاویز مرض کو ختم کرنے کے لیے نہیں‘بلکہ اس مرض کی علامات کو ایک ایک کرکے ختم کرنے کے لیے پیش کی گئیں۔ نتیجہ وہی نکلا جو ایک ڈاکٹر تپ دق کے مریض کے لیے اس مرض کے جراثیم کو ختم کرنے کے بجاے محض بخار کی شدت کم کرنے کی دوا تجویز کرے اور مریض بھی اس طریق علاج کو پسند کرتا ہو۔ گذشتہ ایک صدی سے یہی ہو رہا ہے۔ استعمار اور اس کی سازشوںکو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے بجاے ایک ایک اثر کو ختم کرنے کی تجاویز دی جاتی رہی ہیں۔ کوئی ناخواندگی کا رونا روتا ہے اور کوئی غربت کو اصل مسئلہ قرار دیتا ہے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔

کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو اس مرض کی حقیقت کو نہیں جانتے اور بے شمار لوگ ایسے ہیں جو مرض کو جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے‘ بلکہ درد محسوس کرنے کی صورت میں اس درد کو ختم کرنے اور وقتی آرام کے لیے طرح طرح کی گولیاں اور شربت استعمال کیے جاتے ہیںاور جگہ جگہ ڈسپنسریوں میں یہ سہولت موجود ہے۔

مالکؒ بن نبی کی رائے میں اس صورت حال سے چھٹکارا پانے کی دو ہی صورتیں ہیں: یا تو مرض کو جڑ سے اکھاڑ پھینکاجائے یا مریض کو ختم کر دیا جائے۔ لیکن بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو اس صورت حال کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں‘ کیونکہ ان کے مفادات کا تحفظ صرف اسی صورت میں ممکن ہے۔ یہ عنصر ہمارے معاشرے میں بھی موجود ہے اور معاشرے سے باہر بھی۔

یہ مریض‘ مغرب کی ڈسپنسری میں شفا کی تلاش میں دستِ سوال دراز کرتا ہے۔ لیکن کس غرض سے؟ کون سی دوا سے؟ اور اس کی مدتِ علاج کے بارے میں بھی ہم کچھ نہیں جانتے۔ لیکن گذشتہ ۵۰ برسوں میں پس ماندگی اور زوال میں اضافہ ہوا ہے‘ کمی نہیں ہوئی۔ ضروری ہے کہ ہم سنجیدگی کے ساتھ اس صورت حال کا تجزیہ کریں اور اس کا حل سوچیں۔جب ہم اس کا تجزیہ کریں گے تو اس صورت حال کی حقیقی تصویر ہمارے سامنے آجائے گی جس سے ہم آج گزر رہے ہیں۔ اس صورت حال کو سمجھنے کے لیے اعتدال کا وصف ہونا بھی ضروری ہے۔

فرد‘ وطن اور وقت

مالکؒ بن نبی کے خیال میں نشات ثانیہ کے لیے تین سطحوں پر مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے اور وہ تین دائرے فرد‘ وطن اور وقت ہیں۔ محض مادی اشیا تک اپنے آپ کو محدود کرلینے سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔

پہلا دائرہ فرد ہے‘ یعنی اصلاح یا نشات ثانیہ کی اس تحریک کا آغاز فرد سے ہونا چاہیے۔ انسان یا فرد کو بدلنا اور پھر اس کو جماعت میں مناسب جگہ پر رکھنا اور بہترمنصوبہ بندی سے مسائل کو حل کرنا پہلی شرط ہے۔ تبدیلی کا یہ عمل انسان یا فرد سے شروع ہوگا‘ کیونکہ انسان ہی ایسی مخلوق ہے جو تعمیری تحریک کی قیادت کرسکتا ہے۔ رہا مادی اشیا کا مسئلہ تو انھیں اچھا یا بُرا نہیں کہا جا سکتا۔ ان کے استعمال کی نوعیت اور کیفیت اسے اچھا یا بُرا بناتی ہے۔

مالکؒ بن نبی کے خیال میں افرادی قوت اصل سرمایہ ہے‘ اور یہ وہی نظریہ ہے جو ماہرین عمرانیات نے نصف صدی کے غوروخوض کے بعد پیش کیاہے۔ انسان میں فی الواقع کیسے تبدیلی واقع ہو؟ اس حوالے سے بن نبی کہتے ہیں کہ انسان اپنے آپ کو پہچانے۔ انسان دوسروں کو بھی پہچانے اور ان پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے اور نہ انھیں نظرانداز کرے۔ یہ دوسری شرط ہے۔

تیسری شرط یہ ہے کہ دوسرے افراد کو اپنی جگہ پر رکھ کر محبت اور احترام کے جذبے کے ساتھ پہچاننے کی کوشش کرے۔ لیکن ایسی واضح صورت میں کہ استعمار کو قبول کرنے اور پس ماندگی پر راضی ہونے کی کوئی گنجایش موجود نہ ہو۔ مالکؒ بن نبی کے خیال میں فرد اصل ہدف ہے اور تعمیر اور تبدیلی کا نقطۂ آغاز بھی فرد ہے۔

بعض اوقات مصنوعات کی خریداری‘ ٹکنالوجی کا حصول اور اس طرح کی دیگر کوششیں اس صورتِ حال کا علاج تصور کی جاتی ہیں۔ لیکن یہ ساری کوششیں بارآور نہیں ہوسکتیں‘ کیونکہ ہم نے نقطۂ آغاز کے انتخاب میں غلطی کی۔ اس صورت حال کا ایک ہی حل ہے کہ ایسا فرد تیار کیا جائے جو اپنے نصب العین کا حامل ہو اور اپنی فکر کے لیے دوسروں کی رہنمائی کا محتاج نہ ہو۔

آج مادی علوم سے زیادہ اخلاقی‘ معاشرتی اور نفسیاتی علوم کی ضرورت ہے۔ جب تک لوگ اپنے آپ کو نہیں پہچانیں گے اور تہذیبی ادوار میں فرد کے کردار کو نہیں جانیں گے‘ صورت حال جوں کی توں رہے گی۔ آج ہمارے معاشرے میں ان علوم کے سندیافتہ ماہرین کی کمی نہیں۔ لیکن حقیقت میں یہ مستند ماہرین محض ڈگریوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں‘ یہ عمل شاہراہ ترقی پر چلنے کے لیے مضرثابت ہورہا ہے۔ آج پس ماندہ معاشروں کی قیادت ان مستند ماہرین کے ہاتھوں میں ہے لیکن وہ آسان اور معمولی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔ اگر ایسی     صورت حال نہ ہوتی تو آج ہم اس پس ماندگی سے نجات حاصل کرچکے ہوتے۔

فرد کی تعمیر کے سلسلے میں ہمیں کیا لائحہ عمل اور حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے‘ اس پر اچھی طرح غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس تبدیلی کے طریقے کو ڈائیلاگ یا مکالمے کے ذریعے طے کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ مکالمہ‘ افکار کے تبادلے اور آرا سے آگاہی کا بہترین ذریعہ ہے۔ یہ مکالمہ محض اخلاق یا رواداری کا تقاضا نہیں بلکہ اس حکمت عملی کا اساسی عنصرہے۔ استعارے کی زبان میں ہم قدیم زمانے کی اس کہانی سے سبق حاصل کرسکتے ہیں جس میں بابل کے برج کی تعمیر محض اختلافِ رائے کی وجہ سے ناممکن ہوگئی۔ یہ معاملہ محض کانفرنسوں‘ جلسوں اور دیگر مجالس میں گفتگو کے آداب طے کرنے سے مختص نہیں ہے‘ بلکہ ہمیں واقعتا ایسا لائحہ عمل طے کرنا ہوگا جس پر عمل کرنا ہمارا منتہاے نظرہو‘ جس میں اخلاقی اور منطقی دونوں پہلوئوں کو ملحوظ رکھا جائے ۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں فعال اور مؤثر کردار ادا کرنا ہے یا محض بے نتیجہ سرگرمیاں ہی ہمارے   پیش نظر ہیں جن میں ہم صدیوں سے مبتلا ہیں۔

پس ماندگی کا اصل سبب

مالکؒ بن نبی پس ماندگی کے اصل اسباب بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ضروری بھی نہیں اور نہ ممکن ہے کہ ایک معاشرہ جو پس ماندہ ہو ‘ اس کی ترقی اور نشات ثانیہ کے لیے ڈالروں یا سونے کے ڈھیر لگا دیے جائیں تو وہ ترقی یافتہ بن جائے گا۔ بلکہ اس معاشرے کی ترقی کا انحصار اس سرمائے پر ہے جو قدرت نے اسے افراد‘ وطن اور وقت کی شکل میں عطا کیا ہے۔

انقلاب راتوں رات نہیں آجاتا‘بلکہ یہ ایک طویل سفر سے عبارت ہے جس میں انقلاب سے پہلے اور بعد کے مراحل بھی یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ مراحل محض اضافت زمان ومکان سے حاصل نہیں ہوجاتے‘ بلکہ اس میں مسلسل اور تاریخی ارتقا سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کی نشوونما میں اگر کوئی خرابی واقع ہوجائے تو اس کا نتیجہ مایوس کن اور امیدوں پر پانی پھیرنے والا ہوتا ہے۔ تہذیبی ارتقا کی باگ ڈور افکار کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ لیکن استعمار اور استبداد کے اس دور میں ہماری تہذیب کی باگ ڈور اس پیغام رسانی پر منحصر ہے جو استعمار کے تحفظ کی کمین گاہوں سے نشرہوتے رہتے ہیں‘ اس کے نتیجے میں عالمِ اسلام اور عالمِ عرب میں تبدیلی اور حوادث رونما ہوتے ہیں۔ بالآخر تان اسی پر ٹوٹتی ہے کہ اصل مسئلہ افکار کا ہے۔ کیونکہ اس فکرکے بل بوتے پر ہی ہم منصوبہ بندی کرتے ہیں اور اپنی طاقت اور وسائل کو ارادے سے عمل میں ڈھالتے ہیں۔

ہر تہذیب کا ایک خاص اسلوب‘ طریق کار اور ترجیحات ہوتی ہیں۔ مغربی دنیا کے افکار کا منبع رومی مشرکانہ عقاید اور نظریات ہیں‘ جب کہ عالمِ اسلام کی تہذیبی اساس‘ عقیدۂ توحید پر استوار ہے۔ غیب پر ایمان اور مابعد الطبیعیاتی امور اس کے خصائص اور امتیازات ہیں۔ انسان معاشرتی تعلقات کی بنیاد اس فکر پر استوار کرتا ہے جو اس کا تہذیبی ورثہ ہوتا ہے۔ پس ماندہ ممالک میںپس ماندگی کا سبب مادی اشیا کی قلت قرار دیا جاتا ہے اور مادی اشیا کے ڈھیر اور انبار لگانے کو اس کا حل تجویز کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ محض فضول خرچی ثابت ہوتی ہے اور اصل مسئلہ جوں کا توں رہتا ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں مادی اشیا کی کثرت معاشرے کے افراد میں چشم سیری پیدا کرتی ہے۔ نتیجتاً انسان اپنے ارد گرد خود ساختہ حالات سے گھبرا کر ترقی یافتہ ممالک کو اپنا آئیڈیل قرار دیتا ہے اور اسے اپنے لیے سفینۂ نجات تصور کرتا ہے۔ لیکن ایک شخص کے اندر بغاوت یا سرکشی سیاسی اور معاشرتی نظام کے انہدام کا باعث بنتی ہے اور زیادہ تر تیسری دنیا کے ممالک میں یہی حربہ استعمال کیا جاتا ہے اور من پسند نتائج حاصل کیے جاتے ہیں۔

اس لیے ان تین عناصر فرد‘ وطن اور وقت میں عدمِ توازن ہماری معاشرتی شکست و ریخت کا اصل سبب ہے۔ عالمِ اسلام اور عالمِ عرب ایک طویل عرصے سے اس انحراف کا شکار ہے۔ اس کی پس ماندگی اور ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے بارے میں نہ داخلی سطح پر سوچا گیا اور نہ خارجی سطح پر۔ معاشرتی زندگی میں فکر کی اہمیت اظہرمن الشمس ہے۔ یہ معاشرتی زندگی کی اصلاح اور ترقی یا معاشرتی زندگی کی پس ماندگی اور بگاڑ کا سبب ہے۔

جدید دنیا میں افکار کی اہمیت مزید دوچند ہوگئی ہے۔ انیسویں صدی میں اقوام کے باہمی تعلقات کا انحصار فیکٹریوں کی تعداد‘ اسلحہ خانے کی قوت اور بحری بیڑوں کی تعداد پر تھا۔ لیکن بیسویں صدی میں ان تعلقات کا انحصار افکار پر ہوگیا ہے۔ بہت سارے پس ماندہ ممالک اس نمایاں تبدیلی سے ابھی غافل ہیں۔ ان پس ماندہ ممالک کے ہاں ترقی اور پس ماندگی کی کسوٹی محض مادی اشیا کی قلت اور کثرت ہے۔ ایک پس ماندہ انسان اپنی پس ماندگی اور درماندگی کا سبب ٹینک‘ جہاز اور دیگر اشیا کی قلت کو قرار دیتا ہے۔ اس لیے معاشرتی زندگی میں وہ فعال کردار ادا کرنے سے محروم رہتا ہے‘ اور مشکلات کے انبار کو اپنے راستے میں رکاوٹ کے طور پر دیکھتا ہے۔ درحقیقت جدید دنیا میں واقع ہونے والی تبدیلی کا محور ’’فکر‘‘ ہے۔ فرد‘ وطن اور   وقت کے تینوں عناصر کا ایک متوازن آمیزہ ایک قالب میں ڈھالا جائے تو صحیح تہذیبی اقدار کی  صورت گری ہوسکتی ہے۔ لیکن اگر کسی ایک عنصر میں بھی توازن کی کمی آجائے تو دیگر عناصر اسے اپنی سرکشی کا نشانہ بنالیں گے۔ایسے سوار کو تاریخ ترقی کی دوڑکے مقابلے سے خارج کر دیتی ہے۔ (مجلہ الکویت‘ شمارہ ۲۳۶)