ترجمہ: شازیہ افضل
سائنسی اور فنّیاتی(ٹکنالوجیکل) انقلاب کے جو مظاہر آج ساری دنیا میں دیکھنے میں آرہے ہیں وہ بالکل فطری ہیں۔ ان کی ترقی عملاً ازخود ہوئی ہے۔ انسانی اداروں نے نہ ان کی منصوبہ بندی کی ہے‘ نہ انھیں آگے بڑھا رہے ہیں۔
سائنس اور تکنیک کے میدان میں ہونے والی ترقی کے مزاج میں ہمیشہ سے یہ بات شامل رہی ہے کہ اعلیٰ اور بہتر طریقے‘ آلات‘ کارخانے یا مصنوعات بتدریج ساری دنیا میں عام ہوجاتی ہیں۔ اس اعتبار سے عالم گیریت (گلوبلائزیشن) ہمیشہ سے ہمارے ساتھ رہی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہندستانی ہندسے بشمول صفر تقریباً۸۰۰ سال کے عرصے میں لاطینی ہندسوں کے بوجھل نظام کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ہر جگہ عام ہوگئے۔ نام نہاد یونانی آتشیں گولوں کو بحیرئہ روم کے گرد بحری جنگ کے طریقوں میں انقلاب لانے سے نہ روکا جا سکا۔ اسپین میں آمد کے بعد جنوبی یورپ کے تمام علاقے ایک ایک کر کے مسلمانوں کی ترقی یافتہ ٹکنالوجی سے مستفید ہوئے۔ مثال کے طور پر‘ پن چکی اور آب پاشی کے طریقے۔ یہاں تک کہ نباتات میں ترنج اور بادام کے درختوں کی افزایش وغیرہ۔
دورِ نو کی عالم گیریت بھی اسی نوعیت کی ہے۔البتہ اس نے اپنا رُخ تبدیل کر لیا ہے۔ اب اس کا رُخ شمال سے جنوب کے بجائے مغرب سے مشرق کی طرف ہے۔ لیکن ایک بڑا فرق اُس رفتار کا ہے جس کے ساتھ موجودہ عالم گیریت پھیل رہی ہے۔ اگر تاریخی لحاظ سے دیکھاجائے تو جو حیثیت مسلم اسپین کی یورپ کے لیے تھی‘ آج وہی مغربی تہذیب کی مشرق کے لیے ہے۔ اور یہ کسی بل گیٹس کے حکم کے تحت نہیں۔اعلیٰ اور برتر ٹکنالوجی کی فطرت ہی یہ ہے کہ وہ پانی کی طرح اوپر سے نیچے کی طرف آتی ہے۔
رفتار اس عمل کی ماہیت پر تو اثرانداز نہیں ہوتی لیکن اسے زیادہ خوف ناک ضرور بنا دیتی ہے۔ موجودہ دور میںتبدیلی کی یہ رفتار مستقبل کے بارے میں بے یقینی اور خدشات کو جنم دینے‘ روایتی معاشروں کو درہم برہم کرنے‘ یہاں تک کہ خود مغرب کے منظرنامے کو بدل کر رکھ دینے کاباعث ہے۔ اور یہ سب کچھ اُس رفتار کے ساتھ رونما ہو رہا ہے جس کی کہیں کوئی مثال نہیں ملتی۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تکنیکی اور فنی ایجادات کی یلغار کو روکا جا سکتا ہے۔ ایک دفعہ جب نئی ابلاغی ٹکنالوجی کا جنّ بوتل سے باہر آگیا ہے تو اس کو واپس بند کرنا ممکن نہیں۔ بجلی‘ ٹیلی فون‘ٹیلی وژن‘ کمپیوٹر اور موبائل فون کی ترقی کی تاریخ اس کی مثالیں ہیں۔
آج کل انٹرنیٹ اس استدلال کی ایک بہترین مثال ہے۔ بنی نوع انسان کی اکثریت ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہو کر ایک اطلاعاتی کائنات اور خودکار خلا میں ایک سحرانگیز‘ نئی اور حقیقی دنیا کو جنم دیے ہوئے ہے۔ کوئی حکومت‘ کوئی بین الاقوامی تنظیم اور کوئی فرد اس ترقی کو نہیں روک سکتا۔ یہ کسی پالیسی یا سازش کا نتیجہ نہیں بلکہ سائنس اور ٹکنالوجی کی فطرت میں ہے کہ یہ چھا جاتی ہے۔
جہاں تک نیوکلیائی اور جینیاتی ترقی کا تعلق ہے‘ سائنس اور ٹکنالوجی سے متعلق اس احساس کی وجہ سے ہمیں بہتری کی امید نہیں رکھنا چاہیے۔ ان دو میدانوں میں پہلے سے ہو جانے والے نقصان کو کم کرنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر کافی کوششیں کی گئی ہیں۔ ہمیں اچھا لگے یا نہیں‘ یہ دونوں شعبے اس زمرے میں آتے ہیں جن پر قابو پانا انسان کے بس سے باہر ہے۔
یقینا اقوام متحدہ نے اپنے عدم پھیلائو کے معاہدے (این پی ٹی) کے ذریعے جوہری صلاحیت کو سلامتی کونسل کی پانچ ویٹو طاقتوں تک محدود رکھنے کی کوشش کی ہے۔ مزیدبرآں ان طاقتوں میں امریکہ‘ برطانیہ‘ روس اور چین نے اپنے آپ کو نیوکلیائی اسلحے سے پاک کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے‘ ایک ایسا وعدہ جس پر کسی کویقین نہیں۔ یہ معاہدہ اسرائیل‘ بھارت اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے میں ناکام رہاہے۔ ان میں سے کچھ طاقتوں نے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے میں اسرائیل کی پشتیبانی کی ہے۔ دوسرے صلاحیت رکھنے والے ممالک بھی اگر چاہیں تو وہ آسانی سے نیوکلیائی طاقت بن سکتے ہیں۔
کچھ یہی صورت حال کیمیائی اور حیاتیاتی اسلحے کی ہے۔ اس ضمن میں بھی اگرچہ اکثر اقوام تخفیف ِ اسلحہ کا وعدہ کر چکی ہیں اور امریکہ اور روس دونوں ملکوں میں کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیروں کو تباہ کیا جا رہا ہے لیکن کسی شخص کو کیمیائی یا حیاتیاتی ہتھیاروں کی ایجاد و اختراع سے روکنا ممکن نہیں۔
جینیاتی انجینیرنگ کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ سائنس دان انسان کے جینیاتی مادے کی تہ تک پہنچنے میں مصروف ہیں۔ جانوروں کی سطح پر کلوننگ کا آغاز ہوچکا ہے۔ انسان کے ڈی این اے کو ہنرمندی کے ساتھ جوڑ کر بہتر ادویات کی تیاری کے لیے استعمال کیا جاتاہے اور جینیاتی مادے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو ایک کل پرزے کی شکل میں ملا دیا گیا ہے۔
کیا ہم اس مفروضے کو تسلیم کرنے میں حق بجانب ہیں کہ حیاتیاتی فزکس میں ان دھماکا خیز سائنسی کامیابیوں کے بعد برائی کا یہ جنّ بھی بوتل سے باہر نکل آیا ہے۔ کیا واقعی یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ طبی انجمنوں یا بین الاقوامی معاہدوں کے بنائے گئے اخلاقی ضابطوں کے تحت اسے بوتل میں واپس بند کیا جا سکتا ہے؟ یہ بڑے اہم اور بحث طلب سوال ہیں۔ جب ایک دفعہ انسان کی کلوننگ ممکن ہو چکی ہے تو جلد یا بدیر یہ ہوکر رہے گی‘ باوجود اس کے کہ یہ اللہ کی تخلیق میں بدترین دخل اندازی ہے۔
اس لیے میری حقیقت پسندانہ (اور اپنے اندر ناامیدی رکھنے والی) رائے یہ ہے کہ ہمارے پاس سائنسی فنی ترقی کے بنیادی منفی اثرات کو ختم کرنے کا کوئی قابل اعتماد ذریعہ نہیں۔
اس ترقی کے ثانوی منفی اثرات کا معاملہ کچھ مختلف ہے۔ یہ اثرات زیادہ تر ابلاغی انقلاب کی پیداوار ہیں اور انھیں تعلیم‘ سماجی جنسی رویوں‘ طرز زندگی اور خاندانی یک جہتی کے میدانوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔
ان تمام میدانوں میں جدید ٹکنالوجی کے فوری اثرات کوزائل کرنے کی کوشش بے فائدہ ہے۔ لیکن مسلمان ممالک اور خاندان دونوں کامیابی کی بجا اُمید کے ساتھ اِن اثرات کوکم کر سکتے ہیں۔ مسلم معاشرے تبدیل ہونے پر مجبور ہیں۔ تیسری دنیا کی بہت ساری روایات کا ٹوٹنا لازمی ہے۔ لیکن آج بھی جدید ماحول کے اندر رہتے ہوئے اسلام کی اصل حقیقت کو بچانا اور اس کے مطابق زندگی گزارنا ممکن ہے۔ کیونکہ جدت اور جدیدیت کالازمی مفہوم مغربیت نہیں۔
تعلیم و تربیت : آج کی ضرر رساں عالم گیریت سے قبل اسلام کے سرچشموں قرآن‘ سنت‘ فقہ‘ اسلامی تاریخ و فلسفہ اور اسلامی ادب کے ذریعے ایک مسلم شخصیت کو پروان چڑھانا ممکن تھا۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ ریڈیو‘ ٹیلی وژن اور انٹرنیٹ جیسی ٹکنالوجی‘ بیرون ملک سفر میں آسانی اور لاکھوں مغربی سیاحوں کی آمد کی وجہ سے اسلام کا اپنا خصوصی تصورِدنیا (world view) مسلسل بیرونی ذرائع سے مجروح ہو رہا ہے۔
تعلیم کو درپیش اس سنگین چیلنج سے قدیم طریقے سے نہیں نبٹا جاسکتا کہ نوجوانوں کو نقصان دہ بیرونی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے انھیں جدید ٹکنالوجی سے دُور رکھا جائے۔اب جدید دور کے لوگوں کو اس کے بجائے مامونیت (immunization) کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے‘ یعنی اثرات سے محفوظ رہنے کی کوشش۔ انھیں دوسری اقوام سے حاصل ہونے والی معلومات کی طرف نوجوان نسل کی درست رہنمائی اور اطمینان بخش وضاحت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ یہی وہ کوشش ہے جسے ’’علم کی اسلامی تشکیل‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ مسلمان طالب علموں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اسلامی سائنس کے تمام ڈھانچے اور جدید سائنس کی وسیع بنیادوں دونوں پر عبور رکھتے ہوں‘ غیر یقینی ہے۔ اس کے بجائے ہم حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمان نوجوانوں کو اسلامی تصور جہاں کی اتنی مضبوط بنیاد فراہم کر سکتے ہیں کہ وہ درست سوالات اور کسوٹی کے ساتھ مغربی سائنس کا مقابلہ کرسکیں۔
جنسی طرزعمل: یہی طرزِعمل جنسی رویوں سے متعلق ہونا چاہیے۔ اس میدان میں ہونے والا نقصان اپنے دُور رس منفی نتائج کے ساتھ سب کے سامنے ہے۔ نہ صرف جنسی اخلاقیات رُوبہ زوال ہیں بلکہ شریعت کے اصولوں اور معیار پربھی نت نئے اعتراضات کیے جا رہے ہیں‘ اور ان پر عمل روز بروز کم ہوتا جارہا ہے۔
بہرحال‘ صرف حجاب کو اختیار کرنا مناسب جنسی رویے کی ضمانت نہیں ہے۔ اس معاملے میں بھی ہمیں مامونیت کا طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔ بالفاظ دیگر اگر ہم اپنی بیٹیوں کو یہ سمجھانے میں کامیاب نہیں ہوتے کہ حجاب نہ کرنا اُن کے اپنے حق میں نقصان دہ ہے تو انھیںگھروںمیں بند کر دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں اسکول اورخاندان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ کیونکہ اگر وہ ناکام ہوجاتے ہیں تو سہیلیوں کے دبائو سے منفی فیصلہ ہوگا۔
طرزِ زندگی: طرزِزندگی کے تحت‘ میں اُس تمام مادی اور اخلاقی ماحول کو لیتا ہوں جو جدید ٹکنالوجی کے ساتھ وجود میں آیاہے اور جو نشہ آور ادویات‘ شراب‘ سگریٹ‘ ڈسکو‘ جدید موسیقی‘ ہلہ گلہ اور عوامی ناچ‘ موبائل فون‘ گاڑیوںاور آزاد معیشت کا ملغوبہ ہے۔ سب جانتے ہیں کہ بنیادی طور پر یہ امریکی طرزِ زندگی ہے جو جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکا ہے۔ یہ بالکل فطری ہے کہ عسکری‘ معاشی اور سائنسی میدان میں قائدانہ کردار ادا کرنے والی طاقت تمام دنیا کے لیے ایک نمونہ اور مقناطیس ہوتی ہے۔
ایک ایک فنی ایجاد کے نتیجے میں ہونے والی تبدیلیاں اس قدر شدید ہیں کہ مریم جمیلہ (معروف نومسلم اسکالر) جیسے کچھ مسلمانوں کاخیال ہے کہ ٹکنالوجی کی انگلی پکڑنے کی کوشش میں پورا ہاتھ ہی پکڑنا پڑے گا۔ کیا واقعی ساری کی ساری ٹکنالوجی شیطان کی ہے؟
یقینا نہیں--- میڈیکل اور زراعت کے میدان میں ٹکنالوجی نے پہلے سے کہیں زیادہ لوگوں کو خوراک مہیا کرنے اور شرح زندگی میں بہت زیادہ اضافہ کرنے میں مدد دی ہے اور درد وتکلیف کو بہت کم کیاہے۔ آپ صرف دورِ جدید کی اُس ٹکنالوجی کی کامیابی کے تناسب کا‘ جو موتیے کا علاج کر کے بصارت بحال کرتی ہے ‘انیسویں صدی کے مایوس کن تناسب ہی سے موازنہ کرلیں۔
زیربحث نکتہ یہ نہیں کہ ہم جدید ٹکنالوجی سے کس طرح پیچھا چھڑا سکتے ہیں بلکہ اصل موضوع یہ ہے کہ ہم کس طرح اس پر عبور حاصل کر سکتے ہیں؟ یہ بھی ایک سیکھنے کا عمل ہے جو مامونیت کی طرف لے جاتا ہے۔ ہمیں اپنے رویے سے اپنے بچوں کوسکھانا چاہیے کہ ایک مادہ پرست اور آزاد خیال معاشرے کے ساتھ کیسے نبٹا جائے اور ایسے معاشرے میں ہمیں کس طرح زندگی گزارنی چاہیے۔
اگر ہم اچھے طریقے سے پوری وضاحت کے ساتھ اپنے بچوں کونشہ آور ادویات کے اثرات سے آگاہ کر دیںاور خود بھی سگریٹ اور شراب سے پرہیز کریں‘ تواس طرح اُن کے درست طرزِعمل سیکھنے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔ مثال کے طور پر میں نے اپنے بیٹے کو‘ جب وہ ۱۱ سال کا تھا‘ بتایا:’’مجھے خدشہ ہے کہ ہائی اسکول میں ایک دن کچھ لڑکے تمھیں کہیں گے کہ سگریٹ اور شراب پی کردیکھو‘ ان سے بہت سکون ملتا ہے۔ ہم سب لوگ ان کا استعمال کرتے ہیں‘‘۔ اگر ایسا ہوا توآپ جواب دینا: ’’میں باقی لوگوں کی طرح نہیں ہوں اور مجھے اِس پرفخرہے ۔ کیا میں صرف اس لیے ایک جال میں پھنسوں کہ تم اس کا شکار ہو چکے ہو‘‘۔ اس طرح ایک ہنگامی صورت حال کے پیدا ہونے سے قبل ہی ہم نے اِس سے نبٹنے کی مشق کر ڈالی‘ اور یہ اپنے بچوں کوکسی ایسے اسکول میں بھیجنے سے زیادہ بہتر ہے جو نشہ آور ادویات سے پاک خیال کیا جاتا ہو۔میری گزارش ہے کہ کسی سانحے یاواقعے کے رُونماہونے سے قبل اخلاقی تربیت ہی بچائوکا راستہ ہے۔
خاندان کا تحفظ: ہمارا خاندان مستقل اس تہذیبی یلغار کی ضربیں سہہ رہا ہے جس کے زیراثر ہم زندگی گزار رہے ہیں۔ تعلیمی اطوار ہوں‘ جنسی رویے ہوں یاطرز زندگی--- خاندان ہی حالات کے رخ کا فیصلہ کرتا ہے بشرطیکہ یہ مغربی تہذیب کی شدید یلغار کے نتیجے میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہوچکا ہو۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ خاندان کا دفاع دراصل بحیثیت مجموعی معاشرے کا دفاع ہے۔
اہل خاندان میں باہم اتفاق و اتحاد اور خاندان کے اندر اسلامی ماحول کو برقرار رکھنا ہی عالم گیریت کے منفی اثرات کا توڑ ہے۔ اس کے برخلاف‘ مثلاً ہم جنس پرستوں کی آپس کی شادیاں‘ اسقاطِ حمل‘ شادی کے بغیرزندگی گزارنے کی حوصلہ افزائی اور بوڑھوں کے لیے بنائی گئی قیام گاہوں میں بزرگوں کی تنہائی--- مسلم معاشرے کے دفاع کے لیے زہرقاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔
تجزیہ اپنی جگہ‘ لیکن ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ فنّیاتی عالم گیریت (ٹکنالوجیکل گلوبلائزیشن) کے منفی اثرات سے بچائو کا واحد راستہ والدین کا جوابی مثالی رویہ ہے۔ انھیں اپنے عمل سے نئی نسل کوسکھانا ہوگا کہ ایک مسلمان کی زندگی میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بندگی و غلامی اولین ترجیح ہے‘ قرآن ہمارے لیے خدا کی طرف سے ہدایت اور رہنمائی ہے۔ اور یہ کہ سہولیات زندگی رکھنے سے زیادہ اہم ہے کہ انسان ایک اچھا انسان ہو‘ نیز معیارِ زندگی کاانحصار ضروریاتِ زندگی کی دستیابی پر نہیں۔
والدین کو واضح کر دینا چاہیے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی محتاجی شرک کے مترادف ہے (اور یہ نہ صرف غلط بلکہ اپنے پروردگار کے ساتھ سخت ناانصافی ہے)۔ اسی طرح ہمیں ہرگز برداشت نہیں کرنا چاہیے کہ ہمارے گھرپر اور ہماری آپس کی گفتگو پر ٹی وی سیٹ کی اجارہ داری ہو۔ جب اہل خاندان مل کر کھانا کھا رہے ہوں تو ٹی وی کواور موبائل فون کو بند رکھنا عالم گیریت سے آزادی حاصل کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔
اہل خاندان کو انٹرنیٹ کے اندر پوشیدہ اُس رجحان کے مقابلے کے لیے بھی تیار رہناچاہیے جو انھیں ایک دوسرے سے دُور کرنے کا باعث ہے۔ آج کل کے نوجوان آن لائن (on line) ہو کر تنہا (alone)ہو جاتے ہیں۔
والدین کو اپنے کھانے پینے اوراخراجات کے طرزِعمل سے خاموشی سے یہ بھی سکھاناچاہیے کہ وہ خرچ کرنے کی لت (consumerism)کاشکار نہیں ہیں۔ بچوں کوکبھی یہ محسوس نہیں ہونا چاہیے کہ اُن کے والدین اپنے ہمسایوں سے مقابلہ ومسابقت میں مصروف ہیں‘ یا جس طرح ایک امریکی ماہرعمرانیات نے کہا ہے: ’’اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ اپنا مقابلہ کرتے رہا کرو‘‘ کی فضا ہو۔ اطلاعاتی ٹکنالوجی کے میدان میں رونما ہونے والا انقلاب ایک حقیقت ہے۔ اس کے سلسلے میں بھی والدین اوراساتذہ کے لیے اتنا ہی ضروری ہے کہ وہ مختلف معلومات کے درمیان ربط قائم کرتے ہوئے معلومات کو اُسی طرح قبول کرنے کے بجائے بچوں کے اندر اِن کا تجزیہ کرنے اور اصلاح کرنے کی عادت ڈالیں۔
حقیقت یہ ہے کہ آج کے دور میں مسلمانوں کے تصورِ دنیا کا دفاع کرنا اور ایک ایسی نوخیز نسل کو پروان چڑھانا جودورِ جدید کے بدترین بہکاووں سے پوری طرح محفوظ ہو‘ بہت مشکل ہو گیا ہے۔ لیکن یہ ناممکن نہیں‘ بشرطیکہ مسلمان خاندان مستحکم رہیں۔ مسلمان اہل علم مناسب طرزِعمل کے ساتھ آگے آئیں‘ اور جدید تدبیروں اور حربوں کو محض مسترد کرنے کی بے کار کوشش کے بجائے اِن کے اثرات کو زائل کرنے کی کوشش کریں۔