پروفیسر نورور جان


ڈاکٹر محمد یعقوب مرحوم نے ایک طویل بھرپور عملی زندگی گزاری۔مکمل تحریکی شعور کے ساتھ      حق و باطل کی جنگ میں ہمہ وقت مصروف رہے۔ انھوں نے ہمیشہ یہ ثابت کیا کہ حق کی آواز میں طاقت ہوتی ہے‘ اور باطل کا وجود ہمیشہ بے وقعت اور قابل نفرت ہوتا ہے۔

وہ ضلع دیر کے علاقہ میدان میں ۲۵ جنوری ۱۹۲۷ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی محمد ایوب خاں نامور عالم دین تھے اور ’’خان استاد‘‘ کے نام سے معروف تھے۔مست خیل خاندان سے تعلق تھا۔ اس خاندان نے ہمیشہ انگریزی استعمار کی مزاحمت کی۔ نوابانِ دیر کی بھی ہمیشہ مخالفت کی۔

ڈاکٹر یعقوب مرحوم نے اپنے والد گرامی سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے ۱۹۵۰ء میں سندِ فضیلت حاصل کی۔ ۱۹۵۶ء میں میٹرک کا امتحان اور پھر منشی فاضل اور ایف اے کے امتحانات پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے پاس کیے۔

دارالعلوم حقانیہ میں مفتی محمد یوسف مرحوم بھی استاد تھے۔ مولانا عبدالحق بانی مدرسہ کے پاس سید مودودیؒ کی کتابیں  خطبات‘ دینیات اور  تفہیم القرآن وغیرہ ہوتی تھیں۔ اِن کتب کے ذریعے   وہ مولانا مودودیؒ سے متعارف ہوئے۔ سید مودودیؒ سے ان کی پہلی ملاقات ۱۹۷۰ء میں ہوئی۔

ریاست دیر میں شخصی حکومت تھی‘ کسانوں کے اور عام شہریوں کے حقوق غصب کر لیے گئے تھے اور ظلم و جبر کا دور دورہ تھا۔ ڈاکٹر یعقوب نے دیر میں علما کرام اور شاگردوں کو جمع کیا‘ اورانھیں دعوت دی اور ’’تنظیم العلما‘‘ کے نام سے ایک انجمن قائم کی۔ اس تنظیم کی سرگرمیوں سے علما اور عوام میں جماعت اسلامی کے اثرات اس قدر تیزی سے پھیلے کہ جب ریاست دیر کو ۱۹۶۹ء میں پاکستان میں ضم کیا گیا تو نواب دیر اور اُس کے فرزندوں کی یہ تجویز عوام میں پذیرائی حاصل نہ کر سکی کہ ریاست میں عوامی نمایندگی کے لیے نامزدگیاں ہوں۔ دیر کے نواب نے پانچ چھ صد صاحبان اثر و رسوخ کا اجلاس بلایا جس میں اس نے ’’سیاسی لوگوں‘‘ کو خطرناک لوگ کہا اورنامزدگیوں کا پروگرام پیش کیا۔ اس موقع پر اللہ کے اِس مجاہد نے نواب کو للکارا اور کہا کہ ’’حکومت پاکستان نے دیر کے عوام کو ووٹ کا حق دیا ہے‘ آپ کون ہوتے ہیں کہ اِس حق کو غصب کرنے کی تجویزیں دیں۔یہ لوگ جو آپ کے سامنے ہیں‘ آپ کے لوگ ہیں عوام کے نمایندے نہیں ہیں‘‘۔ نواب صاحب طیش میں آگئے اور ڈاکٹر صاحب کو سرزنش کرنے کی کوشش کی مگر ڈاکٹر صاحب مرحوم نے ایک نہ مانی اور آیندہ انتخابات میں پبلک پلیٹ فارم کو استعمال کرنے کا اعلان کر دیا۔ چنانچہ صاحب زادہ صفی اللہ‘ مولانا عبدالسلام اور ۱۰‘ ۱۵ رفقا میدان عمل میں کود پڑے۔

اُن کی زندگی میں سب سے اہم دور وہ ہے جس میں انھوں نے سرحد اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی گروپ کی نمایندگی کی۔ یہ ایک طویل چوتھائی صدی پر محیط دور ہے جس میں آپ نے اپنے گروپ کے ہمراہ ایسا جان دار کردار ادا کیا ہے‘ جس کی نظیر پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں سے پیش کرنا مشکل ہے۔

سرحد اسمبلی میں آپ کئی بار جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر پہنچے اور جماعت کے پارلیمانی گروپ کے لیڈر رہے۔ ۱۹۹۰ء سے ۱۹۹۳ء تک آپ اسمبلی کے ڈپٹی اپوزیشن لیڈر بھی رہے۔ ۱۹۷۰ء سے ۱۹۹۳ء تک آپ سرحد اسمبلی میں عوام کی نمایندگی کرتے رہے۔ کوئی بھی ایسا اہم مسئلہ نہیں بتایا جا سکتا جس پر انھوں نے اظہار خیال نہ کیا ہو۔ جب اسمبلی سیشن ہوتا تو صوبہ سرحد حکومت کے تمام محکمے اور اُن کے سربراہ دوسرے دن اخبارات دیکھتے کہ کہیں ڈاکٹر صاحب نے اُن کے محکمے کی گرفت تو نہیں کی۔

اسمبلی کے ممبر کی حیثیت سے آپ اور آپ کے رفقا کو پہلے پہل ڈرانے اور دھمکانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ لیکن جب اس طرح کام نہ نکلا تو اے این پی‘ پی پی پی اور نوازگورنمنٹ نے اپنے اپنے دور میں ماڈل ٹائون کے پلاٹ کی پیش کش کی۔ جسے آپ اور آپ کے رفقا نے ٹھکرا دیا۔

ڈاکٹر صاحب ایک فصیح و بلیغ مقرر‘ اعلیٰ پایے کے پارلیمنٹیرین‘ بہترین مدبر اور نہایت شریف النفس انسان تھے۔ وہ ایک باعمل صوفی‘ شب زندہ دار اور ذکروفکر میں مشغول رہنے والے انسان تھے۔ بے باکی ان کی شخصیت کا خاصہ تھی۔ اس میں اُن کی مثل کوئی نہ تھا۔

ڈاکٹر صاحب نے آخری ۱۰ برسوں میں قلم سے احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کا فریضہ بھی سرانجام دیا۔ داعی اور دعوت‘ اسلامی انقلاب کے امکانات اور ہماری ذمہ داریاں‘ تزکیہ و تربیت‘ الدعاء المستجاب اور تحریک اسلامی ضلع دیر‘ آپ کی تصانیف ہیں۔

مرحوم نے اپنے علاقے بلامبٹ میں خواتین کے لیے دینی مدرسہ بھی قائم کیا۔ الغرض ڈاکٹر صاحب علامہ اقبال کے اِس شعر کے مصداق اپنی زندگی گزار کر ہمارے لیے ایک نمونہ چھوڑ گئے     ؎

آئینِ جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی