عمر سمّان


ترجمہ:  نوراسلم خانo

ونی ریڈلے وہ بر طانوی خاتون صحافی ہیں جو ۲۸ ستمبر ۲۰۰۱ء کوخفیہ طور پر افغانستان میں داخل ہوتے وقت اس وقت اخباروں کی شہ سرخی بن گئیں ، جب طالبان نے ان کو گرفتار کرلیا۔ان کو ۱۰ دن بعد رہا کردیا گیالیکن قید کے ان ایام نے نہ صرف ان کی زندگی کی کایا پلٹ دی بلکہ دنیا اور اس کے مسائل کے بارے میں ان کی پوری فکر کو بھی تبدیل کردیا۔ رہائی پانے کے بعدانھوںنے اپنے پروٹسٹنٹ عیسائی مذہب کو چھوڑ کر اسلام قبول کرلیا۔

افغانستان کی جیلوں میں کئی بار کوشش کی گئی کہ وہ اسلام قبول کر لیں۔ انھوں نے یہ وعدہ کیا کہ رہا ہوتے ہی قرآن ضرور پڑھیں گی۔ونی ریڈلے کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر رہا کردیا گیا اور اب یہ ان کی باری تھی کہ وہ اپنے وعدے کوپورا کریں۔ رہائی کے بعد طلبہ کے ایک وفد سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا :چونکہ مجھے قید میں رکھنے والوں نے میرے ساتھ ہمدردی اور عزت کا سلوک کیا ہے‘ اس لیے اس کے بدلے ،میں نے اپنے وعدے کا پاس رکھااور ان کے مذہب کے مطالعے کاآغاز کر دیا۔اس طرح شروع ہونے والے روحانی سفرکی تکمیل بالآخر ۳۰ جون ۲۰۰۳ء کوصبح ۱۱بجے اسلام قبول کرکے ہوئی۔

ایک موقع پر قید کے دوران پیش آنے والے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ونی ریڈلے نے کہا: ’’ایک وقت ایسا بھی آیا جب کابل کے جیل میں قید کے دوران میری قوت برداشت اس حد تک جواب دے گئی کہ میں نے اپنے قید کرنے والوں کے منہ پر تھوکا اور ان کو گالیاں دیں۔مجھے اس کے بدلے میں ان سے بدترین جواب کی امید تھی لیکن ان لوگوں نے میرے اشتعال دلانے والے رویے کے باوجود مجھے بتا یا کہ میں ان کی بہن اور مہمان ہوں‘‘۔

عراق میں قیدیوں پر امریکی اور برطانوی فوجیوں کے ناقابل بیان مظالم کے پسِ منظر میں ونی ریڈلے کی داستان نہایت اہمیت اختیار کر گئی ہے۔اس میں دو مختلف تہذیبوں کی حقیقی تصویر آئینے کی طرح صاف نظر آتی ہے۔ایک وہ جو آزادی،انسانی حقوق اور خواتین کے مقام کی عالمی ٹھیکیدار بنی ہوئی ہے لیکن قیدیوں کے ساتھ اس کا سلوک وحشیوں کو بھی شرماتا ہے‘ اور دوسری وہ جس پر دہشت گردی ،حقوق نہ دینے اور خواتین کو پس ماندہ رکھنے کا الزام ہے لیکن اس کا سلوک ایک جدید تعلیم یافتہ خاتون کو جیت لیتا ہے ۔آج طالبان کا نام گالی بنا دیا گیا ہے لیکن اسلام کی تعلیمات پر عمل میں جو کشش بلکہ جادو ہے وہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔

ونی ریڈلے  ۲۰۰۱ء سے اب تک دو کتابیں لکھ چکی ہیں اور بقول ان کے ’’ اس واقعے نے میری صحافتی زندگی کے دائرہ کار کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن تک بڑھا دیا ہے‘‘۔ ان کی ایک کتاب In the Hands of Taliban طالبان کے ساتھ ان کے تجربات کی روداد پر مشتمل ہے‘ جب کہ دوسری کتاب Ticket To Paradiseایک ناول کے طرز پر ہے۔

ہم یہاں سعودی عرب کی وزارت حج کے خوب صورت اوروقیع عربی انگریزی مجلے الحج والعمرہ (جون ۲۰۰۴ئ) سے ان کا خصوصی ای میل انٹر ویو پیش کر رہے ہیں۔(ادارہ)

اسلام قبول کر نے سے پہلے آپ اس مذہب کے بارے میں کس قدر جانتی تھیں؟

میں اسلام کے بارے میں بہت کم جانتی تھی اور جو کچھ جانتی تھی ، وہ مسخ شدہ اور گمراہ کن معلومات کے سوا کچھ نہ تھا۔

آپ کہتی ہیں کہ ’’ ۱۱ ستمبر کا واقعہ اسلام کے لیے تباہ کن ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خوش گوارحادثے کی حیثیت بھی رکھتا ہے‘‘۔ اس کا کیا مطلب ہے ؟

۱۱ ستمبر کے واقعے کی اسلام کے لیے بدترین شکل تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے حوالے سے نفرت اور غلط فہمی میں اضافہ ہوا ، جس کا کوئی جواز نہیں۔  مجھے تو اس بات سے بھی شدید نفرت ہے کہ اس واقعے سے فائدہ اٹھا کراسے مسلمانوں کو رگیدنے کے لیے ایک لاٹھی کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے ‘ تاہم اس کے نتیجے میں ایک حیرت انگیز بات یہ ہوئی ہے کہ مجھ جیسے کم علم لوگوں نے اسلام کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کے لیے قرآن اور دیگر اسلامی لٹریچر کا مطالعہ شروع کردیا۔ اس کانتیجہ یہ ہوا کہ اب اسلام دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن چکا ہے۔خود برطانیہ میں ۱۱ستمبر سے اب تک کوئی ۱۴ہزار افراد اسلام کی طرف آچکے ہیں اور بہت سے مسلمان اپنے ایمان کو ازسر نو تازگی بخشنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔

اسلام میں خواتین کے حقو ق کے بارے میں آپ کی ذاتی رائے کیا ہے؟

قرآن اس بات کو انتہائی صراحت کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ دین سے تعلق ، فرد کی اہمیت اور تعلیم کے حوالے سے مرد وخواتین برابر ہیں۔ مزید یہ کہ بچوں کی پیدایش اور ان کی پرورش کی ذمہ داری کے حوالے سے بھی ہمیں سراہا گیا ہے۔ میرے خیال میں تو یہ ہمیں انسانیت کی معراج پر پہنچادیتا ہے۔

آپ  ۲۰۰۱ء کو پہلی فرصت میں افغانستان کیوں گئی تھیں ؟

 میںدراصل ان لوگوں سے بات کر نا چاہتی تھی‘ جنھیں امریکا اور برطانیہ کی طرف سے جنگ کرنے کے فیصلے سے براہ راست متاثر ہونا تھا۔ میں ان کے احساسات کے بارے میں جاننا چاہتی تھی۔ میں یہ جاننا چاہتی تھی کہ وہ ۱۱ ستمبر کے حوالے سے کیا کہتے ہیں اور طالبان کی حکومت کے تحت وہ کس طرح کی زندگی گزار رہے ہیں۔

آپ نے جب اسلام قبول کر نے کا ارادہ کیا تو اس وقت آپ کے خاندان اور بالخصوص بیٹی ڈیسی کے کیا تاثرات تھے؟

اس حوالے سے میرے خاندان کے ملے جلے تائثرات تھے۔ میری ماں نے پھر سے چرچ جانا شروع کردیا‘ جب کہ میری بیٹی ڈیسی‘ میری سب سے بڑھ کر معاون بن گئی۔ وہ اسلام میں بہت زیادہ دلچسپی لے رہی ہے۔

آپ کیا سمجھتی ہیں کہ معاشرہ آپ کو کس نظر سے دیکھ رہا ہے : ایک بہادر خاتون یا ایک ایسا فرد جس نے اپنے مذہب سے بے وفائی کی؟

مجھے عیسائی بنیاد پرستوں کی طرف سے قتل کی دھمکیاں مل چکی ہیں کہ میں نے اپنے مذہب سے غداری کی ہے لیکن میرے مسلمان بھائی ، جو پہلے دن سے ہی میرے مددگار چلے آرہے ہیں، اس کا جواب دے کر اس کا اثرزائل کردیتے ہیں۔

آپ اپنی بیٹی کو بھی افغانستان لے کر گئیں۔ آپ نے ایسا فیصلہ کیوںکیا اور خود اس کے تاثرات کیا ہیں؟

میں ۲۰۰۲ء کے موسم بہار میں اپنی بیٹی کو افغانستان اس لیے لے کر گئی تھی تا کہ وہ اس بات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرسکے کہ افغان ، انسانوں کی وہ نسل ہیں جن کے دل ہمدردی کے خوب صورت جذبوں سے سر شار ہیں۔ یہ ایک ایسا خوش گوار تجربہ ہے جو ہمیشہ اس کے دل میں تازہ رہے گا‘ اوریہ یقینا ڈزنی لینڈ دیکھنے کے تجربے پر غالب رہے گا۔

آپ نے ماضی قریب میں افغانستان کا دورہ کیا ۔ وہاں جاکر آپ نے کیا دیکھا؟

میں رہائی کے بعد کئی بار افغانستان آچکی ہوں۔ جو کچھ مجھے نظر آیا وہ یہ ہے کہ پورا ملک ایک ایسا کھنڈر بن چکا ہے جس پر حکومت کرنے والے شخص کو کابل کا میئر کہا جاتا ہے‘ کیونکہ حامدکرزئی کابل سے باہر باقی ماندہ ملک پر کوئی گرفت نہیں رکھتے۔ امریکی فوجیوں نے افغان عوام کے دل و دماغ جیتنے کے لیے کچھ نہیں کیا ۔ ان کا رویہ افغان عوام کے ساتھ توہین آمیز ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب تک کسی نے بھی ان کو خوش آمدید نہیں کہا ۔

افغانستان میںامریکی فوجی قیامِ امن کے بجاے دنیا بھر کے مسلمان جنگجوؤں کے لیے ایسا مرکز توجہ بن گئے ہیں کہ وہ گروہ در گروہ افغانستان آئیں اور ان کو قتل کریں۔

افغانستان کے اندر خواتین کو مسلسل مصیبتوں کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے۔ ان حالات میں پیشہ ور خواتین کس طرح تیار ہوں۔ امریکا قوموں کو آزادی دلانے والا نہیں بلکہ استعماری ظالم وجابر ملک ہے ۔ ثبوت درکار ہو تو افغانستان جاکر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔

اسلام قبول کرنے کے بعد آپ میں کیا تبدیلی آئی؟

 میرایہ عزم پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہوگیا ہے کہ جدھر بھی جائوں، اسلام کو پھیلاؤں۔ مذہب تبدیل کروانا میرا کام نہیں۔ میں اس حیرت زدہ کرنے والے مذہب کے حوالے سے لوگوں کی جہالت اور تعصب کی آگ بجھانا چاہتی ہوں ۔

اسلام کی کس خوبی نے آپ کو سب سے زیادہ متاثر کیا ؟

جس طرح یہ خواتین کی حوصلہ افزائی کرتا ہے‘ اورنبی کریمؐ نے عورتوں کے ساتھ سلوک کی جواعلیٰ مثالیں قائم کی ہیں۔یقیناوہ خواتین کا سب سے بڑھ کر احترام کر نے والے اور ان کی صلاحیتوں اور خوبیوں کی حوصلہ افزائی کرنے والے تھے۔

برطانیہ میں مسلم معاشرے کے ساتھ بھی آپ کا واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ آپ ان کو کیسا پاتی ہیں؟

میں نے زیادہ تر وقت مسلمانوں کے ساتھ گزارا ہے کیونکہ اب تو میں خود بھی مسلمان ہوں اور یہ ایک فطری بات ہے کہ ہم ایک دوسرے کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں۔۱۱ ستمبر کے بعد مسلمان مصیبت میں ہیں۔ اب اس بات کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سینے سے لگا کر باہم مددگار بن جائیں ۔

آپ طالبان کے کابل کے قید خانے کا گوانٹانامابے کے ایکس رے کیمپ سے کس طرح موازنہ کرتی ہیں؟

میں لوگوں کو بتاتی رہتی ہوں کہ میں اس حوالے سے بہت خوش قسمت واقع ہوئی ہوں کہ مجھے امریکا کے بجاے’’ روے زمین کے سب سے زیادہ برے اور وحشی لوگوں ‘‘کی قید میں رہنے کا موقع ملا ۔

مجھے مسلسل چھے دن تک ایک ائر کنڈیشنڈ کمرے میں رکھا گیا جس کی چابی تک مجھے دے دی گئی۔ میرے ساتھ ہمدردی اور احترام کا سلوک کیا گیا۔ مجھے ذہنی یا جسمانی طور پر ہراساں کرنے‘ کسی قسم کی تعذیب دینے یا حملہ کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی‘ گو کہ کچھ سوال جواب ضرور ہوئے۔ وہ مجھے مسلسل یہ بتاتے رہے کہ وہ مجھے خوش رکھنا چاہتے ہیں اور یہ کہ میں ان کی بہن اور مہمان ہوں۔

جیل میں رہتے ہوئے آپ کے احساسات اور خدشات کیاتھے ؟

ان کی سب مہربانیوں کے باوجود میں یہ سوچتی رہی کہ یہ اس وقت تو اچھا برتائو کررہے ہیں لیکن کسی بھی وقت کچھ برے لوگ آکر مجھے ایذا دینا شروع کردیں گے۔ میں ہر روز یہ سوچتی کہ آج مرنے والی ہوں، لیکن یہ سب میرے محض خیالات ثا بت ہوئے۔ اس کے باوجود کہ میرا رویہ ان کے ساتھ کافی تضحیک آمیز تھا ، انھوں نے میرے ساتھ ہمدردی اور مہربانی کا سلوک ہی جاری رکھا۔

کیا آپ کو امید تھی کہ آپ زندہ سلامت باہر نکل آئیں گی؟

نہیں‘ بالکل نہیں۔ مجھے یہ یقین تھا کہ میں ماری جائوں گی، بالخصوص ۷ اکتوبر ۲۰۰۱ء کو جب میں کابل کی جیل میں تھی اور امریکا نے بم برسانے شروع کردیے تھے۔ ایک لمحہ تو ایسا بھی آیا کہ میں نے سمجھا کہ اب اگر طالبان مجھے قتل نہیں کریں گے تو امریکا یا برطانیہ کا کوئی بم یہ کام کردے گا۔

طالبان کو میڈیا میں دہشت گرد کے طور پر دکھایا جاتا ہے اور ایک آپ ہیں کہ جس نے ان سے رہائی پانے کے بعد ، ان کے مذہب کو گلے سے لگایا ۔ یہاں ایک تضاد پایا جاتا ہے ۔ آپ اس کے بارے میں کیا محسوس کرتی ہیں؟

میں اب بھی خواتین کے حقوق کی بڑی علم بردار ہوں۔ اگر طالبان نے مجھے اسلام قبول کرنے پر قائل کرلیا ، تو یہ ان کی اپنی ایک کامیابی تھی۔ میں طالبان کی کوئی بہت بڑی مداح نہیں‘ لیکن ٹونی بلیئر اور جارج بش نے ان کی سب خوبیوں کے باوجودانھیں ایک بہت بڑی برائی کے طور پرپیش کیا۔ لیکن تم شائستہ لوگوں پر تو بم نہیں برسا سکتے۔ کیا تم ایساکرسکتے ہو؟

کیا آپ اب اسلام اور مسلمانوں کے متعلق پھیلائے گئے افسانے اور حقیقت میں فرق کرسکتی ہیں؟

یہ تو بہت آسان بات ہے۔ اسلام ایک مکمل اور جامع دین ہے‘ جب کہ اس پر عمل کرنے والے ایسے نہیں۔

کیا آپ مسلمانوں کے حوالے سے میڈیا کا رویہ انصاف پر مبنی پاتی ہیں؟

مسلمانوں کے حوالے سے مغربی میڈیاکا رویہ منصفانہ نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ غلط فہمی پر مبنی ایک راسخ فکر،مسخ شدہ معلومات اور لا علمی کے ساتھ ساتھ سیاسی مقا صد کے حصول کے لیے اسلام کو بدنام کر نے کی ایک سوچی سمجھی کوشش بھی ہے۔

کیا اسلام لانے سے قبل اس حوالے سے آپ کارویہ منصفانہ تھا؟

مجھے نہیں یاد پڑتا کہ میں نے کبھی اس موضوع پرکچھ لکھا ہو۔

آج مغرب دہشت گردی کی جو تعریف کر رہا ہے ، اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

جی ہاں‘ جس طرح کہ جارج بش نے کہا تھا کہ اگر تم اس کے ساتھ نہیں تو دہشت گردوں کے ساتھی ہو۔ ذاتی طور پر میرا یہ خیال ہے کہ اب اس لفظ کے استعمال پر پابندی لگنی چاہیے۔اس لیے کہ یہ بے معنی ہو چکاہے۔ مارگریٹ تھیچر ( سابق برطانوی وزیراعظم) نے ایک دفعہ نیلسن منڈیلا کو بھی دہشت گرد کہا تھا لیکن آج اس کی حیثیت ایک عظیم قائد کی ہے۔

آپ دہشت گردی کی تعریف کس طرح کرتی ہیں؟

دہشت گرد وہ ہے جو معصوم لوگوں کو بموں سے اڑاتا ہے اور عام آبادی کو خوفزدہ کرتا ہے۔ میں نے یہ سب کچھ افغانستان ، عراق اور فلسطین میں ہوتے دیکھا ہے اور اسی کو ریاستی دہشت گردی کہتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے حال ہی میں کہا ہے کہ میں نے لاکر بی کے ملبے سے بچوں اور خواتین کی لاشوں کو اس وقت بھی نکالتے ہوئے دیکھا ہے‘ جب سکاٹ لینڈ کے ایک سرحدی گائوں کے اوپر پان امریکن ۱۰۳ کا جمبوجیٹ طیارہ پھٹ گیا تھا ۔ میںنے جنین(فلسطین) کے ملبے سے‘ بچوں اور عورتوں کی لاشوں کو نکالتے ہوئے دیکھا ہے اور یہی سب کچھ جنوبی افغانستان اور عراق میںبھی دیکھ رہی ہوں۔

مجھے یہ سب لاشیں ایک جیسی لگتی ہیں۔آپ انسانی زندگی کی کوئی قیمت نہیں لگاسکتے، حالانکہ امریکی یہی کرتے ہیں۔ ایک امریکی کی زندگی کی قیمت تو لاکھوںڈالر میں لگائی جاتی ہے‘ جب کہ ایک عرب مسلمان کی زندگی اس کے مقابلے میں کوئی قیمت نہیں رکھتی۔

آپ کے خیال میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کس سمت میں جارہی ہے؟

دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی یہ جنگ ایک نہ ختم ہونے والی جنگ بن چکی ہے کیونکہ اب اس کو ایریل شیرون اور ولادی میرپوٹن جیسے لوگوں نے فلسطینی اور چیچن عوام کو کچلنے کے لیے یرغمال بنا لیا ہے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جس کا رخ اب امریکا کی طرف پھر رہا ہے اوریہ خود جارج بش کے لیے ڈراؤنا خواب بن جائے گی۔ میں سوچتی ہوںکہ اس کا انجام بھی اس کے آغاز ہی جیسا ہو گا---۱۱ ستمبر کی طرح ایک بہت بڑی تباہی!

اس نازک صورت حال میں مسلمانوں کی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟

ان کو گردن اٹھا کے چلنا چاہیے اور اس بات پر فخر محسوس کر نا چاہیے کہ وہ کون ہیں۔ اُن رویوں کو بالکل برداشت نہ کیا جائے  جو اسلام کے خلاف ہیں۔

سی آئی اے آپ کو قتل کر نا چاہتی تھی۔ آپ نے کوشش کی کہ اس پورے معاملے کی چھان بین ہو ۔ کیا آپ اب تک اس بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت لانے میں کامیاب ہوسکی  ہیں؟ کیا اس حوالے سے لاحق خوف اب ختم ہو چکا ہے؟

سی آئی اے نے میرے وکیل کو میرے بارے میں بنی ہوئی فائل دینے سے انکار کردیا۔ میں نے ذاتی طور پر اس معاملے کو نظر انداز کرکے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ۔چونکہ میں ان کے ڈرامے میں رنگ بھر نے والی مطلوبہ کردار تھی‘ اس لیے امریکی یہی چاہتے تھے کہ جنگ کی مخا لفت میں اٹھنے والی پوری تحریک سے توجہ ہٹانے کے لیے متوسط طبقے کی ایک شریف، سفیدفام مظلوم شہری‘ ایک ذاتی جنگ کا آغاز کرے ۔میں کسی سے نہیں ڈرتی ۔مجھے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا کوئی خوف نہیں ۔

امریکا نے ۱۱ ستمبر کے واقعے کو کس طرح استعما ل کیا؟ کیاآپ سمجھتی ہے کہ۱۱ ستمبر کے بعد کے واقعات نے امریکا مخالف جذبات کو ابھارنے میں اہم کردار ادا کیا ہے؟

امریکا کے خلاف جذبات تو آج ہر جگہ موجود ہیں۔ امریکا نے جس طرح سے ۱۱ ستمبر کو غلط استعمال کیا ہے ، اس کے نتائج تو ابھی آنے ہیں ۔تاہم‘ اسپین کے لوگوں نے عراق میں جاری جنگ کے حوالے سے اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ٹونی بلئیر کو بھی اپنے برطانوی عوام سے یہی کچھ ملنا ہے  ( جو سپین کے سابق وزیراعظم ازنار کو ملا ہے)۔ ان کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ جن لوگوں نے ان کو ووٹ دے کر منتخب کیا ، ان سے مشورہ لینے کے بجاے انھوں نے واشنگٹن سے احکامات لیے ۔

آپ نے کچھ وقت قطر میں بھی گزارا۔ آپ کا یہ تجربہ بالخصوص اسلام قبول کر نے کے بعد ، کیسا رہا؟

مجھے قطر میں جاکر سخت مایوسی ہوئی ۔تاہم‘ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے میں نے ایک بہت بڑا سبق پایا : اسلام کامل ہے‘ لیکن اس پر عمل کرنے والے لوگ ایسے نہیں۔وہاں میں ابوبکر صدیق نامی ایک مسجد میں جایا کرتی تھی اور مجھے یہ خوش گوار احساس ہوا کہ میری آمد سے لوگوں کو خوشی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جب میں قطر میں اپنی آمد کے فوراََبعد ایک مسجد میں گئی تو مجھے جس توہین آمیز سلوک کا وہاں سامنا کر نا پڑا ، اس قسم کا تجربہ مجھے اس سے قبل مسلمانوں کے درمیان رہتے ہوئے کبھی نہیں ہوا تھا۔

کیا آپ یہ محسوس کرتی ہیں کہ طالبان والا یہ واقعہ آپ کے پیشہ وارانہ اورذاتی زندگی کا ایک عظیم واقعہ ہے؟

میرا خیال ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ طالبان کا تجربہ میری زندگی میں موت کو قریب سے دیکھنے کا ایک تجربہ تھا۔ میں اب سنجیدگی  کے ساتھ سیا ست میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتی ہوں‘ اور مجھے امید ہے کہ میں ایک بار پھر خبروں کی زینت بنوں گی--- محض حق اور سچائی کی خاطر‘ ان شاء اللہ!