جہاں آرا لطفی


خاندان کسی بھی قوم اور معاشرے کا اہم ترین اور بنیادی ادارہ ہوتا ہے۔ خاندان قوم کے تہذیب و تمدن اور معاشرتی اقدار و روایات کو استحکام اور پایداری اور طاقت فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ خاندان جتنا مضبوط ہوگا‘ قوم متحد ہوگی اور معاشرے کی تہذیب و تمدن‘ امن و سلامتی اور خوش حالی میں پایداری اور استحکام پایا جائے گا۔ اس کی بنیادیں اور جڑیں مضبوط ہوں گی۔

خاندان کی تعریف

Essential English Dictionary میں خاندان کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے:

A Family is a set of people related to one another especially a house hold consisting of parents and children.

خاندان لوگوں کے ایسے مجموعے کو کہتے ہیں جو ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں‘   خاص طور پر والدین اور بچے خاندان کا اہم ترین جز ہوتے ہیں۔

اسلام کا تصورِ خاندان

اسلام خاندان کا ایک وسیع تصور رکھتا ہے۔ ایک مسلم خاندان میں صرف میاں بیوی اور بچے ہی شامل نہیں ہوتے بلکہ دادا دادی‘ نانا نانی‘ چچا‘ پھوپھیاں‘ ماموں‘ خالائیں وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں۔ اسلام خاندان کا ایک ایسا تصور پیش کرتا ہے جو حقوق و فرائض اور خلوص و محبت اور ایثار و قربانی کے اعلیٰ ترین قلبی احساسات اور جذبات کی مضبوط ڈوریوں سے بندھا ہوا ہوتا ہے۔ اسلام خاندان سے بننے والے معاشرے کے جملہ معاملات کی اساس اخلاق کو بناتا ہے۔

اسلام کے نزدیک خاندان معاشرے کا بنیادی ادارہ ہے جس کی بہتری اور بھلائی یا ابتری اور بربادی پر معاشرے کی حالت کا انحصار ہوتا ہے۔ اسلام نے خاندان کی طرف خصوصی توجہ دی ہے تاکہ اس ادارے کو مضبوط سے مضبوط تر بنایا جائے‘ اور ایک مضبوط‘ صالح اور فلاحی معاشرے کا قیام عمل میں آئے جو انفرادی و اجتماعی حقوق و فرائض کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرے۔

آیئے اب دیکھتے ہیں کہ خاندان جو کسی معاشرے کی اساس ہے‘ آج کن مسائل سے دوچار ہے‘ اور ان سے نمٹنے کا طریقہ کار یا لائحہ عمل کیا ہو سکتا ہے۔

خاندان کو لاحق ممکنہ خطرات

آج کا دور انتہائی پُرفتن دور ہے لیکن ایسا کہنا درست نہ ہوگا کہ ایسا دور انسانی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں آیا‘ اس لیے اس سے نمٹنا ممکن نہیں۔ اس طرح کے حالات سے دنیا ہمیشہ دوچار رہی ہے۔ البتہ فرق صرف اتنا ہے کہ سائنسی ایجادات کے اس دور نے فتنوں سے نمٹنا مشکل بنا دیا ہے۔   یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج کے حالات میں فتنوں سے نمٹنا انتہائی مشکل اور صبرآزما کام ہے۔

قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ تمام انبیاے کرام پر فتنوں کا ایسا دور گزر چکا ہے اور پچھلی قومیں جب اخلاقی زوال کا شکار ہوئیں تو حیوانیت کے درجے کو بھی پیچھے چھوڑ گئیں۔ آج کے دور میں معاشرے کا اہم ادارہ خاندان شکست و ریخت کا شکار ہے اور ہمیشہ کی طرح آج بھی اللہ سے بغاوت کرنے والی اقوام اور مذہب سے بیزار انسان اس شکست و ریخت کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔

آج کے دور میں نئی تہذیب کے علم بردار جو اپنے آپ کو جدیدیت کا بانی گردانتے ہیں‘ دراصل اشتراکی اور لادینی نظریات کا پرچار کرتے ہیں۔ علی عزت بیگووچ صدر جمہوریہ بوسنیا اپنی کتاب اسلام اور مشرق و مغرب کی تہذیبی کش مکش میں لکھتے ہیں: ’’اشتراکی نقطۂ نظر سے خاندان معاشرے کی بنیادی اینٹ نہیں ہے جیسا کہ پرانے دساتیر میں قرار دیا گیا ہے۔ خاندان اور معاشرہ ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ خاندان میں محبت اور جذبات لوگوں کو جوڑے رکھتے ہیں۔ معاشرے میں مفاد اور ذہانت یا دونوں ان کو جوڑے رکھتے ہیں۔ معاشرے کے اندر رونما ہونے والا ہر تغیر خاندان کے خاتمے کا متقاضی ہوتا ہے۔ (ص ۸)

مشہور اشتراکی مفکر کارل مارکس کا ساتھی اینجلز اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کرتا ہے: ’’اولین دور میں خاندان کا آغاز دائروں کے محدود ہونے سے شروع ہوا۔ پہلے آغاز قبیلے کے اندر ہوا جس کے اندر دو متضاد جنسوں کے افراد صنفی تعلق کے ذریعے ایک دوسرے سے متعلق ہوگئے۔ آغاز میں قریب کے رشتے داروں اور بعد میں دُور دراز کے رشتے داروں میں بُعد پیدا ہوتا چلا گیا۔ حتیٰ کہ شادیوں کے ذریعے جڑے ہوئے افراد خانہ بھی الگ ہونے لگے۔ آخر میں شادی کے بندھن میں بندھے ہوئے افراد کا جوڑا رہ گیا۔ یہ ایک ایسا مالیکیول ہے جس کے بکھرنے سے خاندان بذاتِ خود بکھرجاتا ہے۔

اینجلز مزید لکھتا ہے: ’’یہ واضح ہے کہ عورتوں کی آزادی کے لیے ضروری ہے کہ عورتوں کو دوبارہ عوامی سرگرمیوں میں شامل کر دیا جائے‘ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ الگ تھلگ خاندان کا وجود بطور معاشرتی یونٹ کے ختم کر دیا ہے۔ نجی ملکیت کو سماجی صنعت میں تبدیل کر دیا جائے۔ بچوں کی داشت پرداخت اور تعلیم سرکاری معاملہ ہو۔ معاشرہ تمام بچوں کے ساتھ یکساں سلوک کرے‘ چاہے ان کی پیدایش جائز طریقے سے ہوئی ہو یا ناجائز طریقے پر‘‘۔

اسی طرح کے خیالات کا اظہار فرانسیسی ادیب سائمن باوار جو فرانس میں تحریکِ نسواں کا معروف کارکن رہا ہے ‘کرتا ہے: ’’جب تک خاندان کے تصور کو ختم نہیں کیا جاتا‘ جب تک ’ماں‘ کے ادارے کو ختم نہیں کیا جاتا‘ اور جب تک مادری جذبے کو ختم نہیں کیا جاتا‘ عورت ہمیشہ مطیع اور ماتحت رہے گی‘‘۔(نیویارک میگزین‘ سیٹرڈے ریویو‘ستمبر ۱۹۷۵ئ)

پروفیسر خورشید احمد سوشلزم یا اسلام میں لکھتے ہیں: ’’اشتراکیت نے جو سماجی نظام بنایا ہے اس میں بھی انسان کو نظرانداز کرنے کی وہی پالیسی کارفرما ہے جسے ہم معاشی اور سیاسی دائرے میں دیکھ چکے ہیں۔ خاندان کا نظام جو ہمیشہ تہذیب کا گہوارہ رہا ہے‘ متضاد اور تناقضی پالیسیوں کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ اس نظام میں کوئی چیز محترم باقی نہیں رہی ہے‘ نہ فرد کی شخصیت‘ نہ قریب ترین رشتے‘ نہ عائلی ادارے اور تعلقات۔ ہر چیز اضافی ہے اور وقت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ اپنا مقام بدلتی رہتی ہے۔ اولاد پہ والدین کے حقوق باقی نہیں رہے ہیں۔ ریاست کے مفاد میں بچوں کو جس طرح چاہے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مذہب اور اخلاق نے سماجی زندگی کی حدبندی کی تھی اسے توڑ دیا گیا ہے۔ نکاح اور طلاق کا نظام وقت کی ضرورتوں کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ جائز اور ناجائز رشتے میں کوئی فرق باقی نہیں رہا۔ انقلاب کے فوراً بعد جنسی آزادی دی گئی۔ خاندان کے نظام کا مذاق اڑایا گیا۔ نکاح کی مذہبی تقدیس کو ختم کر دیا گیا اور طلاق کا راستہ چوپٹ کھول دیا گیا‘‘۔

سید قطب جدید جاہلیت میں کہتے ہیں: ’’خاندان سے ماں کا رشتہ ٹوٹا تو گویا وجدان کا رشتہ منقطع ہوگیا‘ اور جب رشتہ منقطع ہوجائے تو گھر ایک ہوٹل ہے جس میں مرد اور عورت ٹھیرے رہتے ہیں اور ظاہری طور پر اپنے ماں باپ ہونے کے فرائض انجام دیتے ہیں‘ جیسے کوئی ملازم اپنی ڈیوٹی انجام دے رہا ہو۔ اب بچے خواہ ایک پراگندا خاندان میں نوکروں کے ہاتھوں میں پرورش پائیں یا پرورش گاہوں میں اپنے جیسے ماں باپ سے بچھڑے ہوئے بچوں کے ساتھ نشوونما حاصل کریں‘ بہرکیف وہ بگاڑ ہی کا شکار ہوںگے‘‘۔

ڈارون‘ فرائڈ‘ کارل مارکس اور اینجلز جیسے اباحیت پسند فلسفیوں کے گمراہ کن عقائد اور نظریات نے اہلِ یورپ کو مذہب سے تو دُور کیا ہی‘ اخلاقیات کا بھی جنازہ نکال دیا۔ ان کے شیطانی نظریات کی گھنائونی تصاویر نے جب معاشرے میں اباحیت‘ ابتری اور طبقاتی کش مکش پیدا کی تو اہلِ مغرب یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ: ’’دور جدید کے معاشرے نے عورتوں کی تربیت اسکولوں کے سپرد کر کے ایک بڑی غلطی کی ہے۔ اب حال یہ ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو پرورش گاہوں میں چھوڑ دیتی ہیں اور خود یا تو کاموں پر نکل جاتی ہیں یامختلف دل چسپیوں میں لگ جاتی ہیں۔ ادبی اور فنی ذوق کی تسکین میں مشغول ہوجاتی ہیں‘ برج کھیلتی ہیں اور سینما گھروں کو جاتی ہیں۔ غرض اس طرح کی تفریحات میں رہتی ہیں۔ یہ خاندان کی وحدت پارہ پارہ کرنے اور مل بیٹھنے کے مواقع کھو دینے کے بارے میں جواب دہ ہیں‘‘۔

امریکی فلسفی ول ڈیورانٹ کی کتاب کا ایک اقتباس سید قطب شہیدؒ اپنی کتاب   جدید جاہلیت میں رقم کرتے ہیں: ’’کیونکہ عورت مرد کی شادی موجودہ دور میں صحیح معنوں میں شادی نہیں ہے اور بجاے ماں باپ کا رشتہ ہونے کے ایک جنسی تعلق ہے۔ اس طرح زندگی کو سہارا دینے والی تمام بنیادیں ڈھے جاتی ہیں اور ازدواجی رشتہ کمزور ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس کا زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور میاں بیوی تنہا رہ جاتے ہیں‘ جیسے ان میں آپس میں کوئی رشتہ نہ ہو‘‘۔

سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی نے دنیا کو ایک ’گلوبل ولیج‘ کی شکل دے دی ہے۔ چنانچہ مغربی افکار و خیالات نے ہمارے دینی عقائد اور خاندان کو بھی متاثر کیا ہے۔ ادھر ہندوانہ رسم و رواج کے باعث ہم معاشرے کے غلط رسم و رواج اور عقائد سے پہلے ہی نبردآزما تھے۔ نتیجتاً آج ہمارا خاندان ایک چومکھی جنگ لڑ رہا ہے۔ ہمارے خاندان کو اپنی بقا و سلامتی بھی برقرار رکھنی ہے اوراپنی دینی اقدار و روایات کو بھی تحفظ فراہم کرنا ہے۔

چنانچہ خاندان کو لاحق خطرات کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کچھ بیرونی خطرات ہیں تو کچھ اندرونی خطرات۔

خاندان کے ادارے کو لاحق بیرونی خطرات

خاندان کو لاحق بیرونی خطرات میں جن عوامل کا ہم نے اوپر جائزہ لیا ہے وہ بڑی تیزی سے اپنا اثر دکھا رہے ہیں۔ ہماری نئی نسل مغربی افکار و نظریات کی دیوانہ وار تقلید کرنے کے لیے دوڑی چلی جا رہی ہے۔ مغرب کے شیطانی نظریات دو طرح سے ان پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ ایک تو فلم اور ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کے ذریعے‘ دوسرے ان تعلیمی اداروں کے ذریعے جن کا مقصد مسلمانوں کو بگاڑنا اور ان کو دین کی تعلیمات سے دُور لے جانا ہے۔

غیر اسلامی نظریات‘ جدید یورپین و امریکن روایات اور خیالات کی تقلید خاندان کے لیے سب سے بڑا بیرونی خطرہ ہے۔ نوجوان نسل میں لباس‘ خوراک اور بودوباش کے مغربی طور طریقے رائج ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ انٹرنیٹ پر موجود کروڑوں فحش ویب سائٹس‘ سیکڑوں    ٹی وی چینلز پر چلنے والی بے ہودہ فلموںاور اشتہارات نے اخلاقیات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ رہی سہی کسر ہندوانہ کلچر نے پوری کر دی ہے۔

خاندان کے ادارے کو لاحق اندرونی خطرات

معاشرے کے اہم ترین یونٹ یا ادارے خاندان کی بنیاد رکھنے والے عوامل سے بغاوت یا پہلوتہی نے نکاح کو ایک مشکل ترین کام بنا ڈالا ہے۔ چنانچہ نکاح کے راستے میں آنے والی جن رکاوٹوں کو اسلام نے دُور کیا تھا ہم پاکستانی مسلمانوں نے انھیں پھر سے واپس لاکھڑا کیا ہے۔ ان عوامل کا مختصر جائزہ پیش ہے جو نکاح کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں:

۱-            مناسب عمر میں نکاح سے گریز: اسلام کے مطابق ایک مسلمان لڑکا اور لڑکی بلوغت کی عمر کو پہنچ کر نکاح کے قابل ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ حکم ہے کہ اپنے نوجوانوں کے نکاح جلد از جلد کرو۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اے نوجوانو! تم میں جو نکاح کی ذمہ داری اٹھانے کی سکت رکھتا ہو‘ اسے نکاح کرلینا چاہیے کیونکہ یہ نگاہ کو نیچا رکھتا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے۔ جو نکاح کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی وسعت نہیں رکھتا‘ اسے چاہیے کہ شہوت کا زور توڑنے کے لیے وقتاً فوقتاً روزے رکھا کرے‘‘۔(بخاری‘  مسلم)

لڑکیوں سے متعلق ارشاد ہوا: ’’جب تمھارے پاس شادی کا پیغام کوئی ایسا شخص لائے جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے شادی کر دو۔ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑی خرابی پیدا ہوگی‘‘۔(ترمذی)

ہمارے ہاں لڑکے اور لڑکیوں کی شادی دیر سے کرنے کا رواج خاندان کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ خود لڑکے اور لڑکیاں اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے‘ یا ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے ‘یا تعلیمی میدان میں مقابلہ بازی کے لیے اس معاشرتی ضرورت اور اسلامی فریضے سے جان چھڑاتے ہیں۔ یہ مغربی اثرات کا شاخسانہ ہے‘ کہ شادی؟ ابھی نہیں‘ ابھی عمر ہی کیا ہے… کہہ کر اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے دیگر ذرائع تلاش کرتے ہیں۔ نفسانی خواہشات کی تسکین کے غلط طریقے اختیار کر کے مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور جب پختہ عمر کو پہنچتے ہیں تو شادی کا خیال آتا ہے۔ اس وقت جب گھر بسانے کی خواہش پوری ہوتی ہے تو بعض عادات عمر کے ساتھ ساتھ پختہ ہوچکی ہوتی ہیں۔ نتیجتاً شادی کے وہ بہترین نتائج جو سکون واطمینان کی صورت میں سامنے آنے چاہییں‘ نہیں آتے اور ازدواجی زندگی بے سکونی کا شکار ہوجاتی ہے۔ یہیں سے خاندان میں دراڑ پڑنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔

۲-            مادہ پرستی:جوں جوں مسلمان اسلام سے دُور ہو رہے ہیں‘ مادہ پرستی ان پر غالب آ رہی ہے۔ ایک دوسرے کے لیے قربانی دینے کے جذبات جو ایک خاندان کی بقا و سلامتی اور سکون کے لیے لازمی جز ہیں‘ ختم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ نہ شوہر بیوی کے لیے قربانی دینا چاہتا ہے‘ نہ بیوی شوہر کے لیے۔ پھر دونوں بچوں کے لیے قربانی دینے سے گریز کرنے لگتے ہیں۔ اس وجہ سے ایک دوسرے سے قربت کی بجاے نفرت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اصل میں نکاح کے لیے نبی اکرمؐ نے جو شرط عائد کی ہے‘ وہ اس حدیث سے واضح ہے۔ فرمایا: ’’عورتوں سے ان کے حُسن و جمال کی وجہ سے شادی نہ کرو‘ ہو سکتا ہے کہ ان کا حُسن ان کو تباہ کرے۔ اور نہ ان کے مال دار ہونے کی وجہ سے شادی کرو‘ ہو سکتا ہے کہ ان کا مال انھیں طغیان اور سرکشی میں مبتلاکردے‘ بلکہ دین کی بنیاد پر شادی کرو‘‘۔(بخاری‘مسلم‘ ابوداؤد‘ ابن ماجہ)

۳- مشترکہ خاندانی نظام: ہمارا المیہ یہ ہے کہ ۵۶ سال گزرنے کے باوجود بھی ہمارا اپنا ایسا معاشرتی نظام وجود میںنہیں آیا جو اسلامی اقدار و روایات سے آراستہ ہو۔ ہمارے خاندانی رسوم و رواج پر پہلے ہندوانہ رسوم و رواج کے اثرات تھے۔ اس سے بیزاری اور مسائل پیدا ہوئے تو ہم مغرب کی طرف لپکے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اندر اسلامی اصولوں کو برتنے کی جرأت اور خواہش پیدا ہی نہیں ہوئی۔ حالانکہ اسلام ہمیں وہ راستہ دکھاتا ہے جو درمیان کا راستہ ہے۔

اسلام مشترکہ خاندانی نظام پر زور نہیں دیتا‘ نہ اسلام مشترکہ خاندانی نظام سے روکتا ہے ‘ نہ اس کی ہدایات کرتا ہے۔ اسلام نے چند اصول پیش کر دیے ہیں۔ اسلام معروف طریقوں پر زندگی گزارنے کا حکم دیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ عائلی زندگی میں پرائیویسی کا تحفظ چاہتا ہے جو عائلی زندگی کی جان ہے۔ لہٰذا ایک خاندان کو کم از کم دو کمروں کا مکان میسر ہونا چاہیے کہ ان کی نجی زندگی میں خلوت اور سکون کے لمحات انھیں میسرہوں۔ چنانچہ شادی اور ولیمے کی تقریبات پر لاکھوں روپے رسوم و رواج اور دھوم دھڑکے پر ضائع کرنے سے بہتر یہ ہوگا کہ نئے جوڑے کے لیے ایک علیحدہ گھر کا بندوبست کرنے کی کوشش کی جائے۔

نعیم صدیقی اپنی کتاب عورت معرض کش مکش میں میں بیان کرتے ہیں کہ: ’’مرد اپنے درجے کی بنیاد پر بعض استحقاقات رکھتے ہیں لیکن اولین ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ خود اس درجے کی وجوہ سے عائد ہونے والی ذمہ داری کو پورا کریں۔ اس درجے کی وجہ سے مرد کی ذمہ داری یہ ہے کہ کھانے پینے‘ رہنے اور دوا دارو کے انتظامات اپنی آمدنی کے لحاظ سے اور خود اپنے ذوق و مصارف کے لحاظ سے معیاری مہیا کرے۔ بیوی کو رہنے کی ایسی جگہ فراہم کرے خواہ وہ ایک جھونپڑی ہی کیوں نہ ہو‘ جہاں وہ کسی مداخلت کے بغیر پوری پرائیوسی کے ساتھ رہ سکے‘ ورنہ نہ تو اسے آزادی حاصل ہو سکتی ہے اور نہ وہ جھگڑوں سے بچ سکتی ہے‘‘۔ (ص ۲۷۹‘ مطبوعہ ۱۹۹۸ئ)

نعیم صدیقی صاحب نے خاندان کے استحکام کے حوالے سے ایک اہم مسئلے کی نشان دہی کی ہے جس کی وجہ سے خاندانی عزت و وقار‘ استحکام و مضبوطی‘ امن و خوش حالی اور پرائیویٹ زندگی کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس سے اچھے اچھے دین دارلوگ نظریں چراتے ہیں اور اسے محض بہو کا عالمی مسئلہ کہہ کر نظرانداز کرتے ہیں‘ جب کہ یہ مسئلہ زندگی کا اہم ترین مسئلہ ہوتا ہے۔

مشترکہ خاندانی نظام کا روایتی تصور ہمیں ہندوانہ ثقافت سے ورثے میں ملا ہے۔ ہندوانہ نظام میں ایک لڑکی جب شادی کے بعد اپنے شوہر کے گھر آتی ہے تو اسے اپنی شخصیت کو فراموش کر کے شوہر کی شخصیت میں ضم کر دینے کا حکم اس حد تک ہوتا ہے کہ اگر شوہر مرجائے تو اسے شوہر کے ساتھ ستی کرنا نیکی اور ثواب میں شمار ہوتا ہے۔ ان کے مطابق شوہر کے گھر اس کا ڈولا اترتا ہے تو وہاں سے اس کا جنازہ ہی نکل سکے گا‘ جب کہ اسلام عورت کی الگ شخصیت‘ اس کی ذاتی و نجی زندگی‘ اس کے حقوق و فرائض کا تعین بڑے عدل و انصاف سے کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس کی ازدواجی زندگی کو مکمل پرائیویسی کے ساتھ دیکھنا چاہتا ہے۔

اسلام نے چند بنیادی اصول‘ محرم نامحرم‘ حقوق الزوجین اور اخلاقیات سے متعلق وضع کر کے باقی انسان کی عقل‘ صوابدید‘ ایثار اور معروف طریقے کے مطابق عمل پر چھوڑ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام کے کھوکھلے اور فرسودہ اصولوں کے بجاے ضرورت‘ سہولت اور وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے عائلی زندگی کو گزارنے کا بندوبست کیا جائے۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا خاندان انتشار کا شکار رہیں گے اور پیدا ہونے والے مسائل کاحل ممکن نہیں ہو سکے گا۔

۳-            نکاح کی تقریب پر فضول خرچی: ہمارے معاشرے میں نکاح اور ولیمے کی تقریبات پر اپنی بساط سے بڑھ کر اخراجات کرنے کا رجحان فیشن سے تجاوز کر کے ضرورت بنتا جا رہا ہے۔ اسلام کی تعلیم کے مطابق نکاح کے عمل کو سادہ اور سہل ہونا چاہیے۔ نہ تو اسلام بھاری بھرکم جہیز کی اجازت دیتا ہے‘ نہ بھاری بھرکم مہر کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور نہ اصراف کو۔

منیراحمد خلیلی اپنی کتاب عورت اور دورجدید میں لکھتے ہیں:’’نکاح نبیوں کی سنت‘ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ عمل‘ بقاے نسلِ انسانی اور استحکام معاشرے کا بڑا ذریعہ ہے۔ خاندانی نظام کے تسلسل کو برقرار اور اخلاقی بگاڑ و فساد سے محفوظ رکھنے کا مؤثر اور آسان راستہ ہے۔ جس قوم یا معاشرے میں نکاح کے عمل کو مشکل بنا دیا جاتا ہے وہاں زنا کو فروغ ہوتا ہے۔ زنا تمدنِ انسانی کے انہدام اور بربادی کا سبب بنتا ہے‘‘۔

۴-            بے جوڑ شادیاں: شریعت اسلامی میں نکاح کے معاملے میں کفو‘ یعنی مرد اور عورت کا چند خاص امور میں ہم پلہ ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ ان امور کی تعداد چھے بتائی جاتی ہے: خاندان‘ اسلام‘ پیشہ‘ حریت‘ دین اور مال۔

آج کل بے جوڑ شادیاں ہو رہی ہیں۔ لوگ پیسہ دیکھ کر لڑکی دیتے ہیں‘ نہ ان کا   حسب نسب دیکھا جاتا ہے‘ نہ خاندان کا پس منظر۔ اسی طرح کردار کی تحقیق بھی نہیں کی جاتی۔ چنانچہ بعض مرتبہ اس قدر سنگین نوعیت کی حقیقت سامنے آتی ہے کہ سواے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ یا تو لڑکی گھٹ گھٹ کر زندگی گزار دیتی ہے‘ یا طلاق یا خلع کے ذریعے علیحدگی اختیار کرکے اپنے ساتھ اپنے والدین کے لیے بھی مسائل و مصائب کا باعث بنتی ہے۔ دونوں صورتوں میں خاندان کی بنیادوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ چنانچہ رشتے طے کرتے وقت ان امور کا خیال رکھنا اور ذمہ داری کے ساتھ رشتہ طے کرنا‘ ایک نئے خاندان کو مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔

۵-  نـان و نـفقہ: نفقہ کے لغوی معنی خرچ کرنے اور نکال دینے کے ہیں۔ فقہ کی اصطلاح میں نفقہ کے معنی اس خرچ کی ذمہ داری ہے جو شوہر پر عائد ہوتی ہے۔ اسے پورا کرنے کے لیے ضروریات کا مہیا کرنا ہے۔ اس میں کھانا‘ لباس‘ گھر اور دوسری متعلقہ چیزیں جن کی زندگی میں ضرورت پڑتی ہے‘ شامل ہیں۔

اس کی شرعی حیثیت ’امر واجب‘ کی ہے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ عورت کو نفقہ مہیاکرنا خاوند‘ باپ یا آقا کی ذمہ داری ہے۔ اس کے موجبات تین ہیں: شادی‘ قرابت داری اور ملکیت۔ ان تینوں صورتوں میں نفقہ کی ادایگی کا واجب ہونا قرآن و سنت اور اجماع سے ثابت ہے۔ چنانچہ   اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’مرد عورتوں پر نگہبان ہیں۔ اس فضیلت کی بنا پر جو اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر دی ہے اور اس مال کے ذریعے جو مرد عورتوں پر خرچ کرتے ہیں‘‘ (النساء ۴:۳۴)۔ نیز ارشاد فرمایا: ’’صاحبِ اولاد کے ذمے ان کا کھانا اور کپڑا ہے‘‘ (البقرہ۲:۲۲۲)۔  نفقہ زوجیت تین اقسام پر مشتمل ہے: ۱- بیوی کو نان نفقہ اور اس کے لوازمات آٹا‘ چولہا اور پانی وغیرہ مہیا کرنا ۲- بیوی کا لباس ۳- گھر۔(کتاب الفقہ‘ ج ۴‘ علما اکیڈمی پنجاب‘ ص ۶۹)

افسوس ناک بات یہ ہے کہ آج کے مادہ پرستانہ ماحول کے زیراثر اب مرد ایسی بیویاں تلاش کرتے ہیں جو کمانے والی ہوں تاکہ ان کے معاشی معاملات میں ان کا ہاتھ بٹائیں۔ اس کے بھی بداثرات عائلی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں۔

خاندان کی شکست و ریخت میں این جی اوز کا کردار

معاشرہ تعلقات کے نظام سے تشکیل پاتا ہے جو رضا و رغبت کی بنیاد پرقائم ہوتا ہے۔ مذہبی معاشرے کی بنیاد محبت ہوتی ہے اور اس میں ایک فرد کا دوسرے سے تعلق خود غرضی سے پاک ہوتا ہے‘ جب کہ اس کے برعکس ایک سول سوسائٹی میں جو جدید مغربی و لادینی نظریات نے متعارف کروائی ہے‘ افراد کے مابین تعلقات غرض کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں۔چنانچہ سول سوسائٹی میں جس ادارے کو سب سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے وہ خاندان ہے۔ نتیجتاً خاندان کی شکست وریخت سے فرد تنہا رہ جاتا ہے۔

این جی اوز کا اصل ہدف خاندانی نظام ہے۔ ان کا مقصد اُن اداروں کی تباہی ہے جو کسی قوم کو متحد و مستحکم رکھتے ہیں ۔ سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت بھی یہی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے این جی اوز نے مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے مدمقابل لاکھڑا کیا‘ جب کہ اسلام کہتا ہے کہ: ’’وہ تمھارا لباس ہیں تم ان کا لباس ہو‘‘ (البقرہ ۲:۱۸۷)۔ این جی اوز نے خاندانی منصوبہ بندی کے ذریعے معاشرے میں بے حیائی اور بے غیرتی کو فروغ دیا ہے۔ سوشل اسٹیٹس کو بلند کرنے کے خوب صورت خواب دکھا کر عورت کو معاشی ذمہ داری کا مکلف بنا دیا ہے۔ مرد اور عورت کی مساوات کا نعرہ لگا کر عورتوں کو ان کی اصل ذمہ داری سے بے بہرہ کر دیا ہے۔ مسلم خواتین ان کا خاص نشانہ ہیں۔ کیونکہ خواتین خاندانی زندگی کی بقا و سلامتی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ اگر ان کو گھروں سے لاتعلق کر دیا جائے تو معاشرے کا توازن بگڑنے میں دیر نہیں لگے گی اور اسلامی تہذیب و تمدن کا شیرازہ بکھر جائے گا۔

دین سے دُوری

خاندان کی شکست و ریخت کے حوالے سے جن مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے‘ ان کا زیادہ تر تعلق دین سے دُوری سے ہے۔ اسلامی تعلیمات کے تحت جو کام ہوگا وہ یقینا آسان ہوگا۔

ایک خاندان کے افراد آپس میں اتفاق‘ یگانگت اور میل محبت سے اسی وقت رہ سکتے ہیں جب ان میں ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کا خیال و اہمیت اور ایثار و قربانی کا جذبہ ہو۔ نیز خاندان کی تشکیل اور بقا و سلامتی میں جو عوامل کارفرما ہوتے ہیں ان سے یہ افراد اچھی طرح واقف ہوں۔ والدین کے حقوق‘ والدین کی اطاعت اور بزرگوں کا احترام‘ چھوٹوں سے شفقت اور رواداری کا برتائو‘ روپے پیسے اور دیگر اشیا کی منصفانہ تقسیم‘ والدین کا اولاد کے لیے قربانیاں دینا‘ ان کی جائز ضرورتوں کا جائز آمدنی سے پورا کرنا‘انھیں اچھے برے کی تمیز سکھانا‘ ان میں دینی شعور بیدار کرنا‘ ان کی تعلیم و تربیت صحیح خطوط پر کرنا‘ انھیں درست سمت میں چلنے کی ہدایت کرتے رہنا اور حقوق العباد ادا کرنے کی تلقین و تربیت کرنا‘ دراصل ایک اچھے مہذب‘ مضبوط اور خوش حال خاندان کی بنیاد رکھنے میں معاون و مددگار عوامل ہیں۔

ہمارے ہاں نوجوان اہلِ مغرب کے انداز اپنانے کی کوشش میں ان تمام ذمہ داریوں سے بچتے ہیں۔ نہ صرف لڑکے بلکہ لڑکیاں بھی ان تمام باتوں کو فضول‘ دقیانوسی اور بے کار سمجھتی ہیں۔ مائیں اپنی بچیوں کی تربیت میں‘ ان تمام عوامل کا خیال نہیں رکھتیں‘ انھیں شوہر اور سسرال والوں کے ساتھ مستحسن سلوک کے طور طریقے نہیں سکھاتیں۔ لڑکیاں کام کاج سے بھاگتی ہیں۔ ذمہ داریوں سے گھبراتی ہیں۔ انھیں نہیں معلوم ہوتا‘ شوہر کے حقوق کیا ہیں‘ بچوں کی تربیت کیا ہے‘ عورت کی بحیثیت ماں اور بیوی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ وہ شادی سے قبل خوابوں کی زندگی گزارتی ہیں۔ ان کی نظر میں شادی محض قیمتی کپڑے‘ زیور‘ گھومنا پھرنا‘ انجوائے کرنا ہے۔ ٹی وی کے ڈراموں‘ فلموں اور گانوں نے انھیں یہی سکھایا۔ والدین نے صرف ان کی ڈگری کی فکر کی‘ نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ جب ان کے کاندھوں پر شوہر اس کے گھر بار اور اولاد کی ذمہ داری پڑی تو ان کے تمام خواب چکنا چور ہو گئے۔ وہ خوب صورت ہوائی قلعے زمین بوس ہوگئے اور حقیقت بڑی تلخ اور کڑوی محسوس ہوئی۔ اب زندگی بوجھ لگنے لگی اور خاندان میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں۔

ادھر لڑکے کے ذہن میں خوابوں کی ایک پری تھی جو ہر دم پورے میک اَپ اور   خوب صورت لباس کے ساتھ ناز و ادا سے اٹھلاتی اس کا دل بہلاتی تھی‘ مگر جب دلہن یا محبوب کی اصل صورت نظر آئی تو بوکھلا گئے۔ پھر نہ وہ دلفریب باتیں رہیں‘ نہ وہ ہنسی مذاق‘ نہ وہ رعنائی۔ تیوریوں پر بل پڑ گئے‘ زبانیں زہر اگلنے لگیں اور دن رات عذاب بن گئے۔

اسلام ایک سچا مذہب ہے۔ یہ حقیقت پر مبنی ہے۔ وہ شان و شوکت اور دکھاوے کی بات نہیں کرتا۔قرآن کہتا ہے: ’’ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو، ’’وہ تمھارا لباس ہیں تم ان کا لباس ہو‘‘،’’عورت پر جیسے فرائض ہیں ویسے ہی ان کے حقوق ہیں‘‘۔حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورت جب پانچوں وقت کی نماز پڑھے‘ رمضان کے روزے رکھے‘ اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرے‘ اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے‘‘۔

حرفِ آخر

خاندان کو لاحق خطرات کا تجزیہ کیا جائے تواس کا ممکنہ حل تلاش کیاجا سکتا ہے۔ اس ضمن میں یوں تو ایک ہی نکتہ ذہن میں آتا ہے کہ لوگوں کو دین کے زیادہ سے زیادہ قریب لایا جائے‘ خصوصاً نوجوان نسل میں دینی شعور اور مذہبی جذبات کو بیدار کیا جائے‘ اہلِ مغرب کی ثقافتی یلغار اور ہندوانہ رسوم و رواج کے اثرات کو زائل کیا جائے۔ تاہم‘ یہاں چند تجاویز پیش کی جا رہی ہیں جن پر اگر توجہ دی جائے تو مذکورہ بالا مسئلے کے حل کے راستے نکل سکتے ہیں:

                                ائمہ کرام ‘ علما‘ دانش ور حضرات معاشرتی و عائلی زندگی کے مسائل کو اسلامی تناظر میں آسان اور قابلِ عمل طریقوں پر حل کریں۔

                                میڈیا‘ اسلام کی ترویج و اشاعت کے ساتھ ساتھ اسلام سے متعلق شبہات اور خدشات کا ازالہ بھی کرے۔

                                اپنے وسائل کو بروے کار لاتے ہوئے نوجوان نسل کی خصوصی تربیت کی زیادہ سے زیادہ کوشش کی جائے۔

                                اجتہاد اور اجماع کے ذریعے جدید فقہی مسائل کا حل تمام مسالک متفقہ طور پر نکالنے کی کوشش کریں۔

                                اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل درآمد کی کوششوں کو تیز کیا جائے۔

                                اُن این جی اوز کو جو مغربی ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں‘ بے نقاب کرکے اسلامی خطوط پر کام کرنے والی تنظیمیں قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔