آج کل یہ مسئلہ بہت اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ ساس بہو کے درمیان باہمی موافقت کی فضا ختم ہوتی جارہی ہے۔ دراصل یہ ایک ناقابل التفات مسئلہ تھا لیکن ذرائع ابلاغ نے اسے فلموں اور ڈراموں کے ذریعے اور کلچروثقافت کے نام پر بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ درحقیقت ساس بہو کے درمیان پیدا ہونے والے اکثر مسائل کا حل بالکل آسان ہوتا ہے۔ یہ نہ صرف بہو کے اختیار میں ہوتا ہے بلکہ ساس بھی معمولی سمجھ بوجھ سے انھیں بآسانی حل کرسکتی ہے۔ میرے خیال میں ایسے مسائل کا سب سے پہلا اور آسان ترین حل قلبی جذبات کے ساتھ علیک سلیک اور ایک گرم جوش مصافحہ ہے۔
شادی اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ متمدن زندگی کی پہلی اینٹ ہے اور اس سے ایک نیا خاندان وجود میں آتا ہے۔ یہ تعلق جو زوجین کے درمیان پیدا ہوتا ہے اس کا دونوں خاندانوں کے افراد پر براہ راست اثر ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے دونوں خاندانوں کے درمیان پیار‘ محبت‘ گرم جوشی اور قربت کا تعلق پیدا ہوجاتا ہے۔ اس طرح یہ دونوں خاندان ایک ہی خاندان کی صورت اختیار کرجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ’مصاہرت‘ یعنی سسرال کے تعلق کی بنیاد پر آدمی کا اپنی ساس کے ساتھ نکاح حرام قرار دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ساس کو اللہ تعالیٰ نے محض عقد نکاح کے ساتھ ہی ماں کا درجہ دے دیا ہے تاکہ گھر کے اس نووارد فرد کے دل سے ہر قسم کے شک و شبہے کو کھرچ ڈالا جائے۔ لیکن اسلام میں ساس کے اس عظیم مرتبے کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ بعض گھرانوں میں ساس اور بہو کے اختلافات کی وجہ سے بہت سے مسائل پیش آتے رہتے ہیں۔
۱- بعض اوقات ساس کا کردار ایسا مثالی ہوتا ہے جس تک پہنچنا بہو کے بس میں نہیں ہوتا۔ شوہر کا خیال ہوتا ہے کہ اس کے لیے والدہ جو کھانا تیار کرتی تھی‘ وہ ذائقے کے لحاظ سے اچھا ہوتا تھا اور اس کے اخراجات کم ہوتے تھے۔ یہ تو ایک مثال ہے ورنہ بیٹے کے ذہن میں ماں کی قدرومنزلت کے لیے اس کے علاوہ بھی کئی چیزیں ہوسکتی ہیں۔
۲- زیادہ تر جوڑے یہ محسوس کرتے ہیں کہ اُن کو بچپن میں کوئی سمجھانے والا میسر نہیں تھا اور کسی نے ان کو زندگی کے نشیب و فراز کی حقیقت سے آگاہ نہیں کیا۔ اس وجہ سے شوہر اور بیوی‘ ساس کو اس ماں کی نظر سے دیکھتے ہیں جس نے بچپن کے زمانے میں ان کی زندگی کو مکدّر بنایا ہو۔ نتیجتاً ساس بے چاری ’’قربانی کا بکرا‘‘ بن جاتی ہے۔ حالانکہ اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔
۳- شوہر اور بیوی ہر معاملے میں ساس کو ملامت کا نشانہ بناتے اور ہر چپقلش کی ذمہ دار ساس کو ٹھیراتے ہیں۔ اگر بیوی شام کا کھانا تیار کرنے میں تاخیر کرتی ہے تو شوہر اس کو والدہ کی عدم تربیت کا طعنہ دیتا ہے۔ اس طرح دل میں ساس کے ساتھ نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔
۱- بڑی اولاد ایک بہت بڑا نفسیاتی سرمایہ خیال کی جاتی ہے۔ اس وجہ سے ساس عموماً اس فرد کے لیے اپنے دل میں محبت کے جذبات نہیں رکھتی جس نے اس کی اولاد چھین لی ہو۔
۲- وہ ساس جس نے اپنے آپ کو سالہا سال تک اپنی اولاد کی تربیت اور نگرانی کے لیے وقف کیا ہوتا ہے‘ اس کے لیے یہ بات تسلیم کرنا مشکل ہوجاتی ہے کہ ایک سیدھی سادی لڑکی‘ جسے زندگی میں کوئی ذمہ داری ادا کرنے کا موقع نہیں ملا‘ اس قابل ہو سکتی ہے کہ اس کے بیٹے کے معاملات سنبھالنے کی عظیم ذمہ داری اٹھا سکے۔ یا وہ سمجھتی ہے کہ یہ پریشان حال نوجوان اس قابل نہیں ہے کہ اس کی بیٹی کے معاملات کو ٹھیک طرح سے چلا سکے۔
۳- کبھی ساس اپنے بیٹے یا بیٹی کے شریکِ حیات کے ساتھ بعض معاملات میں اختلاف کرتی ہے۔ اس کے باوجود کبھی کبھی اس کا رویہ ان عوامل کا نتیجہ ہوتے ہیں جو ایک طرح سے باہمی محبت اور مفاہمت کا ذریعہ بنتے ہیں۔
ان اختلافات کو تین بنیادی پہلوئوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے: ماں (ساس)‘ بیوی اور شوہر۔ یہ اس مسئلے کے تین بنیادی فریق ہیں۔
یقینا ہر ماں جانتی ہے کہ ایک دن اس کا بچہ یا بچی اس سے الگ ہوجائیں گے لیکن وہ اس کے لیے ذہناً تیار نہیں ہوتی۔ اُس کا دل اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
ماں سمجھتی ہے کہ ابھی اس کا بیٹا اتنا ذمہ دار نہیں ہے کہ اپنے معاملات خود چلا سکے۔ چنانچہ اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ بیٹے کے لیے سب کچھ وہ خود ہی کرے اور بسااوقات جب وہ کچھ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو ماں اسے روکتی ہے اوراس کام کے لیے خود دوڑتی ہے۔ اسی طرح اس نے خود اپنے آپ کو بھی اس بات کا عادی نہیں بنایا ہوتا کہ وہ بچے کی ذاتی زندگی سے بے دخل ہوجائے۔ اس کی نظروں میں وہ ایسا بچہ ہوتا ہے جو اس کی مدد کا محتاج ہے۔
ایک ماں کو جس بات کا سب سے زیادہ خدشہ ہوتا ہے وہ یہ کہ بیٹے یا بیٹی کی شادی کے بعد وہ اپنے اُس مقام سے محروم ہوجائے گی جو اس کو پہلے سے حاصل تھا‘ یعنی بیٹا یا بیٹی پہلے صرف اس کے لیے تھے لیکن اب ایک اور فرد بھی اس کے ساتھ شریک ہوجائے گا۔ اس کا یہ خوف بہت حد تک بجا ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ وہ اپنے مدمقابل کے ساتھ ٹکر نہیں لے سکتی۔ بیٹے کی صورت میں اس کی مدمقابل‘ بیٹے کی نئی نویلی دلہن ہوتی ہے اور بیٹی کی صورت میں‘ بیٹی کا شوہر ہے۔ اگرچہ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ لڑکی اپنی مخصوص فطرت کی بنا پر شادی سے پہلے اور شادی کے بعد بھی شوہر کے مقابلے میں اپنے والدین کے ساتھ تعلق کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہے۔
ہم اُن جذبات و احساسات سے بھی چشم پوشی نہیں کر سکتے جن سے ایک ماں کا دل ہر وقت لبریز ہوتا ہے۔ اس لیے بہو اور داماد کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی ساس کے ان جذبات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
ایک بہو کو اپنے دل سے پوچھنا چاہیے کہ خود اس کے دل میں اپنی والدہ کے لیے کیا جذبات ہیں اور والدہ کی اس کے ساتھ کتنی محبت ہے؟ کیا یہ جذبات شادی کے بعد یکسر تبدیل ہوسکتے ہیں؟ گھروں میں پیدا ہونے والے اکثر مسائل کا سبب یہ ہوتا ہے کہ بیٹی اپنی ماں کے ساتھ شادی سے پہلے جو تعلق رکھتی ہے‘ شادی کے بعد بھی اس کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ روزانہ اپنی ماں کے پاس جایا کرے یا دن میں کئی کئی بار اس کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کیا کرے۔ وہ چاہتی ہے کہ اپنے نئے گھر کو بھی اسی انداز میں چلائے جس طرح کہ اس کی والدہ اپنے گھر کو چلایا کرتی تھی۔
ماں کو بھی اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ ماں ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ بیٹا اور بیٹی ہمیشہ کے لیے اس کی ملکیت ہیں۔ ماں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے دل میں مامتا کے ناقابلِ انقطاع جذبات ہوں۔ ماں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ بیٹا جب شادی کرتا ہے تو وہ اپنی زندگی کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوتا ہے اور اس کے اپنے تقاضے ہیں۔ اس مرحلے کے بعد اس کا یہ حق بنتا ہے کہ اس کا مستقل گھر ہو اور وہ اپنے طور پر زندگی گزارے۔
بیوی (بہو): سب سے پہلے ہمیں اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ کیا ساس بہو اور ساس اور داماد کے درمیان تعلق باہمی کش مکش کا تعلق ہے؟ ماہرین نفسیات کے مطابق اس کی کوئی ایک وجہ نہیں بلکہ اس میں کئی عوامل کارفرما ہیں۔ یہ نفرت ایک طرف ماں کے دل میں اپنے بیٹے یا بیٹی کے شریکِ حیات کے خلاف پیدا ہوتی ہے اور دوسری طرف بہو یا داماد کے دل میں اپنی ساس کے خلاف۔
ان عوامل میں سب سے اہم عامل‘ ماں کا احساس ملکیت ہے۔ وہ اس بات پر عقیدے کی حد تک یقین رکھتی ہے کہ اولاد گویا اس کی ملکیت ہے اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اسے چھین سکے۔ دوسری طرف ساس کی ناپسندیدگی کا احساس اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ بہو اپنے طور پر اس بات پر آمادہ نہیں ہوتی کہ شوہر کے ساتھ اس کی محبت میں کوئی دوسرا شریک ہو‘ خواہ وہ شوہر کی ماں ہی کیوں نہ ہو۔ وہ اس بات کی خواہش رکھتی ہے کہ شوہر کی پوری توجہ اس کی طرف ہو اور اُس کی سوچ و فکر کا مرکز و محور صرف وہی ہو۔
نئے گھر میں مسائل پیدا ہونے کی وجہ اکثر یہ ہوتی ہے کہ وہاںشادی کا ایک غلط تصور پایا جاتا ہے۔ بیوی چاہتی ہے کہ شوہر کسی بھی معاملے میں صرف اُس کی بات مانے اور شوہر کی زندگی کا ہر چھوٹا بڑا معاملہ اس کے سامنے ہو۔ وہ وہی غلط کردار ادا کرنا چاہتی ہے جو بعض مائیں ادا کرتی ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کے لیے خوداعتمادی کا کوئی موقع فراہم نہیں کرتیں۔
یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ بیوی اپنے شوہر کے بارے میں یہ حق رکھتی ہے اور یہ بے شک بڑا بنیادی حق ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ دوسروں کے حقوق پر دست درازی کرے۔ مسلمان تو اس بات کا مکلف ہے کہ وہ ہر صاحب حق کو اس کا حق ادا کرے۔ ایک مسلمان جب اپنے اوپر عائد حقوق کی ادایگی میں کوتاہی کرتا ہے تو وہ گناہ گار ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اس عبادت گزار بیوی پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے جو اپنے شوہر کو اس بات پر ابھارتی ہے کہ وہ اپنی والدہ کی بات مانے اور ان کی دلجوئی و خدمت کرے۔وہ اسے کہتی ہے: میں تجھے قسم دیتی ہوں کہ صرف حلال مال کمائو‘ اور میری وجہ سے اپنے آپ کو آگ میں نہ ڈالو۔ اپنی والدہ کے ساتھ نیک سلوک کرو‘ ان کے ساتھ صلہ رحمی کرو اور قطع تعلق نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تجھ سے قطع تعلق کر لے گا۔
ایک صالح بیوی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ذہن سے ساس کا یہ مہیب تصور نکال دے اور وہ یہ سوچے کہ میرے شوہر کی ماں‘ یعنی ساس میرے لیے بھی ماں کی طرح ہے۔ اگر ساس کی طرف سے اس کے بارے میں کوئی غلط فہمی ہوجائے تو جواب میں اس کا طرزعمل وہی ہونا چاہیے جو وہ اپنی ماں کی کسی غلطی کی وجہ سے اختیار کرتی تھی۔
چنانچہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کی توجہ ان میں سے کسی ایک طرف مرکوز ہوجاتی ہے اور باقی حقوق متاثر ہونے لگتے ہیں اور اُسے اس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یا وقت کی کمی اور مصروفیات کی کثرت ہوتی ہے یا پھر یہ کہ آدمی کو زندگی کے معاملات کا تجربہ نہیں ہوتا۔ وہ بیک وقت سب کو خوش رکھنا چاہتا ہے۔ نتیجتاً اپنی تمام تر کوشش کے باوجود وہ کسی ایک کو بھی پوری طرح خوش نہیں رکھ پاتا۔
اگر لڑکا سمجھ دار ہو تو وہ اپنے معاملات کو خوب سوچ سمجھ کر آگے بڑھاتا ہے۔ وہ اپنی ذمہ داریوں اور میسر وقت کے درمیان توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنی پوری توجہ کسی ایک طرف مرکوز نہیں کرتا‘ بلکہ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے وقت کو اپنی ذمہ داریوں کے مطابق تقسیم کرے تاکہ دیگر حقوق بھی ادا کیے جا سکیں۔اگرچہ وہ یہ طاقت تو نہیں رکھتا کہ ہر پہلو میں حدِّکمال تک پہنچے لیکن اپنی وسعت کے مطابق ہر باغ میں کوئی پھول تو لگا سکتا ہے۔
بسااوقات لڑکا اپنی مرضی سے شادی کرلیتا ہے اور ماں اس سے خوش نہیں ہوتی۔ وہ اپنی بہو کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ اسی طرح کبھی بہو کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ساس کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے‘ اور ساس کے اس کے بارے میں احساسات کچھ اچھے نہیں ہیں۔ چنانچہ وہ بھی اسی طرح بے رخی برتتی ہے جس طرح اس کی ساس برتتی ہے اور اس کے نتیجے میں دونوں کے درمیان عداوت کی وہ آگ بھڑک اٹھتی ہے جس کے شعلے پھر کبھی ماند نہیں پڑتے۔ اس صورت حال میں لڑکا بے چارہ چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پستا رہتا ہے۔
ہمارا مشورہ یہ ہے کہ لڑکا جب شادی کا ارادہ کرے تو اس کو چاہیے کہ اپنے گھر والوںسے اپنی شادی کے بارے میں مشورہ ضرور کرے‘ اور اُن پر زور دے کہ وہ اس کے ساتھ انتخاب میں شریک ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افراد خانہ کو انتخاب میں شریک کرنا‘ خواہ براے نام ہی کیوں نہ ہو‘ دلوں کو خوش کر دیتا ہے اور معاملہ سب کی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور پریشانی نہیں ہوتی۔
دوسری بات یہ ہے کہ ماں کو بھی چاہیے کہ اپنے بیٹے کی پسند کا خیال رکھے اور اس کو کسی ایسی لڑکی کے ساتھ شادی پر مجبور نہ کرے جس سے ذہنی ہم آہنگی نہ ہو۔ اس لیے کہ شادی ایک ایسا رشتہ ہے جو ساری زندگی پر محیط ہے۔ اس رشتے کو دوام بخشنے کے لیے ضروری ہے کہ ذہنی ہم آہنگی ہو۔
تیسری بات اس مسئلے کی تلخ حقیقت کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ جب شادی ماں کی رضامندی کے بغیر طے پاجائے تو ایسی صورت میں ہم بہو کو نصیحت کریں گے کہ وہ ساس کی ترش روئی کا جواب خندہ پیشانی کے ساتھ دے اور نرمی سے پیش آتے ہوئے دل سے اس کا احترام کرے۔ اس کی نفرت کا جواب محبت سے دے۔دوسری طرف ساس کا فرض ہے کہ وہ اپنی بہو کے بارے میں اللہ سے ڈرے اور اسے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس کے حقوق سے نوازے۔ اسے چاہیے کہ اپنے بغض اور ناپسندیدگی کو اس کے حقوق کی ادایگی میں حائل نہ ہونے دے۔
جب جنگِ یمامہ کے موقع پر حضرت زید بن خطابؓ کا قاتل ایمان لایا توحضرت عمرؓ نے اس سے منہ پھیر لیا۔ اس نے کہا: کیا آپ میرے ساتھ بغض رکھتے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے کہا: ہاں! اس نے پوچھا:کیا آپ کا میرے ساتھ بغض رکھنا اس میں رکاوٹ ہے کہ آپ میرا حق ادا کریں؟ حضرت عمرؓ نے کہا: نہیں! اس نے کہا: چلیں پھر کوئی بات نہیں‘ محبت پر رونا عورتوں کا کام ہے (یعنی اگر مجھے اپنا حق مل جائے تو آپ کی محبت کی مجھے کوئی ضرورت نہیں)۔
بچوں کی پیدایش کا مسئلہ بھی ساس بہو کی لڑائیوں کا ایک اہم سبب تصور کیا جاتا ہے۔ جب بہو کے ہاں بچے کی پیدایش میں تاخیر ہوجاتی ہے تو ماں کا اپنے بیٹے کے بارے میں اضطراب روز بروز بڑھتا جاتا ہے اور اس کا اپنی بہو کے ساتھ تعلق خراب ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات لڑکا پیدا نہ ہونا بھی وجہ تنازع بن جاتی ہے۔
قرآن کہتا ہے کہ اولاد (لڑکا یا لڑکی) خدا کی طرف سے ہے۔ (الشوریٰ ۴۹:۵۰)۔ جدید علمی تحقیقات سے بھی یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ لڑکایا لڑکی کی پیدایش کا سبب مرد ہوتا ہے عورت نہیں۔ لہٰذا ساس کو چاہیے کہ وہ اپنی بہو کی اس حالت پر صبر کرے اور اس معاملے میں اسے پریشان نہ کرے‘ اس کے احساسات کو ہرگز مجروح نہ کرے اور اس کا مذاق نہ اڑائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’تم اپنے بھائی کا مذاق نہ اڑائو۔ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو معاف کر دے اور تمھیں اس مصیبت میں مبتلا کر دے جس میں پہلے وہ مبتلا تھا‘‘۔ ساس کا فرض ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنی بہو کو تسلی دے‘ اسے صبر کی تلقین کرے اور خود بھی صبر کرے۔ اس لیے کہ بسااوقات ایک عورت کے ہاں شادی کے کئی سال بعد بچے پیدا ہوتے ہیں۔
بعض اوقات لڑکی اپنے شوہر کے ساتھ مشترکہ خاندان میں رہتی ہے جہاں اس کے شوہر کے دوسرے بھائی بھی اپنی اپنی بیویوں سمیت رہتے ہیں۔ وہ گھر کے کام کاج اور کھانے پینے میں اشتراک عمل سے کام لیتے ہیں۔ اگرچہ یہ صورت آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے لیکن پھر بھی اس کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ صورت حال بھی کبھی کبھار ساس بہو کے درمیان ناچاقی کا سبب بن جاتی ہے۔
اس حوالے سے لڑکی کے لیے ہمارا مشورہ یہ ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری دلجمعی سے ادا کرے اور اپنے کام کو اچھے طریقے سے انجام دینے کی کوشش کرے۔ وہ یہ نہ دیکھے کہ اس کی دوسری نندیں کیا کرتی ہیں۔ اس کو چاہیے کہ ساس کے ساتھ بہترین تعلقات رکھے اور اپنی نندوں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک سے پیش آئے‘ غیبت نہ کرے اور برا بھلا نہ کہے۔ یہ روش دل میں جگہ بنانے کا باعث ہوگی۔لڑکی کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ایک مضبوط بنیاد ہے جس کے ذریعے وہ اپنے گھر کے ماحول کو خوش گوار بنا سکتی ہے۔
بعض اوقات بہو فضول خرچ ہوتی ہے اور اس کی ساس بخیل ہوتی ہے‘ یا بہو تو معتدل ہوتی ہے لیکن اس کی ساس حد سے زیادہ بخیل۔ چنانچہ اس صورت میں بھی وہ اپنی بہو کے طرز عمل سے خوش نہیں ہوتی کیونکہ بخیل آدمی دوسروں سے کسی حال میں بھی خوش نہیں ہوتا۔
اس مسئلے کا سبب درحقیقت بخل نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ساس زمانے کی موجودہ صورت حال سے بے خبر ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو اس مسئلے کا حل کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اگر بہو ایک دن اپنی ساس کو خریداری کے لیے یا اس کے لیے کوئی تحفہ خریدنے کی غرض سے ساتھ لے جائے تو اس پر خود بخود حقیقت حال واضح ہو جائے گی اور وہ سمجھ جائے گی کہ زمانہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔
اگر ساس واقعی بخیل ہے تو پھر بہو کے لیے ہماری نصیحت یہ ہے کہ وہ اپنے زیادہ تر مالی معاملات ساس سے چھپا کر رکھے اور وہ خریداری میں جو پیسے خرچ کرے اس کو ساس کے سامنے حکمت سے بیان کرے تاکہ ساس کو محسوس نہ ہو اور خرابی کی صورت نہ پیدا ہو۔ دراصل ماں کو اپنے بیٹے کی کمائی کی بڑی فکر ہوتی ہے اور اسے خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں بہو اسے اللوں تللوں میں نہ اڑا دے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی مشورہ دیتے ہیں کہ اخراجات میں اعتدال سے کام لیا جائے‘ اس لیے کہ شریعت بھی ہمیں اعتدال پر اُبھارتی ہے۔
گھریلو مسائل کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب عورت کا لاپروا ہونا بھی ہے۔ کبھی وہ گھر کے کام کاج کی طرف توجہ نہیں دیتی‘ کبھی بچوں کی نگہداشت سے بے پروا ہوجاتی ہے یا اپنے بارے میں کاہلی کا شکار ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے شوہر ذہنی طور پر پریشان ہوجاتا ہے اور اسے گھر کے ساتھ نفرت سی ہوجاتی ہے۔ اس کی ماں جب یہ حالت دیکھتی ہے تو اس کو بھی پریشانی لاحق ہوتی ہے کیونکہ ماں اپنے بچوں کی خوشی سے خوش ہوتی ہے اور پریشانی سے پریشان۔
بہت سی عورتیں ساس کے ساتھ اپنے تعلقات کی کشیدگی کی شکایت کرتی ہیں لیکن اسباب سامنے آتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مسائل کھڑے کرنے کی ذمہ دار وہ خود ہی ہیں۔ ایک بہو کو معلوم ہونا چاہیے کہ اپنے گھر کی صفائی اور دیگر امور کا خیال رکھنا‘ بچوں کی نگہداشت اور اپنے اوپر نظر رکھنا‘ یہ ایسے امور ہیں جن کی وجہ سے ساس کو خوشی ہوتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ماں کا دل کیسا ہوتا ہے اور وہ شادی سے پہلے اپنے بیٹے کا کس طرح خیال رکھتی ہے۔ پھر جب وہ دیکھتی ہے کہ بیوی بھی اس کے بیٹے کا اسی طرح خیال رکھتی ہے تو اس سے وہ بے انتہا خوش ہوتی ہے اور بہو کے ساتھ بہت زیادہ پیار کرتی ہے۔ لیکن اگر صورت حال اس کے برعکس ہو تو پھر اس کا ناراض ہونا اور تعلقات کا کشیدہ ہونا فطری ہے۔
عام طور پر ایک گھرانے کا ماحول دوسرے گھرانے سے مختلف ہوتا ہے۔ اگر ایک گھرانے میں کسی بات کا معمول ہے تو ضروری نہیں کہ دوسرے گھرانے میں بھی اس کو وہی اہمیت حاصل ہو۔ لہٰذا اس قسم کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ساس کا فرض ہے کہ وہ اپنی بہو کی طبیعت اور مزاج کو بھی سمجھے اور بہو جس ماحول سے آئی ہے اور اس کی شخصیت پر اس ماحول کے جو اثرات ہیں اُن کا بھی خیال رکھے۔ دنیا میں کوئی عورت بھی ایسی نہیں پائی جاتی جو ہر قسم کے کاموں کو بہترین انداز میں کرسکتی ہو اور عورت کا کسی کام کو نہ کر سکنا‘ خصوصاً جب وہ ایسا کام ہو جو اس نے پہلے نہ کیا ہو‘ کوئی عیب نہیں ہے۔
بہو کا بھی فرض ہے کہ وہ اُن امور میں مہارت حاصل کرے جس کا اس سے تقاضا کیا جاتا ہے‘ یا خوش طبعی اور پورے ادب و احترام کے ساتھ معذرت کرے۔ وہ اپنی ساس کی توجہ حکمت و دانش مندی سے ایک ایسے کام کی طرف بھی موڑ سکتی ہے جس کو وہ بآسانی اچھے انداز میں کرسکتی ہو اور جو ساس کے مزاج کے موافق بھی ہو۔
یہاں ہم کچھ ایسی تجاویز پیش کریں گے جن کے ذریعے ایک عورت اپنی ساس کا دل جیت سکتی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ دل میں پختہ ارادہ ہو‘ اس کو انجام دینے کا عزم ہو اور شیطان کی چالوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال ہو۔ عربی کا مشہور مقولہ ہے کہ جو آدمی دروازے کو مسلسل کھٹکھٹاتا ہے‘ وہ ضرور اس کے لیے کھل جائے گا۔
ایک میٹھا بول‘ دل میں جادو کی طرح اثر کرتا ہے‘ خصوصاً جب وہ مسکراتے اور ہشاش بشاش چہرے کے ساتھ ہو۔ یہ بول دل کے بند دریچے وا کر دیتا ہے اور دشمنی کو دوستی‘ بلکہ محبت میں بدل ڈالتا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ساس بہو کے تعلقات کبھی عداوت کی حد تک جاسکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے درمیان کچھ غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں جن کی وجہ سے اُن کے درمیان تعلقات میں وہ گرم جوشی نہیں رہتی جو پہلے کبھی ہوتی تھی۔
وہ میٹھا بول جس کو ایک بہو اپنی ساس کے سامنے یا داماد اپنی ساس کے سامنے بولتا ہے‘ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی بڑی قدروقیمت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ایک میٹھی بات کہنا صدقہ ہے۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’بھلائی کو معمولی نہ سمجھو‘ خواہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آنا ہی کیوں نہ ہو‘‘۔ اس لیے جو بیوی یا جو شوہر ان تعلیمات سے غفلت برتتے ہیں وہ اپنے آپ کو اس اجر عظیم اور ثواب سے محروم کر دیتے ہیں۔
بعض عورتیں اس میں بڑی مہارت رکھتی ہیں کہ ساس کے لیے کون سے الفاظ سب سے زیادہ تکلیف دہ ہیں‘ اور ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنی ساس کے ساتھ ترش روئی کے ساتھ آنکھوں سے چنگاریاں جھاڑتی ہوئی ملیں۔ ان کو اس رویے کے لیے وجۂ جواز بھی مل جاتی ہے کہ ’’ساس کا میرے ساتھ یہی طرزعمل ہے۔ اس لیے میں بھی اس کے ساتھ اسی طرح پیش آتی ہوں‘‘۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ کبھی کبھی حقیقتاً ایسا ہی ہوتا ہے لیکن ہمارے لیے قابلِ غور بات یہ ہے کہ اسلام کی اخلاقی تعلیمات کیا اسی طرزعمل کا تقاضا کرتی ہیں‘ اور کیا نفس کے ساتھ جہاد اسی کا نام ہے؟ کیوں نہ آپ اپنی ساس کے سامنے بھلائی سے پیش آئیں۔ اگر آپ ایک دو مرتبہ بھی ایسا کریں گی تو ان شاء اللہ اس کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام‘ دوسروں کے ساتھ حسنِ سلوک پر بہت زیادہ زور دیتا ہے‘ اور رشتہ دار اس حسنِ سلوک کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا کہ آپؐ اپنے سسرال والوں سے محبت و احترام سے پیش آتے تھے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیںکہ حضرت خدیجہؓ کی بہن ہالہ بنت خویلد نے ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت مانگی۔ آپؐ کو حضرت خدیجہؓ یاد گئیں اور خوشی خوشی اُن کو اجازت دیتے ہوئے فرمایا: ’’ہاں‘ ہاں! خویلد کی بیٹی آجائو!‘‘
کیا ساس کے ساتھ اس طرح کا حسنِ سلوک نہیں کرنا چاہیے؟ خاص طور پر جب وہ بیٹے کے دل میں سب سے زیادہ مقام رکھتی ہو۔ ہوسکتا ہے کہ ساس کے ساتھ محبت اس کے بیٹے کی محبت کاتسلسل ثابت ہوجائے۔ اگر ساس خوش ہوگی تو اس کا بیٹا بھی خوش رہے گا۔
اپنے شوہر کو ہرگز اس بات پر مجبور نہ کریں کہ کسی معاملے میں وہ آپ یا اپنی ماں میں سے کسی ایک کو چھوڑ کر رائے پر عمل کرے۔ اس طرح کا طرزعمل خاندان کے لیے تباہ کن ہے۔ اس لیے کہ ماں ‘ ماں ہے اور بیوی بیوی۔ ان دونوں کے درمیان کسی پر کسی کو ترجیح دینا‘ خواہ جس طرح بھی ہو‘ دلوں میں کدورت پیدا کرتا ہے۔ اس سے ساس اور بہو کے درمیان سرد جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ایسے میں اگر بیٹا ماں کو ترجیح دے تو کوئی بھی اسے ملامت نہ کرے گا۔ اس لیے کہ ماں کا احترام بہرحال مقدم ہے تاوقتیکہ وہ خدا کی نافرمانی کے لیے کہے۔
اگر بہو اپنی ساس کو ماں کا درجہ دے دے اور اس کے ساتھ اسی طرح پیش آئے جس طرح اپنی ماں کے ساتھ پیش آتی ہے تو ساس بہو کے بہت سارے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔ ہر بہو کو معلوم ہونا چاہیے کہ ساس کا احترام درحقیقت شوہر کا احترام ہے جس کی وجہ سے وہ اس کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خالہ کو بھی ماں کے برابر قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے بھانجوں کے ساتھ اسی طرح شفقت و محبت سے پیش آتی ہے‘ جس طرح کہ اپنے بچوں کے ساتھ پیش آتی ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خالہ کا درجہ ماں کے برابر ہے‘ تو پھر کیوں نہ ساس کو بھی ماں کادرجہ دیا جائے؟
بہو اپنی ساس کے قریب ہوسکتی ہے‘ اگر اس کا طرزعمل یہ ہو کہ جب اس کو پکارے تو اسی طرح پکارے‘ جس طرح اپنی ماں کو پکارتی ہے۔ بعض عورتیں اپنی ساس کو اس طرح پکارتی ہیں جیسے وہ کسی اجنبی عورت کو پکار رہی ہیں جس کے ساتھ اس کا کوئی رشتہ اور محبت کا کوئی تعلق نہ ہو۔ اس انداز سے پکارنا اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ بہو کے دل میں ساس کے لیے کوئی محبت نہیں۔
ایک معمولی تحفہ‘ جس کو بہو خوشی کے مواقع پر اپنی ساس کی خدمت میں پیش کرتی ہے‘ ساس کے دل کے دریچے کھول دینے کے لیے کافی ہے اور اس کے ذریعے وہ ساس کی محبت حاصل کرلیتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: آپس میں تحفوں کا تبادلہ کرو‘ اس سے آپس میں محبت بڑھتی ہے۔
جب آپ کہیں سفر پر جاتی ہیں اور واپسی پر ساس کے لیے کوئی تحفہ لے کر آتی ہیں تو وہ اس سے اتنی خوش ہوتی ہے گویا کہ آپ نے پوری دنیا اس کو تحفے میں پیش کر دی ہو۔ تحفے سے اس کو احساس ہوتا ہے کہ آپ اس کا کتنا خیال رکھتی ہیں۔ اس لیے کوشش کریں کہ جب کبھی آپ اپنے لیے کچھ خریدیں تو اپنی ساس کو بھی یاد رکھیں۔
بہو کی طرف سے ایک چھوٹا سا تحفہ‘ معجزے کا اثر رکھتا ہے‘ اس لیے کہ تحفے کو اس کی قیمت کے لحاظ سے نہیں بلکہ اس لحاظ سے دیکھا جاتا ہے کہ تحفہ دینے والے نے ہمیں بھلایا نہیں ہے۔ اس لیے کیا ہی اچھا ہو کہ تحفہ دیتے وقت چند محبت بھرے الفاظ کا بھی اظہار کیا جائے۔
اگر ساس بہو کا گھر الگ الگ ہو تو ایسی صورت میں کثرت سے ملاقات کے لیے جانا ساس کے دل پر گہرا اثر کرتا ہے۔ اسی طرح داماد کا اپنی ساس کے ہاں آنا جانا بھی اس کو بہت متاثر کرتا ہے۔ اس لیے کہ ملاقات کے لیے جانا‘ ماں اور اس کے بچوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے ایک مثالی ذریعہ ہے۔ یہ آنا جانا اس کو بچوں کے قرب کا احساس دلاتا ہے اور باہمی محبت کا باعث بنتا ہے۔ خیال رہے کہ یہ صلہ رحمی کا تقاضا اور باعث اجر بھی ہے۔ اسلام میں تودوستوں کے ہاں آنے جانے پر بھی زور دیا گیا ہے‘ پھر ہم اتنی اہم رشتہ داری سے کیسے پہلوتہی برت سکتے ہیں۔
اگر بہو یہ بات جان لے کہ خواہ ضرورت محسوس ہو یا نہ ہو اپنی مشکلات اور مسائل میں ساس سے مشورہ اور نصیحت حاصل کرنی چاہیے تو اس کے دل میں ساس پر اعتماد پیدا ہوگا اور وہ محسوس کرے گی کہ ساس واقعی اس کے لیے ماں کا درجہ رکھتی ہے۔ ساس کے لیے اس سے خوشی کی بات کوئی نہیں ہوتی کہ اس کو یہ احساس دلایاجائے کہ بہو اس کی محتاج ہے اور اس کے تجربات سے مستفید ہونا چاہتی ہے۔
اس سلسلے میں بہترین طرزعمل یہ ہے کہ ہر معاملے میں ساس کے ساتھ مشورہ کیا جائے‘ اس سے نصیحت حاصل کی جائے‘ خصوصاً اُن امور میں جن کا تعلق شوہر کے ساتھ ہو‘ کیونکہ اس معاملے میں وہ بہتر جانتی ہے۔
بہو کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اگر اس کا اپنے شوہر کے ساتھ تعلق اچھا ہوگا تو اس سے بھی ساس کے دل پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔ کیونکہ میاں بیوی کی زندگی جب مستحکم ہوتی ہے تو اس سے ماں کو یہ یقین اور اطمینان ہوجاتا ہے کہ اس کا بیٹا خوشگوار زندگی گزار رہا ہے۔ ساس بہو کے درمیان مسائل کا ایک بنیادی سبب ساس کا اپنے بیٹے کی خوشگوار اور پرسکون زندگی پر عدمِ اطمینان ہوتا ہے‘ یا یہ کہ بہو اس کے بیٹے کی خدمت کے لیے وہ کردار ادا نہیں کرسکتی جو شادی سے پہلے خود وہ ادا کرتی رہی ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ اس صورت حال کی ذمہ دار اس کی بہو ہے۔ اس لیے بہو کو چاہیے کہ اپنی ازدواجی زندگی میں استحکام پیدا کرنے کی کوشش کرے‘ اس سے بھی ساس کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے گی۔
بعض خواتین یہ عنوان پڑھ کر حیران ہوجاتی ہیں کہ بچوں کے نام رکھنے اور ساس کے ساتھ تعلقات کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ درحقیقت اس موضوع کا ہمارے زیربحث موضوع کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے‘ خصوصاً بعض گھرانوں میں تو اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ بیوی کی خواہش ہوتی ہے کہ بچے کا نام اس کے والدین رکھیں‘ جب کہ لڑکے کی ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ نام وہ رکھیں۔ شوہر اگر بیوی کی مانتا ہے تو ماں سمجھتی ہے کہ بہو نے بیٹے پر اس قدر غلبہ حاصل کرلیا ہے کہ بچے کا نام تک اپنے خاندان کی طرف کھینچ لیا ہے۔
ہم میاں بیوی کو نصیحت کرتے ہیں کہ بچوں کا نام رکھتے ہوئے یہ مسئلہ پیدا کرنے سے اجتناب کریں‘ بلکہ بہتریہ ہے کہ بچے کا نام رکھنے میں دونوں خاندانوں میں سے کسی کی نسبت کو بھی ملحوظ نہ رکھیں سوائے اس کے کہ دونوں فریق اس پر راضی ہوں۔ ایک ذہین بہو اپنے بچوں کے نام رکھنے میں ہمیشہ اپنی ساس کو بھی اچھے انداز سے شریک کرتی ہے۔
امید ہے کہ ساس بہو کے تعلقات میں اگر ان امور کو پیش نظر رکھا جائے تو نہ صرف ساس بہو کے تعلقات خوش گوار ہوں گے بلکہ مضبوط و مستحکم خاندان کی بنیاد بھی استوار ہوسکے گی۔
(ماخوذ المجتمع‘ کویت‘ شمارہ ۱۶۰۱-۱۶۰۳)