عرفان گیلانی


ولندیزی فلم ساز‘ تھیووان گوخھ (Theovan Gogh) کی اسلام میں عورت کے مقام کے موضوع پر "Submission" نامی فلم جس میں اسلام کی تصویر کو نہایت مسخ کر کے پیش کیا گیا ہے‘ حال ہی میں یورپ کے ٹی وی چینلوں پر نشر ہوئی۔یہ فلم درحقیقت ۱۰منٹ پر محیط تقریر پر مبنی ہے جس کی مصنفہ ڈچ پارلیمنٹ کی ممبر صومالی خاتون آیان حرسی علی (Ayaan Hirsi Ali) ہیں جو گذشتہ کئی برس سے اس تصور کو عام کرنے میں سرگرمِ عمل ہیں کہ اسلام عورتوں پر جبر اور ظلم و ستم کا نام ہے۔ متذکرہ فلم بھی حرسی علی کی اسی فکر کی ترجمانی کرتی ہے جس کے اشتعال انگیز مواد   نے پورے یورپ کے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی جس کا انتہائی اور شدید ترین ردعمل ۲نومبر ۲۰۰۴ء کو وان گوخھ کے ایک مسلمان کے ہاتھوں افسوس ناک قتل کی صورت میں رونما ہوا۔

وان گوخھ کے قتل کے نتیجے میں یورپی میڈیا اور سیاسی حلقوں میں مسلمانوں کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار ہو رہا ہے جس کے باعث فلم کے مواد‘ اس کے محرکات‘ مضمرات اور نتائج کا تجزیہ مسلمانانِ یورپ کے مستقبل کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

یہ فلم ایک خاتون کی افسانوی کہانی پر مبنی ہے جو ساری عمر باپردہ رہتی ہے اور اپنے رب کی رضا کی خاطر اپنی پاک محبت کو قربان کر کے اپنے والد کے پسند کیے ہوئے لڑکے سے ۱۷ برس کی عمرمیں محض اس لیے شادی کرلیتی ہے کہ اسلام ولی کی پسند کو تسلیم کرنے کا حکم دیتا ہے‘ حالانکہ لڑکی کو لڑکے کے وجود سے ہی کراہت محسوس ہوتی ہے۔ جب جب وہ خواہش کرتا ہے وہ اپنے شوہر سے خلوت بھی کرتی ہے کیونکہ نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْص فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِئْتُمْ (البقرہ ۲:۲۲۳)‘ کی رو سے اُس کے شوہر کو یہ حق حاصل ہے اور عورت انکار کرنے کی مجاز نہیں۔

وقت گزرتا جاتا ہے وہ خاتون نہ کہیں باہر جاتی ہے نہ کوئی مشاغل ہی رکھتی ہے۔ اُس کی زندگی کا مرکز و محور صرف اور صرف اپنے شوہر کے احکام کی تعمیل ہوتی ہے۔ اس اطاعت شعاری کے باوجود اُس کا شوہر اُس کو مارتا پیٹتا ہے۔ وہ اپنی زینت کسی پر ظاہر نہیں کرتی سوائے اپنے محرموں کے سامنے۔ اس پاکیزگی اخلاق اور احتیاط کے باوجود اس کا چچا اُس سے جبراً زنا کرتا ہے۔ وہ اپنی والدہ کے ذریعے سے اپنے والد تک یہ بات پہنچاتی ہے تاکہ اپنے چچا کے ظلم سے نجات کی کوئی سبیل بنے مگر اُس کا باپ جواباً یہ فرماتا ہے کہ اُس کے بھائی کی عزت پر شک کی نگاہ سے دیکھنے کی جرأت نہ کی جائے۔ فلم کا اختتام اس طرح ہوتاہے کہ عورت اپنے رب کے حضور سجدے میں گر جاتی ہے‘ گویا کہ یہی اس کا مقدر اور منزل ہے۔

یہ کہانی اپنی جگہ یقینا آنکھوں کو نم کر دینے اور دلوں کو دہلا دینے والی ہے لیکن حرسی علی اور وان گوخھ کا مقصد کسی مظلوم خاتون کی فریاد سنانا نہیں‘ بلکہ فلم کی کہانی اور پیش کش دونوں کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ قرآن وسنت کی تعلیمات خواتین پر ظلم و ستم کی ترغیب دیتے ہیں اور مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو کوئی مقام حاصل نہیں ہے۔ مرد عورت کے ساتھ جو سلوک چاہے روا رکھے۔ گویا یہی اسلام کی تعلیمات ہیں اور یہی اسلامی معاشرے کا دستور ہے۔

اس مختصر فلم کی اشتعال انگیزی کا اندازہ تو اُس کو دیکھ کر ہی لگایا جاسکتا ہے جس میں متذکرہ عورت ایسے لباس میں ملبوس ہے جس میں سے اُس کا جسم چھلکتا ہے اور اسی حالت میں وہ نماز ادا کر رہی ہے۔ فلم میں جہاں جہاں آیاتِ قرآنی کی تلاوت ہوئی ہے یا کسی آیت کا حوالہ دیا گیا ہے‘ اُس موقع پر خاتون کے برہنہ جسم کے کسی حصے پر اُس آیت کو لکھا دکھایا گیا ہے۔ خاتون کی تقریر شکوے کے طور پر بیان ہوئی ہے جس کا انداز طنزیہ ہے۔

اسلام آزادی اظہار کے قائل ہونے کا ہی نہیں بلکہ اس کی پُرزور اور پُرجوش حمایت کرنے کا نام ہے‘ تاہم اسلام اس آزادی اظہار کو اخلاقی ضابطوں کا پابند قرار دیتا ہے۔ وہ تعمیری تنقید کی اجازت ہی نہیں بلکہ دعوت دیتا ہے لیکن اشتعال انگیزی کو آزادی اظہار کا بدل ہرگز نہیں مانا جاسکتا۔ احکامِ اسلام کو شعوری طور پر سیاق و سباق سے کاٹ کر بیان کرنا ہی ایک مذموم کارروائی ہے‘ کجا کہ قرآن جیسی مقدس کتاب کی آیات کو برہنہ جسم پر لکھ کر پیش کرنا۔ اگرچہ فلم بالواسطہ متعدد موضوعات کو زیربحث لاتی ہے‘ تاہم کلیدی نکتہ اسلام میں عورت کا مقام‘ حقوق اور کردار ہے۔

قرآن کی آیات کو برہنہ جسم پر لکھنا اپنی جگہ توہین آمیز ہے‘ مگر اصل مسئلہ تو اسلام میں عورت کے مقام کی حسب مرضی پیش کش اور اس کے ذریعے سے مسلمانوں کے اذہان میں اسلام کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کرنا اور غیرمسلموں کو اسلام کی دعوت سے متنفر کرنے کی کوشش ہے۔ فلم میں اسلام پر جو چارج شیٹ پیش کی گئی ہے وہ کسی بھی لحاظ سے نئی نہیں ہے۔ عرصۂ دراز سے مغرب اور مغرب زدہ مفکرین و مبصرین کی جانب سے مسلم خواتین اور اسلام میں اُن کے مقام کو ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے۔ مذکورہ فلم بھی مفہوم کے اعتبار سے مختلف نہیں۔ فرق محض اتنا ہے کہ زوالِ اشتراکی روس اور ۱۱ستمبر کے بعد مغربی تہذیب کی اسلام اور مسلمانوں پر یلغار نے ان مسائل کو عصرِحاضر کے سلگتے مسائل بنا دیا ہے‘ بالخصوص جب کہ مسلم ردعمل اکثر جذباتی و انتقامی نوعیت کا ہوتا ہے نہ کہ مدبرانہ سوچ اور دعوت و اصلاح کے جذبے سے سرشار‘ جیسا کہ وان گوخھ کے قتل سے بھی ظاہر ہوا ہے۔

وان گوخھ کے قتل کے نتیجے میں یورپ کے سیاسی و حکومتی حلقوں میں اسلام کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار بلکہ بعض مقامات پر کھلم کھلا تحقیر کی جا رہی ہے اور تقاضا کیا جا رہا ہے کہ وہ سزاے موت‘ رجم‘ پردہ وغیرہ اور سب سے بڑھ کر اللہ کی حاکمیت کے تصور سے دست برداری کا اعلان کریں۔ جویہ کرے وہ مہذب ہے اور جو یہ نہ کرے وہ انتہاپسند (extremist) ہے جس کو معاشرہ قطعاً برداشت نہیں کر سکتا۔

وان گوخھ کے قتل نے یورپی ممالک میں اس بحث کو ایک دفعہ پھر مزید قوت کے ساتھ ابھار دیا ہے کہ اسلام جمہوریت اور آزادی اظہار کی ضد ہے اور اگر ہم نے خود اسلام کی اصلاح (reform) کرنے کی تحریک نہ چلائی تو انتہاپسند اور دہشت گرد ہمارے معاشروں پر قبضہ کرلیں گے۔ ڈنمارک میںحکومتی پارٹی نے ۲۱نومبر کو اجتماعِ ارکان میں حرسی علی کو اُن کی فلم پر خصوصی انعام سے نوازا اور ملک کے وزیراعظم نے یہ کہا کہ ’’مغربی معاشروں میں انجیل و قرآن ہر چیز کو ہدفِ تنقید بنایا جا سکتا ہے اور اس بنیادی اصول سے انحراف برداشت نہیں کیا جائے گا‘‘۔     جرمنی سے بھی یہ تقاضا اُٹھ رہاہے کہ مساجد کو ضابطے کے اندر رکھنے کے لیے یہ قانون نافذ کیا جائے کہ خطبہ جمعہ وغیرہ جرمنی زبان میں ہو۔ اسلام کی نام لیوا متعدد تنظیموں پر پابندی عائد کرنے پر زور دیا جارہا ہے‘ اور وہ مسلم سیاست دان جو مغرب کے تصور جمہوریت وغیرہ پر ایمان نہیں لائے اور علانیہ شریعت کو ناقابلِ عمل قرار نہیں دیتے‘ اُن کو سیاسی دائرے میں بے اثر کرنے یا نکالنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کے مسئلے پر بھی یہ قتل  اثرانداز ہوگا۔ سب سے پریشانی والی بات reformation of Islam کی ہے۔ یہ بات اب علانیہ کہی جارہی ہے کہ صلوٰۃ و زکوٰۃ سے ہمیں کوئی اختلاف نہیں لیکن اسلام کی سیاسی و قانونی ہیئت کو بدل کر ’’جدید‘‘تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے جیسا کہ عیسائیت نے کیا ہے۔ غالباً پاکستان میں اس کا عنوان ’’روشن خیال اعتدال پسندی ‘‘ہے۔